قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایران عزیز کے دور حاضر کے پرمشقت ترین رزمیہ کارنامے رقم کرنے والے، براداران عزیز خوش آمدید۔
میں آج اپنے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی یاد اور اس امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) بارگاہ کی معنوی فضا سے استفادہ کرتے ہوئے، جو انہیں کی یاد میں ہے، جس طرح کہ پورا ملک ان کی یاد میں ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی قدردانی میں، ان پرنشیب و فراز برسوں کی تھوڑی سی سرگذشت بیان کرنا چاہتا ہوں۔ اگرچہ ہماری قوم، الحمد للہ بیدار اور باخبر ہے؛ لیکن اس کے باوجود بعض باتوں کا کہنا اور ان کی وضاحت، شایدآج کی نسل اور آئندہ نسلوں کے لئے ضروری ہو۔
مختصر یہ کہ میں آپ عزیزوں سے جو عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ ایک میدان جس میں اسلامی جمہوریہ اور انقلاب نے سامراج سے مقابلہ کیا اور اس میں اس کو شکست دی، وہ اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کا میدان تھا۔ فوج وہ میدان تھی جس میں اسلام اور کفر آمنے سامنے آئے اور اسلام نے کفر کو شکست دی اور کامیابی حاصل کی۔ اس ماجرے کی تفصیل زیادہ ہے۔ میں صرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں کیونکہ یہ تاریخ انقلاب کا ایک اہم باب ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ ظالم، خود پسند اور سامراجی طاقتوں کی کوشش ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ معاشرے کی زندہ، متحرک اور پرجوش قوتوں سے قومی مفادات اور مصلحتوں کے لیے نہیں بلکہ اپنے لئے کام لیں۔ یہ سامراج کی خصوصیت ہے۔ ایران میں سلاطین اور آخری دور کے بادشاہ، فوج سے جو طاقتور قومی مرکز تھی، اپنے ذاتی مفادات کے لیے کام لینا چاہتے تھے۔ بنابریں آپ دیکھتے تھے اور خود میں نے بھی اوائل انقلاب میں تہران کی ایک فوجی چھاؤنی میں دیکھا ہے کہ اوپر جو نعرہ لکھا ہوا تھا وہ یہ تھا کہ فوج شاہ کے لیے ہے، نہ کہ قوم، سرحدوں اور قومی اقدار کے لیے۔ اب میں یہ نہیں کہوں گا کہ اسلام کے لئے، اسلام پر ان کا عقیدہ ہی نہیں تھا۔ وہ تواضع کے بھی اتنے قائل نہیں تھے کہ کہتے فوج قومی اقدار سے تعلق رکھتی ہے اور ان اقدار و اہداف کی حدود کے دفاع کے لئے ہے۔ بلکہ وہ کہتے تھے کہ فوج ہماری ہے، ہمارے لیے ہے اور ہماری خدمت کے لیے ہے۔ یہ ان کا طریقہ اور نظریہ تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ فوج بھی دیگر قومی اداروں کی طرح، قوم سے متعلق ہے۔ قوم کی ہے اور قوم پر مشتمل ہے۔ فوج کے ارکان ہر زمانے میں اس ملک اور عوام کے فرزند ہوتے ہیں۔ بنیادی طور پر ہر فوج کی تشکیل کا مقصد، ملک و قوم اور ان کے اقدار کا دفاع ہوتا ہے نہ کہ کسی ایک فرد کا۔ لیکن وہ اس حد تک بے شرمی سے کام لیتے تھے کہ یہ بات کہتے تھے۔ صرف سوچتے ہی نہیں تھے بلکہ زبان پر بھی لاتے تھے اس بات کو اپنے نعروں میں بھی آشکارا طور پر بیان کرتے تھے۔
جب انقلاب کی لہروں نے ہر جگہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو فطری طور پر فوج کے اہلکاروں کا دل بھی بقیہ لوگوں کی طرح دھڑکنے لگا۔ فوج میں بھی دوسری جگہوں کی مانند دو طرح کے لوگ تھے۔ بعض زیادہ با ایمان، اسلام کے زیادہ عاشق تھے اور زیادہ آمادگی رکھتے تھے اور بعض سست اور پیچھے تھے۔ بعض نے اگلی صفوں میں انقلاب کی حمایت کا اعلان کیا، سڑکوں پر چل پڑے اور اعلانیہ یا خفیہ طور پر موقف اختیار کیا اور کچھ ایسے بھی تھے جنہوں فوجی وردی میں انقلاب کو قبول نہیں کیا اور بعض ایسے تھے جو سر سے پیر تک پہلوی شاہی نظام سے وابستہ تھے۔ اس کے ہی تھے، اور اسی سے تعلق رکھتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسے افراد اسلام اور خدائی نیز قومی اقدار کے سامنے سرجھکانے والے نہیں تھے۔
