اس لئے حکام کو چاہئے کہ قم کے عوام کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے اور ان کی مشکلات کو رفع کرنے کے لئے جی جان سے کوشش کریں۔
اجلاس میں نائب صدر، کابینہ کے ارکان اور پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی میں قم کے نمائندے بھی موجود تھے۔
قائد انقلاب اسلامی نے شاہ کی استبدادی حکومت میں قم کے عوام پر ان کی دینداری، علماء سے گہرے رابطے، دینی علوم کے مرکز کی موجودگی اور علماء اور عوام کی مزاحمت و استقامت کی تاریخ کی وجہ سے خاص طور پر ڈھائے جانے والے مظالم کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد شہر قم پر خاص توجہ دی گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں قم کی تعمیر و ترقی کے لئے زیادہ تیز رفتاری سے کام ہوا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس عمل کے اسی رفتار سے جاری رہنے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ اگر قم کی تعمیر و ترقی کا کام اسی رفتار سے جاری رہا تو اس صوبے کو طولانی پسماندگی سے نجات مل جانے کی قوی امید ہے۔
آپ نے قم کی خدمت کو پورے ملک کی خدمت قرار دیا اور فرمایا کہ مقدس شہر قم اسلامی جمہوریہ ایران کی آبرو ہے کیونکہ یہ شہر انقلاب اور علماء کی صنف کا مرکز اور دینی علوم اور ممتاز علمی و دینی شخصیات کا گہوارہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے حالیہ دنوں کے دوران قم کے خلاف اغیار سے وابستہ ذرائع ابلاغ کے زہریلے پرچار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسے شہر قم کی اہمیت کی علامت قرار دیا اور فرمایا کہ گزشتہ تیس برسوں کے دوران اسلامی نظام کے مخالفین کی تشہیراتی مہم کا ایک منصوبہ انقلاب اور اسلام کا مظہر سمجھی جانے والی چیزوں خاص طور پر شہر قم کی تحقیر اور تنقیص کرنے کی کوشش رہی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحيم‌

و الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى ‌القاسم المصطفى محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين المنتجبين سيّما بقيّة الله فى الأرضين‌.
السّلام عليك يا سيّدتى و مولاتى يا فاطمة يا بنت موسى ‌بن ‌جعفر ايّتها المعصومة سلام الله عليك و على ابائك الطّيّبين الطّاهرين المعصومين‌.

بڑی خوش قسمتی کی بات ہے کہ ملت ایران اور شہر قم کے بااخلاص خدمت گزاروں سے ملاقات کا یہ شیریں موقعہ نصیب ہوا۔ میں کابینہ کے ارکان کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے زحمت اٹھائی اور قم کے تعمیراتی و ترقیاتی کاموں کی منصوبہ بندی اور ان عزیز عوام الناس کی رفاہ و آسائش کی فراہمی کے لئے مقدس شہر قم کی زیارت سے مشرف ہوئے اور حضرت فاطمہ معصومہ کی بارگاہ کے سامنے موجود ہیں۔ آپ تمام حاضرین محترم کا جن کا تعلق مختلف شعبوں سے ہے میں تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور یہ امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ کو توفیق دے، آپ سے راضی و خوشنود رہے اور آپ کو یہ توفیق عطا کرے کہ آپ ان عزیز عوام کی، ان باایمان اور جوش و جذبے سے سرشار عوام کی خوشنودی و رضامندی حاصل کریں۔
