قائد انقلاب اسلامی نے سنیچر 23 مہر سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 15 اگست سنہ 2011 عیسوی کو اپنے دورہ کرمانشاہ کے چوتھے دن گیلان غرب شہر میں عظیم الشان عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمن ایران کو عالمی سطح پر تنہای کرنے اور ایرانوفوبیا پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن ماضی کی طرح اس بار بھی اس کا نتیجہ امریکی حکومت کے لئے قوموں کی کبھی نہ ختم ہونے والی نفرت اور ملت ایران کے قابل فخر کارناموں سے خطے کی قوموں کے لگاؤ اور انسیت کے علاوہ کچھ نہیں نکلے گا۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے امریکہ کے مختلف شہروں میں پھیلنے والی وال اسٹریٹ مخالف تحریک کی جانب اشارہ کیا اور امریکی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ لوگ تو اپنی قوم میں بھی تنہا ہو چکے ہیں اور لوگوں کی کثرت سے خوفزدہ ہیں لیکن اس کے باوجود ایران کے خلاف اپنے بے بنیاد پروپیگنڈے کو عام کرنے کی کوشش میں میں لگے ہوئے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران کی پائیداری اور استقامت کی تعریف کی اور اسلامی جمہوریہ ایران کی امنگوں کے لئے دنیا کی دیگر قوموں کے بڑھتے ہوئے رجحان کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ایران کی بڑھتی ہوئی حمایت کے مقابلے میں امریکی حکام کو صرف ایک فی صد اقلیتی طبقے کی حمایت حاصل ہے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مشرق وسطی کے اہم خطے میں مسلسل پھیلتی جا رہی اسلامی بیداری کی تحریک کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ مستقبل اسلام کا ہے اور اسلام کا پرچم انشاء اللہ تمام خطوں پر لہرائے گا اور خطے کی قوموں کا ایک طاقتور اور مضبوط اتحاد ابھر کر سامنے آئے گا۔
خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے:

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

و الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‌القاسم المصطفى محمّد و على ءاله الأطيبين الأطهرين المنتجبين الهداة المهديّين المعصومين‌ سيّما بقيّةاللَّه فى الأرضين‌.

اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ اس نے زندگی دی اور ہم اس مجاہد شہر اور یہاں کے غیور عوام کی قریب سے ایک اور زیارت کرنے میں کامیاب ہوئے۔ واقعی مقدس دفاع کے دوران یہ شہر امتحان پر پورا اترا۔ وہ عزیز نوجوان جو آج گیلان غرب میں اور اس ضلع کے مختلف علاقوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں انہیں اپنے آپ پر ناز ہونا چاہئے کہ ان کے ماں باپ نے ان کے پیشروؤں نے ایک انتہائی سخت دور میں اتنے عظیم کارنامے انجام دیئے! ان دنوں کئی بار میرا گیلان غرب آنا ہوا تھا۔ شہر کے اندر بھی اور شہر کے قریب واقع پہاڑی علاقے میں بھی جہاں ہمارے فوجی تعینات تھے۔ میں نے یہاں کے مزاحتمی جوانوں کی مشکلات کو قریب سے دیکھا لیکن یہ لوگ انہی مشکلات میں شجاعت و دلاوری کا پیکر بنے ہوئے تھے۔ یہ شہر جس پر بمباری کے ساتھ ہی ساتھ زمینی لشکر کشی کا خطرہ تھا، استقامت و پائیداری کے ساتھ اپنا دفاع کرنے میں کامیاب رہا اور عوام نے شہر کو خالی نہیں کیا۔ یہ اس زمانے کی بڑی باعظمت یادگار ہے جس پر واقعی فخر کرنا چاہئے۔