اب مقابلہ شروع ہوگیا۔ دشمن تو دستبردار ہونے والا نہیں تھا۔ گذشتہ حکومت کی باقیات بھی جو ملک سے نکال باہر کردی گئی تھیں، ختم ہوچکی تھیں، یہاں سے چلی گئی تھیں اور ان کے حامی بھی، یعنی امریکا، برطانیہ اور اسرائیل کے جاسوسی اداروں نے وسیع کوششیں شروع کردیں۔ معاشرے کے ہمدرد حضرات جان لیں کہ دشمن نے فوج میں جتنی کوشش کی اگر کسی اورطبقے میں کرتا تو پتہ نہیں جتنی مزاحمت اور استقامت اسلام اور انقلاب کی راہ میں فوج نے کی ہے، وہ کرپاتا یا نہیں۔
انقلاب کے شروع سے ہی دشمن کے جاسوسی کے اداروں نے اپنی حکومتوں کی بھر پور حمایت، پیسوں، پروپیگنڈوں، ریڈیو کے وسیلے اور خفیہ رابطوں سے کام لے کر جو ماضی سے برقرار تھے، فوج میں وسیع پیمانے پر اپنا کام شروع کردیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ کام اور یہ وسوسے دوسرے کسی بھی طبقے میں وجود میں لائے گئے ہوتے تو ان کے دل متزلزل ہوجاتے اور ان میں لغزش آجاتی۔ ایمان، دینداری اور خدا نیز اسلام پر اعتقاد کے علاوہ جو ہماری پوری قوم میں ہے، اور فوج میں بھی ہے، فوج میں ایک اور عنصر بھی ہے جس نے اس کو بچا لیا۔ وہ عنصر، فوج کا نظم و ضبط ہے جو فوجیوں کو سکھایا جاتا ہے اور ان کی رگ رگ میں رچ بس جاتا ہے۔ اسی نظم و ضبط کی وجہ سے ان کے اندر وفاداری کا جذبہ وجود میں آتا ہے۔ اس عامل نے ہمارے فوجیوں کو استحکام عطا کیا اور انہیں دشمن کے معاندانہ وسوسوں کے اوج کے باوجود ان سولہ برسوں میں سیدھے راستے پر باقی رکھا۔
دشمن نے جو وسوسے پیدا کرنے کی کوششیں کی ہیں ان میں سے بعض کا میں ذکر کروں گا۔ ان کا پہلا کام یہ تھا کہ انہوں نے کوشش کی کہ اپنے وفادار افراد کو فوج کے حساس مراکز میں بٹھادیں۔ انقلاب کے شروع میں جب فوج پر نظر پڑتی تھی تو فوجیوں کے کمانڈر ایسے لوگ نظر آتے تھے کہ تعجب ہوتا تھا۔ میں بھول نہیں سکتا کہ میں اسی رفاہ کالج میں کھڑا ہوا تھا کہ میں نے دیکھا کہ ایک بڑا فوجی افسر اپنے تن و توش کے ساتھ داخل ہوا۔ میں پوچھا یہ کون ہے؟ بتایا گیا کہ فلاں دستے کا کمانڈر ہے۔ مجھے تعجب ہوا۔ البتہ بعد میں تھوڑے ہی عرصے میں اس کی خباثت عدلیہ پر واضح ہوگئی اور اس کے خلاف ضروری کارروائی کی گئی۔
عجیب بات تھی۔ ایک نظام پر ایک انقلاب کامیاب ہوا تھا؛ اور اس نظام کے مہرے نئے نظام کے حساس ترین مراکز میں گھسنا چاہ رہے تھے۔ یہ آخری درجے کی بے حیائی تھی جو ان جگہوں پر دیکھنے آرہی تھی۔یہ ان کا پہلا کام تھا۔ البتہ انقلاب نے اس کا مقابلہ کیا۔
حساس جگہوں پر بیرونی عناصر کی تقرری کی خبر، فوج کے مومن افراد فورا انقلاب کے اعلی عہدیداروں تک پہنچا دیتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم افراد کو نہیں پہچانتے تھے اور نہیں جانتے تھے کہ کون کیا ہے، اس کا ماضی کیا ہے اور اس کا ریکارڈ کیسا ہے؟ فوج کے انقلابی افراد فورا آجاتے تھے اور بتاتے تھے کہ جناب یہ شخص جس کو اس عہدے پر اور اہم مرکز میں بھیجا گیا ہے، اس کا ماضی اور ریکارڈ ایسا ہے۔ یہ خبر فورا امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) تک پہنچائی جاتی تھی اور معاملہ حل ہو جاتا تھا۔ بنابریں دشمن کی چال یہ تھی کہ فوج کو ایسے افراد کے ہاتھ میں پہنچادے جو اس کے تھے اور فطری طور پر انقلاب کے مخالف تھے۔
