قائد انقلاب اسلامی نے 25مہر سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 17 اکتوبر سنہ 2011 عیسوی کو مغربی صوبے کرمانشاہ کے دورے کے چھٹے دن پیر سترہ اکتوبر کو پاوہ اور اورامانات علاقوں کے عوام سے خطاب میں فرمایا کہ ایران کے اندر بھی اور عالمی سطح پر بھی شیعہ سنی اختلاف کو ہوا دینا اغیار کی اہم ترین اسٹریٹیجی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلام اور ایران کے دشمنوں کی تفرقہ انگیزی کا اصلی ہدف اسلامی جمہوریہ کے کامیاب نمونے کو قوموں کی نگاہ میں آنے سے روکنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ شیعہ اور اہل سنت کے درمیان بڑے گہرے دینی و اعتقادی اشتراکات ہیں لیکن دشمن گرہیں کھول دینے والے ان اشتراکات کی نفی کرکے اپنے ناپاک تسلط پسندانہ عزائم کی تکمیل کے در پے ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلام اور امت اسلامیہ کے خبیث دشمنوں کو شکست سے دوچار کرنے کے لئے دائمی آگاہانہ استقامت کو واحد راستہ قرار دیا اور مسلم اقوام کو مخاطب کرکے فرمایا کہ وہ بھی ملت ایران کی مانند ثابت قدمی اور استحکام سے دشمن کے مقابلے میں ڈٹ جائیں ورنہ وہ اور بھی گستاخ ہو جائے گا اور شیعہ و اہل اسنت کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کے بعد اہل سنت کے اندر موجود مکاتب فکر کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی کوشش شروع کرے گا۔ قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران پر مرکوز قوموں کی مشتاق نگاہوں کا حوالہ دیا اور اس صورت حال کو عالم اسلام کی رائے عامہ پر اسلامی جمہوریہ ایران کے مثبت اثرات مرتب کرنے کا بہترین موقعہ قرار دیا۔
 
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم محمّد و علی آلہ الاطیبین وصحبہ المنتجبین و التّابعین لہم باحسان الی یوم الدّین
 
خداوند عالم کا شکر گزار ہوں کہ طویل برسوں کے بعد ایک بار پھر اس نے یہ توفیق عنایت فرمائی کہ اس شہر میں، اس علاقے کے ممتاز اور مہربان لوگوں کے درمیان آؤں۔ بہت خوش ہوں کہ پاوہ کے عزیز، جوش و جذبے سے مملو اور مخلص عوام اور اسی طرح ان عزیزوں کےعظیم اجتماع میں ہوں جنہوں نے جوانرود، روانسر اور ثلاث باباجانی سے یہاں آنے کی زحمت اٹھائی ہے۔ یقینا میرے لئے پرخلوص اور محبت و مہربانی سے مملو یہ ملاقات، ناقابل فراموش ہے۔ جس طرح کہ اس سے پہلے کے پاوہ کے سفر کی یادیں ناقابل فراموش ہیں۔
