قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے اس تاریخی شہر اور آپ جیسے متدین اور انقلابی لوگوں کی زیارت کی توفیق دی۔ قزوین کے لوگ زمانۂ انقلاب میں اور انقلاب کے بعد ہر دور میں وفادار اور مومن ثابت ہوئے ہیں۔ یہاں کے لوگ فداکار، سخی، متدین اور امور خیر میں حصہ لینے والے ہیں اور یہ اوصاف ان کے اندر ہمیشہ سے رہی ہیں۔ کسی ایک زمانے سے مخصوص نہیں ہیں۔ جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو قزوین اور اہل قزوین کے مناقب صا ف دکھائی دیتے ہیں۔ جو قوم تاریخ وثقافت کے دامن میں ہمیشہ سے جگہ بنائے ہو وہ بہر حال اس قوم سے ممتاز ہوتی ہے جو ثقافتی یا تاریخی پس منظر نہ رکھتی ہو۔ ایرانی قوم اپنے اسی تاریخی اور ثقاتی پس منظر کی بنیاد پر ( کہ جس کا ایک نمونہ خود یہ شہر قزوین ہے) آج تمام قوموں کے درمیان ممتاز ہے۔ اگر تاریخ قزوین کے اوراق پلٹے جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ جب ہزار سال قبل عالم اسلام کے ایک مشہور جغرافیہ دان ''مقدسی'' نے اس شہر کو دیکھا تو اسے مرکز فقہ و فلسفہ کے نام سے یاد کیا ۔ نو سو سال قبل عبدالجلیل قزوینی جیسی شخصیت اسی شہر میں پیدا ہوئی اور ان کی کتاب ''النقض'' آج کے متکلمین اور مفکرین کے لئے ایک معتبر اور قابل توجہ کتاب ہے۔ آٹھ سو سال قبل ایک مفکر نے قزوین کے بارے میں ''التدوین''کے نام سے ایک کتاب لکھی جو تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس نے اس وقت قزوین کی علمی، دینی، ثقافتی اور سیاسی شخصیتوں کے حالات زندگی کو تین جلدوں میں مرتب کیا ہے۔ یہ تاریخی پس منظر بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جس وقت ایران کے بہت سے شہر ایک گائوں یا دیہات کی شکل میں تھے یا اصلاً موجود ہی نہیں تھے اس وقت قزوین کے اندر اتنی معروف اور علمی شخصیتیں تھیں کہ ان کے شرح احوال کے لئے تین جلدیں مرتب ہو گئیں۔ سات سو سال قبل حمداللہ مستوفی جیسا عظیم مورخ اس شہر سے ابھرا اور اسی طرح سات سو سال قبل عبید زاکانی نامی عظیم شاعر بھی اسی سرزمین سے طلوع ہوا۔ اس کے علاوہ چار سو پچاس سال قبل قزوین ایران کا سیاسی مرکز تھا۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ قزوین کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس سرزمین سے اس قدر فقیہ، حکیم، طب، ریاضی داں، مورخ اور ہنرمند و فنکار نکلے ہیں کہ اگر صرف ان کے ناموں کو پڑھا جائے تو دو تین گھنٹے صرف ہوجائیں گے۔
آپ سبھی اہل قزوین اور قزوین کے نوجوان جو اس فضا میں سانس لے رہے ہیں اس درخشاں ماضی پر تکیہ کرکے آگے بڑھئے۔
میں خود اپنے دو اساتید کی وجہ سے زمانۂ طالب علمی میں ہی قزوین سے آشنا ہوگیا تھا ۔ ایک استاد عالی جناب شیخ ہاشم قزوینی دوسرے عالی جناب شیخ مجتبیٰ قزوینی تھے۔
