اس ملاقات کی ابتدا میں یونیوسٹیوں کے اکیڈمک بورڈز کے چودہ اراکین نے دو گھنٹوں سے زیادہ وقت میں مختلف مسائل کے بارے میں اپنے نظریات بیان کیے اور تجاویز، تنقیدیں اور راہ حل پیش کیے۔
آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے یونیورسٹی کے اساتذہ کے خیالات سننے اور ان پر غور کرنے کے بعد ملک کی سائنسی ترقی، یونیورسٹیوں کے کردار اور اسی طرح سے یوم قدس کے سلسلے میں ایک اہم تقریر کی۔
آپ نے یوم قدس کے قریب آنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یوم قدس ایک بین الاقوامی اسلامی اور باعظمت و اہم دن ہے جس میں ایرانی قوم اور دیگر مسلم اقوام، اس سچائی کا نعرہ لگاتی ہیں جسے دبانے کے لیے سامراج نے کم از کم ساٹھ برسوں سے سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسی طرح اپنے خطاب میں سائنسی پیشرفت کو، سامراجی محاذ کے مقابلے میں ایرانی قوم کی باوقار اور ٹھوس استقامت کی اہم ترین بنیادوں میں سے ایک بتایا اور کہا کہ علمی اور سائنسی میدانوں میں حاصل ہونے والی یہ کامیابیاں، جنہوں نے ایران کی عظیم قوم میں خود اعتمادی، سربلندی، قوت ارادی، شجاعت اور استقامت بھر دی، یونیورسٹیوں اور یونیوسٹیوں سے متعلق افراد کی رہین منت ہیں۔
آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے دشمنوں کی جانب سے دی جانے والی مسلسل فوجی، سیکورٹی، سماجی اور سیاسی دھمکیوں، ملک کے سائنسدانوں کے قتل، ایران پر پابندیاں عائد کیے جانے، ملک میں فتنہ انگیزی کی تسلط پسندوں کی سازش اور تسلط پسندانہ نظام کے سامنے اسلامی نظام کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی قوم دشمن کے محاذ کے مقابلے میں پوری طاقت اور استقامت کے ساتھ ڈٹی ہوئي ہے اور اس نے ملک میں سائنسی اور عملی پیشرفت اور کامیابیوں کے سہارے عالمی تسلط پسندوں اور توسیع پسندوں کے سامنے جھکنے سے کھل کر انکار کر دیا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے:
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے اس نشست کے انعقاد، اس میں آپ بھائیوں اور بہنوں کی شرکت اور محترم مقررین کے انتہائی اہم بیانات سے مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ یہ سب اللہ تعالی کی نعمتیں ہیں، ہم سب کو اور خاص طور پر مجھ حقیر کو ایک ایک نعمت پر اللہ کا شکر بجا لانا چاہئے، ہمیں اللہ تعالی کی اس بارش رحمت کا مشاہدہ کرنا چاہئے۔ آپ کے ذہن میں پیدا ہونے والا ہر اچھا لفظ اور آپ کی زبان سے جاری ہونے والی ہر اچھی بات رحمت پروردگار کی بارش کا مظہر ہے۔ ہم ان تمام نعمتوں پر اللہ کے شکر گزار ہیں۔ ان دنوں میں ملک اور معاشرے کی کیفیت کو دیکھتا ہوں تو ان عظیم نعمتوں کے باعث ہر لمحہ اللہ تعالی کی بارگاہ کی سمت پیش قدمی کی اس عظیم نعمت پر شکر ادا کرتا ہوں۔
یہ رمضان کا مہینہ ہے اور آج تیئيسویں رمضان ہے۔ گزشتہ شب ذکر و عبادت و مناجات میں بسر ہوئی، دلوں میں شب قدر کی نورانیت بسی ہوئی ہو۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں ہماری دعا ہے کہ رمضان المبارک کو ہمارے لئے، ہماری قوم، ہمارے ملک کے لئے، دنیا کی تمام مسلمان قوموں کے لئے بالخصوص علاقے میں انقلابی تحریک کے ساتھ اٹھ کھڑی ہونے والی قوموں کے لئے بابرکت قرار دے۔
دوستوں کو اپنے خیالات پیش کرنے کا جو وقت دیا گیا وہ واقعی کم تھا۔ میں چند جملے خواتین و حضرات کے بیانوں کے سلسلے میں عرض کرنا چاہوں گا۔ نشست کے ناظم محترم نے ہر ایک کو پانچ منٹ کا وقت دیا، بعض احباب نے اس وقت کا خیال نہیں رکھا اور بار بار ناظم کی طرف سے ان کا مواخذہ بھی عمل میں آیا، واقعی یہ پانچ منٹ کا وقت بہت کم تھا۔ خواتین و حضرات کے پاس کہنے کے لئے بہت سی باتیں تھیں اور میں بھی واقعی چاہتا تھا کہ کاش وقت ہوتا اور حوصلہ بھی ہوتا کہ ہم ہر مقرر کو آدھا گھنٹہ سن سکتے۔ کیونکہ بڑی دلچسپ باتیں بیان ہو رہی تھیں۔ دوستوں نے جو باتیں بیان کیں واقعی بہت نپی تلی اور اہم باتیں تھیں، بڑے پختہ نکات تھے۔ دوستوں نے باتیں بیان کیں ان میں بہت سی باتیں بالکل نئی تھیں جو میری دلچسپی کا باعث تھیں، اس سے بڑی خوشی حاصل ہوتی ہے، صنعت کے سلسلے میں، علم و دانش کے سلسلے میں، یونیورسٹی کے سلسلے میں، فن تعمیر کے سلسلے میں، شہری ترقی کے سلسلے میں، آرٹس کے موضوعات کے سلسلے میں بڑے اہم نکات پیش کئے گئے۔ یہ تجاویز تو میری دلی آروز ہیں۔ میری تمنا تھی کہ ان باتوں کو ملک کی یونیورسٹیوں اور علمی مراکز سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیات کی زبانی سنوں اور آج یہ آرزو بھی پوری ہو گئی۔
