قائد انقلاب اسلامی نے نماز عید کے بعد خطبہ عید الفطر شروع کیا اور پہلے خطبے میں عظیم الشان ملت ایران اور امت اسلامیہ کو عید فطر کی دلی مبارکباد پیش کی اور ایک اہم نکتے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ماہ مبارک رمضان میں جو معنوی ثمرات حاصل ہوئے ہیں اگر ان کی حفاظت کی کوشش کی جائے تو برکات و توفیقات الہی کے نزول کا سلسلہ پورے سال جاری رہے گا۔ قائد انقلاب اسلامی نے نماز عید الفطر کے دوسرے خطبے میں یوم قدس کے جلوسوں میں عوام کی وسیع شرکت پر ان کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ عوام کی بصیرت اور بلند ہمتی عظیم نعمت خداوندی ہے جس کی قدر کی جانی چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے عالم اسلام میں حالیہ مہینوں کے دوران رونما ہونے والے عظیم واقعات کو میدان عمل میں عوام کی موجودگی کی علامت اور اسی کا نتیجہ قرار دیا اور فرمایا کہ تین عشرے قبل ایرانی عوام نے قوموں کی عظمت و قوت کو ثابت کیا اور علاقائي و عالمی تاریخ میں گہری تبدیلی پیدا کر دی، آج علاقے کی دوسری قومیں میدان میں نکل پڑی ہیں اور اپنی مہم سے مسدود راستوں کو کھول رہی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے بحرین کی صورت حال پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس ملک کے مظلوم عوام پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے نماز عید الفطرکے خطبے میں عوام اور حکام کو صومالیہ کے قحط زدہ عوام کی مدد جاری رکھنے کی دعوت دی۔
نماز عید الفطر کے دونوں خطبوں کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

خطبه‌ى اول‌

بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحيم‌
الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‌القاسم المصطفى محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين المنتجبين سيّما بقيّةالله فى الأرضين‌.

نماز کے لئے تشریف لانے والے تمام بھائیوں اور بہنوں، تمام ملت ایران اور دنیا بھر کے مسلم عوام کو عید سعید فطر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ اس بابرکت اور باشرف دن میں دنیا بھر کے مسلمان بھائیوں اور بہنوں پر اپنے فضل و کرم کی برسات کر دے، ان کی ایک مہینے کی عبادتوں اور دعاؤں کو بہترین انداز میں شرف قبولیت عطا کرے اور اس دن کو امت اسلامیہ کے لئے حقیقی معنی میں عید کا دن قرار دے۔
ماہ رمضان المبارک کے ثمرات
رمضان کے مبارک مہینے میں بڑی تعداد میں مومنین بے شمار ثمرات حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ایسے ثمرات جو ان کے لئے پورے سال کے دوران بلکہ ان کی پوری زندگی میں برکتوں کا سرچشمہ قرار پائیں گے۔ کچھ کو قرآن سے انسیت کی صورت میں ثمرہ حاصل ہوا، کچھ نے قرآنی معارف سے خود کو آراستہ کر لیا، کچھ نے تدبر کا لطف حاصل کیا، کچھ نے اس مہینے میں اللہ تعالی سے راز و نیاز اور دعا و مناجات کی لذت محسوس کی اور اپنے دلوں کو جلا بخشی۔ لوگوں نے روزے رکھے اور روزے سے اپنے نفس کو پاکیزہ بنایا۔ یہی پاکیزگی، یہی نورانیت اور یہی طہارت، شخصی اور سماجی زندگی میں گوناگوں برکتوں کا سرچشمہ ہے۔ نفس کی یہ پاکیزگی انسان کو اچھے خیالات عطا کرتی ہے، نفس کو حسد، بخل، تکبر اور شہوت جیسی آلودگیوں سے دور کر دیتی ہے۔ انسان کے نفس کی پاکیزگی معاشرے کی فضا کو پر سکون اور پر امن بنا دیتی ہے، روحانی و معنوی طمانیت کا باعث بنتی ہے، دلوں کو ایک دوسرے سے قریب کرتی ہے، مومنین کو ایک دوسرے کا ہمدرد بنا دیتی ہے، مومنین کے معاشرے میں باہمی مہر و محبت کے جذبات کو پروان چڑھاتی ہے۔ یہ سب رمضان کے بابرکت مہینے کے ثمرات ہیں، خوش قسمت اور کامیاب انسانوں کے لئے۔
اس مہینے کا دوسرا اہم ثمرہ تقوا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ؛ لعلکم تتقون (1) نفس پر قابو پا لینا، یہی تقوا کا مفہوم ہے۔ ہم کبھی کبھی دوسروں کی لگام تو آسانی سے اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں لیکن بات تو تب ہے کہ اپنے نفس کی لگام ہم اپنے ہاتھوں لیں، خود کو وحشی پنے سے، اللہ کی جانب سے معین شدہ حدود کو تجاوز کرنے سے روک دیں، یہ بڑے کمال کی بات ہے۔ تقوی سے مراد یہ ہے کہ ہم اس بات پر گہری نظر رکھیں کہ صراط مستقیم پر گامزن ہیں یا نہیں، تقوا کا مطلب ہے علم و معرفت و بصیرت سے خود کو مزین کرنا اور پھر علم و معرفت و بصیرت کی بنیاد پر آگے بڑھنا۔ بڑی خوشی کا مقام ہے کہ ماہ رمضان میں ہمارے معاشرے میں ایسے افراد کی کثیر تعداد دکھائی دی جو یہ برکتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ملک کا عام ماحول بحمد اللہ انہی خصوصیات کا ماحول تھا۔ مختلف نشستوں میں، ذکر و مناجات کی مجلسوں میں، تلاوت کلام پاک کی تقاریب میں، شبہائے قدر میں، مختلف پروگراموں میں جیسا کہ مجھے اطلاعات ملیں، جو تصاویر میں نے دیکھیں اور جو معلومات حاصل ہوئيں ان کے مطابق ہمارے نوجوان، ہمارے مرد و خواتین، مختلف سماجی طبقات، مختلف اصناف کے لوگ، مختلف مزاج اور انداز فکر کے لوگ رمضان کے مہینے میں ضیافت الہی کے دسترخوان پر جمع نظر آئے اور سب نے خوب کسب فیض کیا۔ اگر ایک زمانے میں شاعر کہتا تھا کہ؛