حوزۂ علمیہ مشہد کے یہ دو چمکتے ہوئے ستارے تھے جن پر دوران جوانی سے ہی ہماری نگاہیں جمی ہوئی تھیں۔ ''قزوینی'' کا تصور انہیں دو استادوں کی بدولت ہر مشہدی کے ذہن میں ایک خاص اہمیت رکھتا تھا۔ یہ دونوں حضرات بالخصوص عالی جناب شیخ مجتبیٰ قزوینی ایک دوسری اہم اور باعظمت شخصیت کے شاگرد اور مرید تھے جن کا نام ''موسیٰ زرآبادی'' تھا۔ وہ معنویت و عرفان و سلوک کے مرکز تھے اور تمام تشنگان علوم و معرفت کو سیراب کرتے تھے۔ ہم سے پہلے بھی اس سرزمین سے بہت سے علماء نکلے مثلاً شہید ثالث جن کا مقبرہ یہیں ہے۔ مرحوم ملا محمد تقی برغانی اور آپ کے بھائی ملا محمد صالح برغانی۔ یہ سب فقیہ مجاہد تھے نہ کہ گوشہ نشیں اور کنارہ کش۔ انسانیت کے لئے تاریخ ساز تھے اور اسی راہ میں جد و جہد کرتے تھے حتی اپنی جان کی قربانی سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ اگر انقلاب کو دیکھا جائے تو سارے ملک کے لوگوں نے قربانیاں دی ہیں لیکن شہدائے قزوین اپنا خاص مقام رکھتے ہیں مثلاً شہید رجائی۔ ایسے شہداء بہت کم ہیں۔ مجاہدین کے درمیان شہید ''بابائی''ایک ناقابل فراموش شخصیت ہیں۔ اسی طرح معلم معنوی یعنی مرحوم ابوترابی بھی اسی صف میں ہیں۔ میں ان تینوں کو نزدیک سے جانتا اور پہچانتا ہوں، ان کی عادات و خصوصیات سے واقف ہوں۔ یہ ہیں شہدائے قزوین ۔ شہر قزوین نے دو ہزار اور ضلع قزوین سے تقریباً تین ہزار شہداء ہیں۔ یہ اہل قزوین کے لئے باعث افتخار ہے۔ صدیوں پہلے سے اہل قزوین کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہاں کے لوگ دیندار، بلند ہمت، سخی اور قناعت پسند ہیں۔ انقلاب کے بعد پورا ملک اور ساتھ ہی قزوین ایک خاص نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ یعنی گذشتہ زمانے سے بہت بہتر طور پر خدمت رسانی ہوئی ہے۔ خداوند عالم نے اس سر زمین کو متعدد نعمتوں سے مالا مال کیا ہے۔ جیسا کہ یہاں کے امام جمعہ نے بھی اشارہ فرمایا کہ یہاں کی مٹی، کھیتی اور زراعت کے لئے بابرکت ہے۔ پانی پر کنٹرول ضروری ہے۔ کچھ کام ہو چکا ہے کچھ باقی ہے۔ ابھی سعی و کوشش جاری رہنا چاہئے۔ اہل قزوین بھی دوسرے علاقوں کی طرح حکومت سے کچھ امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں جو کہ بجا ہیں اور ان پر عمل ہونا چاہئے۔ میں کسی بھی شہر میں سفر کرنے سے پہلے وہاں کے لوگوں کے نظریات کو معلوم کرتا ہوں چاہے خود وہاں کے لوگوں کے ذریعہ یا متعلقہ عہدیداروں اور ذمہ دار لوگوں کے توسط سے۔ جب اہل قزوین سے ان کے مطالبات کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ بھی دوسرے شہریوں کی مانند یہی جواب دیتے ہیں کہ اقتصادی مشکلات کو حل کیا جائے جوانوں کے مسائل، (مثلاً تعلیمی، ازدواجی، بیکاری کے مسائل وغیرہ) مہنگائی اور ترقیاتی امور کے سلسلہ میں دھیان دیا جائے۔ ذمہ دار افراد سے ہم کو یہی توقع ہے کہ وہ حتی المقدور لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کریں گے۔ کیونکہ لوگوں کی یہ امیدیں بالکل بجا اور صحیح ہیں۔ میں ان کی تائید کرتا ہوں اور ہم اسی لئے مختلف شہروں میں جاتے ہیں ۔ ہمارا مقصد یہی ہے کہ ہر صوبہ اور شہر میں پہنچ کر وہاں کے مسائل کی تفصیلی چھان بین ہو اور ذمہ دار حضرات کے لئے وہاں کے امور دوبارہ سے پیش کئے جائیں۔ یقینا متعلقہ حکام، لوگوں کی خدمت میں مشغول ہیں ان کے اندر جذبۂ خدمت کارفرما ہے لہٰذا ان کی مدد کرنا چاہئے تاکہ خدمت رسانی کی رفتار میں اور اضافہ ہو۔
البتہ قزوین کے بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ میں حکام کو انتباہ دوں، نصیحت کروں اور تمام امور کو اچھے اور صحیح طریقے سے انجام دینے کی تلقین کروں بالخصوص وہ حکام جو اس علاقے سے مربوط ہیں تو میں یہ کام بھی کروں گا۔ میں اپنے اس قزوین کے دورہ میں جتنے دن یہاں پر ہوں حکام سے مستقل رابطے میں رہوں گا اور انشاء اللہ وہ تمام باتیں اور انتباہات جو ضروری ہوں گے حکام تک پہنچائوں گا۔ اس کے علاوہ میں آپ تمام بہن بھائیوں اور چھوٹے بڑوں کی خدمت میں چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں ۔
پہلی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں توجہ اس بات پر ہے کہ خدمت انجام دی جائے۔ البتہ سارے حکام کی توانائیاں اور اختیارات یکساں نہیں ہیں۔ لیکن بہرحال سب کی نیت خدمت رسانی کی ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ جمہوری اسلامی نظام لوگوں کی محبت اور مرضی کی بنیاد پر قائم ہوا ہے۔ لوگوں نے اپنی مرضی سے حکام کو منتخب کیا ہے ۔ لوگ خود تجزیہ کرتے ہیں پھر اسی کے مطابق عمل کرتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ جمہوری اسلامی نظام اور ہمارا یہ عظیم ملک عالمی تغیرات کی وجہ سے مختلف طرح کے چیلنجز اور مواقع سے روبرو ہے۔ ہمارے سامنے چیلنج بھی ہیں اور آگے بڑھنے کے موقعے بھی ہیں۔ حکام کے لئے سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہر موقع سے پورا فائدہ اٹھائیں تاکہ ملک مادّی اور معنوی اعتبار سے ترقی کرے اور ملک کا نام روشن ہو۔ جمہوری اسلامی کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ اپنے ملک میں بنائی جانے والی چھوٹی موٹی چیزوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر دیا جائے۔ یہ کافی نہیں ہے۔ ہم تو یہ چاہتے ہیں ملک میں انصاف قائم ہو اور تمام دولت و ثروت قوم کے درمیان عدل و انصاف سے تقسیم ہو۔ یہ ہماری دیرینہ آرزو ہے جس کے لئے ہم آج تک سعی و کوشش اور جد و جہد میں مشغول ہیں۔ فلسفۂ نظام جمہوری اسلامی یہ ہے کہ اسلام حکام اور قوم سے جو توقع رکھتا ہے اسی کی روشنی میں لوگوں کے درمیان انصاف، اخلاق، امن و امان اور آسائش کا بول بالا ہو جائے۔ یہ بہت مقدس اور عظیم کام ہے لیکن سخت بھی ہے۔ گذشتہ پچیس سال میں اسلامی جمہوریہ کی یہی کوشش رہی ہے کہ اس مقصد میں کامیاب ہو جائے۔ جو لوگ دوسری راہ پر چلتے ہیں اور انصاف سے چشم پوشی کرتے ہیں بالکل غلط کرتے ہیں، جو معنویت کو اہمیت نہیں دیتے غلط کرتے ہیں جو صحیح قیادت سے غض نظر کرتے ہیں غلط کرتے ہیں جو خود کو عوام الناس سے الگ سمجھنے لگتے ہیں غلط کرتے ہیں۔ واقعاً یہ راہ بہت کٹھن ہے کیونکہ اس راہ میں اِن سارے معیاروں پر کھرا اترنا پڑتا ہے۔
اس سے کام نہیں چلے گا کہ چند روز حکومت کی گدّی پر بیٹھ کر خود کو خوش کر لیا اور ملک کی ترقی کو یکسر فراموش کر دیا۔
نہیں۔ اسلامی جمہوری نظام ہر ذمہ دار شخص کو خدا کے سامنے کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ لوگوں کی تعریف، تشکر و قدردانی وغیرہ سب بعد کے مرحلے میں ہونا چاہئے۔ سب سے پہلا مرحلہ یہ ہے کہ ہر ذمہ دار شخص خود کو اللہ کے سامنے محسوس کرے اور یہ سوچے کہ لوگوں کی خدمت کرنے اور ان کے درمیان انصاف قائم کرنے کی ذمہ داری اس کے دوش پر ہے۔
ہمارا تجزیہ یہ ہے کہ نظام جمہوری اسلامی نے گذشتہ پچیس سال میں اس وادی میں کافی ترقی کی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم اپنے تمام مقاصد تک پہنچ گئے۔ اس کے لئے ابھی مزید کوششوں کی ضرورت ہے مگر اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ نظام جمہوری اسلامی نے ترقی کی ہے۔
آج ہماری قوم کی خود اعتمادی پہلے سے بہت زیادہ ہے اور آپ کی یہی امید و نشاط انقلاب اسلامی کی کوششوں کا ایک نتیجہ ہے۔ ہم اس کی قدر کرتے ہیں اور اس کو غنیمت سمجھتے ہیں اور اسی راہ میں آگے بڑھنے کے لئے کوشش کرتے رہیں گے۔
ایک اور اہم مسئلہ جو کہ اسی سال سے متعلق ہے اور جس پر بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ آنے والے الیکشن کا مسئلہ ہے۔ یہ الیکشن گذشتہ پچیس سال کی طرح آج بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اگر الیکشن اچھے طریقے سے انجام پا جائے گا تو ملک کا امن و امان اور مستقبل سب کچھ محفوظ ہو جائے گا۔ صحیح الیکشن کسے کہتے ہیں؟
صحیح الیکشن وہ ہوتا ہے جس میں قانون، آزادی، ایمانداری وغیرہ ساری چیزیں پائی جائیں۔ جس میں لوگ جوش و جذبہ کے ساتھ شریک ہوں، جس میں لوگوں کو اپنی دینی ذمہ داری کا احساس ہو۔ ایسے ہی الیکشن سے ملک میں بہترین پارلیمنٹ وجود میں آ سکتی ہے۔ پارلیمنٹ کا ایک خاص مقام ہے۔ وہ پوری قوم کی پناہ گاہ ہے۔ قوم کی عزت کی تجلی گاہ ہے۔ یہی پارلیمنٹ پوری دنیا کے سامنے ہماری عزت و وقار کی تصویر پیش کرتی ہے۔ اسی پارلیمنٹ کے قوانین کی روشنی میں حکام آگے بڑھ سکتے ہیں۔ یہی پارلیمنٹ قوم کے امن وامان کی ضامن اور دشمنوں کے مقابلے میں مضبوط دیوار ہے۔ یہ ہے حقیقی پارلیمنٹ اور ایسی پارلیمنٹ اسی وقت وجود میں آ سکتی ہے جب لوگ چشم بصیرت کے ساتھ صاحب صلاحیت افراد کو ووٹ دے کر منتخب کریں۔ پارلیمنٹ امام خمینی کے بقول پوری قوم کی خوبیوں کا نچوڑ ہے۔ اگر آپ لوگ زیادہ تعداد میں الیکشن میں شریک ہوں گے تو پارلیمنٹ کا اعتماد و اعتبار بھی زیادہ ہوگا اور خدمت رسانی بھی بہتر ہوگی۔ باتیں بہت ہیں مگر میں یہیں پر اکتفا کرتا ہوں اور بس اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں کہ ایسے نمائندے کو منتخب کرکے پارلیمنٹ میں بھیجئے جو متدین اور دیندار ہو کیونکہ دیندار افراد لائق اعتماد ہوتے ہیں۔ نمائندے کو انقلابی ہونا چاہئے یعنی اس کے اندر قوت و جذبۂ انقلاب کار فرما ہو تاکہ بند راہوں کو بھی اپنے عزم و حوصلے سے کھول سکے۔ اس کے علاوہ نمائندہ ایسا ہو جو خدمت گذار ہو، آزمائشوں سے گذرا ہوا ہو، پروگرام کے تحت چلنے والا ہو، معاشرے میں بدنام نہ ہو، جوانوں کی طرف توجہ دینے والا ہو۔ ایسے افراد ملک کے جس گوشے میں بھی ہوں اپنا فریضہ اور ذمہ داری سمجھ کر اٹھیں اور امیدوار بن جائیں۔ ابھی نامینیشن کی مہلت باقی ہے لہٰذا ہر صاحب صلاحیت شخص کا اسلامی، قومی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ میدان میں آئے اور الیکشن میں کھڑا ہو۔ بعد میں اگر اپنے سے زیادہ صاحب صلاحیت افراد کو دیکھے تو انہیں موقع دے کر پیچھے ہٹ سکتا ہے۔ لیکن فی الحال میدان میں اترے اور میں لوگوں سے بھی یہی کہوں گا کہ ایسے افراد کو جہاں بھی دیکھیں انہیں الیکشن میں کھڑا ہونے کے لئے کہیں اور ان پر زور ڈالیں کہ وہ امیدوار بنیں۔ ملک کا مستقبل اور ملک کا مفاد اسی میں پوشیدہ ہے کہ الیکشن زور وشور سے برگزار ہوں اور کثیر تعداد میں لوگ اس میں شرکت کریں۔
البتہ میرا ماننا یہی ہے کہ انشاء اللہ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی ہماری قوم دشمنوں کی امیدوں اور خواہشوں کے برخلاف الیکشن کو عظیم الشان طریقے سے منعقد کرے گی۔
ہمارے دشمن کسی قیمت پر یہ نہیں چاہتے کہ ہمارے ملک میں اچھے الیکشن ہوں۔ پہلے بھی ایسا ہی رہا ہے۔ اکثر الیکشنوں میں دشمنوں کی یہی کوشش رہی کہ کسی طرح الیکشن سے جوش و خروش کو ختم کر دیا جائے۔ بعض افراد جو دشمنوں سے ملے ہوئے ہیں ان کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے روکیں لیکن اِس وقت چونکہ ملک کی فضا الیکشن میں گہری دلچسپی کی فضا ہے اور سبھی عہدیدار متفقہ طور پر لوگوں سے الیکشن میں شرکت کرنے کے لئے درخواست کر چکے ہیں لہٰذا اب یہ لوگ جرأت نہیں کریں گے۔ را‏ئے عامہ اور عام فضا کو دیکھ کر ڈریں گے کہ لوگوں کو صراحتاً کیسے منع کریں؟
لیکن آپ لوگ جان لیں کہ اس ملک کے مخالفین اور ہماری ترقی کے دشمن اپنی حتی الامکان کوشش کریں گے کہ لوگوں کو اس الیکشن میں شریک ہونے سے روکیں۔ یہ اور بات ہے کہ نہ آج تک ایسا کر سکے ہیں اور نہ آئندہ کر سکیں گے۔ انشاء اللہ۔
