آپ نے اپنے خطاب میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی معجز نما شخصیت کی بعض صفات اور خصوصیات بیان کیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس اجتماع میں ذاکران اور شعرائے اہل بیت کی صنف کی اہمیت اور ساتھ ہی اہم ترین ذمہ داریوں کی نشاندہی کی۔
تفصیلی خطاب حسب ذیل ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ سب برادران عزیز کو یہ مبارک یوم ولادت اور بڑی عید، مبارک ہو۔ میں جملہ حاضرین کرام کا نہایت مشکور ہوں۔ خصوصاً جن برادران نے اپنا پروگرام پیش کیا، جس برادر نے پروگرام کی نگرانی کی، جملہ ذاکرین کرام کے علاوہ جن شعرا نے اپنا کلام پیش کیا ان سب کا شکر گزار ہوں۔ آپ سبھی حضرات کا فرداً فرداً شکریہ! آپ نے ہماری اس محفل اور ہمارے دلوں کو پیغمبر اکرم (ص) کی بیٹی اور تاریخ انسانیت کی سب سے برگزیدہ خاتون کے فضائل سے منور کر دیا۔
یہ اسلام کا ایک معجزہ ہے یعنی فاطمہ زہرا (س) اپنی مختصر سی عمر میں سیدۃ النساء العالمین کے درجہ پر فائز ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ خاتون تاریخ کی تمام بزرگ اور مقدس خواتین سے افضل ہیں۔ کیا سبب ہے، کون سی طاقت ہے، یہ کون سی عمیق باطنی قدرت ہے جو ایک انسان کو اتنی کم مدت میں معرفت، عبودیت، تقدس اور روحانی بلندیوں کا ایسا آسمان بنا دیتی ہے؟! یہ خود اسلام کا معجزہ ہے۔
دوسری طرف آپ کی نسل مبارک ہے۔ جناب فاطمہ(س) کا سورہ کوثر کی تفسیر ہونا اگر ہماری روایات میں نہ بھی آیا ہو تب بھی اس سورہ کی مصداق آپ ہی ہیں۔ خاندان پیغمبر اور ہر امام پر اتنی برکات ہیں کہ دنیا ان مقدس زبانوں سے نکلے ہوئے انفرادی، سماجی، دنیوی اور اخروی دلنواز تعلیمات سے مملو ہے۔ آپ ملاحظہ کیجئے کہ حسین ابن علی، زینب کبرٰی، امام حسن مجتبٰی، امام صادق، امام سجاد اور دیگر ائمہ طاہرین علیہم السلام کے اقوال، ارشادات اور معارف کا روحانیت اور ہدایت کی دنیا میں کیا عالم ہے، یہ ہے نسل فاطمہ زہرا(س)۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیئے۔ ابھی بعض اشعار میں بھی یہی بات کہی گئی تھی۔ صدیقہ کبرٰی فاطمہ زہرا(س) سے محبت رکھنا ہمارے لئے بہت بڑی نعمت ہے۔ خدا کا شکر کہ ہم نے انہیں پہچانا اور اپنے آپ کو ان کی عنایات سے متوسل کیا۔ خدا کا شکر کہ ہم نے ان کے وجود کی قدردانی کی جو کسی نعمت عظمی سے کم نہیں۔ انہیں وسیلہ بنایا، ان سے معرفت چاہی اور ان کے عقیدت مند بنے۔ یہ خدا کی عظیم نعمتیں ہیں ہمیں ان کی حفاظت کرنی چاہیئے۔
