نماز جماعت کے بعد منعقد ہونے والی اس نشست میں قائد انقلاب اسلامی نے نئے ہجری شمسی سال کی آمد کی مناسبت سے اہم سفارشات کیں۔ آپ نے اپنے خطاب میں نماز کے سلسلے میں اہم نکات بیان کئے۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

خداوند عالم سال نو کو آپ تمام عزیزوں کے لئے، آپ بھائیوں اور بہنوں کے لئے اور آپ کے اہل خاندان کے لئے مبارک و مسعود قرار دے۔ دعا کرتا ہوں کہ سال نو آپ سب کے لئے اور ملت ایران کے لئے شیریں اور با برکت سال قرار پائے۔ البتہ کسی حد تک اس کا انحصار خود ہم پر ہے۔ ہم اپنے عمل اور فیصلوں سے زندگی کو با برکت بناتے ہیں یا برکتوں سے محروم کر دیتے ہیں۔ یعنی جو چیز انسان کی حتمی سرنوشت کو طے کرتی ہے وہ خود اس انسان کا انتخاب ہے۔ اللہ تعالی نے ہمیں یہ توانائی عطا کر دی ہے کہ انتخاب کر سکیں۔ و ھدیناہ النجدین (ہم نے اس انسان کو دونوں راستوں کی ہدایت کر دی ہے) اس نے ہمیں دو راستے دکھا دئے ہیں کہ ہم ان میں سے ایک کا انتخاب کریں۔ البتہ بعض اوقات حالات ایسے ہوتے ہیں کہ انسان کے لئے انتخاب آسان ہوتا ہے لیکن کبھی حالات بہت دشوار ہو جاتے ہیں لیکن بہرحال تمام امور میں انتخاب کرنا ہوتا ہے۔
یہ جو ہم سورہ مبارکہ الحمد میں ہر روز کئی بار دوہراتے ہیں کہ اھدنا الصراط المستقیم ( ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت فرما) اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم نے جو صراط مستقیم چنا ہے یعنی فرض کریں کہ ہم نے اس کی شناخت کر لی ہے اور ہم اس پر گامزن ہو گئے ہیں تو بھی ہر لمحہ ہمارے سامنے دو راہے آتے رہتے ہیں۔ یعنی ایسا نہیں کہ کوئی سرنگ ہے جس میں داخل ہو جانے کے بعد انسان آخر تک بے فکر ہو جائے، جیسے ریل کی پٹری بچھا دی گئي ہو۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ اس راستے میں کئي جگہوں پر دوراہے ہیں، چوراہے ہیں۔ لہذا ضروری ہوتا ہے کہ صحیح شناخت اور ادراک کے ساتھ صحیح راستے پر قدم رکھا جائے۔ یہ جو ہم ہر روز دوہراتے ہیں کہ اھدنا ( ہماری ہدایت فرما) اس کا مطلب ہے کہ آج بھی ہماری ہدایت فرما، کل بھی ہماری ہدایت فرما، اس کے بعد بھی ہماری ہدایت فرما، فلاں مسئلے میں ہماری رہنمائی فرما، فلاں معاملے میں ہماری ہدایت فرما۔
اس کام کو بہت سخت بھی نہیں سمجھنا چاہئے۔ اللہ تعالی نے ہر انسان کے لئے قرائن اور شواہد رکھ دئے ہیں۔ ذالک ان لم یکن ربک مھلک القری بظلم و اھلھا غافلون ( اللہ تعالی کبھی بھی کسی بستی کو ایسے عالم میں ظلم اور نا انصافی سے نابود نہیں کرتا جب اس بستی کے لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہوں) ایسا نہیں ہے کہ ہمارے پاس ہدایت کا کوئی ذریعہ نہیں ہے اور ہم سے کبھی کوئی غلط قدم اٹھ گیا تو اللہ تعالی کا مواخدہ اور عتاب شروع ہو جائے گا۔ ایسا نہیں ہے، اللہ تعالی نے ہدایت کے وسائل ہمارے لئے مہیا کر دئے ہیں۔ البتہ بعض مواقع ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس کلی اصول سے مستثنی ہوں لیکن عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی جانب سے ہدایت و رہنمائی دستیاب رہتی ہے۔