اس سال کے جلسے میں جو بات میں نے واضح طور پر محسوس کی یہ ہے کہ دوستوں کا زیادہ رجحان فکر اور نظریہ پیش کرنے کی طرف تھا، صرف اجرائی اور عملی تجاویز پر ہی اکتفاء نہیں کیا گیا۔ یہ تجاویز بھی اپنی جگہ بہت اہم اور ضروری ہیں۔ یہ ہر علمی تحریک کا اصلی سرمایہ ہوتا ہے۔ جیسا کے بعض دوستوں نے ذکر کیا اور یہ بات بالکل بجا بھی ہے کہ ہمیں فکر و نظر کی ضرورت ہے، ہمیں فلسفے کی ضرورت ہے جس کی مدد سے ہم علم و دانش کے شعبے کو، ٹکنالوجی کے شعبے کو، ملک کے انتظامی امور کو، معاشرے کے گوناگوں معاملات کو آگے لے جا سکیں اور حل کر سکیں۔ علم سے پہلے فکر کی ضرورت ہے اور میں نے اس رجحان کا باقاعدہ مشاہدہ کیا۔ دوستوں نے بعض ایسی باتیں بیان کیں جن پر فکری مراکز میں اور پالیسی ساز اداروں میں خاصی توجہ دی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں کچھ کام بھی ہوا ہے جس کے اثرات بھی رفتہ رفتہ انشاء اللہ سامنے آئیں گے۔ ایک زمانہ تھا کہ نئے علوم کی پیداوار، نئے افکار کی پیشکش، علمی تحریک اور علمی مہم کی بات بڑی عجیب و غریب محسوس ہوتی تھی لیکن آج چاروں طرف اسی کا چرچا ہے۔ انشاء اللہ ایک دن آئے گا کہ یہی باتیں جو گوشہ و کنار سے سنائی دیتی ہیں اور جن پر خاص توجہ نہیں دی جاتی بتدریج معاشرے میں ہمہ گیر بحث کا موضوع بن جائیں گی۔
ایک صاحب نے کہا کہ ہمارے ہاں ایک ایسے ادارے کی کمی ہے جو مستقبل پر دراز مدتی زاویئے سے نظر رکھے۔ یہ جو اسٹریٹیجک نظریات کی نشستیں منعقد ہو رہی ہیں ان سے یہ خلا بھی بھر جائے گا۔ انشاء اللہ تمام اہل فکر کے تعاون سے رفتہ رفتہ اسی بنیاد پر بڑے کام انجام دیئے جائیں گے۔
احباب کے ذریعے بیان کردہ باتوں کے سلسلے میں اور بھی اہم نکات ہیں لیکن چونکہ وقت کم ہے لہذا میں ان تفصیلات میں نہیں جاؤں گا تاہم اپنے دفتر کے لئے بھی اور یہاں تشریف فرما محترم حکام کے لئے بھی میری سفارش یہ ہے کہ ان افکار و تجاویز کو جمع کریں۔ اس جلسے کا ایک بڑا ثمرہ یہی نظریات ہیں جو دوستوں نے پیش کئے۔ ہمارے معاشرے کی ایک اہم احتیاج بھی یہ ہے کہ صاحب فکر حضرات جمع ہوں اور اپنے افکار و تجربات کو پیش کریں جو طویل عرصے کی گہری فکر و تدبر کا نتیجہ ہیں۔ یہ نظریات شخصی دائرے سے باہر آکر بتدریج اجتماعی دائرے میں داخل ہوں گے اور رفتہ رفتہ معاشرے کی سطح پر پھیل جائیں گے۔ ان نظریات کو جمع کیا جائے، یہ بڑے اہم فکری ثمرات ہیں، بڑی دلچسپ باتیں ہیں۔ بعض تجاویز تو فوری طور پر عملدرآمد کرنے کے لائق ہیں، عملی تجاویز ہیں۔ بعض تجاویز ترقی و پیشرفت کے سلسلے میں بڑی مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ میں چند باتیں اختصار کے ساتھ عرض کرنا چاہوں گا۔
ملت ایران کی پائیداری و استقامت کا ایک اہم ستون ملک کی علمی ترقی ہے۔ علمی پیشرفت کے نتیجے میں اجرائی اور عملی پیشرفت بھی حاصل ہوتی رہی ہے۔ ملت ایران کی پائیداری دنیا کا انتہائی عظیم واقعہ ہے۔ ہم تو اس حقیقت کے بالکل مرکز میں موجود ہیں۔ جو لوگ باہر سے دیکھ رہے ہیں انہیں اس استقامت کی عظمت کا زیادہ بہتر طریقے سے احساس ہوتا ہے۔
آپ غور کیجئے! دنیا کی صف اول کی اقتصادی طاقتیں، دنیا کی صف اول کی علمی طاقتیں، دنیا کی صف اول کی فوجی طاقتیں اس وقت اس قوم کے مقابل محاذ آرا ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ ان سے جو کچھ بھی بن پڑتا ہے انجام دیتی ہیں۔ فوجی کارروائی کی دھمکیاں دیتی ہیں، سماجی امور کے سلسلے میں دھمکیاں دیتی ہیں، سیاسی دھمکیاں دیتی ہیں، ہمارے سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ کرتی ہیں، پابندیاں عائد کرتی ہیں، حد سے زیادہ سیاسی دباؤ بنانے کی کوشش کرتی ہیں، ہمیشہ فوجی کارروائی کی بات کرتی ہیں، ملک کے اندر جہاں تک ان کا بس چلتا ہے فتنہ انگیزی کرتی ہیں، آشوب برپا کرتی ہیں لیکن ملت ایران اور اسلامی جمہوریہ ہے کہ کمال استقامت و مضبوطی کے ساتھ ان سب کے مقابلے میں ڈٹی ہوئی ہے، یہ طاقتیں اس قوم سے جبرا ہاں کہلوانا چاہتی ہیں اور یہ قوم ہاں کہنے کو تیار نہیں ہے۔ در حقیقت یہ ہاں عبارت ہے دنیا کی توسیع پسند طاقتوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے اور یہ قوم یہ کام کرنے پر تیار نہیں ہے۔ ہم نے دنیا کی توسیع پسند طاقتوں کا جواب نفی میں دیا ہے لیکن اس نفی سے مراد علم کی نفی نہیں ہے، تہذیب و تمدن کی نفی نہیں ہے، ترقی و پیشرفت کی نفی نہیں ہے، انسانی تجربات کی نفی نہیں ہے۔ یہ نفی ہے تسلط پسندی کی، توسیع پسندی کی، استحصال کی، قوموں کو پامال کرنے کی۔ ہم نے نفی میں جواب دیا ہے اور اپنے اس موقف پر بدستور قائم ہیں۔ «انّ الّذين قالوا ربّنا اللَّه ثمّ استقاموا».(1) ایرانی قوم کی استقامت بڑی باشکوہ استقامت ہے۔
