تہران میں حسینیہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ میں قائد انقلاب اسلامی نے اس عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ماضی کی پسماندگیوں کی تلافی اور ملت ایران کو شایان شان علمی مقام تک پہنچانے کے لئے بلند ہمتی، عزم و ارادے اور مستقبل کے تئیں پرامید رہنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ پیشرفت اور خوشبختی کی بلندیوں پر پہنچنے کے لئے مربوط مساعی، عزم و ارادے اور مستقبل کے تئيں پرامید رہنے کی ضرورت ہے اور ملت ایران گزشتہ تیس برسوں میں ثابت کر چکی ہے کہ اس میں تیز رفتار ترقی کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے سن دو ہزار نو میں صدارتی انتخابات کے بعد رونما ہونے والے فتنے کا حوالہ دیتے ہوئے اس فتنے کا مقصد صحیح نعروں کے پیرائے میں انحرافی باتوں کی تشہیر کے ذریعے عوام کو گمراہ کرنا قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ ملت ایران نے گزشتہ سال تیس دسمبر کو برجستہ طور پر سامنے آنے والے اپنے رد عمل کے ذریعے فتنہ پروروں کو شکست دے دی اور ان کے منہ پر زوردار طمانچہ بھی رسید کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے تیس دسمبر دو ہزار نو کو اسلامی نظام کی حمایت اور فتنہ پرور عناصر کی مذمت میں نکلنے والے ملک گیر جلوسوں کو قوم کی بیداری و شعور کا شاخسانہ قرار دیا اور فرمایا کہ ملت ایران کے دشمن اور وہ لوگ جو اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ عوام کو اسلامی نظام سے دور کر سکتے ہیں، تیس دسمبر کے قوم کے پیغام کو ذہن نشین کر لیں اور یاد رکھیں کہ یہ نظام خود عوام کا ہے اور عوام ہی اس اسلامی نظام کے اصلی محافظ ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

عزیز بھائیو اور بہنو! گیلان کے محبتی اور مخلص عوام کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے حضرات! آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ خاص طور پر شہدا کے اہل خانہ اور پاک سرشت نوجوانوں اور مجاہدین کا خیر مقدم کرتا ہوں۔
آپ نے بڑے حوصلے کا مظاہرہ کیا کہ اتنی کثیر تعداد میں شہر رشت سے یہاں اس اجلاس کے لئے تشریف لائے۔ ماضی بعید کی تاریخ ہو یا عصری تاریخ، متعدد مواقع پر ہم نے گیلان کے عوام کی ہمت و شجاعت کے جوہر دیکھے ہیں۔ میری نظر میں گیلان کے عوام کا ایک سب سے بڑا کارنامہ یہ رہا کہ برسوں تک (شاہ کی) طاغوتی حکومت نے اس علاقے کے رہنے والوں کے دین و ایمان کا خاتمہ کر دینے کے لئے قول و عمل دونوں سطح پر وسیع پروپیگنڈے کئے لیکن اس علاقے کے عوام نے اپنے ایمان کو، اپنے اخلاص کو، میدان عمل میں اپنی موجودگی کو اور اپنے جہاد کو اس مقام تک پہنچا دیا کہ اس صوبے کا شمار ملک کے نمایاں صوبوں میں ہونے لگا۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ شاہ کی مفسد و فاسد اور زیاں کار حکومت نے اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے عوام کو اخلاقی دیوالیئے پن اور بے راہروی میں مبتلا کرنے اور ماحول کو آلودہ کرنے کے لئے کوششیں کیں لیکن عوام نے اپنے دین و ایمان اور عزم و ارادے کی حفاظت و پاسبانی کی اور موقع پڑنے پر اس کا زبردست مظاہرہ بھی کیا۔ ایک طرف طاغوتی حکومت سازشوں میں مصروف تھی تو دوسری جانب ملحد اور دین دشمن گروہ کے عناصر۔