دوسری بات یہ کہ آپ ذاکرین کرام کا رول خاص اہمیت کا حامل ہے۔ دین کی بنیادیں اگرچہ عقل، فلسفہ اور استدلال پر قائم ہیں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے لیکن کوئی بھی عقلی، فلسفیانہ اور حکمت آمیز بنیاد قلبی ایمان اور احساس کے سرچشمہ سے سیراب ہوئے بنا نہ تو اُگ سکتی ہے نہ مزید جڑیں پھیلا سکتی ہے اور نہ ہی تاریخ میں ثبت ہو سکتی ہے۔ جبکہ دین کی خاصیت یہ ہوتی ہے۔ دین اور دیگر آئیڈیالوجیز اور فلسفوں میں فرق ہی یہی ہے کہ دین ایمان کی طرف کھینچتا ہے، ایمان اور ہے اور علم اور۔ ایمان دوسری چیز ہے اور استدلال دوسری شئے ہے، ایمان الگ ہے اور فلسفہ الگ ہے، ایمان کا تعلق دل سے ہے جس جگہ جذبات اور احساسات ہوتے ہیں، ایمان کا گھر بھی وہی ہے، ایمان یعنی دل بھی حوالے اور سر بھی حوالے۔ لہذا دین کی اپنی اہمیت ہے ادیان کی تاریخ میں احساسات نے اسی طرح اپنے آپ کو محفوظ رکھا ہے۔
یہ سچ ہے کہ فلسفیوں کی آپس میں جنگ میں دین اور توحید کے فلسفہ کے آگے کوئی نہیں ٹک سکتا۔ خصوصاً تدوین شدہ اسلامی فلسفہ کے آگے۔ لیکن بہتوں کو اسلامی مفاہیم اور اصول کی خبر تو ہے کسی حقیقت کو جانتے تو ہیں لیکن اس حقیقت کو اپنا نہیں سکے ہیں۔ آپ کیا سوچتے ہیں صدر اسلام میں جن لوگوں نے علی ابن ابی طالب (ع) سے متعلق خود پیغمبر(ص) کے ارشادات سنے تھے وہ کچھ نہیں جانتے تھے؟ جی نہیں، انہیں علم تھا۔ ہم نے روایات میں پڑھا ہے۔ انہوں نے سب کچھ پیغمبراکرم (ص) کے دہن مبارک سے سنا تھا۔ سب کچھ جانتے تھے۔ کمی یہ تھی کہ جو جانتے تھے اس پر ایمان نہیں تھا، جس چیز کا علم تھا اس پر عقیدہ نہیں تھا لہذا اسے اپنا نہیں سکے۔ ایمان کی راہ میں بہت ساری چیزیں رکاوٹ بنتی ہیں جو ایک تفصیلی موضوع ہے۔
شعر و ادب اور اس طرح کے دوسرے میدان میں طبع آزمائی کا، جذبہ ایمانی کو پروان چڑھانے میں نہایت ہی اہم اور موثر رول ہوتا ہے۔ ذاکر اہلبیت(ع) کی اہمیت آپ اس رخ سے ملاحظہ کیجئے! یہ لوگ ایمان کا پیغام دیتے ہیں، ماحول بناتے ہیں اور عقیدتمند اور محبوب کا دلی رشتہ مضبوط کرتے ہیں۔ یہ اہمیت ہے! ان حضرات کا بہت اہم کردار ہے۔
بیس سال سے اوپر ہو گئے ہیں، ہر سال ذاکرین کے ساتھ ہماری ملاقات ہوتی ہے۔ میری صدارت کے دور میں یعنی سن 80 کی دہائی سے یہ اجلاس منعقد ہوتا آ رہا ہے۔ ہر اجلاس میں میں ذاکری اور ذاکر سے متعلق میں ایک بات کہتا رہا ہوں۔ اس وقت اسے دہرانا نہیں چاہتا، بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ذاکرین کو اپنے کام کی اہمیت کا احساس ہونا چاہیئے۔ جتنی اہمیت کا احساس ہوگا احساس ذمہ داری اتنا ہی بڑھ جائے گا۔ لہذا ذمہ داری کا بھی علم ہونا چاہیئے۔ ذمہ داری کا مطلب یہ ہے کہ ہم سے سوال ہوگا۔ آپ دعائے مکارم اخلاق میں پڑھتے ہیں''واستعملنی بما تسألنی غداً‘‘ تو کل روز قیامت مجھ سے سوال کرے گا۔ پروردگار! میری مدد کر تاکہ کل جو سوال ہونا ہے میں اپنے عمل سے آج ہی اس کا جواب تیار کر لوں۔ دعا کے اس فقرہ کے یہ معنی ہیں۔ تو آپ پر ذمہ داری ہے، یعنی آپ سے پوچھا جائے گا۔ لہذا ہم ایسا کچھ کریں کہ ہمارا عمل اس سوال کا جواب بن سکے۔
