قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں بعض فلسطینی گروہوں کے معرض وجود میں آنے اور پھر عوامی امنگوں کے مطابق جد و جہد کے راستے سے ان کے بھٹک جانے کے علل و اسباب بیان کئےـ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملت فلسطین اپنے پامال شدہ حقوق کی بازیابی کے لئے آج جو اٹھ کھڑی ہوئی اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مزاحمتی تنظیموں کی تشکیل کی راہ میں بہت سے نشیب و فراز آتے رہے اور ساتھ ہی بعض گروہوں نے سازباز کے عمل میں شامل ہوکر فلسطینی عوام کی امنگوں کو بری طرح نقصان پہنچایا اور صیہونی حکومت کے سامنے کچھ عرب حکومتوں نے گھٹنے ٹیک دیئے جس کی واضح مثال کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے جنوبی لبنان میں صیہونی حکومت کی ذلت آمیز شکست اور غزہ کی بائیس روزہ جنگ میں اسرائیل کی ناکامی جیسے بعض اہم واقعات کو حقوق کی بازیابی کے لئے جاری ملت فلسطین کی تحریک کی تاریخ میں سنہری باب قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے محمود عباس کی زیر قیادت فلسطینی انتظامیہ کی طرف سے پیش کئے جا رہے موجودہ منصوبے کو بھی صیہونیوں کے عزائم کے مقابلے میں جھک جانے اور فلسطینی عوام کے حقوق کو نظر انداز کر دینے کے مترادف بتایا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملت فلسطین کے حقوق کی بازیابی فلسطین کے محض چند علاقوں کی آزادی نہیں بلکہ پوری فلسطینی سرزمین کی آزادی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکہ اور یورپ میں متعدد سماجی، اقتصادی اور اخلاقی مسائل کی جڑ ان ممالک کی حکومتوں پر صیہونزم کا تسلط ہے جس کی وجہ سے یہ حکومتیں سمجھتی ہیں کہ ان کے مفادات کی حفاظت کا واحد راستہ اسرائیل کے مفادات کی حفاظت ہے۔
قابل ذکر ہے کہ فلسطین کی تحریک انتفاضہ کی حمایت میں پانچویں بین الاقوامی کانفرنس سنیچر کی صبح تہران میں شروع ہوئی جو اتوار تک جاری رہی۔ کانفرنس میں پچاس سے زائد ممالک کے پارلیمانی وفود اور اسلامی و غیر اسلامی ممالک کے مفکرین اور دانشوروں نے شرکت کی۔
خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

بسم الله الرحمن‌ الرحيم
السلام عليكم و رحمة‌الله
الحمدلله رب‌ العالمين و الصلاة و السلام علي سيدنا محمد و آله الطاهرين و صحبه المنتجبين و علي من تبعهم باحسانٍ الي يوم الدين.
قال الله الحكيم:
أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُون َبِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ الله َعَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ﴿39﴾ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِيَعٌ وَ صَلَوَاتٌ وَ مَسَاجِد ُيُذْكَر ُفِيهَا اسْمُ اللهِ كَثِيرًا وَ لَيَنصُرَنَّ الله ُمَن يَنصُرُهُ إِنَّ الله َلَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ﴿40﴾

مہمانان عزیز اور تمام حاضرین محترم کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ عالم اسلام کی دینی اور سیاسی شخصیات کے لئے جن موضوعات پر بحث کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ان میں مسئلہ فلسطین سب سے نمایاں ہے۔ اسلامی ممالک کے مشترکہ مسائل میں مسئلہ فلسطین کو اولیت حاصل ہے۔ اس مسئلے میں بڑی اہم اور انفرادی باتیں ہیں۔
