آپ نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے قبل کے دور کے مقابلے میں انقلاب کے بعد قرآن کے سلسلے میں ہونے والے کام کی تعریف کی تاہم اسے ناکافی قرار دیا۔ آپ نے حفظ قرآن کے ساتھ ہی قرآنی آیات و تعلیمات میں تدبر کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر انسان حافظ قرآن ہو اور قرآنی آیات کو یاد رکھنے کے لئے انہیں بار بار دوہراتا رہے تو اسے قرآنی آیات میں تدبر کا موقعہ بھی ملے گا۔ قائد انقلاب اسلامی نے معاشرے میں قرآن کی تلاوت اور حفظ کے ماحول کی تقویت پر زور دیا۔
خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
میں شکر گزار ہوں ان برادران عزیز کا جنہوں نے اپنی خوش الحانی سے قرآن پاک کی آیات کریمہ کی تلاوت کرکے اس فضا کو معطر اور ہمارے دلوں کو منور کر دیا۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہماری قوم کو خاص طور پر ہمارے نوجوانوں کو قرآن کریم سے زیادہ سے زیادہ آشنا کرے۔
قرآن سے انس ہمارے دلوں کو قرآنی تعلیمات سے بخوبی آگاہ بنائے گا۔ آج عالم اسلام میں جو بھی مشکلات ہیں الہی و قرآنی تعلیمات سے دوری کے نتیجے میں ہیں۔ قرآن کتاب حکمت ہے، کتاب علم ہے، کتاب زندگی ہے۔ قرآنی تعلیمات سے آشنائی، ان تعلیمات کے تقاضوں کو پورا کرنے اور احکامات قرآنی پر عمل آوری سے قوموں اور ملتوں کو زندگی ملتی ہے۔ انسان اگر انصاف کا طالب اور ظلم سے بیزار ہے تو اسے ظلم کے خلاف پیکار کا راستہ قرآن میں تلاش کرنا چاہئے۔ اگر انسان علم و آگہی کا طلبگار ہے اور علم و معرفت سے اپنی زندگی کو رونق عطا کرنا چاہتا ہے، اپنے لئے آسائش و رفاہ کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہے تو اس کی روش قرآن میں ذکر کر دی گئی ہے۔ انسان اگر اللہ تعالی سے رابطے، معنوی پاکیزگی، روحانی طہارت اور قرب الہی کی لذت سے آشنا ہونے کا خواہشمند ہے تو قرآن نے اس کا راستہ بتایا ہے۔
ہم مسلم امہ کی سب سے بڑی کمزوری، ہماری پسماندگی، ہماری کجروی، اخلاقی امور اور زندگی کے مسائل میں ہماری غلط روش، یہ سب کچھ قرآن سے دوری کا نتیجہ ہے۔ طاغوتوں اور سرکش طاقتوں کی حکمرانی کے نتیجے میں مسلمان قوموں کا خون چوس لیا گيا ہے۔ صرف ان کی معیشت کا خون نہیں چوسا گیا، محض زمین دوز ذخائر، تیل وغیرہ اور دیگر حیاتی معدنیات کو ہی نہیں لوٹا گیا بلکہ ان کے جذبہ استقامت، جذبہ مزاحمت اور دنیا میں سر اٹھاکے جینے کی تمنا کو بھی کچل دیا گیا۔ مسلمان قومیں اپنی ثقافت سے بھی روگرداں ہو گئیں، مادہ پرستی کی ثقافت میں غرق ہو گئیں۔ کلمہ لا الہ الا اللہ ہماری زبانوں پر رہا اور اس عرصے میں ہم مسلمان بھی کہے جاتے رہے لیکن مغرب کی ثقافت اور طور طریقے ہم پر اثر انداز رہے، ہمیں حقائق سے بیگانہ کرتے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صرف ہماری معیشت ہی نہیں، ہماری دنیوی عزت ہی نہیں، بلکہ ہماری اخلاقیات اور اخلاقی تعلیمات بھی ہمارے ہاتھ سے نکل گئیں۔ ہم اگر آج کاہلی میں مبتلا ہیں، اگر سستی اور بے عملی میں مبتلا ہیں، اگر ہمارے دل ایک دوسرے سے مانوس نہیں ہیں، اگر ہمارے اندر بدخواہی کا جذبہ پیدا ہو گیا ہے تو یہ سب غیر اسلامی اور اسلام مخالف ثقافت کی یلغار کا نتیجہ ہے۔