«دستى كه عنان خويش گيرد / امروز در آستين كس نيست»

تو آج ہمارے زمانے میں عالم یہ ہے کہ اپنے نفس پر قابو رکھنے والے ہاتھ کم نہیں ہیں۔ ہمارے ملک کا یہ نوجوان معاشرہ، ملکی امور کو رفتہ رفتہ اپنے ہاتھ میں لینے والی اور جذبہ نشاط سے سرشار یہ نوجوان نسل صحیح راستے پر گامزن ہے، تقوی کی مشق میں مصروف ہے، یہ اس ملک کے مستقبل کے لئے ہی نہیں بلکہ امت اسلامیہ کے مستقبل کے لئے بھی بڑی عظیم خوشخبری ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان ثمرات کی حفاظت کریں، اس انعام کا خیال رکھیں۔ محتاط رہیں کہ کہیں گناہ کی برق ہمارے خرمن زندگی پر گر کر اس قیمتی فصل کو خاکستر میں تبدیل نہ کر دے۔ راہ خدا کی، توجہ و ارتکاز کی اس کیفیت کی، پاکیزگی نفس کی، قرآن سے اپنی انسیت کی، اللہ تعالی سے اپنے رابطے کی اور اللہ تعالی سے راز و نیاز کرنے اور سرگوشیوں میں حال دل بیان کرنے کی اس خصلت کی حفاظت کریں۔ اگر آپ اللہ سے راز و نیاز کریں گے تو وہ بھی یقینا آپ سے ہمکلام ہوگا فاذكرونى اذكركم (2(
پالنے والے! محمد و آل محمد کا واسطہ ہمارے معاشرے کو دائمی طور پر قرآنی معاشرہ، پاکیزہ معاشرہ، مہر و محبت سے معمور معاشرہ، ہمدلی و ہمدردی کے جذبے سے سرشار معاشرہ بنائے رکھ۔ بار الہا! اس عظیم قوم کو، ان عزیز نوجوانوں کو ان کے بلند اہداف تک پہنچا، انہیں ان کے دشمنوں پر فتحیاب کر۔ پالنے والے! حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود رکھ۔ ان بزرگوار کی نیک دعائیں ہمارے شامل حال رکھ۔ پروردگارا! ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مطہرہ کو ہمارے شہداء کی پاکیزہ ارواح کو ہم سے راضی و خوشنود رکھ۔

بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحيم‌
والعصر. انّ الانسان لفى خسر. الّا الّذين ءامنوا و عملوا الصّالحات و تواصوا بالحقّ و تواصوا بالصّبر.(3)