پاوہ کے آپ عزیز نوجوانوں کے لئے اس بات کا ذکر برا نہیں ہوگا کہ پہلی بار میں، پاوہ کے لوگوں کی ایک جماعت سے انقلاب کی کامیابی کے ابتدائی مہینوں میں انقلابی کونسل میں ملا ہوں۔ ہم انقلابی کونسل کے اراکین میں تھے۔ میں نے دیکھا کہ کچھ پرجوش، باوقار اور خوبصورت نوجوان، کردی لباس میں انقلابی کونسل میں آئے اور ہم سے ایک ضروری اور فوری ملاقات کے لئے وقت مانگا۔ میں نے پرجوش نوجوانوں کی اس جماعت سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ پاوہ اور اورامانات کے علاقے میں، انقلاب کے مخالفین انقلابی عوام پر حملہ کرنا اور ان پر تشدد کرنا چاہتے ہیں، آپ ہماری مدد کریں تاکہ ہم انقلاب کے مخالفین کا مقابلہ اور اپنی استقامت استقامت کا مظاہرہ کر سکیں۔ یہ انقلاب کے بعد کے ابتدائی چند مہینوں کی بات ہے۔ شاید کوئی یہ تصور نہیں کر سکتا تھا کہ کرد علاقے میں ایسے مومن، اسلام پر یقین رکھنے والے، دلیر اور جانباز نوجوان موجود ہیں جو اس شہر، اس علاقے اور اورامانات ضلع کے دفاع کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لینے کے لئے تیار ہیں۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ ذمہ دار ادارے، جن کے وسائل ان دنوں محدود تھے، مشکلات زیادہ تھیں، رکاوٹیں بہت تھیں، ان کی مدد کریں اور انہیں تھوڑے سے اسلحے دیں۔
اس کے بعد اس علاقہ نے، انقلاب کے مخالفین کے مقابلے میں نمایاں اور ممتاز حیثیت حاصل کر لی۔ مسلط کردہ جنگ شروع ہونے سے پہلے، اس علاقے کے نوجوانوں نے اورامانات اور پاوہ میں پاسداران انقلاب اسلامی کا ایک یونٹ خود تشکیل دیا۔ سپاہ پاسداران نے بھی مدد کی اور وہ اس علاقے کے دفاع میں مصروف ہو گئے۔ یہ سر بفلک پہاڑ، یہ ناہموار علاقہ اس علاقے کے مخلص نوجوانوں کی ہمت مردانہ کے سامنے جھک گیا۔ قبل اس کے کہ ذمہ دار ادارے میدان میں آئیں، خود عوام نے انقلاب کے مخالفین کے مقابلے میں استقامت کی۔
اس جنگی مرحلے سے پہلے، اس علاقے میں ایک سیاسی جنگ کا ماحول بھی تھا۔ یعنی انیس سو اناسی میں، انقلاب کی کامیابی کے ایک مہینے کے بعد جب اسلامی جمہوریہ کے لئے ریفرنڈم ہوا تو انقلاب کے مخالفین نے اس علاقے میں بھی اور دیگر علاقوں میں بھی ریفرنڈم کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا لیکن پاوہ کے عوام ان لوگوں میں شامل تھے جو انقلاب کے مخالفین کے مقابلے میں ڈٹ گئے اور انیس سو اناسی کے ریفرنڈم میں انتہائی پر جوش شرکت کی۔ اس کے بعد فوجی استقامت کی باری آئی۔
میں جنگ کے دوران سن ساٹھ ( ہجری شمسی مطابق اکیاسی عیسوی) میں پاوہ آیا۔ حالات بہت سخت تھے۔ نظر آتا تھا کہ دشمن نے اس علاقے میں بد امنی کی فضا مسلط کرنے کی کوشش کی ہے۔ فروردین کے اوائل یا اواسط ( مارچ کے اواخر یا اپریل کے اوائل) کے دن تھے۔ زمین پر برف تھی۔ ہم بلندیوں پر گئے۔ میں نے دیکھا کہ ہمارے ساتھی اصرار کر رہے ہیں کہ یہ جگہ محفوظ نہیں ہے، واپس چلیں۔ یعنی اس زمانے میں شہر کے پاس کی پہاڑیاں محفوظ نہیں تھیں۔ ان حالات میں پاوہ کے عوام، پاوہ کے ممتاز افراد اور پاوہ کے مومن نوجوانوں نے استقامت دکھائی، پائیداری سے کام لیا اور اپنے لئے اس ممتاز حیثیت کو محفوظ رکھا۔ علاقہ ایسا تھا۔ میں اس وقت پاوہ کی بات کر رہا ہوں جس کو مرکزیت اور بنیادی حیثیت حاصل تھی، ورنہ اس زمانے میں یہ پورا ضلع جو روانسر، جوانرود اور ثلاث باباجانی پر مشتمل تھا، اس عظیم تحریک اور کام میں شریک تھا لیکن پاوہ کو مرکزیت حاصل تھی۔
