بسم اللَّه الرّحمن الرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى القاسم محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين المنتجبين الهداة المهديّين المعصومين سيّما بقيّة اللَّه فى الأرضين.
السّلام عليك ايّتها السّيّدة يا فاطمة المعصومة يا بنت موسى بن جعفر عليك و على ابائك الطّيّبين الطّاهرين المعصومين افضل الصّلاة و السّلام.
یہ ملاقات جو، دار العلوم قم کے ممتاز اساتذہ، فضلائے کرام اور طلاب عزیز کی موجودگی کی بنا پر انتہائی با عظمت بن گئی ہے، جو حضرت امام علی رضا علیہ آلاف التحیۃ و الثناء کی ولادت با سعادت اسی طرح آپ کی خواہر گرامی حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہ کی ولادت کے مبارک و مسعود موقعے پر انجام پائی ہے، ہمیں ان دونوں بھائي بہنوں کی عظیم اور با برکت مہم اور دونوں کی انتہائي با مقصد ہجرت کی یاد دلاتی ہے۔ بلا شبہ ملت ایران کی تاریخ میں اور اہل تشیع کی تاریخ میں یہ انتہائی موثر اور تعمیری مہم واقع ہوئی ہے۔
یقینا حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا قم میں جو کردار ہے اور جس طرح اس تاریخی و مذہبی شہر کو عظمت ملی ہے اس میں تو کسی کو کوئي کلام نہیں ہے۔ اس عظیم خاتون نے، اہل بیت اطہار کی آغوش میں پلنے والی اس نوجوان خاتون نے ائمہ معصومین علیہم السلام کے عقیدتمندوں اور دوست داروں کے درمیاں اپنی سرگرمیوں سے اور پورے سفر کے دوران، اسی طرح اس علاقے میں پہنچنے اور قم میں قیام پذیر ہونے کے بعد اہل بیت پیغمبر علیہم السلام کی ولایت و معرفت کا جو چمن لگایا اس کے نتیجے میں یہ شہر جابر حکمرانوں کی حکمرانی کے اس تاریک اور ظلمانی دور میں بھی معارف و علوم اہل بیت کے مرکز کی حیثیت سے ضوفشاں ہوا اور اہل بیت اطہار کے علم و معرفت کے نور سے تمام دنیائے اسلام اور مشرق و مغرب میں روشنی پھیلنے لگی۔ آج بھی عالم اسلام کے علم و معرفت کا مرکز شہر قم ہے۔ آج بھی اسی دور کی مانند قم وہ دھڑکتا ہوا دل ہے جو معرفت و بصیرت اور بیداری و آگاہی کا خون امت اسلامیہ کے عظیم پیکر کے ہر حصے میں پہنچا رہا ہے، اس کا یہی کردار ہونا بھی چاہئے۔
اس ابتدائی دور میں مکتب تشیع اور پیروان اہل بیت اطہار کی فقہ اور علوم دینی کی کتابیں قم میں لکھی گئیں۔ علماء، فقہاء اور محدثین کے لئے ماخذ کا کام کرنے والی اہم ترین کتابیں شہر قم میں دار العلوم کے اندر لکھی گئیں۔ محمد بن احمد بن یحیی کی کتاب نوادر الحکمہ، صفار کی کتاب بصائر الدرجات، علی ابن بابویہ قمی کی کتاب الشرائع، برقی کی کتاب محاسن، احمد بن محمد بن عیسی کی کتابیں اور دیگر درجنوں بلکہ سیکڑوں کتابیں علم و معرفت کے اسی گہوارے میں منصہ ظہور میں آئیں۔ یہاں وہ شخصیتیں پیدا ہوئیں کہ عالم اسلام کہ جس گوشے میں بھی ان کا جانا ہوا وہاں ان کی محفل، محفل فیوضات و برکات قرار پائی۔ شیخ صدوق رضوان اللہ تعالی علیہ جو اس عظیم مہم کی تیسری اور چوتھی نسل سے تعلق رکھتے تھے، جب بغداد گئے جو مرکز تشیع اور مرکز حدیث و روایت تھا تو ان کی نشست علماء اور فضلائے کرام کی آماجگاہ بن گئی اور سب نے خوب کسب فیض کیا۔ چنانچہ آپ دیکھئے کہ شیخ صدوق، شیخ مفید رضوان اللہ علہیما کے استاد ہیں۔ بنابریں قم ایک اہم مرکز بن گيا۔
آج بھی قم ایک اہم مرکز ہے۔ یہاں برسہا برس سے دسیوں ہزار عاشق پروانے معارف اہل بیت پیغمبر کی شمع کے گرد محو پرواز ہیں، علم حاصل کر رہے ہیں، معرفت حاصل کر رہے ہیں، گوناگوں مشکلات کا مقابلہ کرتے ہیں لیکن ان کی نگاہیں عظیم روحانی اہداف پر مرکوز رہتی ہیں اور مشکلات کو ذرہ برابر خاطر میں لائے بغیر آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ دنیا میں بہت کم ہی شہر ایسے ہوں گے بلکہ شاید دنیا میں کوئی بھی شہر ایسا نہ ہوگا جہاں اس کثیر تعداد میں مرد اور عورتیں دینی علوم، معرفت و معنویت اور اخلاقیات کے موتی چننے کے لئے شب و روز سعی پیہم میں مشغول ہوں، روحانی، علمی اور ثقافتی جفاکشی میں غرق ہوں۔ تو یہ قم کے علمی مرکز کی موجودہ تصویر ہے جو دنیا میں ممتاز ہے اور یہ اس شہر کا ماضی ہے کہ اہل تشیع کا پہلا دینی علوم کا بنیادی مرکز اس شہر میں قائم ہوا اور شیخ کلینی و شیخ صدوق جیسی عظیم ہستیوں نے اس چشمہ پرفیض سے کسب فیض کیا، جن کی علمی کاوشیں صدیوں تک اہل بیت اطہار علیہم السلام کے علوم و معارف کی محافظ و ضامن بنی رہیں۔
دینی علوم کے مراکز بالخصوص قم کا دینی علوم کا مرکز تاریخ کے کسی بھی دور میں اس طرح پوری دنیا اور عالمی رائے عامہ کی توجہ کا مرکز نہیں بنا جیسا آج ہے۔ عالمی سیاست میں بلکہ یوں کہا جائے کہ عالمی اور بین الاقوامی سطح کے تقدیر ساز امور میں یہ آج جتنا موثر کبھی نہیں تھا۔ قم کے دینی علوم کے مرکز کے دوستوں اور دشمنوں کی اتنی بڑی تعداد کبھی نہیں رہی۔ آج قم کے حوزہ علمیہ سے وابستہ آپ حضرات کے چاہنے والوں کی تعداد ہر دور سے زیادہ ہے اور اس کے ساتھ ہی آپ کے دشمن بھی خطرناک اور بہت زیادہ ہیں۔ دینی علوم کے مراکز میں سب سے اہم مقام کا حامل حوزہ علمیہ قم آج اتنی حساس اور اہم پوزیشن میں ہے۔
یہاں پر میں یہ مغالطہ بھی دور کر دوں کہ ممکن ہے کہ بعض لوگ یہ کہیں کہ اگر دینی علوم کے مراکز عالمی مسائل، سیاسی مسائل اور چیلنجوں میں وارد نہ ہوئے ہوتے تو ان کے دشمنوں کی تعداد اتنی زیادہ نہ ہوتی بلکہ ان کا احترام قائم رہتا۔ یہ غلط فہمی ہے۔ کوئی بھی جماعت، کوئی بھی ادارہ اور کوئی بھی اہم تنظیم گوشہ نشینی، کنارہ کشی اور لا تعلقی کی وجہ سے کبھی بھی رائے عامہ کے نزدیک قابل احترام قرار نہیں پائی ہے اور نہ آئندہ قابل احترام بن پائے گی۔ لا تعلق رہ کر صرف اپنے آرام و آسائش کی فکر کرنے والے اور چیلنجوں سے دامن بچانے والے اداروں اور مراکز کا احترام صرف دکھاوٹی ہوتا ہے، یہ ایسا احترام ہے جو تصاویر یا مجسموں کے لئے دیکھنے میں آتا ہے۔ اسے حقیقی احترام نہیں کہا جا سکتا۔ بسا اوقات تو یہ احترام اہانت آمیز بھی ہوتا ہے۔ ظاہری طور پر یہ احترام کرنے والے اندر ہی اندر اس کی تحقیر کر رہے ہوتے ہیں۔ جو چیز گرمی حیات رکھتی ہے، سرگرم عمل ہے، دوسروں پر اپنے اثرات مرتب کرتی ہے حقیقت میں اس کا احترام ہوتا ہے، دوستوں کے دلوں میں بھی اور دشمنوں کے دلوں میں بھی۔ دشمن عناد بھی رکھتا ہے لیکن اس کی تعظیم بھی کرتا ہے اور دل ہی دل میں اسے محترم بھی سمجھتا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ قم کا دینی علوم کا مرکز ہو یا دوسرا کوئی دار العلوم ہو، کنارہ کشی اور لا تعلقی کی صورت میں اس کا وجود ہی ختم ہوکر رہ جائے گا۔ سیاسی و سماجی امور اور اہم چیلنجوں سے دور رہنے کی صورت میں وہ بتدریج حاشئے پر چلے جائیں گے، فراموش کر دیئے جائیں گے اور الگ تھلگ ہوکر رہ جائيں گے۔ شیعہ علمائے کرام کچھ وقتی اور ذاتی استثنائات کو چھوڑ کر ہمیشہ بڑے واقعات میں موثر کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شیعہ علماء کا ہمیشہ معاشرے میں خاص اثر و نفوذ رہا ہے جس کی مثال دنیا کے دیگر مکاتب کے علماء کے ہاں نہیں ملتی خواہ وہ اسلامی مکاتب ہوں یا غیر اسلامی مکاتب۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر علمائے دین حاشئے پر رہتے، سب سے الگ تھلگ ہوکر رہ جاتے تو دین کو نقصان پہنچتا۔ علماء دین کے سپاہی ہیں، دین کے خدمت گزار ہیں، دین سے ہٹ کر وہ اپنا کوئی وجود سمجھتے ہی نہیں۔ اگر علماء بنیادی مسائل اور ان میں سرفہرست عظیم اسلامی انقلاب سے کنارہ کشی کر لیتے، ان کے سلسلے میں لا تعلق رہتے تو یقینی طور پر دین کو نقصان پہنچتا جبکہ علماء کا نصب العین دین کی حفاظت کرنا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ اگر میدان عمل میں موجودگی دشمنی و عناد کا باعث بنتی ہے تو یہ دشمنیاں سرانجام خیر و عافیت کا باعث بنیں گی۔ انہیں دشمنیوں کو دیکھ کر لوگوں میں غیرت و حمیت کے جذبات برانگیختہ ہوتے ہیں اور مردہ دلوں میں نئی جان پڑ جانے کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ جب جب علماء کے خلاف یا دین کے خلاف مخاصمت و عناد کا عنصر سامنے آیا ہے بیدار مغز اور آگاہ افراد کی جانب سے تب تب تعمیری حرکت شروع ہوئی ہے۔ ایک دفعہ میں نے ایک اجتماع میں کہا کہ ایک متعصب مصنف کی جانب سے اہل تشیع کے خلاف لکھی جانے والی ایک کتاب، اہل تشیع کی کئی اہم اور ماخذ کا درجہ رکھنے والی کتب کی تصنیف و اشاعت کا باعث بن گئی۔ اسی شہر قم میں اگر ایک منحرف فکر کا انسان الحادی اور وہابی افکار کے امتزاج پر مبنیاسرار ہزار سالہ کتاب نہ لکھتا تو ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کچھ عرصے کے لئے درس و تدریس کا سلسلہ بند کرکے کشف الاسرار کتاب نہ لکھتے۔ (امام خمینی کی) اس کتاب میں اسلامی حکومت اور ولی امر مسلمین کے نظریئے کے ابتدائی آثار اور اس نظریئے کی اہمیت صاف طور پر نظر آتی ہے۔ اس فقہی اور شیعی نظریئے کی تدوین نو عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی کتاب کشف الاسرار میں بالکل عیاں ہے۔ اگر سنہ انیس سو چالیس کے عشرے کے دوران اور انیس سو پچاس کے عشرے کے ابتدائی ایام میں مارکسسٹ نظریات اور بائیں بازو کی (دین مخالف) سرگرمیاں نہ ہوتیں تو اصول فلسفہ و روش ریئلزم جیسی یادگار کتاب نہ لکھی گئی ہوتی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ دشمنیاں ہمارے نقصان میں نہیں رہیں۔ جب بھی معاندانہ اقدامات کئے گئے دینی علوم کے اس مرکز نے اس کا جواب دیا، اس طرح ایک موقع ہاتھ آیا۔ دشمنیوں سے مواقع پیدا ہوتے ہیں لیکن تب جب ہم بیدار ہیں، جب ہمارے اندر گرمی حیات موجود ہے اور ہم غافل نہیں ہیں۔
(شاہ ایران) رضاخان کے دور میں علمائے کرام کے خلاف جو معاندانہ مہم چلی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سید ابوالحسن اصفہانی مرحوم رضوان اللہ تعالی علیہ جیسے عظیم مرجع تقلید نے دینی جرائد اور رسالوں پر رقوم شرعیہ صرف کرنے کی اجازت دی جو ایک بے مثال اقدام تھا، اس زمانے میں بھی اسے بڑی حیرت کی نگاہ سے دیکھا گیا تھا۔ (خمس کی رقم کے) سہم امام سے دینی جرائد اور رسالوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اسی رقم کی مدد سے دینی مراکز قائم ہوئے۔ یعنی سید اصفہانی رضوان اللہ تعالی علیہ جیسی شخصیت نے لوگوں کے تصور کے بالکل برخلاف ایران اور عالم تشیع کے ثقافتی اور سماجی امور کو اتنی اہمیت دی اور ان امور پر رقوم شرعیہ صرف کرنے کی اجازت دے دی۔ ظاہر ہے کہ اس طرح اہم مواقع پیدا ہوئے۔ دشمنیوں کے نتیجے میں اس طرح کے اہم مواقع پیدا ہو جاتے ہیں۔
چوتھی بات یہ ہے کہ اگر بنیادی مسائل اور چیلنجوں سے علمائے کرام لا تعلق اور کنارہ کش رہیں گے تو اس کا یہ نتیجہ ہرگز نہیں ہوگا کہ دین کے دشمن اور علمائے کرام کے دشمن خاموش ہوکر بیٹھ جائیں گے۔ و من نام لم ینم عنہ (1) اگر شیعہ علمائے کرام ان مخاصمانہ اقدامات پر جو ان کے خلاف انجام دیئے جاتے ہیں خاموشی اختیار کر لیں، اپنی ذمہ داری کا احساس نہ کریں، میدان میں وارد نہ ہوں، اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ نہ کریں، اپنے دوش پر عائد اہم فریضہ پورا نہ کریں اس سے یہ ہرگز نہیں ہوگا کہ دشمن اپنی معاندانہ حرکتیں روک دے۔ بلکہ اس کے بالکل برخلاف اسے جیسے ہی ہماری کمزوری کا احساس ہوا اس نے اور بھی گستاخیاں شروع کر دیں۔ جب اس نے ہمیں پسپائی اختیار کرتے دیکھا تو اس نے اپنی سرگرمیاں اور تیز کر دیں اور آگے بڑھنے لگا۔ مغرب والوں کو دنیائے ظلم و استکبار کا مقابلہ کرنے پر قادر شیعہ مکتب فکر کی عظیم فکری صلاحیتوں کا بہت پہلے ہی اندازہ ہو گیا تھا، عراق میں جو قضیہ پیش آیا اس سے اور تنباکونوشی کے خلاف چلائي جانے والی تحریک سے۔ لہذا وہ خاموش ہونے والے نہیں ہیں۔ وہ اپنی جارحیت، اپنی پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ علماء اور دینی علوم کے مرکز کی خاموشی اس بات کا باعث نہیں بنے گي کہ دشمن اپنی معاندانہ حرکتیں بند کر دے۔ بنابریں حوزہ علمیہ کا سرگرم عمل رہنا، عالمی واقعات و تغیرات کے سلسلے میں لا تعلق نہ رہنا، عالمی و بین الاقوامی چیلنجز سے غافل نہ رہنا ایک اہم ضرورت ہے۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد دو غلط اور گمراہ کن باتیں ان افراد کی طرف سے پھیلائی گئیں جو علمائے دین کے بھی بدخواہ تھے اور اسلامی انقلاب کو بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ دشمن نے یہ دو باتیں بلکہ دو تہمتیں حربے کے طور پر استعمال کیں۔ ایک ہے ملاؤں کی حکومت کی بات۔ کہتے ہیں کہ ایران میں ملاؤں کی حکومت ہے، علمائے دین کی حکومت ہے۔ اسے لکھا گیا، کہا گیا، اس کی بار بار تشہیر کی گئی۔ دوسری بات تھی سرکاری مولوی کی۔ انہوں نے علماء کو سرکاری اور غیر سرکاری میں تقسیم کر دیا۔ یہ دونوں غلط اور گمراہ کن موضوعات اٹھانے کے پیچھے دشمن کا مقصد یہ تھا کہ ایک تو اسلامی نظام کو علمائے دین کی عظیم فکری، نظری، علمی و استدلالی پشت پناہی سے محروم کر دیا جائے، دوسرے یہ کہ فرض شناس علماء کو، انقلابی علماء کو میدان عمل میں سرگرم علماء کو جو دشمنوں کے مقابل سینہ سپر ہوکر کھڑے ہیں بخیال خویش تنہا اور بدنام کر دے۔ یعنی یہ تاثر عام کرنے کی کوشش کی گئی کہ علماء میں کچھ سرکاری ہیں جو برے ہیں، کچھ غیر سرکاری ہیں جو اچھے اور مثبت ہیں۔