خطبه‌ى دوم‌

بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحيم‌
و الحمد لله ربّ العالمين نحمده و نستعينه و نستغفره و نتوكّل عليه و نصلّى و نسلّم على حبيبه و نجيبه سيّد خلقه سيّدنا ابى‌القاسم المصطفى محمّد و على ءاله الأطيبين الأطهرين المنتجبين سيّما علىّ اميرالمؤمنين و الصّدّيقة الطّاهرة و الحسن و الحسين سيّدى شباب اهل الجنّة و علىّ‌ بن ‌الحسين و محمّد بن ‌علىّ و جعفر بن ‌محمّد و موسى‌ بن ‌جعفر و علىّ ‌بن ‌موسى و محمّد بن ‌علىّ و علىّ ‌بن ‌محمّد و الحسن‌ بن ‌علىّ و الخلف القائم المهدىّ حججك على عبادك و امنائك فى بلادك و صلّ على ائمّة المسلمين و حماة المستضعفين و هداة المؤمنين‌.
 

الگ انداز کا یوم قدس
دوسرے خطبے میں میں سرسری طور پر جائزہ لوں گا ملکی صورت حال کا اور اسی طرح عالمی حالات کا۔ سب سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنی عزیز اور باشرف قوم کا شکریہ ادا کروں یوم قدس کے جلوسوں میں پرشکوہ انداز میں اس کی شرکت پر، جو بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ البتہ میری کیا بساط ہے کہ میں اس عظیم قوم کی قدردانی کروں اور اس کا شکریہ ادا کروں؟! میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ یہ تو خود عوام کا کارنامہ ہے، انہوں نے خود اسے انجام دیا اور بالکل صحیح اقدام کیا۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ اللہ کا شکر ادا کریں اس ہمہ گیر بصیرت پر، اس عمومی بلند ہمتی پر، مسلمان مرد و زن سب کے دلوں میں موجزن اس جوش و جذبے پر۔ اس سال کا یوم قدس بڑا باشکوہ دن ثبات ہوا۔ علاقے میں واقعات رونما ہوئے ہیں ان کی وجہ سے بعض دیگر مسلم قوموں نے بھی اس سال اس عظیم امتحان میں، استکبار کے خلاف اس عظیم مہم میں گزشتہ برسوں کی نسبت زیادہ بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ظالم و خوں آشام صیہونیوں کے وجود سے فلسطینیوں کو اور اس علاقے کو نجات دلائے۔
شکر کا مقام
ماہ رمضان کی محفلوں میں بھی لوگوں کی معنوی شراکت پر ہمیں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ جو رپورٹیں مجھے ملیں ان کے مطابق اس سال ماہ رمضان کے مختلف پروگراموں میں عوام کی شرکت ملک بھر میں وسیع پیمانے کی اور باقاعدہ محسوس کی جانے والے شرکت تھی۔ یہ اللہ کی خاص نظر عنایت کی علامت ہے، یہ لطف خدا کی نشانی ہے۔ جب بھی آپ محسوس کریں کہ آپ کو کسی نیک کام کی انجام دہی کسی کار خیر کی انجام دہی کی توفیق حاصل ہو رہی ہے تو اللہ کا شکر ادا کیجئے! کیونکہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ پر اللہ کی خاص نظر عنایت ہے، وہ آپ پر خاص لطف کی نگاہ رکھتا ہے۔ جب ہم دیکھیں کہ یہ توفیقات ہم سے سلب ہوتی جا رہی ہیں تو ہمیں خوفزدہ ہونا چاہئے، فکرمند ہونا چاہئے، اللہ کی پناہ مانگنا چاہئے۔ ہمیں فورا محتاط ہوکر یہ غور کرنا چاہئے کہ ہم سے کیا خطا سرزد ہوئی ہے جو اللہ نے ہم سے اپنی توفیقات سلب کر لی ہیں۔ اس سال بحمد اللہ توفیقات الہی کی بڑی فراوانی دیکھنے میں آئی۔ ہمیں اس معنوی و روحانی ماحول سے استفادہ کرنا چاہئے۔
کچھ اہم ضرورتیں