ان کا دوسرا کام، جو اسی درجے اور اہمیت کا تھا، یہ تھا کہ انقلاب کے اوائل میں انہوں نے کوشش کی کہ ایران میں امریکا کے فوجی مشیروں کا سسٹم باقی رکھیں۔ شاید یہ بات آپ کے لئے نئی اور بہت عجیب ہو لیکن یہ ان عجائبات میں سے ہے جو رونما ہوئے۔ انقلاب کے چند مہینے بعد، شاید تقریبا ایک سال بعد، فوج کے تینوں شعبوں میں سے کسی میں امریکا کے فوجی مشیروں کا سسٹم اور دفتر موجود تھا۔ البتہ ان کا اصلی مرکز اور ہیڈ کوارٹر، جو مشترکہ فوجی ہائی کمان میں تھا، ختم ہوگیا تھا اور وہ خود بھی بھاگ چکے تھے لیکن اپنے جاسوسوں کو وہاں باقی رکھا تھا تاکہ وہ مورچہ سنبھالے رہیں۔
اگر ان لوگوں کا نام لیا جائے جو اس زمانے میں اعلی دفاعی کونسل کے - اعلی دفاعی کونسل اس زمانے میں صرف ایک نمائشی چیز تھی - رکن تھے تو آپ کو تعجب ہوگا کہ انقلاب کے شروع میں اس طرح کے لوگ ان حساس مراکز میں کیسے تھے لیکن ہم نے اعلی دفاعی کونسل میں دیکھا۔ اس کونسل میں میری موجودگی بھی باضابطہ اور سرکاری حیثیت نہیں رکھتی تھی۔ یعنی وہ افراد ہمیں نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ ہم بھی انقلابی شکل میں آغاز انقلاب کی مخصوص روشوں کے ساتھ اس کے جلسوں میں جاتے تھے۔ دیکھتے تھے کہ ایک بل پیش کیا، جس کو اعلی دفاعی کونسل سے پاس کروانا چاہتے تھے کہ جس کے مطابق ایران میں سابق امریکی مشاورت کا نام فلاں ہوجائے۔ کئی نام تجویز کیے کہ اعلی دفاعی کونسل یہ پاس کرے کہ مشاورت کا نام یہ ہے۔یعنی درحقیقت امریکی مشیروں کی موجودگی کی منظوری دیدے۔ اس وقت ہم سمجھے کہ مشیر ابھی ایران میں ہیں۔ ہم نے کہا یہ حضرات یہاں کیا کررہے ہیں؟ پہلے ان کے وجود کو ثابت کریں پھر ان کے نام کا مسئلہ آئے گا۔ مرحوم چمران بھی اس جلسے میں موجود تھے۔ انہوں نے بھی ساتھ دیا اور ہم نے یہ پاس کیا کہ یہ جلد از جلد ایران سے نکل جائیں۔
وہ اس حدتک بے شرمی اور جرات سے کام لے رہے تھے کہ امریکی مشیروں کو اسلامی جمہوریۂ ایران کی فوج میں باقی رکھنا چاہتے تھے۔ یہ بھی ایک مصیبت تھی جس سے خدا کے فضل سے فوج کو نجات ملی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ فوج سے انہوں نے کتنی طمع اور امید وابستہ کر رکھی تھی۔
اس معاملے کے کچھ عرصے بعد شہید نوژہ فوجی اڈے پر بغاوت کا منصوبہ تیار کیا۔ یہ بھی دشمن کے جاسوسوں کی طرف سے فوج پر قبضہ کرنے کے لئے تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ یا کامیاب ہوجائیں - یہ ان کا پہلا مقصد تھا، اور اس کامیابی کے ذریعے فوج میں دراندازی کرنے والے اپنے افراد کے ذریعے، انقلاب کو ختم کردیں - یا اگر کامیاب نہ ہوں تو عوام اور فوج کے درمیان اور انقلاب اور فوج کے درمیان دوری پیدا کردیں۔
خطرناک سازش تھی۔ مگر یہ سازش بھی فوجیوں نے ناکام بنادی۔ شاید ایرانی قوم کو نہ معلوم ہو کہ جولوگ شہید نوژہ فوجی اڈے میں بغاوت کی بہت خطرناک سازش کے ناکام ہونے کا سبب بنے، وہ خود فوجی جوان تھے جنہوں نے آکے ہمیں اطلاع دی۔ ایک نوجوان پائلٹ آدھی رات میں آیا، ہمارے گھر کا دروازہ کھٹکٹایا اور بہت زیادہ اصرار سے ہمیں اپنی بات سننے پر مجبور کیا۔ اس نے بتایا کہ آئندہ چوبیس گھنٹوں میں یہ بغاوت ہوگی۔ اس کے بعد اس معاملے کی پیروی کرنے والوں، فوجیوں اور اس اڈے کے متدین فوجی افسروں نے اس بغاوت کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس معرکے میں فوج کا دفاع کرنے والے خود فوجی تھے۔ خود فوج نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ دشمن کا یہ فتنہ اور اس کی سازش فوج میں کامیاب ہو۔ وہ نوجوان پائلٹ بعد میں اپنے اعضائے بدن کا نذرانہ دیکر جانباز بن گیا۔ اس وقت جہاں بھی ہے، امید ہے کہ فضل خدا اس کے شامل حال ہوگا۔ یہ بھی ایک امتحان تھا کہ دشمن کی سازش خود فوج کے ذریعے ناکام ہوئی اور ختم ہوگئی۔