نوروز بھی جس کا مطلب ہے نئے سال کی آمد، بڑی اچھی چیز ہے۔ زندگی کے اس سفر میں کچھ منزلوں کا ہونا ضروری ہے۔ اگر سفر یونہی مسلسل جاری رہے اور اس میں کوئی منزل نہ آئے تو انسان نئے پن اور کچھ نیا کام کرنے کے بارے میں نہیں سوچے گا۔ زندگی کے سفر میں کچھ منزلیں ہونے کا ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان سوچتا ہے کہ چلو یہ سال پرانا ہوکر گزر گیا اور اب نیا سال آیا ہے تو کوئی نیا کام، نئی فکر، نیا جذبہ اور نیا عزم اپنے ساتھ لایا ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہ رسم ہے اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھی یہ ہوتا ہے کہ جب نیا سال آتا ہے تو لباس بھی نئے ہو جاتے ہیں اور گھروں پر نیا رنگ آ جاتا ہے۔ ہمارے یہاں گھروں کی صفائي ستھرائی کا رواج ہے، دوسروں کے یہاں بھی بظاہر یہ چیزیں موجود ہیں۔ تو نوروز ایک نئی منزل اور نیا موڑ ہے۔
نئي منزل کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ انسان کو یہ سوچنے کا موقع ملتا ہے کہ اس نے ماضی میں کیا کام کئے اور آئندہ اسے کیا کرنا چاہئے؟ وہ سوچتا ہے کہ یہ جو سال گزرا اس میں ہمارے اندر فلاں فلاں مشکلیں تھیں۔ اب اس نئے سال میں میں انہیں ٹھیک کرنے کی کوشش کروں گا، اصلاح کروں گا۔ زندگی کے ہر شعبے میں یہ چیز پیش آتی ہے۔
میری نظر میں سب سے ارفع و اعلی موضوع، جس کے بارے میں انسان کو سوچنا چاہئے، اللہ تعالی سے انسان کا رابطہ ہے۔ جب نیا سال آئے تو انسان کو یہ سوچنا چاہئے کہ گزشتہ سال اور اس سے پہلے والا سال جیسا بھی تھا گزر گیا۔ اب جو نئی منزل آئي ہے تو اللہ تعالی سے ہمارا رابطہ ایک الگ انداز سے ہونا چاہئے۔ مثبت امور کے سلسلے میں بھی اور منفی امور کے معاملے میں بھی۔ منفی امور سے مراد ہے گناہ۔ انسان بعض گناہوں کا عادی ہو جاتا ہے اس لئے ان کی سنگينی کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ اگر وہ ذرا غور کرے تو اپنے برتاؤ اور سلوک میں ان گناہوں کی طرف اس کی پوری توجہ مبذول ہو سکتی ہے۔ ویسے انسان اپنے بارے میں حسن ظن رکھتا ہے۔ اپنے بارے میں بد گمانی میں بہت کم ہی پڑتا ہے۔ یہ بنی آدم کی بہت بڑی مشکل ہے کہ وہ اپنے کاموں کی کوئی نہ کوئی توجیہ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن ہم پر حجت تمام کی جا چکی ہے۔ اگر ہم غور کریں تو حقیقت حال ہماری نگاہ کے سامنے آ سکتی ہے۔
انسان کے اندر اس کا ضمیر ہوتا ہے جو عام طور پر صداقت پسند ہوتا ہے۔ دل کی ظاہری حالت ممکن ہے ہمیں فریب دے لیکن باطن قلب ہمیشہ ہم سے سچ بات ہی کہتا ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے ایک موقع پر فرمایا کہ فلاں معاملے میں مجھے باطن قلب میں بھی کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ حقیقت بھی ہی ہے۔ دل کا ایک باطنی مقام بھی ہے جہاں ہم شاذ و نادر ہی نظر ڈالتے ہیں۔ اگر انسان اس پر نظر ڈالتا رہے تو اس کی نگاہوں میں اس کی اپنی حقیقت ہمیشہ آشکارا رہے گی۔
انسان بعض گناہوں کا عادی ہو جاتا ہے، انہیں معمولی سمجھتا ہے اور ان کا اسیر ہوکر رہ جاتا ہے۔ نئے سال کی آمد پر انسان جو کام انجام دے سکتا ہے ان میں ایک یہی ہے کہ گناہوں کو کم کرنے کا طریقہ سوچے، گناہوں کو لکھنا شروع کر دے۔
گزشتہ سال یا اس سے قبل والے سال کی بات ہے۔ میں شہید افشردی کے حالات زندگی کا مطالعہ کر رہا تھا۔ انہیں کے حالات زندگی میں یا کسی اور شہید کی سوانح عمری میں یہ بات بیان کی گئی تھی کہ وہ اپنی غلطیوں کو روزانہ لکھ لیتے تھے۔ علمائے اخلاق کی تعلیمات اور بعض احادیث معصومین میں بھی یہ سفارش کی گئی ہے کہ اپنے گناہوں کو لکھتے رہئے اور ہر شب اپنا محاسبہ کیجئے۔ تو وہ اپنے گناہوں کو ایک کاغذ پر لکھتے رہتے تھے۔ ہمارا یہ عالم ہے کہ لکھنے کی جرئت ہی نہیں ہوتی۔ یہ ہمت نہیں کہ انہیں ضبط تحریر میں لائیں اور ان سے پردہ ہٹائیں۔ اس شہید نے لکھا تھا کہ میں نے رات کو دیکھا کہ آج یہ چند گناہ میں نے انجام دئے ہیں۔
