آپ نے بصیرت کے مفہوم کے انتہائی ظریفانہ نکات کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران کے بیدار، پرجوش اور بابصیرت نوجوان اسلامی مملکت ایران کی سربلندی کی راہ میں اپنی بابرکت کوششوں کو جاری رکھتے ہوئے عظیم دین اسلام، وطن عزیز، اس عظیم سرزمین کی تاریخ اور باعظمت قوم کے لئے عزت و افتخار کے ابواب رقم کریں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے دختر رسول معصومہ قم کے روضہ اقدس کے امام خمینی شبستان میں منعقد ہونے والے اس اجتماع سے خطاب میں قومی بصیرت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اسلام اور انقلاب کی دشمن طاقتوں کی دراز مدتی سازشوں کو ایک ناقابل انکار حقیقت قرار دیا اور فرمایا کہ بے شمار شواہد و قرائن سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ سن انیس سو ننانوے کے واقعات اور سن دو ہزار نو کے بلوؤں سمیت ملک کے اندر جو واقعات گاہے بگاہے رونما ہوتے ہیں دشمن کے طویل المیعاد اور میانہ مدتی منصوبوں کا نتیجہ ہیں۔ آپ نے گزشتہ برس (صدارتی انتخابات کے بعد) رونما ہونے والے واقعات کو دشمنوں کی سازشوں کے احیاء سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ دشمنوں نے سن دو ہزار نو میں تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے اقدامات کرنے کی کوشش کی لیکن بفضل پروردگار انہیں شکست ملی اور قوم کی ہوشیاری اور میدان عمل میں موجودگی کے نتیجے میں انہیں شکست ہونی ہی تھی۔
قائد انقلاب اسلامی نے بار بار شکست کھانے کے باوجود سامراجی طاقتوں کی سازشوں کے تسلسل کو اس بات کی علامت قرار دیا کہ استبدادی طاقتیں ابھی مایوس نہیں ہوئی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس حقیقت کے پیش نظر ملت ایران اور اسلامی نظام کو بھی چاہئے کہ پوری مستعدی اور ہوشیاری کےساتھ دراز مدتی منصوبوں پر کام کرے۔ قائد انقلاب اسلامی نے دراز مدتی منصوبوں کے لئے فکری، سیاسی اور ثقافتی مراکز کی کوششوں کی یاددہانی کراتے ہوئے فرمایا کہ اس اسٹریٹیجک منصوبہ بندی کے لئے جو چیز زمین ہموار کر سکتی ہے وہ عوام الناس بالخصوص نوجوانوں کی بصیرت اور سوجھ بوجھ میں اضافہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
 
بسم ‌اللَّه ‌الرّحمن ‌الرّحيم‌
و الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‌ القاسم المصطفى محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين المنتجبين الهداة المهديّين المعصومين سيّما بقيّة اللَّه فى الأرضين‌. السّلام عليك يا فاطمة المعصومة يا بنت موسى‌ بن ‌جعفر سلام اللَّه عليك و على ابائك الطّيّبين الطّاهرين المنتجبين المعصومين‌.
 
اس نسبتا طولانی سفر کے آخری دنوں میں آپ عزیزوں سے ملاقات گویا تھکن دور کرنے دینے والی ایک تقریب اور ایک نئی شروعات ہے۔ نوجوانوں کا ماحول، نوجوانوں کے جذبات، نوجوانوں کے نظریات، نوجوانی کی امنگ ہر مقام اور ہر فضا کو متاثر کرتے ہیں۔ ملک کی عام فضا میں بحمد اللہ یہ جو عزم و ارادے، جوش و خردمندی کا بول بالا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ملک کی آبادی میں نوجوانوں کی اکثریت ہے اور یہ نشست تو ہر لحاظ سے نوجوانوں کی ہی نشست ہے۔ قم کے نوجوانوں کے سلسلے میں میرے پاس بہت زیادہ اور گوناگوں اطلاعات اور یادیں دونوں ہیں۔ البتہ ان طلباء میں چند ایسے نوجوان بھی ہیں جو دیگر شہروں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اکثریت قم کے نوجوانوں کی ہے۔ سنہ باسٹھ اور ترسٹھ عیسوی میں انقلابی جدوجہد کے اوج پر پہنچنے سے قبل ہم نے یہاں قم کے نوجوانوں کی دانشمندی اور سوجھ بوجھ کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ میں کبھی نہیں بھول سکتا کہ یہیں حرم ( اہل بیت پیغمبر کی عظیم الشان ہستی معصومہ قم کے روضہ) کے سامنے سڑک کے دوسری جانب اخبارات و جرائد کی دوکان تھی۔ وہاں اخبارات آویزاں رہتے تھے۔ ہم لوگ درس سے فارغ ہوکر جب واپس آتے تھے تو وہیں کھڑے ہوکر اخبارات کی سرخیاں دیکھتے تھے۔ جب ایالتی اور ولایتی انجمنوں کے مسئلے میں طاغوتی حکومت کو پسپائی اختیار کرکے اپنے فیصلے کے کالعدم قرار دینا پڑا تو میں نے دیکھا کہ اسی حرم سڑک کے اطراف میں نظر آنے والے نوجوان جنہیں ہم ہمیشہ ہی دیکھتے تھے لیکن کبھی نہیں سوچتے تھے کہ ان میں سیاسی امور سے دلچپسی ہوگی، سیاسی شعور ہوگا، وہ سب آئے اور انہوں نے ہمیں مبارکباد دی اور کہا کہ طاغوتی حکومت کے مقابلے میں علماء کی کامیابی پر ہم ‏آپ کو تبریک و تہنیت پیش کرتے ہیں۔ قم کے نوجوان بظاہر تو لا تعلق سے رہتے تھے، ہم دینی طلباء سے ان کی کوئي آشنائی بھی نہیں تھی لیکن پھر بھی آکر مبارکباد دیتے تھے۔ اسی وقت سے میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ قم کے نوجوانوں میں یہ کیسا عجیب جذبہ ہے۔ اس وقت قم میں یونیورسٹی کے طلباء تو نہیں ہوتے تھے، اسکولی طلباء ضرور تھے یا پھر بے روزگار نوجوان تھے لیکن وہ بھی (شاہ کی) طاغوتی حکومت کے خلاف تحریک اور جدوجہد سے اس قدر دلچسپی رکھتے تھے! پھر جب سنہ انیس سو ستتر کے واقعات رونما ہوئے تو پھر قم نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ بھرپور انداز میں کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ سڑکوں پر عوامی مہم کی قیادت، مختلف میدانوں میں عوام کی جدوجہد، حکومت کے استبدادی اور سخت گیر اقدامات کے سامنے استقامت کا آغاز قم نے کیا۔ یہی قم کے نوجوان سڑکوں پر آئے، ان کا خون بہایا گيا تاہم انہوں نے طاغوتی نظام کے اہلکاروں کو بھی اچھا سبق دیا۔ قم کے نوجوانوں کی زیرکانہ جدوجہد سے حکومتی اہلکار سراسیمگی میں مبتلا ہو گئے تھے۔ اس کے بعد انقلاب کی تحریک کا مرحلہ آیا تو ہر جگہ قم صف اول میں نظر آیا۔ یہ علی ابن ابی طالب بٹالین مقدس دفاع کے دور کی انتہائی کامیاب بٹالین تھی جو ہمیشہ فرنٹ لائن پر رہی۔ ان بڑے امتحانوں میں اہل قم ہمیشہ پورے اترے۔ ان میں بھی نوجوان سب سے پیش پیش تھے۔ میں فکر و شعور اور احساسات و نظریات سے آراستہ آپ نوجوانوں سے چاہوں گا کہ حالیہ چند عشروں کے دوران کی قم کی نوجوان نسل کی اس قابل فخر شناخت کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں۔
اہل قم نے انقلاب کے تعلق سے بڑا اہم کردار ادا کیا، مقدس دفاع میں درخشاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا، جنگ کے ختم ہو جانے کے بعد اور عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا سایہ ہمارے سروں سے اٹھ جانے کے بعد قم کے نوجوانوں کا کردار اور بھی نمایاں اور اہم ہو گیا۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔
انقلاب کے پہلے عشرے کے اخری کچھ برسوں سے لیکر بعد کے ادوار تک انقلاب کے دشمنوں نے، دشمن محاذ نے ایرانی ماہرین کی مدد سے ایک پالیسی تیار کی، کیونکہ غیر ایرانی ماہرین اس نکتے کے ادراک سے قاصر تھے، لہذا انہوں نے ایرانی ماہرین سے مشاورت کی۔ وہ پالیسی یہ تھی کہ قم کے اندر ہی انقلاب مخالف تحریک شروع کی جائے۔ جس طرح انقلاب کا چشمہ قم کی سرزمین سے جاری ہوا اسی طرح انقلاب مخالف تحریک بھی قم سے ہی شروع کی جائے۔ قم علمائے دین کا شہر ہے۔
بظاہر دار العلوم، قم میں ہے لیکن باطنی طور پر دیکھا جائے تو اس کا احاطہ پورے ملک پر ہے۔ کیونکہ قم میں زیر تعلیم ہر دینی طالب علم اپنے شہر کی ایک بااثر شخصیت ہے۔ ملک کے گوشے گوشے سے تعلق رکھنے والے افراد یہاں جمع ہیں۔ جب دینی علوم کے اس مرکز سے طلباء ایام تعطیل میں یا دوسرے کسی کام سے اپنے وطن جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ مرکز پورے ملک کے ہر گوشے میں پہنچ گیا ہے۔ بنابریں یہاں پر جو فکر بھی پیدا ہوگی، جو نظریہ بھی وجود میں آئے گا، جو عزم و ارادہ بھی یہاں پیدا ہوگا، جو تحریک اور مہم بھی یہاں معرض وجود میں آئے گی، در حقیقت اس کا پھیلاؤ پورے ملک پر محیط ہوگا۔ اس نکتے کو اغیار سمجھ نہیں سکتے تھے۔ امریکی اس حقیقت کا تجزیہ کرنے سے قاصر تھے۔ اس کو ایک ایرانی، کوئی اندر کا آدمی، علم دین اور علماء کے مزاج سے آشنا شخص ہی سمجھ سکتا تھا۔ ایسے ہی افراد نے دشمن کو اس نکتے سے آگاہ کیا۔ اسی بنا پر دشمن نے قم میں فتنہ کی آگ بھڑکانے کی کوشش شروع کی۔ میں کسی کا نام نہیں لینا چاہوں گا بلکہ اس نکتے سے اسی طرح سرسری عبور کرنا پسند کروں گا۔ سنہ انیس سو اناسی اور اسی میں بھی اہل قم اور اہل تبریز نے شجاعت کی داستان رقم کی۔ یہ کارنامہ صرف میدان میں آکر نعرے بازی کرنے تک محدود نہیں تھا بلکہ یہ شعور و ادراک کا ثبوت دینے، تجزئے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرنے سے عبارت تھا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی رحلت کے بعد بھی قم میں یہی چیز ایک الگ شکل میں سامنے آئی۔ اس موقعے کے لئے بھی مخالفین نے، دشمنوں نے، بنیادی طور پر غیر ملکی دشمنوں نے یہ منصوبہ بندی کی تھی کہ اس (انقلاب مخالف) فتنے کی آگ بھڑکائیں۔ اگر اہل قم غافل رہ جاتے، اگر قم کے نوجوان صحیح تجزیہ نہ کرتے، اگر ان میں وہ کارساز دانشمندی نہ ہوتی تو مشکلات بہت زیادہ بڑھ جاتیں۔ یہ حقیقت امر ہے۔ قم کے نوجوانوں کے سلسلے میں یہ اٹل حقیقت ہے۔
بہت سی بحثوں میں منجملہ اسی بحث میں جو میں نے یہاں اٹھائی، بنیادی طور پر میرا خطاب آپ نوجوانوں سے ہوتا ہے۔ کیونکہ کام آپ کو ہی کرنا ہے، یہ ملک آپ کا ہی ہے۔ ہم تو چند دن کے مہمان ہیں۔ ہمارا دور، ہماری شراکت کا زمانہ اور ہماری باری اب ختم ہونے کو ہے۔ اب آپ کا دور شروع ہونے جا رہا ہے، آپ کو اس ملک کا نظم و نسق چلانا ہے۔ مختلف سطح پر آپ کو اس قومی اقتدار اعلی کو، اس قومی وقار کو، اب تک کی کامیابیوں کی مدد سے نقطہ کمال تک پہنچانا ہے۔ تاریخ میں یہ فریضہ اب آپ کے دوش پر ہے لہذا میرے مخاطب بھی آپ حضرات ہی ہیں۔