جب یہ پتہ چل گیا تو اب دیکھا جائے کہ اس کا طریقہ کیا ہے؟ جو کچھ ہم نے کہا ہے اور جو کچھ آپ بافہم، سمجھدار اور ذمہ دار ذاکرین نے فرمایا، یہ جلسہ رکھا، بہت سی باتہیں ہوئیں۔ سب میں اسی سوال کا جواب ڈھونڈھا جا رہا تھا کہ ''کیا کیا جائے؟!‘‘ اس ایک جملہ پر مشتمل سوال کے جواب کے لئے ایک کتاب درکار ہے۔ اس کتاب کا اگر تین جملوں میں خلاصہ کیا جائے تو ان میں سے ایک جملہ یہ ہوگا:
ہم جو شعر پڑھیں یہ سوچ کر پڑھیں کہ اس سے سامعین کے ایمان کو جلا ملے۔ لہذا ہر طرح کا شعر ہم نہیں پڑھ سکتے۔ جو شعر ہم پڑھنا چاہیں اس طرح پڑھیں کہ لفظیں، معنی اور انداز تینوں سامع کے ایمان میں اضافے کا موجب ہوں۔ البتہ کہنا تو آسان ہے، کنارے کھڑے ہوکر آدمی اکھاڑے میں اترے ہوئے پہلوان سے کہے کہ تم یہ کرو تو پہلوان کے لئے بڑا سخت ہے۔ لیکن آپ لوگ یہ کر سکتے ہیں۔ آپ لوگوں کی آواز، حافظہ اور حوصلہ اچھا ہے۔ جو کچھ ہم نے کہا ہے آپ لوگ کر سکتے ہیں۔
نوجوانوں کو میری نصیحت ہے کہ بزرگوں کی روش بالکل ترک نہ کریں۔ مجھے جدت پسندی سے اتفاق ہے۔ جدیدیت میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر آپ جدت میں کمال لانا چاہتے ہیں تو یاد رکھئے کہ جدت پیشروؤں کے طریقہ کار کے ذیل ہی میں ہونی چاہیئے۔
''العلی محظورہ الّا علٰی من بنی فوق بنا السلفی‘‘انہوں نے ایک طبقہ عمارت تعمیر کی ہے آپ اسی پردوسرا طبقہ بنائیے۔ بعد میں آنے والے اسی پر تیسرا منزلہ بنائیں گے۔ یوں عمارت بلند ہوتی چلی جائے گی۔ بصورت دیگر ایک نے ایک عمارت بنائی، آپ نے اسے توڑ کر اپنی ایک منزلہ عمارت بنا لی، تیسرے نے آکر آپ کی بنائی ہوئی عمارت منہدم کی اور اپنی کھڑی کر لی۔ نتیجہ میں عمارت ایک ہی طبقہ پر مشتمل رہے گی۔ اساتید اور بزرگان جنہوں نے آپ سے پہلے ایک عمارت کی بنیاد رکھی ہے ان کی خوبیاں سیکھئے اور ان میں اضافہ کیجئے۔ جدت اس طرح سے آئے تو بہتر ہے۔
پرانے زمانے میں معروف موسیقی دانوں سے سنا تھا کہ اصلی ایرانی موسیقی کو نوحہ خوان حضرات نے ہی بچا کہ رکھا ہے۔ موافق خوان ، مخالف خوان، علی اکبر خوان، قاسم خوان، سب کو الگ الگ ساز دئے جاتے تھے جس کی مدد سے وہ پروگرام پیش کرتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایرانی موسیقی جو تحریری شکل میں نہیں تھی ان ہاتھوں میں پہونچ گئی جو اسے نئے طریقوں سے محفوظ کرنے لگے۔ اب آج کا گلوکار نوجوان ریڈیو ٹی وی والا ہو (افسوس کہ وہاں کی حالت بھی اس لحاظ سے ٹھیک نہیں ہے) یا مجلس میں نوحہ خوانی کرنے والا، اچانک یورپی ساز و انداز سے اور وہ بھی غلط انداز سے پڑھنا شروع کر دیتا ہے۔ یعنی فرض کیجئے کہ کسی مغربی گلوکار یا اس کی نقل کرنے والے کسی عرب نے کہیں کچھ پڑھا ہے تو ہم بھی اس کی من و عن نقل کرنے لگیں تو یہ کام تو بدقسمتی سے انقلاب سے پہلے ہوا کرتا تھا۔ اصلی ایرانی موسیقی جس کی ایک قسم کے جواز کا بھی امکان تھا وہ ضائع کر دی گئی۔ البتہ اس کی بھی ایک قسم حرام ہے اور اس سلسلہ میں ایرانی اور غیر ایرانی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ انقلاب کے بعد حالت بہتر ہو گئی تھی اور اب اگر ہمارا کوئی پڑھنے والا یا مداح ریڈیو ٹی وی پر یا ایمانی اور روحانی مجالس میں مغربی یا مجالس لہو کے ساز کی نقل کرکے اور وہ بھی غلط طریقے سے، کچھ پڑھے تو یہ صحیح نہیں ہے غلط ہے۔ جدیدیت منظور ہے لیکن اس طرح کی نہیں۔ یہ ساز سے متعلق ہے۔ اچھی آواز ہو تو برے ساز سے خراب ہو سکتی ہے اور درمیانی آواز کو اچھے ساز سے سجایا جا سکتا ہے، تو ساز بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔
اب یہ بات کرتے ہیں کہ کلام کی تفصیلی بات تو یہاں ہوگی، پہلی بات یہ کہ لفظیں اچھی ہونی چاہیئں۔ ہر آدمی شعر کو اچھی طرح نہیں سمجھ پاتا۔ ایک عام آدمی جس شعر کو اچھا کہے ضروری نہیں کہ وہ اچھا ہی ہو۔ اچھا شعر وہ ہے جس کی ایک شعر فہم تصدیق کرے۔ اچھے شعر کا فائدہ یہ ہے کہ ہم اور آپ متوجہ بھی نہ ہوں اور شعر سامع پر ٹھیک ٹھاک اثر ڈال دے۔ فن اسی کو کہتے ہیں کہ سامع داد و تحسین سے خود کو قاصر محسوس کرے، اس پر گہرا اثر ہو جائے۔ گھٹیا اور بازاری ادب کے مقابلہ میں اچھے ادب کا فائدہ یہی ہے۔ تو لفظیں قوی، اچھی، خوبصورت اور مضمون دلچسپ، نیا اور سب سے بڑھ کر سبق آموز ہونا چاہئے۔
لفظ کے علاوہ معنی بھی سبق آموز ہونے چاہیئں۔ ایک واعظ منبر سے کسی موضوع سے متعلق تقریر کرے جس سے اس موضوع سے متعلق لوگوں کی بصیرت اور علم میں ذرہ بھر بھی اضافہ نہ ہو تو اس نے اپنا وقت بھی برباد کیا اور دوسروں کا وقت بھی۔ یہی حال مداح کا ہے؛ آپ کوئی شعر پڑھیں جس کی لفظیں بھی اچھی ہوں، حضرت زہرا(س) سے متعلق کلام ہو لیکن اس میں سامع کے لئے ایسی کوئی مفید چیز نہ ہو جس سے اس بزرگ ہستی کے بارے میں سامع کی معرفت میں اضافہ ہو، نہ آپ کی یکتا پرستی کی کوئي تشریح ہو اور نہ ہی آپ کا مجاہدانہ زندگی اور کردار پر روشنی ڈالی گئي ہو تو اس طرح کے شعر پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔
میرے عزیزو! آپ کا کام سخت ہے۔ جیسا بعض لوگ سوچتے ہیں کہ چار اشعار یاد کر لیں اور آواز اچھی ہو تو کافی ہے، ایسا نہیں ہے۔ یہ بہت سخت کام ہے۔ ضروری ہے کہ اس میں فن بھی ہو، اثربھی ہو، ہدایت بھی ہو اور راستہ بھی دکھایا جائے۔
آج کتنے مسائل ہیں ہمارے سامنے۔ صرف امریکہ اور جوہری توانائی کا مسئلہ نہیں۔ یہ مسائل تو بہت اہم ہیں ہی، ان کے علاوہ آج دنیا کے تمام پروپیگنڈہ اور فکری مراکز منصوبے بنا رہے ہیں کہ کس طرح اس زمین میں پھوٹنے والی ایمان کی اور اسلامی اور قرآنی محکم اور پائیدار آئین کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکیں؟ کس طرح ان مومن دلوں کو ایک دوسرے سے الگ کر دیں؟ آپ یہاں بیٹھے سوچ رہے ہیں کہ زندگی ایسے ہی چل رہی ہے۔ جی نہیں، یہاں ایک حقیقی جنگ چل رہی ہے۔ ایک خیمہ میں یہاں کا معاشرہ نظام، نظام کے منکرین ،مختلف شعبوں میں نظام کے کارکن اور آپ مداح حضرات ہیں اور دوسرے خیمہ میں وہ لوگ ہیں جو اس مقدس سرزمین اور ان پاک دلوں سے ایمان کی جڑیں اکھاڑ دینا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھ چکے ہیں کہ جس نظام کی عمارت ان بنیادوں پر استوار ہے وہ ان کی غنڈہ گردی، حرص اور منفعت پسندی پر مشتمل مفادات کے منافی ہے۔ وہ سمجھ چکے ہیں کہ یہ نظام کبھی بھی استکباری دنیا کی توسیع پسندی اور دخل اندازی برداشت نہیں کر سکتا۔ اب لوگوں کے دلوں سے توحید، ولایت، محبت اہلبیت(ع)، محبت قرآن، دینی اصولوں پر ثابت قدمی، ظالم سے مقابلہ اور اس عقیدہ کو نکال پھینکنے کے درپے ہیں کہ ظلم سہنا بھی برا ہے اس کام کے لئے انواع و اقسام کی چالیں چلتے اور اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔
امریکی کانگریس کہتی ہے کہ ہم ایران میں جمہوریت کی ترویج کے لئے اتنے ملین خرچ کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں جمہوریت کے لئے! آزاد ہیں جو دل چاہے کہیں لیکن حقیقت تو پتہ ہی ہے۔ وہ چاہتے ہیں لوگوں کے دلوں پر جو فکر حاکم ہے اور انہیں صراط مستقیم کی طرف لے جا رہی ہے اس کا خاتمہ کر دیں یہی ان کا ہدف ہے۔
یہ پیسہ بہت زیادہ گولا بارود پر نہیں بلکہ زیادہ تر تبلیغی اور مختلف شکلوں میں ثقافتی امور پر خرچ ہوتا ہے۔ ادھر سے بھی مزاحمت بلکہ حملہ کیا جاتا ہے۔ تو یہ ایک جنگ ہے اور اس جنگ میں ان لوگوں کی ذمہ داری سخت ہے جن کا تعلق لوگوں کے ایمان، دل اور ان کی معرفت سے ہے۔ جن کا تعلق ائمہ اور اہلبیت (ع) کے اسمائے مبارکہ سے ہے۔ برادران عزیز! اس ذمہ داری کو خوب پہچانئے اور اس سے صحیح فائدہ اٹھائیے۔
الحمد للہ اچھی باتیں سننے میں آ رہی ہیں۔ البتہ کہیں کہیں کچھ مسائل بھی ہیں۔ جس چیز پر خصوصی توجہ کا طالب ہوں وہ اسلامی یکجہتی ہے۔ اسلامی یکجہتی کا مطلب مسلمانوں میں فرقہ واریت نہیں بھڑکنی چاہیئے۔ آپ ایسا کوئی کام مت کیجیئے جس سے کوئی غیر شیعہ مسلمان آپ کے خلاف بھڑک اٹھے۔ درمقابل اسے کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جس سے آپ کی غیرت اور مسلکی تعصب بھڑک اٹھے۔ وہ لوگ (امریکہ وغیرہ) یہی چاہتے ہیں۔ آپ ملاحظہ کیجیئے کہ اس وقت دوفلسطینی گروپ آپس میں لڑ رہے ہیں! اسرائیل کے لئے اس سے بہتر کیا ہوگا! بجائے اس کے کہ ان کی بندوقوں کا رخ اسرائیل کی طرف ہو آپس ہی میں لڑ رہے ہیں۔ اسرائیل کے لئے یہ بڑی اچھی چیز ہے۔ وہ کتنا بھی خرچ کر دے اس کے مقابلہ میں اس کےلئے یہ حالات بڑے قیمتی ہیں۔ فرض کیجئے لبنان میں ایک گروپ اٹھے اور دوسرے گروپ کے خلاف لڑنا شروع کر دے تو اسرائیل اور امریکہ کے لئے اس سے بڑی نعمت کیا ہوگی!