میں نے اپنے عزیز عوام سے بارہا عرض کیا ہے کہ اس وقت ہمیں چند چیزوں کی سخت ضرورت ہے۔ سب سے پہلی چیز ہے اتحاد اور یکدلی عوام کے درمیان بھی، عوام اور حکام کے درمیان بھی اور حکام کے اندر آپس میں بھی۔ یہ ہمارے ملک کی بڑی اہم ضرورت ہے۔ اس وقت دنیا اپنی تاریخ کے خاص موڑ سے گزر رہی ہے۔ ہمیں اس خاص دور میں، اس خاص موڑ پر، اس خاص مرحلے پر بہت ہوشیار رہنا چاہئے، بہت محتاط رہنا چاہئے۔ ہمیں بہت سوچ سمجھ کر کوئی بھی کام کرنا چاہئے۔ اگر ہمارے اندر کدورت ہوگی، بدگمانی ہوگی، بد خواہی کا جذبہ ہوگا، عدم ہماہنگی ہوگی، خواہ عوام کے اندر، عوام اور حکام کے مابین یا پھر حکام کے درمیان تو ہم کسی قیمت پر اپنے ان فرائض پر عمل نہیں کر سکیں گے جو ‏آج ہمارے دوش پر آن پڑے ہیں۔ یہ بہت اہم سفارش ہے اور یہ بڑی اہم ضرورت ہے۔
دوسری اہم ضرورت ہے جذبہ عمل اور سعی و کوشش۔ پورا ملک، تمام عوام اور جملہ حکام کو چاہئے کہ جذبہ عمل کا مظاہرہ کریں، محنت کریں کیونکہ «كلّكم مسئول»(4) ۔ ہمیں خود کو تساہلی اور آرام طلبی سے نجات دلانا چاہئے۔ اس وقت سخت محنت کی ضرورت ہے، عملی اقدامات کی، اقتصادی سرگرمیوں کی، سیاسی جفاکشی کی اور بڑے سماجی کاموں کی ضرورت ہے۔ جو جہاں بھی ہے اپنے دائرہ کار کے اندر اپنے فرائض کا تعین کر سکتا ہے۔ یہ اہم ترین ضرورتوں کا جز ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہم سب کو توفیقات عطا فرمائے۔
انتخابات سے متعلق ہدایات
اس سال کے آخر میں (ہجری شمسی سال جو مارچ کے تیسرے عشرے میں شروع ہوتا ہے) انتخابات ہونے والے ہیں۔ ہمارے ملک میں انتخابات ہمیشہ ہی کچھ چیلنجز کے ساتھ منعقد ہوتے ہیں۔ ویسے دنیا کے بعض ممالک جن میں نام نہاد ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں اور دوسرے ممالک بھی ہیں، جس طرح کے انتخابات ہوتے ہیں کہ خیانتیں کی جاتی ہیں، خباثتیں نظر آتی ہیں اور بسا اوقات تو نوبت قتل و خون تک پہنچ جاتی ہے۔ بحمد اللہ ہمارے یہاں اس طرح کے واقعات تو خیر نہیں ہوتے لیکن بہرحال کچھ چیلنجز ضرور ہوتے ہیں جو عوام کو چوکنا بنا دیتے ہیں۔ آپ اس کا خیال رکھئے کہ یہ چیلنج ملکی سلامتی کو نقصان نہ پہنچانے پائیں۔ انتخابات جو عوامی شراکت کے مظہر ہیں، دینی جمہوریت کا آئینہ ہیں ہماری سلامتی کی بنیاد قرار پائیں۔ ایسا نہ ہو کہ سلامتی اور سیکورٹی کا یہ سرچشمہ ہماری سلامتی کے لئے نقصان دہ ثابت ہو۔ آپ نے دیکھا ہے، باقاعدہ محسوس کیا ہے کہ دشمن کس طرج انتخابات کو ملکی سلامتی کے خلاف ایک چیلنج میں بدل دیتا ہے۔
تمام افراد، مختلف شعبوں کے حکام، سیاسی پلیٹ فارم رکھنے والے افراد، ایسے لوگ جوعوام سے ہم کلام ہوتے ہیں، سب بہت محتاط رہیں، بہت خیال رکھیں اور انتخابات کو نعمت الہی تصور کرتے ہوئے ان کی حفاظت کریں۔ انتخابات کے بارے میں مجھے بہت کچھ باتیں بیان کرنی ہیں جو موقعہ آنے پر عوام کی خدمت میں عرض کروں گا۔
تاریخ دوہرائی جا رہی ہے؛
عالم اسلام بھی ان مہینوں کے دوران بڑے عظیم واقعات سے گزر رہا ہے۔ عالم اسلام نے میدان عمل میں عوام کی موجودگی کی قوت و عظمت سے پوری دنیا اور پوری تاریخ کو روشناس کرایا۔ ایک دفعہ اکتیس بتیس سال قابل ملت ایران نے بھی اس قوت اور اس عظمت کا لوہا منوایا تھا۔ ہمارے عوام جاں بکف سڑکوں پر، میدان عمل میں اتر پڑے اور ایسا انقلاب برپا کر دیا کہ جس سے علاقے کی تاریخ بلکہ ایک اعتبار سے پوری دنیا کی تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ اس وقت ایک بار پھر عوام میدان میں اترے ہیں۔ میدان میں عوام کی موجودگی ہو تو لاینحل مسائل حل ہو جاتے ہیں ہے اور گرہیں کھل جاتی ہیں۔ کون سوچ سکتا تھا کہ علاقے میں امریکہ اور صیہونزم کے مہرے یکے بعد دیگرے پٹتے چلے جائیں گے؟! کون سوچ سکتا تھا کہ کوئی ہاتھ ایسا ہے جو ان بتوں کو توڑ دے گا؟ یہ ہاتھ، قوموں کا ہاتھ ہے۔ مسلم امہ کو اس نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مسلم امہ کے پاس ایسی توانائي اور طاقت ہے۔ امت اسلامیہ نے ذکر خدا سے، نعرہ تکبیر سے، یاد خدا سے اپنے اندر یہ قوت اور جوش و جذبہ پیدا کیا اور یہ کارنامہ سرانجام دیا۔
