آپ نے فرمایا کہ علاقے کی قوموں کے مسائل اور مشکلات کا حل ملکوں اور قوموں کے مستقبل کو شیطان بزرگ امریکہ کی دست برد سے محفوظ رکھنے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت با سعادت کو انسانی زندگی کی درخشاں صبح سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ زمانہ گزرنے کے ساتھ جیسے جیسے انسان کا شعور و ادراک عمیق سے عمیق تر اور اس کی صلاحیتیں کامل تر ہوں گی انسانی معاشروں کی تقدیر اور مستقبل کے سلسلے میں بعثت پیغمبر اسلام کی سعادت بخش برکتیں اتنی ہی زیادہ آشکارا ہونگی۔ چنانچہ آج علاقے میں اس حقیقت کی علامات کا بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نےعلاقے کے بعض ممالک منجملہ مصر اور تیونس میں نظر آنے والی اسلامی بیداری کو تحقیر، تاریکی اور مظالم سے قوموں کا پیمانہ صبر لبریز ہو جانے اور اس سے نجات حاصل کرنے کے لئے ان کے اقدامات کی علامت قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ ملکوں کے سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور سماجی امور میں استکباری طاقتوں اور ان میں سر فہرست امریکہ کی مداخلتوں اور تسلط پسندی سے قوموں کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا اور انہوں نے راہ حل کی تلاش شروع کر دی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے مغربی ممالک میں بھی عوام کی قابل لحاظ تعداد کی مادہ پرستانہ مکتب فکر سے بیزاری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر مسلمان اپنی رفتار و گفتار سے اسلام کو صحیح طور پر دنیا میں متعارف کرانے میں کامیاب ہو جائيں تو یقینی طور پر اسلام کی جانب عمومی رجحان دنیا پر چھا جائیگا۔ لہذا اس نکتے کی بنیاد پر اپنی فکر اور عملی زندگی کی اصلاح کی مسلمانوں کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے استکباری طاقتوں سے بیزاری کو علاقے کی بعض قوموں میں پیدا ہونے والی بیداری کا اولیں نتیجہ قرار دیا اور فرمایا کہ امریکی خود کو اس عظیم تحریک کی زد سے دور رکھنے کی بڑی کوششیں کر رہے ہیں لیکن انہیں کامیابی نہیں مل سکتی کیونکہ قوموں کو معلوم ہو چکا ہے کہ امریکہ اور اس کے مہروں کی پالیسیاں قوموں کی تحقیر اور ان کے باہمی اختلافات و تفرقے کی بنیادی وجہ ہیں لہذا مسلمانوں کی مشکلات کا حل علاقے سے امریکہ کی بساط لپیٹ دئے جانے میں مضمر ہے۔

قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

میں پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے فرزند گرامی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی آپ تمام حاضرین، اس نشست کے مہمانوں، عظیم ملت ایران، تمام امت اسلامیہ اور دنیا بھر کے حق پسند اور آزاد منش انسانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
نبی اکرم کی ولادت، انسانی زندگی میں ایک درخشاں صبح کا آغاز ہے۔ اس ولادت کے ساتھ ہی الہی بشارتیں اس دور کے لوگوں کی نظروں کے سامنے عملی شکل میں سامنے آئيں۔ سلاطین جرم و جور کے محلوں کے کنگورے ٹوٹ کر گر گئے۔ آتشکدے ٹھنڈے ہو گئے۔ قدرت الہی کی برکت سے دنیا کے مختلف خطوں میں مذہب کے نام پر پھیلی خرافاتیں ختم ہوئیں۔ یہ ولادت تمہید تھی بعثت نبی کے لئے اور بعثت نبی رحمت تھی تمام دنیا والوں کے لئے۔ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے؛ وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین (1) پوری کائنات اس وجود مقدس سے مستفیض ہوئی اور ہوتی رہےگی۔ دنیا میں انسان نے جو ترقیاں کی ہیں، جو علمی پیشرفت حاصل ہوئی ہے، اطلاعات و معلومات کے جو نئے نئے باب کھلے ہیں، جو عظیم انکشافات ہوئے ہیں وہ سب اس عجیب و غریب تاریخی دور میں نور اسلام کی ضوفشانی کی برکتیں ہیں۔ یہ نعمت نوع بشر کو عطا کر دی گئی۔ اگر انسان کے اندر فہم و ادراک کی قوت اور زیادہ ہوتی، اس کی معرفت و دانائی اور عمیق تر ہوتی اور وہ پیغمبر کو کما حقہ پہچان لیتا، اسلام کو سمجھ لیتا اور اس کے پیغام کی حقیقت سے آشنا ہو پاتا تو آج تاریخ بشریت کے صفحات کسی اور شکل میں نظر آتے۔ ہم انسانوں کی جہالت، ہم مٹی کے مکینوں کی تنگ نظری نے ہمیں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ یقینا جیسے جیسے تاریخ آگے بڑھےگی اور انسان کا فہم و ادراک وسیع تر ہوگا، یہ آفتاب نصف النہار اتنا ہی زیادہ ضوفشاں ہوگا اور اس روح پرور اور حیات بخش نور سے اور بھی استفادہ کیا جائے گا۔ ہم آج اس کے آثار کا بخوبی مشاہدہ کر رہے ہیں۔
اب دنیا مادی تہذیب و تمدن کے مسلط کردہ عادات و اطوار سے تھک چکی ہے اور کسی راہ نجات کی متلاشی ہے۔ آج مصر اور تیونس جیسے بعض اسلامی ممالک میں اسلامی بیداری کی شکل میں جو چیز آپ کی نظروں کے سامنے ہے وہ انسانیت کی اسی کیفیت کا نمونہ اور علامت ہے۔ جب انسانی زندگی پر شیطانوں کا غلبہ ہو جائے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ شیاطین انس، شیاطین جن سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں، اگر عوام الناس کی سماجی زندگی، ذاتی زندگی، ان کی معیشت اور ان کی فکر و نظر میں بھی دنیا کی استکباری طاقتوں کی مداخلتیں شروع ہو جائیں اور انہیں گمراہ کرنے کی کوششیں شروع ہو جائیں تو زندگی کی فضا تاریک ہوکر رہ جاتی ہے۔ یہ وحشت ناک اندھیرا انسانی فطرت کے لئے سازگار نہیں ہے۔ آخرکار انسانی فطرت بیدار ہوکر رہےگی اور آج دنیا میں یہی ہو رہا ہے۔ مغربی دنیا بھی جو مادی طاقتوں کی اسیر ہے، اب تھک چکی ہے۔ ہم مسلمان اگر اسلام کو صحیح طور پر متعارف کرانے میں کامیاب ہو پاتے، اگر ہم اپنے اعمال کو اسلامی بنا پاتے تو یقینی تھا کہ دنیا میں اسلام کی جانب رجحان کی ایک ہمہ گیر لہر پیدا ہو جاتی۔ کمزوری خود ہمارے اندر ہے، عیب خود ہمارے اندر ہے، قرآن اور پیغمبر کے سب سے پہلے مخاطب افراد خود ہم ہیں۔ ہمیں اپنی اصلاح کرنا چاہئے، خود کو درست کرنا چاہئے۔
آج اسلام کی برکت سے قومیں بیدار ہو چکی ہیں۔ آج عالم اسلام کی سطح پر یہ بیداری نمایاں ہو چکی ہے۔ اس بیداری کا سب سے پہلا نتیجہ علاقے میں استکباری طاقتوں کے وجود سے بیزاری ہے۔ امریکی وسیع پیمانے پر تشہیراتی مہم چلاکر اس کوشش میں ہے کہ اس وقت بعض اسلامی ممالک میں اٹھنے والی عظیم الشان عوامی تحریکوں کی زد سے خود کو دور رکھیں، لیکن یہ ممکن نہیں ہے۔ ان تحریکوں کا پہلا نشانہ علاقے میں استکباری طاقتوں کا تسلط ہی ہے۔ جس چیز نے قوموں کی توہین اور تحقیر کی ہے وہ یہی استکباری تسلط ہے۔ جو چیز مسلمان قوموں کی سد راہ بنی اور وہ ایک دوسرے کی جانب دست دوستی دراز نہ کر سکیں، ایک دوسرے کو سمجھ نہیں سکیں، اپنی طاقت کو یکجا نہیں کر سکیں اور امت اسلامیہ کی حقیقی تصویر سامنے نہیں آ سکی وہ اس علاقے میں استکبار کی سازشیں اور مداخلتیں ہیں، اب اس کی بساط لپیٹ دی جانی چاہئے۔ قوموں کو استکبار کے تسلط اور دخل اندازی سے نجات حاصل ہونا چاہئے، گلو خلاصی ہونی چاہئے۔ یہ اس علاقے کی مشکلات کا حل ہے۔ قوموں اور عوام کی مشکلات، حکومتوں کو در پیش مسائل، وہ حکومتیں جو اپنی قوم سے اور اپنے عوام سے دور ہو چکی ہیں، ان کی وجہ استکباری طاقتوں اور ان میں سر فہرست امریکہ کی دراندازی ہے۔ چنانچہ علاقے کی مشکلات کا حل یہ ہے کہ قومیں بیدار ہوں، حکومتیں بیدار ہوں اور شیطان بزرگ (امریکہ) کو قوموں کی سرنوشت سے متعلق امور میں دخل دینے کا موقع نہ دیں اور اسے دور بھگا دیں۔
