قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اسلامی جمہوریہ ایران کی عدلیہ کے اراکین، عہدیداران، خواہران و برداران محترم، خوش آمدید۔
اس سالانہ ملاقات میں یہ حقیر اپنا فریضہ سمجھتا ہے کہ آپ کا شکریہ ادا کرے اور عدلیہ کے مختلف شعبوں میں، عدالتوں میں اور ان سے متعلق امور کی انجام دہی میں آپ تمام برادران و خواہران کی زحمتوں کی قدردانی کرے۔
عدلیہ میں کام کرنا بھی اگرچہ اسلامی جمہوریہ ایران کے دیگر تمام شعبوں میں کام کرنے کی طرح، عبادت، ثواب اور نیکی شمار ہوتا ہے مگر اس ادارے کی خصوصیت یہ ہے کہ اگر یہاں کام ٹھیک ہو اور یہ ادارہ سالم ہو تو ملک کے ديگر ادارے بھی سالم رہیں گے اور ٹھیک کام کریں گے۔میں نے طویل برسوں سے شاید دس سال یا اس سے زیادہ عرصے سے، عدلیہ کے اراکین سے خطاب میں بارہا یہ بات عرض کی ہے اور اس وقت بھی اسی بات پر تاکید کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اگر اس ادارے میں اچھی طرح کام ہو، حقدار کو حق دلایاجائے، جرم، زیادتی اور قانون شکنی کی روک تھام کی جائے، اور دوسرے الفاظ میں اگر ماہرین امر کی ایک جماعت مستقل طور پر جرم کے خلاف مہم میں مصروف ہو تو ظاہر ہے کہ معاشرے کے دیگر شعبوں میں اس منحوس لعنت پر قابو پالیا جائے گا۔ اس صورت میں مجرمین بھی جرم کی انجام دہی سے بازرہیں گے لیکن اگر یہ ادارہ اچھی طرح کام نہ کرے، یہ اچھی طرح کام نہ کرنا، ادارے میں بدعنوانی کے معنی میں نہیں ہے، تو نعوذ باللہ معاشرے میں اور دیگر اداروں میں بدعنوانی پھیل جائے گی کیونکہ گناہ، برائیوں اور نفسانی خواہشات کا عفریت ایسا ہے کہ اگر اس کو اپنا راستہ کھلا نظر آجائے تو آگے بڑھتا ہے اور ہر طرف پھیل جاتا ہے اس کے دائرۂ کار میں روز افزوں وسعت آتی ہے یعنی یہ گناہ کی خاصیت ہے کہ اگر اس کو روکا نہ جائے تو بڑی تیزی سے پھیلتا ہے۔
اس کو مختلف طریقوں سے روکا جا سکتا ہے جن میں ایک عدالتی طریقہ ہے۔ عدلیہ کا ادارہ ایسا ہے کہ ان صلحت، صلح ماسواھا اور اگر خدانخواستہ ان فسدت فسد ما سواھا یعنی اسلامی معاشرے میں اس کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔عدلیہ کی اہمیت اس لحاظ سے ہے۔
قرآن کریم کی آیات اور روایات میں تکرار کے ساتھ کہا گیا ہے کہ عدلیہ حق دلانے کے لیے ہوتی ہے؛ وان حکم بالحق رجل قضا بالحق عدالتی فیصلے اور اس سے متعلق امور کے سلسلے میں حق کی بات باربار، تکرار کے ساتھ کی گئی ہے۔ تو حق کیا ہے؟ عالم ہستی کے بارے میں، اسلامی فلسفے میں اور مکتب میں حق یعنی عالم ہستی کی حقیقی شکل؛ ماخلقناالسّموات والارض ومابینھما الا بالحقّ (1) اور جیسا کہ میرے ذہن میں ہے، ایک دوسری آیت میں آیا ہے کہ؛خلقت السّموات والارض بالحق۔ (2) دو دیگر آیات میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ؛ خلق اللہ السّموات و الارض بالحق۔ (3) اور ما خلق اللہ السّموات والارض و ما بینھما الّا بالحق (4) ایک آیت سورۂ عنکبوت اور دوسری سورہ روم میں ہے۔ آیۂ شریفہ؛ وماخلقنا السّموات و الارض و ما بینھما لاعبین (5) بھی ہے جس کے بعد کی آیت میں فرماتا ہے کہ؛ ما خلقناھما الّا بالحق۔ (6)
تو حق کا مطلب کیا ہے؟ حق یعنی عالم وجود کی حقیقی شکل۔ یعنی خدا نے جس شکل میں خلق فرمایا ہے اس میں باقی رہے۔ جو حکمت الہی کی دین ہے اور حکمت الہی کے مطابق اس کو باقی رہنا چاہیے اور حکمت الہی کے تقاضے کے مطابق ہی اس کو چلنا چاہیے۔ بنابریں، حق کا مطلب یہ ہے کہ جو واقع اور جیسا خدا نے قرار دیا ہے اس کے مطابق ہے، اس پر حق صادق آتا ہے اور جو واقع اور جیسا کہ خدا نے قرار دیا ہے اس کے مطابق نہیں ہے، وہ جھوٹ ہے اور انسان کے انفرادی گناہوں میں کوئی بھی گناہ اتنا بڑا نہیں ہے۔ اس طرح کہ اگر امر واقع کا بیان ، غلط یا ناحق ہو، انسان کا قول صحیح جھوٹ ہو تو درحقیقت انسان کی سب سے بڑی اخلاقی برائی وجود میں آئی ہے۔
بنابریں جب بھی کوئی بات نقل کرنا چاہیں تو آپ کا فریضہ ہے کہ جیسا ہے ویسا ہی کہیں۔ یعنی عالم ہستی کے حقیقی قرار کے مطابق ہو۔ اگر اس کے برعکس کہا تو جھوٹ ہوگا اور جھوٹ بہت بڑا گناہ ہے کہ جس کو قرآن مجید میں مسترد کیا گیا اور اس پر لعنت کی گئی ہے اور اسلامی روایات میں اس سے پرہیز پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔
یہ جو میں نے کہا اور اس کو اتنی اہمیت دی گئی ہے، وہ صرف بیان حق ہے۔ احقاق حق، یعنی حق دلانا اس سے بہت زیادہ اہم ہے۔ یعنی عالم ہستی کو جس بنیاد پر خدا نے خلق فرمایا ہے اور اس کی سرشت جس طرح قرار دی ہے اور حق نیز ناحق کا تعین کر دیا ہے، اس کے مطابق اس کو چلانا اور آگے بڑھانا، یہ حق ہے جو بہت اہم ہے اور آپ یقینا اسی بنیاد پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہر گناہ حق کی خلاف ورزی ہے۔ نظام الہی و اسلامی قوانین، قوانین الہی ہیں اور ہر قانون کی ہر خلاف ورزی، حق کی خلاف ورزی ہے۔ ان حالات میں عدلیہ حق کی انواع و اقسام کی خلاف ورزیوں کے مقابلے میں ڈٹی ہوئی ہے۔ یہ عدلیہ کی اہمیت ہے۔ آپ باطل کو عوام کے نظام زندگی پر مسلط ہونے سے روکنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس ادارے میں، جس میں آپ ہیں، درحقیقت سبھی حق پر کمربستہ ہیں۔ یعنی سبھی اس چیز کے نفاذ کو یقینی بنانے میں کوشاں ہیں، جو آفرینش حق تعالی اور عالم ہستی کے قرار حقیقی کے مطابق ہے۔ یونہی نہیں ہے کہ ہماری مقدس شرع اور فقہ میں انصاف کے امور اور عدالتی امور کے ذمہ داروں کے سلسلے میں اتنی زیادہ باریک بینی اور دقت نظر پر زور دیا گیا ہے جبکہ دیگر حکومتی کاموں کے تعلق سے اتنی زیادہ توجہ اور تاکید سے کام نہیں لیا گيا ہے کہ یہ خصوصیت ہو اور یہ نہ ہو۔ یہ موضوع کی اہمیت کی وجہ سے ہے۔