اس کے بعد جنگ درپیش ہوئی۔ ابتدائے جنگ میں دشمن سے وابستہ وہی افراد کوشش کررہے تھے کہ جنگ کی سپورٹ، لاجسٹک مدد، اور کاروائیوں میں تعطل پیدا کریں اور فوج کو میدان جنگ میں کچھ کرنے نہ دیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان حالات میں، جو فوج بھی ایسی یلغار سے دوچار ہوتی، اس کا شیرازہ بکھر جاتا۔ لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج، مسلمان اور خدائی اقدار پر عقیدہ رکھنے والی فوج ہے، اس نے خود کو پوری قوت سے باقی رکھا۔ ایک رات اہواز کے بانوے بکتر بند ڈویژن کا ایک افسر التماس کرکے میرے پاس آیا کہ مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔ میں نے سوچا کہ شاید یہ کہے گا کہ مجھے چند دنوں کی چھٹی دے دیجیے کہ مثلا جاکر بیوی بچوں کو دیکھ آؤں۔ واقعی میرے ذہن میں یہ بات آئی۔ بہرحال وہ میرے پاس آیا اور روکے مجھ سے کہنے لگا کہ جناب میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے چھاپہ مار دستے کے ساتھ جو رات کو آر پی جی اور انفرادی اسلحے کے ساتھ باہر جاتے ہیں تاکہ دشمن کو جو شہر اہواز سے تقریبا پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر نشیبی زمین میں ہے، ہدف بنائیں، بھیجیے یا پھر مجھے اپنے ساتھ لے جائیے۔ کیونکہ وہ با قاعدہ تربیت یافتہ افواج سے تھا اور انہیں نظم و ضبط کے ساتھ عمل کرنا ہوتا تھا۔ جو نوجوان آزاد تھے، وہ رات کو دستہ بندی کرتے تھے اور جاتے تھے۔ وہ ایک بڑا فوجی افسر تھا۔ گریہ کررہا تھا کہ مجھے ان جوانوں کے ساتھ بھیجیے تاکہ میں بھی جاکے کچھ کروں۔
رات میں ایک بکتر بند دستے کے معائنے میں، ایک ٹینک کے پاس ایک فوجی کو دیکھا کہ کھڑا تھا اور نماز شب پڑھ رہا تھا۔ہمارے عوام شاید ان میں سے بہت سوں سے واقف نہ ہوں لیکن ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اس طرح فوج اس قسم کے حوادث میں خود کو محفوظ رکھ سکی۔ یہی وجہ تھی کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اتنی صراحت کے ساتھ فوج سے محبت اور لگاؤ کا اظہار کرتے تھے۔
یہ بھی ایک امتحان تھا جس میں مومن فوجیوں نے، بعض نے معمول کی روش سے کام لے کر اور بعض نے حتی معمول سے ہٹ کے جنگ کے میدانوں میں آگ اور پانی میں کود کے، دشمن کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹایا اور ایک ایک بالشت زمین سے نکالا۔ یہ کارنامے ہماری تاریخ میں، ہماری قریب کی تاریخ میں ثبت ہیں۔ مناسب نہ ہوگا کہ ہمارے بچے اور ہماری نئی نسل ان سے واقف نہ ہو۔
ایک اور امتحان کہ ہمیں یقین ہے کہ اس میں بھی امریکا، برطانیہ اور صیہونی حکومت کے جاسوسی کے اداروں کا ہاتھ تھا، یہ تھا کہ فوج کے گوشہ وکنار میں مومن افراد کو حساس جگہوں سے ہٹا دیں اور انہیں کنارے لگا دیں۔ میں نے اجمالی طور پر دیکھا تھا کہ اگر کوئی مومن، کسی فوج کا کمانڈر ہوتا تھا، یا کسی ادارے کا چیف ہوتا تھا یا حتی کسی ڈویژن یا حساس مرکز میں ہوتا تھا تو کچھ افراد کوشش کرتے تھے کہ اس کو وہاں سے ہٹا دیں اور باہر کردیں تاکہ مومن افراد فوج میں قدم نہ جما سکیں اور فعالیت نہ کرسکیں۔ لیکن ان سب کے باوجود وہ مومن افراد جو انقلاب کے شروع سے ہی فوج میں فعال تھے، تدریجی طور پر فوج میں ہرجگہ ایمان ، انقلاب اور انقلاب سے وابستگی کا جذبہ عام کرنے میں کامیاب رہے۔ خدا نے بھی مدد کی اور مومن افراد ایک مختصر عرصے کے بعد حساس مراکز کا اختیار اپنے ہاتھ میں لینے میں کامیاب ہوئے۔ اپنا کام کیا، فعالیت کی اور کارنامے انجام دیئے۔فوج، دشمن کی چال اور اس کی خواہش کے برخلاف اس راستے پر چلی جس کا اس کا ایمان اور فلسفۂ وجودی متقاضی تھا نہ کہ اس راستے پر جو دشمن چاہتا تھا اور جس کے لئے وہ کوشش کررہا تھا۔
