بسم اللہ الرحمن الرحیم
 
تمام بھائیوں اور بہنوں، بالخصوص ان لوگوں کو جو دور سے تشریف لائے ہیں، شہیدوں کے کنبے والے ، عزیز غازیوں ، اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے جنگي معذوروں ، دشمن کی قید سے آزاد ہونے والے سپاہیوں اور ان کے گھرانے والوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ خدا وند عالم سے آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کے لئے توفیق کی دعا کرتا ہوں ۔ ہمارا آج کا اجتماع ملک کے مختلف علاقوں کے شہیدوں کے اہل خاندان اور راہ خدا میں فداکاری اور ایثار کرنے والے دیگر حضرات کی شرکت سے بہت اہم اور پرشکوہ ہوگیا ہے۔
وہ نکتہ جسے پوری ایرانی قوم کو ایک لمحے کے لئے بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے، یہ ہے کہ ہم ایرانی قوم کو خدا وند عالم نے بہت ہی عظیم نعمت عطا کی ہے۔ ظلم اور برائیوں کے دور میں ، ایسے زمانے میں کہ جب سامراجی طاقتیں، دنیا کے لوگوں پر انواع و اقسام کا دباؤڈال رہی ہیں، ایذائیں دے رہی ہیں، استعمار کر رہی ہیں، انہیں بیوقوف بنا رہی ہیں اور مختلف طریقوں سے استکباری دباؤ کا نشانہ بنارہی ہیں، ایسے دور میں کہ اقوام سامراجی تسلط کے مقابلے میں دم مارنے کی بھی جرائت نہیں کرتی ہیں اور دولت و طاقت کے دیو نے دنیا پر اپنا تسلط پھیلا رکھا ہے ، ایسے سخت ، تاریک اور وحشتناک دور میں اس قوم نے خدا کے نام سے قیام کیا، خدا کی یاد کے ساتھ مجاہدت کی ، خدا کے کلمات کو اپنے زندگی کے لئے معیار قرار دیا، قرآن اور تعلیمات الہی کو خدا کے ایک برگزیدہ بندے یعنی ہمارے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی زبان سے سنا اور اس پر عمل کیا اور دنیا میں ایک مثالی قوم بن کے سامنے آئی ۔
آج آپ ایک مثالی قوم ہیں۔ بہت سی اقوام ایسی ہیں جنہوں نے آپ کو نمونہ عمل بنایا ہے ۔ آپ کے طریقوں کا مطالعہ کرتی ہیں اور آپ کی دلیری کو سراہتی ہیں۔ یہ عظیم نعمت ہے جو خدا وند عالم نے آپ کو عطا کی ہے۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد طویل مجاہدت کے ان سخت برسوں میں ہماری قوم نے بشریت کی خدمت کی ۔ آپ نے دنیا میں بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھول دیں۔ ان سامراجی طاقتوں نے پرچم معرفت کو اتار دیا تھا۔ دنیا میں خدا کے نام ، انسانی فریضے، اخلاق ، معنویت اور دین کی کوئی خبر نہیں تھی۔ آپ نے ان کو زندہ کیا اور خدا کے نام کو عظمت اور اسلام کو عزت دینے کے لئے سخت جدوجہد قبول کی ۔
آج اگرچہ سامراجی طاقتیں ایک ایسے میدان میں گھوڑے دوڑا رہی ہیں جہاں ان کا کوئی مد مقابل اور رقیب نہیں ہے لیکن دنیا میں حالت یہ ہوگئ ہے کہ بڑی سامراجی طاقتیں بھی اقوام کے دینی اور معنوی جذبات سے ڈرتی ہیں۔ امریکا کی خودسر اور بے لگام طاقت کے مقابلے میں وہ واحد چیز جو ڈٹ گئی ہے ، مزاحمت کررہی اور امریکا کو خوفزدہ کر رہی ہے یہی انسانوں کی دینی بیداری ہے۔خاص طور پر اسلامی علاقوں میں یہ دینی جذبہ اور معنوی رجحان بہت سی اقوام کے اندر پیدا ہوگیا ہے ۔ یہ آپ کا کارنامہ ہے ۔ یہ آپ کی مجاہدت کا نتیجہ ہے۔