اگر ہم مانتے ہیں کہ دشمن محاذ نے ہمارے ملک کے خلاف، ہمارے انقلاب کے خلاف طویل المیعاد منصوبے بنائے ہیں تو ہمیں بھی دراز مدتی منصوبے بنانا چاہئے۔ یہ بات تو تسلیم نہیں کی جا سکتی کہ اسلام اور انقلاب کے دشمنوں کا محاذ جسے اسلامی بیداری سے سخت خطرات لاحق ہیں دراز مدتی منصوبے بنانے میں مصروف نہ ہو۔ اس پر کوئی بھی یقین نہیں کرے گا، سوائے اس کے جو بڑا سادہ لوح ہو یا حالات سے غافل ہو۔ یقینی طور پر ان کے طویل المیعاد منصوبے ہیں۔ چنانچہ آج بھی بسا اوقات ملک میں جو واقعات رونما ہوتے ہیں اور جن میں بیرونی طاقتوں کا کردار صاف نظر آ جاتا ہے، یہ دفعتا اور یکبارگی رونما ہونے والے واقعات نہیں ہیں، یہ درمیانہ مدت یا طویل مدت کے منصوبوں کے تحت انجام پاتے ہیں۔ منصوبہ بندی کر لی گئی تھی اور اسی منصوبہ بندی کا یہ نتیجہ سامنے آیا ہے۔ ایسا نہیں کہ راتوں رات اس اقدام کا فیصلہ کر لیا گيا ہو اور صبح ہوتے ہی اس پر عملدرآمد کر دیا گیا ہو۔ ایسا نہیں ہے۔ اسی سنہ دو ہزار نو کے فتنے کے سلسلے میں بھی میں نے بعض احباب کو قرائن اور شواہد سے آگاہ کیا۔ کم از کم دس سال، پندرہ سال قبل اس کی منصوبہ بندی کر لی گئی تھی۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی رحلت کے بعد سے ہی منصوبہ بندی ہو گئی تھی۔ اس منصوبہ بندی کے اثرات سنہ ننانوے میں بھی ظاہر ہوئے، تہران یونیورسٹی کے کیمپس کا واقعہ پیش آیا اور دوسرے واقعات ہوئے جو آپ میں اکثر کو یاد ہیں، شاید بعض لوگوں کو یاد نہ ہوں۔ گزشتہ سال جو واقعات ہوئے وہ بھی شاید اسی منصوبہ بندی کی تقویت کے لئے تھے۔ وقت اور مختلف پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر یہ کوشش تو کی گئی کہ سازش کو کامیاب کر دیں لیکن بحمد اللہ انہیں شکست ہوئی، انہیں شکست ہونی بھی تھی۔ تو نتیجہ یہ نکلا کہ دشمن دراز مدتی منصوبے رکھتا ہے۔ دشمن مایوس نہیں ہوتا کہ آج شکست ہو گئی تو باز آ جائے۔ نہیں، وہ دس سال، بیس سال اور چالیس سال بعد کے دور کے لئے منصوبہ بندی میں مصروف ہو جاتا ہے۔ لہذا آپ بھی تیار رہئے۔
ہمارے پاس بھی دراز مدتی منصوبے ہونے چاہئے۔ البتہ ان منصوبوں کو تیار کرنے کی جگہ یہ اجتماع نہیں ہے۔ فکری مراکز، نظریاتی مراکز، سیاسی مراکز اور ثقافتی مراکز ان امور پر کام کر رہے ہیں۔ انہیں یہ کام کرنا ہے اور وہ انجام بھی دے رہے ہیں۔ میں اس اجتماع میں جو بات عرض کر سکتا ہوں وہ یہی ہے کہ دراز مدتی منصوبہ سازی کے لئے بنیادی زمین موجود ہے جس کے سلسلے میں بارہا متوجہ کر چکا ہوں اور یہاں بھی اس بنیادی زمین کے سلسلے میں ذرا تفصیل سے گفتگو کرنا چاہوں گا۔ یہ بصیرت کا مسئلہ ہے۔
بصیرت کے موضوع پر میں نے گزشتہ سال اور اس سے قبل کے برسوں میں بہت گفتگو کی ہے۔ دوسرے افراد نے بھی بہت سے مسائل پر گفتگو کی ہے۔ میں نے دیکھا کہ بعض نوجوانوں نے بھی اس سلسلے میں بڑے اچھے کام انجام دیئے ہیں۔ میں بصیرت کے مسئلے پر ایک بار پھر تاکید کرنا چاہوں گا۔ میں یہ تاکید اس خیال کے تحت کرنا چاہتا ہوں کہ اس کے مخاطب آپ حضرات ہیں، میدان آپ کے ہاتھ میں ہے اور فرائض آپ کے دوش پر ہیں۔ آپ ایسے امور اور منصوبہ بندی کی طرف قدم بڑھائیے جن کا تعلق بصیرت پیدا کرنے سے ہے۔ آپ اس اہم ضرورت کی تکمیل کے لئے کوشش کیجئے۔ بصیرت ایک شمع ہے، بصیرت قطب نما ہے، بصیرت قبلہ نما ہے۔ کسی بیابان میں انسان بغیر قطب نما کے سفر کرے تو ممکن ہے کہ اتفاقیہ طور پر کسی منزل تک پہنچ جائے لیکن اس کا امکان بہت کم ہوتا ہے، قوی امکان یہ ہے کہ حیران و سرگرداں رہے گا، مشکلات اور مسائل میں گرفتار ہوتا چلا جائےگا۔ قطب نما کا ہونا ضروری ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب دشمن سامنے ہو۔ اگر قطب نما نہ ہو تو اچانک آپ دیکھیں گے کہ دشمن کے محاصرے میں آ گئے ہیں، پھر آپ کے بس میں کچھ بھی نہ ہوگا۔ بصیرت در حقیقت قطب نما اور روشنی ہے۔ تاریک فضا میں بصیرت، اجالا پیدا کر دیتی ہے، ہمیں صحیح راستہ دکھاتی ہے۔
البتہ مکمل کامیابی کے لئے بصیرت لازمی شرط ضرور ہے لیکن یہی کافی نہیں ہے۔ ہم دینی طالب علموں کی زبان میں یوں کہا جائے کہ یہ کامیابی کی علت تامہ نہیں ہے۔ کامیابی کے لئے دوسری بھی کچھ شرطوں کا ہونا ضروری ہے۔ اگر وقت رہا اور مجھے یاد رہا تو تقریر کے آخر میں ان کی جانب بھی اشارہ کروں گا۔ بہرحال بصیرت لازمی شرط ہے۔ اگر دوسری تمام شرطیں تو موجود ہوں لیکن بصیرت نہ ہو تو کامیابی اور منزل مقصود تک رسائي بہت بعید ہے۔
