تہران میں قرآن کریم کے اٹھائيسویں بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لینے والے قاریان، حافظان، عالمان قرآن اور جیوری کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے قرآن کے اتحاد آفریں پہلو سے بے توجہی کو مسلم اقوام کی سب سے بڑی غفلت قرار دیا اور فرمایا کہ قرآنی مفاہیم اور وعدہ الہی پر ایقان و ایمان میں کمی دوسری سب سے بڑی غفلت ہے جو عملی طور پر امت اسلامیہ کے اتحاد اور عزت و عظمت کے راستے میں رکاوٹ کے طور پر حائل ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اللہ تعالی کے قرآنی وعدوں کے ایفاء کی مثال پیش کرتے ہوئے ملت ایران کی تقدیر بدل جانے کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ہم ایرانی عوام نے قرآن مجید کی اس آیت کو عملی طور پر آزمایا ہے کہ ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسھم ( یعنی اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتی) قائد انقلاب اسلامی نے شاہی دور کے ایران کو امریکی ایران اور صیہونیوں پر منحصر ایران قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ایران کو استعمار اور صیہونزم کے خلاف جد و جہد کے محور و مرکز میں تبدیل کرنا ایک حقیقی معجزہ اور اس وعدہ الہی کی تکمیل ہے جس کی بشارت اللہ تعالی نے قران مجید میں دی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے علاقے کی اقوام منجملہ مصری عوام کے قیام کو قرآنی وعدوں کے ایفاء کی دیگر مثالوں سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ امریکہ، خباثت آلود صیہونی محاذ اور ان سے وابستہ سیاسی عناصر مصری عوام کے قیام کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے لیکن اس قوم نے اللہ اکبر کے نعرے اور نماز جمعہ و نماز جماعت کے ساتھ دین خدا کی نصرت کے لئے میدان میں قدم رکھے اور اللہ تعالی نے اس قوم کی مدد کرکے ثابت کر دیا کہ جب اللہ تعالی کسی قوم کی مدد کرتا ہے تو اس پر کوئی بھی غلبہ حاصل نہیں کر سکتا۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمدللَّه ربّ العالمين و صلّیاللَّه على محمّد و آله الطّاهرين
اس بات پر بیحد مسرت ہے کہ خداوند عالم نے یہ توفیق عطا فرمائی کہ مزید ایک سال زندہ رہوں اور ایک بار پھر اس دلنشیں اور شیریں نشست قرآنی سے فیض یاب ہو سکوں۔ برادران عزیز نے جو تلاوت فرمائی اس سے میں بہت محظوظ ہوا۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ان تمام عزیزوں کو، آپ تمام حضرات کو، ہم سب کو قرآن کے ساتھ محشور فرمائے۔ ہم دنیا میں بھی قرآن کی معیت میں رہیں، قرآن کے ساتھ زندگی بسر کریں، ہماری سانسوں میں قرآن بسا رہے اور آخرت میں بھی، قیامت کے دن بھی قرآن ہمارا شفاعت کنندہ بنے، ہمارے خلاف شاکی نہ ہو۔ یہ ہماری دلی آرزو ہے۔
مرکز اتحاد
قرآن کریم کے اس عالمی مقابلے میں جو خاص بات نظر آئی وہ یہ تھی کہ قرآن اجتماعیت کا محور ہے، اتحاد کا مرکز ہے۔ ہم مسلمانوں کے پاس اتحاد کے عوامل بہت ہیں۔ ان میں سے ایک جو شاید سب سے زیادہ اہم ہے یہی قرآن ہے۔ تمام مسلمان، تمام مسلم اقوام اس قرآن کے سامنے سر تسلیم خم کرتی ہیں، قرآن سے درس لیتی ہیں، خود کو قرآن سے نزدیک کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ بڑی اہم چیز ہے۔ دشمنان اسلام اور دشمنان قرآن کی یہ کوشش رہی ہے کہ مسلم اقوام کے درمیان دوریاں رکھیں، انہیں ایک دوسرے سے الگ رکھیں بلکہ انہیں ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا دیں، انہیں ایک دوسرے کا دشمن ظاہر کریں۔ اس کی وجہ ہم مسلمانوں کی قرآن سے غفلت ہے۔ جب مسلم اقوام، سارے کے سارے لوگ اس آسمانی کتاب کو، اس ملکوتی پیغام کو، اس تحفہ الہی کو مانتے ہیں تو اجتماع و اتحاد کے لئے اس سے بہتر کیا ذریعہ ہو سکتا ہے؟! ہم سب کو چاہئے کہ اس روحانی دسترخوان پر جمع ہوں اور عزت و قدرت کے اس اسلامی و الہی سرچشمے سے بہرہ مند ہوں۔
مسلمانوں کی دوبڑی غفلتیں
ہم سے دو بڑی غفلتیں ہوئی ہیں۔ ایک تو اس بات سے غفلت ہے کہ قرآن ہم مسلمانوں کے اتحاد کا محور ہے۔ دوسری غفلت ہم نے قرآنی مفاہیم پر ایقان و اعتقاد پیدا کرنے اور قرآن میں مذکور اللہ تعالی کے وعدے کی حقانیت کو صدق دلی سے تسلیم کرنے میں برتی ہے۔ ہمیں اللہ کے وعدوں پر پورا یقین رکھنا چاہئے۔ اگر ہم نے اللہ کے وعدوں پر یقین حاصل کر لیا تو امت اسلامیہ کے سامنے اتحاد و یکجہتی، عزت و وقار اور قدرت و طاقت کا راستہ کھل جائے گا۔ امت اسلامیہ پسماندگی سے نجات حاصل کر لے گی۔ مصر سے تشریف لانے والے استاد محترم نے ابھی جو آیت پڑھی؛ «ان ينصركم اللَّه فلا غالب لكم»؛(1) اگر اللہ تعالی نے تمہاری مدد فرما دی تو پھر کوئی طاقت تم کو زیر نہیں کر سکتی اور «و ان يخذلكم فمن ذالّذى ينصركم من بعده»؛(2) اگر اللہ تمہاری مدد نہ کرے، معاونت نہ فرمائے تو پھر کون ہے جو تمہاری مدد کرے گا؟ یہ ایک درخشاں پیغام ہے۔ قوموں کو چاہئے کہ اسے پرچم پر تحریر کرکے بلند کریں۔ اسے بار بار پڑھیں۔ «ان ينصركم اللَّه فلا غالب لكم» اگر اللہ تعالی نے تمہاری مدد فرما دی تو پھر کوئی طاقت تم کو مغلوب نہیں کر سکتی۔ ہم کیا کریں کہ اللہ تعالی ہماری مدد فرمائے؟ یہ بہت اہم نکتہ ہے کہ ہم کیا کام کریں کہ اللہ تعالی کی نصرت و مدد ہمارے شامل حال ہو جائے؟ اس کا جواب قرآن نے ہمیں دے دیا ہے؛ «ان تنصرو اللَّه ينصركم»(3)، «و لينصرنّ اللَّه من ينصره»(4) تم اللہ کی نصرت کرو، دین خدا کی نصرت کرو، اللہ کے لئے قیام کرو تو اللہ تمہاری مدد فرمائے گا۔ جہاں بھی قوموں نے اللہ کے دین کے لئے قیام کیا اور اپنے تمام وسائل کو استعمال کیا اللہ تعالی نے ان کی مدد کی ہے اور جب اللہ کی جانب سے ان کی مدد ہو گئی تو پھر کوئی طاقت انہیں مغلوب نہیں کر سکی۔ اس کا مشاہدہ ہم نے اپنے درمیان کیا ہے۔ ہم نے اس کا بھی تجربہ کیا اور آزمایا ہے کہ «انّ اللَّه لا يغيّر ما بقوم حتّى يغيّروا ما بأنفسهم»(5) اس کا تجربہ ملت ایران نے کیا ہے۔ ہم نے عملی طور پر اسے آزمایا ہے۔ ہم نے خود کو بدلا تو اللہ تعالی نے ہمارے حالات تبدیل کر دیئے۔ بڑی حیرت انگیز بات یہ ہے اگر ہم نے ایک قدم بڑھایا تو اللہ تعالی نے ہمیں دس قدم آگے پہنچا دیا۔ ہم نے خود کو ذرا سے بدلا تو اللہ نے ہماری بے پناہ مدد کی اور ہمارے حالات کو یکسر تبدیل کر دیا۔
ہمت مرداں مدد خدا