ہماری ملت اور بالخصوص جوانوں کے لئے بہت ضروری ہے کہ انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کے نعروں اور موقف کا بغور مطالعہ کریں، اس کے بعد دنیا پر نظر ڈالیں تاکہ آپ کو پتہ چل جائے کہ آج ہماری باتیں اور اسلامی جمہوریہ کے نعرے ساری دنیا میں گونج رہے ہیں۔ ہم نے بیس سال قبل جو کہا تھا آج دنیا اسی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ ہماری ملت نے پچیس سال پہلے کہا تھا کہ امریکہ ایک خونخوار اور دوسری قوموں کو تباہ کر دینے والا ملک ہے۔ اس کے پاس قوی میڈیا ہے جس کے ذریعہ صرف وہ اپنے کو جمہوریت اور حریت پسند ثابت کرتا ہے لیکن بہت سے اسلامی ممالک اس بات کو نہیں سمجھ سکے۔ آج جب دنیا مختلف مسائل میں امریکہ کے موقف کو دیکھ رہی ہے تو اس کی خونخواری اور بربریت کو سمجھ رہی ہے۔ آج سب دیکھ رہے ہیں کہ وہ دوسری قوموں کے حقوق کو پائمال کر رہا ہے، ان کی سرحدوں پر کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اپنے ناجائز مفادات کی خاطر دنیا کے ہرحصہ میں دست درازی کا حق اپنے لئے محفوظ سمجھ رہا ہے، چاہے وہ خلیج فارس ہو، بحر ہند ہو، ایشیائی ممالک ہوں یا خود یورپی ممالک، ہر جگہ اس کی دست درازی سب کی نگاہوں کے سامنے ہے۔ یہ سب وہی چیزیں ہیں جو پچیس سال قبل ہماری قوم بتا چکی ہے۔ آج بغداد اور عراق کے دیگر شہروں کی سڑکیں، افغانستان یا دنیا کے دوسرے ممالک اس خونخوار چہرے کی حقیقت کو دیکھ رہے ہیں جسے وہ اپنے میڈیا کے ذریعہ چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔
ملت ایران بارہا دہرا چکی ہے کہ صیہونزم کی فریب کارانہ اور ریاکارانہ امن تجویز اعتماد نہ کرو اور آج جہاں سعودی عرب اور دنیائے اسلام فلسطین کے تلخ واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ آج اسرائیل کی غاصب حکومت اپنے ہر وعدہ اور ہر معاہدے سے مکر چکی ہے۔ حتی اپنے بین الاقومی معاہدوں کو پیروں تلے روند چکی ہے نتیجتا دنیا ایران کی باتوں کا یقین کر رہی ہے۔ آٹھ سال اس جنگ میں جو صدام کی طرف سے ہم پر مسلط کی گئی ہم یہی نعرہ لگاتے رہے کہ یہ صدام انسان کی شکل میں ایک وحشی حیوانِ اور بدکار وجود ہے لیکن یہی امریکہ جو آج اسے گرفتار کرکے خوش ہے اس وقت اس کی پشت پناہی کر رہا تھا، مدد کر رہا تھا۔ یہی شخص جو آج امریکہ کا وزیر دفاع ہے اس نے بغداد میں آکر صدام سے مدد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ انھوں نے صدام کی مدد اس لئے کی تاکہ ایران کو دبایا جا سکے۔ بہت سےعرب ممالک اور آس پاس کے ممالک اس خونخوار شخص کو نہیں پہچانتے تھے لیکن ملت ایران تو جنگ کے میدانوں میں، بم اور میزائیلوں کی برسات میں، حلبچہ، آبادان اور دزفول کے اندر ظالمانہ حملوں میں اس وحشی بھیڑیئے اور درندہ صفت انسان کو خوب اچھی طرح پہچان چکی تھی اور ساری دنیا کو آگاہ کر رہی تھی۔ آج دنیا ان حقائق کو سمجھ چکی ہے، آج دنیا ایرانی قوم کی حقانیت کا یقین کر چکی ہے۔