اول یہ کہ ایک مسلم مملکت کو اس کی مالک قوم سے چھین لیا گیا اور اسے مختلف ممالک سے لاکر جمع کئے گئے اور ایک جعلی معاشرے میں تبدیل کر دیئے جانے والے اغیار کے سپرد کر دیا گیا۔
دوسری بات یہ ہے کہ تاریخ کا یہ نرالا واقعہ مسلسل قتل عام، جرائم، مظالم اور توہین آمیز اقدامات کے ساتھ انجام دیا گیا۔
تیسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا پہلا قبلہ اور دوسرے بہت سے دینی مراکز جو اس ملک میں واقع ہیں انہدام، بے حرمتی اور نابودی کے خطرے سے دوچار ہیں۔
چوتھی بات یہ ہے کہ عالم اسلام کے حساس ترین علاقے میں واقع یہ جعلی معاشرہ اور حکومت شروع سے تاحال استکباری طاقتوں کے لئے فوجی اور سیاسی چھاونی کا کردار ادا کرتی رہی ہے اور مغربی سامراج نے جو گوناگوں اسباب و علل کی وجہ سے اسلامی ممالک کی پیشرفت اور باہمی اتحاد کا دشمن ہے اسے امت اسلامیہ کے پہلو میں کسی خنجر کی مانند اتار دیا ہے۔
پانچویں بات یہ ہے کہ صیہونزم جو انسانی معاشرے کے لئے بہت خطرناک اخلاقی، سیاسی اور اقتصادی ناسور ہے اس ٹھکانے کو اور اس تکیہ گاہ کو دنیا میں اپنے اثر و نفوذ کی توسیع کا ذریعہ بنائے ہوئے ہے۔
اس سلسلے میں مزید نکات بھی بیان کئے جا سکتے ہیں مثلا اسلامی ممالک کو جو بڑا جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے، مسلمان قوموں اور حکومتوں کے لئے جو ذہنی الجھنیں پیدا ہوتی رہی ہیں، دسیوں لاکھ بے گھر فلسطینیوں کے رنج و آلام جن میں بہت سے افراد تو چھے عشرے گزر جانے کے بعد بھی پناہ گزیں کیمپوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں، عالم اسلام کے اہم مرکز کی تاریخ کا سلسلہ یہاں پر آکر ٹوٹ گیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
اس وقت ان ساری باتوں کے ساتھ ایک نئی بنیادی اور اساسی چیز سامنے آئی ہے اور وہ ہے اسلامی بیداری کی مہم جو پورے علاقے پر محیط نظر آ رہی ہے اور جس سے امت اسلامیہ کی تاریخ میں ایک نئے اور فیصلہ کن باب کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ عظیم تحریک جو بلا شبہ دنیا کے اس حساس ترین خطے میں ایک مقتدر، پیشرفتہ اور متحد اسلامی تنظیم کی تشکیل پر منتج ہو سکتی ہے اور جس کے رہنماؤں کے عزم محکم اور خداوند عالم کی نصرت و مدد سے مسلمان قوموں کی پسماندگی، کمزوری اور تحقیر کا دور ختم ہو سکتا ہے، اس کے جوش و جذبے اور قوت و توانائی کا بڑا حصہ مسئلہ فلسطین سے حاصل ہوا ہے۔
صیہونی حکومت کا روز افزوں ظلم و استبداد اور امریکہ کے پٹھو بعض ظالم و جابر اور بد عنوان حکام کا اس حکومت سے تعاون ایک طرف اور دوسری طرف فلسطینیوں اور لبنانیوں کا جانانہ مزاحمت اور تینتیس روزہ جنگ لبنان اور بائیس روزہ جنگ غزہ میں باایمان نوجوانوں کی کرشماتی کامیابیاں، وہ اہم عوامل تھے جنہوں نے مصر، تیونس، لیبیا اور علاقے کے دیگر ممالک کی قوموں کے بظاہر پرسکون بحر اعظم کو متلاطم کر دیا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سراپا مسلح صیہونی حکومت کو جسے اپنے ناقابل تسخیر ہونے کا بڑا زعم تھا لبنان میں ایک غیر مساوی جنگ میں باایمان و دلاور مجاہدوں سے منہ کی کھانی پڑی اور ذلت آمیز شکست اٹھانی پڑی۔ اس کے بعد غزہ کی مظلومانہ لیکن فولادی مزاحمت کے خلاف اس نے اپنی کند شمشیر کو آزمایا اور دوبارہ شکست کا مزہ چکھا۔