جو لوگ ابتدائے انقلاب میں ، منحوس اور پست طاغوتی نظام سے وابستہ لوگوں میں تھے، وہ یہاں سے بھاگ کے بیرون ملک چلے گئے۔وہ دشمن کے جاسوسی اداروں کے لئے کام کررہے ہیں۔ البتہ بیرونی ممالک نے بھی ان کی زیادہ پرواہ نہیں کی اور ان پرکوئی خاص توجہ نہیں دے رہے ہیں۔یہ نہ سمجھیں کہ اپنے گھر اور اپنوں سے بھاگنے والے یہ افراد غیروں کی آغوش میں، محفوظ اور آرام کی جگہ پاسکے ہیں۔غیر بھی ان لوگوں پر جو اپنے آپ سے فرار کرتے ہیں، اعتماد نہیں کرتے اگرچہ ان سے کام لیتے ہیں، وہی بات ہے جو مولوی نے کہی ہے اور میں یہاں اس کو دہرانا نہیں چاہتا، نجس شکل میں ان سے کام لیتے ہیں اور پھر انہیں دور پھینک دیتے ہیں۔
ان بھگوڑوں سے جو کام انہوں نے لینا چاہا ان میں اہم ترین یہ تھا کہ ان سے کہا کہ فوج میں کچھ لوگوں سے رابطہ کرو اور انہیں اپنے ساتھ ملاؤ یعنی انہیں خیانت پر مجبور کرو۔دشمن کی یہ کوشش ان سولہ برسوں کے دوران مسلسل جاری رہی۔جو نہیں جانتے جان لیں کہ ان سولہ برسوں کے دوران دشمن اپنی اس پست ، خیانتکارانہ اور گندی سازش کی طرف سے غافل نہیں رہا ہے۔لیکن جس طرح چٹان سے کوئی ٹکڑا الگ نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح، فوج کے مومن پیکر میں دراڑ نہ ڈال سکے۔دشمن کے مقابلے میں کس عامل نے کام کیا ہے؟ پہلے درجے میں ایمان اسلامی، دینی و ملی غیرت، پابندی و وفاداری اور اس کے بعد کے درجے میں ان لوگوں کی ہوشیاری جنہیں ہوشیار رہنا چاہئے۔یہ اس بات کا مطلب ہے جو میں نے عرض کی ہے۔فوج اسلام اور کفر کی جنگ کا میدان تھی اور اس جنگ میں اسلام کامیاب ہوا اور اس نے کفر کو خاک چٹائی۔اسی وجہ سے آج خدا کے فضل سے ہماری فوج ، زیادہ طاقتور، زیادہ منظم، زیادہ دیندار اور زیادہ انقلابی ہے۔یہ بہت اہم ہے۔ ان سولہ برسوں میں دشمن اپنے پروپیگنڈوں سے مسلسل یہ کوشش کرتا رہا کہ فوجیوں کا حوصلہ پست کردے اور انہیں مستقبل سے ناامید کردے۔ایک بار انہوں نے کہا کہ فوج کو ختم کردینا چاہتےہیں۔ ایک بار کہا کہ زمینی فوج کو سپاہ پاسداران کے حوالے کردینا چاہتے ہیں۔ ایک بار کہا کہ سپاہ پاسداران کے افراد کو فوج کے اعلا عہدوں پر لانا چاہتے ہیں یہ تمام پروپیگنڈے حوصلے کمزور کرنے کے لئے تھے۔ایک بار کہا کہ یہ فوج سے فائدہ اٹھارہے ہیں اس کے بعد فوج کو دور پھینک دیں گے۔ بارہا اور بارہا ان باتوں کی تکرار کی ۔انسان کا حوصلہ کس چیز کا ہو اور کیسا ہو کہ ان تمام پروپیگنڈوں کے مقابلے میں محکم ڈٹا رہے؟ ان باتوں کو کون لکھے؟ کون ان باتوں کو بعد کی نسلوں کو بتائے؟ دشمن مستقل اپنا کام کررہا ہے۔وہ آج بھی اپنا کام کررہا ہے۔
البتہ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ قوی پوزیشن میں ہیں اور ہمارے اندر خود اعتمادی ہے۔ایرانی قوم ملی اقتدار کا احساس کرتی ہے۔اسلام، خدا اور قیامت پر اعتقاد اور جہاد و شہادت سے نہ ڈرنے کی وجہ سے یہ قوم اتنی قوی اور محکم ہوگئی ہے کہ دشمن کے پروپیگنڈے سے نہیں ڈرتی۔جو چاہیں پروپیگنڈہ کریں۔یہ قوم ، فوج اور سپاہ پاسداران پروپیگنڈوں سے نہیں ڈرتے۔لیکن دشمن اپنے پروپیگنڈے کررہا ہے۔طویل مدت کے لئے حقائق کو آشکارا کرنا چاہئے تاکہ عوام جان لیں اور ان پرپیگنڈوں کا بے بنیاد ہونا واضح ہوجائے۔