قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

عزیز بھائیو اور بہنو! بالخصوص اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے عظیم شہیدوں کے خاندان والو! اپنے اعضائے جسمانی کا نذرانہ پیش کرنے والے جانبازو! مقدس جہاد کے میدان کے آزمودہ سپاہیو اور فوج کے طاقتور اور توانا کمانڈرو! مجھے ایک بار پھر یہ بہت اچھا موقع ملا ہے کہ یوم مسلح افواج کو جو حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی اہم یادگاروں میں سے ہے، خراج عقیدت پیش کروں، اس دن کی مناسبت سے فوج کی فداکاریوں پر اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے تمام اراکین کی خدمت میں قدردانی اور شکرئیے کا قلبی پیغام پیش کروں۔
حقیقت یہ ہے کہ فوج کو ایک بہت اچھا موقعہ ملا، یہ مقدس جہاد کا موقعہ تھا۔ اگر دنیا میں کوئی فوج ہو جس کو حقیقی میدانوں میں جنگ کا تجربہ نہ ہو اور صرف کتابوں میں اور کلاسوں میں کبھی کسی کی تو کبھی کسی اور کی زبان سے جنگ کے بارے میں سنے تو یہ ایک حقیقی یا کم سے کم مناسب فوج نہیں ہے۔ مگر جس فوج نے جنگ کو گوشت و پوست اور ہڈیوں سے اپنی حیات میں لمس کیا ہو، اور وہ بھی ایک دو روز نہیں بلکہ آٹھ سال سے زیادہ عرصے تک لمس کیا ہو، خود وہ فوجی، اس کی شریکہ حیات، اس کے بچے، اس کا گھر جنگ اور جنگ کے واقعات سے جڑ جاتا ہے اور سب ہی جنگ کے آلام سے متاثر ہوتے ہیں۔ بالخصوص وہ جنگ جو جارحیت، کثرت طلبی اور اپنی قلمرو نیز مقبوضہ علاقوں کی توسیع کے لئے نہ ہو، بلکہ وہ جنگ جو قومیت، ملک، اسلام، انقلاب اور ملت ایران کے شرف کے دفاع کے لئے ہو، ایسی جنگ کرنے والی فوج ایک حقیقی، باعزت اور سرافراز فوج ہے۔
آج ہماری فوج ایسی ہے۔ البتہ کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو جنگ ختم ہو جانے کے بعد فوج میں آئے ہیں یا جنگ کے دوران انہیں میدان جنگ میں جانے کا شرف نہ مل سکا لیکن بات اکثریت کی ہے۔ ہماری فوج کے اراکین کی واضخ اکثریت ایسی ہے جو خود بھی اور ان کے گھر والے بھی جنگ سے متاثر ہوئے ہیں اور جنگ کی سخت آزمائش سے گذرے ہیں۔ یہ بہت بڑا امتیاز اور افتخار ہے۔
میرے عزیزو! یہاں میں ایک نکتہ عرض کروں گا اور وہ یہ ہے کہ کوشش کریں اس افتخار کو محفوظ رکھیں اور روز بروز اس میں اضافہ کریں۔ وہ لوگ بھی جو میدان جنگ میں تھے اپنے لئے یہ کوشش کریں اور پوری فوج، فوج کے تمام عناصر اور ان کے گھر والے، پوری فوج کے لئے یہ کوشش کریں۔ کیونکہ انسان ایسی مخلوق ہے جو بدل بھی سکتی ہے اور نقصان بھی اٹھا سکتی ہے۔ البتہ بدلنے کی صلاحیت ایک مضبوط پہلو بھی ہے۔ کیونکہ اگر انسان کے اندر جمود ہوتا، اس میں تغیر و تبدل اور جرکت نہ ہوتی تو پیشرفت بھی میسر نہ ہوتی ۔ انسان کا قابل تغیر و تبدل ہونا یہ بیان کرتا ہے کہ وہ آگے بڑھ سکتا ہے، بد عنوانیوں کے خلاف جدوجہد کر سکتا ہے اور خود کو بچا سکتا ہے۔ یہ خود انسان کے لئے تکامل کے عظیم مدارج میں سے ایک ہے۔ بنابریں کوشش کریں کہ انسان کو تکامل کے جو مواقع ملے ہیں ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں تاکہ فوج روز بروز پیشرفت کرے اور انسان خود روز بروز خدا سے نزدیک ہو۔
ہم نے فوجی چھاؤنیوں میں اور فوجیوں سے خطاب میں فوج کے بارے میں آپ سے بہت کچھ عرض کیا ہے اور عرض کرتے ہیں مگر آج اس حسینیہ میں میں چاہتا ہوں کہ ایک بات جو پوری ملت ایران سے تعلق رکھتی ہے، آپ سے عرض کروں۔ وہ بات یہ ہے کہ برسوں پہلے، شاید کہا جا سکتا ہے کہ دو سو سال سے زیادہ عرصے سے زیادہ دولت و طاقت کی طلبگار قوتوں نے جو دنیا کے تمام علاقوں کو اپنے تسلط میں لینا چاہتی تھیں، ملت ایران پر ایک جدوجہد مسلط کی ہے۔ وہ چاہتی تھیں کہ جو بھی قدرتی ذخائر ہیں، ثقافتی ورثے ہیں، حصول علم کے وسائل ہیں، صلاحیتیں ہیں، ان سب کو لے جائیں اور اس تمدن اور نظام کے لئے جو یورپ میں نیا نیا آیا تھا، یعنی صنعتی تمدن اور صنعتی تہذیب پر استوار سیاسی نظام کے لئے ان کا استعمال کریں۔ انہوں نے ان تمام اقوام پر کہ جن سے استفادہ ممکن تھا، ان کے نہ چاہتے ہوئے بھی، جدوجہد مسلط کر دی۔ یورپ کی قلمرو بہت چھوٹی تھی جس میں طاقت کی پیاس بہت زیادہ تھی اور دنیا میں دولت و ثروت کا بڑا حصہ یورپ میں نہیں بلکہ ایشیا اور افریقا میں تھا۔ دولت و طاقت کی ہوس رکھنے والے، اس دولت و ثروت کے حصول کے لئے مجبور تھے کہ دور دراز کا راستہ طے کریں اور دنیا کے دولت و ثروت سے مالا مال علاقوں پر قبضہ کرکے، اس دولت کو اس سیاسی نظام میں لگائیں جس نے یورپ میں سائنسی و صنعتی ترقی کی شروعات کا مزہ چکھا تھا۔ اس طرح وہ ایشیا اور افریقا کی دولت و ثروت پر ٹوٹ پڑے۔ جس نے بھی دنیا کی عصری تاریخ کا مطالعہ کیا ہو وہ جانتا ہے کہ اس کے بعد کیا ہوا۔ ہندوستان پر سامراج کا قبضہ ہوا۔ چین استعمار کی بھینٹ چڑھا۔ جاپان اور مشرقی ایشیا کے تمام علاقے استعمار کی بھینٹ چڑھے اور آسٹریلیا ایک بار میں نگل لیا گیا۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کوئی ملک عوام سے خالی ہو یا عوام کی اپنی کوئی تہذیب نہ ہو۔ ظاہر ہے ایسے ملک پر قبضہ استعمار کے لئے آ‎سان ہوتا ہے لیکن کوئی ملک ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس کے عوام اپنی تہذیب و تمدن اور درخشان ماضی اور تشخص کے مالک ہوتے ہیں ، ایسے ملک میں داخل ہونا سامراج کے لئے مشکلات سے خالی نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ اس ملک کے عوام کی جانب سے سامراج کو جد و جہد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس عامل نے جس کو آج ہم استکبار کہتے ہیں، مذکورہ جدو جہد ملت ایران پر مسلط کی۔ ماضی میں جب استکبار اور سامراج کسی ملک میں داخل ہوتا تھا تو براہ راست استعمار کی شکل میں آتا تھا اور اس ملک پر قبضہ کر لیتا تھا۔ مگر آج سامراج اقوام پر تسلط اور قبضے کے لئے زیادہ پیشرفتہ طریقوں سے کام لیتا ہے۔ بنابریں ملت ایران نے ڈیڑھ سو سال یا زیادہ عرصے تک، سامراجی ملکوں کے خلاف جو جدوجہد کی ہے، تنباکو کی تحریک سے لیکر بعد کے واقعات، قومی تحریک اور امریکا اور دوسرے ملکوں کی سامراجی پالیسیوں کے خلاف ملت ایران کی آج کی جدوجہد تک، یہ سب وہ جدوجہد ہے جو ہماری قوم پر مسلط کی گئ ہے۔ ورنہ اگر وہ ملت ایران کو آزاد چھوڑ دیتے اور اس کو سکون سے اپنے آپ، اپنے ملک، اپنے مفادات اور اپنے ذخائر کے لئے کام کرنے دیتے تو ممکن تھا کہ یہ جدوجہد اس شکل میں نہ ہوتی۔ انہوں نے یہ جدوجہد ملت ایران پر مسلط کی اور آج بھی وہ حملہ آور اور جارح بنے ہوئے ہیں۔
ہم دنیا کی بڑی طاقتوں کا گریبان دنیا میں ہر جگہ پکڑیں گے۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ یہ ظالم اور جارح ہیں۔ ہم ظالم کو اس کے حال پر نہیں چھوڑیں گے اور یہ نہیں کہیں گے کہ اگر ہمیں چھوڑ دو تو ہم تم سے کوئی واسطہ نہیں رکھیں گے۔ وہ حملہ آور اور جارح ہیں اور مسلسل اقوام پر ظلم کر رہے ہیں۔ ہم ان اقوام اور حکومتوں میں سے نہیں کہ ظالم کو اس کے حال پر چھوڑ دیں تاکہ وہ اپنا کام کرے۔