علاقے کے معروضی حالات کا جائزہ لیتے وقت ان باتوں کو مد نظر رکھنا چاہئے اور کسی بھی فیصلے کے صحیح یا غلط ہونے کا اندازہ انہیں باتوں سے لگانا چاہئے۔
بہرحال یہ نظریہ بالکل درست ہے کہ مسئلہ فلسطین اس وقت اور بھی زیادہ اہم اور فوری مسئلہ بن گيا ہے۔ موجودہ حالات کے مد نظر فلسطینی عوام کا علاقے کے اسلامی ممالک سے توقعات وابستہ کرنا بھی بالکل صحیح ہے۔
ہمیں ماضی اور زمانہ حال پر نظر دوڑا کر مستقبل کے لئے خاکہ تیار کرنا چاہئے۔ میں کلیدی باتوں کو آپ کے سامنے پیش کرنا چاہوں گا۔
فلسطین پر غاصبانہ قبضے کو چھے عشروں سے زیادہ وقت ہو رہا ہے۔ اس خونریز المئے کے اصلی ذمہ داروں کو سب پہچانتے ہیں جن میں برطانیہ کی سامراجی حکومت سب سے پیش پیش رہی ہے جس کی سیاست، اسلحہ، فوج اور اقتصادی و ثقافتی توانائیاں اور پھر دیگر مغربی سامراجی حکومتیں اس عظیم ظلم میں مددگار بنیں۔ فلسطین کی بے سہارا قوم سنگدل قابضوں کے چنگل میں گرفتار ہوئی اور اسے اس کے گھربار سے بے دخل کر دیا گیا۔ اخلاق و تہذیب کے بلند بانگ دعوے کرنے والے ان ممالک نے ان دنوں جو انسانی المیہ رقم کیا اس کا سواں حصہ بھی اب تک منظر عام پر نہیں آ سکا ہے اور برقی یا پرنٹ میڈیا میں اس کا کوئی احاطہ نہیں کیا گيا ہے۔ مغربی سنیما، ٹیلی ویزن اور فلمسازی کے مافیاؤں نے اس کی اجازت ہی نہیں دی۔ چاروں طرف چھائے سناٹے میں ایک پوری قوم کا قتل عام ہوا، اسے اس کی سرزمین سے باہر نکال دیا گیا، آوارہ وطن کر دیا گيا۔
ابتدا میں تھوڑی مزاحمت ہوئی لیکن اسے بیدردی سے کچل دیا گیا۔ سرزمین فلسطین کے باہر سے اور خاص طور پر مصر سے اسلامی حمیت کے ساتھ کچھ مرد نکلے اور انہوں نے کوششیں بھی کیں لیکن انہیں ضروری حمایت نہیں مل سکی لہذا صورت حال پر ان کا کوئی اثر نہیں پڑ سکا۔
اس کے بعد صیہونی فوج سے چند عرب ممالک کی رسمی اور روایتی جنگ کی نوبت آئی۔ مصر، شام اور اردن نے اپنی فوجیں میدان میں اتاریں لیکن امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے غاصب حکومت کی بے دریغ فوجی، تزویراتی اور مالی مدد کی وجہ سے عرب فوجوں کو ناکامی ہوئی۔ وہ ملت فلسطین کی مدد کرنا تو درکنار ان جنگوں میں اپنی سرزمین کا ایک بڑا حصہ گنوا بیٹھیں۔
فلسطین کی ہمسایہ حکومتوں کی عاجزی سامنے آ جانے کے بعد رفتہ رفتہ مسلح فلسطینی گروہوں کی شکل میں اسلامی مزاحمت کا آغاز ہوا اور کچھ ہی عرصے بعد ان کے باہمی اتحاد سے تنظیم برائے آزادی فلسطین پی ایل او کی تشکیل عمل میں آئی۔ یہ امید کی شمع تھی جو روشن ہوئی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے خاموش ہو گئی۔ اس کے لئے متعدد وجوہات کا نام لیا جا سکتا ہے لیکن اصلی وجہ اس تنظیم کے افراد کا عوام اور اسلامی عقیدہ و ایمان سے دور ہونا تھا۔ پیچیدہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے لیفٹسٹ آئیڈیالوجی یا صرف قوم پرستانہ جذبات کی ضرورت نہیں تھی۔ ایک قوم کو میدان کارزار میں لا کھڑا کرنے اور اس کے اندر ناقابل تسخیر قوت پیدا کرنے کے لئے جس چیز کی ضرورت تھی وہ تھا اسلام اور جذبہ جہاد و شہادت۔ تنظیم کے افراد اس حقیقت کے ادراک سے قاصر رہے۔ عظیم اسلامی انقلاب کے ابتدائی مہینوں میں جب پی ایل او کے رہنماؤں میں نیا جوش و جذبہ پیدا ہو گيا تھا اور ان کی تہران آمد و رفت جاری تھی، میں نے تنظیم کے ایک عہدیدار سے پوچھا کہ آپ اپنے برحق جہاد کے لئے اسلام کا پرچم بلند کیوں نہیں کرتے تو جواب ملا کہ ہمارے درمیان بعض عیسائی رہنما بھی ہیں۔ بعد میں ایک عرب ملک میں صیہونیوں نے اس رہنما کو قتل کر دیا، اللہ تعالی ان پر اپنی رحمت و مغفرت کا سایہ کرے۔ بہرحال ان کی یہ توجیہ درست نہیں تھی۔ کیونکہ میرا خیال یہ ہے کہ فداکار مجاہدین کے گروہ کے ساتھ جو اللہ تعالی کی ذات اقدس، روز قیامت اور الہی نصرت و اعانت پر پختہ ایمان کے ساتھ پرخلوص انداز میں جنگ کر رہا ہے اور اسے عوام کی مادی و اخلاقی حمایت بھی حاصل ہے، ایک با ایمان عیسائی مجاہد کو جہاد کا مزید حوصلہ ملتا ہے، بر خلاف ایسے گروہ کے شانہ بشانہ لڑنے کے جس کے پاس ایمان کی دولت نہیں ہے، جو نا پائيدار جذبات و خیالات پر تکیہ کئے ہوئے ہے اور عوام کی وفادارانہ پشت پناہی سے بھی محروم ہے۔
عوام کی طرف پوری توجہ اور جذبہ ایمانی کے فقدان کے نتیجے میں اس تنظیم میں شامل گروہ بے اثر ہوکر رہ گئے۔ البتہ ان کے اندر کچھ بڑے ہی غیور، پرجوش اور باشرف افراد بھی تھے لیکن تنظیم مجموعی طور پر کسی اور سمت میں چلی گئی۔ ان کے انحراف سے مسئلہ فلسطین کو بہت بڑا دھچکا پہنچا اور آج بھی پہنچ رہا ہے۔ بعض خیانت کار عرب حکومتوں کی طرح اس تنظیم نے بھی مزاحمتی تحریک سے روگردانی کر لی جو فلسطین کی نجات کا واحد راستہ تھی اور آج بھی ہے۔ انہوں نے فلسطین ہی نہیں خود کو بھی بہت بڑا نقصان پہنچایا۔
بقول ایک عیسائی عرب شاعر کے؛

لئن اضعتم فلسطيناً فعيشكم طول الحياة مضاضات و آلامٌ

بتیس سال اسی بد بختی کے عالم میں بیت گئے۔ اچانک دست قدرت الہی نے ورق پلٹا اور سنہ انیس سو اناسی عیسوی میں ایران میں اسلامی انقلاب کو فتح ملی جس کے نتیجے میں علاقے کے حالات تہہ و بالا ہو گئے اور ایک نیا باب وا ہوا۔ اس انقلاب کے عالمی اثرات میں اور اس سے استکباری پالیسیوں کو لگنے والی گہری ضرب میں سب سے اہم ضرب صیہونی حکومت کو لگي۔ اس زمانے میں اس حکومت کے عہدیداروں کے بیانات پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی بے چینی اور بیکلی کی بخوبی عکاسی کرتے ہیں۔ اس فتح کے ابتدائي ہفتوں میں ہی تہران میں اسرائيل کے سفارت خانے میں تالا لگ گیا اور تمام کارکنوں کو نکال باہر کیا گیا اور اس جگہ کو با ضابطہ طور پر پی ایل او کے نمائند دفتر کے حوالے کر دیا گيا جو تاحال اسی جگہ پر موجود ہے۔ ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اعلان کیا کہ اس انقلاب کا ایک اہم ہدف فلسطینی سرزمین کی آزادی اور اسرائیلی نامی سرطانی ناسور کی نابودی ہے۔ اس انقلاب سے اٹھنے والی طاقتور لہریں جو اس زمانے میں پوری دنیا میں پھیلیں، جہاں جہاں تک پہنچیں اس پیغام کے ساتھ پہنچیں کہ فلسطین کو آزادی ملنی چاہئے۔ انقلاب کے دشمنوں نے اسلامی جمہوریہ ایران پر پے در پے جو سختیاں کیں اور مشکلات مسلط کر دیں جس کی ایک مثال امریکہ اور برطانیہ کی ترغیب اور رجعت پسند عرب حکومتوں کی پشت پناہی سے صدام حسین کی حکومت کی جانب سے مسلط کی جانے والی آٹھ سالہ جنگ ہے، ان اقدامات کے ذریعے بھی دشمن اسلامی جمہوریہ ایران کے فلسطین کے دفاع کے جذبے کو دبا نہیں سکا۔
اس طرح فلسطین کی رگوں میں نیا خون دوڑ گیا۔ فلسطین کی مسلم جہادی تنظیمیں پنپنے لگیں۔ دشمن اور اس کے ہمنواؤں کے مقابل لبنان کی مزاحمتی تحریک کو بھی نئی طاقت اور نیا جذبہ ملا۔ فلسطین نے عرب حکومتوں پر تکیہ کرنے کے بجائے اور استکباری طاقتوں کی شریک جرم اقوام متحدہ جیسی عالمی تنظیموں کی جانب دست نیاز دراز کرنے کے بجائے، اپنے اوپر، اپنے نوجوانوں پر، اپنے گہرے اسلامی عقیدے پر اور اپنے ایثار پیشہ مردوں اور عورتوں پر تکیہ کرنے لگا۔
یہ تمام فتوحات اور کامیابیوں کی کنجی ہے۔
گزشتہ تین عشروں کے دوران یہ سلسلہ روز بروز بڑھتا اور مضبوط ہوتا گیا۔ سنہ 2006 عیسوی میں لبنان میں صیہونی حکومت کی شرمناک شکست، بڑے بڑے دعوے کرنے والی فوج کی سنہ 2008 میں غزہ میں زبردست ہزیمت، جنوبی لبنان سے فرار اور غزہ سے پسپائی، غزہ میں مزاحمتی تحریک کی حکومت کی تشکیل، بلکہ ایک جملے میں یوں کہا جائے کہ بےبس اور مایوس فلسطینی عوام کا پرامید، مستحکم اور جذبہ خود اعتمادی سے سرشار قوم میں تبدیل ہو جانا ان تیس برسوں کی سب سے خاص بات ہے۔
یہ اجمالی تصویر اس وقت مکمل ہوگی جب حیانت اور ساز باز پر مبنی مذاکراتی سرگرمیوں کی حقیقی ماہیت پر نظر ڈالی جائے جن کا مقصد مزاحمت کے چراغ کو خاموش کرنا اور فلسطینی تنظیموں اور عرب حکومتوں سے اسرائيل کو قانونی مملکت کا درجہ دلوانا ہے۔
یہ سرگرمیاں جن کی شروعات جمال عبد الناصر کے خائن اور ناہل جانشین کے ہاتھوں کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے تحت ہوئیں، ہمیشہ مزاحمت کے فولادی عزم کو اندر سے متزلزل کرنے پر مرکوز رہی ہیں۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں پہلی دفعہ ایک عرب حکومت نے باضابطہ طور پر فلسطین کی اسلامی سرزمین کے صیہونی علاقہ ہونے کا اعتراف کیا اور اس تحریر پر دستخط کئے جس میں اسرائیل کو یہودیوں کا قومی آشیانہ قرار دیا گيا ہے۔ اس کے بعد سنہ 1993 میں اوسلو معاہدے تک اور پھر امریکہ علمبرداری میں اور استعماری یورپی حکومتوں کی حمایت سے جو منصوبے سازباز پر آمادہ فلسطینی گروہوں پر مسلط کئے گئے سب میں دشمن کی یہی کوشش رہی کہ کھوکھلے اور پرکشش وعدوں کے ذریعے فلسطینی تنطیموں اور عوام کو استقامت و مزاحمت سے کنارہ کشی پر تیار کیا جائے اور انہیں سیاست کے میدان میں بچکانہ امور میں الجھا دیا جائے۔ ان منصوبوں اور معاہدوں کی حقیقت بہت جلد کھل گئی۔ صیہونیوں اور ان کے حامیوں نے بارہا اپنے عمل یہ ثابت کیا کہ تحریری معاہدوں کو وہ بے وقعت پرچوں سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ ان منصوبوں کا مقصد فلسطینیوں کے اندر گو مگو کی کیفیت پیدا کرنا، ان کے اندر موجود دنیا پرست بے عقیدہ لوگوں کو لالچ میں ڈالنا اور اسلامی مزاحمتی تحریک کو مٹانا تھا۔