آپ عزیز نوجوان جنگ کے زمانے میں نہیں تھے اور اگر تھے بھی تو کمسن بچے رہے ہوں گے۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ نوجوان اپنے والدین کے شجاعانہ کارناموں پر فخر کریں، ویسے واقعی حق تو یہی ہے کہ اس پر افتخار کیا جائے، میں یہ نکتہ عرض کرنا چاہوں گا کہ آج کا نوجوان یہ یاد رکھے کہ اس کی پرورش اس طرح کے ماحول میں، ایک ایسے علاقے میں اور ان صفات کے حامل خاندان میں ہوئی ہے۔
بیشک آج جغرافیائي حدود کی حفاظت کے لئے ہم جنگ کی حالت میں نہیں ہیں، ملک کے دفاع کے لئے مسلحانہ جنگ کا مسئلہ در پیش نہیں ہے لیکن قومی تشخص کے دفاع کے لئے مجاہدت کا مسئلہ آج بھی ہمارے سامنے ہے۔ دینی و اسلامی تشخص کی حدود کے دفاع کا معاملہ ہمیں در پیش ہے۔ عقیدے اور ایمان کی حدود کے دفاع کا مسئلہ ہمیں در پیش ہے۔ ہم سب پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے۔ اگر آج کا نوجوان مقدس دفاع کے زمانے میں نہیں تھا کہ دشمن کے مقابل ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتا، اس کے حملوں کو روکتا، اپنے گھر اور اپنے شہر کا دفاع کرتا تو آج شرف و افتخار کے میدان میں اپنی قومی شناخت، اپنے قومی وقار، اپنے مستحکم اسلامی عقیدے کی حفاظت میں کردار ادا کرنے کا موقعہ اسے حاصل ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، باایمان عورتیں اور مرد حضرات موجودہ حساس دفاعی میدان میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس جذبے کی حفاظت کی جانی چاہئے۔ حکام کو اس بات کا اندازہ ہونا چاہئے کہ اس خطے میں اس طرح کی روحانی، معنوی اور انسانی خصوصیات موجود ہیں، اسی طرح مادی اقدامات کے لئے بھی زمین ہموار ہے۔
میں نے شہر کرمانشاہ میں بھی یہ بات کہی اور آپ کی خدمت میں بھی عرض کروں گا کہ یہ علاقہ پوری طرح آمادہ علاقہ ہے، پانی کے لحاظ سے، زمین کے لحاظ سے، آب و ہوا کے لحاظ سے، مختلف پہلوؤں سے اس میں صلاحیتیں موجود ہیں جو استعمال نہیں ہوئی ہیں۔ جیسا کہ محترم امام جمعہ نے ابھی فرمایا اور بالکل بجا فرمایا، مجھے یہ بات بہت پسند آئی کہ امام جمعہ عوام کی ضروریات کو، شہر کی ضرورتوں کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہوئے ان سے حل کے لئے کوشاں رہے، علاقے میں بے روزگاری بہت ہے اور اس کے ساتھ ہی بے روزگاری کے منفی نتائج یعنی نشہ کی لت وغیرہ بھی پائی جاتی ہے۔
میں نوجوانوں سے یہ توقع کروں گا کہ عزیز نوجوان معاشرے میں نشے اور منشیات کو عام ہونے سے روکیں۔ اپنے معاشرے میں فساد انگیز عادتوں کو پھیلنے سے روکیں۔ آج آپ سماجی طور طریقوں، عقیدے اور عمل کے دفاع کے میدان کے سپاہی ہیں۔ اسی طرح پوری ایرانی قوم، قومی تشخص اور ایران کی عظیم شناخت کی محافظ ہے۔
حکام کو بھی چاہئے کہ اس فکر میں رہیں۔ ہم نے اس سفر کے دوران اپنی اطلاعات مکمل کر لیں۔ حکام بھی آئیں گے اور انشاء اللہ انہیں بھی مطلع کیا جائے گا۔ حکومت کے اختیار میں جو کـچھ بھی ہوگا انشاء اللہ وہ خدمات ضرور انجام دی جائیں گی۔
قومی تشخص کی حفاظت کے سلسلے میں جو چیزیں انتہائی موثر واقع ہو سکتی ہیں ان میں ایک مقدس دفاع کے زمانے کی باشکوہ یادوں کو زندہ رکھنا ہے۔ یہ واقعہ کہ آپ کے شہر میں ایک شجاع خاتون، دشمن فوج کے ایک سپاہی کو قید کر لیتی ہے اور جارح فورس کو خون میں نہلا دیتی ہے، ان یادوں کو آپ ہمیشہ زندہ رکھئے، ان کی حفاظت کیجئے۔ اس یاد کو تازہ رکھئے کہ کس طرح یہ شہر دشوار ترین حالات میں بھی دشمن کے حملوں کا سامنا کرتا رہا؟! مقدس دفاع کے زمانے کی یادوں کو زندہ رکھنا گیلان غرب کے لئے تو بہت ضروری ہے، اسی طرح قصر شیریں کے عوام کے لئے، مغربی اسلام آباد کے عوام کے لئے بھی ان یادگار واقعات کو ذہن نشین رکھنا ضروری ہے۔ ان علاقوں میں بھی مجاہد اور ایثار پیشہ مرد اور عورتیں موجود تھیں، انہوں نے جانفشانی کی اور اپنی پوری توانائی سمیٹ کر دشمن کے مقابلے میں استقامت کا مظاہرہ کیا۔ ملت ایران کے اس اسلامی تشخص کی حفاظت کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اس کے سلسلے میں معاشرے کے عظیم دانشوروں کو، مجاہدین کو، نمایاں شخصیات کو خاص طور پر ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے۔
آپ دیکھئے کہ آج استکباری طاقتیں متحد ہو گئی ہیں، ایک ساتھ جمع ہیں کہ اس شناخت کو مٹا دیں، عظیم مجاہد ملت ایران کو تنہا کر دیں۔ آج جس کسی کی بھی نگاہ میں دنیا کا سیاسی منظر نامہ ہے، عالمی سطح پر انجام دی جانے والی چالیں اس کی نظروں میں ہیں وہ دیکھ سکتا ہے کہ امریکہ اور یورپ کی استکباری طاقتیں اور ان سے وابستہ ممالک ملت ایران کی استقامت کو متزلزل کرنے کے لئے خود کو ہلاک کئے لے رہے ہیں کہ کسی صورت ملت ایران کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیں، انہیں علم ہے کہ انقلاب کی اقدار اور امنگوں کے سلسلے میں عوام کی پائیداری و استقامت کی کیا اہمیت و افادیت ہے؟
تھوڑے تھوڑے وقفے سے ان کے سیاستداں، پالیسی ساز، بقول ان کے، تھنک ٹینک بیٹھتے ہیں اور ملت ایران کے خلاف، اسلامی جمہوری نظام کے خلاف منصوبہ بندی کرتے ہیں لیکن اللہ تعالی اسے نقش بر آب کر دیتا ہے۔ حالیہ چند دنوں میں اخبارات و جرائد میں، برقی اور پرنٹ میڈیا میں جو عالمی صیہونی نیٹ ورک سے وابستہ ہے زبردست ہنگامہ آرائی کی گئی، امریکہ میں قیام پذیر چند ایرانیوں پر مہمل سی تہمت لگائی گئی اور اس بہانے سے ایران کو دہشت گردی کا حامی ملک ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی۔ کوئی نتیجہ نہیں نکلا، نکلے گا بھی نہیں۔ اس طرح کی سازشیں مسلسل ان کی جانب سے رچی جاتی ہیں لیکن سب بے سود اور لاحاصل ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایران کو تنہا کر دینا چاہتے ہیں اور عالم یہ ہے کہ خود تنہا ہوکر رہ گئے ہیں۔ آج دنیا میں کسی بھی حکومت سے اتنی نفرت نہیں کی جاتی جتنی امریکہ سے کی جاتی ہے۔ آج علاقے کی قوموں کے نزدیک امریکی حکومت سب سے زیادہ نفرت انگیز حکومت بن گئي ہے۔ آپ الگ تھلگ پڑے ہوئے ہیں کیونکہ منفور ہیں۔