بنابریں بھائیو اور بہنو! یہ جدوجہد قدیم الایام سے ملت ایران پر مسلط کی گئی ہے۔ بات آج کی نہیں ہے۔ البتہ اس ملک میں اسلامی انقلاب آنے کے بعد گذشتہ نظام جو پوری طرح سامراجی طاقتوں کے اختیار میں تھا، ختم ہو گیا۔ استکباری طاقتیں زیادہ برہم ہوئیں اور جدوجہد زیادہ تیز اور تند ہو گئی۔ آپ ملاحظہ کریں کہ کسی زمانے میں، کوئی بہت پرانی بات نہیں ہے، ملک کے دارالحکومت تہران میں ایسی حکومت بر سراقتدار تھی کہ اس حکومت کا بادشاہ اپنے لئے وزیر اعظم کا انتخاب کرنا چاہتا تھا تو پہلے امریکا سے پوچھتا تھا کہ آپ موافق ہیں یا نہیں کہ میں فلاں کو منتخب کروں؟ جب تیل کی کمپنی کے ڈائریکٹر یا وزیر دفاع یا فوج کے کمانڈر کو بدلنا چاہتا، ایک کو ہٹا کر دوسرے کو لانا چاہتا تو امریکی سفیر سے درخواست کرتا تھا کہ آپ میری رہائشگاہ پر تشریف لائیں تاکہ معلوم ہو کہ آپ کی پالیسی اس ردوبدل کے حق میں ہے یا مخالفت میں۔ آسان الفاظ میں ان اغیار سے معلوم کرتا تھا کہ کیا کرے۔ سامراج کو بھی تکلف کی عادت نہیں تھی کہ سامنے والا اگر جھک گیا تو کہے کہ ہمیں تم سے کچھ نہیں کہنا ہے۔ وہ ایسا ہرگز نہیں کرتا تھا۔ آپ استکبار اور استعمار کے سامنے جتنا زیادہ جھکیں گے اتنا ہی زیادہ دباؤ بڑھے گا۔ اگر آپ نے سر جھکا لیا تو وہ زیادہ آ‎سانی سے دباؤ ڈالیں گے، یہاں تک کہ آپ سجدے میں چلے جائیں۔ اور جب ان کے مقابلے میں زمین پر گر گئے اور سجدے میں چلے گئے تو پوری قوت سے آپ کے اوپر اپنے پیر رکھیں گے۔ یہ سامراجی اور جارح طاقتوں کی سرشت ہے۔
وہ اس شاہی حکومت کے مقابلے میں جو اس طرح ان سے اپنا فریضہ معلوم کرتی تھی، کبھی کہتے تھے کوئی حرج نہیں ہے اگر آپ نے فلاں شخص کو فلاں منصب دیا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے ہم موافق ہیں اور کبھی اس کی مخالفت کرتے تھے اور اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ جس کو چاہیں ہٹائیں یا لائیں۔ سوچیں! پندرہ سال پہلے تک اس ملک میں اور اس شہر تہران میں ایسی حکومت تھی ۔
ملک میں ایسی حکومت کے دور میں ملک کا تیل، ملک کی فولاد، اس ملک کے پتھر کے کوئلے، اس ملک کے ذخائر، ملک کی زراعت، اس ملک کی یونیورسٹیوں، اس ملک کی فوج کی کیا حالت تھی؟ کس کے لئے کام کرتی تھی؟ ظاہر ہے اسی استکباری طاقت کے لئے۔ البتہ وہ استکباری طاقت صرف ایک ملک نہیں تھا۔ کچھ عرصے تک برطانیہ تھا۔ بعد میں جب امریکا ایک دولت مند طاقت کے عنوان سے میدان میں آیا تو اس نے اس پرانے بوڑھے حریف کو میدان سے باہر کیا اور خود سب کچھ بن گیا۔
ان حالات میں انقلاب وجود میں آیا اور اس نے اس حلقہ بگوش زرخرید حکومت کو ختم کر دیا اور ایسی حکومت برسراقتدار لایا جس نے آسمان کے مقابلے میں میں بھی سرتسلیم خم نہ کیا اور نہ کرے گی۔ انقلاب جو حکومت برسراقتدار لایا وہ ایک لمحے کے لئے بھی دونوں سپر طاقتوں، امریکا اور سوویت یونین کے سامنے نہ جھکی۔ یہ دونوں سپر طاقتیں اگرچہ ایک دوسرے کی مخالف تھیں مگر چند مسئلوں میں ایک دوسرے سے متفق تھیں۔ ان چند مسئلوں میں سے ایک جو اہم ترین تھا، اسلامی جمہوریہ ایران پر دباؤ ڈالنا تھا۔ ایران پر دباؤکے لئے دونوں سپر طاقتوں کا اتفاق واضح اور آشکارا تھا۔ کیا اس کے برعکس ہو سکتا تھا؟ جو بھی میدان میں تھا، اس مسئلے کو آشکارا دیکھ رہا تھا۔ یہ ایسی چیز نہیں تھی جو کسی نے چھپائی ہو۔ مگر انقلاب کے نتیجے میں آنے والا اسلامی نظام دونوں سپر طاقتوں کے سامنے ڈٹ گیا۔
آج بھی امریکا کے صاحبان اقتدار سادہ لوحی اور حماقت میں اپنے خیال خام کے تحت، سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا کے سردار ہیں۔ اس طرح بات کرتے ہیں گویا پورے کرہ زمین کے ٹھیکیدار ہیں۔ کچھ لوگ اپنی کمزوری اور ڈر سے ان کی جی حضوری کرتے ہیں۔ آج بھی اسلامی جمہوریہ ایران پوری قوت سے امریکا کے مقابلے مین ڈٹا ہوا ہے اور امریکی صاحبان اقتدار سے کہتا ہے؛ تم ہو کون؟ اگر طاقت اور قوت رکھتے ہو تو جاؤ اپنا ملک سنبھالو، اگر سچ کہتے ہو تو نیویارک، واشنگٹن اور لاس اینجلس کی سڑکوں سے بدامنی کو دور کرو، اگر سچ کہتے ہو تو امریکا کے اندر کالے اور گورے کے درمیان موجود نسلی امتیاز اور انسانی حقوق کی پامالی کو ختم کرو۔ تم کون ہوتے ہو دنیا کے معاملات میں مداخلت کرنے والے؟!