خدمت کی توفیق، کسی بھی انسان کو ملنے والی ایک عظیم توفیق ہوتی ہے۔ انسانوں کی خدمت کرنا اللہ تعالی کی نظر میں ایک حسنہ اور نیکی ہے۔ اب اگر وہ لوگ جن کی آپ خدمت کر رہے ہیں اہم خصوصیات اور صفات کے مالک ہوں مثلا جہاد، سماجی امور کے لئے اعلی جذبات جیسی خصوصیات رکھتے ہوں تو پھر ایسے انسانوں کی خدمت کی قدر و قیمت دو چنداں ہو جاتی ہے۔ اہل قم کی خدمت اسی زمرے میں آتی ہے۔ یہ با ایمان عوام جو دسیوں سال سے سنگین ذمہ داریاں پوری کرنے کے تعلق سے ہمیشہ ہر امتحان پر پورے اترے اور سخت آزمائشوں سے گزرے، ایسے لوگوں کی خدمت واقعی بہت بڑی توفیق ہے آپ عزیزوں کو چاہئے کہ اس کی قدر کریں۔
شاہ کے طاغوتی دور میں قم اس کے غضب کا شکار رہا۔ اس کی وجہ اس شہر کی حقیقی روحانی خصوصیات تھیں۔ اس کی وجہ یہاں کے لوگوں کی دیانتداری، علمائے کرام سے گہرا لگاؤ اور دینی علوم کے عظیم مرکز کا اس شہر میں واقع ہونا تھا۔ شاہ رضاخان کے مظالم کے خلاف پہلی آواز شہر قم سے بلند ہوئی۔ الحاج آقا نور اللہ اصفہانی مرحوم نے رضاخان کے استبدادی دور کے آغاز میں اس کا مقابلہ کرنے کے لئے شہر قم کو اپنی پناہ گاہ بنایا۔ آپ قم تشریف لائے اور ملک کے مختلف خطوں اور مختلف شہروں کے علماء قم میں جمع ہوئے۔ پہلوی حکومت نے ان کی بے رحمانہ سرکوبی کی اور الحاج آقا نور اللہ کو زہر دیکر شہید کر دیا گيا۔ اس کے بعد (روضہ حضرت فاطمہ معصومہ کے) اسی صحن میں ایک متقی و پرہیزگار عالم دین نے حجاب ختم کروانے کے فیصلے کے خلاف اپنی آواز بلند کی اور سب کو اس ماجرے سے آگاہ کر دیا۔ رضاخان تہران سے قم آیا اور اس نے اس متقی و پرہیزگار اور مجاہد عالم دین پر لات گھونسے برسائے۔ تو پہلوی استبداد کے خلاف جد و جہد کے سلسلے میں قم کی تاریخ میں اس طرح کے اہم ابواب ہیں۔ یعنی یہ سلسلہ سنہ انیس سو ساٹھ کے عشرے میں علمائے کرام کی انقلابی تحریک کے آغاز سے اور پہلے کا ہے۔ ان ساری وجوہات کی بنا پر طاغوتی حکومت قم کو دشمن کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ نتیجے میں قم میں کوئی تعمیراتی و ترقیاتی کام بھی نہیں ہوتا تھا۔ یہاں کے لئے ضروری بجٹ نہیں دیا جاتا تھا، وسائل فراہم نہیں کئے جاتے تھے۔ دیگر علاقوں کے مقابلے میں قم سے سوتیلا برتاؤ کیا جاتا تھا۔ طاغوتی دور میں عوام کی بہت سے ضروریات اور احتیاجات کو نظر انداز کر دیا جاتا تھا، عوام پر توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ اور بھی جگہوں پر بہت سے کام تھے جنہیں انجام دینا ضروری تھا لیکن قم کی حالت دوسرے شہروں سے زیادہ خراب تھی۔