دینداری اس علاقے کے عوام کی خصوصیت رہی ہے اور اب بھی ہے۔ پاوہ کی دو خصوصیات ایسی ہیں جو ہر انسان سے داد تحسین وصول کرتی ہیں۔ ایک خصوصیت دینداری کی ہے، دینی تعلیمات، دینی اصولوں اور شریعت کی پابندی کی ہے۔ دوسری خصوصیت، روشنفکری کی ہے۔ اس علاقے کے نوجوان، جیسا کہ مجھے اطلاع ہے اور میں نے رپورٹوں کا توجہ کے ساتھ مطالعہ کیا ہے، روشنفکر ہیں۔ ان امتیازات کا زیادہ کریڈٹ اس عالم اور مجاہد ہستی، ماموستا قادری کو جاتا ہے جو عالم دین بھی ہیں اور روشنفکر بھی ہیں۔ ایسے علما اس دور میں اور ہر اہم دور میں عوامی جماعتوں کے کام آتے ہیں جو مکمل اطلاع اور بصیرت کے ساتھ مسائل کو سمجھیں، درک کریں اور میدان میں موجود رہیں۔ جو عالم دین گوشے میں بیٹھے اور عوام سے کہے کہ جاؤ آگے بڑھو اقدام کرو، وہ کسی کام نہیں آتا۔ وہ عالم دین کامیاب رہتا ہے جو خود آگے بڑھے اور لوگوں سے یہ نہ کہے کہ آگے بڑھو بلکہ کہے آؤ، آگے بڑھیں۔ عالم دین کو میدان میں موجود رہنا چاہئے، اس کو لوگوں کے آگے آگے چلنا چاہئے اور خود قدم آگے بڑھانا چاہئے۔ خوش قسمتی سے ہم نے کردستان کے علما میں اس کے متعدد نمونے دیکھے ہیں۔ جو لوگ یہاں کے عوام کی دینداری کی وجہ سے ان کے دشمن ہیں، ان کے انقلابی ہونے کی وجہ سے ان کے دشمن ہیں، وطن سے ان کی محبت کی وجہ سے ان کے دشمن ہیں، وہ شیطان صفت دشمن، سب سے زیادہ اس طرح کے علما کے مخالف ہیں۔ ایسے علما کے جو میدان میں موجود ہوں، مجاہدت و فداکاری کے لئے تیار ہوں اور چراغ ہدایت کا کام کر رہے ہوں، دشمن ہیں۔
میں آج جب پاوہ اور اورامانات کے علاقے پر نظر ڈالتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ علم کی سطح کافی بلند ہے، معلومات کی سطح اونچی ہے، یہاں کے نوجوان تعلیم یافتہ باخبر اور متدین ہیں۔ یہ بہت بڑا امتیاز ہے جو اس علاقے کو حاصل ہے۔ خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔
وہ مشکلات جن کا ذکر کیا گیا، حقیقی ہیں۔ مجھے اطلاع ہے۔ مجھے جن باتوں سے تشویش اور پریشانی ہے، ان میں سے ایک اس صوبے میں بے روزگاری کا مسئلہ ہے۔ میں نے کرمانشاہ میں اپنی تقریر کے دوران بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ حکام کے سامنے اس کو پیش کیا ہے۔ ان شاء اللہ اس دورے کے آخر میں، تہران سے حکام آئیں گے ان کے سامنے بھی پیش کروں گا تاکہ ان شاء اللہ اس بارے میں ایسے فیصلے کئے جائيں جو کارگر ہوں اور کم سے کم اس پریشانی اور تشویش کو کم کریں۔ اس صوبے میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے حالات کافی سازگار ہیں۔ خود اس ضلع میں روزگار کے میدان کم نہیں ہیں۔ اگر ان شاء اللہ تدبیر سے کام لیا جائے تو اس نوجوان، تعلیم یا فتہ اور کام کے لئے تیار افرادی قوت کے بڑے حصے کو روزگار پر لگایا جا سکتا ہے۔
