آپ نے فرمایا کہ عید یعنی سالانہ خوشیاں منانے کا دن. اسلامی امہ کیلئے کیا چیز سب سے زیادہ خوشی کا باعث ہے؟ اسلامی مقاصد سے قربت حاصل کرنا. اسلام نے ایک مسلمان شخص کی طرح ہی اسلامی معاشرے اور اسلامی امہ کیلئے بھی کچھ اغراض و مقاصد مقرر کر رکھے ہیں. ہم معترف ہیں کہ آج عالم اسلام ان مقاصد سے دور ہے. دنیا بھر کے مسلمان اور اسلامی امہ اس چیز سے بہت دور ہیں جسے اسلام نے اسلامی امہ کیلئے متعین اور پسند فرمایا ہے.
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم‏اللَّہ‏الرّحمن‏الرّحیم‏

میں آپ تمام حاضرین گرامی کو، سربلند اور سرافراز ایرانی قوم کو، تمام مسلمانوں کو اور مسلمان قوموں کو اس عظیم عید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں. خداوند تعالی سے امید ہے کہ اسلامی اُمہّ اور ایرانی قوم کیلۓ یہ عید حقیقتاً عید ہو جو اُن کی خوشیوں اور کامیابیوں کا سبب بنے اور رمضان میں حق تعالی کی عبادت میں ہمارے عوام نے جو کچھ انجام دیا ہے، انشاء اللہ اس کے ثمرات آج سے اُن کے نفس و عمل اور سلوک میں نظرآئیں.
اس عید اور دیگر اسلامی اعیاد کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ کسی ایک اسلامی دھڑے یا معاشرے سے متعلق نہیں. درحقیقت ہم (مسلمانوں) کو چاہئے کہ ہم ان نکات کی تلاش میں ہوں جو عالم اسلام کے مشرقی اور مغربی خطے کےمسلمانوں کو خواہ وہ کسی بھی قوم، نسل، زبان، ثقافت سے تعلق رکھتے ہوں، سب کو توحید اور اعلی اسلامی کلمہ تلے جمع کر دے. عید فطر بھی ان میں سے ایک ہے. البتہ بعض دوسری عیدیں بھی انہی نکات پر مشتمل ہیں. لہذا جیسا کہ دعائے قنوت میں جو مستحب ہے ہم پڑھتے ہیں کہ «الذّى جعلتہ للمسلمین عیدا»(1)؛یعنی خدائے تعالی نے اس دن کو مسلمانوں کے لئے عید قرار دیا ہے.
عید یعنی سالانہ خوشیاں منانے کا دن. اسلامی امہ کیلئے کیا چیز سب سے زیادہ خوشی کا باعث ہے؟ اسلامی مقاصد سے قربت حاصل کرنا. اسلام نے ایک مسلمان شخص کی طرح ہی اسلامی معاشرے اور اسلامی امہ کیلئے بھی کچھ اغراض و مقاصد مقرر کر رکھے ہیں. ہم معترف ہیں کہ آج عالم اسلام ان مقاصد سے دور ہے. دنیا بھر کے مسلمان اور اسلامی امہ اس چیز سے بہت دور ہیں جسے اسلام نے اسلامی امہ کیلئے متعین اور پسند فرمایا ہے.
اسلام کی برکت سے آج اسلامی امہ کو ایسا ہونا چاہئے کہ مشعل راہ کی طرح انسانیت کا راستہ روشن کرے؛ سورج کی طرح انسانیت پر چمکے اور ان کیلئے خیر کا باعث بنے؛ ان کو گرمی حیات بخشے، نورانیت بخشے اور ان کو زندگی دے. وہ اسلامی معاشرہ جو «لتکونوا شہداء علی النّاس»(2) کی عکاسی کرے؛ وہ اسلامی معاشرہ جو «یدعون الی الخیر»(3) کا مصداق ہو؛ وہ اسلامی معاشرہ جو تمام امور خیر میں انسانیت کا علمبردار ہو، ایسا ہونا چاہئے. وہ اسلامی معاشرہ جو «و للہ العزة و لرسولہ و للمؤمنین»(4) کی عکاسی کرتا ہو، یہ عالم اسلام اور اسلامی امہ کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر بہت دور ہے.
البتہ بحمد اللہ مسلمانوں کے دلوں میں ان اعلی مقاصد کے حصول کا اشتیاق پیدا ہو چکا ہے اور اسلامی امہ نے اچھی تحریکیں شروع کر دی ہیں اور عالم اسلام کے آفاق پر آج بحمد اللہ اسلامی اقدار کا احیاء ہو رہا ہے. اسلام دشمنوں کی خواہشات کے بالعکس جو انسان کی زندگی میں ان کا خاتمہ چاہتے تھے، آج بحمد اللہ جب ہم مشرق سے مغرب تک نگاہ ڈالتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ لوگ اسلامی اقدار اور قرآن کے نورانی احکام کی طرف بیش از پیش مایل ہو گئے ہیں؛ لیکن مزید کوشان رہنے کی ضرورت ہے.