قرآن کا اہم کردار یہ ہے کہ ہمیں مادی و معنوی لحاظ سے رفعت و ارتقاء عطا کرے اور قرآن یہ کام کر بھی رہا ہے۔ جو لوگ تاریخ سے آشنا ہیں انہیں تاریخ میں اس کی مثالیں نظر آئيں گی۔ ہم لوگ خود اپنے زمانے میں بھی اس کے نمونوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اس کا ایک نمونہ یہی ملت ایران ہے۔ آپ یہ نہ سمجھئے کہ طاغوتی حکومتوں کے دور میں خواہ وہ پہلوی دور رہا ہو یا اس سے قبل قاجاریہ دور ہو، ملت ایران کو دنیا میں کوئی مقام و مرتبہ حاصل تھا۔ ہماری قوم کے اندر کوٹ کوٹ کر بھی ہوئی یہ صلاحیتیں کسی گم شدہ خزانے کی مانند، ویرانے میں مدفون زر وجواہرات کی مانند تھیں۔ شاید کبھی کوئی شخص اتفاقیہ طور پر اپنی صلاحیت کو منظر عام پر لاتا رہا ہو، مگر ایسا بھی دیکھنے میں نہیں آتا تھا۔ آج جو آپ ملک کی تعمیر و ترقی سے دلچسپی رکھنے والے فعال، پرجوش اور اختراعی صلاحیتوں سے سرشار نوجوانوں کی کثیر تعداد دیکھ رہے ہیں، جو آج مختلف شعبوں میں قابل فخر کارنامے سرانجام دے رہے ہیں، آپ کے عز و وقار کو چار چاند لگا رہے ہیں، اپنی قوم کا سر اونچا کر رہے ہیں، یہ نوجوان اس زمانے میں بھی تھے لیکن طاغوتی حکومتوں کے تسلط کی زنجیر میں قوم کچھ اس طرح جکڑی ہوئی تھی کہ کچھ بھی سامنے نہیں آ پاتا تھا۔
ہم نے قرآن کی جانب اور قرآنی تعلیمات کی جانب جو ایک قدم بڑھایا ہے، واقعی قرآن کی جانب ہماری اب تک کی پیش قدمی ایک قدم سے زیادہ کی نہیں رہی ہے، اتنے پر ہی اللہ تعالی نے ہمیں عزت سے نوازا، ہمیں نئی زندگی عطا کر دی، ہمیں آگاہی و بصیرت سے آراستہ کر دیا، ہمیں قدت و طاقت سے مزین کیا۔ ہماری قوم کا شمار آج دنیا کی زندہ اور مقتدرترین اقوام میں ہوتا ہے۔ تہہ در تہہ موجود صلاحیتیں، بھرپور آمادگی، مختلف شعبوں میں حاصل ہونے والی پے در پے ترقی۔ آج ہمارے ملک میں کچھ ایسی فضا قائم ہے۔ دوسری قومیں ہماری قوم کو تعریفی نظروں سے دیکھتی ہیں۔
آج خوش قسمتی سے مسلم امہ کے اندر، مختلف ممالک میں اسلامی نعرے گونج رہے ہیں جن سے قوموں کو آگے بڑھنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں، خبریں سن رہے ہیں۔ ان تحریکوں میں جہاں بھی اسلامی نعروں کی گونج زیادہ ہے، جہاں اسلامی نعرے زیادہ اثر دکھا رہے ہیں، جہاں دشمنوں، معاندوں، منافقوں اور دھوکے بازوں کے جھانسے میں لوگ نہیں آ رہے ہیں، وہ در حقیقت ایسی جگہیں ہیں جہاں مطالبات اسلامی ہیں، خواہشات اسلامی ہیں۔ یہ قرآنی تعلیمات کا خاصہ ہے۔ بنابریں قرآن سے آشنائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
البتہ زمانہ حاضر کا ماضی سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ ماضی میں اتنے قاریان قرآن، حافظان قرآن، قرآنی متن سے آشنائی رکھنے والے افراد، تلاوت کا شوق اور عشق رکھنے والے لوگ نہیں تھے۔ حالانکہ ملک یہی تھا، قوم بھی یہی تھی۔
مجھے یاد ہے کہ مصر کے ایک نامور قاری ابو العینین شعیشع آئے تھے مشہد اور مسجد گوہر شاد میں قرآن کی تلاوت کر رہے تھے۔ واقعی بڑی اچھی تلاوت کرتے تھے۔ چونکہ یہ پروگرام اس زمانے کے ادارہ اوقاف کی طرف سے تھا اور یہ ادارہ آج کے ادارہ اوقاف کے بر خلاف جو ایک مایہ ناز ادارہ ہے، بہت بدنام ادارہ ہوا کرتا تھا۔ میں اس قاری کی تلاوت سننے کا بڑا خواہشمند تھا لیکن اس پروگرام میں نہیں جانا چاہتا تھا۔ میں دور سے دیکھ رہا تھا اور تلاوت سن رہا تھا۔ اس نشست میں موجود افراد کی تعداد میرے خیال میں پچاس ساٹھ کے قریب تھی۔ ان میں بھی کچھ تو حکومتی اہلکار تھے اور کچھ مشہد کے قاری تھے۔