اہم ترین کام قوم اور انسان کے تشخص کی حفاظت ہے۔ کیونکہ ہر نام کے ساتھ ہماری قوم اور ہمارے عوام کا ایرانی اسلامی تشخص، میدان میں عوام کی موجودگی اور نظام کے بنیادی مسائل میں ان کی مشارکت کی وجہ سے ایک مسلمہ حقیقت بن چکا ہے۔ آج دنیا ایرانی قوم کو معلومات و بصیرت کے مالک اور ہر میدان میں پیشقدم اور آگے رہنے والے مسلمان کی حیثیت سے پہچانتی ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ خاص طور آج جبکہ اسلامی دنیا میں اسلامی تحریکیں شروع ہو چکی ہیں، ایرانی قوم اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔
البتہ ان اقوام کے بارے میں ہم کوئی دعوی نہیں کرتے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم آپ کے رہبر ہیں، آپ ہم سے سیکھیں؛ ہم اس قسم کے دعوے ہرگز نہیں کرتے۔ ہر قوم خود اپنی استعداد سے، اپنی صلاحیتوں سے اپنی شخصیت سے اور اپنی توانائیوں سے راستہ نکالے گی اور آگے بڑھے گی۔ لیکن اس میں شک نہیں ہے کہ ان ملکوں میں جو لوگ بیدار ہوئے اور انہوں نے نجات حاصل کی، جیسے مصر میں، تیونس میں اور بعض دیگر جگہوں پر اور حتی ان ملکوں میں جہاں اب بھی مسلط کردہ طاغوتی نظام حکمفرما ہیں اور عوام بیدار ہوچکے ہیں، ان تمام ملکوں میں، لوگوں کی نگاہوں میں ایرانی قوم ہے۔ کیونکہ اس قوم نے تیس سال سے دشوار میدانوں میں اپنی صلاحیت اور استعداد کا لوہا منوایا ہے۔ ان کی نگاہیں ہم پر ہیں۔ ہم ان ملکوں کے ان تمام لوگوں کے لئے جن کی نگاہیں ہم پر ہیں، معتبر علامت اور معیار ہو سکتے ہیں۔
جب ہم معقولیت، علمی پیشرفت اور علم و دانش کے مختلف میدانوں میں اور سماجی و سیاسی مسائل میں اپنی بھر پور موجودگی کے ساتھ اسلام اور اسلامی اصولوں کی پابندی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو یہ نمونہ عمل بن جاتا ہے، اقوام ہم کو دیکھتی ہیں اور اس قوم کے تجربے سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ یہ وہی چیز ہے جو ملت ایران کے فائدے میں بھی ہے ،علاقے کی اقوام کے فائدے میں بھی ہے اور ان شاء اللہ مستقبل میں عظیم اور متحدہ امت اسلامیہ کی تشکیل میں بھی مفید ہوگی۔
البتہ اس روش کے دشمن بھی ہیں۔ یہ جو ہم سوچ رہے ہیں اور زبان پر جاری کر رہے ہیں، ایسی فکر ہے جو یقینا ہمارے دشمنوں کے ذہن میں بھی آئی ہوگی۔ اسلامی نظام کے دشمن، اسلام کے دشمن، اس علاقے کی اقوام کے دشمن جو لوٹ مار، جارحیت، مداخلت اور ناجائز فائدہ اٹھانے کے درپے ہیں، ان کے ذہن میں بھی یہ فکر آئی ہوگی کہ اگر ملت ایران اپنی پیشرفت، اپنی علمی ترقی، ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی اور اپنی قومی ڈپلومیسی کے ساتھ، معیار بن کر ابھری تو دیگر اقوام اس کی پیروی کریں گی۔ لہذا وہ چاہتے ہیں کہ یہ نہ ہونے پائے۔ اس لئے تفرقہ انگیزی کر رہے ہیں۔