انقلاب کے بعد قم پر خاص توجہ دی گئی لیکن حق و انصاف کی بات تو یہ ہے کہ جو رپورٹ آئي ہے اور جس کی میں خود بھی تصدیق کرتا ہوں پچھلے پانچ سال میں اس شہر کی تعمیر و ترقی کے کام زیادہ مقدار میں اور زیادہ تیزی کے ساتھ انجام پائے ہیں، واضح اور قابل لحاظ تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن یہ سلسلہ مزید جاری رہنا چاہئے۔ اگر قم کے سلسلے میں یہ رغبت اور یہ دلچسپی جو آج محترم حکام کے ہاں دیکھنے میں آ رہی ہے، جاری رہے تو قوی امید ہے کہ ماضی کی پسماندگیاں رفتہ رفتہ دور ہو جائيں گی۔ یہ ملک کے لئے بھی بہت اہم ہے۔ قم کی خدمت فقط ایک شہر کی خدمت نہیں ہے، پورے ملک کی خدمت اور پورے ملک کی عزت و آبرو کی بات ہے۔ کیونکہ یہ انقلاب کا مرکز ہے، علمائے دین کا مرکز ہے، دینی علوم کا سب سے بڑا مرکز یہاں واقع ہے، عظیم الشان دینی اور علمی شخصیات یہاں سکونت پذیر ہیں، عالمی رائے عام کی توجہ اس شہر پر ہے۔ آپ غور کیجئے کہ ان چند دنوں کے دوران دنیا کے تمام تشہیراتی ادارے کس طرح قم کے عوام اور قم کے علماء کی طرف متوجہ رہے۔ یہ اس شہر کی اہمیت کی علامت ہے، اس شہر کی مرکزیت کی علامت ہے۔ بنابریں اس شہر کی خدمت در حقیقت اسلامی جمہوریہ کی عزت و آبرو بڑھانے کو کوشش ہے۔ انقلاب کے برسوں میں دشمن کا ایک تشہیراتی حربہ یہ تھا کہ اسلام و انقلاب کے مظاہر اور رموز کو نشانہ بنائے۔ قومی سطح پر جو چیز اسلام اور انقلاب کے مظاہر میں شمار ہوتی تھی اسے نشانہ بنایا جاتا تھا۔ علماء کا مذاق اڑانا علماء کے اثر و رسوخ کو کم کرنا، اسلامی تعلیمات و معارف کی توہین کرنا، ان پر سوالیہ نشان لگانا، وغیرہ اسی زمرے میں آنے والے اقدامات تھے۔ قم کو کمزور کرنا بھی انہی اقدامات کا جز تھا۔
دشمنوں نے قم کے خلاف منصوبہ بندی کی ہے۔ میں نے کل بھی یہاں ایک جلسے میں کہا کہ دشمن محاذ کا ارادہ یہ تھا کہ قم جس طرح اسلام اور انقلاب کا پرچم لہرانے والا عظیم مرکز بن کر ابھرا ہے اسی طرح اسی قم سے انقلاب کی مخالفت کی آواز بھی بلند ہو۔ اسے انقلاب کی مخالفت کا مرکز بنا دیا جائے۔ اس کے لئے بڑی کوششیں کی گئیں، وسیع پیمانے پر منصوبہ بندی کی گئی۔ گوناگوں طریقے استعمال کئے گئے، لوگوں کی ذہنیت بدلنے کی کوشش کی گئی، لوگوں کے جذبات کو بدلنے کی کوشش کی گئی تا کہ انقلابی جوش ختم ہو جائے یا کم ہو جائے۔ گزشتہ برسوں میں اس طرح کے بہت سے کام انجام دیئے گئے ہیں۔
آج اگر آپ دیکھ رہے ہیں کہ ان معاندانہ اقدامات پر عوام کا جواب پورے جوش و خروش کے ساتھ سامنے آ رہا ہے، ان چند دنوں میں جو جوش و جذبہ دیکھنے میں آیا اور جس طرح کا سماں چھایا رہا وہ یہاں کے عوام کی بیداری کا نتیجہ ہے۔ ان دلوں میں ایمان کی گہرائی میں ایمان کے نفوذ کا نتیجہ ہے۔ دشمن نے اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ قم پر اس کی نظریں ٹکی ہوئي ہیں۔ ایسا طریق کار اپنانا چاہئے کہ یہ زہریلا پروپیگنڈا بے اثر ہوکر رہ جائے۔ عوام کی خدمت کے ذریعے، عوام کی مدد کے ذریعے، اس شہر اور یہاں کے عوام الناس کی اصلی مشکلات کی نشاندہی کے ذریعے یہ کام انجام دیا جا سکتا ہے۔ لہذا اس جلسے میں آپ محترم عہدیداروں کے سامنے میری سب سے اہم سفارش یہی ہے کہ حتی الوسع عوام کی خدمت کے لئے، ان کی زندگي کی مشکلات کو برطرف کرنے کے لئے محنت کیجئے۔
