قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں بھی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت باسعادت پر، دنیا کی تمام مسلم خواتین، بالخصوص اسلامی جمہوریہ ایران کی محترم، فداکار اور ممتاز خواتین، فداکار ماؤں اور عورتوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ایک بات نرس ڈے کی مناسبت سے عرض کروں گا اور وہ یہ ہے کہ اگر ان خدمات کی اہمیت جو عوام کے مختلف طبقات ایک دوسرے کے لئے انجام دیتے ہیں، اس طرح پرکھیں کہ ہر وہ خدمت جو انسان سے براہ راست رابطہ رکھتی ہو، ہر وہ خدمت جو دوسرے انسانوں سے ایک طرح کی غمگساری کا درجہ رکھتی ہو، ہر وہ خدمت جس کو انجام دینے والا زیادہ تکلیفیں برداشت کرے اور ہر وہ خدمت جو علم، معرفت، آگاہی اور تعلیم کی بنیاد پر ہو، اس کی اہمیت زیادہ ہے تو اس صورت میں میں سمجھتا ہوں کہ نرس کا پیشہ اہم ترین پیشوں اور خدمات میں سے ہوگا۔ کیونکہ نرسوں کا رابطہ براہ راست انسانوں سے ہوتا ہے، یہ ان انسانوں سے ہمدردی بھی ہے جنہیں مدد، غمگساری اور ہمدردی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ بھی کہ الحمد للہ یہ کام علم، دانش اور تعلیم کی بنیاد پر انجام دیا جاتا ہے۔
نرس کا سروکار چونکہ بیماروں سے ہوتا ہے، اس کو بیداری اور تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں اور دوسروں سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے، اس لئے اس کا پیشہ بہت اہم اور باعزت ہے۔ یہ حقائق ہیں، یہ نہیں ہے کہ لوگ نرسوں کے تعلق سے چاہے وہ مرد ہوں یا خواتین، تکلفانہ یہ بات کہیں۔ بلکہ واقعی حقیقت میں ایسا ہی ہے۔ جب کام بہت بڑا اور بہت اہم ہو تو اس کے لئے دو فریق ذمہ دار ہیں، ایک عوام جنہیں اس کام کو باعزت اور اس کام کے کرنے والوں کو عزت دار سمجھنا چاہئے اور دوسرا خود وہ فرد ہے جس کے ذمے یہ باعزت اور بڑا کام ہے، خود اس کو بھی اپنے کام کی عزت کرنی چاہئے۔
میں عزیز نرسوں سے یہ عرض کرتا ہوں کہ آپ کو یہ توفیق ہوئی کہ یہ بڑا کام اپنے ذمے لیا ہے، یہ اہم کام انجام دے رہے ہیں، تو اس کی عزت کریں اور ایسا نہ ہونے دیں کہ خدا نخواستہ، معمولی سی غلطی، تقصیر، یا غلط رویئے سے یہ عظیم اور اہم کام مخدوش نہ ہو جائے۔ اس خدمت کو زیادہ سے زیادہ صحیح انداز میں انجام دیں۔ لوگوں کے امور زندگی کا نظام بہتر ہو جائے گا اور آپ کا اجر اور ثواب بڑھ جائے گا۔ خداوند عالم آپ کو اجر دے اور اس بڑی خدمت کو آپ کے لئے بابرکت اور عوام کے لئے موثر اور ان کے امور میں پیشرفت کا باعث قرار دے۔
میری بہنو' عورت کا موضوع اور اس کے ساتھ معاشرے کا رویہ ایسا مسئلہ ہے جو ہمیشہ مختلف معاشروں اور تہذیبوں میں در پیش رہا ہے۔ دنیا کی آدھی آبادی ہمیشہ عورتوں کی رہی ہے۔ دنیا میں زندگی کی بقا جتنی مردوں پر منحصر ہے اتنی ہی عورتوں پر بھی منحصر ہے۔ آفرینش کے عظیم کام فطری طور پر خواتین کے ذمے ہیں۔ آفرینش کے بنیادی کام جیسے افزائش نسل اور بچوں کی پرورش عورتوں کے ہاتھ میں ہے۔ بنابریں خواتین کا مسئلہ بہت اہم مسئلہ ہے اور ہمیشہ معاشروں میں، مفکرین کے درمیان اور اقوام کے آداب و رسوم میں موجود رہا ہے۔ اسلام نے اس درمیان ایک ممتاز موضوع کا انتخاب کیا، افراط و تفریط کو روکا، اور تمام عالم کے لوگوں کو خبردار کیا۔ اسلام نے ان لوگوں کو جو جسمانی لحاظ سے طاقتور ہونے یا مالی توانائی کی بناء پر عورتوں اور مردوں سے کام لیتے تھے اور عورتوں کو ایذائیں دیتے تھے اور ان کی تحقیر کرتے تھے، ان کی اوقات میں رکھا اور خواتین کو ان کا حقیقی مرتبہ عطا کیا۔ اتنا ہی نہیں، بعض لحاظ سے عورتوں کو مردوں کے برابر قرار دیا۔ ان المسلمین و المسلمات والمومنین والمومنات مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، عبادت کرنے والے مرد اور عبادت کرنے والی عورتیں، تہجد پڑھنےوالے مرد اور تہجد پڑھنے والی عورتیں، اسلام میں یہ تمام روحانی اور انسانی درجات عورتوں اور مردوں میں برابر سے تقسیم ہوئے ہیں۔ ان امور میں عورتیں اور مرد ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ جو خدا کے لئے کام کرے من ذکر او انثی مرد ہو یا عورت، فلنحیینہ حیاتا طیبہ
اسلام نے بعض مقامات پر عورتوں کو مردوں پر ترجیح دی ہے، مثال کے طور پر جہاں مرد اور عورت ماں باپ ہیں اور ان کی اولاد ہے، یہ اگر چہ ان دونوں کی اولاد ہے، مگر اولاد کے لئے ماں کی خدمت زیادہ واجب ہے۔ اولاد پر ماں کا حق زیادہ ہے اور ماں کی نسبت اولاد کا فریضہ زیادہ سنگین ہے۔
اس سلسلے میں کافی روایات ہیں۔ پیغمبر اکرم نے ایک شخص کے جواب میں جس نے سوال کیا کہ من ابر ( کس کے ساتھ نیکی کروں ) فرمایا امک یعنی اپنی ماں کے ساتھ۔ دوسری بار بھی یہی فرمایا اور تیسری بار بھی یہی فرمایا۔ چوتھی بار اس نے سوال کیا تو فرمایا اباک یعنی اپنے باپ کے ساتھ۔ بنابریں کنبے میں اولاد کی نسبت ماں کا حق زیادہ سنگین ہے۔ البتہ یہ اس لئے نہیں ہے کہ خداوند عالم نے ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر ترجیح دینا چاہا ہے بلکہ اس لحاظ سے ہے کہ عورتیں زیادہ زحمت اٹھاتی ہیں۔
یہ عدل الہی ہے، زحمت زیادہ ہے تو حق بھی زیادہ ہے۔ تکلیفیں زیادہ اٹھاتی ہے تو اس کی اہمیت بھی زیادہ ہے۔ یہ سب عدل کی رو سے ہے۔ مالی مسائل میں، کنبے کی سرپرستی کا حق خاندان کے امور چلانے کے فریضے کے تناسب سے ہے۔ اسلام کی روش معتدل روش ہے۔ اسلامی قانون نے ان چیزوں کو بھی نہیں چھوڑا ہے کہ مرد پر ذرہ برابر ظلم ہو یا ذرہ برابر ظلم عورت پر ہو جائے۔ مرد کا حق مرد کو دیا ہے اور عورت کا حق عورت کو دیا ہے۔ ترازو کا ایک پلڑا مرد کو قرار دیا ہے تو دوسرا پلڑا عورت کو قرار دیا ہے۔ جو لوگ ان امور میں دقت کرنے والے ہیں اگر غور کریں توان باتوں کو دیکھیں گے۔ کتابوں میں لکھا ہے۔ آج ہماری دانشور اور عالم و فاضل خواتین الحمد للہ ان مسائل کو دوسروں سے بہتر، مردوں سے بہتر جانتی ہیں اور تبلیغ اور بیان کرتی ہیں۔ یہ رہی عورتوں اور مردوں کے حقوق کی بات۔
ایک بنیادی نکتہ ہے جس پر اسلام خاص تاکید کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ زمانے میں چونکہ مردوں کے رویئے میں سختی پائی جاتی ہے، مشکلات کے مقابلے میں وہ قوی تر ہوتے ہیں اور ان کی جسمانی قوت زیادہ ہوتی ہے اس لئے اہم کام اور گوناگوں ذمہ داریاں اور طاقت ان کے اختیار میں رہی ہے جس نے مردوں کے لئے یہ امکان پیدا کیا کہ وہ جنس مخالف سے اپنے فائدے میں، غلط استفادہ کریں۔ آپ دیکھیں کہ کس سلطان، دولتمند، پیسے والے اور زور و زر کے مالک نے اپنے دربار اور نظام میں، پیسے، عہدے اور طاقت سے عورتوں کے ساتھ زیادتی نہیں کی اور ان سے غلط استفادے کے لئے کام نہیں لیا ہے ؟