اس استقامت کا ایک اہم ترین عنصر علم ہے۔ علم ہی ہمیں خود اعتمادی عطا کرتا ہے۔ اگر آج بھی غیر ملکی کمپنیاں آکر ہمارے تیل کے کنؤوں سے تیل نکال رہی ہوتیں، ریفائن کر رہی ہوتیں، گیس کی سپلائی کے لئے پائپ لائنیں تعمیر کر رہی ہوتیں، اگر ہمارا طبی شعبہ غیر ملکی ماہرین پر جن میں بیشتر انگریز ہوا کرتے تھے، منحصر ہوتا، اگر غذائی اشیاء کی پیداوار ان کے ہاتھوں میں ہوتی، اگر ہماری زراعت و صنعت اسرائیل کے اختیار میں ہوتی، اگر ہماری جوہری صنعت فرانس، جرمنی اور دوسروں کے قبضے میں ہوتی تو ہمارے اندر یہ خود اعتمادی پیدا نہ ہوتی، اس استقامت کی توانائی نہ ہوتی، یہ عزت و وقار حاصل نہ ہوتا۔ اگر ہم ایک ڈیم کی تعمیر کے لئے، ایک بجلی گھر کی تعمیر کے لئے، ایک شاہراہ کی تعمیر کے لئے، ایک سرنگ کی تعمیر کے لئے، گیہوں کے گوداموں کی تعمیر کے لئے مشرق و مغرب کے صنعت کاروں اور سائنسدانوں کی طرف دست نیاز دراز کرنے پر مجبور ہوتے تو ہماری قوم کو کبھی بھی باوقار زندگی میسر نہ ہوتی، دنیا کی استکباری طاقتوں کے سامنے ہمارے حکام کو چوں کرنے کی جرئت نہ ہوتی۔ نہ یہ خود اعتمادی ہوتی، نہ یہ قوت ارادی ہوتی اور نہ یہ عزم محکم ہوتا۔ کس نے ہماری شاہراہوں کی تعمیر کی، سرنگیں بنائيں، بجلی گھر تعمیر کئے، ڈیم کی تعمیر کی، پل، گودام، اسٹیم سیلز اور جوہری توانائی تیار کی؟ یونیورسٹی نے۔ یونیورسٹی نے ملت ایران کو باعزت زندگی گزارنے کا یہ موقعہ عطا کیا، دشمنوں کے استکباری عزائم کا مقابلہ کرنے کی توانائی عطا کی۔ اس لحاظ سے ملک کے حکام بھی یونیورسٹی کے ممنون احسان ہیں۔
میں یونیورسٹی سے وابستہ افراد کے سامنے یونیورسٹی کے مناقب و فضائل بیان کرنے کا قصد نہیں رکھتا، میں در حقیقت اپنی اس گفتگو سے ایک نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ہمارا دشمن طاقت و توانائی کے اس سرچشمے کی طرف سے غافل نہیں رہے گا۔ یہ خیال ہم سب کو رہنا چاہئے۔ جو کچھ بھی ہمارے ملک کے وقار، ہماری قوم کی سربلندی، ہمارے عوام کی پائیداری کا سرچشمہ و سرمایہ ہے بیشک وہی ہمارے دشمنوں کے حملوں کی آماجگاہ بھی بنا ہوا ہے۔ دینی جذبہ، انقلابی جذبہ، خود مختاری کا جذبہ اور اس بیان کی روشنی میں یونورسٹی اور دوسری چیزیں جو اس تعلق سے موثر ہیں دشمنوں کے حملوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہیں۔
یونیورسٹی کے ساتھ دشمن کیا کرنا چاہتا ہے؟ دشمن نے ہماری یونیورسٹیوں کے لئے دو منصوبے تیار کئے ہیں۔ ایک ہے علم سے دوری اور دوسرے دین سے دوری۔ یونیورسٹیوں کو دین سے دور کر دیا جائے اور یونیورسٹیوں کو علم سے بے بہرہ بنا دیا جائے۔ یونیورسٹی کو علم سے کیسے دور کیا جا سکتا ہے؟ اس سلسلے میں ایک حربہ یہی سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ کا ہے۔ گزشتہ ایک سال کے اندر ہمارے دو تین عزیز جوہری سائنسدانوں سے ہمیں محروم کر دیا گيا۔ ان کا منصوبہ اس سے کہیں زیادہ وسیع تر ہے۔ یہ تو بڑا آسان حربہ تھا۔ اس سے زیادہ پیچیدہ حربہ یہ ہے کہ ہماری یونیورسٹی کو، ہمارے استاد کو، ہمارے طالب علم کو غیر علمی کاموں میں الجھا دیا جائے تاکہ یہ علمی رونق جو ہماری آروز ہے حاصل نہ ہو پائے۔ ہماری علمی پیشرفت کی رفتار، جیسا کہ دوستوں نے بیان فرمایا اور خود میرے پاس بھی یہ اعداد و شمار ہیں، میں انہیں پیش کر چکا ہوں اور بار بار پیش کرتا ہوں اور اس پر مجھے فخر بھی ہے، بہت تیز ہے۔ لیکن ہماری شروعات بہت تاخیر سے ہوئی ہے۔ بعض ممالک کا نام لیا جاتا ہے کہ ان کی رفتار ہم سے کم ہے لیکن ان ممالک نے ہم سے بہت پہلے اپنا علمی سفر شروع کر دیا تھا لہذا وہ ہم سے بہت آگے ہیں۔ ہمیں اس فاصلے کے کم کرنا چاہئے۔ ہمیں تیز رفتاری سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، لمبی چھلانگ لگانے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے، اس کے ذیل میں میں دو تین مسائل کا ذکر کروں گا۔ ایک ہے دین سے دوری۔
اگر ہماری یونیورسٹیاں محض علمی ادارہ بن کر رہ جائیں اور دین و اخلاقیات سے ان کا کوئی واسطہ نہ رہ جائے ہمارے معاشرے پر، ہمارے ملک پر اور ہمارے مستقبل پر وہی مصیبت آن پڑےگی جو مغرب کے سائنسداں طبقے پر آئی ہے۔ مغربی معاشرہ سائنس سے بہرہ مند معاشرہ تو ہے لیکن اسے خوش بخت معاشرہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔ وہاں اخلاقی تحفظ نہیں ہے، نفسیاتی تحفظ نہیں ہے، خاندانی یکجہتی کا فقدان ہے، اخلاقیات کا فقدان ہے، روحانیت کا فقدان ہے۔ انسانی زندگی میں یہ بہت بڑا خلاء ہے۔ ایسی زندگی کو خوش قسمتی کی زندگی نہیں کہا جا سکتا۔ ہم ایسی زندگی نہیں چاہتے۔ ہمیں خوش بختی و سعادت مندانہ زندگی کی ضرورت ہے، ہمیں حقیقی معنوی تحفظ کی ضرورت ہے۔ یہ ہدف بغیر علم کے حاصل نہیں ہو سکتا لیکن دین کے بغیر صرف علم کے ذریعے بھی حاصل نہیں ہو سکتا، اس کے لئے دین بھی ضروری ہے۔ معاشرہ دینی ہونا چاہئے اور سب سے بڑھ کر یونیورسٹی میں دینداری ضروری ہے۔ یونیورسٹی کو دینی جذبے سے سرشار ہونا چاہئے۔ دینی یونیورسٹی کا غلط مفہوم نہ لیا جائے۔ یہاں تدین سے مراد گہرا دینی ادراک ہے، ایمان راسخ ہے اور دینی تعلیمات پر مکمل ایمان و ایقان ہے جس کا فطری لازمہ عمل ہے۔ ہمیں اس ہدف کے لئے کوشاں رہنا چاہئے۔ یہ سب کی ذمہ داری ہے، منجملہ آپ اساتذہ کا بھی یہ فریضہ ہے۔ کلاس کے اندر کبھی کبھی آپ کی زبان سے نکلا ہوا ایک لفظ بھی ایک گھنٹے اور دو گھنٹے کی کسی عالم دین کی تقریر سے زیادہ موثر واقع ہوتا ہے۔ اس سے کوئي فرق نہیں پڑتا کہ وہ استاد کس موضوع کا استاد ہے؟ استان بچے کی فکر، بچے کے ذہن، بچے کے عمل اور بچے کے دل و جذبہ دینی کی تعمیر میں گہرا اثر رکھتا ہے۔ اس نکتے پر آپ غور کیجئے، یہ بہت اہم چیز ہے۔
مجھے آرٹس کے موضوعات کے سلسلے کچھ عرض کرنا ہے۔ یہاں ایک صاحب نے ایک تجویز پیش کی۔ خود میرے ذہن میں بھی یہ چیز تھی کہ آرٹس کے موضوعات کے اساتذہ کی ایک خصوصی نشست تشکیل دی جائے جس میں آرٹس کے موضوعات کے سلسلے میں باقاعدہ بحث ہو۔ گزشتہ سال ہم نے اس سلسلے میں بحث کی تھی تاہم اس سلسلے میں مزید گہرائي کے ساتھ بحث اور تحقیق کی ضرورت ہے۔ رد عمل دیکھ کر انسان بہتر طریقے سے سمجھ سکتا ہے کہ ان موضوعات پر زیادہ بحث کی ضرورت ہے، وضاحت اور تشریح کی ضرورت ہے۔ تا کہ ہم اس مسئلے کی صحیح تصویر کا ادراک کر سکیں۔
میں نے ملک کی علمی ترقیوں کی ایک فہرست تیار کی ہے جن سے آپ آگاہ ہیں، ہم نے بارہا انہیں بیان کیا ہے اور ذرائع ابلاغ میں بھی اسے بارہا دوہرایا گیا لیکن چونکہ ایک خاتون نے اس نشست میں اس کا ذکر کیا اور یہ مسئلہ میری نظر میں خاص اہمیت کا حامل ہے اس لئے ان ترقیوں میں سے صرف ایک کا ذکر کروں گا۔ یہ ہے میڈیکل سائنس میں خواتین کی ترقی۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ ہم نے میڈیکل سائنس کے شعبے میں بہت ترقی کی ہے اور ہمارا ملک عالمی سطح پر اہم پوزیشن میں پہنچ گیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آج ہمارے ملک میں خواتین کسی بھی بیماری کے علاج کے لئے مرد ڈاکٹروں کے پاس جانے پر مجبور نہیں ہیں۔ آج اگر کوئی خاتون کسی بھی بیماری کے لئے خاتون ڈاکٹر کی متلاشی ہے تو یہ سہولت اس کے لئے مہیا ہے۔ آپ نوجوانوں کو جنہوں نے اسلامی انقلاب سے پہلے کا دور نہیں دیکھا ہے شاید اس چیز کا اندازہ نہ ہو کہ یہ مسئلہ کتنی اہمیت کا حامل ہے؟! یہ مسئلہ صرف مذہبی افراد کے لئے ہی نہیں بلکہ ان لوگوں کے لئے بھی جو بہت زیادہ دیندار نہیں ہیں، خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ میرے ذہن میں متعدد مثالیں ہیں تاہم انہیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ چیز اس وقت ہمارے ملک میں عملی طور پر موجود ہے جو بہت اہم ہے اور ملک میں اس طرح کی ترقیوں کی طویل فہرست ہے۔
تو یہ نتیجہ نکلا کہ ہمیں یونیورسٹیوں میں ایمان کے زیر سایہ علم کے مدارج طے کرنے ہیں۔ اس سلسلے میں اساتذہ کا کردار ان کی رفتار و گفتار بہت اہم ہے۔ ہمارا دشمن اس کوشش میں ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو اور خاص طور پر ہمارے طلباء کو جو مستقبل میں ہمارے ملک کے علمی و فکری اور انتظامی شعبوں کی باگڈور سنبھالنے والے ہیں لا دینیت اور لا ابالی پن کی جانب لے جائے۔ ہم کو چاہئے کہ اسے روکیں۔ آج کل اس سلسلے میں بہت کام ہو رہا ہے۔ ہمارے نوجوان کو بالخصوص شعبہ علم و فکر سے وابستہ نوجوانوں کو لا دینیت اور فکری دیوالیئے پن کی جانب کھینچنا دشمن کا خاص حربہ بن گیا ہے۔ جب انسان کے پاس ایمان کی دولت ہو تو اس کے سامنے ایک راستہ موجود رہتا ہے جس پر وہ آگے بڑھتا جاتا ہے لیکن اگر ایمان نہ ہو تو وہ خس و خاشاک کی طرح کبھی کسی سمت میں اور کبھی کسی اور سمت میں چکراتا رہتا ہے۔
البتہ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ علمی ماحول میں دیندار نوجوانوں نے زیادہ درخشاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ چیز باقاعدہ محسوس کی گئی۔ ہمیں معلوم ہے کہ دفاعی صنعت کے شعبے میں، بانجھپن کے علاج کے سلسلے میں، اسٹیم سیلز کے شعبے میں، تحقیقاتی ادارے رویان کے سلسلے میں، جوہری توانائی کے شعبے میں، خلائی شعبے میں، سپر کمپیوٹر کی تعمیر کے شعبے میں مختلف علمی و سائنسی شعبوں میں سرحدوں کو توڑ کر آگے نکل جانے والے نوجوان دیندار اور مذہبی نوجوان تھے۔ کم از کم اتنا تو پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ بند دروازوں کو توڑ کر آگے بڑھنے والے، ہمارے دیندار نوجوان ہی تھے۔ البتہ بعد میں دوسرے افراد بھی ان کے نقش قدم پر آگے بڑھنے میں کامیاب ہوئے۔