حکومتی اداروں کے وسائل ظاہر ہے کہ محدود ہیں، یہ نہیں کہا جا سکتا ہے ان کے پاس لا محدود وسائل ہیں۔ لہذا سب سے پہلے ترجیحات کی نشاندہی کی جانی چاہئے۔
ہمیشہ یہی طریق کار ہونا چاہئے۔ غور کرنا چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ ترجیحات کیا ہیں؟ یہ بہت اہم ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ قم کے جو مسائل ہیں بحمد اللہ انہیں حل کرنے کے لئے عملی اقدامات شروع ہو گئے ہیں، ان کی فہرست تیار کی جانی چاہئے۔ آج کابینہ کے اجلاس میں جو بل منظور ہوئے، یا صدر محترم اور کابینہ کے اس شہر کے دورے میں جو تجاویز منظور کی گئی ہیں ان پر مو بمو عمل ہونا چاہئے۔ حکام کو یہ کوشش کرنا چاہئے کہ ان منظور شدہ تجاویز اور بل پر بنحو احسن عملدرآمد ہو اور مکمل ہو جانے تک ان پر نظر رکھی جائے۔ قم کے لئے پینے کے میٹھے پانی کا مسئلہ بہت اہم اور اساسی ہے۔ کئی سال سے اس منصوبے پر بحمد اللہ کام چل رہا ہے اور کسی حد تک مطلوبہ نتائج حاصل بھی ہوئے ہیں۔ البتہ یہ محنت اور تندہی جاری رہنا چاہئے تا کہ قم کے لئے میٹھے پانی کی سپلائی شروع ہو جائے اور عوام الناس اس شیرینی سے بہرہ مند ہوں۔
قم کے پسماندہ علاقوں کی بات بھی ہوئی اور احباب نے اپنی رپورٹ میں ان پر روشنی بھی ڈالی۔ محترم گورنر صاحب نے بھی اور نائب صدر نے بھی۔ قم میں کچھ پسماندہ علاقے ہیں جہاں اچھی خاصی آبادی ہے۔ ان میں بعض کا نام لیا گيا اور بعض کا نام نہیں لیا گيا۔ ان علاقوں کے عوام انقلاب کے عاشق ہیں۔ یہی نیروگاہ کا علاقہ جہاں بہت سی سہولیات کا فقدان ہے لیکن عوام انقلاب کے عاشق اور گرویدہ ہیں، انقلاب کی امنگوں اور اہداف کی راہ میں آگے بڑھنے والے ہیں۔ اس کی ہمیں اطلاعات ہیں۔ مقدس دفاع کے دوران بھی یہی صورت حال تھی اور اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ اسی طرح شاہ ابراہیم محلہ اور دیگر محلے ہیں جوں قم کے پسماندہ اور غریب محلوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ ان محلوں کی رفاہی، طبی، تعلیمی اور خدماتی صورت حال کو بہتر بنانے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ یکبارگی وسیع پیمانے پر کام انجام دیا جائے اور پھر صورت حال کے معمول پر آ جانے کے بعد عمومی روش کے مطابق عمل کیا جائے۔
قم کا ایک اہم مسئلہ طبی سہولیات اور علاج معالجے کا ہے۔ میں چند روز سے یہاں ہوں اور مختلف ذرائع سے مجھے طبی اور صحت عامہ کے وسائل کی ضرورت کے بارے میں اطلاعات ملیں۔ البتہ اس سلسلے میں کچھ اہم فیصلے ہوئے ہیں جن پر انشاء اللہ عملدرآمد کیا جائے گا لیکن اس پر توجہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ طبی ضروریات کے سلسلے میں خواتین کے علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی اہم ہے، اس پر خاص توجہ دی جائے۔
