قائد انقلاب اسلامی اور ایران کے مفکرین کا ماننا ہے کہ مغرب کی ترقی کے معیار الگ ہیں اور اسلامی ترقی کے معیار الگ ہیں لہذا پیشرفت کے اسلامی و ایرانی نمونے کی تدوین ضروری ہے تاکہ اس نمونے کی روشنی میں آگے بڑھا جائے۔ چار گھنٹے سے زیادہ دیر تک چلنے والے اس اجلاس میں پہلے چودہ مفکرین اور دانشوروں نے پیشرفت کے ایرانی و اسلامی نمونے کے سلسلے میں اپنے اپنے نظریات اور موقف پیش کئے۔ اس کے بعد قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ملک کی ممتاز شخصیات اور مفکرین کی خدمات حاصل کرکے اس اہم نمونے کی تدوین کی ضرورت پر زور دیا اور فکر، علم، زندگی اور روحانیت کو اسلامی و ایرانی نمونے کے اہم پہلوؤں سے تعبیر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ نمونہ ملک کے مستقبل اور اہم منصوبوں کے لئے سب سے بنیادی اور ترجیحی دستاویز قرار پائے گا۔ آپ نے اجلاس میں اساتذہ، مفکرین اور دانشوروں کے تحقیقی مقالوں اور بیانوں کی قدردانی اور اس پر اظہار مسرت کرتے ہوئے اسے ملک کے دانشوروں اور مفکرین کے اندر پنہاں بے پناہ صلاحیتوں کا غماز قرار دیا اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں اس قسم کا اجلاس پہلے کبھی منعقد نہیں ہوا۔ آپ نے اسٹریٹیجک افکار کے اجلاس کا سلسلہ جاری رہنے کی ضرورت پر زور دیا اور ان اجلاسوں کا ایک اہم مقصد ملک کے بنیادی اور بڑے امور میں مفکرین اور دانشوروں کو دخیل کرنا بتایا۔ قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

آج کی شب یہ نشست بڑی اچھی رہی اور میں نے حقیقت میں اس سے استفادہ کیا۔ جو باتیں بیان کی گئیں ان سے بھی اور ملک کے دانشوروں اور فرزانہ شخصیات کی صنف میں موجود اس صلاحیت کے مشاہدے سے بھی جو پیچیدہ اور پہلو دار مسائل کو بیان کرنے اور ان کے کسی ایک جز پر تفصیلی اور مربوط بحث و تجزیہ کرنے کی صورت میں نظر آئی۔ میں نے آج کی شب اس نشست میں اس کا مشاہدہ کیا۔ میں آپ تمام حاضرین کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے زحمت کی، تشریف لائے اور اس نشست میں خاصا وقت صرف کیا۔ میں اس نشست کے مہتمم حضرات جناب واعظ زادہ اور دیگر احباب کا بھی شکریہ ادا کروں گا جنہوں نے یہ نشست منعقد کی۔ وقت کافی گزر چکا ہے اس لئے میں اپنے معروضات بہت اختصار سے پیش کروں گا، زیادہ وقت نہیں لوں گا۔ (1) تفصیلی گفتگو انشاء اللہ کسی اور موقعے پر کی جائے گی۔
اسلامی جمہوریہ کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی نشست ہے۔ اجتماعات اور نشستیں تو بے شمار منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ مختلف (علمی) گروہوں سے میری ملاقاتیں ہوتی ہیں اور مختلف علمی حلقوں کے اپنے اجلاس ہوتے ہیں، لیکن ہمارے سامنے آج جیسی کسی نشست کی کوئی اور مثال نہیں ہے۔ اس نشست کے انعقاد کا مقصد یا بہتر ہوگا کہ یوں کہیں کہ نشستوں کے اس سلسلے کا مقصد جو آئندہ بھی انشاء اللہ جاری رہے گا، ایک تو یہ ہے کہ ملک کے مفکرین اور دانشور حضرات ملک کے اہم امور اور مسائل میں خود کو دخیل سمجھیں، ملک میں بہت سے بنیادی امور ہیں۔ بہت سے اہم کام ہیں جنہیں انجام دیا جانا ہے۔ بہت اہم صلاحیتیں اور توانائیاں موجود ہیں جو اس عظیم مہم میں مددگار بن سکتی ہیں۔ یہ مقصود اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک دانشور، مفکرین اور ممتاز شخصیات خود کو ان بڑے مسائل میں دخیل اور شریک نہ کریں۔ یہ بہت ضروری ہے اور انشاء اللہ ایسا ہوگا۔
پیشرفت کے ایرانی و اسلامی نمونے کی تدوین ملک کے اہم ترین مسائل کا جز ہے۔ یہ مسئلہ ایسا ہے جس میں دوسرے درجنوں ذیلی امور اور مسائل مضمر ہیں جنہیں بعد میں بیان کروں گا۔ یہ مسائل اور امور اسی طرح جاری رہیں گے اور ان کے ساتھ ہی دوسرے اہم مسائل کا بھی جائزہ لیا جانا چاہئے۔
اس نشست کے انعقاد کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ پہلے دانشوروں اور مفکرین کی سطح پر اور پھر ملک بھر میں عوامی سطح پر یہ نظریہ عام ہو جائے۔ آج کی شب جو باتیں آپ نے بیان کیں، جب معاشرے میں عام ہو جائیں گی تو پہلے دانشور طبقے اور پھر عوام الناس کے اذہان ایک خاص سمت میں سوچنے لگیں گے۔ پیشرفت کے ایک نئے نمونے پر غور و فکر اور یہ احساس کہ اس سلسلے میں ہمیں خود منحصر اور آزاد رہنا چاہئے، اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہئے باعث بنے گا کہ اغیار کے پیشرفت کے نمونوں کو بنیاد بنانے کے عیوب و نقائص نمایاں ہوں۔ آج ہمیں اس چیز کی سخت ضرورت ہے۔ بد قسمتی سے ابھی ہمارا دانشور طبقہ اس مسئلے کے اہم پہلوؤں کے بارے میں کسی صحیح اور درست نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔ جبکہ اس کی سخت ضرورت ہے اور انشاء اللہ بفضل پروردگار یہ ہدف پورا ہوگا۔