اسلامی نظام سے علمائے دین کی نسبت بالکل واضح اور عیاں ہے۔ اسلامی نظام سے علمائے کرام اور دینی علوم کے مراکز کی نسبت حمایت اور نصیحت پر استوار ہے۔ نصیحت کے ساتھ ساتھ حمایت اور اصلاح کے ساتھ ساتھ دفاع، میں اس کی تشریح کروں گا۔ تو یہ جو دو تہمتیں لگائی گئیں وہ واقعی گمراہ کن اور معاندانہ تھیں۔ کیونکہ ملاؤں کی حکومت کی بات کرنا اور اسلامی جمہوریہ کو یہ نسبت دینا بالکل غلط بات ہے۔ اسلامی جمہوریہ در حقیقت اقدار کی حکمرانی کا نام ہے، اسلام کی حکمرانی سے عبارت ہے، شریعت کی بالادستی سے عبارت ہے، فقہ کی حکومت سے عبارت ہے، یہ دینی علماء کی حکومت نہیں ہے۔ حکومتی عہدہ حاصل کرنے کے لئے عالم دین ہونا کافی نہیں ہے۔ دنیا میں ملاؤں کی جو حکومتیں ہم دیکھتے ہیں، جو ماضی میں بھی تھیں اور آج بھی بعض خطوں میں ہیں، اسلامی جمہوریہ ماہیت و حقیقت کے لحاظ سے ان سے بالکل مختلف ہے۔ اسلامی جمہوریہ میں دینی اقدار کی حکمرانی ہے۔ ممکن ہے کہ کسی عالم دین میں ایسی اقدار پائي جاتی ہوں جن کی بنا پر وہ دوسرے علماء سے ممتاز ہو تو اسے ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ کوئی عالم دین ہے تو اس کو اسی بنا پر نااہل قرار دے دیا جائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صرف عالم دین ہونا اہلیت کی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی عالم دین ہونے کے جرم میں کسی کو نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ دین کی حکومت ہے، کسی خاص صنف کی حکومت نہیں، کسی خاص گروہ کی حکومت نہیں۔ علماء کو سرکاری اور غیر سرکاری میں تقسیم کرنا اور ایک کو اچھا اور دوسرے کو برا قرار دینا بھی فاش غلطی ہے۔ حکومتی عہدہ سنبھالنا یا دوسرا کوئی عہدہ لینا اگر حصول دنیا کے لئے ہے تو برا ہے، اگر خواہشات نفس کی تسکین کے لئے ہے تو برا ہے۔ یہ حکومتی عہدے سے ہی مخصوص نہیں ہے۔ ہم اگر ایک ہدف کی جانب بڑھ رہے ہیں اور ہمارا مطمح نظر خواہشات کی تکمیل ہے، ذاتی مفادات کا حصول ہے تو یہ اقدار کے منافی چیز ہے۔ یہ دنیا میں غرق ہو جانے کا مصداق ہے جس کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے کہ «الفقهاء امناء الرّسل ما لم يدخلوا فى الدّنيا»؛(2) یہ حکومت میں شامل ہونے سے مخصوص نہیں ہے۔ اگر نصب العین دنیا ہے تو مذموم ہے، سرکاری اور غیر سرکاری کا اس میں کوئي فرق نہیں ہے۔ اس کے بر خلاف اگر حکومتی عہدہ معنوی و روحانی ہدف کے تحت قبول کیا جائے، الہی ہدف کے تحت قبول کیا جائے تو یہ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کا بہترین مصداق ہے، یہ مجاہدت کا بہترین مصداق ہے۔ یہ تو سنگین ذمہ داریوں کو دوش پر اٹھانے کا مصداق ہے۔ اگر سرکاری عالم دین ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو دین کی ترویج کے لئے، شرعی فرائض کی انجام دہی کے لئے، خوشنودی خدا کے لئے اسلامی نظام کی حمایت کرتا ہے یا حکام کا دفاع کرتا ہے تو یہ قابل قدر بات ہے، یہ کوئی منفی چیز نہیں ہے۔ بلکہ اس کے بر عکس ہونا بری اور منفی چیز ہے۔ بنابریں یہ دونوں ہی باتیں یعنی ملاؤں کی حکومت اور سرکاری عالم دین، درست نہیں ہیں۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی نظام کی تشکیل کے بعد پھیلائي جانے والی یہ دونوں باتیں مغالطہ آمیز اور گمران کن ہیں۔ یہ باتیں اس انقلاب کی ثقافت سے میل نہیں کھاتیں۔
ان کے مقابلے میں دو حقیقتیں ہیں، دو اہم باتیں ہیں جن کا شمار اقدار میں ہوتا ہے۔ ایک حقیقت تو یہ ہے کہ اسلامی نظام کو علمی و فکری میدان میں علمائے دین اور دینی علوم کے مراکز کی ضرورت اور ان کی علمی کاوشوں کی حاجت ہے۔ یہ نظام حوزہ علمیہ پر تکیہ کئے ہوئے ہیں، علمائے دین کا سہارا لئے ہوئے ہے اور دینی اہل نظر افراد کے تعاون کا خواہاں ہے۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ دینی علوم کا مرکز اور علمائے دین اسلامی نطام سے لا تعلق نہیں ہیں۔ کوئي بھی عالم دین، کوئی بھی مذہبی رہنما، اسلام کا کوئی بھی خادم اس نظام سے لا تعلق اور بیگانہ نہیں رہ سکتا جو اسلام کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا ہے اور اسلامی فکر و جذبے کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور کام کر رہا ہے۔ یہ دوسری اہم حقیقت ہے۔
پہلی حقیقت یعنی یہ کہ اسلامی نظام کو دینی علوم کے مرکز کے سہارے کی ضرورت ہے، اس لئے ہے کہ اسلامی نظام میں سیاسی نظریہ پردازی اور ملک و قوم کا نظم و نسق چلانے کے لئے تمام متعلقہ شعبوں کی نظریہ پردازی کے لئے علمائے دین کی مدد کی ضرورت ہے۔ معاشی نظام کے سلسلے میں، مینیجمنٹ کے سلسلے میں، جنگ و صلح کے سلسلے میں، تربیتی اور دیگر امور کے سلسلے میں وہی افراد اسلامی نظریات کا تعین کر سکتے ہیں جو دین سے مکمل آشنائي رکھتے ہوں اور دینی امور کے ماہر ہوں۔ اب اگر نظریہ پردازی کی یہ جگہ خالی رہ گئی، اگر علمائے دین نے یہ ذمہ داری نہ سنبھالی تو مغربی نظریات، غیر دینی نظریات اور مادی نظریات ان کی جگہ لے لیں گے۔ کوئي بھی نظام اور کـوئی بھی سسٹم یہ خلا موجود ہونے کی صورت میں چل نہیں سکتا۔ کوئی اور انتظامی سسٹم، کوئي دوسرا اقتصادی نظام، کوئي الگ سیاسی نظام جو مادہ پرست اذہان کا تیار کردہ ہے اس کی جگہ لے لیگا۔ چنانچہ آپ دیکھئے کہ جہاں بھی یہ خلا پیدا ہوا، یہی نتیجہ سامنے آیا ہے۔
میں نے جو آرٹس کے موضوعات کے سلسلے میں، جو یونیورسٹیوں میں پڑھائے جا رہے ہیں اور ان میں زہر گھلا ہوا ہے، یونیورسٹیوں اور حکام کو انتباہات دیئے ہیں ان کی یہی وجہ ہے۔ آرٹس کے یہ موضوعات جو پڑھائے جا رہے ہیں ان میں ایسی باتیں بھی شامل ہیں جو ماہیت کے لحاظ سے اسلامی نظام اور اسلامی تحریک کے منافی ہیں۔ ان کا دار و مدار کسی اور آئيڈیالوجی پر ہے، ان کا پیغام کچھ اور ہے، ان کا ہدف کچھ اور ہے۔ جب یہ موضوعات رائج ہوں گے تو افراد کی تربیت بھی انہی کے پیرائے میں ہوگی اور یہی افراد آگے چل کر یونیورسٹیوں کی انتظامیہ میں شامل ہوں گے، ملکی معیشت کی ذمہ داری سنبھالیں گے، ملکی اور خارجہ پالیسی کی ذمہ داری سنبھالیں گے، امن و امان کے امور ان کے ہاتھ میں آئیں گے۔ علمائے دین اور دینی علوم کے مراکز وہ اہم سرمایہ ہیں جو ان شعبوں کے سلسلے میں اسلامی مآخذ سے اسلامی نظریات نکالیں، ان کا تعین کریں اور مہیا کرائیں تاکہ مختلف منصوبہ بندیوں کے لئے انہیں بنیاد قرار دیا جائے۔ تو معلوم ہوا کہ علمائے دین، اہل نظر علماء اسلامی نظام کا سرمایہ ہیں لہذا نظام کی بھی ذمہ داری ہے کہ دینی علوم کے مراکز کی حمایت اور مدد کرے کیونکہ اس کی تکیہ گاہ یہ مراکز ہیں۔