عزیزو! دنیا عبرتوں سے پُر ہے۔ آج صدام جیسے ظالم ، جابر مستکبر و متکبر شخص کی حالت یہ ہے کہ وہ ایک بند کوٹھری میں سانسیں لے رہا ہے اور اپنی منحوس جان کو بچانے کے لئے ہر ذلت گوارا کرنے کو تیار ہے، اس کی گرفتاری پرعالم اسلام اور ہر وہ شخص خوش ہوگا جو اس حیوان کی درندگی سے باخبر ہے۔ ہماری قوم بالخصوص پسماندگان شہداء، صدام کی گرفتار ی سے خوش ہیں۔ عراق کے لوگوں نے اس ظالم کے ہاتھوں بہت رنج و ستم دیکھے ہیں اور ظاہراً اب اس کے ظلم سے نجات پا گئے ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ امریکہ کے صدر نے صدام سے مخاطب ہوکر کہا ہے کہ: ''دنیا صدام کے بغیر بہت بہتر ہے۔''میں امریکہ کے صدر سے کہنا چاہتا ہوں کہ '' بش اور شیرون سے خالی دنیا بھی بہت بہتر ہے'' جو لوگ اپنی طاقت و قدرت کو دائمی سمجھتے ہیں وہ صدام، محمد رضا پہلوی اور سوویت یونین کو دیکھیں اور آنکھیں کھولیں کہ کس طرح یہ معمولی اور ظاہری طاقتیں زائل ہو گئیں اور خداوند عالم نے کیسے اپنی قدرت کاملہ سے انہیں نیست و نابود کر دیا گویا کہ کبھی دنیا میں رہے ہی نہ ہوں۔
آج جولوگ جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر ڈکٹیٹر شپ کے ذریعہ دنیا پر حکومت کر رہے (جیسے صدر امریکہ) اور جو لوگ ناحق کسی سرزمین کے لوگوں کو ظالمانہ اور وحشیانہ روئیے سے پیروں تلے روند رہے ہیں (جس کے لئے فلسطین کی مثال سامنے ہے جہاں اسرائیلی حکام فلسطین کے لوگوں کا قتل عام کر رہے ہیں) اچھی طرح سمجھ لیں کہ ان کا انجام بھی صدام سے اچھا نہیں ہوگا۔ اب ہر قوم بیدار ہو رہی ہے، امت مسلمہ بھی روز بروز متوجہ ہوتی جا رہی ہے۔ ان کی امیدیں بھی قوی ہیں۔ راستہ روشن ہے اور ملت ایران خدا کے فضل و کرم سے اس دوڑ میں سب سے آگے ہے اور انشاء اللہ اپنے عمل اور کردار سے دوسری قوموں کے لئے بہترین نمونۂ عمل ثابت ہوگی۔
میں قزوین کے آپ سبھی مومن، دیندار اور مہربان حضرات ، بھائیوں، بہنوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ کے اس استقبال کا شکریہ، آپ کی ان محبتوں کا شکریہ کہ جس کی نظیر دنیا کی دوسری قوموں میں نظر نہیں آتی۔ یہ صرف اسلامی جمہوریہ ایران کی خاصیت ہے کہ جہاں حکام اور عوام میں ایسا شدید رشتۂ خلوص و محبت برقرار ہے۔ خدا سے دعا گو ہوں کہ وہ ہمیں ان محبتوں کے لائق بنائے۔
خداوند عالم سے دعا ہے کہ وہ مجھے اور دیگر تمام ذمہ داران کو زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ اس قوم کو ہر میدان میں سربلند ی عنایت فرمائے۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ آپ سبھی جوانوں اور قزوین کے باایمان لوگوں کو اپنی نعمات سے سرفراز فرمائے۔ خدایا ! اس قوم کے دشمنوں کو ناامیدی اور شکست سے دوچار کر دے اور اس قوم کو ہر موڑ پر کامیابی سے ہمکنار فرما۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