آج الحمد للہ اسلامی جمہوریہ میں مسلح افواج یعنی فوج اور سپاہ دو محکم بازوؤں اور دو قوی ہاتھوں کی طرح ہیں جو ہر طرف سے اس ملک اور اس قوم کی مکمل طور پر محافظت کررہے ہیں تاکہ دشمن باہر سے یا اندر سے اس قوم اور اس ملک کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے نہ دیکھ سکے۔جب امام رضوان اللہ تعالی علیہ ان دونوں اداروں میں سے ایک کے لئے کچھ فرماتےتھے تو دوسرے ادارے کے بارے میں فورا دشمن کا پروپیگنڈہ شروع ہوجاتاتھا۔امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) فوج کے بارے میں ایک لفظ کہتے تھے تو فورا افواہ پھیلنا شروع ہوجاتی تھی ۔ ( افواہ عام طور پر غیروں کے ریڈیو پھیلانا شروع کرتےتھے اور کمزور بنیاد کے لوگ انہیں پھیلاتے تھے) فورا کہتے تھے کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) سپاہ کو ایسا بنانا اور ویسا بنانا چاہتے ہیں۔یا امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی رائے سپاہ کے بارے میں بدل گئی ہے جب کبھی سپاہ کی تھوڑی سی تعریف کردیتے تھے تو فورا افواہ پھیلانے لگتے تھے کہ فوج کو تحلیل کردینا یہ ایسا بنادینے کا پروگرام ہے۔
آج ان سازشوں کا دور ختم ہوچکا ہے۔سازش ہے لیکن بیکار ہوچکی ہے۔دو طاقتور بازو ، دو بھائی یعنی فوج اور سپاہ، اپنی حدود اور اپنی ذمہ داریوں کے دائرے میں جو ایک دوسرے بالکل الگ ہیں، اپنا کام کررہے ہیں۔فوج کی ذمہ داری معین ہے۔ سپاہ پاسداران کی ذمہ داری بھی معین اور معلوم ہے۔دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔دونوں میں سے کوئی بھی دوسرے سے بے نیاز نہیں ہے اور ان میں ہر ایک اپنا کام کررہا ہے۔دوسرے الفاظ میں جو قرآنی تعبیر کے مطابق ہے، یہ دونوں راہ خدا میں رحمت و مغفرت الہی کی سمت بڑھنے میں ایک دوسرے سے رقابت کررہے ہیں۔ وسابقوا الی مغفرۃ من ربکم یعنی مغفرت ورحمت الہی کی سمت بڑھنے میں مقابلہ کرو ایک ، ایک مثبت قدم اٹھاتا ہے تو دوسرے کو حوصلہ ملتا ہے۔دوسرا ایک مثبت قدم اٹھاتا ہے تو اس میں شوق پیدا ہوتا ہے۔ دونوں میں ہر ایک کار خیر میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے ہیں۔
یہ وہی اچھی اور مثبت رقابت ہے۔میں فوج اور سپاہ کو اس رقابت کی سفارش کرتا ہوں۔دیکھئے کہ انہوں نے اپنے ادارے کو بہتر چلانے میں ، اس کو زیادہ کارآمد بنانے اور اس کی کیفیت بہتر بنانے کے لئے کیا کیا ہے ۔ آپ بھی وہی کام بہتر شکل میں انجام دیں۔وہ دیکھیں کہ آپ نے اپنے کام کو بہتر بنانے کے لئے کون سی تدبیر سوچی ہے ، وہ اس کو آپ سے سیکھیں اور بہتر شکل میں عمل کریں۔ یہ روش، اسلامی ہے جس کو قرآن قبول کرتا ہے ۔ قرآن اس کی تائیداور تصدیق کرتا ہے۔
میں نے ماضی کی بات اس لئے کی کہ مستقبل معلوم ہوجائے۔میرے عزیزو' فوج کے کندھوں پر سنگین ذمہ داری ہے۔ممکن ہے کہ آئندہ پچاس سال تک کوئی دشمن ہماری سرحدوں پر حملہ کرنے کی جرائت نہ کرے۔حقیقت یہ ہے کہ مسلط کردہ جنگ کے آٹھ برسوں نے سب پر ثابت کردیا کہ ایران کے ساتھ جنگ کرنا بے فائدہ ہے۔اگر کبھی جنگ ہوئی تو ایرانی قوم کا ایک ایک فرد مسلح افواج اور سرکاری اداروں کے قدم سے قدم ملاکے میدان جنگ میں آئے گا۔ممکن ہے کہ اس تجربے کے نتیجے میں کوئی جنگ درپیش نہ ہو لیکن مسلح افواج کی تیاری ایسی ہونی چاہئے کہ گویا کل جنگ ہوگی۔ ہمیشہ بیدار رہیں۔ من نام لم ینم عنہ میں نے امیرالمومنین علیہ السلام کے اس کلام کو شاید سو بار مسلح افواج کے ذمہ دار برادران سے خطاب میں دہرایا ہے ۔ مرد جنگ سوتا نہیں ہے۔ اگر تم سوگئے تو معلوم نہیں ہے کہ وہ دشمن جو مورچے کے پیچھے تم پر حملہ کرنے کے لئے بیٹھا ہے، سو رہا ہو۔ آپ کو بیدار رہنا چاہیے۔ ممکن ہے کہ ہمیں کسی جنگ کا سامنا نہ ہو۔ میرا اندازہ بھی یہی ہے لیکن مسلح افواج کی آمادگی اور تیاری جنگ نہ ہونے کے موجبات میں سے ہے۔ اس کو جان لیں۔ مسلح افواج کی کمزوری دشمن کو جنگ پر اکساتی ہے۔ آپ کا استحکام، استقامت، نظم و ضبط، تیاری، جدت عمل اور اعلی اہداف کے لئے تیار اور کمربستہ رہنا، اس دشمن کے ارادے کو بھی کمزور کردے گا جو جنگ کا ارادہ رکھتا ہو۔ بنابریں ہمیشہ تیار اور آمادہ رہیں۔