ملک اور قوم کے امور کو چلانے کے لئے اسلامی نظام کو دینی علوم کے مراکز کی ضرورت تو ہے ہی اس کے علاوہ بھی ایک اہم نکتہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اس وقت نئے نئے شبہات پھیلائے جا رہے ہیں اور ان شبہات کے ذریعے اسلامی نظام کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ دینی شبہات، سیاسی شبہات، اعتقادی شبہات اور دینی علوم سے متعلق شبہات معاشرے میں پھیلائے جا رہے ہیں، خاص طور پر نوجوان نسل کے اندر۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ فکر ایک ذہن سے دوسرے ذہن کو منتقل ہو اور رفتہ رفتہ اسلامی نظام کے پاس جو افرادی سرمایہ ہے ختم ہو جائے۔ ذہنوں میں اسلامی نظام کی اصلی بنیادوں کو مخدوش بنا دیا جائے۔
اسلامی نظام سے دشمنی برتی جا رہی ہے۔ لہذا ان شبہات کو برطرف کرنا، ان شبہات کا مقابلہ کرنا، معاشرے کی عام ذہنیت کی فضا سے اس غبار کو جھاڑنا بھی اسلامی نظام کی پشتپناہی اور حمایت کا کام ہے اور یہ کام علمائے دین انجام دے سکتے ہیں۔ بنابریں اسلامی نظام مختلف جہتوں اور پہلوؤں سے دینی علوم کے مراکز سے وابستہ محققین، مفکرین اور نظریہ پردازوں کا حاجتمند ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ دینی علوم کے مراکز خود بھی لا تعلق نہیں رہ سکتے۔ دینی علوم کے مراکز خاص طور پر قم کا حوزہ علمیہ اس نظام کا سرچشمہ ہے، اس نظام کو وجود میں لانے والا اور اس تحریک کو جنم دینے والا مرکز ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ ایک ماں اپنی اولاد سے، اپنے فرزند سے غافل رہے، اس کے سلسلے میں بے حسی کا رویہ اختیار کر لے، ضرورت پڑنے پر بھی اس کا دفاع نہ کرے؟ یہ ممکن نہیں ہے۔ لہذا دینی علوم کے مراکز اور اسلامی نظام کے درمیان باہمی امداد اور باہمی حمایت و پشت پناہی کی نسبت ہے۔ اسلامی نظام حوزہ علمیہ کی حمایت کرتا ہے اور حوزہ علمیہ اسلامی نطام کی پشت پناہی کرتا ہے۔ دونوں تعاون کرتے ہیں، ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔
یہاں ایک مسئلہ موضوع بحث ہے، میں بھی اس پر گفتگو کرنا چاہوں گا اور اس کے بعد حوزہ علمیہ سے متعلق اور چند اہم مسائل کے بارے میں بھی بات کروں گا۔ یہ اہم مسئلہ ہے حوزہ کی آزادی و خود مختاری کا مسئلہ۔ دینی علوم کے مراکز کی اسلامی نظام کی جانب سے مدد اور پشت پناہی کی صورت میں دینی علوم کے مراکز کی خود مختاری اور آزادی متاثر ہوگی یا نہیں۔ یہ کام درست ہے یا نہیں؟ یہ بہت اہم بحث ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حوزہ علمیہ پوری تاریخ میں ہمیشہ آزاد رہا ہے۔ شیعہ مخالف حکومتوں کے ادوار میں ہی نہیں بلکہ شیعہ حکومتوں کے دور میں بھی۔ یعنی جس وقت صفوی حکام کے ہاتھوں میں زمام مملکت تھی اور محقق کرکی اور شیخ بہائی کے والد ماجد جیسی عظیم علمی شخصیتیں ایران آئیں اور انہیں مختلف دینی منصب دیئے گئے اس وقت بھی یہ علماء، ان کے شاگرد اور ان کی نگرانی میں تربیت پانے والے افراد کبھی بھی صفوی حکام کی سیاست کے تابع نہیں رہے اور کبھی بھی ان کے مطیع نہیں بنے۔ وہ مدد ضرور کرتے تھے، تعاون ضرور کرتے تھے، ان کی تعریف بھی کرتے تھے لیکن ان کے اختیار میں نہیں تھے۔ قاجاریہ دور میں بھی کچھ عرصے تک یہی صورت حال تھی۔ بزرگ عالم دین کاشف الغطاء رضوان اللہ تعالی علیہ ایران تشریف لائے اور انہوں نے کشف الغطاء کتاب تحریر فرمائی۔ انہوں نے اس کتاب کے مقدمے میں بھی اور ایران روس جنگوں کی مناسبت سے جہاد کی بحث میں بھی فتح علی شاہ کی بہت تعریف کی ہے لیکن یہ عظیم ہستی ایسی نہیں تھی جو فتح علی شاہ جیسے حکمرانوں کے مٹھی میں ہو۔ یہ علماء ہمیشہ آزاد رہے۔ میرزا قمی شہر قم میں اپنے گھر میں ہوتے تھے اور بادشاہ وقت آکر تعظیم و تکریم کرتا تھا لیکن کبھی بھی اس کی خواہشات کا آپ نے اتباع نہیں کیا۔ وہ بہت چاہتا تھا کہ میرزا قمی اس کی منشاء کے مطابق فتوی دیں لیکن آپ نے قبول نہیں کیا، ہرگز کسی دباؤ میں نہیں آئے۔ میرزا قمی کی ایک فقہی کتاب ہے رسالہ عباسیہ جس میں آپ نے جہاد کے باب میں اپنے فقہی نظریات بیان کئے ہیں۔ یہ کتاب چند سال قبل پہلی دفعہ شائع ہوئی۔ میرزا قمی سے تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ جہاد کے لئے وکالت یا نیابت کا اختیار دے دیں تا کہ ان کی طرف سے جہاد کیا جائے، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے جامع الشتات میں بھی یہ بات ذکر کی گئي ہے۔ لیکن آپ ہرگز دباؤ میں نہیں آئے اور اس درخواست کو قبل نہیں کیا۔ شیعہ علماء کی صنف ہمیشہ ایسی ہی رہی ہے، ہمیشہ آزاد رہی ہے اور حکمرانوں کی تابع نہیں بنی۔ آج بھی یہی عالم ہے اور آئندہ بھی انشاء اللہ یہ روش جاری رہے گی۔
البتہ یہاں بھی بہت احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے تا کہ ایک اور مغالطہ نہ پیدا ہو جائے۔ دینی مراکز کے آزاد رہنے سے یہ تصور نہ پیدا ہو کہ اسلامی نطام دینی علوم کے مراکز کی حمایت چھوڑ دے اور دینی علوم کے مراکز اسلامی نظام کی پشت پناہی کرنا ترک کر دیں۔ کچھ عناصر ہیں جو یہی چاہتے ہیں۔ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ دینی علوم کے مراکز کی آزادی کے نام پر اسلامی نظام اور دینی علوم کے مراکز کا رابطہ منقطع کر دیں۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ انحصار اور اطاعت الگ چیز ہے اور حمایت و تعاون ایک مختلف چیز ہے۔ یہ نظام حوزہ علمیہ کا احسانمند ہے اور اس کا فرض ہے کہ دینی علوم کے مراکز کی حمایت کرے۔ البتہ دینی طلباء کا خرچ قدیمی اور انتہائی با معنی روش کے مطابق عوام الناس کے ذریعے ہی چلے۔ لوگ آئیں اور رقوم شرعیہ دیں۔ یہ میرا نظریہ ہے۔
انسان اس روش اور روایتی انداز کی گہرائیوں کے بارے میں جو سو سال ڈیڑھ سو سال سے جاری ہے جتنا غور کرتا ہے اتنا ہی اسے یہ روش بامعنی اور اہم رموز کی حامل نظر آتی ہے۔ دینی علوم کے مراکز سے عوام کے رابطے کا راز یہی ہے، اسی وجہ سے ان میں اپنائیت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ عوام علمائے دین سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرتے لیکن خود کو دینی علوم کے مراکز اور علمائے دین کی مالی حمایت کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ یہی درست طریقہ بھی ہے۔
دینی علوم کے مراکز کے سامنے صرف معیشت کا مسئلہ نہیں ہے۔ دینی علوم کے مراکز میں کچھ ایسے اخراجات ہیں جو مسلمین کے بیت المال اور حکومتوں کی مدد کے بغیر پورے نہیں ہو سکتے۔ حکومتوں کا فرض ہے کہ یہ اخراجات پورے کریں اور کسی طرح کی مداخلت نہ کریں۔ مختلف شہروں میں امراء و سلاطین اور اہم ہستیوں نے دینی مدارس قائم کئے۔ شہر مشہد میں ایک دوسرے سے متصل تین مدارس تعمیر کئے گئے، مدرسہ نواب، مدرسہ باقریہ اور مدرسہ حاج حسن۔ تینوں کی تعمیر ایک صفوی بادشاہ کے دور میں اسی کے حکم پر یا اس کے کسی عہدیدار کے حکم پر عمل میں آئی۔ اس میں کوئی مضايقہ بھی نہیں ہے۔ مدرسہ باقریہ محقق سبزواری کی جائے تدریس تھی۔ ملا محمد باقر سبزواری جو صاحب کتاب ذخیرہ اور کفایہ ہیں، یہ مدرسہ بھی امراء نے بنوایا۔ اس میں کوئي حرج نہیں ہے۔ تو ضروری ہے کہ بجٹ فراہم کریں لیکن اس میں مداخلت نہ کریں۔ حوزہ علمیہ کو اسلامی نطام کی طرف سے مختلف اقسام کی حمایت حاصل ہے اور یہ ہونا بھی چاہئے بلکہ اس میں اضافہ کیا جانا چاہئے۔ یہ اسلامی نظام پر عائد فرائض میں شامل ہے۔ یہ سلسلہ صرف مادی پشت پناہی تک محدود نہیں ہے۔ اس وقت الحمد للہ دینی علوم کے مراکز سے تعلق رکھنے والے فضلائے کرام کے پاس اہم پلیٹ فارم ہیں، مراجع تقلید کے پاس اہم مراکز ہیں۔ یہی حمایت و پشت پناہی ہے۔ یہی اسلامی نظام کی طرف سے کی جانے والی حمایت ہے۔ اسلامی نظام کے لئے ضروری ہے کہ اس طرح کی پشت پناہی کرے، اس کی وجہ وہی رشتہ ہے جس کا ذکر کیا گيا۔ بنابریں مداخلت اور خود مختاری کے مسائل کو ان زمینی حقائق سے مخلوط نہیں کرنا چاہئے جو عملی طور پر موجود ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلامی نظام اور حوزہ علمیہ دو اہم سلسلے ہیں جو ایک دوسرے سے وابستہ اور متصل ہیں، دونوں کا مستقبل ایک دوسرے سے وابستہ ہے، یہ بات سب کے ذہن نشین رہنی چاہئے۔ اس وقت اس سرزمین پر اسلام اور علمائے دین کا مستقبل اسلامی نظام کے مستقبل سے جڑا ہوا ہے۔ اسلامی نظام پر اگر آج کوئی بھی آنچ آتی ہے تو یقینی طور پر اس کا سب سے زیادہ نقصان علمائے کرام اور اہل دین حضرات کو پہنچے گا۔ البتہ نظام زندہ ہے، نظام اپنے پیروں پر کھڑا ہے، یہ مقتدر نظام ہے، میں پورے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ یہ نطام پیش آنے والے تمام چیلنجوں پر غالب آتا جائے گا۔
ایک اور اہم مسئلہ جو سامنے ہے اور جس کے بارے میں واضح انداز میں بحث کی ضرورت ہے، دینی علوم کے مراکز میں تبدیلی اور اصلاحات کا مسئلہ ہے۔ کئی سال سے دینی علوم کے مراکز خاص طور پر حوزہ علمیہ قم میں تبدیلی کے مسئلے پر بحث چل رہی ہے۔ یہ تبدیلی ہے کیا؟ حوزہ علمیہ کیا کرنا چاہتا ہے جسے تغیر اور تبدیلی کا نام دیا جا رہا ہے؟ اگر اس تبدیلی سے ہم یہ مراد لیں کہ دینی مدارس کے جو بنیادی خطوط ہیں جیسے اجتہاد کی روش وغیرہ کی دگرگونی تو یقینی طور پر یہ ایک انحراف ہے۔ یہ تبدیلی ضرور ہے لیکن سقوط کی جانب بڑھنے والی تبدیلی ہے۔ اجتہاد کی جو روش اس وقت دینی علوم کے مراکز میں رائج ہے اور جس کی بنیاد پر علمائے کرام علمی کاوشیں انجام دے رہے ہیں وہ اجتہاد کی منطقی ترین اور انتہائی مستحکم روش ہے۔ اجتہاد کا دارومدار یقین اور حتمی علم پر ہے، آیات و روایات پر ہے۔ یعنی یہ روش ظن و گمان سے دور ہے اور استنباط کا یہ طریقہ علم و یقین پر استوار طریقہ ہے۔ خاص موارد میں ظن و گمان کو اگر مورد اعتناء قرار دیا گيا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان موارد میں بھی ظن و گمان کے حجت ہونے کی یقینی دلیلیں موجود ہیں۔ یہاں تک کہ شریعت کی طرف سے حتمی دلیل نہ ہونے کی صورت میں انسان کو عمل انجام دینے کی کیفیت بتانے والے اصول عملیہ کا اعتبار بھی یقینی ہونا چاہئے۔ جب تک یقینی دلیل کے ذریعے ان اصول عملیہ جیسے استصحاب، برائت، یا اشتغال کا لاگو ہونا ثابت نہ ہو جائے اس وقت تک اصول عملیہ پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے ثابت ہوا کہ فقہ میں استنباط کی ہماری روش براہ راست یا بالواسطہ یقین اور حتمی علم پر استوار ہوتی ہے۔
شیعہ مکتب فکر میں اجتہاد، غیر معتبر ظن و گمان پر تکیہ کرنے کا نام نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے قدیمی علمائے کرام نے اجتہاد بالرائے، غیر معتبر ظن و گمان پر مبنی اجتہاد جیسے قیاس، جیسے استحسان وغیرہ کی اصطلاحات کو استعمال کیا اور ان کے رد میں کتابیں لکھیں۔ الرد علی اصحاب الاجتہاد فی احکام کتاب میں اسماعیل بن ابو سہل نوبختی نے، کتاب ذریعہ میں سید مرتضی نے، اسی طرح دیگر متعدد علمائے کرام نے غیر معتبر ظن و گمان پر مبنی اجتہاد کو مسترد کیا ہے۔ یہ اجتہاد ناقابل قبول ہے۔ آج بھی اگر کسی بھی عنوان کے ساتھ کچھ لوگ یہ روش اختیار کر رہے ہیں تو وہ ناقابل قبول ہے۔ یہ باتیں کرنا کہ ہماری یہ چیز دنیا کو پسند نہیں ہے، ان فقہی باتوں کو اب دنیا میں کوئي نہیں مانتا، خواہ یہ باتیں صریحی طور پر نہ کہی جائیں لیکن کچھ لوگوں کے دل میں یہی خیال موجود ہے، اس طرح کی باتیں کرکے استنباط کے غلط طریقے کی جانب بڑھنا ناقابل قبول ہے۔
افسوس کا مقام ہے کہ بعض اوقات یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ آج کی نام نہاد مہذب دنیا کے پاس و لحاظ میں جو بنیادی طور پر مادی دنیا ہے، احکام شرعیہ کے استنباط میں بھی تصرف کر دیا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں، مادی طاقتوں کا دل جیتنے کے لئے مادی دنیا کے رائج امور ہی نہیں بلکہ مادی و استکباری طاقتوں کے طور طریقوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے، اسی کے مطابق فتوی دیا گيا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی پر امن ایٹمی سرگرمیاں اس لئے ممنوع ہیں کہ بڑی طاقتوں کو ان کے بارے میں شبہ ہے۔ یہ ان کی حماقت ہے کہ انہوں نے اس میں شبہ کیا ہے۔
اگر اجتہاد اپنی اسی صحیح روش پر جو قرآن و سنت پر استوار ہے اور صحیح اور نپے تلے منطقی انداز میں جاری رہے تو بہت بہتر ہے۔ اجتہاد سے اگر (مجتہدین ایک ہی مسئلے میں) الگ الگ نتیجے پر پہنچ رہے ہیں تب بھی یہ بالیدگی و فروغ کا باعث ہے۔ ہماری فقہ کی تاریخ میں مختلف مسائل کے بارے میں ہمارے فقہائے عظام کے الگ الگ نظریات رہے ہیں۔ شاگرد نے اپنے استاد کی رائے کے خلاف اپنا نظریہ پیش کیا اور اس شاگرد کے شاگرد نے اس کے خلاف رائے قائم کی، بہت سی باتیں بیان کی ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ پیشرفت و ارتقاء کا راستہ ہے۔ حوزہ علمیہ میں اجتہاد کی اس روش کو تقویت پہنچائی جانی چاہئے۔ اجتہاد صرف فقہ سے مختص نہیں ہے۔ علوم عقلیہ میں، جیسے فلسفہ و کلام میں ان افراد کا اجتہاد جنہیں ان علوم پر عبور حاصل ہے لازمی اور ضروری ہے۔ اگر یہ اجتہاد نہ ہو تو ہمارے اندر جمود کی کیفیت پیدا ہو جائے گی۔
دنیا میں فلسفہ و کلام اور فقہ کے میدانوں سے ہمارے دینی علوم کے مراکز کو غائب نہیں رہنا چاہئے۔ آج دنیا میں کتنے سوالات اور مسائل در پیش ہیں۔ ان پر حوزہ علمیہ کی جانب سے کیا جواب ہے؟ اسے غائب نہیں رہنا چاہئے، پیچھے نہیں رہنا چاہئے، یہ دونوں صورتیں نقصان دہ ہیں۔ نئی فکر کی ضرورت ہے، روز بروز سیلاب کی مانند سامنے آنے والی ضروریات کا جواب دیا جانا ضروری ہے۔ آپ کو اس کا جواب تلاش کرنا ہے۔ آپ کا جواب ان ضرورتوں کے مطابق ہو اور مختلف مکاتب فکر کی طرف سے آنے والے جوابات کو بھی مد نظر رکھ کر دیا جائے۔ اگر آپ ان کے جوابات سے غافل ہیں تو آپ کا جواب اپنا ہدف پورا نہیں کر سکے گا۔ آپ کو منطقی، مدلل اور اطمینان بخش جواب دینا ہے۔ یہ جوابات عالمی سطح پر پیش کئے جائیں۔ ہم نے عرض کیا کہ قم عالم اسلام کے کیلئے معرفت کا سرچشمہ ہے تو یہاں سے مسلسل (علم و معرفت کی) برآمدات کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ آج بحمد اللہ سب کے پاس تیز رفتار مواصلاتی ذرائع موجود ہیں کہ جن کے ذریعے آپ یہاں کوئی بات کہیں اور دنیا کے دوسرے سرے پر بیٹھے ہوئے لوگ اسی لمحہ اسے سن سکتے ہیں، ان سے استفادہ کریں۔
مختلف شعبوں میں آج بڑی ضرورتیں ہیں۔ اسلامی نطام کی سطح پر بھی، ملک کی سطح پر بھی اور عالمی سطح پر بھی۔ اسلام کی علمی روش، اسلام کی اقتصادی و سیاسی روش، فقہی اور قانونی امور جن کی بنیاد پر اقتصادی و سیاسی نظریات وجود میں آتے ہیں، تعلیم و تربیت کا نظام، اخلاقی و روحانی مفاہیم، وغیرہ وغیرہ بڑی دقت نطری کے ساتھ، علمی اور اطمینان بخش روش کے ساتھ عصری افکار و نظریات کو مد نظر رکھتے ہوئے مدون کئے جائیں اور انہیں روشناس کرایا جائے۔ یہ حوزہ علمیہ کا کام ہے۔ اجتہاد کے ذریعے اس پر عملدرآمد کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم نے یہ کام نہ کیا تو گویا ہم نے انسانی زندگی سے دین کو علاحدہ کرنے میں مدد کی ہے، گویا ہم نے اپنے ہاتھ سے علمائے دین کو تنہا اور الگ تھلگ کیا ہے۔ تو تبدیلی سے مراد یہ ہے، نئے نئے مسائل کے بارے میں اجتہادی کاوش اس تبدیلی کی بنیاد ہونا چاہئے۔
دوسرے موضوعات کے سلسلے میں بھی میں گفتگو کروں گا کہ تبدیلی کیا ہے؟ یا یوں کہا جائے کہ کیا صحیح تبدیلی ہے اور کیا غلط تبدیلی ہے۔ میرا کہنا یہ ہے اور میں اسے بار بار دوہراتا رہا ہوں، دینی علوم کے مراکز کے اساتذہ سے گفتگو میں بھی میں نے کہا ہے کہ تبدیلی اور دگرگونی ایک فطری چیز ہے جو خود بخود بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ آج مختلف شعبوں اور میدانوں میں کوئی (تبدیلی کو رونے والی) رکاوٹ اور دیوار نہیں ہے۔ تاہم ضروری ہے کہ اس تبدیلی پر نگرانی رکھی جائے، اسے صحیح سمت میں لے جایا جائے، یونہی چھوڑ نہ دیا جائے۔ اگر ہم نے یونہی چھوڑ دیا تو ہم بازی ہار جائيں گے۔ حوزہ علیہ کے بزرگ حضرات، مراجع تقلید، مفکرین، محققین اور علمائے افاضل کو چاہئے کہ کمر ہمت کسیں، اس تبدیلی کے لئے اچھی منصوبہ بندی کریں، اسے صحیح سمت دیں اور اس کی رہنمائی کریں۔ تبدیلی کے سلسلے میں ممکن ہے کہ غلط مفہوم اخذ کیا جائے جس سے سختی سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے۔ تبدیلی کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ دینی علوم کے مراکز میں تعلیم و تعلم کی انتہائی کارآمد اور نتیجہ بخش روش کو ترک کرکے اس کی جگہ یونیورسٹی کی تعلیمی روش کو اختیار کیا جائے۔ اس طرح کی تبدیلی سراسر غلط ہے، یہ آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے لوٹنے کے مترادف ہے۔
ہمارے مختلف روایتی انداز رفتہ رفتہ دنیا میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔ بعض لوگ تقلید کے طور پر یا جدت عمل کے طور پر ان طریقوں کو اختیار کر رہے ہیں۔ اب ہم یونیورسٹی میں رائج روش کو جو قدیمی مغربی روش سے ماخوذ ہے، رفتہ رفتہ دینی علوم کے مراکز میں بھی رائج کرنے لگيں تو یہ ہماری نظر میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں ہے۔ اگر یہ تبدیلی آتی ہے تو یقینا یہ پیچھے کی طرف پلٹنے جیسا اقدام ہوگا، ہم اس کے قائل نہیں ہیں۔ حوزہ علمیہ میں بہت اچھی روش رائج ہے جو زمانہ قدیم سے چلی آ رہی ہے، طلبہ کا پوری آزادی کے ساتھ استاد منتخب کرنے کا طریقہ۔ طالب علم جب حوزہ علمیہ میں آتا ہے تو اپنی پسند اور اپنی دلچسپی کے مطابق استاد تلاش کرتا ہے، اس کے درس میں شرکت کرتا ہے، اس سے تعلیم حاصل کرتا ہے۔ دینی طلباء کی سرگرمیوں کی بنیاد تفکر و تدبر ہے، رٹ لینا اور یاد کر لینا نہیں۔ رٹنے والی روش تو ہمارے تعلیم و تربیت کے شعبے کی ایک بڑی مصیبت ہے جس سے ہم مدتوں سے لڑ رہے ہیں، مقابلہ کر رہے ہیں تاہم اب تک یہ برطرف نہیں ہو سکی ہے، اسے برطرف کیا جانا ہے۔ دینی مدارس میں تعلیم کا روایتی انداز تدبر و تفکر پر استوار ہے۔ طالب علم درس کے لئے جاتا ہے تو پیشگي مطالعہ کرتا ہے، اپنے ذہن کو آمادہ کرتا ہے کہ استاد سے نئی باتیں سیکھے۔ درس کے بعد وہ اپنے کسی ساتھی کے ہمراہ اسی درس پر مباحثہ کرتا ہے۔ نتیجے میں یہ درس اس کے ذہن نشین ہو جاتا ہے۔ نجف اشرف کی طرح بعض جگہوں کے دینی مدارس میں استاد کے درس کے اعادے کی رسم تھی، قم میں یہ روش نہیں تھی اور اگر تھی بھی تو شاذ و نادر تھی۔ اس میں یہ ہوتا تھا کہ استاد کے درس کے بعد کوئی سینیئر اور فاضل طالب علم اسی درس کو ان طلبہ کے لئے جنہیں احتیاج ہوتی تھی دوہراتا تھا۔ اب آپ دیکھئے کہ یہ روش طالب علم اور متعلم کی معلومات اور علم و دانش کو کس قدر عمق اور وسعت عطا کرنے والی روش ہے؟! ان روشوں کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئے، ان کا چلا جانا بہت افسوس کی بات ہوگی۔
استاد کا احترام بھی بہت اہم نکتہ ہے۔ دینی علوم کے مراکز کی بڑی اچھی روایت استاد کی تعظیم کی رہی ہے، استاد کا خاص احترام کیا جاتا ہے۔ آداب المتعلمین ضبط تحریر میں لائے جاتے تھے کہ یہ معلوم ہو کہ استاد کے تعلق سے شاگرد کے کیا فرائض ہیں اور استاد کے حقوق کیا ہیں؟ اسی طرح استاد پر طالب علم کے کیا حقوق ہیں؟ ایسا نہیں ہوتا کہ استاد آئے اور اپنا لیکچر دیکر روانہ ہو جائے، نہیں۔ وہ شاگردوں کی باتیں سنتا تھا، ان پر توجہ دیتا تھا۔ یہ روش زمانہ قدیم سے چلی آ رہی ہے۔ خود ہمارے زمانے میں بھی بعض اساتذہ تھے، اب بھی بعض ہیں کہ درس کے بعد شاگرد استاد کے گھر تک ان کے ساتھ جاتا تھا، راستے میں سوال کرتا تھا، بحث کرتا تھا۔ بحث و مباحثے کی نشست، علمی و تحقیقی نشست، سوال و جواب کی نشست۔ یہ حوزہ علمیہ کی بڑی اہم روایات ہیں۔ دوسرے افراد ہماری یہ روش اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں، ایسے میں ہم آئیں انہیں تبدیل کرکے دوسروں کی پرانی اور متروک ہو چکی روشوں کو اپنا لیں؟! یہ روشیں باقی رہنی چاہئے، بلکہ ان کو تقویت پہنچائی جانی چاہئے۔ ان کو زد میں لانا تبدیلی نہیں ہے۔
مثبت تبدیلی میں ایک اور چیز جو بہت ضروری ہے، یہ ہے کہ ہم خود کو بھی اور اپنی علمی کاوشوں اور سرگرمیوں کو بھی احتیاج اور تقاضوں سے ہم آہنگ کریں، مطابقت دیں۔ ہمارے عوام الناس کو کچھ چیزوں کی ضرورت ہے، وہ ہم سے جواب چاہتے ہیں تو ہمیں چاہئے کہ ان کی یہ ضرورت پوری کریں۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کی معاشرے کو کوئی ضرورت نہیں رہ گئی ہے، اس شعبے میں بہت کام ہو چکا ہے، بڑی محنت کی جا چکی ہے تو اب ہم خود کو اس میں مصروف نہ کریں۔ یہ بہت اہم اور بنیادی چیزیں ہیں۔
ہم یونیورسٹیوں سے چاہتے ہیں کہ معاشرے کی ضروریات کے مطابق علمی سرگرمیاں انجام دیں۔ جب یونیورسٹی کے افراد، اساتذہ اور طلباء سے ہماری ملاقاتیں ہوتی ہیں تو ہم بار بار اس نکتے پر تاکید کرتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ آپ معاشرے کی ضرورت کے مطابق اپنے سبجیکٹ کا انتخاب کیجئے۔ پہلے دیکھ لیجئے کہ کس چیز کی ضرورت ہے۔ دینی مدارس میں اس کی اور بھی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور اہم مسئلہ حوزہ علمیہ کے اخلاقیات اور عادات و اطوار کا ہے۔ اگر تبدیلی کی جانی ہے تو اس پہلو کو مد نظر رکھ کر کی جانی چاہئے۔ اس سلسلے میں میں نے بیان کرنے کے لئے چند عناوین لکھے ہیں۔ استاد کی تعظیم کا مسئلہ ہے، حوزہ علمیہ میں اخلاقیات اور طرز سلوک کا اس سمت میں مرکوز ہونا ضروری ہے۔ اساتذہ کا احترام، فضلائے کرام کا احترام، خاص طور پر مراجع تقلید کا احترام۔ کوئی انسان آسانی سے مرجع تقلید نہیں بن جاتا۔ اس کے لئے بہت زیادہ صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔ اکثر و بیشتر مراجع تقلید کو دینی علوم کے مراکز کی علمی چوٹی قرار دیا جاتا ہے۔ بنابریں مراجع تقلید کا احترام باقی رہنا چاہئے، ان کی عزت کی جانی چاہئے۔
حوزہ علمیہ کے اخلاقیات اور طرز سلوک کے تحت ایک اور اہم مسئلہ روحانیت و معنویت سے فیضیاب ہونے اور تہذیب نفس انجام دینے کا مسئلہ ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ دینی مدارس کے طلبہ کو اس وقت ماضی سے زیادہ تہذیب نفس کی ضرورت ہے۔ سماجیات کے ماہرین اس کی تصدیق کریں گے۔ آج پوری دنیا میں دیکھنے میں آ رہا ہے کہ مادی نظام نے، مادی مشکلات نے اور مادہ پرستی نے نوجوانوں کے اعصاب کمزور کر دیئے ہیں، ان میں افسردگی اور قنوطیت کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ ان حالات میں نوجوانوں کی اس مشکل کی اکسیر روحانیت و اخلاقیات ہیں۔ آج آپ جو دیکھ رہے ہیں کہ عرفان و روحانیت کے نام پر جھوٹے مکاتب فکر رائج ہو رہے ہیں اور کچھ لوگ ان کی جانب کھنچتے جا رہے ہیں اس کی وجہ یہی ہے۔ بنابریں حوزہ علمیہ میں ہمارے طلبہ و طالبات کو تہذیب نفس کی ضرورت ہے۔
ہمارے پاس تہذیب نفس کے اعلی ترین مظاہر موجود ہیں۔ اسی قم میں الحاج میرزا جواد آقا ملکی مرحوم، علامہ طباطبائی مرحوم، آقائے بہجت مرحوم، آقائے بہاء الدینی مرحوم رضوان اللہ علیہ حوزہ علمیہ میں تہذیب نفس کے اعلی مظاہر ہیں۔ ان کا طرز عمل، ان کی زندگی کا مطالعہ، ان کی باتیں، ذہن انسانی کے لئے شفابخش اور سکون بخش ہیں، ان سے انسان کو طمانیت حاصل ہوتی ہے، روشنی ملتی ہے، دلوں میں اجالا ہو جاتا ہے۔ نجف اشرف میں ایسی برگزیدہ شخصیات موجود تھیں۔ آخوند ملا حسین قلی مرحوم کے شاگردوں کے سلسلے سے لیکر آقا قاضی مرحوم تک سب برگزیدہ شخصیات تھیں۔ یہاں سردست ان کے عرفانی و روحانی مکاتب فکر سے بحث کرنا مقصود نہیں ہے، یہ نظری بحثوں کا مقام نہیں ہے۔ ان کے عرفانی مکاتب فکر مختلف بھی ہوتے تھے۔ سید مرتضی کشمیری مرحوم رضوان اللہ تعالی علیہ میرزا علی آقا قاضی کے اساتذہ میں سے تھے لیکن دونوں کے عرفانی مکاتب فکر ایک دوسرے سے بالکل الگ تھے۔ ایک کی نظر میں ایک کتاب ایسی تھی جسے اپنے پاس رکھنا درست نہیں تھا تو دوسرا اس کتاب سے خاص عقیدت رکھتا تھا۔ اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے۔ مشہد میں بھی جو عرفاء گزرے ہیں وہ ایسے لوگ تھے جو اپنے تقوے اور پرہیزگاری کے لئے جانے جاتے تھے۔ الحاج میرزا جواد آقا تہرانی مرحوم، الحاج شیخ مجتبی مرحوم وغیرہ بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ مقصود یہ ہے کہ اس زنگ زدہ دل کو کوئی روحانی کلام، دل کی گہرائيوں سے نکلنے والی کوئی بات جلاء عطا کر دے، اس دل کو صیقل کر دے۔ یعنی یہاں ہماری بحث عرفان نظری سے نہیں ہے۔
حوزہ علمیہ میں طرز سلوک اور اخلاقیات کی بحث میں ایک اور اہم مسئلہ انقلابی افکار و رجحانات کا ہے۔ میرے عزیزو! ملک کے انقلابی افاضل کے کینہ توز دشمن موجود ہیں، گہرا عناد رکھنے والے دشمن موجود ہیں۔ ملک میں انقلابی فضلائے کرام کی بالادستی کے مخالف ہیں، اس ماحول کو بدل دینے کے در پے ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ ایک زمانے میں شہادت پر سوال اٹھائے جانے لگے، جہاد کو زیر سوال لایا جانے لگا، شہید پر انگلیاں اٹھنے لگیں، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے نظریات پر سوالیہ نشان لگائے جانے لگے۔ پیغمبروں تک پے اعتراض کیا جانے لگا۔ یہاں مسئلہ یہ نہیں ہے کہ فلاں شخص اس نظریئے کا مخالف ہے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ اس مخالفت کو دشمن کی نظر کے مطابق معاشرے میں عام کیا جائے، ذہن سازی کی جائے اور انقلابی ماحول کو ختم کر دیا جائے۔ حوزہ علمیہ میں سب کو اس نکتے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ معاشرے میں اس طرح کی صورت حال ہے، دینی مدارس میں بھی یقینا اس طرح کی چیزیں ہیں۔ ان افراد کو معلوم ہے کہ عالم دین اکیلا نہیں ہوتا، اس کی بات سننے والے کچھ لوگ ہوتے ہیں، اس سے عقیدت رکھنے والے کچھ لوگ ضرور ہوتے ہیں لہذا اس کی بات کا اپنے گرد و پیش کے افراد پر اثر پڑتا ہے۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ انقلاب کا یہ ماحول ختم ہو جائے اور جو انقلابی علماء ہیں وہ تنہا ہوکر رہ جائیں۔ رضاکار فورس بسیج کی توہین کرنا، شہید کی توہین کرنا، شہادت کی توہین کرنا، قوم کے طویل جہاد پر سوالیہ نشان لگانا، اگر یہ چیزیں دینی مدارس میں بھی ہونے لگیں تو یہ بہت بڑا المیہ ہوگا۔ حوزہ علمیہ کے عمائدین کو چاہئے کہ اس سلسلے میں محتاط رہیں، ان چیزوں کا سد باب کریں۔
ایک نکتہ حوزہ علمیہ کے انقلابی اور پرجوش نوجوانوں کے تعلق سے عرض کرنا ہے، حوزہ علمیہ کے طلباء میں مجموعی طور پر یہی انقلابی نوجوان ہیں۔ میرے عزیزو! مستقبل آپ کا ہے، ملک کی امیدیں آپ سے وابستہ ہیں، آپ بہت محتاط رہئے۔ یہ صحیح ہے کہ نوجوان انقلابی طالب علم، اہل عمل بھی ہے، بہت فعال بھی نظر آتا ہے، تساہلی برتنے والا نہیں ہے لیکن پھر بھی اسے محتاط رہنے کی ضرورت ہے، انقلابی طرز عمل ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ اس پر انتہا پسندی کی تہمت لگائي جائے۔ افراط و تفریط دونوں سے بچنا چاہئے۔ انقلابی نوجوانوں کو جان لینا چاہئے کہ جس طرح کنارہ کشی، لا تعلقی اور سکوت سے نقصان پہنچتا ہے اسی طرح انتہا پسندی اور زیادہ روی سے بھی نقصان پہنچتا ہے۔ آپ بہت محتاط رہئے کہ آپ زیادہ روی کے مرتکب نہ ہو جائیں۔ جو رپورٹ دی گئي ہے کہ حوزہ علمیہ کی بعض بزرگ شخصیات، بعض مراجع تقلید کی کچھ توہین کی گئي ہے، اگر یہ رپورٹ صحیح ہے تو آپ یاد رکھئے کہ یہ سراسر منحرفانہ اقدام ہے، یہ بالکل غلط ہے۔ انقلابی ہونے کا تقاضا اس طرح کے اقدامات نہیں ہیں۔ انقلابی کو بابصیرت ہونا چاہئے، صاحب فکر ہونا چاہئے، وقت کی پیچیدگیوں کا ادراک ہونا چاہئے۔ یہ اتنا آسان نہیں ہے کہ کسی کو مسترد کر دیا، کسی کو قبول کر لیا۔ ایسا نہیں ہوتا۔ بہت دقت نظری سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ انقلابی جوش و جذبے کو قائم رکھئے، مشکلات کا سامنا کیجئے، دوسروں کے طنز و طعنے کو دیکھ کر کنارہ کش نہ ہو جائیے لیکن خامیوں کے مرتکب بھی نہ ہوئیے۔ بہت محتاط رہئے۔ مایوسی کو اپنے نزدیک نہ آنے دیجئے، ہمیشہ میدان عمل میں ڈٹے رہئے، لیکن ساتھ ہی بہت توجہ رکھئے، بہت محتاط رہئے۔ کچھ لوگوں کا عمل جو آپ کی نظر میں قابل گرفت ہے، آپ کو خشمگیں نہ کرے، آپ کو بے قابو نہ کر دے۔ منطقی اور دانشمندانہ رد عمل ایک الگ اور ضروری چیز ہے۔ میں یہاں سب سے یہ سفارش بھی کروں گا کہ انقلابی افراد پر انتہاپسندی کا الزام نہ لگائیں۔ انقلابی عنصر، انقلابی نوجوان، انقلابی طالب علم، انقلابی فاضل شخصیت، انقلابی مدرس خواہ وہ کسی بھی سطح کا ہو، اس پر انتہا پسندی کا الزام نہ لگایا جائے۔ یہ انحرافی طریقہ ہے جس کے پیچھے اصل میں دشمن کا ہاتھ کارفرما ہے جسے واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ تبدیلی کے سلسلے میں یہ اہم نکات ہیں۔ اب میں آپ سے یہاں سوال کروں گا کہ یہ پیچیدہ، وسیع، ہمہ جہتی، متعدد پہلوؤں پر مشتمل تبدیلی کا عمل منظم مینجمنٹ کے بغیر ممکن ہے؟ یہ بات میں نے کئی سال قبل اسی حوزہ علمیہ میں ان لوگوں کے سامنے جن میں سے بعض آج مراجع تقلید بن چکے ہیں، بعض اس دنیا سے رخصت ہو گئے ان پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں، پیش کی تھی اور سب نے اس کی تائید کی تھی۔ مراجع تقلید اور بزرگ ہستیوں کے مورد اطمینان افراد پر مشتمل ایک گروہ جو حوزہ علمیہ کے امور میں صاحب نظر ہو، بہت ضروری اور ناگزیر ہے۔ اس کے بغیر کام نہیں چلے گا۔ یہ ہمہ جہتی، اہم اور پیچیدہ مہم ایک مضبوط مینجمنٹ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
میں دو اور اہم نکتے بیان کرکے اپنے معروضات کو ختم کروں گا۔ ہمارا یہ جلسہ بہت طولانی ہو گیا۔ آپ برادران و خواہران عزیز سے میں معذرت چاہتا ہوں۔ یہ جگہ ویسے تو بہت وسیع و عریض ہے لیکن بہرحال آپ حضرات کو، کثیر تعداد کی وجہ سے مشکل سے بیٹھنے کی جگہ ملی ہے۔
ایک نکتہ فلسفے کے درس اور اس موضوع سے متعلق ہے۔ آپ توجہ دیجئے کہ علم فقہ کی عظمت و اہمیت ہمیں فلسفے کے درس، اس موضوع اور اس علم کی اہمیت سے غافل نہ کر دے۔ ان علوم کی خاص ذمہ داریاں ہیں۔ علم فلسفہ کی بھی بڑی اہم ذمہ داریاں ہیں۔ فلسفہ اسلامی کا پرچم دینی علوم کے مراکز کے ہاتھ میں ہے، ان کے ہاتھ میں ہونا بھی چاہئے اور باقی بھی رہنا چاہئے۔ اگر آپ نے اس پرچم کو رکھ دیا تو اسے دوسرے لوگ جن میں شاید ضروری صلاحیتیں نہ ہوں اٹھا لیں گے۔ فلسفہ کا علم اور اس کی تدریس ایسے افراد کے ہاتھ میں چلی جائے گی جن کے پاس غالبا اس کی تدریس کی ضروری صلاحیت نہیں ہے۔ آج اگر ہمارا نظام اور معاشرہ فلسفے سے محروم رہ گيا تو مسلسل پیش آنے والے ان گوناگوں شبہات و سوالات اور بیرونی فلسفیانہ مکاتب فکر کے سامنے وہ بے دست و پا ہوکر رہ جائے گا۔ ان سوالات کا جواب آپ کو فقہ سے نہیں ملے گا، علوم عقلیہ سے فلسفہ و کلام سے ملے گا۔ حوزہ علمیہ میں یہ بہت اہم علوم ہیں۔ دیگر اہم علوم میں علم تفسیر ہے، قرآنی معرفت ہے۔ ہمیں تفسیر سے بھی محروم نہیں رہنا چاہئے، درس تفسیر بہت اہم ہے، درس فلسفہ بہت اہم ہے۔ یہ بہت اہم علوم ہیں۔
آخری نکتہ دینی طالبات کے بارے میں ہے۔
حوزہ علمیہ میں اگر ہزاروں کی تعداد میں عالم، محقق، فقیہ اور فلسفی خواتین کی تربیت انجام پائے تو یہ کتنا عظیم کارنامہ ہوگا۔ آپ دیکھئے کہ عورت کے سلسلے میں مادی دنیا کا نقطہ نظر کتنا تحقیر آمیز اور کتنا منحرفانہ ہے۔ اگر مختلف شعبوں میں خاتون اسلامی اسکالرز نظر آئیں تو یونیورسٹیوں سے نکلنے والی پابند شریعت دیانتدار خواتین کی طرح وہ بھی بڑے گہرے اثرات چھوڑیں گي۔ اس سے انقلاب کی عزت و وقار کو چار چاند لگ جائیں گے۔ خواتین کو چاہئے کہ خود درس پڑھیں۔ البتہ خواتین کے خوب درس پڑھنا کا آخری ہدف مجتہد یا فلسفی بننا نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ بعض کے اندر اس کا جذبہ ہوا ان کے پاس اس کی استعداد اور وقت ہو اور ممکن ہے کہ بعض کے پاس نہ ہو۔ ہدف اسلامی اور قرآنی علوم سے مکمل آشنائی ہے جس سے خود انہیں بھی اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچے۔
پروردگارا! ہم نے جو کچھ کہا، جو کچھ سنا اسے تو اپنے راہ میں کہی اور سنی جانے والی بات قرار دے۔ پروردگارا! ان باتوں میں اور حوزہ علمیہ میں جاری اس مہم میں برکت دے۔ پروردگارا! ہماری باتوں، ہمارے کاموں کو اور ہماری مہم کو اپنی خوشنودی کا باعث قرار دے۔ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے قلب مقدس کو ہم سے راضی و خوشنود رکھ۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اور شہداء کی ارواح مطہرہ کو جنہوں نے یہ راستہ تعمیر کیا ہے اپنی رحمتوں سے مستفیض فرما۔
و السّلام عليكم و رحمة اللَّه و بركاته
1) نهجالبلاغه، خطبهى 62
2) كافى، ج 1، ص 46