یہ محاسبہ نفس بہت اچھی چیز ہے۔ انسان کو چاہئے کہ اپنا محاسبہ نفس کرے اور پھر ایک ایک کرکے گناہوں کو ترک کرتا جائے۔ اگر گناہ کرنے کی ہمیں عادت پڑ گئی ہے۔ ہم پانچ چھے یا دس گناہ کرنے کے عادی ہو گئے ہیں تو ہمیں ہمت سے کام لیتے ہوئے ایک ایک کرکے ان گناہوں کو ترک کرنا چاہئے۔ اپنی ان خامیوں کو ایک ایک کرکے برطرف کرنا چاہئے۔
مثبت امور کے سلسلے میں بھی اسی طرح کام کریں۔ میرے خیال میں توجہ دینے کا سلسلہ اگر اسی نماز سے شروع کیا جائے کیونکہ نماز کی اہمیت بہت زیادہ ہے تو یہ عمل بڑا کارساز ہو سکتا ہے۔
انسان کو چاہئے کہ نماز کو بہترین انداز میں ادا کرے، توجہ کے ساتھ پڑھے، حضور قلب کے ساتھ مصلے پر کھڑا ہو۔ حضور قلب کا مطلب یہ ہے کہ انسان جو کچھ ذکر پڑھ رہا ہے، جو کچھ اس کے ذہن میں آ رہا ہے اور زبان پر جاری ہے اس سے غافل نہ ہو۔ ایسا نہ ہو کہ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر ہو۔ مثال کے طور پر اس وقت میں آپ سے بات کر رہا ہوں۔ آپ میرے مخاطب ہیں۔ ایسے میں انسان کی توجہ اس بات پر رہتی ہے کہ اس کا ایک مخاطب ہے جو اس کی بات سن رہا ہے اور اس سے بات بھی کر رہا ہے۔ نماز میں یہی کیفیت ہونی چاہئے۔ (نماز میں بھی) ہمارا ایک مخاطب ہونا چاہئے جس سے ہم ہمکلام ہوں۔ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص نماز کے اذکار کے معانی سے واقف نہیں ہے، اسے کوئی اندازہ نہیں کہ جو عبارتیں وہ پڑھ رہا ہے اس کا مفہوم کیا ہے؟ لیکن اسے اتنا احساس ہے کہ کسی سے بات کر رہا ہے، اللہ سے ہم کلام ہوا ہے تو یہی چیز اسے اللہ سے قریب کر دے گي۔ یہ چیز تقرب عطا کرنے والی ہے۔ ہم اس کے معنی سے بھی واقف ہیں، اس کی تفسیر کا بھی علم رکھتے ہیں، ہم نے اس کے بارے میں کئی کتابیں بھی پڑھی ہیں لیکن جب ہم نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو یکسر فراموش کر دیتے ہیں کہ ہم کیا عمل انجام دے رہے ہیں؟ صائب نے بڑا اچھا شعر کہا ہے۔ شعر مجھے یاد نہیں لیکن اس کا مضمون کچھ اس طرح کا ہے کہ اللہ کے علاوہ کیا ہے جس کی یاد نہ آتی ہو، دوسری ساری چیزیں نماز میں یاد آتی ہیں۔ کچھ گم ہو گيا ہے تو نماز پڑھتے وقت معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ چیز کہاں ہے؟
نماز بہت اہم چیز ہے۔ نماز میں حضور قلب یعنی یہ احساس کہ ہم کسی سے ہم کلام ہیں بہت اچھی شروعات ہے۔ اول وقت نماز کی ادائیگی بھی اچھی شروعات ہو سکتی ہے، نماز جماعت میں شرکت بھی ایک اچھی شروعات ہو سکتی ہے، نافلہ نمازوں کی عادت بھی اسی طرح ہے۔ انسان اپنی زندگی میں اس فہرست کو رفتہ رفتہ نافذ کر سکتا ہے۔ اگر ہم ہمت سے کام لیں تو سال نو ہمارے لئے ان برکتوں کا باعث بن سکتا ہے۔
البتہ ان امور کے علاوہ بھی ہم سب کو کچھ نہ کچھ کام ہوتے ہیں۔ ہماری زندگی میں کاموں کا ایک خاص سلسلہ ہوتا ہے۔ ان کاموں کو بنحو احسن انجام دیں اور یہ کوشش کریں کہ اسے زیادہ سے زیادہ خدا پسندانہ بنائيں تو اس کے ثمرات میں بھی یقینا اضافہ ہوگا۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