قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس مبارک عید اور حضرت ختمی مرتبت، صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت امام جعفر صادق علیہ الصلاۃ و السلام کے یوم ولادت باسعادت کی تمام مسلمین عالم، عظیم الشان ایرانی قوم، آپ عزیز مہمانوں، حاضرین کرام، ملک کے حکام اور خاص طور پر عظیم قربانیاں دینے والوں اور ان کے گھرانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
اسلامی انقلاب صدقہ جاریہ (ہمیشہ جاری رہنے والا نیک کام) ہے جو امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے بیدار ذہن کی برکت سے انجام پایا یہ تھا کہ ایام ولادت نبی اکرم علیہ و علی آلہ الصلاۃ و السلام کو وحدت کے ایام کی حیثیت سے متعارف کرایا گیا۔ یہ مسئلہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ وحدت اسلامی ایک آرزو ہے۔ بعض لوگوں میں واقعی یہ آرزو ہے۔ بعض شخصیات اس سلسلے میں کچھ بولتی بھی ہیں۔ زبانی بات ہے۔ بہر حال یہ ایک آرزو ہے اور اس کے لیے عملی راہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
کوئی بھی آرزو، بغیر سعی و کوشش اور محنت کے پوری نہیں ہوتی۔ جب ہم اس آرزو کی تکمیل کی عملی راہوں کے بارے میں فکر کرتے ہیں تو یہی عالم خلقت کی عظیم ترین ہستی یعنی حضرت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی ہمیں نظر آتی ہے جو تمام مسلمانوں کے عقائد اور جذبات (ایمانی) کا مرکز ہے۔ اسلامی حقائق اور معارف میں شاید کوئی اور چیز ایسی نہ ہو کہ جس پر مسلمانوں کے عقائد و جذبات میں اتنا اتفاق پایا جاتا ہو، شاید نہ ہو، یا بہت کم ہو؛ اس لیے کہ جذبات کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ بعض اقلیتی گروہوں کو چھوڑ کے جو عام مسلمانوں سے الگ ہوگئے ہیں، اور جذبات، محبت، توجہ اور توسل کو اہمیت نہیں دیتے، عام مسلمین نبی اکرم علیہ وعلی آلہ الصلاۃ و السلام سے محبت کے جذبات کو اہمیت دیتے ہیں۔ بنابریں آپ کی ہستی وحدت کا محور ہوسکتی ہے۔
آج میں ملک کے اعلی رتبہ حکام اور مختلف ملکوں اور اسلامی دنیا کی ممتاز شخصیات کے درمیان، اپنی گفتگو میں اس نکتے پر خصوصی توجہ دینا چاہتا ہوں۔
برادران و خواہران عزیز و گرامی! آج مسلمانوں کے لیے وحدت، ایک حتمی ضرورت ہے۔ آج اسلام اور مسلمانوں کے دشمن کی دو خصوصیات ہیں جو ماضی میں اس میں نہیں تھی۔ ایک یہ ہے کہ وہ مال و دولت، سیاست، تشہیراتی سہولیات اور نفوذ کرنے، اثرانداز ہونے اور زک پہنچانے کے انواع و اقسام کے وسائل سے لیس ہے۔ اسلام کا دشمن کون ہے؟ استکباری و سامراجی محاذ۔ صیہونزم سے لے کر امریکا تک، تیل کی کمپنیوں سے لے کر قلم فروش لکھنے والوں اور (نام نہاد) روشنفکروں تک، جو ان کے لیے کام کرتے ہیں، پوری دنیا میں پوری طرح لیس ہے۔ اسلام کا مخالف محاذ اتنے وسائل سے لیس کبھی نہیں تھا۔
دوسری خصوصیت یہ ہے کہ یہی تمام وسائل سے لیس محاذ آج اس خطرے کی نسبت جو اسلام اور اسلامی بیداری سے اس کو لاحق ہے، بہت حساس ہے، اور یہ حساسیت اس وجہ سے ہے کہ وہ دیکھ رہا ہے کہ اسلام، اخلاقی سفارشات کی حدود سے بالاتر ہوکے ایک فکری موقف کی شکل میں ظاہر ہوسکتا ہے جو ایک نظام کو وجود میں لاسکتا ہے۔