قم کی دستکاری کی صنعت کا مسئلہ جس کا میں نے پہلے دن کی تقریر میں ذکر کیا، بہت اہم ہے۔ جس زمانے میں ہم قم میں تھے اسی وقت سے بلکہ اس سے بھی بہت پہلے سے قم ہاتھ کے بنے ہوئے قالینوں کے لئے بہت مشہور تھا۔ اس صنعت کو فروغ دیا جانا چاہئے۔ یہ قم کا اچھا ہنر ہے، ہم نے ہر جگہ اس کے بارے میں سنا تھا اور قم کے لوگ اس پر فخر بھی کرتے تھے، یہاں بنے جانے والے قالین بہت مشہور تھے انہیں فرش نخ فرنگ کہا جاتا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اب بھی اسی نام سے اسے شہرت حاصل ہے یا نہیں۔ اس شہر کی دستی قالینوں کی صنعت پر اور دستکاری کی دیگر صنعتوں پر توجہ دی جانی چاہئے۔ اس طرح عوام کو خود ان کی روزمرہ کی زندگی کے اندر سے ہی آسائش و رفاہ فراہم کیا جا سکتا ہے۔
صنعت کا ذکر کیا گيا، یہ اچھی بات ہے۔ زراعت کے سلسلے میں میں نے یہاں آکر سنا کہ تہران اور ورامین کے علاقے سے قم کے زراعتی علاقے مسیلے کے لئے سنچائي کے پانی کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔ یہ حکومت کا پرانا منصوبہ ہے جس کا کافی پہلے فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ یہ بہت اچھا کام ہے، بہت اہم کام ہے۔ انشاء اللہ یہ سارے کام پایہ تکمیل کو پہنچیں گے۔ بحمد اللہ اس حکومت کے زمانے میں بہت کام انجام پائے ہیں۔ نویں اور دسویں حکومت میں بڑے اہم منصوبوں پر عملدرآمد کیا گيا ہے۔ پہلے انجام پانے والے کاموں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ کام انجام دیئے گئے ہیں لیکن ضرورتیں ابھی موجود ہیں۔ بہت سی ضرورتیں پوری ہوئی ہیں لیکن ابھی اور کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تمام ضرورتوں کی تکمیل ہو جائے۔ يہ آپ سب کی ذمہ داری ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ انتظامیہ کے اندر مختلف سطح کے عہدیداروں کا عوام الناس سے برتاؤ اور سلوک ہے۔ خندہ پیشانی سے پیش آنا چاہئے۔
چون وا نميكنى گرهى خود گره مباش‌
ابرو گشاده باش چو دستت گشاده نيست‌
کبھی ممکن ہے کہ عہدیدار کے پاس عوام کی توقعات پوری کرنے کے وسائل نہیں ہیں۔ ادارے کا بجٹ کم ہے، وسائل کم ہیں۔ کوئي بات نہیں۔ ایسے میں اگر عوام سے خندہ روئي کے ساتھ پیش آیا جائے، اپنائیت کے انداز میں گفتگو کی جائے تو عوام خوش ہوں ‏گے۔ صورت حال کا ادراک کرکے مطمئن ہو جائیں گے۔ تہران میں ہمارے دفتر سے لوگ رجوع ہوتے ہیں۔ کسی کی کوئی درخواست ہے جس پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ دفتر سے جواب دیا جاتا ہے کہ آپ کی درخواست موصول ہو گئی لیکن ہم اس پر عمل کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ قانون کے منافی ہے یا کوئي اور رکاوٹ ہے۔ رجوع ہونے والا شخص کہتا ہے کہ آپ نے درخواست پر توجہ دی اس کا جائزہ لیا میں اتنے پر بھی مطمئن ہوں۔ عوام یہ دیکھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ حکام کو ان کے درد کا احساس ہے، حکام ان کی مشکلات کو سمجھتے ہیں۔ البتہ کوشش کی جانی چاہئے اور جہاں تک ممکن ہو ضرورتیں پوری کی جائیں۔ حکومت کے سامنے بھی کچھ محدودیتیں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ سارے کام جو ضروری ہیں حکومت آسانی سے سب کو انجام دے سکتی ہے۔ ایسا نہیں ہے، مختلف پہلوؤں سے رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔ تا ہم جہاں تک ممکن ہے عمل کیا جائے اور جو عمل انجام دیا جائے خندہ روئي کے ساتھ انجام دیا جائے۔ عوام سے خندہ پیشانی سے ملا جائے۔ یہ ہم سب کا بہت اہم فریضہ ہے۔