آج کی نشست کا تیسرا مقصد یہ ہے کہ آئندہ برسوں میں ملک کا نظم و نسق چلانے کے لئے ہمیں راہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے، پٹری بچھانے کی ضرورت ہے۔ یہ نشست اور اس کے جیسے اجلاس راہ ہموار کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوں گے۔ تو اس جلسے اور اس جیسے دیگر جلسوں کا یہ مقصد ہے جو انشاء اللہ مستقبل میں منعقد ہوتے رہیں گے۔
یہ کام چند افراد اور حکام کا نہیں ہے، میرا نہیں ہے بلکہ یہ سب کا فریضہ ہے۔ یہ کام جو شروع ہونے جا رہا ہے اس کی ذمہ داری ہم سب پر ہے۔ ہم میں سے ہر شخص پر اس کی توانائی کے اعتبار سے، اس کی صلاحیت کے اعتبار سے، اس کے اختیارات کے اعتبار سے ذمہ داری ہے، جسے ادا کرنے کی ہمیں کوشش کرنا چاہئے۔ یہ تو رہی ایک بات۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس عمل کے ثمرات جلدی حاصل ہونے والے نہیں ہیں۔ ہم اس نکتے سے پوری آگاہی کے ساتھ یہ کام شروع کر رہے ہیں۔ البتہ بعض حضرات نے جلدی ثمرہ عطا کرنے والی تجاویز بھی پیش کیں، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن ہمارے مد نظر جو چیز ہے وہ دراز مدت میں اور پر امید رہنے کی صورت میں ہی حاصل ہوگی۔ یہ ایک طویل المیعاد عمل ہے۔ اگر اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے ہم ایک منطقی عمل کے تحت پیشرفت کے ایرانی و اسلامی نمونے کی تدوین میں کامیاب ہو گئے تو ملک کی اہم پالیسیوں اور ملک کے ترقیاتی پروگراموں کی نسبت یہ ایک انتہائی اہم دستاویز قرار پائے گا۔ یعنی بیس سالہ اور دس سالہ ترقیاتی منصوبے بھی جو آئندہ تیار کئے جانے والے ہیں، ان کی تدوین بھی اسی نمونے کی بنیاد پر عمل میں آئے گی۔ ملک کی بنیادی پالیسیاں اسی نمونے کے تحت ہوں گی اور اس کے دائرے میں وضع کی جائیں گی۔ البتہ یہ نمونہ ایسا نمونہ نہیں ہے جس میں کوئی لچک ممکن نہ ہو۔ جو چیز تیار کی جائے گي وہ حرف آخر اور پتھر کی لکیر نہیں ہوگي۔ زمانے میں پیدا ہونے والے نئے نئے حالات کے باعث تبدیلیاں بھی ناگزیر ہوں گی اور یہ تبدیلیاں انجام دینی ہوں گی۔ بنابریں یہ ایک لچک دار نمونہ ہوگا، یعنی اس میں تبدیلی اور لچک کی گنجائش ہوگی۔ اہداف معین اور طے شدہ ہیں۔ تاہم حالات اور فضا کے اعتبار سے ممکن ہے کہ اسٹریٹیجی میں کچھ تبدیلی اور اصلاح کی جائے۔ بنابریں اس قضیئے میں ہمیں کوئي جلدی نہیں ہے۔ مناسب رفتار تو ضروری ہے لیکن جلد بازی اور عجلت پسندی نہیں کی جا ئے گی اور انشاء اللہ ہم سنجیدہ انداز میں اور متانت کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔
حاضرین نے پیشرفت کے ایرانی و اسلامی نمونے کے ایک ایک لفظ کے بارے میں بڑی اچھی بحث کی۔ اس بارے میں کہ نمونہ سے کیا مراد ہے۔ ایرانی کی صفت کا کیا مطلب ہے، اسلامی کی صفت کس اعتبار سے رکھی گئی ہے، اور پیشرفت کا انتخاب کس لحاظ سے کیا گيا۔ یہاں میں ایک چیز اپنی طرف سے یہ کہنا چاہوں گا کہ ہم نے پیشرفت لفظ کا انتخاب پوری دقت نظر اور باریک بینی کے ساتھ کیا ہے۔ ہم نے عمدا ترقی کا لفظ استعمال کرنے سے گریز گيا۔ وجہ یہ ہے کہ ترقی کے لفظ سے خاص معنی مراد لئےجاتے ہیں۔ اس کے کچھ تقاضے اور لوازمات ہیں جن میں بعض سے ہم متفق نہیں ہے۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ عالمی سطح پر رائج خاص مفہوم و معنی والی اصطلاح ہمارے اس عمل میں استعمال ہو۔ ہم تو وہی معنی و مفہوم جو ہمارے مد نظر ہے، پیش کریں گے اور زیر بحث لائیں گے۔ وہ مفہوم ہے پیشرفت۔ ہم پیشرفت سے جو مراد لیتے ہیں اس کا ہمیں بخوبی علم ہے اور معلوم ہے کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ ہم اس کی تعریف بھی پیش کر سکتے ہیں کہ پیشرفت کیا ہے۔ پیشرفت کے کیا میدان ہیں؟ اس کی سمت کیا ہے؟ اسلامی انقلاب میں ہم پہلے بھی کچھ امور میں دوسروں کے الفاظ استعمال کرنے سے اجتناب کرتے رہے ہیں۔ ہم نے امپیریلزم کا استعمال نہیں کیا۔ اس کی جگہ استکبار کا لفظ استعمال کیا۔ کیونکہ ممکن ہے کہ امپیریلزم کی اصطلاح میں کچھ ایسے نکات بھی ہوں جن سے ہمیں کوئي مشکل نہیں ہیں؟ ان نکات اور پہلوؤں پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ہمیں اعتراض اس مفہوم پر ہے جو استکبار لفظ سے مراد لیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے اس لفظ کا استعمال شروع کیا۔ یہ لفظ انقلاب میں عام ہو گیا اور آج دنیا بھی، ہماری مراد کیا ہے؟ بخوبی سمجھ رہی ہے۔ اسی طرح دوسرے مفاہیم اور اصطلاحات بھی ہیں۔ پیشرفت کا مفہوم ہمارے سامنے روشن اور واضح ہے۔ لہذا ہم پیشرفت کا لفظ استعمال کریں گے اور اس کی تعریف بھی کریں گے کہ پیشرفت سے ہماری کیا مراد ہے۔ نمونے کے ایرانی ہونے کے بارے میں احباب نے جو باتیں بیان کیں کہ تاریخی خصوصیات، جغرافیائی صورت حال، ثقافتی حالات، جیو پولیٹیکل صورت حال اس نمونے میں مد نظر ہوں، اس کے علاوہ بھی ایک اہم بات یہ ہے کہ اس کی تدوین کرنے والے ایرانی مفکرین ہیں۔ یہ خصوصیت اس نمونے کے ایرانی ہونے کی ایک اہم دلیل ہے۔ یعنی ہم یہ نمونہ دوسروں سے عاریتا نہیں لینا چاہئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ جو ہماری نظر میں ضروری ہے، جو ہمارے ملک کے مفاد میں ہے، جو ہمارے مستقبل کی تعمیر کر سکتا ہے، ہم اسے ایک خاص پیرائے میں ڈھالیں۔ لہذا یہ نمونہ ایک ایرانی نمونہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ اسلامی بھی ہے۔ کیونکہ ہدف و غایت، اقدار اور طریقہ کار سب کچھ اسلامی تعلیمات سے ماخوذ ہے۔ یعنی ہم نے اسلامی معارف اور اسلامی تعلیمات کو بنیاد قرار دیا ہے۔ ہمارا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ ہے، ہماری حکومت ایک اسلامی حکومت ہے اور ہمارا یہ طرہ امتیاز ہے کہ ہم اسلامی اصولوں اور تعلیمات سے استفادہ کر رہے ہیں۔ خوش قسمتی سے اسلامی تعلیمات کے ذخیرے ہمارے پاس موجود ہیں۔ قرآن ہے، سنت پیغمبر ہے اور انتہائی ممتاز اور اعلی درجہ کے مفاہیم ہمارے فلسفے میں، ہمارے علم کلام میں، ہماری فقہ میں اور ہمارے علم قانون میں موجود ہیں۔ اسی لئے اسلامی صفت کا انتخاب کیا گیا۔ نمونے سے مراد ایک جامع منصوبہ اور نقشہ ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ایرانی و اسلامی نمونہ تو اس سے مراد ہے ایک جامع منصوبہ اور نقشہ۔ بغیر جامع نقشے کے ہم راستہ گم کر دیں گے۔ جیسا کہ ان تیس برسوں میں ہم بعض پیچیدہ اور لا یعنی کاموں میں پھنس گئے اور کبھی کسی جگہ اور کبھی کسی اور جگہ سر دھننے پر مجبور ہوئے۔ ایسا بھی ہوا کہ کبھی ایک کام انجام دیا گيا اور پھر بالکل برعکس قدم اٹھانا پڑا۔ ثقافتی شعبے میں بھی، معاشی شعبے میں بھی اور دیگر میدانوں میں بھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس جامع نقشہ نہیں تھا۔ پیشرفت کا نمونہ ایک جامع نقشہ ہوگا۔ اس سے ہمیں ہر آن یہ علم رہے گا کہ ہم کس سمت میں، کس ہدف کے لئے بڑھ رہے ہیں؟ جیسا کہ دوستوں نے بیان کیا، مطلوبہ پوزیشن اور منزل مقصود کی تصویر کشی کی جائے اور موجودہ صورت حال سے اس منزل تک رسائی کا راستہ اور طریقہ بھی طے کیا جائے۔ یقینا اس سلسلے میں بے شمار سوالات سامنے آئيں گے، ان سوالات سے آگاہی ضروری ہے۔ ایک صاحب نے یہاں بیان فرمایا کہ چار ہزار سوال سامنے آئيں گے، یہ بڑی اچھی بات ہے۔ ان سوالات سے واقفیت حاصل کرنا چاہئے۔ یہ مہم ہمارے دانشور اور مفکر طبقے کی سطح پر شروع ہونا چاہئے۔ سوالات اٹھائے جائیں اور پھر ان سوالات کے جواب دئے جائیں۔ یہ ایک طولانی عمل ہے۔
ہم جو ایرانی اور اسلامی کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہرگز یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم دوسروں کے تجربات سے استفادہ نہیں کریں گے۔ جی نہیں، ہم علم و دانش کے حصول میں کسی محدودیت کے قائل نہیں ہیں۔ جہاں کہیں بھی علم و دانش ہے، اچھا اور کامیاب تجربہ ہے ہم وہاں جائیں گے۔ لیکن ہم کہیں سے کچھ بھی آنکھیں بند کرکے حاصل نہیں کریں گے۔ علم و دانش کی دنیا میں جو چیز ہمیں فائدے کی اور کام کی محسوس ہوگی، ہم اس سے استفادہ کریں گے۔
کچھ سوالات ہیں، جن میں بعض یہاں پر اٹھائے گئے اور ان کے جوابات بھی دئے گئے، لہذا میں ان کی تکرار نہیں کروں گا۔ بہت سی انتہائی کارآمد باتیں ہوئیں، میں انہیں بھی نہیں دہراؤں گا۔ جو کام اس سلسلے میں اب تک انجام دئے گئے ہیں وہ میں پہلے بھی دیکھ چکا ہوں اور آج ان کے بارے میں بغور سننے کا موقع ملا۔ بہت اچھی باتیں بیان کی گئیں۔ بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ موجودہ وقت کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ یعنی (پیشرفت کے ایرانی و اسلامی نمونے کی) کی ضرورت کو سمجھ لینے کے بعد اس سے متفق ہیں لیکن یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ کام پہلے کیوں نہیں انجام دیا گیا؟ اب اس وقت یہ کام انجام دینے کی کیا ضرورت آن پڑی ہے؟ (جواب یہ ہے کہ) کوئی زیادہ دیر نہیں ہوئي ہے۔ اس نمونے کی تدوین کے لئے جو عمل انجام دیا جانا ہے اس کے اعتبار سے تیس سال کا عرصہ بہت زیادہ نہیں ہے۔ تجربات جمع ہوتے ہیں، معلومات کا ذخیرہ تیار ہوتا ہے، سیاسی و معاشی حالات بنتے ہیں تب ہم بعض ایسی نئی منزلوں اور مقامات پر پہنچتے ہیں جو ناشناختہ تھے۔ ہم ان کی بھی انشاء اللہ شناخت حاصل کریں گے۔ میرے خیال میں موجودہ دور میں ملک کی صلاحیت و توانائی بہت مناسب ہے۔ یہ آواز بھی سنائي دی کہ ایسے نمونے کی تدوین کے لئے ہمارے ملک میں فکری توانائی و صلاحیت موجود نہیں ہے۔ ہم اس بات سے متفق نہیں ہے۔ ملک میں توانائی و صلاحیت کی کمی نہیں ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے، ملک کی صلاحیتیں رو بہ عمل آ چکی ہیں اور بہت بہترین صلاحیتیں ہیں۔ یونیورسٹیوں میں بھی اور قم اور دیگر شہروں کے دینی علوم کے مراکز میں بھی۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی ممکنہ صلاحیتیں اور توانائیاں ہیں جنہیں کوششوں کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے اور رو بہ عمل لایا جا سکتا ہے۔ اگر آج ہم نے یہ کام شروع نہ کر دیا اور اس میں مصروف نہ ہو گئے تو یقینی طور پر پیچھے رہ جائیں گے اور نقصان اٹھائيں گے۔ لہذا یہ مہم اسی شکل میں آگے بڑھنی چاہئے۔
یہاں میں ایک بات اور بھی کہنا چاہوں گا کہ پیشرفت کے میدانوں کا بھی کلی طور پر تعین ہو جانا چاہئے۔ بنیادی طور پر چار اہم میدان ہیں۔ ایک ہے میدان زندگی جس میں انصاف، سلامتی، حکومت، رفاہ وغیرہ شامل ہیں۔ سب سے پہلے پیشرفت فکر و نظر کے میدان میں ضروری ہے۔ ہمیں معاشرے کو مفکر اور اہل نظر بنانے کی کوشش کرنا چاہئے۔ یہ سبق ہمیں قرآن سے بھی ملتا ہے۔ آپ دیکھئے! قرآن میں بار بار لقوم یتفکرون ، لقوم یعقلون، ا فلا یعقلون، ا فلا یتدبرون کہا گیا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے معاشرے میں فکر و نظر اور تدبر و تفکر کی عادت کو ایک نمایاں اور واضح خصوصیت میں تبدیل کر دیں۔ یہ چیز دانشوروں اور مفکرین کی سطح پر شروع ہوگی اور پھر عوام الناس تک پھیل جائے گی۔ ہاں اس کے اپنے خاص راستے، کچھ تقاضے اور لوازمات بھی ہیں۔ راستوں میں تعلیم و تربیت اور ذرائع ابلاغ عامہ ہیں۔ چنانچہ منصوبہ بندی میں ان تمام باتوں کو مد نظر رکھا جانا چاہئے۔
دوسرا میدان جس کی اہمیت پہلے میدان سے کچھ کم ہے، علم و دانش کا میدان ہے۔ ہمیں علم و دانش کے میدان میں پیشرفت کرنا چاہئے۔ ویسے علم ثمرہ ہوتا ہے فکر و تدبر کا۔ لہذا موجودہ دور میں، فکری پیشرفت کی جانب حرکت میں کسی طرح کی کوتاہی، سستی اور غفلت نہیں ہونا چاہئے۔ خوش قسمتی سے چند برسوں سے ملک میں نئی علمی ایجادات و تخلیقات، علمی حود انحصاری کی جانب پیش قدمی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ علم کا معاملہ یہ ہے کہ ٹکنالوجی اور نئی سائنسز کی صورت میں اپنے وجود کا مظاہرہ شروع کر دیتا ہے۔ بسا اوقات علمی مہم کا نتیجہ ہمارے اس زیر بحث موضوع کے برخلاف بہت زیادہ وقت طلب نہیں ہوتا ہے۔ قلیل المیعاد ہوتا ہے اور اس کا ثمرہ جلد حاصل ہو جاتا ہے۔ علمی کام بہت گہرائي سے انجام دیا جانا چاہئے۔ یہ بھی پیشرفت کا اہم میدان ہے۔
پیشرفت کا تیسرا میدان ہے میدان زندگی۔ میں نے پہلے ہی عرض کر دیا کہ ایک معاشرے میں بنیادی مسائل اور اصلی امور کی حیثیت سے جو چیزیں زیر بحث آتی ہیں سب کا تعلق اسی میدان زندگی سے ہے۔ جیسے سلامتی و تحفظ، جیسے عدل و انصاف، جیسے رفاہ و آسائش، جیسے خود انحصاری و خود مختاری، جیسے قومی وقار، جیسے آزادی، جیسے امداد و معاونت اور جیسے حکومت و انتظامیہ۔ یہ سب پیشرفت کے شعبے ہیں جن پر توجہ دینی چاہئے۔
پیشرفت کا چوتھا میدان جو ان سب سے زیادہ اہم اور ان کی روح کا درجہ رکھتا ہے روحانیت کا میدان ہے۔ ہمیں یہ نمونہ اس طرح تیار کرنا چاہئے کہ وہ ہمارے ایرانی معاشرے کو زیادہ سے زیادہ روحانیت و دینداری کی جانب لے جائے۔ یہ بات ہمارے سامنے واضح اور نمایاں ہے بلکہ حاضرین محترم میں بھی بہت سے افراد کے نزدیک بدیہی ہے تاہم یہ بات سب کے سامنے عیاں ہو جانی چاہئے کہ معنویت و روحانیت کا علم و دانش، سیاست و حکومت، آزادی و حریت اور دیگر باتوں سے کوئي ٹکراؤ اور تضاد نہیں ہے بلکہ روحانیت و معنویت تو ان سب کی روح ہے۔ روحانیت و معنویت کی مدد سے علم و دانش کی بلند چوٹیوں کو فتح کیا جا سکتا ہے۔ یعنی علم بھی ہو اور روحانیت و معنویت کی دولت بھی ہو۔ ایسا ہو تو دنیا زیور انسانیت سے آراستہ دنیا بن جائے گی۔ ایسی دنیا بن جائے گی جو انسانی زندگی کے شایان شان جگہ قرار پائے گی۔ آج کی دنیا تو وحشی دنیا ہے۔ وہ دنیا جس میں علم و دانش کے ساتھ ساتھ روحانیت و معنویت بھی ہو، جس میں تہذیب و تمدن کے ساتھ روحانیت و معنویت بھی ہو، جس میں ثروت و دولت کے ساتھ روحانیت و معنویت بھی ہو، وہ ہوگی انسانی دنیا۔ البتہ ایسی دنیا کا حقیقی نمونہ تو حضرت امام زمانہ (ارواحنا فداہ) کے ظہور کے بعد ہی دیکھنے کو ملےگا۔ میں یہ بھی عرض کر دوں کہ وہیں سے دنیا کا آغاز ہوگا۔ ہم اس وقت انسانی دنیا کے مقدماتی دور میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہماری مثال ان لوگوں کی ہے جو پہاڑوں اور ٹیلوں کے پرپیچ و خم راستوں سے گزر رہے ہیں، دشوار گزار وادیوں کو طے کر ہے ہیں تاکہ شاہراہ تک رسائی ہو جائے۔ جب ہم اس شاہراہ پر پہنچ جائیں گے تب بلند اہداف کی سمت ہمارے سفر کی شروعات ہوگی۔ انسانیت اپنی عمر کے ان چند ہزار برسوں میں ان ناہموار پہاڑی راستوں سے گزر رہی ہے کہ شاہراہ تک پہنچ جائے۔ جب اس شاہراہ تک اس کی رسائي ہو جائے گی جو حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کا وقت ہوگا، تب جاکر انسانیت کا اصلی سفر شروع ہوگا، انسان کی تیز رفتار حرکت شروع ہوگی، انسانیت کا مشکلات سے محفوظ، کامیاب سفر شروع ہوگا۔ ساری زحمتیں اور مصیبتیں اسی پیچ و خم والی راہوں کے سفر تک محدود ہیں، اس کے بعد کوئی تکلیف و پریشانی باقی نہیں رہے گی۔
تو یہ پیشرفت کے چار میدان ہیں اور اس نمونے کو مد نظر رکھتے ہوئے، جس کی تدوین کی آپ حضرات انشاء اللہ مربوط کوشش کریں گے اور ان کوششوں کا طریقہ اجمالی طور پر ہمیں معلوم ہے اور اسے ہم بیان بھی کریں گے، ہمیں انہی میدانوں میں پیشرفت کرنا ہے۔
اسلامی ماہیت کے بارے میں دوستوں نے بڑے اچھے نکات بیان کئے۔ سب سے پہلے جس مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ ہے سرچشمہ، سرآغاز اور مبدا یعنی توحید کا مسئلہ، انا للہ و انا الیہ راجعون (2) آج کی دنیا جس کا سب سے زیادہ رنگین چہرہ مغرب میں نظروں کے سامنے ہے، اس کی سب سے بڑی مشکل اللہ اور وجود خدا پر عقیدے اور اس عقیدے کے مطابق اعمال کی انجام دہی سے گریز ہے۔ ظاہری طور پر ممکن ہے کہ عقیدہ ہو لیکن اس عقیدے کا التزام اور اس کے تقاضوں پر عمل نہیں ہے۔ اگر مبدا، سرآغاز اور سرچشمے کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے تو بہت سے دوسرے مسائل خود بخود حل جائیں گے۔ «يسبّح له ما فى السّماوات و الأرض»،(3) «و للَّه جنود السّماوات و الأرض و كان اللَّه عزيزا حكيما»(4)انسان میں اگر یہ عقیدہ پیدا ہو جائے، تو یہ توحید اور یہ عزت الہی ہمیں اس حقیقت سے آشنا کرا دے گی، انسان کو ایک عظیم و لا متناہی طاقت عطا کر دے گی۔ «هو اللَّه الّذى لا اله الّا هو الملك القدّوس السّلام المؤمن المهيمن العزيز الجبّار المتكبّر سبحان اللَّه عمّا يشركون».(5)جب انسان میں اس انداز سے توحید کا عقیدہ جاگزیں ہو جائے گا اور جب انسان اس عقیدے کو زندگی کے ہر شعبے میں اس انداز سے عام کر لے گا تو انسانیت کی ساری مشکلات برطرف ہو جائیں گی۔
دوسرا معاملہ جو خاص اہمیت کا حامل ہے وہ معاد اور قیامت کا معاملہ ہے، حساب کتاب کا معاملہ ہے، موت کے بعد جسم کے نابود ہو جانے کے بعد تمام امور کے ختم نہ ہو جانے کا معاملہ ہے۔ یہ بہت اہم معاملہ ہے کہ حساب کتاب ہونا ہے، محاسبہ ہونا ہے، فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ جس قوم کا یہ عقیدہ ہو، جو قوم عملی میدان میں «فمن يعمل مثقال ذرّة خيرا يره. و من يعمل مثقال ذرّة شرّا يره»،(6) کے اصول پر کاربند ہو جائے اس کی زندگی میں بنیادی تبدیلی آنا یقینی ہے۔ عمل کے نتیجے اور ثمرے کا یقین اور عقیدہ ایثار و جہاد کو معنی و مفہوم عطا کرتا ہے۔ ادیان کا ایک بہت اہم وسیلہ جو دین اسلام میں خاص طور پر نمایاں نظر آتا ہے جہاد ہے۔ جہاد ایثار کے ساتھ ہوتا ہے ورنہ دوسری صورت میں وہ جہاد نہیں ہوگا، ایثار یعنی خود کو نظر انداز کر دینا۔ عقل و منطق کی رو سے (انتہائي اہم درجہ رکھنے والی) اپنی ذات کو اور اپنے مفادات کو نظر انداز کر دینا درست نہیں ہے، میں کیوں اپنے مفادات کو نظر انداز کروں؟ لیکن قیامت اور یوم حساب کا عقیدہ اسے بامعنی اور منطقی فعل بناتا ہے۔ جب ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ کوئی بھی عمل ضائع نہیں ہوگا اور تمام اعمال محفوظ رہیں گے اور ہم اس حقیقی زندگی میں اس حیات واقعی میں جس کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے«انّ الدّار الأخرة لهى الحيوان»(7) اپنے تمام اعمال کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے تو اس عقیدے کی روشنی میں جب ہم کوئي فریضہ انجام دیں اور اس فریضے کی انجام دہی میں اپنی کوئی چیز گنوا بیٹھیں تو ہمیں نقصان اور خسارے کا احساس نہیں ہوگا۔ پھر وہ شئے چاہے ہماری جان ہی کیوں نہ ہو، ہمارے اعزاء یا ہماری اولاد ہی کیوں نہ ہو۔ یہ اصول، پیشرفت کے نمونے کا جز قرار پانا چاہئے اور معاشرے کی پیشرفت کی صورت میں اسے سامنے آنا چاہئے۔ معلوم ہوا کہ اصلی موضوع ہے توحید اور قیامت کا عقیدہ۔