طویل سفر کی شروعات
البتہ ابھی مسائل ختم نہیں ہوئے ہیں اور نہ ہی اتنی آسانی سے ختم ہوں گے۔ یہ تو شروعات ہے۔ یہ ایک طویل سفر کی شروعات ہے۔ قوموں کو ہوشیار رہنا چاہئے۔ ہم کو اس سلسلے میں بڑا تجربہ ہے۔ جیسے ہی انقلاب کا وہ عظیم جوش و جذبہ اپنی انقلابی حالت سے باہر آیا اور ایک حکومت تشکیل دی گئی، فورا (سامراجی طاقتیں) سرگرم عمل ہو گئیں کہ شاید اپنے خاص حربوں سے اور خاص چالوں کے ذریعے حالات پر قابو حاصل کر لیں، موقعہ سے فائدہ اٹھائیں اور معروضی حالات کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے میں کامیاب ہو جائيں۔ لیکن ہماری قوم اور ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی مدبرانہ قیادت نے انہیں اس کا موقعہ نہیں دیا۔ اس وقت مصر میں، لیبیا میں، تیونس میں، یمن میں اور دیگر ممالک میں مسلمان قوموں کو اسی طرح کی ہوشیاری اور دانشمندی کی اشد ضرورت ہے۔ وہ ہرگز اس کا موقعہ نہ دیں کہ حاصل ہونے والی کامیابیوں کو دشمن طاقتیں ہڑپ لیں۔ عوام ہرگز فراموش نہ کریں کہ جو طاقتیں آج لیبیا میں بڑی فعال نظر آ رہی ہیں اور خود کو پورے قضیئے کا ذمہ دار بناکر پیش کرنا چاہتی ہیں یہ وہی طاقتیں ہیں جو چند روز قبل تک انہیں عناصر کی ہم پیالہ و ہم نوالہ تھیں جو لیبیا کے عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہے تھے۔ آج یہ طاقتیں صورت حال کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔ قوموں کو بہت ہوشیار اور بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں بحرین کی صورت حال پر خاص تشویش ہے۔ بحرین کے عوام کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے، ان پر ستم ڈھایا جا رہا ہے۔ کچھ وعدے کئے جاتے ہیں لیکن ان پرعمل نہیں ہوتا۔ بحرین کے عوام بہت مظلوم ہیں۔ البتہ جب اللہ کے لئے کوئی تحریک شروع ہوتی ہے، جب اس میں عوام کے عزم و ارادے کی طاقت ہوتی ہے تو اس تحریک کا کامیابی سے ہمکنار ہونا یقینی ہوتا ہے۔ یہ چیز ہر جگہ سچ ثابت ہوئی ہے لہذا بحرین میں بھی سچ ثابت ہوگی۔
صومالیہ کی خشکسالی
آخر میں چند جملے صومالیہ کے تعلق سے عرض کر دوں۔ اس وقت ہمارے دل صومالیہ کے عوام کی حالت کی وجہ سےغمگین ہیں۔ خوشی کا مقام ہے کہ ہمارے عوام نے بڑی مدد کی، حکام اور عام افراد جہاں تک ممکن ہے امداد جاری رکھیں تاکہ یہ مشکل برطرف ہو جائے۔
پروردگارا! محمد و آل محمد کا واسطہ امت اسلامیہ کو، مسلم اقوام کو روز بروز زیادہ سے زیادہ معزز اور قابل احترام بنا۔

بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحيم‌
اذا جاء نصرالله و الفتح. و رأيت النّاس يدخلون فى دين الله افواجا. فسبّح بحمد ربّك و استغفره انّه كان توّابا.(5)

والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته‌

1) بقره: 183
2) بقره: 152
3) عصر: 1 - 3
4) جامع‌الاخبار، ص 119
5) نصر: 1 - 3