بسم اللہ الرحمن الرحیم
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا ابی القاسم المصطفیٰ محمّد و علی آلہ الطیبین الطاھرین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین.
خوش آمدید برادران عزیز! خواہران عزیز۔ میں محترم امام جمعہ اور سپاہ کے محترم کمانڈر کی باتوں اور جو متن انھوں نے پڑھا اس کے لیے شکر گزار ہوں، متن اچھا بھی تھا، پرمغز اور پرمعنی بھی تھا، بہت شکریہ۔
کرمانشاہ ہمارے ملک کے نمایاں مقامات میں سے ایک ہے۔ اگر انقلاب اور جنگ وغیرہ کی سرگرمیوں کو الگ رکھا جائے تو بنیادی طور پر کرمانشاہ، مختلف مذاہب اور مختلف قوموں کے اجتماع کا مقام اور ایک دوسرے کے ساتھ پرسکون اور شرافت مندانہ طریقے سے زندگي گزارنے کی جگہ ہے، یہ کرمانشاہ کی صورتحال ہے۔ یہ ساری کمیونٹیز، اس صوبے کے تمام حصوں میں، صوبے کی انھی قدرتی حدود میں، اب جغرافیائي لحاظ سے ہم اس کا نام کیا رکھتے ہیں، یہ اہم نہیں ہے، اس خطے میں اور اس علاقے میں ملک کے سچی اور پرعزم سرحدی محافظ تھیں۔ یہ کرمانشاہ کی ایک اجمالی تعریف ہے۔
میرا جو بھی حافظہ ہے اور کرمانشاہ کے بارے میں میری جو بھی معلومات ہیں، وہ ہر اس شخص کے لیے خوشی اور مسرت کا سبب ہیں جسے ان کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔ میں نے کرمانشاہ کو جنگ کے زمانے میں بھی دیکھا ہے اور جنگ شروع ہونے سے پہلے کرمانشاہ آ کر عوامی اقدامات کو بھی دیکھا ہے۔ کسی بائیس بہمن (11 فروری انقلاب کی سالگرہ) کو میں کرمانشاہ میں تھا۔ جنگ کے دوران کرمانشاہ کے مختلف شہروں، خود کرمانشاہ شہر، مغربی گيلان، مغربی اسلام آباد، پاوہ اور دوسری جگہوں کو میں نے دیکھا ہے۔ یہ ملّا قادر صاحب(2) اس وقت پاوہ میں ایک نوجوان ماموستا (استاد) تھے اور شہید بزرگوار مرحوم اشرفی اصفہانی صاحب(3) کہ ان جیسے لوگ واقعی باعث افتخار ہیں؛ مرحوم اشرفی ضعیف تھے لیکن مجاہدت کرنے والے اور مضبوط ارادے کے مالک تھے۔ اسی طرح کرمانشاہ کے لوگ، جو خود انھی کی رائج اصطلاح میں حقیقت میں "پہلوان" تھے، دفاع کے لیے آمادہ اور سینہ سپر کیے ہوئے تھے۔ بحمد اللہ کرمانشاہ کے سلسلے میں ہماری ساری یادیں، بڑی نمایاں اور شیریں ہیں۔
مقدس دفاع کے دوران اور اس سے پہلے، انقلاب کے اوائل میں جب ملک کے اس مغربی علاقے میں جھڑپیں شروع ہوئيں، تو کرمانشاہ فرنٹ لائن پر تھا، یعنی وہ پہلا گروہ جو غدار علیحدگي پسندوں سے لڑنے کے لیے کردستان کے علاقے میں گيا اور آگے بڑھا، وہ کرمانشاہ سے گيا تھا۔ پہلا گروہ کرمانشاہ کے نوجوانوں کا تھا جو بر موقع اور بالکل صحیح وقت پر یہ سمجھ گيا تھا کہ معاملہ کیا ہے۔ ہم اس وقت دیکھتے تھے ان واقعات کو جو وہاں رونما ہوتے تھے، تہران میں کچھ لوگ تھے جو بالکل بھی یہ بات نہیں سمجھتے تھے کہ اس واقعے کا کیا مطلب ہے، وہ اسے ایک عام عوامی اقدام کے طور پر دیکھتے تھے، وہ اس واقعے کے پیچھے سرگرم ہاتھوں اور ان سنگين واقعات کو نہیں دیکھ پاتے تھے جو ممکنہ طور پر یہ واقعہ ملک کے لیے پیدا کر سکتا تھا۔ کرمانشاہ کے دلیر جوانوں نے اسے دیکھ لیا، بالکل شروع میں ہی وہ اکٹھا ہو گئے اور اس سے مقابلے اور لڑنے کے لیے نکل پڑے۔ جنگ کے زمانے میں بھی ایسا ہی تھا، سنہ 1981 کے اواسط میں ہونے والی اس خطرناک بمباری میں کرمانشاہ کے بعض شہر خالی ہو گئے تھے، میں وہاں جاتا تھا، شہر خالی ہو گئے تھے، بعض شہر ایسے تھے کہ گلی اور سڑک پر کوئي دکھائي نہیں دیتا تھا لیکن لوگوں نے استقامت سے کام لیا، انھوں نے دوسری جگہوں سے وہاں پہچنے والے مجاہدین کی بخوبی پذیرائي کی، ان سے تعاون کیا، فوجی یونٹس تیار کیں، شہیدوں کا نذرانہ بھی پیش کیا، محترم کمانڈر نے شہیدوں کے نام بتائے، البتہ انھوں نے صرف ان بعض شہیدوں کے نام لیے جو نمایاں تھے۔
خیر تو اب ہم ہیں اور ان شہیدوں کا ورثہ ہے، ہم ہیں اور ان شہیدوں کی یادیں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ آج ہم ان مومن اور مخلص جوانوں کی اس عظیم خدمت سے ملک اور اسلام کے لیے کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں، کیا کر سکتے ہیں؟ ان جوانوں نے ایک دن اپنے سینے کو ڈھال بنا دیا اور دشمن کو اس سرزمین پر جارحیت کی اجازت نہیں دی، انھوں نے ان صحراؤں میں، ان فلک بوس پہاڑوں پر اور ان انتہائي دشوار حالات میں استقامت دکھائي، مزاحمت کی۔ میں بھول نہیں سکتا کہ ہم اس سڑک کے کنارے سے گزر رہے تھے، برآفتاب پہاڑ ہماری داہنی طرف تھا، جب ہماری نظر اس پہاڑ پر پڑتی تھی اور ہم جانتے تھے کہ دشمن کا اصل مرکز اس پہاڑ کے اوپر ہے تو دل پر چوٹ لگتی تھی کہ یہ حساس جگہیں ملک کے دشمن کے کنٹرول میں ہیں۔ تو ان حالات میں یہ جوان ڈٹ گئے، کرمانشاہ کے جوان بھی اور دوسری جگہوں سے کرمانشاہ پہنچنے اور وہاں کے محاذوں میں شامل ہونے والے جوان بھی، کچھ جوان شہید ہوئے، کچھ نے اعضائے جسمانی کا نذرانہ پیش کیا۔ خود آپ کے اس صوبے کے لگ بھگ دس ہزار لوگ شہید ہوئے، اس سے دو تین گنا زیادہ کے اعضائے جسمانی کو نقصان پہنچا۔ تو اُس وقت انھوں نے اپنے کام بخوبی انجام دیا، اب کیا ہونا چاہیے؟ کیا اس وقت ملک کو ان جوانوں کے وجود کی، جن کا جسم اگرچہ نہیں ہے لیکن ان کی حقیقت باقی ہے، ضرورت نہیں ہے؟ یا اس وقت بھی ان کی ضرورت ہے؟
میں کہتا ہوں کہ آج ملک کو ان جوانوں کی ضرورت، جنگ کے دن سے کم نہیں ہے۔ ہمیں آج ان کی ضرورت ہے، کیوں؟ اس لیے کہ اُس وقت دشمن کی جنگ ایک پوری طرح سے واضح اور آشکار ہارڈ وار تھی، آج ایک ہائبرڈ جنگ ہے، اس میں ہارڈ وار کا پہلو بھی ہے، سافٹ وار کا پہلو بھی ہے، یہ جسمانی جنگ بھی ہے، نفسیاتی جنگ بھی ہے۔ آج دشمن اس طرح جنگ کر رہا ہے۔ آتشیں ہتھیاروں وغیرہ سے بھی جنگ ہے، جب اسے وہ ضروری سمجھتے ہیں اور ثقافت کے ہتھیار سے بھی جنگ ہے۔ آج ہمارے ملک کی صورتحال اس طرح کی ہے۔ ہم مضبوط ہیں، آج ہم، اُس وقت کی نسبت سو گنا زیادہ مضبوط ہو چکے ہیں، اس میں شک نہ کیجیے۔ آج ہمارا بحمد اللہ اور خدا کی توفیق سے اس وقت کی نسبت بالکل بھی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت دشمن تہران پر، ملک کے مرکز پر میزائل فائر کرتا تھا، ہم زیادہ سے زیادہ مثال کے طور پر 155 کی توپ سے بصرہ پر فائر کر سکتے تھے جو ہم نہیں کرتے تھے، کیونکہ وہاں آبادی تھی، لوگ رہتے تھے، ہم وہاں حملہ نہیں کرتے تھے، آج ایسا نہیں ہے۔ آج آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ صورتحال دوسری طرح کی ہے۔ ہم زیادہ مضبوط ہو گئے ہیں لیکن دشمن کی سازشیں زیادہ پیچیدہ ہو گئي ہیں، یہ اہم بات ہے۔ آج صرف یہ بات کافی نہیں ہے کہ ہم فوجی جنگ کے میدان میں موجود رہیں، کام کریں، کوشش کریں اور میزائل بنائيں۔ جی ہاں! ہم نے ان میدانوں میں بڑی اچھی پیشرفت کی ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے، ہمیں اپنے دلوں پر، اپنی روحوں پر، اپنی زبانوں پر، اپنے موقف پر کام کرنا چاہیے۔
جب ہم کہتے ہیں کہ "ہمیں کام کرنا چاہیے" تو "ہم" سے مراد کون ہے؟ اس "ہم" میں، جس میں پوری قوم شامل ہے، کون سب سے زیادہ مؤثر ہے؟ جوان؛ جوان زیادہ مؤثر ہیں۔ یعنی ہمارے آج کے جوان اور ہماری آئندہ نسل، میدان جنگ میں اس وقت شہید کی موجودگي اور اس کے ذریعے کیے گئے اس کام کی قدر و اہمیت کی گہرائي سے واقف ہے یا نہیں؟ کیا ہمارا آج کا جوان، اس اخلاص کو، اس ایثار کو، اس اسلامی اخلاق کو اور شریعت کے مطابق کیے جانے والے اس عمل کو صحیح طریقے سے جان چکا ہے، سمجھ چکا ہے اور سمجھتا ہے یا نہیں جنھیں اس وقت ہمارے جوان میدان جنگ میں انجام دے رہے تھے؟ ان سوالوں کا جواب آپ کو دینا ہے۔ ان کانفرنسوں کو ان سوالوں کا جواب دینا چاہیے اور اگر اس میں کوئي کمی ہے تو اسے پورا کرنا چاہیے۔
ہمارے اُس وقت کے جوان گویا انسانی ڈھانچے سے باہر نکل گئے تھے۔ آپ دنیا کی جنگوں پر نظر دوڑائيے، فلمیں بھی دیکھیے، کہانیاں بھی دیکھیے اور پڑھیے، دنیا کی مختلف جنگوں کے بارے میں ہزاروں فلمیں اور کہانیاں لکھی گئي ہیں، لڑنے والا میدان جنگ میں ایک لاپرواہ انسان ہوتا ہے، ہر طرح کی قیدوبند سے آزاد ہوتا ہے اور اگر اس کے لیے ممکن ہو تو وہ اپنے نفس کے لیے ہر غلط کام کرنے کو تیار رہتا ہے۔ جب دشمن اس کے ہاتھ لگتا ہے اور وہ اس شہر کو فتح کر لیتا ہے تو اس کے لیے تباہی مچانا اور قتل کرنا ایک معمولی اور عام کام ہوتا ہے، دنیا میں لڑنے والے فوجی اسی طرح کے تو ہوتے ہیں۔ آپ اس کا موازنہ کیجیے ہمارے مجاہد سے کہ اگر وہ کسی جگہ محاصرے میں آ جاتا ہے اور اس تک کھانا اور روٹی وغیرہ نہیں پہنچی اور وہاں پر کوئي دکان ہے جس میں بسکٹ ہے تو وہ مجبوری میں وہ بسکٹ کھا لیتا ہے لیکن ولی فقیہ سے اجازت بھی لیتا ہے اور کاغذ پر اس دکاندار کے لیے لکھ بھی دیتا ہے کہ میں نے بسکٹ کھایا ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو کہانیاں نہیں ہیں، انھیں ہم نے دیکھا ہے، میں نے ان چیزوں کو دیکھا ہے، مشاہدہ کیا ہے، مجھے خبر ہے۔ ہمارے جوان کچھ عرصے کے لیے سوسنگرد میں محاصرے میں آ گئے تھے، ان تک کوئي بھی چیز نہیں پہنچ رہی تھی، وہ بھوکے تھے، دکانیں کھانے پینے کی چیزوں، ڈبہ بند غذاؤں وغیرہ سے بھری ہوئي تھیں، وہ انھیں ہاتھ بھی نہیں لگاتے تھے، کہتے تھے امام خمینی کی جانب سے اس کی اجازت ملنی چاہیے۔ ہم اہواز سے بار بار کہتے تھے، اصرار کرتے تھے لے لیجیے، کھا لیجیے لیکن وہ نہیں کھاتے تھے! اس کا مطلب کیا ہے؟ یہ تقویٰ، یہ پرہیزگاری، یہ خوف خدا، یہ اخلاص، یہ خلوص آپ کو کہاں ملے گا؟ یہ بات ہمارے آج کے جوان کو معلوم ہونی چاہیے، یہ چیز آپ اسے دکھائيے۔ اسے نمایاں کیجیے اور دکھائيے: روحانیت و معنویت کے میدان میں، نیت میں، عمل کے میدان میں اور اسی طرح کی دوسری باتوں میں ہمارے جانباز جوان اور جنگ لڑنے والے دنیا کے دوسرے جوانوں کے درمیان موازنہ۔ یہ باتیں جو ہم نے بارہا کہی ہیں، سنی ہیں اور دوہرائي گئي ہیں کہ ہمارا جانباز اپنے ساتھی کے لیے قربانی دیتا ہے، یہ باتیں رونما ہو چکی ہیں۔ وہ جو پیاسا ہے، پانی نہیں پیتا ہے تاکہ اس کا ساتھی پیاسا نہ رہ جائے اور وہ خود پیاسا سے شہید ہو جاتا ہے، دنیا سے چلا جاتا ہے، یہ باتیں اہم ہیں۔
آپ لوگوں نے جو کام کیے ہیں، جنھیں محترم کمانڈر(4) نے اختصار سے پر مغز طریقے سے بیان کیا، بہت اچھے کام ہیں، یہ سب اچھے کام ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سارے کام کس لیے ہیں؟ اثر ڈالنے کے لیے ہی تو ہیں۔ ان کاموں کے نتائج پر غور کیجیے، دیکھیے کہ آپ کی کتاب کو کتنے لوگوں نے پڑھا ہے، کتنے لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے، کتنے لوگوں نے اس سے نوٹس تیار کیے ہیں، کتنے لوگوں نے اس شہید کی نمایاں خصوصیات کو، جس کا آپ نے اس کتاب میں تعارف کرایا ہے، اپنی ڈائری میں نوٹ کیا ہے تاکہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں، ان باتوں پر غور کیجیے، ان پر کام کیجیے، انھیں اہمیت دیجیے۔ آپ کے کام کے مخاطَب جوان ہیں، آپ یہ جو سارے کام کر رہے ہیں، انھیں جوانوں پر اثرانداز ہونا چاہیے۔ البتہ یہ کام گرانقدر ہیں، اگر یہ ان کاموں کی شکل نہ ہوگي تو ان کا کوئي مطلب نہیں ہوگا، جیسے خود ہمارا وجود کہ اگر ہمارا جسم نہ ہو اور اس میں قوت نہ ہو تو روحانی کام بھی انجام نہیں پائے گا، انجام پانا چاہیے۔ پیروں سے مسجد میں جانا چاہیے، ہاتھ سے دوسرے کی مدد کرنی چاہیے، بنابریں ان کاموں کا جسم اچھا ہے لیکن ان کاموں کی روح پر توجہ دیجیے۔ اس کی روح "اثر" ہے۔ آپ نے اپنے کاموں کے لیے جو ہدف طے کر رکھا ہے، ان شاء اللہ اس کے لیے صحیح نتیجہ سامنے آنا چاہیے۔
بہرحال ہم آپ کی کوششوں کے لیے، آپ جو اچھے کام کر رہے ہیں ان کے لیے، آپ جو زحمتیں اٹھا رہے ہیں، ان کے لیے آپ کے شکر گزار ہیں، ان شاء اللہ خداوند متعال آپ کی کوششوں کو قبول کرے اور کرمانشاہ کے لوگوں کو روز بروز زیادہ نئی کامیابیاں عطا کرے۔ کرمانشاہ کے لوگوں میں جو یہ اتحاد پایا جاتا ہے، اس کا زیادہ تر سہرا بزرگ علماء کے سر ہے، یہی علماء حضرات، عزیز حضرات جنھوں نے وہاں زحمتیں اٹھائيں، کام کیا، کوشش کی، یہ بہت گرانقدر ہے اور وہ یہ اچھا ماحول وجود میں لانے میں کامیاب رہے۔
و السّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