قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ضروری ہے کہ میں ان برادران عزیز کا جنہوں نے پورے ملک میں ایک سنگین ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی ہے، شکریہ ادا کروں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ایسے خدمت گزار جو توقع کم رکھتے ہیں، دعوا کم کرتے ہیں اور کام زیادہ کرتے ہیں۔ تعلیم و تربیت کا کام کرنے والے آپ تمام حضرات، وہ برادران بھی جو دفتری اور مینجمنٹ کے امور انجام دیتے ہیں اور وہ حضرات بھی جو قوم کے بچوں کی تعلیم و تربیت میں براہ راست مشغول ہیں، واقعی بڑی سنگین ذمہ داری آپ نے اپنے اختیار سے اپنے کندھوں پر اٹھارکھی ہے اور ان مشکلات کے باوجود جن کی طرف جناب ڈاکٹر نجفی نے اشارہ کیا ہے، اس دشوار راستے کو طے کررہے ہیں اور الحمد للہ بہت اچھی طرح طے کر رہے ہیں۔
تعلیم وتربیت کی اہمیت کے بارے میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو آپ نہ جانتے ہوں اور میں عرض کروں۔ امر واقعہ وہی ہے جو ہم سب جانتے ہیں۔ یعنی ملک کا مستقبل آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ ملک کا مستقبل ملک کے محکمۂ تعلیم و تربیت اور معلمین کے ہاتھوں میں ہے۔ بہترین افراد اور آمادہ ترین لوگ اسلامی تعلیم وتربیت کے لئے آپ کے اختیار میں ہیں۔
انقلاب ایسا واقعہ ہے جو دنیا کے ایک گوشے میں رونما ہوتا ہے اور اس کے معجزاتی آثار بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ اس واقعے کی بقا، دوام اور برکات براہ راست انسانوں کی تربیت سے تعلق رکھتی ہیں۔ اگر عالم اور صالح انسان ہوں جو انقلاب کے پیغام کو درک کریں، اس کی حفاظت کریں، اس پر عمل کریں اور اس راہ اور جہت پر چلیں تو انقلاب زندہ اورباقی رہے گا اور اس کے نتائج سامنے آئیں گے۔ اگر خدا نخواستہ جس فضا اور ماحول میں انقلاب آیا ہے، اس میں انسانوں کی صحیح تربیت نہ ہو تو، تربیت کے حقیقی اصولوں کا نظر انداز کر دیا جائے، اسلامی ماحول میں اسلامی تربیت پر توجہ نہ کی جائے، مختصر یہ کہ ایسے انسان جو باخبر بھی ہوں، ہمدرد بھی ہوں، احساس ذمہ داری بھی رکھتے ہوں، مہارت بھی رکھتے ہوں اور خوش اخلاق بھی ہوں، تیار نہ کئے جائیں تو یقینا وہ بنیادی اساس بھی خطرے میں پڑ جائے گی اور ضائع ہو جائے گی۔
آپ دنیا میں جو دیکھتے ہیں کہ کسی دور میں انسان کی کوششیں ظاہر ہوئیں اور جوش میں آئیں لیکن پھر کوشش کم ہوگئیں یا زائل ہوگئیں، یا برعکس ہوگئیں، یا جہتیں بدل گئیں، اس کی وجہ آگاہی، فکر، ارادے، صحیح تربیت اور جذبے کی کمی ہے۔ یعنی ہر انسان میں بنیادی صفت تربیت ہے۔ ہمیں تربیت سے ایسے انسان تیار کرنے ہیں اور ان کے اندر یہ صفات وجود میں لانی ہیں۔ یہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ یعنی بنیاد آپ رکھتے ہیں بالخصوص نوجوانی اور آغاز جوانی کی عمر میں، بچے محکمہ تعلیم و تربیت کے اختیار میں ہوتے ہیں۔