یقینی بات ہے کہ جب ایران میں ایسی اسلامی جمہوری حکومت ہوگی تو سامراجی طاقتوں کی جانب سے اس کی مخالفت شدید تر ہوگی۔ یہ کوئی مذاق نہیں بلکہ امریکی مفادات کا مسئلہ ہے۔ امریکا کی سیاسی، اقتصادی اور تشہیراتی طاقت کا مسئلہ ہے جو یہاں ذبح کر دیا گیا اور اس کا سر پتھر سے کـچل دیا گیا ہے۔ اس واقعے پر وہ برہم اور غضبناک ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ جد وجہد دو سو سال سے جاری تھی ۔ مگر اس دور میں جد و جہد اور وہ بھی مکمل طور پر استکباری طاقت کے خلاف جد و جہد صرف ملت ایران سے مختص تھی۔ ملک پر مسلط حکومت، کم از کم گذشتہ پچاس سے کچھ اوپر برسوں کے دوران اور قاجاری دور کے اواخر سے، دست بستہ استکبار کی کے سامنے جی حضوری کے لئے مستعد رہتی تھی۔ البتہ استکبار کسی زمانے میں برطانیہ تھا، کبھی سوویت یونین تھا اورپھر امریکا کی شکل میں ظاہر ہوا۔
ایران میں اسلامی انقلاب کے کامیاب ہونے کے بعد ایران کی حکومت اور قوم سے سامراج کی دشمنی شروع ہوگئ جو گذشتہ پندرہ سال سے آج تک جاری ہے۔ یہ لڑائی اس حکومت اور ملت سے ہے جو پورے استحکام کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہے اور اپنی جگہ سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے گی اور دنیا میں اس کی بات سننے والے بہت ہیں۔ ہمارا دشمن اپنے تمام طمطراق کے ساتھ اب تک اس نظام پر کوئی وار لگانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔
اسلامی جمہوری نظام پر وار لگانے کے لئے استکبار کا ایک اقدام آٹھ سالہ جنگ مسلط کرنا تھا۔ ہمارے دشمنوں نے اپنے مقصود تک پہنچنے کے لئے خود کو ہلاک کر ڈالا۔ نیٹو، امریکا، سوویت یونین، سبھی نے عراق کو مسلح کیا تاکہ وہ ایران کا ایک حصہ اس سے الگ کر دے۔ مگر آپ نے دیکھا کہ یہ کام نہ کر سکے۔ بنابریں آج ان کی طرف سے لڑائی زیادہ سخت اور زیادہ معاندانہ ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے وہ منھ کی کھا کے ناکام ہو چکے ہیں۔
آپ فوجی ہیں اور جانتے ہیں کہ جنگوں میں ہر فریق کو اپنے مضبوط دفاعی، سیاسی اور اقتصادی پہلوؤں اور دشمن کے کمزور پہلوؤں کو مد نظر رکھنا چاہئے۔ آپ دیکھیں کہ آپ کی طاقت اور قوت کا پہلو کیا ہے، اس پر بھروسہ کریں؛ جس طرح آپ میدان جنگ میں یہ کام کرتے ہیں۔ یعنی دشمن کے کمزور پہلو اور اس بات کا پتہ لگاتے ہیں کہ دشمن کی صفوں میں کس جگہ پر وار کیا جا سکتا ہے، حملہ دشمن کی کمزور جگہ پر مرکوز کیا جاتا ہے۔ اگر ممکن ہوتا ہے تو دشمن کی محکم پوزیشن کو ختم کر دیتے ہیں۔ یہ سارے کام کرتے ہیں۔ فرض کریں کہ اگر دشمن کے پاس بہت تیز رفتار ہوائی جہاز ہوں تو اس کو گرانے کے لئے اینٹی ایئرکرافٹ سسٹم کی تقویت کرتے ہیں یا اگر دشمن کا بکتربند یونٹ بہت مضبوط ہو تو اس کو ناکام بنانے کے لئے آپ اپنے بکتربند شکن سسٹم کو محکم کرتے ہیں۔ فوجی جنگوں میں یہ کلی قاعدہ ہے اور دنیا کی تمام افواج جنگوں میں یہی کام کرتی ہیں۔ سیاست کی دنیا میں بھی ایسا ہی ہے۔ سامراج نے ہمارے ملک کو دیکھا ہے کہ ملت ایران کے کمزور پہلو بھی ہیں اور محکم پہلو بھی ہیں۔ بنابریں کوشش کر رہا ہے کہ کمزور نقاط سے بھرپور فائدہ اٹھائے کہ طاقت و قوت کے پہلوؤں کو ختم کر سکے اوراس قوم کو اس بات کا موقع نہ دے کہ یہ اپنے طاقت و قوت کے پہلوؤں سے فائدہ اٹھا سکے ۔
ہم کمزوری کے پہلووں کا ذکر نہیں کریں گے کیونکہ اس کے لئے طولانی بحث کی ضرورت ہے اور میں چاہتا ہوں کی میری گفتگو مختصر ہو۔ ملت ایران کے طاقت و قوت کے نقاط اتنے زیادہ ہیں کہ اگر ترتیب سے ان کی طرف اشارہ کرنا چاہیں تو اس وقت شاید ان میں سے سات آٹھ کا ذکر کیا جا سکتا ہے جن کے بارے میں کوئی شک و تردد نہیں کر سکتا۔