علاقے میں امریکہ کی مشرق وسطی اسٹریٹیجی کے نتیجے میں قومیں اپنی حکومتوں سے برگشتہ ہو گئی ہیں۔ حکومتوں اور قوموں کے درمیان خلیج پیدا ہو گئی ہے۔ اگر قوم حکومت کے ساتھ ہو تو کوئی طاقت اس ملک پر غلبہ حاصل نہیں کر سکتی۔ کوئی بھی طاقت قوموں کا مقالبہ کرنے پر قادر نہیں ہے۔ آج بعض اسلامی ممالک میں جو چیز رونما ہو رہی ہے وہ ہے علاقے میں، میدان عمل میں اور میدان مجاہدت میں قوموں کی آمد۔ جب قومیں میدان میں اتر پڑتی ہیں تو بڑی طاقتوں کے خنجر کند ہو جاتے ہیں۔ بڑی طاقتیں قوموں سے تحکمانہ لہجے میں بات نہیں کر سکتیں۔ یہ طاقتیں اپنے زرخریدوں کو، اپنے قریبی عناصر کو عوام پر مسلط کر دیتی ہیں اور یہ عناصر عوام سے تحکمانہ لہجے میں بات کرتے ہیں۔ جب یہ عوام میدان میں وارد ہو گئے ہیں تو اگر حکومتیں ان کے ساتھ ہو جائیں تو ان حکومتوں کو زبردست پشت پناہی حاصل ہو جائے گی۔ یہی علاقے کی مشکلات کا حل ہے۔
اس وقت علاقے میں جعلی صیہونی حکومت کینسر کا پھوڑا ہے جس نے پورے علاقے کو بیماری اور بلاؤں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ استکباری طاقتوں کی پوری کوشش یہ ہے کہ علاقے میں اس سرطانی پھوڑے کو باقی رکھیں۔ علاقے میں کینسر کے اس پھوڑے کا وجود ہی جنگ، اختلافات، گروہ بندی اور غلط پالیسیوں اور اقدامات کی اصلی وجہ ہے۔ اسے بچائے رکھنے اور علاقے میں اپنی پوزیشن کی حفاظت کے لئے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ آج ہم اسی چیز کے اثرات اور عواقب کا قوموں کے رد عمل کی صورت میں مشاہدہ کر رہے ہیں۔ جب قومیں بیدار ہو گئی ہیں تو اس صورت حال کو وہ برداشت نہیں کریں گی۔
ہمارا خیال ہے کہ آج بعض اسلامی ممالک میں جو تحریکیں دیکھنے میں آ رہی ہیں، وہ ان قوموں کے ساتھ استکباری طاقتوں کے ایک عرصے سے جاری تحقیر آمیز روئے پر ان قوموں کا رد عمل ہے۔ آج ان قوموں کو موقعہ ملا ہے تو وہ میدان میں اتر پڑی ہیں۔
علمائے دین، سیاسی شخصیات اور علمی حلقوں کی ذمہ داریاں بہت سنگین ہیں۔ اس وقت ان ملکوں میں عوام کو ان ہستیوں کی رہنمائی اور ہدایت کی ضرورت ہے۔ خواہ وہ سیاسی ہستیاں ہوں، علمی شخصیات ہوں، مذہبی قیادت ہو یا یونیورسٹی سے وابستہ حلقے، ان کے دوش پر بڑی سنگین ذمہ داریا ہیں۔ انہیں چاہئے کہ سامراج کو اس بات کا موقعہ ہرگز نہ دیں کہ وہ اپنے گوناگوں وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے قوموں کی اس عظیم تحریک کو سبوتاژ کر لے، عوام کے قیام کو یرغمال بنا لے۔ انہیں بہت چوکنا رہنا چاہئے۔ انہیں چاہئے کہ بلند اہداف کی جانب جو ہر ملک کے اندر الگ الگ انداز سے پائے جاتے ہیں، عوام الناس کی رہنمائی کریں۔ اگر یہ کام انجام پا گیا تو علاقے کا مستقبل تابناک ہوگا، امت اسلامیہ کا مستقبل روشن ہو جائے گا۔
دنیا میں ہماری تعداد ڈیڑھ ارب ہے اور ہم سوق الجیشی محل وقوع، قدرتی وسائل اور زمین دوز ذخائر کے لحاظ سے دنیا کے حساس ترین خطے میں موجود ہیں لیکن پھر بھی دوسروں کے محکوم ہیں، دوسرے ہماری تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں، ہمارے تیل کا فیصلہ کرتے ہیں، یہ حالت تبدیل ہونا چاہئے اور یقینا تبدیل ہوگی۔ آج ہم اس کے آثار صاف طور پر دیکھ رہے ہیں۔ یہ اسلام کی برکت سے پیدا ہونے والی اسلامی بیداری ہے۔