امریکی صدر دو سال قبل مصر گئے تھے کہ ذرا مسلمانوں کی خوش آمد کریں اور عالم اسلام کی رائے عامہ کی توجہ اپنی جانب مبذول کر سکیں۔ نتیجہ کیا نکلا؟ معدودے چند لوگوں نے، اسی حکمراں طبقے نے، اسی معزول حسنی مبارک نے تو ان کی طرفداری کی لیکن علاقے کے عوام اس تصنع سے متاثر نہیں ہوئے۔ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ انہی ممالک میں امریکہ مخالف نعرے گونج رہے ہیں۔
امریکی صدر افغانستان کا دورہ کرتے ہیں جو ان کے غاصبانہ قبضے میں ہے اور جہاں امریکہ اور نیٹو کے ایک لاکھ کچھ ہزار فوجی تعینات ہیں لیکن ان کی ہمت نہیں پڑی کہ بگرام چھاونی سے جو امریکی فوجیوں کی چھاونی ہے باہر قدم رکھیں اور کابل یا دوسری کسی جگہ پر افغان سیاستدانوں سے ملاقات کریں۔ چھاونی میں گئے اور وہیں سے لوٹ گئے۔ آپ عوام کی اکثریت سے خوفزدہ ہیں۔ آج آپ خود امریکہ کے اندر بھی عوام کی اکثریت سے ہراساں ہیں اس کا ثبوت وال اسٹریٹ مخالف تحریک ہے جو نیویارک تک محدود نہیں رہی بلکہ دیگر امریکی شہروں میں بھی عوام نے اپنی نفرت کا اظہار کیا۔ ظاہر ہے کہ آپ تنہا ہو گئے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ کو الگ تھلگ کر دینے کے لئے، ایرانوفوبیا پھیلانے کے لئے ایک کے بعد ایک شگوفہ چھوڑ رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے، ایران قوموں کا طرفدار ہے، مظلومین کا حمایتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران ظلم کا مخالف ہے، ظالمین سے بر سر پیکار ہے، ظالمین اور مستکبرین کی توسیع پسندی اور زور زبردستی کے سامنے پوری طاقت سے ڈٹا ہوا ہے اور ہرگز پسپائی اختیار نہیں کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں جہاں بھی قومیں اسلامی جمہوریہ سے واقف ہیں اس سے محبت کرتی ہیں، اس کی حمایت کرتی ہیں، اسلامی جمہوریہ کے نعرے ان کے دلوں کو چھوتے ہیں۔ اس کے برخلاف آپ امریکی حکام تو عراق میں بھی منفور ہیں، افغانستان میں بھی منفور ہیں، مصر میں بھی منفور ہیں، تیونس میں بھی انقلاب کے بعد آپ سے نفرت کی جا رہی ہے، لیبیا میں بھی آپ سے نفرت کی جاتی ہے جہاں آپ نے اپنے فوجی اتارے اور عسکری سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں، یہی نہیں آپ یورپ میں بھی نفرت انگیز بن چکے ہیں۔