ملت ایران کا ایک مضبوط پہلو اس کی اعلا ذہانت ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف ہم ایرانی عوام کے، طاقت کے اس پہلو کے دعویدار ہیں بلکہ دنیا کے تمام تعلیم یافتہ لوگ، یونیورسٹیوں کے اساتذہ جو ان باتوں سے واقفیت رکھتے ہیں، جانتے ہیں کہ ایرانیوں کی اوسط ذہانت کی شرح دنیا کی اوسط ذہانت کی شرح سے زیادہ ہے۔ پوری دنیا میں اقوام کی ذہانت کا اوسط نکالنے والے ماہرین اور محققین جن کا کام ہی صلاحیتوں اور ذہانتوں کو پرکھنا ہے، ایرانیوں کے اس مضبوط پہلو کا اعتراف کرتے ہیں۔ بنابریں ملت ایران ایک ذہین قوم ہے اور اس مضبوط پہلو کا نتیجہ یہ ہے کہ اس کے لئے سائنسی، صنعتی اور سیاسی پیشرفت کی راہیں ہموار ہیں۔
ملت ایران کا ایک اور مضبوط پہلو اس کا قدیم ماضی اور تاریخی، علمی اور ثقافتی جڑیں ہیں جن کے بارے میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے۔ جو قوم آج پودے سے نکل کر باہر آئی ہے اور ایک قوم بنی ہے اور اس کی علمی و ثقافتی میراث اور بزرگوں کا کوئی ماضی نہیں ہے، اس کا اس ملت سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا کہ کسی زمانے میں دنیا کے بڑے دانشور جس سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ امتیاز ایک دوبار کا نہیں بلکہ صدیوں اس کے پاس رہا ہے۔ اسلام کے بعد کی صدیوں میں یعنی چوتھی صدی ہجری کے بعد کی کئی صدیوں تک، میں دقیق حد بندی نہیں کرنا چاہتا کیونکہ صدیوں کی حد بندی مخدوش اور محل اختلاف ہے، مگر اصل بات مسلمہ ہے۔ محتلف علمی شعبوں میں، چاہے وہ فیزکس کا شعبہ ہو یا آرٹس کے علوم ہوں نجوم ہو، یا ادبیات، فلسفہ ہو یا ریاضیات تمام شعبوں میں دنیا کے عظیم ترین دانشور ایرانی تھے۔ ان کے درمیان فارابی، ابن سینا، فخر رازی، محمد بن زکریا رازی، خوارزمی، خیام، فردوسی اور سعدی جیسی شخصیات ابھر کے سامنے آئی ہیں۔ یہ ہماری قوم کا ماضی ہے۔
واضح مثال کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ تاریخی ماضی، کنکریٹ اور آرسی سی کی بنیاد کی طرح ہے جس پر ستون قائم ہوتے ہیں۔ کنکریٹ کی بنیاد جتنی گہری اور مضبوط ہوگی اس پر قائم ستون بھی اتنے ہی محکم ہوں گے۔ جس قوم کا کوئی تاریخی ماضی نہیں ہے وہ اس کمزور ستون کی طرح ہے جو بغیر کسی بنیاد کے زمین پر کھڑا ہو۔ وہ ستون چاہے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، بہت کمزور ہوگا۔
اب آپ دیکھیں کہ ہمارے دشمن ان مضبوط نقاط کے سلسلے میں کیا موقف اختیار کرتے ہیں۔ دیکھئے کہ ان مضبوط پہلوؤں میں سے بعض جو لئے جا سکتے ہیں کس طرح ملت ایران سے چھین لینے کی کوشش کر رہے ہیں اور بعض جو نہیں لئے جا سکتے، انہیں اس ملت سے پوشیدہ کرنے کی اور اس ملت کا حوصلہ کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ملت ایران کی قوت کا ایک پہلو اس کا ایمان اور دینی جذبہ ہے۔ دینی و مذہبی معرفت اور الہی و معنوی مسائل میں اس کی گہری دلچسپی ہے۔ یہ بھی قوت کا ایسا پہلو ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ ہمیشہ عظیم کارنامے ان لوگوں نے انجام دیئے ہیں جو غیب کے مرکز سے منسلک رہے ہیں۔ یہ بالکل واضح سی بات ہے۔ مثال کے طور پر ملت ایران کے آٹھ سالہ جہاد میں اگر غیب سے توسل اور اس پر توجہ اور عالم کی تمام طاقتوں کے سرچشمے یعنی خدا کی ذات پر توکل نہ ہوتا تو یہ عظیم کامیابیاں حاصل نہ ہوتیں۔
