قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں بھی اس عظیم اور عیداللہ الاکبر کی تمام مسلمین عالم بالخصوص پوری دنیا کے شیعوں خصوصا،ایران کے مومن اور مولائی عوام اور ملت ایران کے خدمتگزار حاضرین محترم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ امید ہے کہ خدا وند عالم ہمیں اس بات کی توفیق عطا کرے گا کہ ہم صحیح معنوں میں راہ ولایت پر، جو آج اسلام کی تاریخی زندگی اور اسلامی تعلیمات میں مسلمہ ہے، چلنے والے ہوں۔
غدیر پر انسان مختلف پہلووں سے نظر ڈال سکتا ہے اور اس سے معنوی اور فکری استفادہ کرسکتا ہے۔ ایک موضوع یہ ہے کہ ولایت، نبوت کا ہی سلسلہ ہے۔ یہ موضوع اہم ہے۔ نبوت کا مطلب ہے، کسی زمانے میں انسانوں کے درمیان پروردگار کا پیغام پہنچانا اور جس شخص کو پروردگار نے مبعوث اور منتخب کیا ہے، اس کے وسیلے سے ارادۂ الہی کی تکمیل۔ظاہر ہے کہ یہ دور بھی ختم ہوجانے والا تھا کہ انّک میّت اور انّھم میّتون (1) مگر یہ خدائی اور معنوی واقعہ، پیغمبر کے جانے سے ختم ہونے والا نہیں تھا بلکہ اس کے دونوں پہلو باقی رہنے والے تھے۔ ایک، انسانوں کے درمیان اقتدار الہی، حاکمیت دین اور ارادۂ الہی کا پہلو ہے۔ انبیاء انسانوں کے درمیان پروردگار کے اقتدار کے مظہر تھے۔ انبیاء صرف اس لئے نہیں آئے تھے کہ لوگوں کو نصیحت کریں۔ نصیحت اور تبلیغ پیغمبروں کے کام کا ایک حصہ تھا۔ تمام پیغمبر اس لیے آئے تھے کہ خدائی اقدار کی بنیاد پر معاشرہ قائم کریں۔ یعنی درحقیقت لوگوں کی زندگی پر اثر انداز ہوں۔بعض انبیاء یہ کام کرسکے اور ان کی مجاہدت نتیجہ خیز رہی اور بعض نہ کرسکے۔ پیغمبر کی زندگی کا یہ پہلو جو زمین پر اور انسانوں کے درمیان قدرت خدا کا مظہر اور عوام کے درمیان حکومت و ولایت الہی کا مظہر ہے،(آپ کی حیات مبارکہ کے بعد بھی) جاری رہنے والا ہے تاکہ واضح ہو جائے کہ ہر زمانے میں دین حقیقی معنی میں اسی وقت پوری طرح اپنے اثرات مرتب کر سکتا ہے جب معاشرے میں دین کی حکمرانی ہو اور دین اقتدار میں ہو۔
اس موضوع کا دوسرا پہلو جو اتنا ہی اہم ہے یہ ہے کہ اب جب کہ یہ حاکمیت نبی کے جانے کے بعد بھی ختم ہونے والی نہیں ہے بلکہ جاری رہنے والی ہے تو یہ حاکمیت پیغمبر کی معنویت اور روحانیت سے عاری نہیں ہوسکتی۔ یہ صحیح ہے کہ پیغمبر کا ایک ممتاز اور غیر معمولی مقام و مرتبہ ہے، اور آنحضرت سے کسی کا بھی موازنہ نہیں کیا جاسکتا، مگر آپ کے وجود کا دوام، آپ ہی جیسا ہونا چاہیے۔ جس کے وجود میں وجود پیغمبر کا دوام ہے، اس کے اندر پیغمبر کے وجود مقدس کی اقدار بھی محفوظ ہونی چاہیے۔ تاریخ نبوت و ولایت کے اس اہم باب اور سلسلے میں جس کو معصوم ہونا چاہئے تھا، تاکہ انحراف نہ آسکے، یہ بات سوائے امیرالمومنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے وجود مقدس کے کہیں اور موجود اور متجلی نہیں تھی۔ واقعۂ غدیر نے ان دونوں چیزوں کو ایک ساتھ تاریخ اسلام میں ثبت کیا ہے۔ بنابریں مسئلہ غدیر کا یہ ایک پہلو ہے۔ایک دوسرا پہلو، خود امیرالمومنین علیہ السلام کی شخصیت ہے۔ایک دوسرا پہلو، اپنی رحلت کے بعد کے مسائل کے لئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اہتمام ہے۔ مسئلۂ غدیر کا ان تمام پہلووں سے جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ آج میں مسئلۂ غدیر میں، ملک کے اعلی عہدیداروں، آپ برادران و خواہران، مختلف مذاہب کے پیروکار اپنے عزیز عوام، اور عظیم امت اسلامیہ سے جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ غدیر ایک حقیقت ہے جو رونما ہوئی اور اس کا ایک مفہوم ہے اور ممکن ہے کوئی اس مفہوم کا اداراک کرے اور کوئی ادراک نہ کرے۔ ہم جو شیعہ ہیں، غدیر کا وہی مطلب سمجھتے ہیں جو ایک ہزار چار سو برسوں کے دوران بیان کیا ہے، تحقیق کی ہے، لکھا ہے، اور اس کو اپنے دل و جان میں بسایا ہے۔ دوسرے، اور دیگر اسلامی فرقے اپنے اپنے نظریات رکھتے ہیں۔
واقعۂ غدیر کے سلسلے میں دو چیزیں ہیں جن پر ایرانی معاشرے، مختلف ملکوں اور دنیا کے مختلف علاقوں میں رہنے والے تمام شیعوں کو ایک ساتھ توجہ دینی چاہیے۔ ایک یہ ہے کہ غدیر اور ولایت و امامت پر اعتقاد کو جو مذہب شیعہ کا بنیادی رکن ہے، دیگر تمام کلامی مباحث کی طرح مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا موجب نہیں ہونا چاہیے۔نہ شیعہ اور نہ ہی دوسرے اسلامی فرقے، اس مسئلے کی نسبت ایسی حساسیت کی کیفیت پیدا کریں کہ ان کے درمیان اختلاف و تفرقہ پیدا ہو کیونکہ یہ وہی چیز ہے جو دشمن چاہتا ہے۔ مسئلۂ غدیر تو ایک بڑا اور اہم مسئلہ ہے، دشمنان اسلام تو حتی ہر اسلامی فرقے اور جماعت سے متعلق چھوٹے چھوٹے مسائل سے بھی اختلاف پیدا کرنے کے لئے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
اسلامی ملکوں پر نظر ڈالیں، ہر جگہ تفرقے اندازی کے وسائل ہیں۔ کچھ لوگ واقعی اس درمیان دھوکہ کھاتے ہیں۔ فریب میں آجاتے ہیں اور دشمن کے ہاتھ کا کھلونا بن جاتے ہیں۔ آج امت اسلامیہ کو متحدہونا چاہیے۔ اتحاد و وحدت کے نقاط بہت ہیں، ہمیشہ ان پر نظر ہونی چاہئے۔
دوسری بات جس پر توجہ ضروری ہے، وہ خود واقعۂ غدیر اور حدیث غدیر کا مفہوم ہے جس سے غفلت نہیں برتنی چاہیے۔ البتہ ہم صرف شیعوں سے نہیں بلکہ تمام اسلامی فرقوں سے یہ سفارش کرتے ہیں کہ جناب اپنے غدیر کو فراموش نہ کریں ہم تمام اسلامی فرقوں سے کہتے ہیں کہ اپنے اصولوں کو فراموش نہ کریں۔ یہاں شیعوں سے تاکید کرتے ہیں کہ غدیر کی فکر پر توجہ دیں۔ یہ ایک ترقی پسند فکر ہے۔ اگر ہم کہتے ہیں کہ اسلامی اتحاد اور اس پر ڈٹے ہوئے ہیں (ہم اتحاد کے دشمنوں کے مقابلے میں وحدت اسلامی کے موضوع پر پوری قوت کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں) تو یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم اس بنیادی، نجات بخش اور ترقی پسند اسلامی مفہوم کو فراموش کردیں گے۔ غدیر کا موضوع فراموش نہیں ہونا چاہیے۔ اس لئے کہ یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ جیسا کہ عرض کیا، اگر مسئلہ غدیر پر ان دونوں پہلووں کے ساتھ جن کا گفتگو کے شروع میں ذکر کیا گيا، توجہ دی جائے تو وہ آج اسلام دنیا کو نجات دلائے گا۔ کچھ لوگ ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ ممکن ہے کہ کوئی قوم مسلمان ہو لیکن اسلامی احکام پر عمل نہ کرے۔ اس تصور کا مطلب سیاست سے دین کی جدائی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا نام مسلمان ہو لیکن آپ اسلامی احکام پر عمل نہ کریں اور بینکاری، اقتصاد اور تعلیم و تربیت کا نظام، نیز حکومت کی شکل و صورت اور آپ کے معاشرے اور افراد کا ارتباط، خلاف اسلام اور غیر اسلامی حتی اسلام مخالف قوانین کے مطابق ہو۔ البتہ یہ بات ان ملکوں کے بارے میں ہے جہاں قانون ہے، چاہے ایک ناقص انسان کی خواہش اور ارادے کے مطابق ہی کیوں نہ ہو۔ آج بعض اسلامی ملکوں میں حتی قانون بھی نہیں ہے۔ حتی غیر اسلامی قانون بھی نہیں ہے اور افراد کا ارادہ اہم ہے۔ اقتدار میں ایک شخص بیٹھا ہوا ہے اور حکم صادر کرتا ہے کہ اس طرح ہو اور اس طرح ہو۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم فرض کرلیں کہ کچھ لوگ مسلمان ہوں لیکن اور ان کے پاس اسلام کے نام پر صرف نماز، روزہ ، طہارت اور نجاست وغیرہ کی باتیں ہوں۔ جن معاشروں میں لوگ مسلمان رہنا چاہتے ہیں وہاں اسلام کی حکمرانی ہونی چاہیے۔ غدیر نے یہ پیغام دیا ہے۔ آج بہت سے معاشرے اس بات پر اعتقاد نہ رکھنے کا نقصان اٹھارہے ہیں۔ دیکھیے، واقعۂ غدیر یہاں کس حد تک الہام بخش ہوسکتا ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ بعض ممالک جو ایک طرح سے خود کو اسلامی احکام کا بہت زیادہ پابند ظاہر کرتے ہیں، اپنے مسائل کے لئے آیات اور احادیث کا حوالہ دیتے ہیں، کچھ عمامے والوں سے کام لیتے ہیں کہ جہاں ضرورت ہو وہاں ان کے حق میں فتوی دیں اور ایسا ہی کچھ کرتے رہیں، اگرچہ یہ ممالک بظاہر اسلامی حاکمیت جیسی ایک چیز رکھتے ہیں لیکن نبوی اور ولایتی اصول و معیار، علم، تقوا، انصاف، عبودیت خدا اور خشیت الہی کی اقدار کے مطابق جو انبیاء، اولیاء اور خدا کے مقرب ترین بندوں کی روش رہی ہے، اسلامی حاکمیت کی کوئی علامت ان کے معاشرے میں نہیں ہے۔ اگر زیادہ سخت اور واضح الفاظ استعمال نہ کریں تو یہ کہیں گے کہ یہ لوگ دین سے دور ہیں۔
غدیرایک ترقی پسند اور نجات بخش مفہوم ہے۔ اسلام میں ولایت ایک اعلی مفہوم ہے۔ اس کو سمجھنا چاہیے۔شیعہ کو ولایت پر افتخار کرنا چاہیے۔ غیر شیعہ کو بھی اس کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جاننے اور علمی بحث میں تو کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ یہ جانیں کہ اصل موضوع کیا ہے۔ افسوس کہ آج دشمن جو کام منصوبہ بندی کے ساتھ کررہے ہیں، ان میں ایک یہ ہے کہ شیعہ عقائد کو دنیا میں برعکس دکھائیں۔ کچھ لوگ اسی مقصد کے تحت کتاب لکھتے ہیں، پیسے لیتے ہیں تاکہ اسلامی انقلاب، اس عظیم تحریک اور اسلامی بیداری کی کشش دنیا کے لوگوں کو اپنی طرف نہ کھینچ سکے۔ آج یہ کام ہورہے ہیں۔ لہذا جو لوگ تشیع کا صحیح پیغام تشنہ دلوں اور ذہنوں تک پہنچا سکتے ہیں، انہیں یہ اہم کام کرنا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں الحمدللہ ماضی سے آج تک ولایت نے تمام پہلووں کے ساتھ اپنے اثرات مرتب کیے ہیں۔ انقلابی تحریک کے آغاز سے ہی یہ بات رہی ہے۔ ہمارے عظیم امام رضوان اللہ علیہ نے ولایت سے تمسک کے ساتھ اس انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ عاشورا و کربلا، اہلبیت علیہم السلام سے محبت، ان کے جیسا بننے کی کوشش، مظلومانہ جہاد اور اس جہاد پر صبر کا جذبہ ولایت سے متعلق اصول و تعلیمات کی خصوصیات میں سے ہے۔ اس وسیلے سے امام نے انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا اور یہ نظام تشکیل دیا۔ یقینا وہ نظام، اسلامی نظام ہے جو ولایت سے سیراب ہو اور اس کا حامل ہو۔ دشمن یہ پروپیگنڈہ نہ کریں کہ یہ ایک شیعہ انقلاب ہے، شیعوں سے مخصوص ہے اور غیر شیعوں سے متعلق نہیں ہے۔ ولایت کی خصوصیات میں سےایک یہ ہے کہ اسلامی مفاہیم آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔ ہم نے اس درس کی برکت سے جو اہلیبت نے دیا ہے، اسلامی اور قرآنی مفاہیم سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا ہے۔ شیعہ پیروان اہلیبیت ہیں۔ آج بھی الحمد للہ اسی طرح ہے۔ ہمارے عوام میں دوستوں، مظلومین و محرومین، فلسطین کے عوام اور یورپ نیز دنیا کے ديگر علاقوں کے مظلوموں کے لیے یہ جو محبت و عطوفت کا جذبہ ہے، یہ بنیادی طور پر شیعی اور ولایتی جذبہ ہے۔
یہ اشک، یہ بیان مصائب، یہ محرم اور عاشورا ہمارے عوام کی زندگی اور ان کی فکر و جذبات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ وہ خشکی اور کھوکھلاپن جو افسوس کہ معاشروں اور حکومتوں میں عوام کو غیر شیعہ ہی نہیں شیعہ دشمن بناتا ہے، الحمد للہ کہ ہمارے معاشرے میں نہیں ہے۔ ہمارا معاشرہ محبت و عطوفت کے جذبوں سے سرشار ہے۔
دشمن کے مقابلے میں استقامت بھی ولایت کی خصوصیات میں سے ہے۔ اس لیے کہ ہمارے ائمہ اسوۂ استقامت ہیں۔ کربلا سے لے کر ان امام زادوں تک جنہوں نے سخت ترین حالات میں بھی استقامت سے کام لیا اور شہادت کے درجے پر فائز ہوئے، علی بن موسی الرضا علیہ آلاف و التحیۃ والثناء، جنہوں نے سیاست الہی سے کام لے کر دشمن سے جنگ کی اور موسی بن جعفر علیہ الصلاۃ والسلام سے لے کر جنہوں نے برسوں قید و بند کی سختیاں برداشت کیں، تمام ائمہ اور فرزندان امام رضا علیہم السلام تک جنہوں نے طویل برسوں تک جلاوطنی کی سختیاں اور طرح طرح کی تکلیفیں خدا کے لئے برداشت کیں، ان ڈھائی سو برسوں کے دوران ہمارے ائمہ کے درمیان شروع سے لے کر آخر تک یہ استقامت موجود رہی ہے۔ ہمارے عوام نے ان سے درس لیا ہے لہذا آپ دیکھتے ہیں کہ ہمارے عوام استقامت سے کام لیتے ہیں اور یہی استقامت انہیں کامیابی سے ہمکنا کرتی ہے۔
ہمارے عوم نے سامراج، امریکا اور اس کی دھمکیوں کے مقابلے میں استقامت کی۔ جب مشرق و مغرب کے دونوں بلاک اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف متحد ہوگئے تھے، ہمارے عوام نے استقامت کی، خود نہ جھکے بلکہ دشمن کو جھکایا۔ آج بھی امریکا کی دھمکیوں ، دشمنوں کی گوناگوں سازشوں، حیلوں اور نفاق کے مقابلے میں جو کوشش کرتے ہیں کہ خود کو انسانی حقوق کا طرفدار ظاہر کریں جبکہ خود انسانی حقوق کے مخالف اورحقیقی دہشتگرد ہیں، ڈٹے ہوئے ہیں اور خدا کے فضل سے ان کے دشمنانہ پروپیگنڈوں اور دشمنیوں کے مقابلے میں کامیاب بھی ہوں گے۔یہ سب ولایت کی برکتیں ہیں۔ یہ جذبہ ہمارے معاشرے اور عوام کے دلوں کو ولایت نے عطا کیا ہے۔
دعا ہے کہ خداوندعالم آخری عمر تک ہمیں ولایت کے ساتھ زندہ رکھے۔ ہمیں ولایت کے ساتھ اس عالم میں لے جائے۔ ہمیں ائمہ علیہم السلام کی ولایت کے ساتھ محشور فرمائے۔
پالنے والے! ہمارے عوام پر ولایت کی برکتیں نازل کر۔
پالنے والے! ہمارے عظیم امام کی، جو ولایت کے عظیم مدرس تھے، روح مطہر کو شاد فرما۔
پالنے والے! اپنا فضل وکرم ان تمام لوگوں کے شامل حال فرما جو دین اور دینی تعلیمات کی راہ میں سعی و کوشش کرتے ہیں۔
پالنے والے! یادگار امام ( فرزند امام ) رضوان اللہ علیہ کو جو ہمارے درمیان نہیں ہیں، ان کے پدر بزرگوار اور اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

1- زمر - 30