ان کےلئے یہ بہتر ہے یا یہ بہتر ہے کہ حزب اللہ کی طرح کا ایک گروہ آگے بڑھے سب اس کے پیچھے ہوں (کچھ دل وایمان سے اور کچھ رائے عامہ کے ڈر سے) اور اسرائیل کو شکست دے دے؟! واضح ہے کہ انہیں تو اختلاف ہی اچھا لگے گا۔ بقیہ عالم اسلام کا حال بھی یہی ہے۔ امریکہ کے لئے یہ بہتر ہے کہ مصر، اردن، عراق، پاکستان، ہندوستان اور ترکی کے مسلمان سڑکوں پر نکل کر اسلامی جمہوریہ کے حق میں نعرے لگائیں؟ یا یہ بہتر ہے کہ ایسے حالات پیدا کر دے کہ اگر کسی مسئلہ میں اسلامی جمہوریہ ایران آواز اٹھائے تو یہ ساری قومیں خاموش رہیں اور بعض مخالفت بھی کریں؟!
واضح ہے کہ یہ لوگ دوسری قسم کے حالات پیدا کرنے کے درپے ہیں۔ اب یہ حالات کیونکر پیدا ہوں؟ بہت آسان ہے۔ بس شیعہ سنی میں تعصب کی آگ بھڑکا دی جائے، انہیں سمجھا دیا جائے کہ یہ شیعہ ہیں، یہ صحابہ پر سب وشتم کرتے ہیں، یہ آپ کے مقدسات کے ساتھ ایسے ویسے پیش آتے ہیں، تو یہ لوگ تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ ہمارے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) جو اتحاد بین المسلمین کے منادی تھے ان کی ولایت، عقیدہ اور ائمہ(ع) سے محبت ان سب سے زیادہ تھی۔ ولایت کو وہ زیادہ سمجھتے تھے، یا وہ آدمی زیادہ سمجھتا ہے جو ولایت کے نام پر الٹے سیدھے کام کرتا اور جلوت وخلوت میں بے مطلب باتیں کرتا ہے؟ اتحاد کی حفاظت کیجئے۔
آپ کو اگر اپنے درمیان کچھ لوگ اس کے برعکس عمل کرتے نظر آئیں تو انہیں الگ کیجئے۔ ان کی مخالفت کا اعلان کیجئے۔ یہ لوگ نقصان دہ ہیں۔ اسلام، شیعیت اور اسلامی معاشرہ کو چوٹ پہونچاتے ہیں، یہ مسئلہ بہت ہی اہم ہے۔
آج اتحاد بین المسلمین، اسلامی نظام اور اسلامی جمہوریہ کے نفع میں اور اس کے برخلاف قدم اٹھانا امریکہ، صہیونیوں اور عالم اسلام کے ان غنڈوں کے نفع میں ہے جنہوں نے تیل بیچ کر ڈالروں سے جیبیں بھر رکھی ہیں اور نہیں چاہتے کہ اسلامی جمہوریہ اور ایرانی قوم جیسی کسی چیز کا وجود تک ہو۔ بہرحال خداوند متعال سے دعا ہے کہ ہم سب کی ہدایت کرے۔
پروردگارا! آج پاکیزہ اور منور دلوں اور ان مدح اور ذکر کرنے والی زبانوں پر فضل و کرم نازل کر۔ پروردگارا! آج فاطمہ زہرا (س) پر ہمارا، ہمارے شہدا، ہمارے مرحومین اور ہمارے بزرگوار امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی طرف سے بے پایاں درود و سلام بھیج۔ پروردگارا! اس مقدس ذات اور اس مقدس وجود کو ہم سے راضی رکھ ہمیں ان بزرگوں کا پیرو بنا دے۔ پروردگارا! ہماری قوم کو روزبروز سربلند کر، ولی عصر (عج) کے قلب مقدس کو ہم سے راضی اور خوشنود رکھ۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