اسلام کی برکت سے ایران کا وقار بحال ہو گیا ہے؛ اسلام کی برکت سے غیروں کے تسلط سے نکل چکا ہے؛ اسلام کی برکت سے اس کے لوگوں کے دل آپس میں نزدیک ہو چکے ہیں اور اسلام کی برکت سے وہ بہت سی نیکیاں جو اسلام نے مسلمانوں کیلئے مد نظر رکھی ہیں، وہ حاصل کی جا چکی ہیں. ہم اسلامی ایران، اسلامی امہ اور دنیا بھر کے مسلمانوں سے جس چیز کے خواہاں ہیں وہ یہ ہے کہ قومیں اور حکومتیں اسلام کو نجات دہندہ کی نگاہ سے دیکھیں اور اس کو اپنے لئے عزت، شرف اور فخر کا باعث سمجھیں. یہ ایک شیطانی تلقین ہے جس کی مدد سے اسلام دشمنوں نے اسلامی دنیا میں بہت سے لوگوں کو یہ باور کروا دیا ہے کہ اسلام ان کی پسماندگی اور ذلت کا باعث ہے. یہ تلقین ان لوگوں کی ہے جو اسلامی امہ پر بآسانی حکمرانی کی خاطر ان کو اس کی اصلیت سے جدا کرنا چاہتے ہیں.
قرآن مسلمانوں کیلئے باعث عزت ہے. قرآن صرف تلاوت اور اعتقاد رکھنے کیلئے نہیں؛ قرآن ایک پورا معاشرتی نظام زندگی ہے؛ قرآن ایک با عزت اور سعادتمند زندگی گذارنے کا منشور حیات ہے اور اس چیز کا سمجھنا آج کے مسلمان مفکرین کیلئے مشکل نہیں ہے.اسلامی امہ کی شخصیات بھی اس مسئلہ سے بخوبی واقف ہیں. مسلمان قومیں، مسلمان حکومتیں، مسلمان روشن فکر حضرات، مسلمان سیاستداں اور اسلامی ممالک کے نوجوان، جہاں تک ہو سکے اپنے عوام کیلئے زندگی میں فکری اور عملی میدان ہموار کریں تاکہ لوگ قرآنی زندگی کی طرف لوٹ سکیں اور عزت و عظمت کے راستے پر گامزن ہو سکیں.
اس ماضی سے وابستہ رہنا جو ذلت اور جمود کا سبب بنے، جہالت کی رسومات سے وابستگی ہے. قرآن کا پابند رہنا روشن فکری اور آزادانہ سوچ سے عبارت ہے جو علم و عقل اور کوشش و جدّت عمل کا متقاضی ہے. اسلام نے سیاسی اور سماجی لحاظ سے مردہ ہو چکے دلوں میں زندگی کی گرمی بھر دی ہے؛ «اذا دعاکم لما یحییکم».(5) اسلام نے ان قوموں کو زندگی اور عزت بخشی، انسانی دفاع کا فریضہ اور پرچم انسانیت سونپا جو حقیقی باعزت انسانی زندگی سے نابلد تھیں، جن پر موت کا سناٹا طاری تھا. نہ صرف اُس زمانہ میں بلکہ آج بھی بحمد اللہ ایسا ہی ہے. اِس کی مثال ہمارا اپنا ملک ہے؛ یہ وہ قوم ہے جو صدیوں سے بادشاہوں کے ظلم و ستم اور استبداد تلے، اپنی اصلیت کو کھو چکی تھی اور اس سے قوت فیصلہ اور جرئت عمل سلب کر لی گئی تھی؛ اسلام اس قوم کی نشاۃ ثانیہ کا باعث بنا اور اب علم و دانش کے میدان میں، عمل کے میدان میں، سیاست کے میدان میں، عقل و تفکر کے میدان میں ایجادات کے میدان میں یہ ایک ترقی یافتہ قوم بن چکی ہے.
مسلمان قوموں کیلئے راہ حل اور علاج یہی ہے، یہ بالکل وہی نسخہ ہے جسے اسلام دشمن عناصر منع کرتے ہیں اور اس سے خائف ہیں. یہ کوئی آج کی نئی بات نہیں ہے بلکہ اگر استعمار کی تاریخ کا جائزہ لیں تو نظر آتا ہے کہ جس وقت سے اسلامی ممالک کا استعمار شروع ہوا، اسی زمانے سے انھوں نے مستقل اور بار بار یہی کہا اور چاہا کہ دین اور اسلام کو انسانی زندگیوں سے نکال باہر کریں.
دعا ہے کہ خداوند تعالی ہم سب کو بیدار فرمائے. تمام مسلمان قوموں، مظلوم فلسطینی قوم اور دیگر اسلامی مظلوم قومیں جو بہت بڑے رنج و الم میں مبتلا ہیں، انہیں نجات بخشے اور اسلام و مسلمین کو فرشتہ نجات کی مانند تمام پریشان قوموں کی رہائی کی نجات کا ذریعہ قرار دے. عظیم الشان امام ( خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مطہرہ کو جس نے ہمارے لئے یہ راستہ کھولا، اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرمائے. شہیدوں کی پاک ارواح پر اپنی رحمت نازل فرمائے.

والسّلام علیکم و رحمۃ اللّہَ و برکاتہ‏

________________________________________
1) الاقبال باعمال الحسنۃ، ج 1، ص 495
2) بقره: 143
3) آل عمران: 104
4) منافقون: 8
5) انفال: 24