مختلف شعبوں، تعلیمی، خدماتی، صنعتی، زراعتی، ثقافتی، طبی اور سلامتی کے شعبوں سے وابستہ آپ حکام یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھئے کہ آپ جو کچھ خدمت انجام دے رہے ہیں اس کا اجر صرف وہ تنخواہ نہیں ہے جو انتظامیہ کی جانب سے آپ کو ادا کی جاتی ہے۔ اس کا اجر اللہ تعالی کے پاس محفوظ ہے۔ اللہ تعالی جو اجر عطا کرے گا وہ دنیا میں انسان کو دی جانے والے مزدوری اور تنخواہ سے خواہ وہ کچھ رقم ہو یا اظہار تشکر، زیادہ اہم اور شیریں ہیں۔ ممکن ہے کہ ہم کوئی کام انجام دیں اور عوام اس پر ہمارا شکریہ ادا کریں۔ یہ بھی ایک طرح کا اجر ہے۔ لیکن اللہ تعالی کی جانب سے عطا ہونے والا اجر بہت بلند تر ہے۔ آپ کوئی خدمت انجام دیتے ہیں، کسی سے ہمدردی جتاتے ہیں، زیادہ دیر تک کام کرتے ہیں، اپنے دفتر میں معمول کے ٹائم سے زیادہ رک کر خدمت انجام دیتے ہیں۔ ممکن ہے کہ کسی کو اس کی بھنک بھی نہ لگے لیکن اللہ سب دیکھ رہا ہے۔ ایسا بہت ہوتا ہے اور ان اکتیس بتیس برسوں میں ہم نے ایسے افراد کو دیکھا ہے جو دلسوزی کے ساتھ کچھ کام انجام دیتے ہیں اور نہ ان کے سینیئر افسر کو اطلاع ہوتی ہے نہ ماتحت ملازم کو بھنک لگتی ہے اور نہ ہی رفقائے کار اس سے آگاہ ہوتے ہیں۔ کسی فائل کا مطالعہ کر رہے ہیں، کوئي کام انجام دے رہے ہیں، دفتر کا وقت ختم ہو چکا ہے لیکن ذہن میں یہ ہے کہ آدھا گھنٹا یا ایک گھنٹا اور رک کر اس کام کو پورا کر لوں پھر جاؤں۔ کسی اور کو اس کی خبر تک نہ ہوئی اور کسی نے اس شخص کا شکریہ بھی ادا نہیں کیا۔ آپ یقین رکھئے کہ یہ سارے کام اللہ کے پاس محفوظ رہتے ہیں۔ اعمال لکھنے پر مامور اللہ کے فرشتے کرام الکاتبین اس کو لکھتے ہیں۔ اس عمل کو محفوظ کر لیتے ہیں۔ اگر آپ اس جذبے سے کام کریں گے تو کبھی بھی کام سے تھکیں گے نہیں۔ کام کرکے کبھی بھی ہم بوڑھے نہیں ہوں گے، خاص طور پر اس لئے بھی کہ ہمارے ملک کو کام کی شدید احتیاج ہے۔ ہمیں ہر شعبے میں جست لگانے کی ضرورت ہے۔
علم و دانش کے میدان میں، سو سال، ڈیڑھ سو سال تک ہمیں پسماندگی میں مبتلا رکھا گیا۔ صنعتی میدان میں بھی یہی عالم رہا، گوناگوں سماجی میدانوں میں بھی ہم اسی کے شکار رہے۔ فاسد و بد عنوان حکومتیں، استبدادی حکومتیں، صرف عیش و نوش کی فکر میں رہنے والے حکام انقلاب سے قبل کے چند عشروں کے دوران اس ملک کو جی بھر کے تباہ کرتے رہے۔ انہوں نے ملک کو بیروی طاقتوں کا غلام بناکر رکھ دیا۔ اس سے قبل کے زمانے میں ملک میں آمریت تھی، ڈکٹیٹر شپ تھی، ناصرالدین شاہ کی ڈکٹیٹر شپ، فتح علی شاہ کی ڈکٹیٹر شپ لیکن ملک بیروی طاقتوں کا غلام نہیں تھا۔ بعد کے دور میں تو ملک کی وہ درگت ہوئی کہ ایک طرف آمریت، استبداد اورعوام پر شدید سختیاں تھیں تو دوسری طرف بیرونی طاقتوں کی غلامی۔ غنڈہ صفت رضاخان جو کسی وحشی بھیڑئے کی طرف عوام پر حملے کرتا تھا اپنے انگریز آقاؤں کی جنبش ابرو پر بے چوں چرا عمل کرتا تھا۔ ایک بار اس نے تیل کا معاہدہ اٹھاکر بظاہر آگ میں ڈال دیا اور اسے جلا دیا لیکن چند روز بعد اس سے زیادہ شرمناک اور توہین آمیز معاہدے پر زیادہ طویل مدت کے لئے دستخط کر دیئے۔ ان کے حوالے کر دیا اور وہ خوش خوش روانہ ہو گئے۔ اس کی حکومت کے افراد بھی اسے کے تابع تھے۔ رضاخان کے جانے کے بعد اس وقت کے وزیر خزانہ تقی زادہ سے لوگوں نے سوال کیا کہ تم نے اس وقت اس معاہدے پر کیوں دستخط کئے؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں تو محض آلہ کار تھا۔ یعنی اصلی ذمہ دار خود رضاخان تھا۔ یہ شخص جو عوام کے ساتھ تو اتنے وحشی پنے سے پیش آتا تھا، انتہائی دریدہ دہنی اور بے عزتی کے ساتھ پیش آتا تھا، برطانوی حکام کے سامنے بھیگی بلی بنا رہتا تھا۔ وہی لوگ اسے اقتدار میں لائے تھے۔ ایک زمانے میں اس نے کوشش کی کہ اس خیمے سے نکل کر دوسرے خیمے میں شامل ہو جائے۔ جرمنی سے قریب ہو جائے تو اسے کسی ذلیل و خوار غلام کی طرح کان پکڑ کر ایران سے باہر نکال دیا گیا۔ اسے ہٹا دیا گیا اور اس کے بیٹے کو اقتدار دے دیا گیا۔
ہمارا ملک برسہا برس تک اس صورت حال سے گزرا ہے۔ یہ قوم برسہا برس تک اس طرح کی مستبد، فاسد و بدعنوان، آمر اور زراندوز حکومتوں کے چنگل میں جکڑی رہی ہے۔ ملک میں اگر کہیں بھی کوئي اچھی جگہ نظر آتی تو رضاخان اسے اپنے نام کر لیتا۔ مازندران میں، خراسان میں، دوسرے علاقوں میں۔ ثروت جمع کی گئی، جائيداد جمع کی گئی، جواہرات جمع کئے گئے۔ آخر میں قومی سرمائے کا ایک بڑا حصہ اپنے ساتھ لیا اور روانہ ہو گئے۔ اربوں ڈالر کی ملت ایران کی دولت اس وقت امریکہ میں ہے۔ انقلاب کی فتح کے بعد ہم نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ پہلوی خاندان کے لوگ جو دولت ایران سے لیکر گئے ہیں اسے ایران کو لوٹا دیا جائے۔ امریکہ کہاں ماننے والا تھا؟! ہم کو معلوم تھا کہ وہ نہیں مانے گا۔ اس کی فطرت معلوم تھی۔
یہ قوم انقلاب کی برکت سے ایک نئی زندگی کی طرف بڑھی، حیات نو کے راستے پر آگے چلی، اس نے عظیم کارنامے انجام دیئے لیکن اب بھی اس کے سامنے اور زیادہ بڑی مہم موجود ہے۔ تکنیکی میدان میں، خدمات کے شعبے میں، علم و دانش کے شعبے میں، انتظامی امور میں، ملکی امور کو نظم و ضبط عطا کرنے میں ہنوز بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ آپ ان عوام کے لئے جتنی بھی محنت کیجئے زیادہ نہیں ہے۔ آپ کے لئے یہ میری سفارش ہے اور نصیحت بھی ہے۔
میں ایک بار پھر آپ تمام محترم حکام کا، محترم گورنر صاحب اور دیگر عہدیداروں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو اس شہر میں تعینات ہیں۔ میں نے جو باتیں سفر کے پہلے دن کہی تھیں یہاں بھی دوہراؤں گا کہ حکومتی ادارے بہت محتاط رہیں، ہوشیار رہیں۔ اگر کسی مسئلے پر ان کے درمیان آپس میں کچھ اختلاف ہے تو اس اختلاف کی تلخی عوام تک نہ پہنچنے دیں، عوام کو متاثر نہ کریں۔

و السّلام عليكم و رحمة الله و بركاته‌