فضول باتیں کرنے والے امریکی، اب یہاں وہاں جاکے یہ نہ کہیں کہ ایران جنگ کرنا چاہتا ہے یا ایٹم بم کا دھماکہ کرنا چاہتا ہے۔ یہ فضول باتیں پرانی اور گھسی پٹی ہوچکی ہیں۔ اگرچہ وہ ان فضول باتوں کے گھسے پٹے ہونے یا نہ ہونے پر توجہ نہیں دیتے، اپنی بکواس جاری رکھیں گے لیکن انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ایران جنگ کی آگ بھڑکانے والا نہیں ہے۔ ہم اپنے اصولوں کے مطابق جنگ افروزی کے مخالف ہیں۔ ہمارے اصولوں کا تقاضا ہے کہ ہم دوستی، صلح، محبت، سلامتی اور آشتی کا پیغام دیں۔ اس لئے کہ ہمارے پاس کہنے کے لئے کچھ ہے۔جس کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں ہوتا وہ شور مچانا چاہتا ہے تاکہ کسی تک آواز نہ پہنچے اور کوئی نہ سمجھ سکے کہ اس نے کیا کہا۔ جو زور زبردستی اور غارتگری کرنے والا ہوتا ہے وہ چاہتا ہے کہ ہنگامہ رہے تاکہ وہ اسی کے دوران غارتگری کرے۔ لیکن جس کے پاس منطقی بات ہو، وہ چاہتا ہے سب خاموش رہیں، سکون ہو، شورشرابہ نہ ہو تاکہ اس کی بات سنی جائے۔
ہمارے پاس پیغام اور منطقی بات ہے۔ دلیل یہ ہے کہ انقلاب کو سولہ سال ہوگئے اور اب بھی ہمارے دشمن کہتے ہیں کہ وہ انقلاب کو برآمد کرناچاہتے ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہے کہ برآمد کرنا چاہتے ہیں؟ کیا انقلاب کوئی سامان ہے کہ اس کی پیکنگ کرکے اس کو برآمد کیا جائے۔ وہ ہماری باتوں سے ڈرتے ہیں۔ وہ فضائے عالم میں اسلامی جمہوری نظام کے حکام کی حتی ایک بھی صحیح اور معقول بات نشر ہونے کی اجازت نہیں دیتے اور اس کو دنیا کے مشہور اخبارات و جرائد میں شائع نہیں ہونے دیتے، اس لئے کہ ڈرتے ہیں۔
میں نے ایک بار عرض کیا تھا کہ ہمارے امام (رحمت اللہ علیہ) کے فرزند مرحوم نے ایک بار سوچا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے پیغام حج کو کافی پیسے دے کر ایک مغربی ملک کے اخبارات میں چھپوا دیں لیکن وہ تیار نہ ہوئے۔ وہ اس کے باوجود کہ پیسے کے غلام ہیں، پیسہ ان کے لئے، دین، ایمان، ناموس اور غیرت سب کچھ ہے لیکن شائع کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے کیونکہ ان کے جاسوسی کے ادارے جانتے تھے کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا پیغام وہاں ایک بم کی طرح پھٹے گا۔ وہ ہماری باتوں کے مخالف ہیں اور ہماری باتوں سے ڈرتے ہیں۔ ہمارے پاس کہنے کے لئے ہے تو فطری بات ہے کہ ہم امن و آشتی اور سکون چاہیں گے۔ ظاہر کہ ہم جنگ پسند نہیں ہیں لیکن ہم جنگ پسند نہیں ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمارا دشمن بھی جنگ پسند نہیں ہے۔
آمادہ رہنا چاہیے۔ ان چند امور میں آپ کو تیار رہنا چاہئے۔ پہلے یہ کہ جہاں تک ہوسکے نظم و ضبط کو محکم اور اس کی کیفیت بہتر بنائیں۔ افرادی قوت سے استفادے اور اس سے کام لینے میں اصل چیز منظم ہونا ہے۔ مدیر حضرات نظم و ضبط اور امور کو منطم کرنے کو اہمیت دیں کیونکہ مسلح افواج کی تنظیم خصوصی نظم و ضبط کے ساتھ ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ افرادی قوت کی صلاحیت اور کیفیت کو بڑھانا چاہیے۔