اسلام کے دشمنوں نے دیکھا کہ اسلام، ایک انقلاب لانے میں کامیاب رہا، انہوں نے دیکھا کہ اسلام ایک محکم اور پائیدار نظام قائم کرنے میں کامیاب رہا، انہوں نے دیکھا کہ اسلام ایک قوم کو خودآگاہی کے مرحلے تک پہنچانے میں کامیاب رہا، اس قوم کو اسلام نے روحانی ہزیمت کی حالت سے نکال کے استحکام اور خود اعتمادی عطا کی، اس حالت میں پہنچادیا کہ اس نے اپنے لیے اور اپنے دین کے لیے عزت و سربلندی حاصل کی، انہوں نے دیکھا کہ اسلام ایک قوم کو اتنا قوی اور مقتدر بناسکتا ہے کہ وہ تمام وسائل جن کا میں نے ذکر کیا، اس قوم کے سلسلے میں کند اور بے اثر ہوجائیں۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی نظام کے قیام کے تقریبا سترہ سال بعد، دنیا میں واحد سپر طاقت ہونے کی دعویدار حکومت، اسلامی جمہوریہ ایران سے سیاسی اور اقتصادی مقابلے میں پسپائی پر مجبور ہو گئی۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس کا آج مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ یہ بات عالمی سامراج کے تجزیہ نگاروں کی آنکھوں سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اسلام اپنی طاقت و توانائی کا اظہار کررہا ہے۔ انہوں نے دیکھا ہے کہ اسلامی دنیا میں جو گروہ بھی اپنے معاشرے کا ماحول سدھارنا چاہتا ہے، وہ اسلام سے متمسک ہو رہا ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہونے سے پہلے مختلف ملکوں میں جو گروہ، اصلاح پسندی کو اپنا شعار بنانا چاہتے تھے، مارکسزم اور سخت نیشنلزم کا سہارا لیتے تھے لیکن آج اسلامی ملکوں میں دیکھیں، روشنفکرحضرات، نوجوان طبقے، علماء، یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل حضرات اور عوام کی مختلف جماعتوں میں سے جو بھی اصلاح پسندی کا دعویدار ہوتا ہے، وہ اسلام سے متسک ہوتا ہے۔ یہ اسلام کی اعلی توانائی اور ظرفیت ہے۔ دشمن اس کو دیکھ رہا ہے، اس لیے حساس ہوگیا ہے۔
اسلامی دنیا کو، اسلام اور مسلمین کے اس دشمن کا سامنا ہے جس میں یہ دو خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ ہمیشہ سے زیادہ وسائل سے لیس ہے اور دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اسلام کی نسبت پہلے سے زیادہ حساس ہے۔ یہ دشمن کیا کرے گا؟
اس دشمن کے پاس بہترین وسیلہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالے۔ خاص کر ان فرقوں کے درمیان خلیج بڑھائے، جن سے دوسرے مسلمانوں کو فکر مل سکتی ہے۔ آپ دیکھیں کہ آج مختلف اسلامی ملکوں میں اس بات پر، پٹرول اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی کتنی رقوم خرچ کی جارہی ہیں کہ کوئی کتاب لکھی جائے اور مکتب شیعہ سے عجیب و غریب عقائد منسوب کئے جائیں۔ میں نے ایک زمانے میں ایسی کتابوں کا بڑا حصہ جمع کیا، دیکھا کہ بہت کتابیں لکھی جارہی ہیں۔ اختلاف ڈالنے کے لیے، ان کتابوں کی تدوین اور تیاری میں، تشہیراتی دنیا کے زیرک ترین عناصر سرگرم ہیں تاکہ اسلامی معاشرے کے اس حصے کو جس نے پرچم اسلام بلند کیا ہے اور اس کی اوج اور بلند ترین چوٹی ایران ہے اور دیگر مقامات پر بھی جہاں اس سے ہوسکا، اسلام کی مدد میں حوادث زندگی کے خلاف جنگ پر کمر بستہ ہوا اور دنیوی طاقتوں کے مقابلے پر آیا، اس کو بقیہ اسلامی دنیا سے الگ کردیں۔
آج اسلامی دنیا میں پیسہ بہت ہے، فکر بھی کافی ہے، لائق افرادی قوت بھی ہے۔ علماء، شعراء، مصنفین، فنکار اور قابل سیاسی شخصیات، اسلامی دنیا میں موجود ہیں اور کانیں، نیز زیر زمین، خداداد مالی ذخائر کا بڑا حصہ بھی اسلامی ملکوں کے اختیار میں ہے۔ اگر یہ سب مل کے اپنے اندر یک جہتی پیدا کرلیں، یا کم سے کم ایک دوسرے کے خلاف کام نہ کریں، تو آپ دیکھیں گے کہ دنیا میں کیا ہوگا۔ دشمن ایسا کام کر رہا ہے کہ اسلامی دنیا کے یہ مالی اور افرادی قوت کے ذخائر ایک دوسرے کے مقابلے پر آجائیں۔ عراقی حکومت کو ورغلایا، اس علاقے میں آٹھ سالہ تباہ کن جنگ شروع کی اور کوشش کی کہ اس نئے پودے کو (اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کو) جڑ سے ختم کردیں، لیکن نہیں کرسکے۔
ضرب اللہ مثلا کلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیبۃ اصلہا ثابت یہ کلمہ اسلام کی خصوصیت ہے۔ اس کو جڑ سے اکھاڑنا ممکن نہیں ہے۔و فرعھا فی السماء تؤتی اکلھا کل حین باذن ربھا (1)
وہ آج بھی سیاسی لحاظ سے ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ لہذا میں نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے، میرا ادراک اور ایک خدمتگزار کی حیثیت سے اور ایک ایسے شخص کے عنوان سے جو دشمن کی سازش کو دیکھ رہا ہے اور محسوس کررہا ہے، اپنے مسلمان بھائیوں سے میری سفارش یہ ہے کہ آج مسلمانوں کے لیے اتحاد بین المسلمین حیاتی ضرورت ہے۔ یہ مذاق یا نعرہ نہیں ہے۔ اسلامی معاشروں کو اپنے درمیان سنجیدگی کے ساتھ اتحاد لانا چاہیے۔ یکجہتی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ البتہ وحدت ایک پیچیدہ امر ہے۔ اتحاد وجود میں لانا پیچیدہ کام ہے۔ مذاہب کے اختلاف کے ساتھ، آداب و رسوم زندگی کے مختلف ہونے کے ساتھ، فقہی اختلافات کے باوجود، اسلامی اقوام کے درمیان اتحاد ہوسکتا ہے۔ اسلامی اقوام کے درمیان اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی دنیا سے متعلق مسائل میں یک جہتی کے ساتھ آگے بڑھیں، ایک دوسرے کی مدد کریں اور ان اقوام کے اندر، اپنی دولت و ثروت ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ کریں۔
اس سلسلے میں ایک عامل جو محور بن سکتا ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ مسلمین اور اسلامی روشنفکر حضرات، اسلام کی نسبت ہمہ گیر نقطۂ نگاہ کے ساتھ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی، آپ کی تعلیمات اور آپ سے محبت کے موضوع پرکام کریں۔ ایک اور عامل جو اتحاد کی بنیاد بن سکتا ہے اور تمام مسلمین اس پر متفق ہوسکتے ہیں، اہلبیت پیغمبر کی پیروی ہے۔ اہلبیت پیغمبر کو تمام مسلمین مانتے ہیں۔ البتہ شیعہ ان کی امامت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو شیعہ نہیں ہیں، وہ، شیعہ مکتب کی اصطلاح میں امامت کے جو معنی ہیں، اس معنی میں ان ہستیوں کو امام نہیں مانتے، لیکن یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ہستیاں بزرگان اسلام میں ہیں، یہ تو مانتے ہیں کہ یہ پیغمبر کے اہلبیت ہیں، انہیں اسلامی احکام و تعلیمات سے باخبر تو مانتے ہیں، مسلمین، عمل میں ائمہ علیہم السلام اور اہلبیت پیغمبر کے ارشادات پر اتفاق کرلیں۔ یہ بھی وحدت کا ایک وسیلہ ہے۔
البتہ یہ بڑا تکنیکی کام ہے۔ آسان نہیں ہے۔اس کے لیے کچھ تمہیدات ضروری ہیں۔ جو لوگ اہل فن ہیں، ماہرین حدیث ہیں، حدیث سے وابستہ علوم کے ماہر ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس کام کے مقدمات کیا ہیں۔ حدیث کو سمجھنے، اس سے مطلب اخذ کرنے اور اس کے مصادیق کے معیاروں پر اور اسی طرح، حدیث کے صحیح اور معتبر ہونے کے معیاروں پر اتفاق ہونا چاہیے۔ رجال حدیث پر اتفاق ہونا چاہیے۔ ماضی میں بنی عباس اور بنی امیہ کے دربا رخلافت نے کوشش کی ہے کہ اہلبیت کی تعلیمات کو اسلامی دنیا کی فکر سے باہر نکال دیں۔ اس لیے ان کی روایات بہت کم نقل کی گئی ہیں۔ محدث، حدیث کو نقل کرتا ہے، اس کے لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حدیث کو حسن بصری سے نقل کرتا ہے، قتادہ سے نقل کرتا ہے یا دوسروں سے۔ جعفر بن محمد علیہ الصلاۃ و السلام سے کیوں نہ نقل کریں؟ ہارون، مامون، معتصم اور متوکل جیسے خلفاء کے درباروں نے اس سے روکا ہے اور اس میں رکاوٹ ڈالی ہے۔ بعض رجال حدیث پر الزام لگاتے تھے۔ بنابریں ایک کام جو ہونا چاہیے، یہ ہے کہ مقدمات حدیث کے میدان میں مشترک ادراک کی کوشش کی جائے۔ اس سلسلے میں علماء کا فریضہ ہے اور اسلامی مفکرین کا فریضہ ہے۔
کتنے افسوس کا مقام ہے کہ وہ اسلامی مفکر جس کے ذہن کو مسلمانوں کی عزت اور پرچم اسلام کی سربلندی کے لیے قلم اٹھانا اور کوشش کرنا چاہیے، وہ اختلافی مسائل کا رخ کرے اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف، تفرقہ اور خلیج پیدا کرنے کے لیے کام کرے اور قلم چلائے، کسی پر بہتان باندھے اور کسی کودائرۂ اسلام سے خارج کرے۔ وحدت پیدا کرنے اور اتحاد کے مقدمات فراہم کے سلسلے میں علماء پر سنگین فریضہ عائد ہوتا ہے۔ صرف ایک فرقے کے علماء پر نہیں بلکہ دونوں فرقوں کے علماء پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے۔
بھائیو اور بہنو! دشمن، بعض اوقات اختلاف ڈالنے کے لیے، شیعوں میں بھی اور سنیوں میں بھی ایسے افراد سے کام لیتا ہے جو بے ارادہ ہوتے ہیں۔ شیعہ معاشرے میں کوئی ایسی حرکت ہوتی ہے جو غیر شیعہ مسلمان بھائیوں کے لیے اشتعال انگیز ہوتی ہے اور بالکل یہی کام سنی معاشرے میں بھی ہوتا ہے کہ وہ کام کیا جاتا ہے جو شیعوں کے لیے نفرت انگیز اور اشتعال انگیز ہوتا ہے۔ یہ کام کون کرتاہے؟ آج ہمارے سامنے ایک دشمن ہے؛ جبکہ اسلامی معاشرے میں، کتاب ایک ہے، سنت ایک ہے، پیغمبر ایک ہے، قبلہ ایک ہے، کعبہ ایک ہے، حج ایک ہے، عبادات ایک ہیں، اعتقادی اصول ایک ہیں۔ البتہ بعض اختلافات بھی ہیں۔ دو عالم شخصیتوں کے درمیان علمی اختلافات ہوسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اسلامی دنیا کے سامنے ایک دشمن ہے۔ اتحاد بین المسلمین کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ اس مسئلے پر اس طرح کام ہونا چاہیے۔ اس مسئلے میں ہر دن کی تاخیر سے اسلامی دنیا کو ایک دن کا نقصان پہنچ رہا ہے اور یہ ایام، ایسے ہیں کہ ان میں سے بعض اتنے اہم ہیں کہ اس کا اثر پوری عمر باقی رہتا ہے۔ تاخیر نہ ہونے دیں۔
اسلامی جمہوریہ نے خدا کے فضل سے پہلے ہی دن سے اس راہ میں قدم بڑھایا ہے۔ ہمارے امام عظیم الشان اس راہ کے پیشوا تھے اور بزرگوں، حکام، خطیبوں، قلمکاروں، مختلف اداروں اور مفکرین دنیائے اسلام نے بھی کافی کوششیں کی ہیں۔ ان کوششوں کو ضائع نہ ہونے دیں۔
امید ہے کہ خداوند عالم نصرت کرے گا، ہمارے قدم محکم کرے گا، اس راہ میں دلوں کی ہدایت فرمائے گا، ایک دوسرے سے جوڑے گا، وحدت کو محکم کرے گا اور دلوں کو ان شاء اللہ ایک دوسرے سے زیادہ سے زیادہ نزدیک کرے گا۔
و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
(1) اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی ہے کہ پاکیزہ بات اس پاکیزہ درخت کی مانند ہے جس کی جڑ (زمین میں) مضبوط ہے اور اس کی شاخیں آسمان میں ہیں۔ وہ (درخت) اپنے رب کے حکم سے ہر وقت پھل دے رہا ہے۔ (سورہ ابراہیم آیات 25-24)