اوائل انقلاب میں میرا رشت جانا ہوا۔ شہید عضدی مرحوم نے شہر رشت کے بڑے اسکوائر کے ارد گرد مجھے گھمایا۔ گوناگوں گروہوں نے اپنے بینروں اور اپنے نعروں سے تمام جگہوں کو بھر دیا تھا۔ انہوں نے یونیورسٹی پر بھی قبضہ کر لیا تھا اور یہ سمجھنے لگے تھے کہ گيلان تو ان کا ہو گيا۔ گیلان کے با ایمان عوام، یہی مومن و انقلابی نوجوان بغیر کسی ادارے اور تنظیم کی مدد کے میدان میں اتر پڑے اور انہوں نے وہاں پرچم اسلام، پرچم توحید اور پرچم انقلاب بلند کیا اور ان تمام عناصر کو وہاں سے نکال باہر کیا۔ یہ ہے عوام کے ایمان کا عالم۔
یہ بات اپنی جگہ پر مسلمہ ہے کہ گیلانی عوام کی شجاعت و مجاہدت کا حقیقی مظہر شہید بزرگوار میرزا کوچک خان جنگلی ہیں، جہنوں نے اسلام کے لئے، قرآن کے لئے، دین کی بالادستی کے لئے، جارح طاقتوں اور اغیار کے مقابلے کے لئے، بڑے دشوار حالات میں قیام کیا، ان کی قربانیوں کو ہرگز فراموش نہیں کیا جانا چاہئے۔ لیکن اسلامی انقلاب کے دوران جن لوگوں نے گیلان میں مختلف میدانوں میں الگ الگ مثالیں قائم کیں انہوں نے ثابت کر دیا کہ یہاں صرف ایک ہی دو لوگ نہیں ہیں۔ گيلان کی یہ قدس بٹالین، گیلان کے یہ بسیجی (رضاکار) یہ با ایمان نوجوان، گيلان کے یہ دانشور اور مفکرین، گیلان کے یونیورسٹیوں سے وابستہ حلقے، بزرگ علمائے کرام، ان سب نے مختلف ادوار میں بڑے نمایاں کردار ادا کئے ہیں۔ کئی معیاری کارنامے انجام پائے ہیں، مقدس دفاع کے دوران بھی، انقلاب مخالف عناصر کا مقابلہ کرنے کے دوران بھی، جنگ کے بعد کے دور میں بھی۔ اگر کوئی انہیں شمار کرنا چاہے تو ایک طویل فہرست تیار ہو جائے گی۔ ایک بالکل سامنے کی نمایاں مثال تیس دسمبر (دو ہزار نو) کو انجام پانے والے کارنامے کی ہے کہ ایرانی قوم کس طرح برجستہ طور پر میدان میں اتر پڑی؟! گيلان ان چند مراکز میں ایک تھا جہاں ایک دن قبل ہی عوام الناس متحد ہوکر میدان میں وارد ہو گئے تھے۔ انتیس دسمبر کو ہی جس کی آج سالگرہ ہے گیلان کے عوام نے اپنی بصیرت، اپنے عزم و ارادے، اپنی آگاہی و بیداری اور میدان میں قدم رکھنے کے تعلق سے اپنی فرض شناسی کا ایک دن پہلے ہی ثبوت پیش کیا۔ یہ چیز محفوظ رکھی جانی چاہئے۔ یہ چیزیں قوم کا اہم سرمایہ ہوتی ہیں۔ یہ بصیرت، بیداری و آگاہی اور عزم و ارادے کی علامتیں ہیں۔
میرے پیارے بھائیو اور بہنو! میرے عزیزو! ہماری قوم ایک طرف ملک کے بد عنوان حکام کے ہاتھوں اور دوسری جانب دنیا پر تسلط قائم کرنے کے لئے کوشاں سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں چکی میں پس رہی تھی۔ ہمیں پسماندگی میں مبتلا رکھا گیا۔ درخشاں تاریخ اور علمی ماضی کے لحاظ سے ہماری قوم ایسی قوم نہیں ہے کہ اگر دانشوروں، سائنسدانوں، علمی کارناموں اور خدمات کی فہرست تیار کی جائے تو یہ قوم فہرست میں بہت نیچے رہے۔ ہماری قوم سرفہرست نظر آئے گی۔ یہ ہے ہمارا ماضی اور یہ ہیں ہماری صلاحیتیں۔ جن لوگوں نے ایسے اقدامات کئے کہ عظیم مملکت ایران، مہذب و متمدن ایران، اسلامی جوہر سے آراستہ ایران علم و دانش اور مادی و معنوی میدانوں میں پیچھے رہ جائے انہوں نے اس قوم کے ساتھ بہت بڑی خیانت کی ہے، بہت بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ اسلامی انقلاب نے آکر ان لوگوں کے ہاتھ باندھ دئے۔
ہمیں یہ راستہ طے کرنا ہے۔ ہمیں اپنے حوصلے بلند رکھنے ہیں۔ ہمیں ان باتوں اور تعلقات کی نوعیت کو بدل کر رکھ دینا ہے جن کی وجہ سے ہماری قوم سمیت دنیا کی قومیں پسماندگی کا شکار ہو گئيں۔ ہمیں ماضی کی پسماندگی کی تلافی کرنی ہے۔ اس کے لئے حوصلے اور ہمت کی ضرورت ہے، عزم و ارادے کی ضرورت ہے، پر امید رہنے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی قوم اپنے مستقبل کی طرف سے مایوس ہو جائے، یا نئے راستے بنانے اور منزل مقصود کی طرف بڑھنے کی اس کی ہمت ٹوٹ جائے تو وہ قوم پیچھے رہ جائے گی، پیشرفت نہیں کر پائے گی، دنیا کی تسلط پسند طاقتیں اس پر غلبہ حاصل کر لیں گی، اس کا وقار خاک میں مل جائے گا۔ ملت ایران کو اپنی اس ہمت اور اپنے اس حوصلے کو باقی رکھنا ہے، اسے اپنے عزم و ارادے کو محفوظ رکھنا ہے، اسے اپنی یہ امید روز بروز قوی تر کرنی ہے۔ ہمارے ملک میں یہ نعمت موجود ہے۔ بحمد اللہ ہمارے عوام کے اندر یہ خصوصیت ہے جس کا انہوں نے مظاہرہ بھی کیا ہے۔ ہم ان تیس برسوں میں اس سے کئی گنا زیادہ آگے پہنچ چکے ہیں جتنی ایک قوم تیس سال میں ترقی کرتی ہے۔ اس کا اعتراف ہمارے دشمنوں نے بھی کیا ہے۔ ہمارے نعرے عالمی نعرے ہیں، ہمارے نعرے عالم انسانیت پر مرکوز ہیں، ہمارے نعرے ملک اور قوم کو سامراجیوں کی دستبرد سے دور رکھنے پر مرکوز ہیں، سامراجی طاقتیں اسے برداشت نہیں کر پاتیں جس کی وجہ سے سازشیں رچتی ہیں۔
گزشتہ سال کا فتنہ دشمنوں کی سازشوں کا ہی شاخسانہ تھا۔ یہ حقیقتا ایک فتنہ تھا۔ فتنہ کا مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگ حقانیت پر مبنی نعروں کو باطل مندرجات کے ساتھ پیش کریں اور اس طرح عوام الناس کو گمراہ کرنے کی کوشش کریں۔ بہرحال وہ لوگ کامیاب نہیں ہو سکے۔ فتنہ کا مقصد ہوتا ہے عوام الناس کو گمراہ کرنا لیکن آپ غور کیجئے کہ ہمارے عوام اس فتنے کے خلاف خود بخود اٹھ کھڑے ہوئے۔ تیس دسمبر ( کو ملک گیر عوامی جلوس) فتنہ پرور عناصر کے منہ پر زوردار طمانچہ تھا۔ یہ کام عوام نے خود بڑھ کر کیا۔ یہ عوامی اقدام جیسا کہ کہنے والوں نے اور بزرگ شخصیات نے بار بار کہا، بالکل برجستہ اور از خود کیا جانے والا اقدام تھا۔ اس میں بڑی خاص بات مضمر ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ عوام بیدار ہیں، پوری طرح ہوشیار ہیں۔ ہمارے دشمنوں کو یہ پیغام سمجھ لینا چاہئے۔ جو لوگ اس خام خیال میں ہیں کہ عوام اور اسلامی نظام کے درمیان خلیج پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے وہ توجہ دیں اور اس حقیقت کا ادراک کرنے کی کوشش کریں کہ یہ نظام خود عوام کا نظام ہے، اس کا تعلق عوام سے ہے، ہمارے نظام کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ یہ پوری طرح عوام کا نظام ہے۔ اس ملک میں اس جمہوری نظام کو، اسلام کو اور اس لہراتے پرچم کو جن لوگوں نے اپنی پوری توانائی سے اٹھا رکھا ہے وہ خود عوام الناس ہیں۔ ہمارے دشمنوں کو اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہئے۔ سامراجی ممالک اور ان میں سرفہرست امریکا کے حکام ہماری قوم کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں، سازشیں کر رہے ہیں، کبھی نعرے بازی کرتے ہیں، کبھی گمراہ کن بیانات دیتے ہیں، کبھی آشکارا طور پر معاندانہ حرکتیں کرتے ہیں اور کبھی ڈھکے چھپے انداز میں اپنی بات کہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں ایران کے حالات اور ایرانی عوام کی صحیح شناخت نہیں ہے۔ ہماری قوم ایک بیدار قوم ہے، پوری طرح ہوشیار قوم ہے۔
میری گذارش ہے، میری تاکید ہے کہ قوم اپنے اس حوصلے کو اسی طرح بلند رکھے۔ ہم نے اس سال کو بلند ہمتی کے سال سے موسوم کیا اور خوش قسمتی سے ملک بھر میں مختلف امور میں بلند ہمتی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ ملک کے عہدہ دار، ذمہ دار افراد، مختلف محکموں کے حکام بڑے اہم کام انجام دے رہے ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے، بلند ہمتی بہت ضروری ہے تاہم بلند ہمتی کی یہ ضرورت صرف اسی سال تک محدود نہیں ہے۔ یہ بلند ہمتی اسی طرح قائم رہنی چاہئے۔ ہمارے عوام کو اس انداز سے آگے بڑھنا چاہئے اور اس انداز سے بلند چوٹیوں کو سر کرنا چاہئے کہ دشمن طاقتیں ہماری قوم کی تقدیر اور اس کے مستقبل کو اپنے قبضے میں لینے کی طرف سے پوری طرح مایوس ہو جائیں اور قوم ان کے شر سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائے۔ ملک میں رونما ہونے والے فتنہ میں ملوث بعض افراد کا سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ انہوں نے دشمن کی امید بندھا دی۔ دشمن کو پھر یہ امید ہو گئی کہ وہ عوام کے درمیان، مختلف افراد کے درمیان، نظام کے حکام کے درمیان دراندازی کر سکتا ہے۔ ان لوگوں کی حرکت سے دشمن کی امیدیں بڑھ گئیں۔ جبکہ پرشکوہ انتخابات، یہ زبردست پولنگ، انتخابات میں عوام کی پرشکوہ شرکت بہت سے کاموں کو آگے بڑھا سکتی تھی اور بہت سے سیاسی میدانوں میں ملت ایران کو کامیابیاں عطا کر سکتی تھی۔ لیکن ان لوگوں نے بلوے کرکے دشمن کے اندر یہ امید جگا دی کہ انقلاب پر ضرب لگائی جا سکتی ہے، وار کیا جا سکتا ہے حالانکہ اس سے قبل دشمن مایوس ہو چکا تھا۔