اگر کوئی پوچھے کہ اگر ہم مختلف سرکاری اداروں میں خرابی، عدم افادیت اور کام میں عدم پیشرفت (وہ بات جو آج بہت مشہور ہے اور بعض لوگ صحیح یا غلط اس پر زیادہ زور دیتے ہیں اور اس بارے میں عوام کے سامنے غلط اعداد و شمار پیش کرتے ہیں؛ یعنی افادیت کا مسئلہ اٹھاتے ہیں) دیکھی تو کیا کریں؟ جواب یہ ہے کہ اگر افادیت کم ہوئی یا خلاف ورزی ہوئی یا مثال کے طور پرکام نہیں ہورہا ہے اور غلط لوگوں کو کام پر رکھا گیا ہے، تو اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ عدلیہ میں خرابی کہاں ہے اور کیا یہ خرابی نگراں شعبوں جیسے ادارۂ احتساب میں ہے جو عدلیہ سے تعلق رکھتا ہے یا دوسری جگہوں پر ہے؟ اگر ادارۂ احتساب میں خرابی ہو، البتہ احتساب کی قانونی ضمانت ہونی چاہیے، تو یہ عدلیہ کے ڈھانچے کی خرابی ہے اور عدلیہ کو چاہیے کہ اس کو برطرف کرے۔
عدلیہ، سرکاری اداروں سے متعلق ٹریبیونل اوراس شعبے کے دیگر اداروں کا کام صرف دیکھنا اور خلاف ورزی کی رپورٹ پیش کرنا نہیں ہے بلکہ اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ مثال کے طور پر اگر معاشرے کے کسی شعبے میں ناانصافی نظر آئے، یا کسی جگہ نعوذ باللہ، قتل زیادہ ہوتا ہو یا معاشرے کے کسی طبقے، (مثلا عورتوں، بچوں) کے حقوق (خاندان کے اندر یا خاندان سے باہر) پامال ہو رہے ہوں یا اسی قسم کے دوسرے مسائل ہوں تو اس کو دور کرنے اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ عدلیہ کے متعلقہ شعبوں میں خرابی کیا ہے کہ وہ اس قسم کی خلاف ورزیوں کو بڑھنے سے نہ روک سکے؟
اسلامی نظام حاکمیت میں جج کو والی (آج کی اصطلاح میں ولی امر) منصوب کرتا ہے لیکن یہ جج بعض اوقات خود ولی امر کو بھی عدالت میں گھسیٹ لیتا ہے اور اس کا مؤاخذہ کرتا ہے۔ البتہ وہ جج جو حق پرست اور دلیر ہو کیونکہ یحیی بن اکثم (7) جیسے بزدل جج بھی گزرے ہیں۔ میں ان کی بات نہیں کررہا ہوں۔
عدلیہ کا کام وہ ہے جو ہم نے کہا۔ اپنے معاشرے میں اصلاح، ٹھیک کرنا اور ظلم و ناحق سے، مقابلہ کرنا ہے۔ البتہ اگر ہم خدا کو حاضر و ناظر سمجھتے ہوئے انصاف سے کام لیں تو جہاں تک ہمیں دنیا کے بارے میں معلوم ہے، اس لحاظ سے ہماری عدلیہ دنیا میں بے نظیر ہے۔ اس کا سربراہ مجتہد اور عادل اور اس کے اراکین اتنے پاک اور مومن ہیں، دنیا میں کہاں یہ بات ہے؟ ہم دنیا کے دیگر ملکوں میں واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ عدلیہ کے سربراہ کس قسم کے لوگ ہیں۔ کس طرح کے لوگ منصوب کرنے والے ہیں اور کس طرح کے لوگ منصوب ہوتے ہیں اور فیصلے کس طرح کیے جاتے ہیں۔ البتہ دلیر، زندہ ضمیر والے اور منصف مزاج جج دنیا میں ہر جگہ ہیں اور ہمیں حتی گفتگو اور بیان میں بھی، کسی کا حق ضائع نہیں کرنا چاہیے لیکن مجموعی طور پر حقیقت یہ ہے، انصاف یہ ہے کہ یہاں کام کی بنیاد ہر جگہ سے بہتر ہے۔ مناسب ہوگا کہ یہیں پر اپنی عدلیہ کے بانیوں بالخصوص شہید بہشتی رضوان اللہ تعالی علیہ کو، جو بہت ہی محکم شخصیت، فکری توانائی، اور زندہ و بیدار روح، کے مالک تھے، خراج عقیدت پیش کریں اور ان حضرات کی ارواح پاک کے لیے خداوند عالم سے دعا کریں کہ ان کے درجات بلند کرے۔
یہ بات مسلمہ ہے عدلیہ کا کام بہت اچھا ہے لیکن نصیحیت بری چیز نہیں ہے۔ جو بات میں عدلیہ سے ہمیشہ کہتا ہوں اور آج بھی کہہ رہا ہوں، یہ ہے کہ اسلامی نظام میں انصاف اور عدالتی کاموں کا معیار نظر میں رکھیں اور پھر اپنے فیصلوں اور کام کو اس پر پرکھیں، یقینا فاصلہ نظر آئے گا۔ اس سال اس فاصلے کو ناپیں، اندازہ لگائیں کہ فاصلہ کتنا ہے اور آئندہ سال اس کو کم کریں۔ اس کے بعد پرکھیں اور دیکھیں کہ آیا آپ کی عدلیہ نےمطلوبہ اسلامی عدالتی معیاروں کی سمت پیشرفت کی ہے اور آیا یہ پیشرفت معقول اور تیز رہی ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو اس رفتار کو لازمی حد تک پہنچائیں۔
اسلامی جمہوری نظام کی عدلیہ میں سب سے زیادہ علم آگاہی اور معرفت ضروری ہے لہذا دینی تعلیم کے اعلی مراکز، قانون کی تعلیم کے مراکز اور وہ ادارے جہاں قانون کی تعلیم دی جاتی ہے، اپنے ممتاز افاضل کو عدلیہ میں بھیجیں۔ بالخصوص دینی تعلیم کے مراکز کو اپنے ممتاز ترین افاضل، شخصیات اور مجتہدین کو یہاں بھیجنا چاہیے۔ جیسا کہ ہمیشہ اور قدیم ترین ایام میں اس ملک میں ہوتا رہا ہے۔
البتہ ماضی میں کوئی عدالتی نظام اور سسٹم نہیں تھا لیکن بڑے مجتہدین فیصلے کرتے تھے اور اسناد تحریر فرماتے تھے۔ اسناد، دستاویزات اور معاہدوں پر ان کے دستخط انہیں معتبر بنادیتے تھے۔ تمام شعبوں میں ایسا ہی تھا۔ آج بھی ایسا ہونا چاہیے۔ یعنی اعلی دینی تعلیمی مرکز کے بعض بڑے مجتہدین، میں یہ نہیں کہتا کہ سبھی مجتہدین، ایک جماعت تشکیل دیں، کچھ لوگ پڑھائیں، کچھ لوگ تحقیق کریں، اپنے شاگردوں کی تربیت کریں، کچھ لوگ ان شاء اللہ فقاہت کے اعلی مراحل اور مدارج طے کریں اور اپنے کچھ اپنے افاضل کو عدلیہ میں بھیجیں۔ یہ ایک فریضہ ہے۔ قانون کی تعلیم کے کالج اور ادارے بھی اسی طرح قانون کی تعلیم مکمل کرنے والے اپنے اچھے طلبا کو عدلیہ میں بھیجیں اور عدلیہ ان کی تقرری کرے۔ یہ ایک فریضہ ہے۔