بصیرت کی دو سطحیں ہیں۔ ایک سطح، اصولی اور باطنی سطح ہے۔ انسان آئیڈیالوجی کے انتخاب میں اور توحیدی مفاہیم کے بنیادی ادراک میں ایک بصیرت کو بروئے کار لاتا ہے، عالم فطرت پر توحیدی نگاہ ڈال کر ایک بصیرت پیدا کر لیتا ہے۔ توحیدی نقطہ نظر اور مادی نقطہ نظر کا بنیادی فرق بھی یہیں سمجھ میں آتا ہے۔ توحیدی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ کائنات ایک خاص نظام کے تحت چلنے والا مجموعہ دکھائي دیتی ہے، ایک ایسا مجموعہ جو خاص قوانین کا پابند ہے، عالم فطرت کسی خاص ہدف کے تحت حرکت کرتا دکھائي دیتا ہے اور ہم بھی اسی عالم فطرت کا ایک حصہ ہیں، ہمارا وجود، ہماری پیدائیش اور ہماری زندگی بھی خاص ہدف کے تحت ہے۔ دنیا میں ہماری آمد بے مقصد اور عبث نہیں ہے۔ یہ توحیدی نقطہ نگاہ کا نتیجہ ہے۔ خدائے عالم و قادر کی ذات پر ایمان رکھنے کا ثمرہ یہ ہے۔ جب ہمیں یہ ادراک ہو جاتا ہے کہ ہمارا خاص ہدف ہے تو ہم اس ہدف کی تلاش میں لگ جاتے ہیں۔ یہ تلاش بھی در حقیقت ایک پر امید سعی کا درجہ رکھتی ہے۔ ہم اس ہدف کو تلاش کر لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب ہم ہدف کو پہچان لیتے ہیں، ہدف سے آشنا ہو جاتے ہیں تو پھر اس تک پہنچنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح پوری زندگی سعی پیہم بن جاتی ہے، با مقصد اور باہدف سعی مسلسل۔ دوسری طرف ہمیں یہ بھی علم ہے کہ توحیدی نقطہ نگاہ کے ساتھ ہدف کی جانب بڑھنے کے لئے کی جانے والی ہر طرح کی سعی و کوشش کا نتیجہ بخش ہونا یقینی ہے۔ اس نتیجے کے بھی کئی مراتب ہیں لیکن بہرحال کسی نہ کسی مطلوب نتیجے تک ہم ضرور پہنچتے ہیں۔ اگر یہ طرز فکر ہو تو انسان اپنی زندگی میں کبھی بھی قنوطیت کا شکار نہیں ہوتا، ناامیدی، افسردگی اور مایوسی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ جب آپ کو علم ہے کہ آپ کا وجود، آپ کی پیدائش، آپ کی زندگی، آپ کی ہر سانس کسی ہدف کے تحت ہے تو آپ اس ہدف کی تلاش کریں گے اور اس تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ عالم وجود کے خالق کے نزدیک خود یہ سعی بھی اجر و ثواب کی باعث ہے۔ آپ جہاں تک بھی آگے بڑھے ہیں در حقیقت ایک ہدف کو پورا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ توحیدی طرز فکر میں مومن انسان کے لئے خسارے اور نقصان کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ما لنا الا احدی الحسنیین دو بہترین چیزوں میں سے ایک ہمارے انتظار میں ہے۔ یا تو ہم اسی راستے میں اپنی جان دے دیں گے تو یہ بہترین ثمرہ ہے اور یا پھر ہم دشمن کو راستے سے ہٹا دیں گے اور اپنی منزل مقصود کو پا لیں گے تو یہ بھی بہترین ثمرہ ہے۔ معلوم ہوا کہ یہاں نقصان کی کوئی صورت نہیں ہے۔
اس کے بالکل برخلاف مادی نقطہ نگاہ ہے۔ مادی نقطہ نگاہ دنیا میں انسان کی پیدائش اور انسان کے وجود کو بے ہدف قرار دیتا ہے، معلوم ہی نہیں کہ کس ہدف کے تحت انسان دنیا میں آیا ہے۔ البتہ اسی دنیا میں اپنے لئے وہ کچھ ہدف ضرور بنا لیتا ہے۔ جیسے پیسے تک رسائی، (دنیوی) معشوق تک رسائی، عہدے اور مقام تک رسائی، جسمانی لذتوں کے حصول، کچھ علمی لذتوں کے حصول کو اپنا ہدف بنا لیتا ہے۔ لیکن ان میں کوئی بھی ہدف اس کا فطری ہدف نہیں ہے، ایسا ہدف نہیں ہے جو اس کے وجود سے وابستہ ہو۔ اگر اللہ کی ذات پر ایمان نہ ہو تو اخلاقیات بھی بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں، عدل و انصاف کا بھی کوئی مفہوم نہیں رہ جاتا۔ ذاتی مفادات اور لذات کے علاوہ کسی اور چیز کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ جاتی۔ اب اگر ان ذاتی مفادات کے حصول میں انسان مشکلات سے دوچار ہو گیا، اسے کوئی نقصان ہو گیا، کوئی خسارہ ہو گیا، اگر منافع نہ حاصل کر سکا، صحیح طریقے سے محنت نہ کر سکا تو پھر مایوسی اور قنوطیت کے بادل اس پر چھا جاتے ہیں اور وہ خود کشی یا دوسرے احمقانہ کام کرنے لگتا ہے۔ آپ غور کیجئے! توحیدی اور مادی طر‌ز فکر کا فرق یہ ہے، الہی معرفت اور مادی علم کا فرق یہ ہے۔ یہ (توحیدی نقطہ نگاہ) بصیرت کا سب سے اہم ستون ہے۔
اس نقطہ نگاہ کے ساتھ جب انسان مجاہدت کرتا ہے تو یہ مجاہدت ایک مقدس سعی میں تبدیل ہو جاتی ہے، اگر وہ مسلحانہ جنگ کرے تو وہ بھی اسی زمرے میں آ جاتی ہے۔ یہ جنگ برے خیال اور بری نیت والی جنگ نہیں ہے، یہ جنگ اس لئے ہوتی ہے کہ صرف وہ شخص نہیں بلکہ پوری انسانیت کو خیر و کمال، رفاہ و ارتقاء حاصل ہو۔ اس طرز فکر کے ساتھ زندگی بڑی حسین ہو جاتی ہے اور اس وسیع وادی کا سفر نہایت شیریں۔ اللہ کا ذکر اور ہدف کی یاد انسان کی ہر تھکن اور خستگی کو دور کر دیتی ہے۔ یہ معرفت کی بنیاد ہے، یہ بصیرت کی بنیاد ہے۔ یہ بصیرت انتہائی ضروری ہے۔ ہمیں اپنے اندر اسے ضرور پیدا کرنا چاہئے۔ بصیرت در حقیقت معاشرے میں تمام انسانی مساعی اور مجاہدت کی تمہید ہے۔ تو یہ بصیرت کی ایک سطح ہے۔ بصیرت کی اس وسیع و عمیق سطح کے علاوہ بھی ممکن ہے کہ مختلف واقعات و تغیرات کے تعلق سے انسان میں بصیرت یا بے بصیرتی دیکھنے میں آئے۔ ایسے میں انسان کو بصیرت سے کام لینا چاہئے۔ یہ کون سی بصیرت ہے؟ اپنے اندر بصیرت پیدا کرنے سے کیا مراد ہے؟ یہ بصیرت کیسے پیدا کی جا سکتی ہے؟ یہ بصیرت جو مختلف واقعات کے سلسلے میں لازمی ہے اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے ارشادات میں بھی جس پر خاص تاکید نظر آتی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ انسان ان واقعات کے سلسلے میں جو اس کے گرد و پیش رونما ہو رہے ہیں، جن کا اس سے تعلق ہے، تدبر کرے۔ حوادث و واقعات سے سرسری طور پر عبور نہ کرے بلکہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے بقول اس سے عبرت لے رحم اللہ امرء تفکر فاعتبر (1) انسان تدبر کرے اور اس تدبر کی بنیاد پر سبق حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ تدبر کی کسوٹی پر مسائل کو پرکھے، و اعتبر بابصر اس پرکھنے کی بنیاد پر بصیرت حاصل کرے۔