اس مضبوط محاذ کے مقابلے میں معنویت پر بھروسہ تھا جس نے تمام گرہیں کھول دیں۔ جب اس قوم سے کہتے تھے؛ دشمن کے پاس تمہیں شکست دینے کے لئے تمام اسلحے موجود ہیں تو ملت ایران کا جواب یہ ہوتا تھا کہ خداوند عالم ان چیزوں سے بالاتر اور قوی تر ہے۔ ملت ایران اس اعتقاد کے ساتھ مسلط کردہ جنگ، عظیم اسلامی انقلاب اور تمام تاریخی مراحل میں آگے بڑھی ہے۔ یہ ایرانی قوم کی خصوصیات ہیں۔ ملت ایران دین پر یقین رکھنے والی قوم ہے۔ البتہ دنیا میں دین پر یقیق رکھنے والی اقوام ہیں اور مغربی اقوام میں بھی بعض، دین پر یقین اور اعتقاد رکھتی ہیں مگر بعض لاابالی قسم کے افراد ہیں جن کا دین، ایمان خدا اور معنویت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ دنیا میں عیسائیوں کے درمیان اور غیر مسلموں کے درمیان اور دیگر ادیان کے ماننے والوں میں ایسے لوگ ہیں۔ ملت ایران ان اقوام میں سے ہے جن کا رجحان ہمیشہ دین کی طرف رہا ہے۔
انقلاب سے پہلے ایک معروف عرب قلمکار اور مصنف ایران آئے، مجھ سے ملاقات میں انہوں نے کہا کہ میں تمام اسلامی ملکوں میں گیا ہوں، مگر میں نے کسی بھی ملک میں نہیں دیکھا کہ لوگ ریل گاڑی میں سفر پر جا رہے ہوں، نماز کے وقت ریل گاڑی رکے تو سب نماز کے لئے اتر جائیں انہوں نے کہا کہ میں نے پہلی بار ایران میں یہ بات دیکھی جس کی مثال کہیں اور نہیں دیکھی
جی ہاں! یہی دینی اور معنوی رجحان تھا جو قوت کے ایک اور پہلو کو وجود میں لایا اور وہ اس ملت کی زندگی کے حساس ترین دور اور تاریخ کا دلیرانہ ترین قیام اور عظیم ترین قومی امتحان ہے، یعنی ہمارے عظیم ترین اسلامی انقلاب کا کامیابی سے ہمکنار ہونا ہے، اس کی اساس پر ایک حکومت کی تشکیل ہے جو یہی اسلامی جمہوری حکومت ہے۔ یہ دین پر یقین کا ثمرہ ہے۔ آپ نے دیکھا ہے ایسے لوگوں کو جو آزادی، جدوجہد اور انقلاب کا دعوی کرتے تھے مگر اندر سے ان کا وجود دین سے بیگانہ تھا، کس طرح آدھے راستے میں گر گئے اور آگے نہ بڑھ سکے۔ مگر ملت ایران اسی طرح آگے بڑھتی رہی اور اب بھی ایمان کی برکت سے آگے بڑھ رہی ہے۔
بنابریں ملت ایران کی قوت کا ایک پہلو اس کا دلیرانہ قیام ہے۔ آپ تاریخ میں ظالم طاقتوں کے خلاف آنے والے انقلابات پر ایک نگاہ ڈالیں۔ ہر ایک کو غور سے دیکھیں اور غور کریں تو آپ پھر بھی دیکھیں گے کہ ملت ایران کا انقلاب کہ جس کے عملی مراحل طے ہونے میں پندرہ سال کا عرصہ لگا، اس کی جڑیں پندرہ سال سے زیادہ پرانی ہیں اور اس کی راہ میں کی جانے والی فداکاریاں اور شہید ہونے والے بہت ہیں۔ اس انقلاب میں کتنی قربانیاں دی گئی ہیں؟ یہ کوئی معمولی بات ہے؟ فداکاری کوئی آسان کام ہے؟ آپ اگر بس کی لائن میں ہوں، اپنی جگہ کسی دوسرے کو دے دیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے ایثار کیا۔ آپ خود اس سے خوش ہیں اور دوسرے بھی اس پر آپ کی تعریف کرتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ فداکاری اتنی اہم ہے۔ یہاں تک کہ بس کی لائن میں اپنی جگہ اگر کسی کو دے دی تو بظاہر اہم کام نہیں ہے۔ اس بس کے پندرہ منٹ بعد دوسری بس آ جائے گی اور آپ بھی چلے ہی جائیں گے۔ اب آپ دیکھیں کہ جان کی قربانی، عزیزوں کی قربانی، تمام مادی حیات کے زیوروں کی قربانی، کتنی اہمیت رکھتی ہے، یہ کوئی کھیل ہے؟
ملت ایران نے انقلاب کے دوران ایسی ہی فداکاری کی اور انتہائی دلاوری کے ساتھ انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ مگر آج کچھ روسیاہ زرخرید قلمکاروں کی نگاہیں امریکی جاسوسی تنظیم پر ہیں کہ کس بات سے اس کو خوشی ہوتی ہے اور کس بات پر انہیں چند ڈالر ملیں جائيں گے، تا کہ وہی لکھیں۔ یہ اپنی تحریروں میں لکھتے ہیں کہ ملت ایران نے انقلاب لاکر غلطی کی ہے یعنی ملت ایران کے عظیم ترین دلیرانہ کارنامے کو اس طرح معمولی ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں ملت ایران نے غلطی کی اور انقلاب لانے پر وہ اب پشیمان ہے ان پر ملت ایران کی لعنت ہو۔ ان زرخرید قلمکاروں پر ملت ایران کی لعنت ہو۔ ملت ایران کی قوت کا سب سے بڑا پہلو یہی انقلاب ہے جو کامیاب ہوا۔ ملت ایران کی قوت کا ایک بڑا نقطہ یہ ہے کہ اس کی حکومت عوامی ہے، نظام عوامی ہے، صدر مملکت عوامی ہے، اراکین پارلیمنٹ عوامی ہیں، عوام کے اندر سے آئے ہیں، سلطان اور بادشاہ نہیں ہیں کہ عوام پر حکومت کو اپنا حق سمجھیں اور انہیں اپنا نوکر تصور کریں۔ ظالم شاہی نظام کے کارندے اسی طرح تھے۔ وہ جاہل، حقیر اور فرومایہ شخص صرف اس لئے کہ اس کا باپ اسی کی طرح غنڈہ تھا عوام پر حکومت کا مالک بن بیٹھا تھا۔ لوگ اگر اس کے سامنے زمین پر گر جاتے تو سجھتا کہ یہ اس کا حق ہے، انہیں زمین پر گرنا ہی چاہئے۔ وہ اپنا حق سجھتا تھا کہ عوام کے ساتھ جو چاہے کرے۔ یہ کیسی حکومت تھی؟ ایک قوم کے لئے یہ کتنے شرم کی بات تھی؟
آج پروردگار کے فضل سے اس ملک میں جو لوگ اقتدار اور حکومت میں ہیں، اپنے لئے اور اپنے رشتہ داروں کے لئے وہ کوئی دعوی نہیں رکھتے اور اپنے لئے کچھ بھی نہیں چاہتے۔ (حضرت) امام (خمینی رحمت اللہ علیہ ) اس عظمت کے ساتھ خود کو عوام کا خدمتگار سمجھتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے۔ حکام کے لئے بھی فخر کی بات یہ ہے کہ عوام کے خدمتگار ہوں۔ صراحت کے ساتھ کہتے بھی ہیں کہ ہم عوام کے خدمتگار ہیں اور ان کی خدمت کے لئے آئے ہیں چند روز ہیں اور چند دنوں کے بعد نہیں ہیں۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ یہ طاقت کا پہلو بہت عظیم ہے۔ البتہ طاقت و قوت کے نقاط کافی ہیں، ان سب کو میں گنوانا نہیں چاہتا۔
خواتین وحضرات! ہمارے دشمن جنہوں نے دو سو سالہ لڑائی جاری رکھی ہے، ان کی کوشش یہ ہے کہ ہمارے طاقت و قوت کے ان نقاط کو ختم کر دیں جنہیں ختم کرنے پر وہ خود کو قادر سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ سمجھتے ہیں کہ عوام کے مذہبی جذبے کو ختم کر سکتے ہیں۔ اسی خیال کے تحت انہوں نے مغربی برائیوں، فحاشی اور شہوت پرستی کا سیلاب تیسری دنیا کے ملکوں کی طرف روانہ کیا ہے اور اس کو ہمارے ملک میں بھی داخل کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ یہ کام انہوں نے مدتوں سے شروع کر رکھا ہے۔ اگر ان اسمگلروں کے معاملے پر نظر ڈالیں جو گندی اور جنسی فلموں کے ویڈیو کیسیٹ اور ننگی، گندی اور شہوت انگیز تصاویر کے جرائد لاتے ہیں تو دیکھیں گے کہ اگر مقصد یہ ہو کہ یہ لوگ ان چیزوں کے ذریعے روٹی کھانا چاہتے ہیں تو اس میں ان کے لئے روٹی نہیں ہے بلکہ روٹی کہیں اور سے انہیں ملتی ہے۔ یہ بات میں موثق اطلاعات کی بنیاد پر عرض کر رہا ہوں۔ یہ لوگ اس مشن پر کام کر رہے ہیں کہ خلیج فارس کے ساحلی اور دوسرے پڑوسی ملکوں کے راستے یہ گندگی اور شہوت پرستی ایران میں لائیں، ملت ایران کے اندر نوجوانوں اور خاندانوں میں پھیلائیں۔
مذہبی ایمان طاقت و قوت کا پہلو ہے جس کو دشمن ختم کرنا چاہتے ہیں۔ دشمن تو دشمن ہے انسان کے سر پر محبت کا ہاتھ نہیں پھیرے گا۔ دشمن یعنی وہ جو یہ چاہے کہ انسان کے تن پر سر باقی نہ رہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہماری قوت کے ان نقاط کو جو ان کے لئے ممکن ہو اس طرح ختم کر دیں۔ چاہتے تھے کہ عوامی حکومت کو ختم کر دیں۔ برسوں پہلے سمجھ چکے ہیں کہ یہ آرزو اپنے ساتھ قبر میں لے جائیں گے۔ بنابریں عوامی حکومت کو بدنام کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت، حکام اور عہدیداروں کے خلاف بھانت بھانت کے پروپیگنڈے کر رہے ہیں۔ البتہ بے فائدہ ہے مگر وہ اپنا کام کر رہے ہیں۔ اپنے پروپیگنڈوں میں ہمارے ثقافتی ماضی کو ہیچ بتاتے ہیں۔ ملت ایران کی ذہانت کے بارے میں شک پیدا کرتے ہیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ملت ایران کہیں نہیں پہنچ پائے گی۔ وہ سوچتے ہیں کہ یہ ملت اب بھی ان کی محتاج ہے۔ اب بھی اس کو ہم مغرب والوں کے پاس آنا چاہئے۔ پرپیگنڈوں کو اس نقطے پر مرکوز کر رکھا ہے۔ انقلاب کو داغدار ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ وہ کام ہیں جو سیاست کی دنیا میں انجام پاتے ہیں۔ اصل زندگی اور حقیقت میں جیسے اقتصاد اور سلامتی وغیرہ سے متعلق مسائل میں جو کام بھی وہ کر سکتے ہیں کرتے ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ ادھر ادھر گھومنے والے دلالوں کی طرح چل پڑے یورپ اور ایشیاء میں، یورپی ملکوں اور بڑے ایشیائی ملکوں کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ ایران کے ساتھ معاملات، تجارت اور تعاون نہ کریں، اس کی مدد نہ کریں البتہ یہ کام وہ مستقل کرتے ہیں۔ ان بے فائدہ سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ جی ہاں؛ ایک بات تو یہ ہے کہ وہ پندرہ سال سے مستقل انہیں غلط کاموں اور ہمارے خلاف مہم میں مصروف ہیں اور خدا کے فضل سے پندرہ سال ہوگئے کہ اسلامی حکومت، اسلامی جمہوریہ، اسلامی انقلاب اور ملت ایران روز بروز قویتر ہورہی ہے۔ بنابریں ان کی کوشش بے فائدہ ہے۔ یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے۔ مگر میرے عزیزو دوسری بات یہ ہے کہ امیرالمومنین علیہ الصلوات و السلام نے فرمایا ہے کہ ومن نام لم ینم عنہ جو مورچے کے اندر سو جائے، آنکھین بند کر لے، اس کو معلوم ہونا چاہئے کہ دشمن کی آنکھ جو اس کو دیکھ رہی ہے وہ نہیں سوئے گی۔ کیا مطلب؟ یعنی ہمیشہ بیدار رہو۔ ہمیشہ خود کو مورچے کے اندر سمجھو۔ ہمیشہ خود کو ایک غدار، زخمی، غصبناک اور اس بات پر کہ اب تک وہ کچھ نہیں کر سکا ہے سخت برہم دشمن کے مقابل سمجھو۔ یعنی ہوشیار رہو۔ آپ فوج میں ہوشیار اور بیدار رہیں۔ یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے یونیورسٹیوں میں، پاسداران انقلاب کے جوان سپاہ پاسداران انقلاب میں، پولیس کے اہلکار پولیس فورس کے اندر، علما و طلبا دینی تعلیم کے مراکز میں، اقتصادی امور سے وابستہ افراد اپنے اقتصادی کاموں میں، حکومتی اہلکار اپنی ذمہ داریوں کے دائرے میں، وہ تمام لوگ جن کے ذمے اس ملک میں کوئی کام ہے، یا تعمیری سرگرمیوں میں مصروف ہیں، سب اپنے کاموں کے دائرے میں ہوشیار اور بیدار رہیں۔
ہمارے مقابلے میں ایسا دشمن ہے جس نے پندرہ سال کوشش کی مگر وار نہ لگا سکا۔ لیکن اب بھی وہ باز نہیں آیا ہے۔ الحمد للہ ہمارے پاس طاقت و قوت کے نقاط کافی ہیں۔ طاقت و قوت کے ان نقاط کی تقویت کرنی چاہئے۔ طاقت و قوت کے جن نقاط کا میں نے ذکر کیا اور بہت سے دیگر نقاط ان سب کی تقویت کرنی چاہئے۔ البتہ کمزوری کے پہلو بھی ہیں جنہیں دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے دشمن ہمارے طاقت و قوت کے نقاط کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
پروردگارعالم صالح اور پرہیز گار بندوں کو عزیز رکھتا ہے اور ان کی نصرت کرتا ہے۔ اگر ہم راہ خدا میں رہیں، اگر ہمارے پاس تقوا ہو، اگر ہمارے اندر اخلاص ہو، اگر ہم خدا کے لئے کام کریں تو شک نہ کریں کہ ہر لمحہ الہی نصرت اس ملت کے شامل حال رہےگی۔
امید ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔ حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی دعائیں ہم سب کے شامل حال ہوں اور انشا اللہ اس ملک اور اس ملت کی ترقی و پیشرفت میں روز بروز اضافہ ہو۔ حضرت امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کہ جنہوں نے ملت ایران کو یہ روشن راستہ دکھایا ، ان کے درجات بلند تر ہوں۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