آج قرآن کے سلسلے میں ہر جگہ جو دلچسپی دکھائی دے رہی ہے اسے اور بڑھانا چاہئے۔ اس میں روز بروز اضافہ کرنا چاہئے۔ یہ اچھی تلاوت، اچھی آواز، تلاوت کی محفلیں، یہ سب کچھ بہت باارزش ہے، اس کے نتیجے میں قرآن سے، قرآتی تعلیمات سے اور قرآنی مفاہیم سے ہماری آشنائی بڑھتی ہے۔
قرآن میں تدبر کا راستا آسان کرنے والی چیزوں میں ایک حفظ قرآن ہے۔ ہمارے ہاں قرآن کے حافظوں کی تعداد کم ہے۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ہمارے ملک میں حافظان قرآن کی تعداد کم از کم دس لاکھ تو ہونی چاہئے لیکن ہماری آبادی کے لحاظ سے یہ تعداد کم ہے۔ بہرحال بحمد اللہ مقدمات فراہم کئے جا رہے ہیں، کام ہو رہا ہے، حفظ قرآن کا ماحول تیار کرنے کے لئے پروگرام جاری ہیں۔ اس سے ہماری امید بڑھی ہے اور انشاء اللہ قرآن کے حافظوں کی دس لاکھ تعداد بڑھ کر ایک کروڑ جائے گی۔
البتہ یہ توجہ بھی رہے کہ حفظ قرآن پہلا قدم ہے۔ قرآن حفظ ہو جائے تو اس خصوصیت کو قائم رکھنا چاہئے۔ یعنی حافظ قرآن پابندی سے تلاوت کرے، ہمیشہ تلاوت قرآن کرتا رہے ورنہ فراموش کرنے لگے گا۔ دوسری چیز یہ ہے کہ اس حفظ قرآن کے ذریعے قرآن میں تدبر کی کوشش کرنا چاہئے۔ واقعی ایسا ہوتا ہے کہ حفظ قرآن تدبر میں مددگار ہوتا ہے۔ چونکہ آپ قرآنی آیات کو بار بار دوہراتے ہیں، حافظ قرآن ہیں تو آیات قرآنی میں تدبر اور تفکر کا آپ کو زیادہ موقعہ ملتا ہے۔
تفسیر سے دلچسپی بھی بہت ضروری ہے جس میں آیات کے مفہوم کو بیان کیا جاتا ہے۔ اگر قرآن یاد ہے، تفسیر سے انسیت بھی ہے، تدبر کا سلسلہ بھی ہے تو معاشرے میں وہی ماحول قائم ہو جائے گا جس کی تمنا ہے۔ یعنی قرآن کی شگوفائی کا ماحول۔ آپ فرض کیجئے کہ ہمارے ملک میں ایک کروڑ ڈیڑھ کروڑ مرد اور عورتیں اگر حافظ قرآن ہوں، قرآنی تعلیمات سے آگاہ ہوں تو یہ کتنی اہم بات ہوگی؟! ان کے ذہنوں میں قرآنی تعلیمات، قرآنی اسباق، قرآنی نصیحتیں، قرآنی انتباہات، قرآنی بشارتیں ہوں اور وہ انہیں بار بار دوہراتے رہیں تو واقعی ایک فولادی قوم وجود میں آئے گی۔ بحمد اللہ اس کے لئے زمین ہموار ہے۔ آج ہماری قوم کا عزم و ارادہ فولادی عزم و ارادہ ہے۔ لیکن ایسا ہوجانے کی صورت میں معاشرے کا قرآنی ڈھانچہ تعمیر ہو جائے گا۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اس میں کامیابی ملے۔
آپ نوجوان جو قرآن سے انسیت رکھتے ہیں، تلاوت سے شغف رکھتے ہیں، خوش الحان قاریوں کے چاہنے والے یا خود بھی خوش الحان قاری ہیں، اپنی قدر و منزلت کو سمجھئے۔ خداوند عالم آپ کو اجر نیک عطا فرمائے گا۔ آپ معاشرے کی اس عمومی حرکت کا ہراول دستہ ہیں۔ ممکن ہے کہ اس میں محنت زیادہ ہو لیکن اس کا اجر و ثواب بھی زیاد ہے۔
پروردگارا! ہمیں ہماری پوری عمر کے دوران قرآن کے ساتھ رکھ، ہمیں دنیا و آخرت میں قرآن سے جدا نہ فرما، قیامت میں ہمیں قرآن کے سائے میں رکھ، ہمیں قرآنی زندگی کے زیر سایہ الہی و اسلامی اور دین اسلام کی پسندیدہ زندگی عطا کر۔ پروردگارا! محمد و آل محمد کے صدقے میں حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود رکھ۔ ہم کو قرآن و اہلبیت سے جدا نہ کر۔
السّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته