17 اکتوبر کا دن صیہونی حکومت کے چنگل سے اپنی مقبوضہ اراضی کو آزاد کرانے کی فلسطینیوں کی سات عشرے سے زیادہ کی تاریخ میں امر ہو گيا۔ یہ وہ دن تھا جس میں ایک مرد میدان کمانڈر دشمن کے ساتھ دو بدو جنگ کرتے ہوئے مجاہدین، حریت پسندوں اور حق پسندوں کا لازوال آئيڈیل بن گيا۔ یحییٰ ابراہیم حسن السنوار، وہ مرد میدان، جن کے سرنگوں میں چھپے ہونے کا دشمن جھوٹا پروپیگنڈہ کر رہا تھا لیکن دنیا نے انھیں دشمن کے ساتھ جنگ کی فرنٹ لائن پر اور صیہونی فوج کے ٹھکانوں سے صرف 600 میٹر کے فاصلے پر دیکھا اور سبھی نے واضح طور پر دیکھا کہ گہرے زحم ہونے کے باوجود انھوں نے اپنے پاس موجود لکڑی کے ایک معمولی سے ٹکڑے کو بھی آخری لمحے تک دشمن سے مقابلے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ ابو ابراہیم سنوار، وہ مجاہد کمانڈر ہیں جن کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی نے کہا: "وہ مزاحمت و جہاد کا درخشاں چہرہ تھے جو فولادی عزم کے ساتھ ظالم و جارح دشمن کے مد مقابل ڈٹے رہے، مدبرانہ کوششوں اور شجاعت سے اس کے منہ پر طمانچہ مارا۔"(1)
تاریخ میں درج ہو گيا کہ جس مرد نے17 اکتوبر 2024 کو اسرائيلی کواڈ کاپٹر کو گھورتے ہوئے "کون میرے مقابلے پر آئے گا؟" کا نعرہ لگایا تھا، وہ وہی تھا جس نے دشمن کے لیے 7 اکتوبر کا ڈراؤنا خواب رقم کیا تھا اور یہ اپنی حریت پسندانہ جدوجہد کے کئي عشروں میں شہید سنوار کی سب سے بڑی یادگار اور عظیم کارنامہ تھا۔ شہید سنوار نے اپنی زندگي میں اور 7 اکتوبر سے پہلے ایک طوفان کا وعدہ کیا تھا، ان کا یہ وعدہ، وعدۂ صادق تھا جو دنیا کی آنکھوں کے سامنے پورا ہوا۔
"آتون بطوفان ھادر" (ہم ایک تباہ کن طوفان کے ساتھ آئیں گے) یہ وہ جملہ ہے جو 14 دسمبر 2022 کو اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کی تشکیل کی پینتیسویں سالگرہ کے جشن کے انعقاد کے اسٹیج پر ایک بینر پر لکھا ہوا تھا۔ حماس کے مرحوم رہنما شہید یحییٰ سنوار نے، جو اس پروگرام کے اصل مقرر تھے، اپنی بات اسی جملے کو استعمال کرتے ہوئے شروع کی تھی: "سلام و درود ہو تباہ کن طوفان کے علمبرداروں پر۔" انھوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی پشت پر موجود تصویر اور اس عبارت کی طرف اشارہ کیا تھا۔(2)
اس دن کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ شہید سنوار کی جانب سے ایک چھوٹا سا اشارہ اور چند الفاظ پر مشتمل ایک جملہ، اس آپریشن کا کوڈ ورڈ ہے جو 7 اکتوبر 2023 کو حماس نے "طوفان الاقصیٰ" کے نام سے شروع کیا تھا اور جس نے صیہونی حکومت اور اس کے اتحادیوں کے سیکورٹی اور انٹیلی جنس سسٹموں کو مذاق بنا کر رکھ دیا تھا۔
اکتوبر 1962 سے لے کر اکتوبر 2023 تک
شہید ابو ابراہیم 29 اکتوبر 1962 کو جنوبی غزہ پٹی میں واقع خان یونس کے ایک پناہ گزیں کیمپ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ وہ یونیورسٹی کی اسلامی یونین کے سرگرم کارکنوں میں سے ایک تھے۔ سنہ 1982 میں بیس سال کی عمر میں وہ پہلی بار صیہونیت مخالف سرگرمیوں کے سبب چار مہینے کے لیے جیل بھیجے گئے۔ شہید سنوار، جنھوں نے سنہ 1986 میں شیخ احمد یاسین کے حکم پر ایک جاسوسی مخالف نیٹ ورک بنایا تھا، صیہونی حکومت کی سیکورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے رڈار پر آ گئے اور ان پر زیادہ نظر رکھی جانے لگي۔ دو اسرائيلی فوجیوں کو اغوا اور قتل کرنے کے الزام میں انھیں چار بار عمر قید (426 سال جیل) کی سزا سنائي گئي تھی۔(3)
شہید سنوار قید کے دوران حماس کی قیدیوں کی قیادت کی انجمن کے رہبر بنے اور انھوں نے سنہ 1992، 1996، 2000، اور 2004 میں بھوک ہڑتال کے ذریعے صیہونیوں سے فلسطینی قیدیوں کے مقابلے کی قیادت و رہنمائي کی۔
قید کے ناگفتہ بہ حالات اور چار بار عمر قید کی سزا سنائے جانے کے باوجود انھوں نے عبرانی زبان سیکھی تاکہ صیہونیوں کے طرز فکر اور ان کی روش سے آشنا ہو سکیں۔ سنہ 2011 میں صیہونی فوجی گلعاد شالیت کے بدلے، جسے سنہ 2008 میں مزاحمت کے ایک آپریشن میں قید کیا گيا تھا، ایک ہزار سے زیادہ فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کے عمل میں آخرکار یحییٰ سنوار صیہونی قید سے رہا ہو گئے۔(4) شہید سنوار، جنھیں صیہونی ہمیشہ "طوفان الاقصیٰ آپریشن" کا ماسٹر مائنڈ بتاتے تھے، 17 اکتوبر 2024 کو صیہونی دشمن سے دو بدو لڑائي میں شجاعت کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہو گئے(5) اور اس طرح انھیں وہ چیز حاصل ہو گئي جس کے وہ برسوں سے منتظر تھے؛ شہادت! انھوں نے اس سے پہلے اور سنہ 2021 میں انھیں قتل کرنے کی صیہونیوں کی دھمکی کے جواب میں کہا تھا: "غاصب مجھے جو سب سے بڑا تحفہ دے سکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ مجھے شہید کر دیں۔"(6)
شہید نصر اللہ اور "وعدۂ صادق"؛ 29 جنوری 2004 سے لے کر 8 اکتوبر 2023 تک
29 جنوری 2004 کو جرمن حکومت کا ائير بس A310 نوعیت کا ایک طیارہ، جس نے کولون کے قریب واقع ایک فوجی اڈے سے پرواز کی تھی، بیروت انٹرنیشنل ائيرپورٹ پر لینڈ ہوا۔ اس طیارے میں کچھ غیر فلسطینی قیدی تھے جو جرمنی کی ثالثی میں حزب اللہ اور اسرائيل کے درمیان ہونے والے اتفاق رائے سے رہا ہوئے تھے۔
مزاحمت کے یہ رہا شدہ افراد ائيرپورٹ پر استقبال کے بعد بیروت کے ضاحیہ علاقے پہنچے تاکہ جشن آزادی میں شرکت کر سکیں۔ یہ جشن بڑی تعداد میں عوام کی شرکت سے منعقد ہوا جس میں لوگوں نے مزاحمت کے پرچم اٹھا رکھے تھے اور اسی طرح سنہ 2000 میں تین صیہونی فوجیوں کو پکڑنے کے آپریشن کی ایک بڑی تصویر لگي ہوئي تھی اور ساتھ ہی سمیر قنطار کی ایک تصویر بھی تھی جو 26 سال سے صیہونی جیل میں قید تھے۔ یہ وہ بات تھی جس کی طرف حزب اللہ لبنان کے مرحوم سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے اپنی ایک تقریر میں اشارہ کیا اور سمیر قنطار اور مزاحمت کے دیگر قیدیوں کی رہائي کے لیے تین آپشن پیش کیے جن میں سے آخری آپشن، مزاحمت کا تھا۔ شہید حسن نصر اللہ نے اپنی پشت پر موجود تصویر کی اس طرح تشریح کی: "تیسرا آپشن، مزاحمت کا آپشن ہے۔ اسلامی مزاحمت کے مجاہدوں کے نام پر میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگلی بار وہ اسرائيلی فوجیوں کے ساتھ زندہ آئيں گے، سمیر قنطار اور دیگر قیدی بھائي، فداکاری کے لیے سزاوار ہیں اور ہم قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔"
اگلے ڈھائي سال سے بھی کم کے عرصے میں 12 جولائي 2006 کو شہید نصر اللہ نے اپنے وعدے کو جامۂ عمل پہنا دیا اور شہید عماد مغنیہ کی کمان میں حزب اللہ کے مجاہدوں نے دو اسرائيلی فوجیوں کو زندہ پکڑ لیا۔ اس آپریشن کا نام "الوعد الصادق" رکھا گيا تھا اور سنہ 2008 میں یہ آپریشن نتیجہ خیز ثابت ہوا اور تبادلے کے عمل میں، سمیر قنطار سمیت بہت سے لبنانی اور فلسطینی قیدی رہا ہوئے۔
اسی طرح سید مزاحمت سید حسن نصر اللہ نے طوفان الاقصیٰ کے شجاعانہ آپریشن کے بعد صیہونیوں کے مقابلے میں فلسطینی عوام اور فلسطینی مزاحمت کی پشت پناہی کا وعدہ کیا تھا اور ا س بار انھوں نے اپنے اس وعدۂ صادق کو عملی جامہ پہنانے کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کر دیا۔ شہید نصر اللہ نے اپنی شہادت سے پہلے بارہا زور دے کر کہا تھا کہ لبنان کی اسلامی مزاحمت کسی بھی حال میں غزہ کے عوام اور مزاحمت کی حمایت ترک نہیں کرے گي۔ انھوں نے ٹھوس الفاظ میں کہا تھا: "ہم غزہ کی پشت پناہی نہیں چھوڑیں گے، چاہے اس کے لیے ہمیں کوئي بھی قیمت چکانی پڑے۔"(7) یہ پشت پناہی بھی شہید نصر اللہ کا وعدۂ صادق تھا جس پر وہ اپنی زندگي کے آخری دن یعنی 28 ستمبر 2024 تک قائم رہے اور اب ان کی شہادت کے بعد ان کی راہ پر چلنے والے، اسی راستے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
[1] https://arabic.khamenei.ir/news/8933