قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں بھی اس مبارک عید کی مسلمین عالم، عظیم امت اسلامیہ، ایران کی مومن و مجاہد قوم، ملک کے کارکنوں، اسلامی جمہوری نظام کے اعلا رتبہ حکام، حاضرین محترم اور معزز مہمانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ایک مسئلہ حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات مقدس کے بارے میں بحث کا ہے۔ معنوی اور روحانی پہلو سے بہتر ہے کہ جن لوگوں نے وادی معنویت میں قدم رکھا ہے اور اس کی حلاوت چکھی ہے، وہ بولیں۔ کیونکہ اس وادی میں ہماری باری نہیں آتی۔ ایک مسئلہ تاریخ اور بشریت کے لئے بعثت رسول کی اہمیت کا ہے۔ یہ بھی انسان کے بہت اہم مسائل میں سے ہے۔ اگر بغض اور تحریف نہ ہوتی اور گذشتہ چند صدیوں کے دوران، دنیا کے مختلف علاقوں بالخصوص یورپ میں، مجرم اور زرخرید قلمکار، اس واقعے کو جھٹلانے اور اس کی اہمیت کم کرنے کی کوشش نہ کرتے تو شاید آج اسلام کی نورانیت و معرفت کا دائرہ اس سے بہت وسیع تر ہوتا۔
اس سلسلے میں آج میں ایک نکتے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں اور وہ نکتہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث اور اسلام کی اصطلاح میں، بعثث سے پہلے کے دور کو دور جاہلیت کہا جاتا ہے۔ قر‏آن کریم میں بھی یہ اصطلاح استعمال ہوئی ہے، روایات میں بھی ہے اور مسلمانوں میں رائج بھی ہے۔ اسلامی دور کو دور جاہلیت کے مقابلے میں سمجھا جاتا ہے۔ البتہ اس کا بھی اصول اور ضابطہ ہے۔ یہ ضابطہ کیا ہے؟ چند نکات اس ضابطے کے بارے میں ہیں جو اسلامی دنیا کو دور جاہلیت سے الگ کرتا ہے۔ یہ اسلامی اقدار کے بنیادی نکات ہیں۔
پہلے درجے میں توحید خالص ہے۔ توحید خالص یعنی غیر خدا کی عبودیت سے انکار۔ یہ توحید خالص ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ بت پرستی چھوڑ دیں۔ توحید تاریخ میں ایک عام اور تمام معنی پر محیط حقیقت ہے۔ ہر دور میں مکے کے بت تو موجود نہیں ہیں۔ پتھر اور لکڑی کے بت ہمیشہ تو نظر نہیں آتے۔ معنی و روح توحید یہ ہے کہ انسان غیر خدا کی عبودیت نہ کرے اور غیر خدا کے مقابلے میں زمین پر پیشانی نہ رکھے۔ یہ عبودیت کے کامل اور خالص معنی ہیں۔ اب اگر آپ روشن و بینا آنکھوں سے، انسانی زندگی سے متعلق علوم، سماجی تربیتی اور ایسے ہی دیگر علوم سے آراستہ ہوکر، اس مسئلے پر نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ عبودیت کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ جس قید وبند میں انسان کو جکڑا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک، انسان کے لئے ایک طرح کی عبدیت وجود میں لاتا ہے۔ غلط سماج نظاموں کی عبدیت، غلط آداب و رسوم کی بندگی، خرافات کی پرستش، استبدادی طاقتوں اور شخصیات کی پرستش، نفسانی خواہشات کی پرستش - یہ سب سے زیادہ رائج ہے - پیسے کی پرستش، زر و طاقت کی عبدیت، یہ عبودیت کی اقسام ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ یعنی توحید خالص کے معنی یہ ہیں کہ یہ تمام عبودیتیں ہٹا دی جائیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو حقیقی فلاح و نجات حاصل ہوگی۔ یہ جو فرمایا کہ قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا یہ فلاح ایک حقیقی فلاح ہے۔ صرف سیاسی فلاح نہیں ہے، صرف سماجی فلاح نہیں ہے، صرف معنوی فلاح نہیں ہے، صرف روز قیامت کی فلاح نہیں ہے، بلکہ دنیا و آخرت کی فلاح ہے۔ یہ اسلام کے امتیازات اور دعوت اسلام کے نمایاں نکات میں سے ایک ہے۔ جس کو ایک اور طرح سے بھی بیان کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام یعنی تسلیم، اسلام وجہ اللہ اور خدا کے سامنے تسلیم ہونا۔ یہ بھی ایک پہلو ہے اور دوسرا پہلو وہی توحید کا پہلو ہے۔ یہ دعوت، اسلامی کے امتیازات میں سے ہے۔ جہاں بھی؛ یہ ہوگا وہاں اسلام ہوگا۔ جہاں اس کے بر عکس ہوگا، وہاں جاہلیت ہوگی۔ جہاں ان دونوں کے درمیان کی کوئی صورت ہو وہاں اسلام اور جاہلیت کے درمیان کی ایک صورت ہوگی۔ یہ خالص اسلام نہیں ہوگا۔ کامل اسلام نہیں ہوگا۔ ممکن ہے کہ آدھا اسلام ہو۔
دعوت اسلامی کا ایک اہم نکتہ انسانوں کے درمیان عدل کا قیام ہے۔ جاہلیت کی خصوصیت، ظالمانہ نظام تھا۔ ستمگری تھی، یہ نہیں تھا کہ کبھی کبھار کوئی ظلم کرتا ہو بلکہ معاشرے کی بنیاد ظلم، امتیازی سلوک اورکمزور کے ساتھ طاقتور کی زور و زبردستی پر تھی۔ مرد عورت پر ظلم کرتا تھا، دولتمند غریب کے ساتھ زیادتی کرتا تھا اور آقا غلام پر ظلم کرتا تھا اور پھر یہی آقا خود بھی سلاطین اور صاحبان اقتدار کی زیادتی برداشت کرتے تھے۔ ظلم ہی ظلم تھا۔ لوگوں کی زندگی سراسر ظلم و زیادتی تھی۔ یہ جاہلیت کی زندگی کی خصوصیت ہے۔ جہاں بھی ایسا ہو، جاہلیت ہے۔ اسلام اس کا نقطہ مقابل لایا۔ قیام عدل کی نوید لایا۔ ان اللہ یامر بالعدل والاحسان یہ اسلامی معاشرے کی ایک خصوصیت ہے۔ عدل صرف نعرہ نہیں ہے۔ اسلامی معاشرے کو عدل کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ اگر عدل نہیں ہے تو اس کو قائم کرنا چاہئے۔ اگر دنیا میں دو نقطے ہوں ایک نقطہ عدل کا ہو اور دوسرا نقطہ ظلم کا ہو اور دونوں غیر اسلامی ہوں، تو اسلام نقطہ عدل کی موافقت کرے گا چاہے وہ غیر اسلامی ہی کیوں نہ ہو۔ مہاجرین حبشہ کو پیغمبر نے خود حبشہ بھیجا تھا یعنی انہیں ایک کافر بادشاہ کی پناہ میں اس کے عدل کی وجہ بھیجا تھا۔ دوسر الفاظ میں لوگوں کو اس ظلم کی وجہ سے جو ان پر ہو رہا تھا، ان کے گھر بار سے دور کیا۔ یہ بھی ایک ن‍قطہ ہے۔ یعنی قیام عدل، عدل کی پیروی، عدل کو عام کرنا، قیام عدل کی کوشش اور مجاہدت، اور عدل کا احترام کرنا، وہ جہاں بھی ہو۔ چاہے بلاد غیر مسلم میں ہی کیوں نہ ہو اور ظلم کی مذمت، دنیا میں جہاں بھی ہو، اسلام کی خصوصیات میں سے ہے۔ آپ دیکھیں کہ تاریخ اسلام میں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات مبارک عدل پروری اور عدل پسندی کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ بعثت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے امتیازات میں سے ہے۔ میں یہ باتیں بعنوان مثال عرض کر رہا ہوں۔ توجہ فرمائیں تاکہ اس نقطے تک پہنچ سکیں کہ آج کی تحریک سے اس کا رشتہ جوڑا جا سکے۔ یہ نہیں چاہتا ہوں کہ صرف اسلام کی تاریخ یا اس کی معرفت بیان کروں اور ذہن میں مجسم کروں۔ اسلامی نظام میں مثلا ایک تیسرا نقطہ فرض کریں جو مکارم اخلاق کی جانب پیشرفت سے عبارت ہے۔ یہ ان دونوں کے علاوہ ہے۔ ممکن ہے کہ کسی معاشرے میں ایسے لوگ ہوں جو اچھے اخلاق کے مالک ہوں۔ افراد معاشرہ، فدا کار، مفکر، عاقل، نیکی اور احسان کرنے والے، ایک دوسرے کی مدد کرنے والے، مشکلات میں صابر اور سختیوں میں بردبار، با اخلاق، ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والے اور جہاں ضروری ہو وہاں ایثار کرنے والے ہوں۔ اس کے برعکس بھی ممکن ہے۔ یعنی یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے لوگ ہوں جن کے آپسی روابط رحم، مروت، انصاف اور اچھے اخلاق کے بجائے،منفعت پرستی پر استوار ہوں۔ ایک دوسرے کو صرف اس وقت تک برداشت کریں جب تک ان کے مفادات سے سازگار ہوں۔ اگر سازگار نہ ہو تو ایک دوسرے کو نابود اور تباہ کرنے پر تیار ہوں۔ یہ بھی معاشرے کی ایک قسم ہے۔ اس معاشرے کو جاہلیت کا معاشرہ کہتے ہیں۔ یہ اس معاشرے کے بر خلاف ہے جس پر مکارم اخلاق حکمفرما ہیں اور جس کو اسلامی معاشرہ کہا جاتا ہے۔ حضرت پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیت مکارم اخلاق کی دعوت تھی۔ یہ بعثت و رسالت پیغمبر کا ایک نکتہ اور عنصر ہے۔ بنابریں کہا جا سکتا ہے کہ اسلام اور جاہلیت کو ایک دوسرے سے الگ اور ممتاز کرنے والی ایک سرحد اخلاق کا موضوع ہے۔
ایک آخری نکتہ جس کو میں آخری نکتہ قرار دوں گا، نظریات کا دنیاوی زندگی تک محدود نہ ہونا ہے۔ یہ بھی ایک بنیادی نکتہ ہے۔ نظام جاہلیت کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کے افراد، تمام چیزوں کو اسی دنیا کی زندگی تک محدود سمجھتے ہیں۔ اگر اسی دنیا میں، یعنی کھانے، پینے، سونے اور ہر اس چیز میں جو انسان کی ذاتی زندگی سے مربوط ہے، کچھ حاصل کر سکے تو خود کو کامیاب سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر یہ طے پائے کہ ایسی سعی و کوشش اور کام کریں کہ جس کا نتیجہ اس دنیا میں نہیں ملتا تو خود کو فریب خوردہ، شکست خوردہ اور گھاٹے میں تصور کرتے ہیں۔ یہ جاہلیت کی زندگی کی ایک خصوصیت ہے۔ جاہلیت کی زندگی میں اس بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ انسان کوئی ایسا کام کرے جو خدا اور معنویت کے لئے ہو اور اس کی جزا آخرت میں ملے۔ اسلام نے اس کو ایک خصوصیت قرار دیا ہے کہ انسان کی ساری زندگی اور سارا ہم و غم اسی دنیاوی حیات تک محدود نہ ہو۔ یہ خصوصیت بعثت ہے جس کی ضد جاہلیت ہے۔