افرادی قوت کو اس کے حال پر نہ چھوڑیں۔ افرادی قوت کو مستقل طور پر اہمتام اورمعنوی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دستوں، ادارے کے اراکین اور جو لوگ لازمی فوجی سروس میں مشغول ہیں، انہیں ان کے حال پر نہ چھوڑیں۔ ان کی مستقل معنوی حمایت کریں۔ یہ کام پہلے درجے میں عقیدتی و سیاسی شعبے کا فریضہ ہے۔ درس اور کلاس وغیرہ اپنی جگہ پر ضروری ہے لیکن اس کی اہمیت دوسرے درجے کی ہے ۔پہلے درجے میں بتانا، نصیحت کرنا اور حوصلہ بڑھانا ہے اور یہ چیزیں علم سے حاصل نہیں ہوتیں کہ انہیں علم دین پڑھائیں۔یہ باتیں خود دین یعنی دینی ایمان سے حاصل ہوتی ہیں۔ عقیدتی و سیاسی شعبے کے برادران کو اس نکتے پر توجہ دینی چاہئے۔ ایک عالم دین کا اصل کام دلوں کو مخاطب قرار دینا، دلوں سے گفتگو کرنا اور دلوں کو متاثر کرنا ہے۔ یہ اہم کام ہے۔ البتہ درس، استدلال اور برہان وغیرہ اپنی جگہ پر ضروری ہے لیکن ایمان کے لحاظ سے افرادی قوت کی صلاحیت و کیفیت کو اوپر لانے کو ترجیحی اہمیت حاصل ہے۔ افسران اور کمانڈرحضرات بھی اس سلسلے میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔
اس کے بعد وسائل کا مسئلہ ہے ۔ایسا کام کریں کہ مسلح افواج کے اندر جن وسائل کی ضرورت ہے ان کی فراہمی میں سرحدوں سے باہر کسی کے محتاج نہ رہیں۔ آپ کی نیت یہ ہونی چاہیے۔ جیسا کہ اس وقت الحمد للہ اطلاعات دی گئی ہیں ۔بکتر بند وسائل تیار کریں۔ فضائیہ میں اہم ترین کام بھی انجام دیئے گئے ہیں جن کا وقت آنے پر سرکاری طور پر اعلان کیا جائے گا۔ بڑے کاموں اورعظیم تعمیرات کا رخ کریں اور جان لیں کہ آپ کرسکتے ہیں۔ یہ خیال نہ کریں کہ آپ نہیں کرسکتے۔ آپ جنگ کے تمام ضروری وسائل تیار کرسکتے ہیں۔ البتہ بعض لکژری وسائل اگر نہ ہوں تو کوئی بات نہیں ہے۔ واقعی بعض فوجی وسائل صرف دکھاوے کے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر کمر میں باندھنے والے ہتھیاروں (پستول وغیرہ) پر نگینے وغیرہ جڑنا، ٹکنالوجی اور صنعت کی بعض نئی روشیں اور نئے کام، یہ سب آرائشی حیثیت رکھتے ہیں۔ جو وسائل لازمی ہیں، انہیں خود تیار کرنے کی کوشش کریں۔ اس سے بھی زیادہ ترجیح اس بات کو حاصل ہے کہ جو آپ کے پاس ہے اس کی اچھی طرح حفاظت کریں۔ یہ آپ برادران عزیز سے میری مستقل سفارش ہے۔ایسا نہ ہو کہ ان پر توجہ نہ دیں اور وہ ضائع اور ختم ہوجائیں۔
البتہ فی الحال کچھ عرصے تک مسلح افواج میں افرادی لحاظ سے توسیع کا ہمارا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ الحمد للہ تعداد کے لحاظ سے، ہماری مسلح افواج کی گنجائش پوری ہے لیکن کیفیت اور معیار کے لحاظ سے پیشرفت اور توسیع کی کوئی حد نہیں ہے۔ مسلح افواج کا معیار جتنا بہتر بنایا جائے اتنا ہی اچھا ہے۔ یہ مستقبل کے لئے بہت ضروری ہے۔
آپ یہ سمجھ لیں کہ آپ قوم کے ہیں اور قوم آپ کی ہے۔ آپ اسلام کے ہیں اور اسلام آپ کا ہے۔ آج مسلح افواج کو یہ افتخار حاصل ہے کہ وہ امام زمانہ کے فوجی ہیں۔ آپ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) زمانہ کے سپاہی ہیں۔ آپ درحقیقت، امام زمانہ کے اہداف اور ان کے لئے کام کررہے ہیں۔ یہ وہ افتخار ہے کہ اگر ہم ساری عمر اس کا شکریہ ادا کریں تب بھی کم شکریہ ادا کریں گے۔ یہ بہت عظیم افتخار ہے۔
ان شاء اللہ امام زمانہ کے ظہور میں بھی آپ کے سپاہی رہیں۔ ان کے لئے کام کریں اور ان کی معیت میں جہاد کریں۔ خداوند عالم ہم سب اور ان تمام لوگوں کو، جو چاہتے ہیں اور شوق شہادت رکھتے ہیں، شہادت کے فیض عظیم پر فائز کرے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