ایرانی قوم نے اپنے جوہر کو دکھا دیا۔ یہ تحریک جو ایرانی قوم نے شروع کی اور الحمد للہ پوری قوت کے ساتھ جاری ہے، روز بروز اقوام کو زیادہ بیدار اور زیادہ ہوشیار کرے گی، انہیں ان کے فرائض سے زیادہ آگاہ کرے گی اور انہیں سپر طاقتوں کی دشمنی سے زیادہ واقف کرے گی۔ ایرانی قوم کا مستقبل بھی انشاء اللہ درخشاں ہے ۔ جو قوم بھی اس جذبے کے ساتھ آگے بڑھے ، اس کا مستقبل درخشاں ہوگا۔ یہ نعمت الہی ہے ۔ اس نعمت کا شکر ادار کرنا ضروری ہے ۔
جو چیز ہمیں بھولنا نہیں چاہئے اور ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے، یہ ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ اس دور میں ہمارا فریضہ کیا ہے اور اس نعمت الہی کے بدلے میں ہمیں کیا کرنا چاہئے ۔ آج ایرانی قوم کا عظیم فریضہ معنوی جہاد اور جہاد اکبر ہے ۔
نبی اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جنگ سے واپس آنے کے بعد جس میں آپ کو فتح حاصل ہوئی تھی اور مسلمان خوش تھے کہ انہیں بڑی کامیابی ملی ہے، ان سے فرمایا کہ آپ چھوٹے جہاد سے واپس آئے ہیں اب بڑے جہاد کا وقت ہے۔ مسلمانوں نے تعجب کا اظہار کیا اور کہا کہ اتنا سخت جہاد، اتنی دور کا راستہ ، ایسی گرمی ، اتنا بڑا دشمن جس کو شکست دیکے ہم واپس آئے ہیں اور یہ چھوٹا جہاد ہے؟ تو یا رسول اللہ بڑا جہاد کیا ہے؟ فرمایا اپنے نفس سے جہاد، یہ بڑا جہاد ہے۔
ہم ایرانی قوم کو اپنے نفس کی طہارت پر توجہ دینی ہے ۔ اپنے آپ کو سنواریں۔ خود کو طاہر اور پاکیزہ کریں۔ اپنے نفسوں کو خدا سے آشنا کریں۔ یہ جہاد، ہر دشمن سے چاہے وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہوظاہری جہاد سے بڑا ہے۔ تمام انبیائے الہی انسانوں کو سنوارنے کے لئے آئے تھے۔ اس کو میں سے نجات دلانے کے لئے آئے تھے۔اس کو باطنی وسوسوں کے شر سے بچانے کے لئے آئے تھے۔ یہ شجاعت اور یہ قوت ہمارے اندر ہونی چاہئے کہ ہم اپنے باطنی وسوسوں اور اپنے نفس کی خواہشات پر غلبہ حاصل کرسکیں۔ اس شیطان کے خلاف جو ہمارے اندر ہے اور اس کا نام میں ہے مجاہدت کریں ۔
ہم میں سے ہر ایک کے اندر ، ہمارے اپنے وجود میں ایک شیطان ہے ، جو وہی ہمارا میں ہے ۔ وہی ہماری انا ہے ۔ ہماری خود پسندی ہے ، ہماری نفسانی خواہشات ہیں۔ ہمیں اس شیطان سے کون سی چیز بچا سکتی ہے؟ سوائے دینی ارادے، مضبوط ایمان اور اس دل کے جو پاک ہو اور اخلاق الہی سے آشنا ہو؟ اس کے لئے بہت زیادہ شجاعت اور طاقت کی ضرورت ہے۔ اس مجاہدت کے لئے ہر بیرونی دشمن سے مقابلے سے زیادہ شجاعت کی ضرورت ہے۔
جو لوگ بڑے دشمنوں سے مقابلے میں کامیاب ہوتے ہیں، کچھ لوگوں کو خاک نشین کردیتے ہیں اور کچھ طاقتوں کو مٹادیتے ہیں،ان کی سب سے بڑی مشکل اپنے نفس سے مجاہدت ہوتی ہے۔ یہ غرور جو ہمارے اندر پیدا ہوجاتا ہے ، یہ نفسانی خواہشات جو ہمارے اندر پیدا ہوتی ہیں، ہم پر یاد خدا سے جو غفلت طاری ہوجاتی ہے ، یہ اندرونی شیطان ہے ۔ اس کا علاج ہمیں کرنا ہے۔
انسان کو سب سے زیادہ نقصان اپنی نفسانی خواہشات اوراپنے غرور سے پہنچتا ہے ۔ انسان کی ذلت کی وجہ بھی یہی ہے ۔ یہی انسان کے تکبر کی جڑ بھی ہے۔ سامراجی طاقتوں اور فرعونوں نے بھی اسی غرور اور نفس کی اطاعت سے نقصان اٹھایا ہے اور جو لوگ فرعونوں کے تابع ہوئے وہ بھی اسی نفس کی وجہ سے ان کے مطیع ہوئے ۔
لوگ طاغوتوں کے خلاف مجاہدت پر کیوں تیار نہیں ہوتے ؟ کوئی امریکا سے جنگ کرنے کی جرائت کیوں نہیں کرتا؟ انہیں اس سے کون سی چیز روکتی ہے؟ یہی اندرونی شیطان۔ یہی جو چاہتا ہے کہ دو دن زیادہ زندہ رہ لے۔ آرام کی زندگی گزارے اور آرام سے کھائے پیئے۔