آج اسلامی جمہوریہ نے پر چم اسلام کو بلند کیا ہے۔ یعنی پرچم بعثت کو بلند کیا ہے اور بعثت کی اقدار کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اگر صرف نام پر ہی اکتفا کرنا ہو تو یہ اسلام نہیں ہے۔ توحید کو اس کے حقیقی معنی میں اور پروردگار کے سامنے تسلیم کے مفہوم میں رائج ہونا چاہئے۔ معاشرتی نظام کو عادلانہ نظام اور اخلاقی، انسانی، محبت و مہربانی اور اچھائیوں پر مبنی نظام ہونا چاہئے۔ جو کچھ بھی غیر خدا ہو، اس کے لۓ تسلیم و عبودیت نہ ہو، اس کی پیروی نہ کی جائے۔ خاص طور پر انسان کے سب سے بڑے دشمن کو جو وہی نفسک التی بین جنبیک ہے اور نفسانی خواہشات کو جس کے لئے کہا گیا ہے کہ سب سے بڑا بت تمہارا نفس ہے جو سارے بتوں سے بڑا اور سب سے زیادہ خطرناک ہے، اس کو مغلوب ہونا چاہئے۔ بتوں بالخصوص نفس کے بت کے خلاف مجاہدت عام ہونی چاہئے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ انسان بالکل فرشتہ بن جائے، مگر اس کو ایسا انسان بننا چاہئے جو اس کے لئے کوشش اور مجاہدت کرتا ہے۔ اس مجاہدت کی اصلی بنیاد تقوا ہے۔ ہر انسان اور ہر معاشرہ جو یہ کوشش اور مجاہدت کرے وہ، متقی اور پرہیزگار ہے۔ یہ قضیے کا ایک پہلو ہے۔ جاہلیت کی دنیا، بے نظم دنیا ہے جو ان ارکان و اقدار سے عاری ہوتی ہے، جن میں سے تین چار کا میں نے ذکر کیا۔ بیشک بعثت اور اسلامی معاشرے کے بنیادی خطوط، تین چار ارکان اور اقدار سے زیادہ کے حامل ہیں۔ جاہلیت کا معاشرہ وہ معاشرہ ہے جو ان اقدار سے عاری ہے جن کی طرف اشارہ کیا گیا، یہ اسلامی معاشرے کی ضد ہے۔ اب اس ضد کے ساتھ یعنی جاہلیت کے معاشرے کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ ؟ اگر ہم یہ سوچیں کہ ہمارا معاشرہ اسلامی ہے لہذا ہمیں، جاہلیت کے معاشرے کے ساتھ دشمنانہ رویہ اختیار کرنا چاہئے تو غلط ہوگا۔ ہمارا رویہ ہمدردانہ ہونا چاہئے۔ ہمیں اسلامی اقدار کی محتاج دنیا کے سامنے ان قدروں کا تعارف کرانا چاہئے۔ یہ پہلا قدم ہے۔ پھر اگر ہم خود ان قدروں سے متصف ہوں تو انہیں اس طرف منتقل کرنا چاہئے جو ہماری ضد ہے۔ اسلام میں دشمنی اور لڑائی ان لوگوں سے ہے جو اس منتقلی میں رکاوٹ بنیں۔ جو اسلامی نظام کے اس تغیر و تبدل میں رکاوٹ ڈالیں۔ یہ محارب ہیں اور محارب کے ساتھ فطری طور پر اسلام بھی جنگ ہی کرے گا۔ دنیا، آج پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کی محتاج ہے۔
بنابریں آج میں جو نکتہ بیان کرنا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ ہمارے لئے بعثت کا پیغام ایک درس اور تعمیری پیغام ہے۔ یہ صرف ایک سماجی معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ ایک تحریک ہے۔ سب سے زیادہ نظام کے عہدیداروں کو اس تحریک سے وابستہ ہونا چاہئے۔ ہم میں سے ہر ایک کو جو اس نظام میں عہدیدار ہیں، اس تحریک میں آگے ہونا چاہئے۔ البتہ تمام افراد ذمہ دارہیں مگر ہماری خصوصیت یہ ہے کہ جم غفیر کی ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ہے اور اس سے ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ فرض کی ادائیگی سے بالاتر ہوکر آگے بڑھیں۔ یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ کل تک یہ معاشرہ طاغوتی تھا اور آج اسلامی معاشرے میں تبدیل ہوگیا ہے۔ ہمارے عظیم امام (خمینی ) یقینا اپنے پورے وجود سے اسلام کو بسائے ہوئے تھے، آیات قرآن کو دل و جان کی گہرائیوں سے سمجھتے تھے اور ان سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ انھوں نے خود کو قرآنی اور اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھال رکھا تھا۔ عوام سے بھی اس کی سفارش فرماتے تھے۔ اس تحریک کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہمارا معاشرہ مومن اور متقی نوجوانوں اور خدا کی راہ میں مجاہدت کرنے والی عورتوں اور مردوں سے مملو ہے۔ الحمد للہ ان کی تعداد کم نہیں ہے۔ ہرجگہ سے زیادہ ہیں۔ مگر اس تحریک کو پوری قوت اور شدت کے ساتھ جاری رہنا چاہئے۔ آپ دشمن کے پرپیگنڈوں پر توجہ نہ دیں۔ وہ ذرائع ابلاغ جو دنیاوی طاقتوں اور دولتمندوں کے حرام پیسوں سے ایک خاص رخ پر چل رہے ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ریڈیو سے نشر ہونے والی ان کی باتوں کی کوئی حیثیت اور اہمیت نہیں ہے۔ وہ درحقیقت برف جمع کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ جو بھی کہتے ہیں، وہ اسلام سے ان کے بغض، حسد اور کینے کا نتیجہ ہے۔ سب سے بڑھ کر اس بات کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اسلام سے ڈرتے ہیں۔ ظاہر کہ اسلام دنیاوی طاقتوں اور منہ زوروں کے لئے جو پوری دنیا کو اپنی مٹھی میں دیکھنا چاہتے ہیں اور ایرانی قوم انہیں بجا طور پر عالمی استکبار کہتی ہے، خطرناک ہے۔ خود بھی کہتے ہیں کہ خطرناک ہے اور ان کا یہ کہنا غلط بھی نہیں ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے۔ وہ بغض، کینے، دشمنی اور حسد کے ساتھ الفاظ اور جملے تیار کرتے ہیں اور انواع واقسام کے تشہیراتی حربوں سے کام لیکر پرپیگنڈہ کرتے ہیں۔ ایک ریڈیو کے لئے گھنٹوں تیاری کرتے ہیں۔ مگر بے بنیاد باتیں کبھی بھی دلیل نہیں بن سکتیں۔
آپ نے دیکھا اور دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے معاشرے کے حقائق کو مسخ کرکے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کا ایک نمونہ گرانفروشی کے خلاف مہم ہے جو ہمارے عزیز صدرمملکت نے اور حکومت نے شروع کی ہے اور متعلقہ محکمے اس پرعمل کر رہے ہیں۔ یہ بہت اچھی مہم ہے جس نے عوام کو خوش کر دیا ہے اور اس میں کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔ جیسے ہی ہماری حکومت اور صدر مملکت نے اس واضح اور شفاف مہم کا آغاز کیا، دشمن کے پروپیگنڈہ اداروں نے اس مہم کے خلاف ایک آواز ہوکے پروپیگنڈہ شروع کر دیا۔ ہمارے ملک کے اقتصادی حقائق کو جو ہے اس کے برعکس بیان کرنا، مشکلات کو بڑھا کر دکھانا اور عوام کو ناامید ظاہر کرنا، یہ ان کے ذرائع ابلاغ کی مہم ہے۔ کیا ہمارے عوام ناامید ہوئے ہیں؟ یہ بصیرت رکھنے والے عوام ہیں، جب بھی اور جہاں بھی انقلاب نے انہیں آواز دی یہ وہاں پہنچ گئے اور آج تک اسلام و قرآن پر ایمان اور نظام، حکام، اسلامی جمہوری حکومت، پندرہ سالہ تحریک اور خود امام ( خمینی ) پر یقین کا واضح ثبوت دیا ہے، وہ ناامید ہیں؟ اتنی عظیم تحریک ناامیدی سے وجود میں آتی ہے؟ ہمارے دشمن ماضی میں بھی اس طرح کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ جنگ کے دنوں میں، اگر آپ خوزستان، ایلام اور دیگر علاقوں میں محاذوں پر جاتے تو صحراؤں اور میدانوں کو رضاکار فورس بسیج کے سپاہیوں سے مملو پاتے، جو فوج یا پاسداران انقلاب کے رکن نہیں تھے مگر جہاد اور جانفشانی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جا رہے تھے۔ یہ عوام اس جوش و جذبے کے ساتھ مایوس ہو سکتے ہیں؟ دشمن، عوام کو مایوس اور حکام کو ناتواں ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ واقعی دشمن کا منصوبہ یہ ہے کہ اگر کر سکے تو عوام کو مایوس اور حکام کو ناتواں کردے۔ کن امور میں؟ ان امور میں جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ ان امور میں جنہیں ہم سب واضح طور پر دیکھ رہے ہیں اور جو مسائل اور امور کسی حد تک پردے میں ہیں ان میں دشمن کی یہ کوشش یقینا بدرجہ اولی ہوگی۔
اگرچہ بشریت کو اسلام کی ضرورت ہے، آج دشمن اسلام سے حد درجہ دشمنی کر رہا ہے۔ بوسنیا کے معاملے کو ملاحظہ فرمائیں۔ دیکھیں کہ بوسنیا ہرزے گووینا کے مسلمانوں پر کیا گذر رہی ہے؟ جہاں بھی مسلمان ہیں، ایک دشمن ان کے مقابلے پر ہے۔ مغرب بہرہ اور گونگا ہو گیا ہے۔ بولتا بھی ہے۔ وہ صرف نعرے دیتا ہے۔ آج تک امریکا نے بوسنیا کے لئے اتنا پروپیگنڈہ کیا۔ اتنے دعوے اور باتیں کیں۔ ان میں کس بات پر عمل ہوا؟ انہوں نے عملی طور پر بوسنیا کے عوام کے لئے کیا کیا ؟ ان مظلوم عوام کے لئے جن کے مرد، عورت، چھوٹے بڑے ہر روز مارے جا رہے ہیں، کیا کیا؟ چچنیا کے مسلمانوں کے لئے کیا کیا؟ ان تمام سرزمینوں کے لئے جہاں مسلمان مشکلات اور مصائب میں گرفتار ہیں، کیا کیا؟ لبنان اور فلسطین کے مسلمانوں کے لئے کیا کیا؟ آج فلسطین میں مسلمان عوام اپنے گھر میں مشکل میں ہیں، یہ حضرات بیٹھ کے مسلمانوں کی ضرورتوں کو نظرانداز کرکے، دنیا کے دوسرے اور تیسرے درجے کے مسائل کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں۔ ان کی خاموشی اور بے اعتنائی، اسلام سے ان کی دشمنی کی وجہ سے ہے۔ مگر اسلام عظیم ہے۔ اسلام برتر ہے۔ الاسلام یعلوا و لا یعلی علیہ یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے۔ یہ حقیقت ہے اور آج تک اس نے خود کو ثابت کیا ہے۔ آئندہ بھی پروردگار کے فضل سے خود کو ثابت کرے گی۔ خداوند عالم اپنی رحمتیں اورالطاف آپ سب بہنوں بھائیوں اور ملک کے عزیز حکام کے شامل حال کرے۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