چند سال قبل ایک یورپی ملک میں چند افراد حسب معمول بیٹھے اور امریکہ کے موجودہ صدر کے لئے امن کے نوبل انعام کی منظوری دے دی۔ یہ چند افراد تھے اور ان کا یہ عمل ان کے سیاسی مقاصد اور سیاسی روابط سے متاثر تھا۔ بعد میں جب امریکی صدر یہ انعام لینے گئے تو اسی ملک کے عوام نے ان کے خلاف مظاہرے کئے۔ معلوم ہوا کہ آپ اقلیت میں ہیں، آپ ایک فیصدی پر مشتمل طبقے کے ساتھ ہیں۔ عوام کا نوے فیصدی سے زائد حصہ آپ کے خلاف ہے۔ یہ چیز اسلامی جمہوریہ ایران کی حکمت عملی کے بالکل برخلاف ہے۔ اسی لئے دشمن ملت ایران کے خلاف جتنی چاہے محنت کرے، جتنی چاہے بھاگ دوڑ کر لے، جتنی چاہے سرگرمیاں انجام دے لے، کچھ بھی حاصل نہیں کر سکے گا۔ میں آپ عزیز نوجوانوں سے چاہوں گا کہ اس پوزیشن کی اہمیت کو سمجھیں اور خود کو افتخار آمیز مستقبل کے لئے روز بروز اور بہتر طریقے سے آمادہ کریں۔
خوش قسمتی سے آج علم و دانش کا میدان آپ کے سامنے موجود ہے، ٹکنالوجی کا شعبہ آزادانہ سرگرمیوں کے لئے کھلا ہوا ہے، ملک کے حکام کو چاہئے کہ اقتصادی میدانوں کے دروازے بھی کھولیں تا کہ ملک کے نوجوان خود اعتمادی کے ساتھ مختلف میدانوں میں قدم رکھیں۔ یہ ملک آپ کا ہے۔ ہماری نسل نے تو جو کچھ بس میں تھا ان برسوں کے دوران انجام دیا، اب ملک نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے، نوجوانوں کے اختیار میں ہے۔ مختلف شعبوں میں نوجوانوں کو چاہئے کو خود کو آمادہ رکھیں۔ آپ دشمن کی اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششوں کا، معاشرے میں جوش و جذبے کو ختم کر دینے والے عوامل کا جو دشمن کی طرف سے پیدا کئے جا رہے ہیں، آپ نوجوانوں کو مقابلہ کرنا ہے۔ آپ اسلام کو مادی و معنوی دونوں میدانوں میں نجات بخش راستہ سمجھئے اور اسے پہچانئے۔
پرچم اسلام انشاء اللہ اس پورے علاقے کو نجات سے ہمکنار کرے گا۔ آج ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ مشرق وسطی کے اس عظیم اسلامی خطے میں اسلامی تحریک روز بروز پھیلتی جا رہی ہے، دشمن تنہا ہوتا جا رہا ہے، پسپائی اختیار کر رہا ہے اور اسلامی تحریک کی شمع دشمن کی جانب سے اسے بجھانے کے لئے کی جانے والی کوششوں کے باوجود روز بروز زیادہ فروزاں ہوتی جا رہی ہے۔
مجھے اس بات میں کوئي شک و شبہ نہیں ہے کہ مستقبل اسلام کا ہے۔ مستقبل میں حکمرانی اسلام کی ہوگی اور آپ نوجوان انشاء اللہ توفیق خداوندی سے وہ دن ضرور دیکھیں گے جب پرچم اسلام اس پورے خطے میں لہرا رہا ہوگا اور ایک با وقار اور مقتدر اسلامی بلاک تشکیل پا چکا ہوگا۔
میں ایک بار پھر آپ اہل گیلان غرب اسی طرح قصر شیریں اور اسلام باد سے تشریف لانے والے حضرات کی زیارت پر اظہار مسرت کرتا ہوں۔ دوسرے بعض شہروں تک نہ پہنچ پانے پر میں معذرت خواہ ہوں۔ وقت اور امکانات محدود ہیں، حالانکہ ان علاقوں کے عوام سے ہماری رغبت اور انسیت گہری ہے۔
پروردگارا! محمد و آل محمد کا صدقہ، ہمیں اس قوم کی مخلصانہ اور حقیقی خدمت کی توفیق عطا فرما۔ پروردگارا! اس قوم کے دشمنوں کو مغلوب فرما۔ پروردگارا! اس قوم کی آرزوؤں اور مرادوں کو بر لا ۔ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود رکھ۔ شہدا کی ارواح طیبہ اور عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مطہرہ کو ہم سے خوش رکھ۔

والسّلام عليكم و رحمة اللَّه و بركاته‌