ان تمام خیانت آمیز چالوں کا توڑ اب تک فلسطینی عوام اور اسلامی تنظیموں کے اندر موجزن جذبہ مزاحمت و استقامت رہا ہے۔ بفضل پروردگار وہ دشمن کے مقابل ڈٹے ہوئے ہیں اللہ تعالی کے اس وعدے کے مطابق وَ لَيَنصُرَنَّ اللهُ مَن يَنصُرُهُ ، إِنَّ الله َلَقَوِيٌّ عَزِيزٌ وہ نصرت الہی سے بھی بہرہ مند ہیں۔ سخت محاصرے کے عالم میں غزہ کی استقامت نصرت الہی سے عبارت ہے۔ خیانت کار اور بد عنوان حسنی مبارک کی سرنگونی، نصرت الہی سے عبارت ہے، علاقے میں طاقتور اسلامی بیداری کی لہر کا اٹھنا، نصرت خداوندی سے عبارت ہے، امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے چہروں سے فریب اور نفاق کے پردے کا ہٹ جانا اور ان کے خلاف علاقے کی قوموں کی روز افزوں نفرت بھی نصرت الہی سے عبارت ہے، صیہونی حکومت کو پے در پے پیش آنے والی دشواریاں، سیاسی، اقتصادی اور داخلی سماجی مشکلات سے لیکر عالمی سطح کی تنہائی، اس کے خلاف عام نفرت اور حتی یورپی یونیورسٹیوں میں پائی جانے والی بیزاری سب کچھ نصرت الہی کے مظاہر ہیں۔
اس وقت صیہونی حکومت ہمیشہ سے زیادہ نفرت انگیز، کمزور اور تنہا ہے اور اس کا اصلی حامی امریکہ ہمشیہ سے زیادہ سراسیمہ اور مشکلات میں ڈوبا ہوا ہے۔
اس وقت ہمارے سامنے فلسطین کی ساٹھ سال سے زیادہ عرصے کی اجمالی تاریخ ہے جسے دیکھ کر اور جس سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل کا خاکہ کھینچنا چاہئے۔
دو نکات کے بارے میں پہلے ہی وضاحت کر دینے کی ضرورت ہے۔
اول یہ کہ ہمارا مطمح نظر فلسطین کی آزادی ہے، فلسطین کے صرف ایک حصے کی آزادی نہیں۔ جس تجویز میں بھی فلسطین کی تقسیم کی بات کی گئي ہے ناقابل قبول ہے۔ دو حکومتوں کی تشکیل کا تجویز جس پر اقوام متحدہ میں فلسطینی حکومت کی رکنیت کا برحق جامہ چڑھا دیا گيا ہے، سوائے صیہونیوں کے مطالبات کے سامنے سر جھکانے یعنی فلسطینی سرزمین میں صیہونی حکومت کا وجود تسلیم کرنے کے، کچھ اور نہیں ہے۔ یہ ملت فلسطین کے حقوق کی پامالی، فلسطینی پناہ گزینوں کے حقوق سے بے اعتنائی بلکہ 1948 کی سرزمین پر بسنے والے فلسطینیوں کے حقوق کو خطرے میں ڈال دینے کے معنی میں ہے، سرطانی پھوڑے کو باقی رکھنے اور امت اسلامیہ اور بالخصوص علاقے کی قوموں کو دائمی خطرے میں ڈالنے کے معنی میں ہے، شہیدوں کے خون کی پامالی اور کئی عشروں سے جاری رنج و آلام کو دائمی بنانے کے معنی میں ہے۔