آج بھی ہم دنیا میں اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اس وقت آپ مصر کے عوام کو دیکھئے! وہی اللہ اکبر کا نعرہ ہے، وہی باجماعت نماز ہے، وہی اسلامی نعرے ہیں۔ اس انداز سے وہ میدان میں اترے تو اللہ تعالی نے بھی ان کی مدد فرمائی۔ کیا امریکہ کے لئے یہ چیز قابل برداشت تھی کہ مصر میں یہ تبدیلیاں آئيں؟ کیا خبیث صیہونی محاذ جو تمام مغربی طاقتوں کے اندر اپنی جڑیں پھیلائے ہوئے ہے ان تغیرات کو برداشت کر پا رہا ہے؟ لیکن یہ تبدیلیاں رونما ہوئيں! کیوں؟ اس لئے کہ جب اللہ مدد کرتا ہے تو پھر دوسری ساری طاقتیں کاغذی شیر بن کر رہ جاتی ہیں۔ قوموں کو اس طریقے سے اپنا وقار حاصل کرنا چاہئے۔ «و للَّه العزّة و لرسوله و للمؤمنين»؛(6) عزت تو خدا کے ہاتھ میں ہے «تعزّ من تشاء و تذلّ من تشاء»؛(7) وہی جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے رسوا کر دیتا ہے۔ اللہ سے عزت کی دعا کیجئے۔ ہمیں قرآن کی صحیح شناخت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن پر اپنے پورے وجود سے، اپنے دل کی گہرائی سے ایمان و ایقان پیدا کرنے کی ضرورت ہے، صرف ظاہری یقین کافی نہیں ہے۔ ہمیں دل کی گہرائیوں سے قرآن کے وعدوں پر یقین کامل حاصل کر لینا چاہئے۔ آج ان وعدوں پر یقین کرنا زیادہ آسان ہے۔ آج اس دور میں جس میں ہم اور آپ زندگی بسر کر رہے ہیں الہی بشارتوں اور نشانیوں کی عملی مثالیں اتنی زیادہ ہیں کہ بآسانی ان کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ حضرت ابراہیم نے جس اطمینان کی بات اس آیت میں کی ہے؛ «و لكن ليطمئنّ قلبى»،(8) وہ اطمینان انسان کو آج حاصل ہو رہا ہے کیونکہ وہ آنکھوں سے دیکھ رہا ہے، حقائق نظروں کے سامنے ہیں۔ ایران پہلے کیا تھا؟ طاغوتی عناصر کے چنگل میں جکڑا ہوا ایران تھا، امریکہ کا ایران تھا، غاصب صیہونیوں سے وابستہ ایران تھا۔ ایران کیا تھا اور آج کیا بن چکا ہے؟ استکبار اور صیہونزم کے خلاف جدوجہد کا مرکز، مسلم اقوام کا مضبوط سہارا بن چکا ہے۔ اس کا ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ قرآن کی دعوت، قرآن کے پیغام اور قرآن کی بشارتوں کا کرشمہ ہے جو ہمیں دی گئی ہیں۔
حفظ قرآن کی ضرورت
میں اس نشست میں اپنے ملک کے اہل قرآن سے خاص طور پر جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ آپ حفظ قرآن پر زیادہ توجہ دیں۔ حفظ کرنا ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے، حفظ اصلی منزل نہیں ہے۔ حفظ قرآن وسیلہ ہے، یہ وسیلہ ہے قرآن کی بآسانی تلاوت کرنے کا، اسے بار بار دوہرانے کا، آیتوں میں تدبر کرنے کا۔ نوجوانوں کو چاہئے کہ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کریں، اپنے حافظے کی قوت کو بروئے کار لائیں۔ بچوں اور نوجوانوں کو حفظ قرآن کی طرف راغب کیا جائے! ویسے موجودہ صورت حال کا ماضی سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ ہم بہت آگے پہنچ چکے ہیں لیکن ابھی بھی بہت کچھ باقی ہے۔ اب تک ہمارے ملک میں جو کام انجام پائے ہیں، کم ہیں۔ حفظ قرآن کی سمت بڑھنا ہے۔ جب حفظ قرآن کا مرحلہ طے پا جائے گا، یہ ہدف حاصل ہو جائے گا تو تدبر اور تفکر کا راستہ بھی ہموار ہو جائے گا اور یہی تدبر کلیدی شئے ہے۔ کلیدی ہدف قرآن میں تدبر اور اس کی آیات میں تفکر ہے۔
ہم اپنے ملک کے تمام اہل قرآن کو اس نشست کے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی قرآن کے صدقے اپنی رحمتیں آپ پر نازل فرمائے اور ہم سب کو دنیا و آخرت میں قرآن کی معیت میں رکھے۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته
1) آلعمران: 160
2) همان
3) محمد: 7
4) حج: 40
5) رعد: 11
6) منافقون: 8
7) آلعمران: 26
8) بقره: 260