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ یونیورسٹی کے محترم اساتذہ کو چاہئے کہ ملک کے واقعات و حقائق سے بھی اور دنیا کے تغیرات سے بھی بخوبی واقف رہیں۔ اس کے لئے محنت کی ضرورت ہے۔ تمام علمی شعبوں کے سلسلے میں یہ ضروری ہے۔ اساتذہ کی صنف جس سے دوسرے افراد کسب فیض کرتے ہیں اگر اپنے زمانے کے حالات سے بخوبی واقف نہ ہو تو متعدد مشکلات میں پھنس جائے گی۔ «العالم بزمانه لا تهجم عليه اللّوابس»؛(2) جو شخص اپنے زمانے کے حالات سے آگاہ ہے، اپنے گرد و پیش کے تغیرات سے اور دنیا کے واقعات سے باخبر ہے اسے معلوم ہے کہ دنیا میں کون سے اہم حلقے سرگرم ہیں، وہ کہاں ہیں، ان کا ہدف کیا ہے، ان کا سامنا کس طرح ہوتا ہے۔ ایسا شخص کبھی کسی غلط فہمی میں نہیں پڑتا۔ کسی بھی معاملے میں غلط فیصلہ نہیں کرتا۔ یہ آگاہی سب کے لئے ضروری ہے، عالم دین کے لئے بھی ضروری ہے، یونیورسٹی سے وابستہ افراد کے لئے بھی ضروری ہے، دینی درسگاہوں کے اساتذہ کے لئے بھی اہم ہے، یونیورسٹی کے پروفیسر حضرات کے لئے بھی لازمی ہے۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ اگر انسان مختلف فکری رجحانات سے آگاہ ہے تو تمام چیزوں کے سلسلے میں صحیح نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے؟ یہ واقعہ کیونکر رونما ہوا؟ اس کا تجزیہ کبھی غلط نہیں ہوتا۔
دشمن کی طرف سے تجزیوں کی بوچھار جاری ہے، ذرائع ابلاغ کی یہ تعداد جس کی رپورٹ حال ہی میں مجھے دی گئی، واقعی حیرتناک ہے۔ ان میں انٹرنیٹ سائٹوں کو شامل نہیں کیا گيا ہے۔ انٹرنیٹ تو خیر باقاعدہ ایک لا متناہی دنیا ہے جس کا احصاء نہیں کیا جا سکا۔ میں انہی ٹی وی چینلوں اور ریڈیو اور ٹی وی کی نشریات کی بات کر رہا ہوں۔ ان ذرائع ابلاغ میں اسلامی جمہوریہ کے خلاف، اسلامی نظام کے خلاف اور ملت ایران کے خلاف ماحول تیار کرنے کے لئے تبصروں کی جو بارش ہو رہی ہے وہ ناقابل یقین ہے۔ جو لوگ وسیع پیمانے پر یہ کام کرتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ لوگ ان تمام تبصروں کو نہیں سنتے لیکن ان کا کہنا ہے کہ جہاں تک ہو سکے اپنی کوشش جاری رہنی چاہئے۔ جھوٹ اور سچ کو آپس میں خلط ملط کر دیتے ہیں اور پھر اس کی بنیاد پر ایک غلط نتیجہ پیش کر دیتے ہیں۔ «و ليكن يؤخذ من هذا ضغث و من ذاك ضغث فيمزجان» امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر حق کو بغیر کوئی کمی بیشی کئے ہوئے پیش کر دیا جائے تو کوئی بھی کسی غلط فہمی میں نہیں پڑے گا۔ اگر باطل حق کا لبادہ اوڑھنے کے بجائے اپنی اصلی شکل میں سامنے آ جائے تو کوئی بھی باطل کو اختیار نہیں کرے گا۔ «فلو انّ الباطل خلص من مزاج الحقّ لم يخف على المرتادين و لو انّ الحقّ خلص من لبس الباطل انقطعت عنه السن المعاندين و ليكن يؤخذ من هذا ضغث و من ذاك ضغث فيمزجان» (3) یہ لوگ کچھ حصہ حق کا لیکر باطل سے مخلوط کر دیتے ہیں اور ایک ایسی غذا تیار کر دیتے ہیں جس کی ظاہری شکل سے اس میں ملے ہوئے زہر کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اسے ان افراد کے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے جو نا واقف ہیں۔ یہ تجزیہ لوگوں کے ذہنوں پر اپنا اثر ڈالتا ہے۔ بعض اوقات یونیورسٹی سے وابستہ کچھ حلقوں کی طرف سے طلباء اور اساتذہ کی جانب سے بعض امور کے سلسلے میں ایسے تجزیئے اور تبصرے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ ان کی وجہ نا واقفیت ہے۔ قصور کسی کا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اساتذہ کو تمام حالات و حقائق کی پوری معلومات رہنی چاہئے۔
حکام اور یونیورسٹی سے وابستہ افراد کی نشستیں ہونی چاہئیں جن میں سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ کئی سال سے میں حکام سے اور اس عرصے میں منتخب ہونے والے صدور سے یہ سفارش کرتا رہا ہوں کہ آپ یونیورسٹیوں میں جائیے، جاکر طلباء سے گفتگو کیجئے۔ میں خود بھی (اپنے دور صدارت میں) ہمیشہ جاتا تھا۔ میں ابتدائے انقلاب سے بلکہ انقلاب کامیاب ہونے سے پہلے بھی طلباء کے رابطے میں رہتا تھا اور دوسروں کو اس کی سفارش بھی کرتا تھا۔ اب بھی حکام سے میری سفارش ہے کہ اساتذہ کے ساتھ بیٹھیں اور سوال و جواب کا سلسلہ شروع کریں۔ سوال و جواب کا یہ سلسلہ بہت اہم ہے، اس سے بڑی مدد ملتی ہے۔ حکام کو بھی مدد ملتی ہے، اساتذہ کو بھی مدد ملتی ہے اور یونیورسٹی کے علمی ماحول پر بھی اس کا بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔ حکام کو چاہئے کہ یونیورسٹی کے پروگراموں میں شرکت کریں، ہمدردانہ جذبے کے تحت کی جانے والی تنقیدوں کو قبول کریں۔ بہت سی باتیں جو اس نشست میں کہی گئيں یا اس جیسے دیگر اجلاسوں میں کہی جاتی ہیں ان سے حکام کی رہنمائی ہو سکتی ہے۔ حکام علم و دانش کے کتنے ہی بلند مقام پر کیوں نہ ہوں بلا شبہ اس سے بے نیاز نہیں ہیں کہ اہل نظر حضرات کی رائے معلوم کریں اور ممتاز علمی شخصیات کے افکار سے آگاہ ہوں اور ان سے استفادہ کریں۔ واقعی ان نظریات سے بڑی مدد ملتی ہے۔ حکام کو اس میں کوئی دریغ نہیں کرنا چاہئے۔ عالمانہ تنقیدوں کو، تعمیری تنقیدوں کو فراخدلی سے قبول کریں۔ ایسا نہ ہو کہ جیسے ہی کوئی تنقید کرے فورا اس پر اسلامی نظام کے مخالف ہونے کا لیبل لگا دیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ بہت سی چبھتی ہوئی تنقیدیں بھی ہمدردانہ جذبے کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ انسان اس ذہن کا احترام کرے جو دلسوزی کے ساتھ تنقید کر رہا ہے۔ تو یہ ہے حکام کی ذمہ داری۔ اساتذہ کو بھی یہ خیال رکھنا چاہئے کہ تخریبی عمل انجام نہ پائے۔ تنقید اور تخریبی عمل میں بہت فرق ہے۔ تنقید کرنے اور دشمن کے منصوبے کو آگے بڑھانے میں بہت فرق ہے۔ ملک کے ماحول میں بد گمانی پھیلانا اور عوام کو بد ظن کرنا ایک الگ چیز ہے۔ ایسی تنقید نہیں کرنا چاہئے، واقعی ہمدردانہ جذبے کے تحت یہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
علاقے کے حالات سے آگاہی بھی بہت اہم ہے اور دنیا کے امور کا علم ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ اس وقت ہمارے گرد و پیش میں جو واقعات رونما ہو رہے ہیں، بہت اہم ہیں، دوررس اثرات کے حامل ہیں۔ بہت عظیم تبدیلی پیدا ہو رہی ہے۔ اس کے دو ممکنہ انجام ہو سکتے ہیں۔ ایک کی امید زیادہ ہے اور دوسرے کا احتمال بہت کم ہے۔ وہ انجام جس کا احتمال بہت کم ہے یہ ہے کہ استکباری حلقے اپنے تشہیراتی وسائل اور ہاتھ لگنے والے مواقع کو استعمال کرتے ہوئے اس علاقے پر اور ان ممالک پر مزید پچاس ساٹھ سال کے لئے اپنا تسلط قائم کر لیں۔ اس کا احتمال بہت کم ہے لیکن بہر حال اسے خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ چنانچہ آپ دیکھ رہے ہیں انہوں نے اپنی حرکتیں شروع کر دی ہیں جو آپ کی نظروں کے سامنے ہیں۔ میری نظر میں سب سے زیادہ تشویش ناک صورت حال لیبیا کی ہے۔ اس ملک میں پیدا ہونے والے خلاء سے استفادہ کرتے ہوئے (استکباری طاقتوں) کے حملے شروع ہو گئے ہیں اور وہ اپنے پیر جمانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس انجام کا احتمال بہت کم ہے۔ زیادہ قوی امید اس کی ہے کہ قوموں کی قوت ارادی اور ان کی بصیرت کو غلبہ حاصل ہوگا، اس کے نتیجے میں عوامی حکومتیں تشکیل پائیں گی اور استکباری طاقتوں، صیہونیوں اور امریکہ کی تمام تر ریشہ دوانیوں کے باوجود یہ حکومتیں عوامی اور اسلامی حکومتیں ہوں گی۔ ممکن ہے کہ ان کی شکلیں الگ الگ ہوں لیکن ان سب کی ماہیت اسلامی ہی ہوگی کیونکہ ان ملکوں کے عوام مسلمان ہیں۔
کچھ ہی عرصہ پہلے کچھ باخبر افراد نے مجھے رپورٹ دی کہ اسی لیبیا میں قرآن کے حافظوں کی تعداد ناقابل یقین ہے۔ اگر یہ تعداد بیان کی جائے تو شاید بہت سے لوگ یقین نہ کریں۔ میں بھی یہ اعداد و شمار بیان نہیں کروں گا کیونکہ اس سلسلے میں ابھی وثوق حاصل نہیں ہوا ہے۔ بہرحال اس سے اس ملک کے عوام کے دینی میلان کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایسے عوام جب انتخاب کریں گے اور اگر بصیرت و آگاہی کے ساتھ انتخاب کریں گے تو واضح ہے کہ ان کا انتخاب کیسا ہوگا۔ وہی انتخاب ہوگا جس کا اندازہ دو تین سال قبل امریکیوں کو بھی ہو گیا تھا اور انہوں نے کہا تھا کہ مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے ممالک میں اگر انتخابات کا انعقاد ہو تو نتیجہ مسلمانوں کے حق میں جائے گا، اسلامی رجحان رکھنے والوں کے حق میں جائے گا۔ ان کا یہ اندازہ بالکل درست تھا۔ آج ان ممالک میں جہاں کہیں بھی انتخابات ہوں گے اسلام نواز حلقوں کو پذیرائی ملے گی۔ البتہ ممکن ہے کہ ظاہری طور پر اس کا اندازہ نہ ہو۔ کون تصور کر سکتا تھا کہ مصر میں اس طرح اسلامی جذبہ ایک طوفان بن کر سامنے آ سکتا ہے؟ اس کو ظاہر نہیں ہونے دیا جا رہا تھا لیکن اس خطے میں یہ عظیم واقعہ رونما ہو گیا۔ تو یا یہ ہے کہ علاقے میں جو نیا رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے وہ بڑی آبادی والے اور دانشوروں کی ایک بڑی تعداد رکھنے والے اسلامی بلاک کی تشکیل کا رجحان ہے۔ اس کی بھی امید بہت قوی ہے اور یا پھر خدانخواستہ استعمار کے تسلط کا راستہ ہموار ہو رہا ہے جو پچاس سال، ساٹھ سال یا سو سال کے لئے قوموں کو پسماندگی میں مبتلا کر دینے والا ہے۔ پھر نہیں معلوم کب قوموں کو احساس ہوگا کہ ان کے ساتھ خیانت ہوئی ہے اور ان میں نئی بیداری پیدا ہوگی۔ بہرحال یہ بہت اہم تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ ہم اس تبدیلی سے خود کو لا تعلق نہیں رکھ سکتے، یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم اس کا جائزہ نہ لیں اور اسے صحیح طور پر پہچاننے کی کوشش نہ کریں۔ اس سلسلے میں بھی اساتذہ کو محنت کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے علاقے میں رونما ہونے والے واقعات کا ایک نتیجہ مغربی نقطہ نگاہ پر خط بطلان کا کھنچ جانا ہے۔ اقتصادی میدان میں ان کی پالیسیوں کی حالت آپ ان کی معاشی صورت حال کو دیکھ کر سمجھ سکتے ہیں۔ سیاسی شعبے میں ان کی حکمت عملی ہمارے علاقے میں درہم برہم ہوکر رہ گئی ہے۔ اس علاقے میں انہوں نے کتنے جتن کئے اور کتنا نفوذ حاصل کر لیا تھا لیکن آج ان کی سیاسی طاقت نابود ہوتی جا رہی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیاسی میدان میں، معاشی شعبے میں ان کی پالیسی سازی ناقص، بے ثمر اور بانجھ ثابت ہوئی ہے۔ اس سے ہمیں مزید حوصلہ ملتا ہے کہ ہم اسلامی نظریات و افکار کے بارے میں غور کریں۔
ایک اور اہم مسئلہ تیز رفتار اور گہری علمی تحریک میں نئی روح پھونکنے کا ہے۔ حرکت تو جاری ہے لیکن اس میں نئی جان ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں کی صلاحیتوں کا ایک بڑا حصہ اب بھی علمی ارتقاء کے عمل میں باقاعدہ دخیل نہیں ہے۔ یونیورسٹی کے شعبے میں جتنی بھی علمی صلاحیتیں ہیں انہیں علمی ترقی کے عمل میں دخیل کیا جانا چاہئے۔ مختلف یونیورسٹیاں، تمام اساتذہ، طلباء، خاص طور پر ممتاز طلباء جن کے درمیان بعض نابغہ طالب علم بھی ہوتے ہیں، سب علمی ارتقاء میں شریک ہوں۔ ایک بات تو یہ ہے اور دوسری اہم بات جس کا ذکر بعض دوستوں نے اپنی گفتگو کے دوران کیا اور میں بھی بار بار اس پر تاکید کرتا رہتا ہوں منفعت بخش علم کی ضرورت ہے۔ ایسا علم جس سے ملک کو فائدہ پہنچے۔
ہمارا علمی نظام بالکل درست اور صحیح ہونا چاہئے۔ اس وقت جامع علمی منصوبے کے تحت اس نکتے پر کام ہو رہا ہے۔ ملک کا علمی نظام ایک کامل نظام ہونا چاہئے۔ یہ طے کر لیا جانا چاہئے کہ ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے اور کس چیز کی کس مقدار میں ضرورت ہے، مختلف علمی سرگرمیوں کا تناسب کیسا ہونا چاہئے۔ ہماری ترقی کیریکیچر کی شکل اختیار نہ کر لے! ایک جامع منصوبہ، جامع پیشرفت اور صحیح ترقی ہونا چاہئے۔ یونیورسٹی میں نئی ایجادات و اختراعات کی فضا قائم ہونی چاہئے۔ اساتذہ اور طلباء کی دسیوں لاکھ کی ایک بڑی تعداد علمی اختراعات و ایجادات میں سرگرم عمل ہونی چاہئے۔ اس طرح کا ماحول تیار ہونا چاہئے۔ ہمارے طالب علم کی ذہنیت شروع سے یہ ہو کہ وہ نئی ایجادات اور تحقیقات کے لئے علم حاصل کر رہا ہے، صرف دوسروں کی تقلید کے لئے نہیں، ایسا نہ ہو کہ صرف باتوں کو سنے، قبول کرے اور یہ یقین کر لے کی کسی تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس راستے کی مشکلات کو برطرف کیا جانا چاہئے۔
ایک اور نکتہ جو میری نظر میں بہت اہم ہے ملک کے علمی مسائل کو حل کرنے میں یونیورسٹیوں کو دخیل کرنے کا ہے۔ آپ دیکھئے کہ آج محترم اساتذہ نے مختلف علمی مسائل کے سلسلے میں یہاں بحث کی۔ ہر موضوع کے سلسلے میں کوئی نہ کوئی نئی بات سننے کو ملی۔ یہ بڑی قابل قدر چیز ہے۔ ملک کے انتظامی ادارے کس حد تک یونیورسٹیوں اور ملک کی ممتاز علمی شخصیات کے ذہنی و فکری ثمرات سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں؟! صرف ظاہری عمل اور رسم کی ادائیگی کافی نہیں ہے۔ یہ تعاون حقیقی معنی میں بھرپور تعاون ہونا چاہئے۔ ایسی روش اختیار کی جائے کہ ہمارے ریسرچ پیپر ملکی مسائل پر مرکوز ہوں۔ اس اجلاس میں صحت عامہ کے شعبے سے متعلق تحقیقی مقالوں کے اعداد و شمار پیش کئے گئے۔ ملک کے مختلف علمی مسائل پر جو مقالات لکھے جا رہے ہیں ان میں نوے فیصدی مقالات کا تعلق داخلی مسائل سے اور ملکی ضروریات سے ہونا چاہئے۔ نوے فیصد ڈزرٹیشن اور تھیسس کا رجحان ملکی مسائل کے حل کی طرف ہونا چاہئے۔ اب آپ فرض کیجئے کہ ہم نے اقتصادی جہاد کی بات کی۔ یہ واقعی ایک اہم مسئلہ ہے اور سب نے اس کی تائید کی کہ یہ سال واقعی اقتصادی جہاد کا سال ہے، یعنی اقتصادی جہاد انجام دیا جانا چاہئے۔ یہاں پر میرا سوال یہ ہے کہ اس سال کتنے علمی مذاکرے، کتنے تحقیقی مقالے اور کتنے پروجیکٹ ایسے تھے جو ملک میں اقتصادی جہاد پر مرکوز رہے ہوں؟ اقتصادی جہاد کے متعدد پہلو ہیں۔ اقتصادی جہاد کا تعلق لا فیکلٹی سے بھی ہے، اقتصادیات کی فیکلٹی سے بھی ہے، ٹیکنیکل فیکلٹی سے بھی ہے، سائنس فیکلٹی سے بھی ہے۔ اگر ہم اقتصادی جہاد کے تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھیں تو دیکھیں گے کہ ملک کے تمام تعلیمی شعبے براہ راست یا بالواسطہ طور پر اقتصادی جہاد سے سروکار رکھتے ہیں۔ ہر موضوع کے تعلق سے کوئی نہ کوئی اکانامک پرابلم ہے جسے حل کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ یونیورسٹیوں کو ملکی مسائل میں دخیل کیا جانا چاہئے۔ علم کا مقصد یہ ہے کہ اس سے فائدہ حاصل کیا جائے۔ علم سے معاشرے کو منفعت پہنچنا چاہئے۔ علم کی برکتوں سے بہرہ مند ہونا چاہئے۔