بہت بڑا چیلنج تھا۔ ایک طرف دشمن، فتنہ پرور عناصر کی حمایت کر رہا تھا، سیاسی مدد کر رہا تھا، ان کے نام لے رہا تھا اور دوسری طرف ملت ایران میدان میں پوری ثابت قدمی سے کھڑی ہوئی تھی۔ جس طرح آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران ملت ایران نے اپنی خلاقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا، اپنی شجاعت کے جوہر دکھائے، اپنے ایثار و فداکاری کا ثبوت پیش کیا، ہر موقعے پر اپنا کردار ادا کیا، اس نرم جنگ میں بھی آٹھ مہینے کے دوران ملت ایران نے واقعی اپنی مہارت کا لوہا منوایا۔ انسان جب ان مسائل پر نظر ڈالتا ہے اور وسیع تر زاویہ نگاہ کے ساتھ ان مسائل کا جائزہ لیتا ہے تو ششدر رہ جاتا ہے۔ یہ کیسا دست قدرت الہی تھا جس نے ہمارے دل و جان کو اپنے خاص اہداف کی جانب مرکوز کر دیا؟! یہ کار خدا ہے۔ اللہ آپ کے ساتھ ہے۔ وہ قدم قدم پر آپ کی رہنمائی کر رہا ہے۔ یہ خدا ہی ہے جو ہمارے اور آپ کے دلوں کو صحیح راستے کی جانب متوجہ کر دیتا ہے۔
ہمیں اللہ تعالی سے اپنا رابطہ برقرار رکھنا اور اسے مزید مستحکم بنانا چاہئے۔
الہی اقدام کی خاصیت یہی ہوتی ہے۔ توکل علی اللہ اور خضوع و خشوع سے لبریز قلوب کے ساتھ عوام کے یہ بلند حوصلے، عوام کے اقدامات، عوام کے عزم و ارادے اور ان کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
ہمیں اللہ تعالی سے اپنا رابطہ مستحکم تر بنانا چاہئے۔ ہمیں اپنے دلوں کو ایسی سمت میں مائل ہونے سے روکنا چاہئے جو ہمیں راہ خدا سے دور کر دے۔ «ربّنا لاتزغ قلوبنا بعد اذ هديتنا و هب لنا من لدنك رحمة»؛(1) یہ دعا ہمیں قرآن نے سکھائی ہے۔
جائے شکر ہے کہ ہمارے نوجوان اپنے پاکیزہ دلوں کے ساتھ، اپنے نورانی قلوب کے ساتھ، مختلف (معنوی) پروگراموں میں اپنی شرکت سے رحمت الہی کے نزول کے اسباب فراہم کرتے ہیں۔ نزول رحمت الہی کے اسباب میں سے ایک سبب یہ تیس دسمبر کا کرنامہ بھی تھا۔ سید الشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام کے ذکر کی برکت سے عوام میدان میں وارد ہوئے اور فتنہ پروروں کی بساط لپیٹ دی گئی۔
اس وقت ہمیں بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، پوری طرح بیدار رہنے کی ضرورت ہے، اپنے حوصلے میں کوئی کمی نہ آنے دیں۔ ملک کے حکام کے دوش پر یہ فریضہ ہے۔ باخبر حلقے جو معاشرے کے مسائل اور امور سے آگاہ ہیں ان پر زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ تمام عوامی طبقات پر ذمہ داریاں ہیں۔ آپ سب اللہ تعالی کے لطف و کرم پر تکیہ کیجئے۔ اللہ کی ہدایت پر یقین رکھئے اور جان لیجئے کہ اللہ تعالی نے ہماری عزیز قوم کے لئے بہت اچھا اور درخشاں مستقبل یقینی بنا دیا ہے۔ ہمیں کوشش کرکے خود کو اس انجام اور سرنوشت تک پہنچانا ہے۔
پروردگارا! محمد و آل محمد کے طفیل میں اس قوم پر اپنے الطاف کا نزول فرما۔ پالنے والے! ہمارے عزیز شہدا کی ارواح کو اور ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح طیبہ کو جنہوں نے ہمیں اس راستے سے روشناس فرمایا اپنے اولیاء کی ارواح کے ساتھ محشور فرما۔ پالنے والے! جو افراد عوام کی خدمت کر رہے ہیں انہیں ماجور و مثاب فرما اور ہمارا درود و سلام ہمارے امام زمانہ سلام اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچا۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌

1) آل عمران: 8