حوادث و واقعات کو غور سے دیکھنا، صحیح طور پر ان کا تجزیہ کرنا، ان کے بارے میں فکر کرنا انسان کے اندر بصیرت پیدا کرتا ہے۔ اس کے اندر وہ بصیرت پیدا کر دیتا ہے جس کی مدد سے انسان کی آنکھوں کے سامنے حقیقت پر پڑے پردے ہٹ جاتے ہیں۔
امیر المومنین علیہ السلام ایک اور مقام پر فرماتے ہیں ؛ فانما البصیر من سمع فتفکر و نظر فابصر (2) صاحب بصیرت شخص وہ ہے جو کچھ سنتا ہے تو اپنے کان بند نہیں کر لیتا بلکہ اسے سن کر اس پر غور کرتا ہے۔ ہر سنائی دینے والی بات کو سنتے ہی مسترد یا قبول نہیں کیا جا سکتا، اس پر غور کرنا ضروری ہوتا ہے۔ البصیر من سمع فتفکر و نظر فابصر نَظَرَ یعنی دیکھے، اپنی آنکھیں بند نہ رکھے۔ وہ افراد جو بے بصیرتی کی دلدل میں گرفتار ہوئے اور پھر غرق ہو گئے ان کی غلطی یہی تھی کہ انہوں نے نہیں دیکھا، اپنی آنکھیں بعض آشکارا حقائق سے موند لیں۔ انسان کو آنکھیں کھلی رکھنا چاہئے، جب آنکھیں کھلی ہوں گی تو چیزیں دکھائی دیں گی۔ بعض اوقات ہم کچھ چیزوں کو دیکھنے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہوتے۔ ایسے منحرف افراد دکھائی پڑتے ہیں تو کسی صورت سے بھی آنکھ کھولنے کو تیار نہیں ہوتے۔ ہمیں بغض و عناد رکھنے والے دشمن سے کوئي سروکار نہیں اس کے بارے میں بعد میں عرض کروں گا۔ «و جحدوا بها و استيقنتها انفسهم ظلما و علوّا»(3) بعض افراد ایسے ہوتے ہیں جو خاص طور پر عمدا عناد کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ ایسا انسان ظاہر ہے کہ دشمن ہے۔ اس سے ہمیں کوئی بحث نہیں۔ بحث ہمارے اور آپ کے بارے میں ہے جو میدان میں موجود ہیں۔ اگر ہم بصیرت پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی آنکھیں کھولنا اور دیکھنا چاہئے۔ بعض چیزیں ہیں جو دیکھی جا سکتی ہیں لیکن اگر ہم ان سے سرسری طور پر گزر جائیں گے تو انہیں نہیں دیکھ پائیں گے۔ ایسے میں ظاہر ہے کہ ہم سے غلطیاں سرزد ہوں گی۔
میں اس کی ایک مثال تاریخ سے پیش کرتا ہوں۔ جنگ صفین میں معاویہ کا لشکر شکست کے قریب پہنچ گیا، مکمل ہزیمت اور شکست میں کوئی زیادہ کسر نہیں رہ گئي تھی، انہوں نے اپنی نجات کے لئے جو حیلہ اختیار کیا وہ یہ تھا کہ نیزوں پر قرآن بلند کرکے بیچ میدان میں آ گئے۔ انہوں نے قرآن کے اوراق نیزوں کی نوک پر رکھے اور میدان میں آ گئے، اس تاثر کے ساتھ کہ قرآن ہمارے اور تمہارے درمیان قضاوت کرے گا۔ اعلان کیا کہ چلو! جو قرآن کہتا ہے اس پر عمل کریں۔ ظاہر ہے کہ یہ عوام پسندانہ اقدام تھا۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے لشکر کے کچھ لوگوں نے، جو آگے چل کر خوارج بنے اور امیر المومنین علیہ السلام کے خلاف شمشیر بکف میدان میں آ گئے، یہ منظر دیکھا تو کہنے لگے کہ بڑی اچھی بات ہے، اس بات میں تو کوئی برائی نہیں ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ آئیے قرآن کو فیصلے کا معیار بناتے ہیں۔ آپ غور کیجئے! یہیں پر وہ فریب کھا گئے، ایسے مواقع پر لغزش اسی لئے ہوتی ہے کہ انسان اچھی طرح دیکھ کر نہیں چلتا۔ ایسے انسان کو کوئی معاف نہیں کرے گا جس کے قدم اس وجہ سے پھسل گئے کہ اس نے نیچے نہیں دیکھا، اس نے نہیں دیکھا کہ اس کا پیر کیلے کے چھلکے پر پڑنے والا ہے۔ تو ان لوگوں نے نہیں دیکھا، اگر وہ حقیقت معلوم کرنا چاہتے تو سب کچھ ان کی آنکھوں کے سامنے موجود تھا۔ جو لوگ کہہ رہے تھے کہ آؤ قرآن کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں، اس پر رضامند ہو جائیں، یہ وہی لوگ ہیں جو واجب الاطاعۃ منتخب امام سے بر سر پیکار ہیں! ایسے لوگوں کا قرآن پر کیا عقیدہ ہو سکتا ہے؟ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہمارے عقیدے کے مطابق پیغمبر کی جانب سے منصوب بامامت تھے اور جو لوگ یہ عقیدہ نہیں رکھتے وہ بھی یہ مانتے ہیں کہ خلیفہ سوم کے بعد امت نے آپ کی بیعت کی، آپ کی خلافت کو تسلیم کیا۔ بنابریں آپ اسلامی معاشرے کے لئے واجب الاطاعۃ امام اور حاکم قرار پائے۔ جو شخص اس امام سے جنگ کرے، اس پر تلوار کھینچے تمام مسلمانوں کے لئے اس کا مقابلہ کرنا واجب تھا۔ جن لوگوں نے نیزوں پر قرآن بلند کیا تھا اگر قرآن پر واقعی ان کا عقیدہ ہوتا تو قرآن تو کہتا ہے کہ تم علی سے کیوں جنگ کر رہے ہو۔ اگر واقعی قرآن پر اس کا ایمان تھا تو پہلے ہی اسے ہتھیار ڈال کر کہنا چاہئے تھا کہ میں جنگ نہیں کروں گا۔ اس نکتے کو دیکھنا اور سمجھنا چاہئے تھا۔ کیا واقعی یہ کوئی مشکل گتھی تھی؟ یہ کوئی ایسی مشکل بات تھی جسے سمجھا نہ جا سکے؟ انہوں نے کوتاہی کی۔ اسی کو کہتے ہیں بے بصیرتی۔ اگر وہ ذرا سا تدبر سے کام لیتے تو اس حقیقت کو سمجھ جاتے۔ یہ لوگ مدینے میں امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب میں شامل تھے، وہ دیکھ چکے تھے کہ قتل عثمان میں معاویہ کے افراد اور ساتھیوں کا ہاتھ تھا، انہی افراد نے عثمان کے قتل میں مدد کی تھی۔ لیکن اس کے بعد انہی لوگوں نے عثمان کا کرتا بلند کیا اور انتقام کی باتیں شروع کر دیں۔ انہوں نے خود یہ کام کیا تھا، غلطی خود انہی لوگوں کی تھی اور طرفہ تماشا یہ کہ یہی لوگ قتل کے ذمہ دار افراد کو تلاش کرنے بھی نکل پڑے۔ آپ دیکھئے کہ یہ بے بصیرتی در حقیقت بے توجہی کا نتیجہ ہے۔ آنکھیں کھلی نہ رکھنے کا نتیجہ ہے، واضح حقیقت سے آنکھیں موند لینے کا نتیجہ ہے۔
گزشتہ فتنے کے وقت بھی کچھ لوگوں سے غلطی ہوئي۔ یہ بھی بے بصیرتی کا نتیجہ تھا۔ باشکوہ اور عظیم الشان انتخابات ہوئے، اس کے بارے میں بد عنوانی کا دعوی کیا گيا۔ اس کی راہ حل بالکل واضح تھی۔ اگر کچھ لوگوں کو بد عنوانی کا یقین تھا تو پہلے انہیں چاہئے تھا کہ ثبوت پیش کرتے، دلیل پیش کرتے کہ بد عنوانی ہوئی ہے۔ وہ ثبوت پیش کریں یا نہ کریں دونوں ہی صورتوں میں قانون نے ایسے افراد کے لئے راستہ کھلا رکھا ہے، وہ شکایت درج کرا سکتے تھے۔ اس کا جائزہ لیا جاتا، اس پر غور کیا جاتا، غیر جانب دار افراد آکر جائزہ لیتے کہ بد عنوانی ہوئي ہے یا نہیں۔ یہی تو اس کا راستہ ہے۔ ہم نے بہت مدد کی، (شکایت کی) قانونی مدت میں توسیع کر دی، ہم نے یہاں تک کہا کہ یہ افراد خود ٹیلی ویزن پر آئیں اور ووٹوں کی دوبارہ گنتی کر لیں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی یہ راستہ اختیار کرنے پر تیار نہیں ہے تو پھر واضح ہے کہ سرکشی پر تلا ہوا ہے۔۔۔۔ (4) آپ غور کیجئے! ہمارا مقصد گڑے مردے اکھاڑنا نہیں ہے، ہم مثال پیش کرنا چاہتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ بصیرت حاصل کرنا کوئی دشوار کام نہیں ہے۔ اگر آپ نے دیکھا کہ ایک منطقی اور قانونی راہ موجود ہے لیکن پھر بھی ایک شخص اس قانونی اور منطقی راستے سے سرکشی کرنے پر بضد ہے، ایسا کام کر رہا ہے جو پورے ملک کے نقصان میں ہے، قومی مفادات کو ضرب لگا رہا ہے تو منصفانہ نقطہ نگاہ سے، غیر جانبدارانہ نقطہ نظر سے وہ سزا پانے کے قابل ہے، یہ بالکل واضح اور روشن معاملہ ہے۔ یہ بالکل آسان فیصلہ ہے۔ لہذا آپ سمجھ لیجئے کہ بصیرت پیدا کرنے کا مطالبہ کسی دشوار اور ناممکن بات کا مطالبہ نہیں ہے۔ بصیرت حاصل کرنا کوئی سخت کام نہیں ہے۔ بصیرت پیدا کرنے کے لئے بس اتنا ہی ضروری ہے کہ انسان مختلف جالوں سے خود کو محفوظ رکھے، دوستیوں کے جال سے، دشمنیوں کے جال سے، خواہشات کے جال سے، عجلت پسندانہ فیصلوں کے جال سے۔ انسان دیکھے اور غور کرے تو حقیقت کا ادراک اسے ہو جائے گا۔ بصیرت حاصل کرنے کا مطالبہ در حقیقت اسی تدبر پر تاکید کرنے سے عبارت ہے، آنکھیں کھلی رکھنے کی ہدایت سے عبارت ہے، کوئی بہت بڑا مطالبہ نہیں ہے۔ اس طرح یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ بصیرت ہر انسان حاصل کر سکتا ہے، ہر کوئی صاحب بصیرت بن سکتا ہے۔ البتہ بعض افراد ایسے ہوتے ہیں جو غفلت برتتے ہیں لیکن عناد کی وجہ سے نہی، برے عزائم کی وجہ سے نہیں۔ ہر انسان کو اپنی جان پیاری ہوتی ہے لیکن پھر بھی بعض اوقات ڈرائيونگ کے وقت ممکن ہے کہ ایک لمحے کے لئے اس کی توجہ ہٹ جائے، جھپکی لے لے، نتیجہ ایک المیئے کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ اس طرح کی جو لغزشیں ہیں انہیں گناہ نہیں قرار دیا جا سکتا لیکن اگر بار بار انہیں دوہرایا جائے تو پھر یہ بے بصیرتی قرار پائے گی اور اس کا کوئی عذر قبول نہیں کیا جا سکتا۔
آج نرم جنگ کے تحت دشمن کا سب سے بڑا حربہ ملک کی سیاسی فضا کو غبار آلود بنانا ہے۔ اس پر آپ سب کی توجہ رہنا چاہئے۔ اس وقت دشمن کا سب سے بڑا حربہ یہی ہے۔ جو افراد سیاسی امور سے، سیاسی مسائل سے باخبر ہیں، اس کی شد بد رکھتے ہیں انہیں علم ہے کہ آج سامراجی طاقتوں کی قوت کا انحصار ان کے ایٹم بم سے بڑھ کر، ان کے بینکوں میں جمع دولت سے بڑھ کر ان کے تشہیراتی وسائل پر ہے، ہر جگہ پہنچنے والی ان کی آواز پر ہے۔ انہیں پروپیگنڈے کا طریقہ بھی خوب آتا ہے۔ تشہیراتی شعبے میں واقعی انہوں نے کافی ترقی بھی کی ہے۔ آج مغرب والوں نے، امریکہ اور یورپ میں رہنے والوں نے تشہیراتی شعبے میں جدید اور انتہائی پیشرفتہ طریقے وضع کر لئے ہیں، انہیں مہارت حاصل ہو گئی ہے۔ اس لحاظ سے ہم پیچھے رہ گئے ہیں۔ ان کا ایک بنیادی کام یہ ہے کہ وہ پروپیگنڈہ بہت کامیابی سے کرتے ہیں۔ وہ اپنے ان تشہیراتی حربوں سے، اپنے ان ہنگاموں سے، خلاف حقیقت باتوں کی بوچھار کرکے، معاشروں کی فضا کو بدل دینے کی کوشش کرتے ہیں، ان پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس نکتے پر توجہ رکھنا چاہئے، اس طرف سے ہوشیار رہنا چاہئے۔ اس تعلق سے آج ہمارے نوجوانوں کی ذمہ داری بہت سنگین ہے۔ آپ حقیقت کو خود سمجھ لینے پر اکتفا نہ کیجئے بلکہ اپنے گرد و پیش کے لوگوں کو بھی بصیرت سے بہرہ مند کیجئے، ان کے سامنے معاملات کو واضح کیجئے۔