اسلام اپنے پیروکاروں کی اسی انداز سے تربیت کرتا ہے؛ «و الّذين معه اشدّاء على الكفّار رحماء بينهم تريهم ركّعا سجّدا يبتغون فضلا من اللَّه و رضوانا سيماهم فى وجوههم من اثر السّجود» (1) یہ امت اسلامیہ کی علامتیں ہیں۔ یہ وہی روحانیت ہے جو ان کے وجود میں پائی جاتی ہے۔ یہ توکل، یہ اللہ کی جانب توجہ، یہ اللہ کی بارگاہ میں خضوع و خشوع۔ یہ مومن و مسلمان انسان کی خصوصیتیں ہیں۔ اسلام اسی انداز سے انسان کی پرورش اور تربیت کرتا ہے۔ وہ انسان اللہ تعالی کی بارگاہ میں سجدہ ریز، برادران ایمانی کے ساتھ رحمدل اور مہربان اور اسلامی بھائی چارے کا مظہر ہوتا ہے لیکن استکباری طاقتوں کے سلسلے میں، ظالموں کے خلاف، ثبات کا کہسار بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ «و مثلهم فى الانجيل كزرع اخرج شطئه فأزره فاستغلظ فاستوى على سوقه».(3)
یہ امت اسلامیہ کے ارتقائی مراحل ہیں۔ وہ معرض وجود میں آتی ہے، نشونما کے مرحلے سے گزرتی ہے اور بالیدگی کی منزل میں پہنچ جاتی ہے، مستحکم بن جاتی ہے۔ «يعجب الزّرّاع»؛(4) خود وہ لوگ جنہوں نے اس کے لئے زمین ہموار کی ہے ششدر رہ جاتے ہیں۔ یہ دست قدرت الہی ہے جو انسانوں کو اس طرح ارتقاء عطا کرتا ہے۔ «ليغيظ بهم الكفّار»؛(5) استکباری دشمن جب دامن اسلام میں تربیت پانے والے اس مسلم انسان کو دیکھے گا تو طے ہے کہ خشم آلود ہوگا، پیچ و تاب کھائے گا۔ ہمیں اس طرح عمل کرنا چاہئے، تہذیب نفس کرنا چاہئے، خود کو قرآنی مزاج کے مطابق ڈھالنا چاہئے، اپنے دوستوں کے سلسلے میں، مخالفین کے سلسلے میں، دشمنوں کے سلسلے میں اور سامراجی طاقتوں کے تعلق سے اپنے اخلاق کو، اپنے عادات و اطوار کو قرآنی تعلیمات کے مطابق ڈھالنا چاہئے۔ اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے کہ اس انداز سے زندگی بسر کرنے والوں کو اجر و پاداش عطا کرے گا۔ یہ اجر دنیا میں بھی ملے گا اور آخرت میں بھی حاصل ہوگا۔ دنیا میں عزت ملے گی، الہی نعمتیں حاصل ہوں گی جو اس نے انسانوں کے لئے قرار دی ہیں اور آخرت میں رضائے پروردگار اور بہشت الہی کا تحفہ ملے گا۔
یہ وہ راستہ ہے جسے آپ ایرانی عوام نے چنا ہے، جس پر آپر گامزن ہیں، رواں دواں ہیں اور توفیق الہی سے آپ کا یہ سفر آئندہ بھی جاری رہے گا۔ خوش قسمتی سے آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ عالم اسلام کے گوشہ و کنار میں دوسری مسلمان قومیں بھی رفتہ رفتہ اسی راستے کی سمت بڑھ رہی ہیں۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ و العاقبة للمتّقين (6) اگر ہم تقوا کو اپنا شیوہ بنا لیں تو یہ طے ہے کہ سرانجام فتح امت اسلامیہ کی ہوگی اور یہ کامیابی اگر اللہ تعالی نے چاہا تو زیادہ دور نہیں ہے۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو، امت اسلامیہ کو بالخصوص اس امت کے بااثر افراد اور ممتاز شخصیات کو وجود پیغمبر اسلام کی برکتوں اور قرآن کی تعلیمات سے کما حقہ بہرہ مند ہونے کی توفیق عنایت فرمائے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ ہمیں یہ نیا راستہ دکھانے والے ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) پر اس راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے عزیز شہیدوں پر اپنی رحمت واسعہ نازل فرمائے۔

و السّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌

1) انبياء: 107
2) فتح: 29
3) همان‌
4) همان‌
5) همان‌
6) اعراف: 128