ہر عملی منصوبہ پورا فلسطین، تمام فلسطینیوں کے لئے کے اصول پر استوار ہو۔ فلسطین نہر سے بحر تک (دریائے اردن سے بحیرہ روم تک پھیلا ہوا) فلسطین ہے اس سے ایک بالشت بھی کم نہیں۔ البتہ یہ نکتہ فراموش نہ ہونے پائے کہ فلسطینی عوام نے جس انداز سے غزہ میں عمل کیا ہے، وہ اسی طرح فلسطین کے ہر اس خطے میں جسے وہ آزاد کرانے میں کامیاب ہوں گے عمل کریں گے اور اپنی منتخب حکومت کے ذریعے وہاں کا انتظام سنبھالیں گے لیکن اپنے آخری ہدف کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اس بلند ہدف کے حصول کے لئے باتوں کی نہیں عمل کی ضرورت ہے، سنجیدہ ہونا ضروری ہے۔ صرف نمائشی اقدامات نہیں، تلون مزاجی اور بے صبری کی کارروائياں نہیں تدبر و صبر و تحمل ضروری ہے۔ دور اندیشی کی ضرورت ہے، ہر قدم پورے عزم و توکل اور بھرپور امید کے ساتھ بڑھانا ہے۔ مسلمان حکومتیں اور قومیں، لبنان، فلسطین اور دیگر ممالک میں موجود مزاحمتی تنظیمیں، سب اس ہمہ گیر مجاہدت میں اپنے کردار اور شراکت کا تعین کر سکتے ہیں اور مزاحمت کی تصویر کو مکمل کر سکتے ہیں۔
فلسطین کا قضیہ حل کرنے اور اس پرانے زخم کا مداوا کرنے کے لئے اسلامی جمہوریہ کی تجویز بالکل واضح، معقول اور عالمی رائے عامہ کی سطح پر مسلمہ سیاسی امور کے مطابق ہے جسے پہلے ہی بالتفصیل پیش کیا جا چکا ہے۔ ہم نے نہ تو اسلامی ممالک کی روایتی جنگ کی تجویز دی ہے، نہ ہی ہجرت کرکے آنے والے یہودیوں کو سمندر میں غرق کر دینے کی بات کہی ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں کی قضاوت کی پیشکش ہے۔ ہم نے فلسطینی قوم کے درمیان استصواب رائے کرانے کی تجویز دی ہے۔ دوسری اقوام کی طرح فلسطینی قوم کو بھی اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے اور نظام کی تشکیل عمل میں لانے کا حق ہے۔ باہر سے آئے ہوئے مہاجرین نہیں، فلسطین کے اصلی عوام وہ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یا یہودی، فلسطین کے اندر رہتے ہوں یا پناہ گزیں کیمپوں میں یا پھر دیگر مقامات پر، سب ایک شفاف ریفرنڈم میں شرکت کریں اور فلسطین کے لئے نظام حکومت کا انتخاب کریں۔ اس کے نتیجے میں تشکیل پانے والا نظام اور حکومت جب امور کو سنبھال لے تب غیر فلسطینی مجاہرین کے مستقبل کا فیصلہ کرے جو گزشتہ برسوں کے دوران اس ملک میں لاکر بسائے گئے ہیں۔ یہ ایک منصفانہ اور منطقی تجویز ہے جسے عالمی رائے عامہ بھی بخوبی سمجھتی ہے اور اس کے لئے خود مختار حکومتوں اور قوموں کی حمایت حاصل کی جا سکتی ہے۔ البتہ ہمیں غاصب صیہونیوں سے یہ توقع نہیں رکھنا چاہئے کہ وہ آسانی سے اسے مانیں گے۔ اسی مرحلے کے لئے مزاحمتی تنظیموں، قوموں اور حکومتوں کے کردار کی اہمیت سامنے آتی ہے۔ ملت فلسطین کی مدد کا سب سے بنیادی طریقہ غاصب دشمن کی پشت پناہی بند کر دینا ہے جو اسلامی حکومتوں کا بہت بڑا فریضہ ہے۔ اس وقت قوموں کے میدان عمل میں اتر آنے کے بعد اور صیہونی حکومت کے خلاف ان کے پرزور نعروں کے گونج اٹھنے کے بعد مسلم حکومتیں کس منطق کی بنیاد پر غاصب حکومت کے ساتھ تعلقات جاری رکھے ہوئے ہیں؟ فلسطینی قوم کی حمایت اور طرفداری کے سلسلے میں مسلمان حکومتوں کی صداقت کی سند اس (صیہونی) حکومت سے جملہ خفیہ و ظاہری اقتصادی و سیاسی تعلقات کا خاتمہ ہے۔ جو حکومتیں صیہنیوں کے سفارت خانوں یا اقتصادی دفاتر کی میزبانی کر رہی ہیں فلسطین کے دفاع کا دعوی نہیں کر سکتیں اور صیہونیت مخالف ان کا کوئی بھی نعرہ سنجیدگي سے نہیں لیا جا سکتا۔