اس کے بعد ایک اہم مسئلہ ہے دنیا اور آخرت کو ایک دوسرے سے مربوط اور متصل سمجھنے کا۔ «الدّنيا مزرعة الأخرة»،(8) آج بھی بعض حضرات نے میرے خیال میں اس جانب اشارہ بھی کیا اور یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ دنیا اور آخرت ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔ ہماری آخرت اور ہماری دنیا ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ «و انّ جهنّم لمحيطة بالكافرين»؛(9) کفر میں مبتلا انسان اسی دنیا میں ہی دوزخ میں گھرا ہوا ہے، بس اتنا ہے کہ اسے ابھی اپنے جہنم میں گر جانے کا احساس نہیں ہے۔ جب یہ حقیقت اس کی نظروں کے سامنے آئے گی تب اسے اچانک اس کا علم ہوگا۔
«اى دريده پوستين يوسفان / گرگ برخيزى از اين خواب گران».
اس وقت وہ بھیڑیا بن چکا ہے لیکن اسے اپنے بھیڑئے پن کا اندازہ نہیں ہو پا رہا ہے۔ ہماری آنکھوں پر بھی پردے پڑے ہوئے ہیں لہذا ہم بھی اس کی درندہ صفت شخصیت کو نہیں دیکھ پا رہے ہیں لیکن جب ہم خواب غفلت سے بیدار ہوں گے تو ہمیں نظر آ جائے گا کہ یہ تو بھیڑیا ہے۔ تو دنیا اور آخرت کے ایک دوسرے سے متصل اور مربوط ہونے کا یہی مطلب ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ دنیا قسمت آزمائی والی بلاؤں میں سے ایک بلا ہے۔ آخرت اور دنیا ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
ایک اور اہم مسئلہ ہے انسان اور انسانیت کا۔ اسلام انسان کو محور و مرکز کا درجہ دیتا ہے۔ اسلام میں یہ موضوع بڑا وسیع ہے۔ اظہر من الشمس ہے کہ اسلامی نقطہ نگاہ میں انسان کا جو مقام و مرتبہ ہے وہ انیسویں صدی کے مغربی مادہ پرست فلسفیانہ مکاتب فکر میں انسان کو دئے جانے والے مقام اور اہمیت سے بالکل الگ ہے۔ اسلام کے نقطہ نگاہ سے انسان کچھ اور ہے جبکہ مادہ پرستانہ مکاتب فکر کے نقطہ نگاہ سے انسان کا درجہ کچھ اور ہے۔ ان دونوں انسانوں کی تعریف ایک نہیں ہے۔ بنابریں جب اسلام انسان کو محور قرار دیتا ہے تو اس کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے اور مغرب کے مادہ پرست مکاتب فکر اسے محور ٹھہراتے ہیں تو اس سے مراد کچھ ہوتا ہے۔ یہ جو ہم انصاف و مساوات، سلامتی و تحفظ، رفاہ و آسائش، عبادت و پرستش جیسے موضوعات پر بحث کرتے ہیں، اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان کو سعادت و خوشبختی نصیب ہو۔ سعادت و نیک بختی اور آخرت کا معاملہ ہر فرد اور ہر شخص کا اپنا معاملہ ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ انسان دوسروں کی جانب سے بالکل بے پروا اور لا تعلق رہے۔ کیونکہ «من احياها فكأنّما احيا النّاس جميعا».(10) روایت میں ہے امام علیہ السلام سے اس آيت کے بارے میں دریافت کیا گيا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس کی سب سے بہتر تفسیر یہ ہے کہ جس نے کسی کی ہدایت کی اس نے گویا پوری انسانیت کی ہدایت کر دی۔ معلوم ہوا کہ ہدایت ہر کسی پر لازمی ہے لیکن اسلام کے نقطہ نگاہ سے جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے ہر شخص اپنی نجات اور سعادت کی فکر کرے۔ ہمیں چاہئے کہ خود کو نجات دلائیں۔ ہماری نجات کا راستہ یہ ہے کہ اپنے فرائض پر عمل کریں۔ سماجی فرائض، انصاف کا قیام، حکومت حق کی تشکیل، ظلم سے پیکار، فساد و بد عنوانی سے لڑائی، یہ سب کے سب اسی نجات کے مقدمات ہیں۔ تو اصلی اور بنیادی ہدف یہ ہے اور دوسری چیزیں اس کا مقدمہ ہیں۔ اسلامی معاشرہ بھی مقدمہ ہے، انصاف و مساوات بھی مقدمہ ہے۔ یہ جو قرآن کریم میں آیا ہے کہ «ليقوم النّاس بالقسط»(11) اور اس (قیام عدل) کو انبیائے الہی کا مقصد قرار دیا گيا ہے تو یقینا یہاں قیام عدل و انصاف ہدف اور مقصد ہے لیکن یہ ہدف عبوری ہدف ہے، نصب العین اور آخری ہدف ہے انسان کی نجات اور رستگاری۔ اس پر توجہ دی جانی چاہئے۔ انسان صاحب اختیار، فرائض بدوش اور ہدایات الہی سے آراستہ مخلوق ہے۔ «أ لم نجعل له عينين. و لسانا و شفتين. و هديناه النّجدين»(12) صراط مستقیم اور راہ حق کا بھی انتخاب کر سکتا ہے اور ضلالت و گمراہی کا راستہ بھی چن سکتا ہے۔ انسان کی اپنے تئیں، اپنے خاندان کے تئیں اور اپنے معاشرے کے تئیں کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ بنابریں اس نقطہ نگاہ کی رو سے جمہوریت جہاں عوام کا حق ہے وہیں یہ فریضہ بھی ہے۔ یعنی معاشرے کا نظم و نسق اور انتظام چلانے کے سلسلے میں تمام انسانوں پر ذمہ داریاں ہیں۔ کوئی یہ کہہ کر دامن نہیں چھڑا سکتا کہ مجھ سے کوئي مطلب نہیں ہے۔ جی نہیں ملک اور حکومت کے مفادات اور امور کا تعلق ہر فرد سے ہے۔ یعنی اس سلسلے میں انسان پر ذمہ داریاں ہیں۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے جس کا اسلامی نقطہ نگاہ میں اور پیشرفت کے اس نمونے کی تدوین میں خیال رکھا جانا چاہئے۔
ایک اور اہم مسئلہ حکومت کا ہے۔ اس سلسلے میں بھی اسلام کے اپنے کچھ اصول اور تعلیمات ہیں۔ اسلام کے دائرے میں تشکیل پانے والی حکومت میں شخصی صلاحیت و توانائی بہت اہم اور بنیادی چیز ہے۔ یعنی جو انسان نظم و نسق اور انتظامی امور میں جتنی شراکت رکھتا ہے اس کے اندر اسی تناسب سے صلاحیت و توانائی کا ہونا ضروری ہے، انسان پہلے اپنی صلاحیت کو پرکھ لے، تول لے پھر (ذمہ داری اور عہدہ) قبول کرے۔ اگر ایسا نہ کیا تو اس نے ناجائز کام کیا ہے۔ تعلی، اسراف اور خود غرضی سے اجتناب، امر حکومت میں بہت اہم مسئلہ ہے۔ اللہ تعالی فرعون کے سلسلے میں قرآن میں ارشاد فرماتا ہے کہ «كان عاليا من المسرفين»؛(13) یعنی فرعون کا گناہ یہ تھا کہ تعلی کرتا تھا، چنانچہ حاکم اور عہدہ دار کے لئے تعلی کرنا قبیح ہے۔ اسے تعلی اور تکبر کا حق نہیں ہے اور اگر کسی میں تعلی اور تکبر ہے تو اسے کوئی عہدہ قبول نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی عوام الناس کو یہ حق ہے کہ اسے اپنا حاکم اور رہنما بنائیں۔ خود غرضی یعنی سب کچھ صرف اپنی ذات کے لئے چاہنا۔ یہ ایثار کی ضد ہے۔ ایثار کا مطلب ہوتا ہے کہ دوسرے کے فائدے کے لئے اپنا سب کچھ پیش کر دینا اور خود غرضی کا مطلب ہے دوسروں کی تمام چیزیں ہڑپ لینا۔ تو تعلی و تکبر اور خود غرضی حکومت کے لئے بری صفتیں ہیں۔ امیر المومنین علیہ السلام نہج البلاغہ میں بنی امیہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : «يأخذون مال اللَّه دولا و عباد اللَّه خولا و دين اللَّه دخلا بينهم» یعنی حکومت کے سلسلے میں ان کی عدم لیاقت اور عدم اہلیت کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اندر یہ عادتیں ہیں؛ «يأخدون مال اللَّه دولا»؛ یعنی عوام الناس کا مال ان کے درمیان ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں اور دوسرے ہاتھ سے تیسرے ہاتھ میں منتقل ہوتا رہتا ہے جبکہ وہ عوام کا سرمایہ ہے اور و عباد اللہ خولا عوام الناس کو اپنا غلام سمجھتے ہیں، ان سے کام لیتے ہیں۔ «و دين اللَّه دخلا بينهم» اور دین خدا کو اس انداز سے مانتے ہیں کہ اس میں تحریف کرتے رہتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ حکومت کے سلسلے میں اسلام نے کچھ اصول وضع کئے ہیں جنہیں ہماری زندگی کے نمونے میں حتمی طور پر شامل کیا جانا چاہئے اور اس پر توجہ دی جانی چاہئے۔
اقتصادیات کے سلسلے میں ہمارے احباب نے بہت اچھی بحثیں کیں؛ «كى لا يكون دولة بين الأغنياء منكم»(14) یہ بہت اچھا معیار ہے۔ مساوات اور انصاف کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ پیشرفت کے اس نمونے میں عدل و انصاف کو ستون کا درجہ دیا جانا چاہئے۔ عدل و انصاف حکومتوں کی حقانیت کی کسوٹی بھی ہے۔ یعنی اسلام کے نقطہ نگاہ سے اگر عدل و انصاف نہیں ہے تو (حکومت کی) حقانیت اور شرعی جواز پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔
ایک اور مسئلہ ہے معیشت اور اقتصاد کو غیر مادی نگاہ سے دیکھنے کا۔ آج دنیا کو در پیش بہت سے مسائل و مشکلات کی وجہ اقتصاد اور معیشت، پیسے اور ثروت کو مادی نقطہ نگاہ سے دیکھنا اور تولنا ہے۔ احباب نے ابھی مغرب کی گمراہی و انحراف، بے شمار مشکلات اور استعمار و سامراج کے بارے میں جو باتیں ذکر کیں ان کی وجہ یہ ہے کہ پیسے اور ثروت کو مادہ پرستانہ نگاہ سے دیکھا گیا۔ اس نقطہ نگاہ کی تصحیح کی جا سکتی ہے۔ اسلام ثروت و دولت کو بے شک اہمیت دیتا ہے، قابل توجہ قرار دیتا ہے، اسلام میں دولت و ثروت حاصل کرنا پسندیدہ فعل ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ نقطہ نگاہ روحانی و معنوی ہو۔ روحانی و معنوی نقطہ نگاہ سے مراد یہ ہے کہ اس دولت کو فساد (فی الارض)، تسلط پسندی، اسراف وغیرہ کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔ اس دولت کو معاشرے کے رفاہ و آسائش اور فائدے کے لئے استعمال کیا جائے۔ اسی طرح دیگر اہم اغراض و مقاصد کے لئے (بروئے کار لایا جائے)۔
اس سلسلے میں یوں تو بہت بحثیں ہیں اور میں اس بحث کو طول نہیں دینا چاہتا کیونکہ وقت بھی کافی ہو چکا ہے اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ آج کے جلسے میں ہی یہ ساری بحثیں مکمل ہو جائیں۔ انشاء اللہ اگر زندگی رہی تو ان بحثوں کے لئے ہمیں آئندہ بھی وقت ملے گا۔
ہم نے عرض کیا کہ یہ ایک نئے راستے کی شروعات ہے۔ اس شب کی ہماری یہ نشست ایک نئی شروعات ہے، یہ سلسلہ آگے بڑھنا چاہئے۔ ممکن ہے کہ پیشرفت کے اسلامی و ایرانی نمونے کے موضوع پر دس یا درجنوں اجلاس اور نشستیں درکار ہوں۔ ممکن ہے کہ یونیورسٹیوں میں درجنوں علمی کمیٹیوں کی تشکیل کی ضرورت پیش آئے۔ ممکن ہے کہ ہمارے سیکڑوں دانشور، ممتاز علمی ہستیاں اور چنندہ افراد، جو انفرادی طور پر تحقیق کرنا پسند کرتے ہیں، اجتماعی طریقے سے انجام پانے والے کاموں میں شریک نہیں ہوتے، انفرادی طور پر اپنے گھروں میں مطالعہ اور تحقیق کرنا چاہیں، ان کی بھی خدمات حاصل کی جانی چاہئے۔ علمی حلقے قائم کئے جائیں۔ یونیورسٹیوں اور دینی درسگاہوں کو اس میں دخیل کیا جائے تاکہ اس مہم کو بفضل پروردگار بحسن و خوبی پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔
جو رپورٹ جناب داؤدی صاحب نے پیش کی، واقعی بہت حوصلہ افزاء ہے۔ ویسے جو باتیں آپ نے بیان کیں کم و بیش میں ان سے واقفیت رکھتا ہوں لیکن اتنی تفصیلات کے ساتھ یہ باتیں میرے پیش نظر نہیں تھیں۔ یہ کام کسی ایک محدود گروہ کا نہیں ہے۔ ایسی مہم ہے جس میں ملک کے تمام دانشوروں کو اپنی پوری توانائی کے ساتھ شریک ہونا چاہئے۔ میں نے یہ بھی عرض کیا کہ یہ مہم ایسی کوتاہ مدتی مہم نہیں ہے جس کے نتائج کم وقت میں ہماری نظروں کے سامنے آ جائیں۔ یہ ایک طویل المیعاد منصوبہ ہے۔ اسے انجام دینا ہے۔ کسی عجلت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم رفتہ رفتہ آگے بڑھیں گے۔ یہ کوئی ایسا کام نہیں ہے کہ جسے حکومت یا پارلیمنٹ سے منظور کرا لیا جائے۔ یہ چیز جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا، ملک کے دیگر اہم ترین منصوبوں اور دستاویزات کی نسبت ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔ اسے متعدد مراحل سے گزر کر اپنی منزل مقصود پر پہنچنا ہے۔ یہ نظریات آزمائے جائیں، پرکھے جائیں تاکہ بنیادی اور اساسی مقام تک پہنچ جائيں۔
اس کے لئے ایک مرکز کی بھی ضرورت ہے جو اس مسئلے پر کام کرتا رہے۔ انشاء اللہ ہم اس مرکز کی تشکیل کریں گے۔ ایسا مرکز ہونا چاہئے جو اس مہم اور تحریک کو اپنے انحصار میں نہ لائے۔ اس مرکز سے ہماری توقع یہ نہیں ہوگی کہ وہ خود اس کام کو انجام دے۔ اس سے ہماری توقع یہ ہوگی کہ ملک میں شروع ہونے والی ممتاز صلاحیتوں سے سرشار افراد کی اس تحریک اور مہم پر نظر رکھے، اس کی با قاعدہ نگرانی کرے، ان لوگوں کی مدد کرے، مختلف طرح سے ان کی حمایت اور پشت پناہی کرے اور اس حرکت کو رکنے نہ دے۔ اس کے لئے ایک مرکز یا کمیشن کی ضرورت ہے جو انشاء اللہ تشکیل پائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ سے ہمارا کام آج کی شب ہی ختم نہیں ہو جائے گا۔ یعنی یہ موضوع ایسا نہیں ہے کہ آج اس جلسے میں زیر بحث آیا اور ختم ہو گیا۔ یہ سلسلہ انشاء اللہ جاری رہے گا۔ البتہ اس میں مختلف گروہ شرکت کریں گے یعنی مختلف افراد اور مختلف شخصیات موجود ہیں۔ جیسے کہ ڈاکٹر واعظ زادہ نے سفارش کی، میں بھی گذارش کروں گا جو صاحبان اپنے خاص نظریات رکھتے ہیں وہ اگر تیار ہیں تو اپنے نظریات بیان کریں۔ اس جلسے میں جو باتیں زیر غور آئیں ان میں بعض ایسی ہیں کہ جن پر انسان کو چاہئے کہ بعد میں بھی تدبر و تفکر کرے۔ یعنی فکری حلقے تیار کئے جائیں۔ ان پر بحث ہو۔ ان کا تجزیہ کیا جائے، جو ممکنہ اعتراضات ہیں پیش کئے جائیں اور ان کا جواب دیا جائے تاکہ ہم صحیح نتائج تک پہنچ سکیں۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌

 

1) جناب واعظ زادہ کی قائد انقلاب اسلامی سے بصیرت افروز تقریر شروع کرنے کی درخواست
2) بقره: 156
3) حشر: 24
4) فتح: 7
5) حشر: 23
6) زلزال: 7 و 8
7) عنكبوت: 64
8) ارشاد القلوب: ج 1، ص 89
9) توبه: 49
10) مائده: 32
11) حديد: 25
12) بلد: 8 - 10
13) دخان: 31
14) حشر: 7