تو سب سے پہلے علم ضروری ہے دوسرے مرحلے میں حق پرستی یعنی وہ جذبہ جو انصاف پسندی، پاک ضمیر اور باطل ختم کرنے کے جذبے سے پیدا ہوتا ہے۔ سبھی، وہ لوگ بھی جو عدل و انصاف کے کام میں مشغول ہیں، اور وہ لوگ بھی جو عدلیہ کے دفاتر اور دیگر امور میں سرگرم عمل ہیں، سبھی میں یہ خصوصیات ہونی چاہیے لیکن عدالتوں میں یہ خصوصیات زیادہ ہونی چاہیے کیونکہ جہاں بھی خدانخواستہ برائی ہوگی، وہ عدل کے پیکر سے رابطہ پیدا کرے گی۔ عدلیہ کو ایسی خصوصیات کا مالک ہونا چاہیے اور ان شاء اللہ روز بروز اس سمت میں آگے بڑھنا چاہیے۔ بہرحال یہ نگرانی اور نظارت جو عدلیہ کے صف اول کے عہدیداروں اور (مختلف شعبوں کے) سربراہوں کی طرف سے پائی جاتی ہے، جس کی طرف جناب آقائے یزدی نے اشارہ فرمایا ہے، یہ جاری رہنی چاہیے اور حتی الامکان کوشش ہونی چاہیے کہ کارآمد افراد لیے جائیں اور اگر کچھ افراد ایسے ہوں جو ضروری علم اور خصوصیات کے فقدان کے سبب، یہ بار سنگین اٹھانے سے قاصر ہوں تو عدلیہ کو چاہیے کہ خود کو ایسے افراد سے پاک کرے کیونکہ عدالتی نظام مطلوبہ حد پر، حد اکثر حد پر نہیں، بلکہ جو ضروری ہے، اس حد پر ہو تو آپ دیکھیں گے کہ مشکلات اور جرائم، معاشرے میں اور سرکاری اداروں میں روز بروز کم ہوں گے۔ ان اہداف کاحصول یقینا مقننہ کی مدد اور تعاون پر منحصر ہے جس کو محکم قوانین تیار کرکے اس بات کے امکانات فراہم کرنا چاہیے کہ عدلیہ پوری توانائی کے ساتھ ان کا نفاذ عمل میں لائے۔ ہمارا فریضہ یہ ہے کہ ہم ان محترم حضرات کے لیے دعا کریں۔ امید ہے کہ خداوند عالم آپ کی نصرت فرمائے گا، حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کے الطاف و برکتیں آپ کے شامل حال ہوں گی تاکہ آپ تاریخ کے اس دور میں اس سنگین ذمہ داری کو پورا کرسکیں۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

1/ اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے عبث نہیں پیدا کیا (سورہ حجر آیت85)
2/ اور وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو حق (پر مبنی تدبیر) کے ساتھ پیدا کیا۔ (سورہ انعام آیت 73)
3/ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو درست تدبیر کے ساتھ پیدا فرمایا ہے۔ (سورہ عنکبوت آیت 44)
4/ کیا انہوں نے اپنے من میں کبھی غور نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، پیدا نہیں فرمایا مگر (نظام) حق اور مقررہ مدت (کے دورانئے) کے ساتھ۔ (سورہ روم آیت 8)
5/ اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اسے محض کھیل کے طور پر نہیں بنایا۔ (سورہ دخان آیت 38)
6/ ہم نے دونوں کو حق کے (مقصد و حکمت کے) ساتھ پیدا کیا لیکن ان کے اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (سورہ دخان آیت 39)
7/ مامون عباسی کے دور میں بغداد کا قاضی۔