ماضی میں بہت سے دانشور اور معاشرے کی ممتاز ہستیاں سامراجی طاقتوں کی حلقہ بگوش اور مطیع کیوں ہوئیں؟ اور اب بھی مختلف ملکوں میں ایسا کیوں ہے؟ اس لئے کہ وہ اپنے نفس کے غلام اور آرام و آسائش کے اسیرہیں۔ جو لوگ آرام و آسائش اور نفسانی ہواوہوس کے اسیر ہیں ، وہ اگر عالم و دانا ہوں تو ان کا خطرہ اور نقصان زیادہ ہے ۔ ان کی لغزش زیادہ خطرناک ہے ۔
خدا وند عالم قران کریم میں بلعم وباعورا کی مثال بیان کرتا ہے۔ ولکنہ اخلد الی الارض واتبع ہواہ (1) وہ انسان جو تعلیمات الہی سے واقف تھا، لیکن زمین سے چپک گیا یعنی دو دن زیادہ زندہ رہنے اور آرام سے کھانے پینے کے لئے ، اس زمین کی زندگی نفسانی خواہشات اور ہواوہوس کا اسیر ہوگیا جس کا نتیجہ یہ پست کام تھا۔
وہ حکومتیں بھی جو سامراجی طاقتوں کے مقابلے میں کچھ نہیں بولتیں اور اپنی اقوام کا دفاع نہیں کرتیں، اپنے نفس کی اسیر ہیں اور دو دن زیادہ حکومت کرنے اور دو دن زیادہ تخت پر باقی رہنے کی خواہشمند ہیں اور جو لوگ سامراجی طاقتوں کے مقابلے پر نہیں اٹھتے ہیں وہ بھی ایک لقمہ کھانے کے اسیر ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ ایک لقمہ انہیں آسانی سے ملتا رہے ۔ ان کے لئے اور کوئی چیز اہم نہیں ہے۔ یہ بھی نفس کے اسیر ہیں۔ بنابریں دیکھئے، جہاد اکبر یہ ہے ۔ اگر کوئی قوم عزت و شرف کے راستے ، خدا کے راستے ، بہتر زندگی کے راستے اور مادی و دینی اقدار کے راستے کو طے کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنے نفس پر غلبہ حاصل کرنا ہوگا۔
آج ہماری قوم بڑے تجربات سے گزر چکی ہے۔ لیکن ہم میں سے ہر فرد ، اس قوم کے ایک ایک فرد اور سب سے زیادہ خود مجھے اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں اپنے نفس کے خلاف جد وجہد کرنی چاہئے ۔ اپنے اندر کے شیطان سے جنگ کرنی چاہئے تاکہ اس باعظمت اور باشرف راہ یعنی پیغمبروں کا راستہ طے کرنے کے لئے خود کو تیار کریں ۔ یہ سب سے بڑی شجاعت ہے۔
یہ نہ سمجھیں کہ دشمنان اسلام ، اسلام کی دشمنی سے دستبردار ہوگئے ہیں۔ جی نہیں' روز بروز سازشوں میں زیادہ مصروف ہورہے ہیں انہیں جگہ ملے تو ہر لمحہ ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں۔ انہیں موقع نہیں دینا چاہئے۔ البتہ اگر ان سے کہا جائے کہ یہ خیانت اور یہ جرم کرنا اور یہ تسلط حاصل کرنا چاہتے ہو تو انکار کرتے ہیں ، لیکن اگر موقع مل جائے تو ایک محاذ اور ایک مورچہ آگے آئیں گے۔ دشمن ایسے ہیں ۔
جس دن امریکا نے اس علاقے میں اپنے فوجی اتارے، ہم نے ان کی باتوں سے محسوس کیا کہ یہ، یہ نہیں چاہتے کہ اس علاقے میں آئیں ، کچھ کریں اور چلے جائیں۔ بلکہ یہ اس علاقے میں چوکیدار بننا چاہتے ہیں۔ ہم نے کہا کہ یہ اس علاقے میں آکے رہنا چاہتے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ یہ اہم ، حساس اور بنیادی اہمیت کا علاقہ جس کی پوری دنیا آئندہ چند برسوں میں محتاج ہوگی، اپنے تسلط میں لینا چاہتے ہیں۔ خلیج فارس ، دنیا کے لئے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ چاہتے ہیں کہ یہ علاقہ ان کا اور ان کی نگرانی میں رہے۔ ہم نے اس دن یہ باتیں کہیں لیکن امریکی شخصیات نے فورا انٹرویو دیا اور ان میں سے ایک دو نے اپنی تقاریر میں اور انٹرویو میں کہا کہ نہیں ہم کویت میں رہنا نہیں چاہتے ۔ ہم واپس جائیں گے۔ آج دیکھیں کہ کویت میں اڈہ تعمیر کررہے ہیں۔ یہاں باقی رہنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ اس دن جھوٹ بول رہے تھےاور آج بھی جھوٹ بول رہے ہیں۔ ان کا وجود اور ان کی سیاست جھوٹ پر استوار ہے ۔