اسلامی مزاحمتی تنظیمیں جو گزشتہ برسوں میں جہاد کی سنگین ذمہ داری اپنے دوش پر اٹھائے ہوئے تھیں، آج بھی یہی عظیم فریضہ ان کے دوش پر ہے۔ ان کی منظم مزاحمت ایک سرگرم عمل بازو ہے جو فلسطینی قوم کو حتمی ہدف کے قریب لے جا سکتا ہے۔ ایسے عوام کی شجاعانہ مزاحمت کو جس کا ملک اور گھربار غصب کر لیا گيا ہو، تمام عالمی معاہدوں میں درست قرار دیا گيا ہے اور اس کی تعریف بھی کی گئی ہے۔ صیہونزم سے وابستہ تشہیراتی اور سیاسی نیٹ ورک کی جانب سے اس پر دہشت گردی کا الزام بے بنیاد بات ہے۔ کھلے ہوئے دہشت گرد تو صیہونی حکومت اور اس کے مغربی حامی ہیں جبکہ فلسطینیوں کی مزاحمت دہشت گردوں کے خلاف مقدس انسانی اور شجاعانہ اقدام ہے۔
اس درمیان، مغربی ممالک کے لئے بھی مناسب ہوگا کہ منظرنامے کو حقیقت پسندی کی نگاہ سے دیکھیں۔ مغرب اس وقت دو راہے پر کھڑا ہے۔ یا اسے اپنی دیرینہ زور زبردستی اور استبداد سے دست بردار ہوکر فلسطینی قوم کے حقوق کو تسلیم کرنا اور مزید برآں جابر اور انسانیت کے دشمن صیہونیوں کے منصوبے کی پیروی کو ترک کر دینا چاہئے اور نہیں تو مستقبل قریب میں زیادہ سخت ضرب برداشت کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ یہ مفلوج کن ضربیں اسلامی علاقے میں ان کی فرمانبردار حکومتوں کے پے در پے سقوط تک ہی محدود نہیں رہیں گي بلکہ جس دن یورپ اور امریکہ کی قوموں کو ادراک ہو جائے گا کہ ان کی بیشتر اقتصادی، سماجی اور اخلاقی مشکلات کی جڑ ان کے حکمراں طبقے پر عالمی صیہونزم کا آہنی تسلط ہے اور یہ کہ ان کی حکومتیں اپنے شخصی اور تنظیمی مفادات کے لئے امریکہ اور یورپ میں خون چوسنے والی کمپنیوں کے مالکان کی زور زبردستی کے سامنے سر بسجود ہیں تو ان حکومتوں کے لئے ایسا جہنم تیار ہوگا کہ ان کی گلو خلاصی کی کوئي صورت نہ ہوگی۔
امریکہ کے صدر کہتے ہیں کہ اسرائیل کی سلامتی ان کی ریڈ لائن ہے۔ یہ ریڈ لائن کس نے بنائي ہے؟ امریکی عوام کے مفادات نے یا دوسری دفعہ صدارتی کرسی حاصل کرنے کے لئے صیہونی کمپنیوں کی مدد اور پیسے کی اوباما کی شخصی ضرورت نے؟ آپ کب تک اپنے عوام کو دھوکہ دیتے رہیں گے؟ جس دن امریکی عوام کو بخوبی علم ہو گیا کہ آپ نے اقتدار کے ایوانوں میں مزید چند شب و روز گزارنے کے لئے صیہونی دولتمندوں کے سامنے ذلت اور رسوائی گوارا کی اور قوم کے بڑے مفادات کو ان کے قدموں پر رکھ دیا تو وہ آپ کا کیا حال کریں گے؟
عزیز بھائیو اور بہنو!
آپ یاد رکھئے اوباما اور اسی قبیل کے افراد کی یہ ریڈ لائن انقلاب پر کمربستہ مسلمان قوموں کے ہاتھوں توڑی جائے گی۔ صیہونی حکومت کو خطرہ ایران اور مزاحمتی تنظیموں کے میزائلوں سے نہیں ہے کہ یہاں سے وہاں تک میزائل شیلڈ لگائی جا رہی ہے۔ سب سے بڑا اور کبھی نہ ٹلنے والا خطرہ اسلامی ممالک کے مردوں، عورتوں اور نوجوانوں کا عزم محکم ہے جو اب مزید یہ برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں کہ امریکہ، یورپ اور ان کے مہرے ان پر حکومت اور ان کی تحقیر کریں۔
البتہ دشمن کی طرف سے خطرے کا احساس ہونے پر میزائل بھی اپنا کام انجام دیں گے۔
فاصبر ان وعد الله حق ولا يستخفنّك الذين لا يوقنون .

والسلام عليكم و رحمة‌ الله