میرے خیال میں آج ہمیں تعلیم و تربیت میں جس چیز پر سب سے زیادہ توجہ دینی چاہئے وہ اعتقاد اسلامی اور عمل اسلامی ہے جس کو طلبا میں زندہ کرنا ضروری ہے۔ یہ کام اس طرح ہونا چاہئے کہ اگر بے اعتقاد اور اسلامی اعتقاد اور اسلامی عمل پر توجہ نہ رکھنے والے گھرانے کا بچہ اسکول اور محکمۂ تعلیم و تربیت کے زیر اثر ماحول میں آئے یا ایسے گھرانے کا بچہ آئے کہ اسلامی افکار و عمل اسلامی کی نسبت اس گھرانے کا اعتقاد اور توجہ بری نہ ہو لیکن والدین جہالت اور فکر کی کمی کے باعث بچوں پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو یہاں اس خلاء کو پر ہونا چاہئے۔ یعنی یہ بچہ علم، عمل اعتقاد ہر لحاظ سے ایک متدین انسان بنے۔ کوشش یہ ہونی چاہئے۔
البتہ ہم سب جانتے ہیں کہ اسلامی انسان صرف وہی نہیں ہے جس کا اعتقاد اور عمل اسلامی ہو بلکہ اسلامی اخلاق بھی بنیادی رکن ہے۔ ورنہ اگر کوئی انسان محکم اسلامی عقائد رکھتا ہو اور عمل یعنی نماز اور روزے وغیرہ کابھی پابند ہو لیکن حاسد ہو، کنجوس ہو، بزدل ہو، بد خواہ ہو، بے حوصلہ ہو اور بے ارادہ ہو تو یہ انسان مسلمان انسان نہیں ہے۔ مسلمان انسان کو تینوں پہلووں میں، تربیت میں بھی، علم میں بھی اور عمل میں بھی کام کرنا چاہئے۔ البتہ ایک اعتبار سے ان تینوں کا تعلق عمل سے ہے۔ اعتقاد بھی ایک طرح کا عمل ہے۔ عمل قلبی ہے۔ بہرحال مقصود واضح ہے۔
اسکولوں اور کالجوں میں بھی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہمارے بچے دینی لحاظ سے، اعتقاد میں بھی، تربیت اور اخلاق میں بھی، عبادت اور عمل میں بھی مسمان بنیں۔ یہ ہمارے کام کی بنیاد اور علاج ہے۔ البتہ علم دوستی اسلامی تربیت کا جز ہے۔ یعنی اگر ہم اسلامی اخلاق کو پھیلانا چاہیں تو یہ بھی اس میں ہے۔ علمی مدارج میں پیش رفت بھی آپ کے کام میں شامل ہے جس پر توجہ ہونی چاہئے۔ علوم کی تقسیم بندی، ترجیحات کا تعین اور یہ طے کرنا کہ ان پانچ برسوں اور دس برسوں میں ہمارے اکثر طلبا کو کن علوم پر زیادہ توجہ دینی ہے، یہ سب آپ کے فنی مسائل اور کام ہیں جن سے آپ زیادہ واقف ہیں۔ یہ ہمارے کام کا علاج ہے یعنی ہمارے بچے اسلامی جذبے اور اسلامی ضمیر کے ساتھ تربیت پائیں۔ یہ ضرورت آج واضح ہے۔
یہ جو ثقافتی یلغار کی بات کی اور کہا کہ آپ اس یلغار کے مقابلے میں اگلی صف میں ہیں، یہ حق بات ہے اور میں اس بات کو قبول کرتا ہوں۔ اس لئے کہ ثقافتی یلغار نئی نسل کو بے اعتقاد کرنے کے لئے کی جارہی ہے۔ دین سے بھی بے اعتقاد کرنے اور انقلابی اصول اور اس فعال تفکر سے بھی بے اعتقاد کرنے کے لئے جس سے سامراج خوفزدہ ہے اور جس نے سامراجی طاقتوں کی قلمرو کے لئے خطرات پیدا کردیئے ہیں۔
آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج الجزائر(2) میں اور اسلامی علاقوں میں اسلام کے مقابلے میں کیسی کھلی، پر تشدد اور دشمنانہ صف بندی ہے۔ یہ سب ہمارے لئے عبرت انگیز ہے۔ ہم اسلامی انقلاب کے مجموعے کے اندر، ممکن ہے کہ بعض امور کو جو کلی ہیں اور اسلامی مسائل پر محیط ہیں، صحیح طور پر محسوس نہ کر سکیں۔ لیکن دور سے کسی علاقے کو دیکھتے ہیں تو بعض کلی مسائل ہمارے لئے بہت واضح اور روشن ہیں۔