وہ جھوٹ بولتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اسلام کے خلاف نہیں ہیں۔ اسلام کے خطرناک دشمن وہی ہیں ۔ جھوٹ بولتےہیں جو انسانی حقوق کی طرفداری کرتے ہیں، انسان اور انسانی حقوق کی سب سے بڑی دشمن یہی سامراجی اور شیطانی طاقتیں ہیں۔ جھوٹ بولتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم علاقے کی اقوام کی دشمنی کا ارادہ نہیں رکھتے۔ اس علاقے کی اقوام کو اپنا اسیر اور غلام بنانا چاہتے ہیں۔ جھوٹ بولتے ہیں جوبار بار کہتے ہیں کہ ہم ایران سے محبت کرتے ہیں اور ایران سے روابط برقرار کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ماضی کی طرح ایران پر حکومت کریں اور وہی ماضی کی بساط پھر ایران میں بچھائیں۔
گزر گیا ( وہ زمانہ) یہ قوم وہ قوم نہیں ہے۔ اس قوم کو اسلام نے بیدار کردیا ہے۔ یہ وہ قوم ہے کہ جہاں بھی اور جس اقدام میں بھی، سامراجی طاقتوں کی خواہش اور ارادے کا احساس کرے گی ، اس کے مقابلے پر ڈٹ جائے گی اور اب تک سامراج کے مقابلے پر ڈٹی ہوئی ہے۔ اس کے بعد بھی ڈٹی رہے گی اور خدا کی مہربانی اور اس کی قدرت و طاقت پر توکل کے ساتھ کا میاب بھی ہوگی۔ یہ دنیا کے شیطانوں کی حالت ہے۔
اسلامی اقدار سے اس سے زیادہ تلخ اور بڑا مذاق اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ امریکی دعوا کریں کہ انسانی حقوق کے طرفدار ہیں۔ فلسطینیوں کی حالت کو دیکھئے۔ فلسطینیوں کے خلاف ان کی سازش دیکھئے۔ کیا یہ انسانی حقو ق کے طرفدار ہوسکتے ہیں؟ اقوام کے دلوں میں خون جوش ماررہا ہے۔اقوام کے بیدار اور ہوشیار لوگ فریاد بلند کرنا چاہتے ہیں۔ بولنا چاہتے ہیں۔یہ چاہتے ہیں کہ سامراجی طاقتوں کے خلاف پرچم مخالفت بلند ہو اور یہ اس کے پیچھے چل پڑیں۔ یہ پرچم آج آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کو پوری قوت سے باقی رکھئے۔
ہماری قوم کو راہ انقلاب میں، راہ اسلام میں، عالمی لٹیروں ، سرکشوں اور سامراج کے خلاف جدوجہد کی راہ میں پائیدار رہنا چاہئے۔ ہوشیار رہنا چاہئے۔ متحد رہنا چاہئے۔ ایران کی عظیم قوم کے اتحاد میں ایک لمحے کے لئے بھی کوئی خلل نہیں آنا چاہئے۔ آپ میں ہر ایک ملک میں جہاں بھی ہے، ہوشیاری اور بیداری کے ساتھ پہلے اسلام اور انقلاب کے دفاع میں اپنے فریضے کو سمجھئے اور پھر مخلص اور خدمتگزار حکام کے ساتھ ملک کی تعمیر کی راہ میں سامراج کے مقابلے پر ڈٹ جائیں ، خدا آپ کی نصرت کرے گا۔
دعا ہے کہ خدا وند عالم آپ سب کو توفیق عنایت فرمائے ۔ہمارے شہداء کی ارواح طیبہ کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرمائے، ہمارے جنگی معذوروں کو شفا مرحمت فرمائے، انہیں اور ان کے گھر والوں کو صبرعنایت کرے، انشاء اللہ ہمارے جنگی قیدیوں اور لاپتہ افراد کے تعلق سے اچھی خبریں آپ سب تک پہنچائے اور اپنا لطف و کرم آپ سب پر نازل فرمائے۔
 
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

1- اعراف 176