مسلم اقوام کے دشمنوں نے تفرقہ ڈالنے کے لئے جس حربے سے ہمیشہ کام لیا ہے وہ مذہبی اختلاف اور شیعہ و سنی تنازعہ کا مسئلہ رہا ہے کہ لڑائی کروائیں، اختلاف ڈالیں، بھائیوں کو ایک دوسرے کی جان کا دشمن بنا دیں، اختلاف کو بڑھائیں اور بڑا بنا کر پیش کریں، اتحاد اور اشتراک کی باتوں کو کمزور کریں، ان کی اہمیت کم کریں، چھوٹی سی بات کو بڑا کر دیں، بڑھا کے پیش کریں۔ شیعہ اور سنی بھائیوں میں جو اتنی ساری مشترکہ باتیں ہیں ان کی اہمیت کو کم کریں اور انہیں کمزور کریں۔ یہ وہ کام ہے جو ہمیشہ انجام دیا گیا ہے، اس وقت بھی انجام پا رہا ہے۔
اسلامی جمہوریہ نے پہلے دن سے اس سازش کے مقابلے میں استقامت دکھائی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہم کسی کی پرواہ نہیں کرتے۔ یہ ہمارا نظریہ ہے۔ اسلامی نظام کی تشکیل سے پہلے ہمارے بھائی، تحریک کے بزرگ رہنما، انقلابی جدوجہد کے لیڈران، اس زمانے میں جب ابھی اسلامی حکومت اور اسلامی جمہوریہ کی کوئی خبر نہیں تھی، شیعہ سنی اتحاد کے لئے کوشش کر رہے تھے۔ میں خود بلوچستان میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہا تھا۔ اس زمانے سے آج تک بلوچستان کے شہروں، ایرانشہر، چابہار، سراوان اور زاہدان کے حنفی سنی علما سے ان علما سے جو آج بھی الحمد للہ زندہ ہیں، ہمارے قریبی تعلقات ہیں، مخلصانہ روابط ہیں، دوستی ہے۔ میں وہاں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا تھا، ادارے نہیں چاہتے تھے کہ ہماری طرف سے کوئی کوشش ہو لیکن ہم نے کہا آیئے ایسا کام کریں کہ اس شہر میں شیعہ سنی اتحاد کا ثبوت دیں۔ یہ ہفتہ وحدت کی بات کہ نبی کریم کا یوم ولادت برادران اہلسنت کے مطابق بارہ ربیع الاول کو اور شیعہ روایت کے مطابق سترہ ربیع الاول کو ہے ( اس میں ہفتہ وحدت منایا جائے) اس زمانے میں ہمارے ذہن میں آئي اور ایرانشہر میں ہم نے اس پر عمل کیا۔ یعنی بارہ ربیع الاول سے سترہ ربیع الاول تک ہم نے جشن منایا۔ یہ بہت گہری فکر تھی۔ یہ آج اور کل کی بات نہیں ہے۔
مسلمان بھائی دیکھیں کہ ان کا اتحاد کس بنیاد پر ہے؟ یہ ایک زبانی بات ہے یا حقیقت ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری تعلیمات ایک ہیں۔ ہماری توحید ایک ہے۔ ہماری معاد ایک ہے۔ ہماری نبوت ایک ہے۔ ہماری نماز اور ہمارا روزہ ایک ہے۔ ہمارا حج ایک ہے۔ ہمارے دشمن ایک ہیں۔ ہمارے اہداف، ہماری امنگیں اور ہمارے مفاد ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ مسلم اقوام چاہے وہ شیعہ ہوں یا سنی ہوں، ایک دوسرے سے الگ کیسے ہو سکتی ہیں؟ دشمن زبردستی اس جرم کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے۔ لہذا پہلے ہی دن سے اسلامی جمہوریہ اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ رہی ہے جبکہ فلسطین میں جہاں تک میرے ذہن میں ہے، شیعہ نہیں ہیں اور اگر ہوں تو بہت کم ہوں گے۔ فلسطینی بھائیوں نے اس جگہ کو اپنا گھر سمجھا ہے۔ آج تک ایسا ہی ہے۔ آتے ہیں، جاتے ہیں۔ دوسرے اسلامی ملکوں میں سے جہاں مختلف اہلسنت مذاہب پائے جاتے ہیں، کوئی بھی ملک اس طرح فلسطینیوں کے لئے مہربان اور مخلص نہیں رہا ہے۔ دشمن اس کو دیکھ رہا ہے۔ اس لئے چاہتا ہے کہ یہ اتحاد نہ ہو۔ امت اسلامیہ متحد نہ ہو۔
خوش قسمتی سے ایران اسلامی میں ہم اس سازش کو ناکام بنانے میں کامیاب رہے۔ ہمارے ملک میں شیعہ اور سنی بھائیوں نے اتحاد کا بیڑا اٹھایا۔ (اتحاد کے) اس شکوہ اور عظمت کا ایک موثر گوشہ آپ، اس علاقے کے کرد شافعی سنی حضرات ہیں۔ آپ نے اس اتحاد کا ثبوت دیا۔ اس یگانگت، اخلاص اور خلوص کے ثبوت سے دشمن کو دنداں شکن جواب دیا ہے۔ یہ کام بہت اہم اور ممتاز ہے۔
میں تاکید کرتا ہوں کہ پورے ملک میں، ان علاقوں میں بھی جہاں شیعہ اور سنی ایک ساتھ زندگی گزارتے ہیں، ان علاقوں میں بھی جہاں صرف شیعہ حضرات ہیں اور ان علاقوں میں بھی جہاں صرف اہلسنت ہیں، اس طرح عمل کریں کہ دشمن سمجھ جائے کہ اس ملک میں وہ مذہبی اختلاف کے بہانے، مختلف اسلامی فرقوں کے درمیان تفرقہ نہیں ڈال سکتا۔ ورنہ اگر دشمن اس میں کامیاب ہو گیا تو اسی پر اکتفا نہیں کرے گا۔ اگر خدا نخواستہ، وہ شیعہ اور سنی مسلمانوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے میں کامیاب ہو گيا تو سنیوں کے مختلف فرقوں میں اختلاف ڈالے گا۔ اگر وہ متحد ہوں تو انہیں ایک دوسرے سے الگ کرے گا۔ ان میں اختلاف ڈالے گا۔ کچھ لوگ شافعی ہیں، کچھ حنفی ہیں، کچھ مالکی ہیں، کچھ لوگ کسی اصولی مکتب کے پیرو ہیں تو کچھ لوگ دوسرے مکتب کے پیرو ہیں۔ دشمن ان کو نہیں چھوڑے گا۔
کامیابی کا راستہ یہ ہے کہ دشمن کے مقابلے میں ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹا جائے۔ دشمن کے مقابلے میں ایک قدم کی پسپائی اس کے اندر ہاتھ بڑھانے اور پنجہ مارنے کی جرائت پیدا کرتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ کو یہ افتخار حاصل ہے کہ بتیس سال میں اس نے دشمن کے مقابلے میں ایک قدم بھی پسپائی اختیار نہیں کی ہے۔ اگرچہ دباؤ بہت رہا، فوجی دباؤ، سیکورٹی کا دباؤ، بائیکاٹ کا دباؤ، سیاسی دباؤ، تشہیراتی دباؤ (بہت) تھا لیکن ہم نے قدم پیچھے نہیں ہٹایا اور میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ میرے عزیزو' بھائیو، بہنو، اس علاقے کے روشنفکر نوجوانو' جان لیجئے کہ ایرانی قوم اور اس ملک کے حکام آئندہ بھی دشمن کی زور زبردستی اور دباؤ کے مقابلے میں ایک قدم بھی پسپائی نہیں اختیار کریں گے۔