ایک کلیدی نکتہ یہ بھی ہے کہ باطل انسان کی نگاہوں کے سامنے عیاں نہیں ہوتا کہ انسان آسانی سے پہچان لے کہ یہ باطل ہے۔ عام طور پر باطل حق کے لباس میں یا کسی حد تک حق کے رنگ میں سامنے آتا ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں؛ «انّما بدء وقوع الفتن اهواء تتّبع و احكام تبتدع يخالف فيها كتاب اللَّه»، اس کے بعد آپ فرماتے ہیں کہ «فلو انّ الباطل خلص من مزاج الحقّ لم يخف على المرتادين و لو انّ الحقّ خلص من لبس الباطل انقطعت عنه السن المعاندين»؛(5) اگر حق اور باطل پوری وضاحت کے ساتھ اور بغیر کسی ابہام کے سامنے آ جائیں تو کوئی اختلاف باقی نہیں رہے گا۔ ظاہر ہے کہ سب حق کو پسند کرتے ہیں اور باطل سب کو برا لگتا ہے۔ «و ليكن يؤخذ من هذا ضغث و من ذاك ضغث فيمزجان فحينئذ يشتبه الحقّ على اوليائه» حق کا ایک حصہ باطل کے ایک حصے سے مخلوط کر دیتے ہیں اور باطل کو خالص باطل نہیں رہنے دیتے جس کے نتیجے میں لوگوں سے غلطی ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں بہت زیادہ محتاط رہنا چاہئے۔ آج عالمی سطح پر جاری تشہیراتی مہم کے تحت اس نکتے پر خاص توجہ دی جا رہی ہے کہ آپ کے ملک کے حقائق کو، آپ کے معاشرے کے حقائق کو، آپ کے اسلامی نظام کے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کریں۔ ان کے پاس تشہیراتی وسائل کی فراوانی بھی ہے اور وہ دائمی طور پر مصروف کار بھی ہیں۔ ملک کے اندر بھی ایسے افراد ہیں جن میں بعص دانستہ اور بعض نادانستہ طور پر انہی کی باتوں کو دوہراتے ہیں اور ان کی تشہیر کرتے ہیں۔
یہاں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ کبھی کبھی بصیرت بھی ہوتی ہے لیکن پھر بھی غلطیوں پر غلطیاں ہوتی ہیں۔ اسی لئے ہم نے کہا کہ کامیابی کے لئے بصیرت لازمی ضرور ہے لیکن یہی کافی نہیں ہے۔ ان غلطیوں کی ایک وجہ عزم و ارادے کا فقدان بھی ہے۔ بعض لوگ حقائق کو جانتے ہوئے بھی اقدام کرنے کا عزم نہیں کرتے۔ اظہار خیال کا ارادہ نہیں کرتے۔ ارادہ نہ کرنے کی بھی وجہ ہے۔ کبھی انسان عافیت میں رہنے کی خاطر، کبھی آرام طلبی کی خاطر، کبھی خواہشات نفسانی کے زیر اثر، کبھی ذاتی مفادات کے مد نظر اور کبھی اپنی ضد سے اپنی بات پر اصرار کرتا ہے۔ اسے اپنی ضد چھوڑنے میں احساس خفت ہوتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے لعن اللہ اللجاج اللہ کی لعنت ہو ضدی انسان پر۔ بعض افراد ایسے ہیں جنہیں حقیقت معلوم ہے، حقیقت کو جانتے ہیں لیکن پھر بھی مخالف محاذ کی مدد کرتے ہیں، دشمن کی مدد کرتے ہیں۔ یہ افراد جو منحرف ہوکر اپنے موقف سے پیچھے ہٹے، ان میں بعض ایک زمانے میں شدید انقلابی افراد تھے لیکن پھر آپ ایک دن دیکھتے ہیں کہ وہ اس کے عین مخالف سمت میں کھڑے ہیں اور انقلاب کے مخالفین کی خدمت کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہی عوامل ہیں جن کا ذکر کیا گیا۔ خواہشات نفسانی اور مادی مفادات میں غرق ہو جانا۔ ان سب کی اصلی وجہ اور جڑ ہے ذکر خدا سے غفلت، فرائض سے غفلت، موت سے غفلت اور قیامت سے غفلت۔ یہ چیزیں انسان کے موقف کو ایک سو اسی درجہ بدل دیتی ہیں۔
البتہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جن سے بھول ہوئی۔ سب کو گنہگار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہم نے بعض افراد کو دیکھا کہ کچھ لوگ ان کے پاس آئے اور تحفے کے طور پر، اظہار عقیدت کے طور پر کچھے پیسے دے گئے۔ انہوں نے پیسے لے لئے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ رشوت ہے۔ عملی طور پر جو کچھ انجام پا رہا ہے اس میں آپس میں بڑی مماثلت ہے ایسے میں اس بات کی تشخیص دینا کہ یہ پیسہ رشوت کا ہے یا نہیں بہت اہم ہے۔ آپ کسی ایسے عہدے پر ہیں جہاں آپ کسی کی مرضی کا کام انجام دے سکتے ہیں۔ وہ آپ کے پاس آتا ہے، آپ کے ہاتھوں کو بھی چومتا ہے اور آپ کو پیسے بھی دیکر جاتا ہے۔ اسی کو رشوت کہتے ہیں اور رشوت حرام ہے۔ فتنے سے متعلق قضیؤں میں بھی یہی ہوا۔ بعض افراد اس فتنے میں پڑ گئے، انہیں احساس نہیں ہوا کہ یہ نظام کا تختہ الٹنے کی سازش ہے۔ یہ وہی فتنہ ہے جس کے سلسلے میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا «فى فتن داستهم بأخفافها و وطئتهم بأظلافها و قامت على سنابكها».(6) فتنہ ان افراد کی عقل و خرد سلب کر لیتا ہے جو اس میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ وہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ یہ فتنہ ہے۔ کہیں کسی نے کوئی بات کہی ہے، اسی کو یہ لوگ دوہرانے لگتے ہیں۔ ماحصل یہ ہے کہ سب کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکا جا سکتا۔ بغض و عناد رکھنے والے دشمن کا حکم اور ہے، غافل انسان کا حکم اور ہے۔ البتہ غافل کو بھی بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔
میں آپ نوجوانوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ ایران کو سنوارنے کے لئے یعنی اپنی قوم، اپنے وطن اور اپنی تاریخ کو سرخرو کرنے کے لئے بھی اور اسلام کی رو سے عائد اپنے فرائض پر بحسن و خوبی عمل کرنے کے لئے بھی، یہ حقیقت ہے کہ آج جو بھی اسلامی مملکت ایران کی سربلندی کے لئے جانفشانی کرے، اس نے اپنے وطن کی بھی خدمت کی ہے، اپنی قوم کی بھی خدمت کی ہے اور اپنی تاریخ کی بھی خدمت کی ہے اور اس کے ساتھ ہی اس نے دین اسلام کی بھی خدمت کی ہے جو مایہ نجات بشریت ہے، آپ بیدار رہئے، ہوشیار رہئے، ہمیشہ میدان عمل میں موجود رہئے، بصیرت کو اپنے تمام کاموں کا محور بنائیے۔ محتاط رہئے کہ بے بصیرتی میں گرفتار نہ جائیے۔
دشمن کو پہچانئے۔ دشمن کی ظاہر شکل کے فریب میں نہ آئیے۔ مادہ پرستی، مادی رجحان، مادی فکر، مادی تہذیب، انسانیت کی بھی دشمن ہے اور آپ کی بھی دشمن ہے۔ مغربی دنیا کو دو تین صدی قبل اعلی سطحی علم و دانش اور ٹکنالوجی حاصل ہوئی۔ اسے دولت و ثروت حاصل کرنے اور زراندوزی کا راستہ معلوم ہو گیا۔ مختلف سماجی مکاتب فکر معرض وجود میں آئے، مختلف فلسفیانہ مکاتب فکر پیدا ہو گئے۔ جیسے ہیومنزم کے نظرئے پر استوار لبرلزم وغیرہ۔ ان مکاتب فکر اور ان کا سنگ بنیاد رکھنے والے افراد کا نصب العین یہ تھا کہ انسان کو رفاہ و آسائش اور چین و سکون سے بہرہ مند بنائیں لیکن عملی طور پر جو نتیجہ سامنے آیا وہ اس کے عین مخالف تھا۔ ہیومنزم اور دیگر مکاتب فکر کے زیر سایہ بشر کو نہ صرف یہ کہ انسانیت سے محروم رہنا پڑا، رفاہ و آسائش سے محروم رہنا پڑا بلکہ انسانوں کے خلاف سب سے زیادہ جنگیں، سب سے زیادہ قتل عام، بدترین قسی القلبی، مذموم ترین اقدامات اسی دور میں انجام پائے۔
اس میدان میں جو جتنا پیشرفتہ تھا اس کے اقدامات اتنے ہی مذموم تھے۔ میں نے کل اخبار میں امریکی ذرائع کے حوالے سے یہ خبر پڑھی کہ امریکا نے چالیس کے عشرے سے لیکر نوے کے عشرے تک یعنی پچاس سال کے عرصے میں دنیا میں 80 فوجی بغاوتیں کروائيں۔ آپ غور کیجئے کہ یہ افراد جو دولت و ثروت، سائنس و ٹکنالوجی، ہتھیار، ساز و سامان اور نہیں معلوم کس کس شعبے میں نقطہ اوج پر ہیں، ان کے وحشی پنے کا یہ عالم ہے! انسانوں کا قتل ان کے لئے بڑی عام سی بات ہے۔ یہ قسی القلبی کی دلیل ہے۔ صرف افغانستان میں نہیں، صرف عراق میں نہیں اور صرف ان علاقوں میں نہیں جہاں انہوں نے جنگی فتوحات حاصل کی ہیں، خود ان کے اپنے معاشرے میں بھی یہی صورت حال ہے۔ آپ ان کی ادب کی کتابوں کا مطالعہ کیجئے جو زندگی کے حقائق کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان کا فن اور ان کا ادب ان کے زندگی کے کوائف اور حقائق کا آئینہ ہے۔ انسان کا قتل کر دینا ان کے لئے بڑا آسان کام ہے۔ دوسری طرف ان کے عوام کے درمیان، ان کے نوجوانوں میں، قنوطیت، مایوسی چھائی ہے، زندگی کے سماجی آداب و اطوار کے خلاف بغاوت نظر آتی ہے۔ ان کے لباس کا انداز، ان کی آرائش کا طریقہ سب کچھ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ معاشرے کا نوجوان اپنے ماحول سے تنگ آ چکا ہے۔ یہ ان مکاتب فکر اور نظاموں کا ثمرہ ہے جس کی بنیاد مغرب والوں نے رکھی۔ اس سب کی وجہ یہ ہے کہ وہ دین سے، روحانیت سے اور اللہ سے دور ہو گئے۔ نتیجے میں ان کی رفتار و گفتار انسانیت مخالف ہو گئی۔
آج آپ ان کے بالکل برخلاف سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ آپ دینی اور الہی فکر کے ساتھ علم و دانش کی چوٹیاں سر کرنا چاہتے ہیں۔ آپ اپنی قوم اور دنیا کی اقوام کی مادی و روحانی فلاح و بہبود کے لئے اور بشر کے مادی و معنوی کمال کے لئے فطری اور انسانی وسائل کو جمع کر رہے ہیں۔ آپ کی سمت اللہ کو پسند آنے والی سمت ہے، آپ کو یقینی طور پر کامیابی ملے گی، آپ کو یقینی طور پر پیشرفت حاصل ہوگی۔ یہ در حقیقت مغرب کی جانب سے شروع ہوکر دو تین صدیوں تک جاری رہنے والی منحرفانہ مہم کے بالکل مخالف سمت میں بڑھنے والی تحریک ہے۔ یہ مقدس تحریک ہے جو جاری رہے گی۔
مسلم ایرانی نوجوان خود کو آمادہ کرے، خود کو آراستہ کرے، پیشرفت و ارتقاء کے سفر میں اللہ تعالی کی ذات پر توکل کرے، اللہ سے طلب نصرت کرے، بصیرت کے ساتھ آگے بڑھے۔ ایسا کرنے کی صورت میں دنیا میں رائج و حکمفرما غلط روش کا سامنا کرنے کا کارساز طریقہ اسے مل جائے گا اور رہ اسلام و انقلاب کی جانب سے طے پانے والے اہداف و مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
 
و السّلام عليكم و رحمة اللَّه و بركاته‌

 

1) نهج‌البلاغه، خطبه‌ نمبر 103
2) نهج‌البلاغه، خطبه‌ نمبر 153
3) نمل: 14
4) حاضرین کے فلک شگاف نعرے
5) نهج‌البلاغه، خطبه‌ نمبر 50
6) نهج‌البلاغه، خطبه‌ نمبر 3