دیکھئے آج سامراج اور وہ تباہ کن حملہ آور ثقافت اسلامی ملکوں میں کیا کررہی ہے اور کس طرح صف آرائی کررہی ہے۔ تمام اسلامی ملکوں میں عوام اسلام چاہتے ہیں۔ یہ حقیقت کسی ایک ملک سے مخصوص نہیں ہے۔ جس اسلامی ملک سے بھی آپ نزدیک ہوں، دیکھیں گے کہ ایسا ہی ہے۔ ہم اقوام سے آشنا ہیں۔ جانتے ہیں کہ اقوام اسلام کی طرف جھکاؤ رکھتی ہیں۔ یعنی اقوام کی بڑی اکثریت اسلام اور اسلامی زندگی چاہتی ہے لیکن اس کو موقع نہیں ملا کہ اپنی اس خواہش کا اظہار کرے۔ یا اس کو اس کا موقع دیا نہیں گیا۔ ہرجگہ یہ خواہش ہے اور یقینا ایک دن اس کے اظہار کا موقع بھی ملے گا۔
جہاں بھی اسلام منظر عام پرآتا ہے اور عوام اظہار کرتے ہیں کہ اسلام چاہتے ہیں وہاں آپ دیکھیں کہ کس طرح سخت مورچہ بندی کرتے ہیں۔ البتہ ہمیں یقین ہے کہ الجزائر کے عوام سرانجام اسلام کو اور اپنے اس مقصد کو کہ اسلام کی حکومت ہو، حاصل کرکے رہیں گے اور یہ سازشیں جو اس وقت وہاں ہورہی ہیں اور براہ راست سامراج بالخصوص امریکا کی نگرانی میں اور اس کی ہدایت پر انجام دی جارہی ہیں، ناکام ہوں گی۔ یہ ایک قوم کے ارادے کے سامنے زیادہ عرصے تک با قی نہیں رہ سکتے۔ چند دنوں تک جولان کریں گے لیکن یہ جولان انہیں عوام کے قلبی ارادے کے مقابلے میں باقی نہیں رکھ سکتا۔ البتہ شرط یہ ہے کہ عوام انشاء اللہ استقامت دکھائیں اور وہ مزاحمت کریں گے۔
یہ واقعہ ہمارے لئے تجربہ اور عبرت ہے۔ ان فی ذلک لعبرۃ ( 3) جب وہ ایسے اقدام کے مقابلے میں جو رجحان کی عکاسی کرتا ہے اور ابھی کوئی باہری اثر سامنے نہیں آیا ہے لیکن چونکہ مستقبل انہیں نظر آرہا ہے، اس طرح دشمنی اور صف آرائی کرتے ہیں تو آپ دیکھیں کہ جس ملک میں اسلام، اسلامی جمہوری نظام کی شکل میں متجلی ہوچکا ہے، اس کے وہ کتنے سخت دشمن ہوں گے اور اس کو نابود کرنےکے لئے انواع و اقسام کے طریقوں سے کام لینے کے لئے کس طرح تیار ہوں گے۔ ابتدائے انقلاب سے آج تک ہم اس سے دوچار ہیں۔ اس وقت بھی تمام شعبوں میں، اقتصادی، ثقافتی، سیاسی، تمام شعبوں میں عملا ہم اس سے روبروہیں۔ ہمیں ہر جگہ خود کو مسلح کرنا ہے اور خود کو مسلح کرنے کی ایک اہم ترین تدبیر یہ ہے کہ ہم اس سرزمین کے بچوں اور نوجوانوں کو اسلامی تربیت کے ساتھ بڑا کریں۔
میں سمجھتا ہوں کہ نصاب کی کتابوں کی تیاری، ٹیچروں کی ٹریننگ اور تعلیم و تربیت کے مختلف کاموں کے شعبوں، تربیت کرنے والوں کے کاموں اور اسکولوں اور کالجوں کے اندر نگرانی میں محکمۂ تعلیم و تربیت کے منصوبوں اور پروگراموں کا محور یہ ہوگا کہ دیکھیں کہ اسلامی تفکر منتقل ہورہا ہے یا نہیں۔ تعلیم گاہوں میں اسلامی اصولوں پر انسان سازی اور بچوں کوحقیقی مسلمان بنانے کا کام ہورہا ہے یا نہیں؟ اس جہت میں جو بھی کمی ہو اس کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
البتہ ہمارے ملک میں تعلیم وتربیت ایک قدیمی ادارہ ہے لیکن اس کا حساب کتاب شروع سے صحیح رہا ہو، ایسا نہیں تھا۔ یہاں ابتدائے کار میں تعلیم و تربیت کی بنیاد بھی دیگر ثقافتی اداروں کی طرح، صحیح نہیں رکھی گئي۔ آپ مجاہدت کررہے ہیں جو یہ صحیح بنیاد وجود میں لا رہے ہیں۔ بنابریں آپ کے سامنے مشکلات بہت ہیں۔ ان مشکلات کا سامنا کریں اور اس کو راہ خدا میں جہاد سمجھیں۔ اس بات پر بھی توجہ رکھیں کہ آپ کا کام جہادی ہے۔ ملک کے تمام معلمین بھی جہاں بھی ہیں، اس نکتے پر توجہ رکھیں کہ واقعی آپ کا کام راہ خدا میں جہاد اور مجاہدت ہے۔ اس میں سختیاں اور مشکلات ہیں جنہیں آپ کو برداشت کرنا ہے۔ اگرچہ حکومت کو بھی آپ کی مشکلات کو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