دو نکات پر ہمیشہ توجہ رہنی چاہئے۔ ایک ہے مکمل تعلیمی نظام کا مسئلہ، ملک میں کامل علمی نظام ہونا ضروری ہے۔ جامع علمی روڈ میپ اسی نظام سے عبارت ہے۔ البتہ اس جامع علمی روڈ میپ پر عملدرآمد اس کی تدوین سے زیادہ سخت کام ہے۔ تدوین کے وقت بھی بہت اہم کام انجام دیئے گئے۔ سپریم کونسل برائے ثقافتی انقلاب میں اس تعلق سے بڑی محنت کی گئی۔ متعلقہ اداروں نے بھرپور تعاون کیا۔ بالخصوص اساتذہ نے ان چند برسوں میں بڑی مدد کی اور ایک جامع علمی روڈ میپ تیار ہوا۔ یہ بہت اچھی بات ہے لیکن اب اس کے اجراء کا مرحلہ ہے۔ اسی روڈ میپ میں اجراء کے طریقوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس روڈ میپ کی تدوین کے لئے جو محنت کی گئی اس کی کئی گنا محنت اس کے اجراء کے لئے کی جانی چاہئے۔ یہ بہت بنیادی کام ہے جو انجام پا گیا تو ملک کو جامع علمی روڈ میپ حاصل ہو جائے گا۔ کس موضوع کا اضافہ کرنا ہے، کس کو کم کرنا ہے، کون سے نئے موضوعات شامل کرنے ہیں۔ یہ سب کچھ اسی جامع روڈ میپ کی بنیاد پر انجام دیا جا سکتا ہے۔
دوسرا اہم مسئلہ ہے کسی بھی آئیڈیا کو صرف و استعمال کے مرحلے تک پہنچانا۔ یہ بہت ضروری ہے۔ البتہ اس کا تعلق انتظامیہ سے ہے اور اس کے لئے انتظامیہ اور یونیورسٹی کے تعاون کی ضرورت ہے۔ کسی بھی علمی کام کا آئيڈیا پہلے مفکر کے ذہن میں آتا ہے، جو بعد میں علم کی شکل اختیار کرتا ہے، پھر اسے ٹکنالوجی کی شکل دی جاتی ہے، ٹکنالوجی صنعتی مرحلے تک پہنچتی ہے اور سرانجام صنعتی مصنوعات بازار میں آتی ہیں۔ بازار میں اس کی پذیرائی سے مزید نئے آئیڈیا پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہنا چاہئے۔ اس کے لئے حکومت، صنعتی اداروں، انتظامی اداروں اور یونیورسٹی سے وابستہ مراکز کے باہمی تعاون کی ضرورت ہے اور یہ عمل انجام دیا جانا چاہئے۔
یوم قدس قریب ہے۔ یوم قدس حقیقی معنی میں ایک عالمی اسلامی دن ہے۔ ایسا دن ہے جب ایران کے عوام دیگر اقوام کی مدد سے جن کی تعداد اب خوش قسمتی سے بہت بڑھ چکی ہے، کلمہ حق کا نعرہ بلند کریں گے جس پر پردہ ڈالنے کے لئے اور جسے ہمیشہ کے لئے دبا دینے کی غرض سے ساٹھ سال تک لگاتار سامراج سرمایہ کاری کرتا رہا۔ ساٹھ سال کا عرصہ بھی غاصب حکومت کی تشکیل کے بعد کا عرصہ ہے، اس کے مقدمات تو سو سال سے بھی زیادہ پہلے فراہم کئے جانے لگے تھے۔ ساٹھ سال سے تو فلسطینیوں کو دنیا کے جغرافئے سے ناپید کر دینے کی سازشیں چل رہی ہیں۔ وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہو گئے تھے۔ انہیں منہ کی کھانی پڑی اسلامی انقلاب سے۔ اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل، عالمی یوم قدس کا اعلان اور تہران میں غاصب حکومت کے سفارت خانے کی فلسطینی سفارت خانے میں تبدیلی ایک انتباہ اور استکباری سازشوں کا سد باب کرنے والا قدم تھا۔ الحمد للہ یہ مہم روز بروز وسیع سے وسیع تر ہوتی جا رہی ہے۔
یوم قدس ہماری ملکی سلامتی کی ایک اہم بنیاد ہے۔ یہ بات ہمارے عزیز عوام کی ہر فرد کو یاد رکھنی چاہئے۔ یوم قدس کے موقعے پر سڑک پر نکلنے والا ہر ایرانی شہری در حقیقت ملکی سلامتی اور انقلاب کے ثمرات کی حفاظت کے تعلق سے اپنا کردار ادا کر رہا ہوتا ہے۔ یوم قدس بڑا عظیم دن ہے، بہت اہم دن ہے۔ انشاء اللہ اس سال ہمارے ملک میں بھی اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی یوم قدس زیادہ پرشکوہ انداز میں منایا جائے گا۔
پروردگارا! ہم نے جو کچھ کہا، جو کچھ سنا، جو بھی عمل کیا، جو بھی ہماری نیت تھی وہ سب تو اپنے لئے اور اپنی راہ میں قرار دے۔ پالنے والے! ان سب میں برکت پیدا کر۔ پالنے والے! ہمیں اپنے راستے پر ثابت قدم رکھ، ہمارے اعمال کو امام زمانہ علیہ السلام کی نظر میں پسندیدہ اور ہمارے شہیدوں اور عظیم الشان امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی خوشنودی کا باعث قرار دے۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته
1) سورۂ فصلت، آيت 30
2) كافى، جلد 1، صفحہ 27
3) نهجالبلاغه، خطبہ 50