اس علاقے کے وہ دلیر اور بہادر لوگ جو مرحوم ہو گئے، خدا ان پر رحمت نازل فرمائے، خدا شہید چمران، شہید کشوری اور شہید شیرودی پر رحمت نازل فرمائے جو اس علاقے میں اپنے ہیلی کاپٹروں سے آتے جاتے رہتے تھے، شہید ناصر کاظمی اور اس علاقے کے دیگر شہیدوں پر اس علاقے کے ان نوجوانوں پر جنہوں نے اپنی جان فدا کرکے شہادت کو گلے لگایا، خدا رحمت نازل فرمائے۔ اس تقریر سے پہلے یہاں نیچے کچھ برداران عزیز آئے ان کا تعارف ہوا کہ یہ فلاں شہید کے بیٹے ہیں، یہ فلاں شہید کے بیٹے ہیں، یہ اس شہید کے بیٹے ہیں، ہمارے شہدا کے بچے آج جوان ہو گئے ہیں۔ خدا ان پر اور ان ماؤں پر جنہوں نے اپنی آغوش میں ان کی تربیت کی اور ان کے معلمین اور اساتذہ پر رحمت نازل فرمائے۔
میری تاکید ہے کہ دینی اور ثقافتی معلومات کی یہ روش جو پاوہ میں نمایاں طور پر پائی جاتی ہے، ان شاء اللہ جاری رہے اور اس میں وسعت آئے۔ دینی معلومات، تاریخی معلومات، اسلامی معلومات، معاشرے کے حقائق کی بصیرت (میں وسعت آنی چاہئے) ملت ایران نے صبر کیا، آپ نے صبر کیا، استقامت کی، پائیداری کو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کیا اور ان باتوں کا آج اثر ظاہر ہوا ہے۔ امت اسلامیہ بیدار ہوئی ہے۔ سامراجی طاقتیں یہ نہ سمجھیں کہ وہ اس علاقے میں اسلامی بیداری اور انقلابات کے اس سلسلے کو روک سکتی ہیں، کبھی نہیں۔ بیشک بیداری کی یہ تحریک جاری رہے گی اور بہتر مستقبل عوام کا منتظر ہے۔
میں ایک بار پھر آپ کا، محترم حاضرین کا اور اس علاقے اور اسی طرح کرمانشاہ کے دیگر علاقوں کے حکام کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ چند روز قبل ہم گیلان غرب گئے ۔ میں نے گیلانغرب کے عوام، اسلام آباد کے عوام اور قصر شیریں کے عوام کی قدر دانی کی۔ سرپل ذہاب کے عوام کی قدردانی بھی ضروری ہے جنہوں نے کافی فداکاری کی ہے۔ میں خود بارہا ابوذر فوجی چھاؤنی گیا تھا۔ عوام نے جو مدد کی، اس علاقے اور پورے کرمانشاہ کے عوام نے جو استقامت دکھائی وہ بہت اہم ہے اور ان شاء اللہ اس کے اثرات جس طرح کہ علاقے کی نئی نسل کی پروش میں ظاہر ہوئے ہیں، اس علاقے کی پیشرفت میں بھی ظاہر ہوں گے۔
امید ہے کہ ان شاء اللہ محترم حکام کو اس بات کی توفیق ملے گی کہ اس علاقے خاص طور پر پاوہ اور اورامانات کے مسائل و مشکلات برطرف کریں گے اور ہم آپ عزیز لوگوں بالخصوص اس علاقے کے عزیز نوجوانوں کے لئے ذہن میں بہتر مستقبل مجسم کریں گے اور اس مستقبل کی امید اور توقع رکھیں گے۔ میں آپ تمام لوگوں کو خدا کی حفاظت میں دیتا ہوں اور خدا سے آپ کے لئے توفیق کی دعا کرتا ہوں ۔
 
و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