انتخابات (4) کے سلسلے میں میں صرف ایک جملہ عرض کروں گا۔ تمام اداروں کا فریضہ ہے کہ کوشش کریں کہ انتخابات صحیح طورپر منعقد ہوں۔ صحیح انتخابات، ظاہر ہے کہ کیسے انتخابات ہیں۔ ایک بار میں نے عرض کیا کہ غلط اور برے انتخابات صرف وہی انتخابات نہیں ہیں جن میں جعلی ووٹ بیلٹ باکسوں میں ڈالے جائیں۔ ظاہر کہ اسلامی جمہوری نظام میں، جس طرح نگرانی ہوتی ہے، اس میں اصولی طور پر یہ چیز ممکن نہیں ہے، یا کم سے کم آسانی سے ممکن نہیں ہے۔ انتخابات کا صحیح ہونا یہ ہے کہ انتخابات عوام کی قلبی رائے اور تشخیص کا مظہر ہوں اور درحقیقت کوشش ہونی چاہئے کہ آگاہی اس حدپر ہو کہ یہ تشخیص، صحیح تشخیص ہو۔
ممکن ہے کہ انتخابات کے دوران، کسی گوشۂ وکنار میں، لوگوں کے افکار اور آراء کو منحرف کرنے کے لئے، حقائق کو برا دکھانے کے لئے، انتخابات کو اس نہج پر لے جانے کے لئے جو مغرب والوں میں رائج ہے--- جہاں پیسے کے ذریعے، مہنگے پروپیگنڈوں کے ذریعے اوران لوگوں کو جن کے نفس کمزور ہیں، خرید کے، ووٹ کسی امیدوار، کسی دھڑے، کسی گروہ اور کسی پارٹی کے حق میں کردیئے جاتے ہیں، یہ کام تو بہت سے ملکوں میں رائج ہے--- تشہیراتی کام ہوں اور بعض وسوسے پیداکئے جائیں۔ یہ نہیں ہونا چاہئے۔ یعنی لوگ آگاہی کے ساتھ فکر کریں۔ جب انتخابات صحیح ہوں تو یہ درحقیقت تجدید بیعت ہے جو وہ شخص انجام دیتا ہے اور یہ بہت اہم اور اچھی چیز ہے۔ تعلیم و تربیت کا محکمہ بھی اس حد میں رہتے ہوئے جو سرکاری طور پر یا غیر سرکاری طور اس کے ذمے ہے، چونکہ تعلیم و تربیت کا محکمہ عوام کے مختلف طبقات کے درمیان نوجوانوں میں خاندانوں میں، اس سے زیادہ کردار ادا کرسکتا ہے جو سرکاری طور پر اس کو دیا جائے، انشاء اللہ کوشش کرے کہ یہ کام بہترین طریقے سے انجام پائے۔
یہ نکتہ ابھی میرے ذہن میں آیا ہے اور آپ کی (5) رپورٹ میں بھی اس کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا گیا ہے، واقعی بہت اچھے کاموں میں سےایک فنی اور ٹیکنیکل کالجوں کا مسئلہ ہے جس پر کام ہونا چاہئے۔ بچے واقعی آئیں اور جلد از جلد کام کے بازار میں داخل ہوں اور سند حاصل کرنے کی اس مسلط کردہ جھوٹی روش کے چکر میں نہ پڑیں۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔
میں ایک بار پھر آپ تمام حضرات اور برادران عزیز کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ محنت کررہے ہیں، کوشش کررہے ہیں، آج محکمۂ تعلیم وتربیت، نصاب کی کتابیں، کلاس، معلم واقعی ماضی سے مختلف ہیں۔
انشاء اللہ آپ تمام حضرات کامیاب و کامران رہیں۔ خداوند عالم آپ کی مدد اور نصرت فرمائے۔ ہم بھی دعا کرتے ہیں کہ انشاء اللہ خداوند عالم روز بروز آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

1 اس وقت کے وزیر تعلیم و تربیت
2- شہدائے ہفتم تیر کے پسماندگان سے ملاقات مورخہ 28-6-1991 کے خطاب کے حاشیے کو دیکھیں۔
3- آل عمران ؛ 13
4-مجلس شورائے اسلامی کے چوتھے دور کے انتخابات
5- ڈاکٹر نجفی