اسلام یہاں پوری طاقت سے ڈٹ جاتا ہے اور معاشرے میں عورتوں اور مردوں کے درمیان ایک حد معین کرتا ہے۔ اسلام کے نقطہ نگاہ سے کسی کو بھی اس حد کو توڑنے کا حق نہیں ہے۔ چونکہ اسلام کی نگاہ میں کنبہ بہت اہم ہے، گھر کے اند عورت اور مرد کا رابطہ اور ہے اور معاشرے میں اور ہے۔ اسلام نے معاشرے میں عورتوں اور مردوں کے درمیان جو ضوابط پیش کئے ہیں، اگر انہیں توڑ دیا جائے تو کنبے کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ زیادہ تر عورتوں کے ساتھ ظلم ہوتا ہے، ہاں کبھی ممکن ہے کہ مرد کے ساتھ بھی ظلم ہو جائے۔ اسلامی تہذیب عورتوں اور مردوں کے آزادانہ روابط اور بے راہروی کے ساتھ ملاپ کی اجازت نہیں دیتی۔ ان اصولوں کی پابند کے ساتھ گزاری جانے والی زندگی (اسلامی تہذیب کے مطابق ) خوش بختی کے ساتھ اور عقلی اصولوں کے مطابق جاری رہ سکتی ہے اور پیشرفت کر سکتی ہے۔ یہاں اسلام نے سختی کی ہے۔ وہ حد جو معاشرے میں قائم کی گئی ہے، مردوں کی طرف سے یا عورتوں کی طرف سے توڑی جائے تو اسلام اس کی سختی سے سرزنش کرتا ہے۔ بالکل اس کے برعکس جو دنیا کے شہوت پرست چاہتے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے۔ طاقت والے، مال و زر والے، ان کے مرد، ان کی عورتیں اور ان کے نوکر چاکر اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ رہتے تھے اور ان کے لئے تھے، وہ سب اس کے بر عکس عمل کرتے رہے ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ عورتوں اور مردوں کے درمیان سے یہ حجاب ہٹ جائے۔ یہ بات معاشرے کی زندگی کے لئے مضر اور معاشرے کے اخلاق کے لئے بری ہے۔ معاشرے کی عفت کے لئے ضرر رساں اور سب سے بڑھکر خاندان کے لئے تباہ کن ہے۔ یہ خاندان کی بنیاد کو متزلزل کر دیتی ہے۔
اسلام خاندان کو اہمیت دیتا ہے۔ مسلمانوں سے مغرب کے تشہیراتی اداروں کا تمام اختلاف اسی پر ہے۔ آپ دیکھیں کہ حجاب کے مقابلے میں کتنی حساسیت دکھاتے ہیں۔ اگر اسلامی جمہوریہ میں یہ حجاب ہو تو برا ہے۔ اگر عرب ملکوں میں ہو اور یونیورسٹیوں میں طالبات معرفت، آگاہی، اپنی خوشی سے اور اختیار کے ساتھ حجاب کریں تو مخالفت کرتے ہیں۔ اگر سیاسی پارٹیوں میں ہو تو مخالفت کرتے ہیں۔ اگر خود ان کے ملکوں کے کالجوں اور اسکولوں میں ہو جو خود ان کے زیر کنٹرول ہیں تو مخالفت کرتے ہیں۔ تو اختلاف کی وجہ یہ ہے۔ البتہ اپے پروپیگنڈوں میں مستقل شور مچاتے ہیں کہ اسلام میں یا اسلامی جمہوریہ میں عورت کے حقوق پامال کۓ گئے ہیں۔ خود بھی اس پر یقین نہیں رکھتے اور جانتے ہیں کہ اسلامی جمہویہ میں عورتوں کا حق نظر انداز نہیں ہوا ہے بلکہ اس کی تقویت ہوئی ہے۔ آپ دیکھیں کہ کالجوں، یونیورسٹیوں اور اعلا تعلیمی مراکز میں تعلیم حاصل کرنے والی طالبات اور خواتین کی تعداد آج زیادہ ہے یا شاہی حکومتوں کے دور میں زیادہ رہی ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج زیادہ ہے۔ ممتاز اور تعلیم میں اول آنے والی طالبات کی تعداد آج زیادہ ہے یا اس زمانے میں زیادہ تھی؟ آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج زیادہ ہے۔ ملک کے طبی اور علاج معالجے کے مراکز اور مختلف سائنسی مراکز میں کام اور تحقیق میں مشغول خواتین کی تعداد آج زیادہ ہے یا اس زمانے میں زیادہ تھی؟ آپ واضح طور پر محسوس کریں گے کہ آج زیادہ ہے۔ ملک کے سیاسی میدان میں اور بین الاقوامی میدان میں سرگرم اور وہاں ملک و قوم کے جو ان کا اپنا ملک اور اپنی قوم ہے، حقوق اور نظریات کا دفاع کرنے والی خواتین کی تعداد آج زیادہ ہے یا اس زمانے میں زیادہ تھی؟ آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج زیادہ ہے۔ اس زمانے میں خواتین مختلف وفود کے ساتھ دوروں پر جاتی تھیں مگر یہ امر نمائشی تھا۔ شہوت پرستی اور اس کو اور اس کو اپنی صورت اور کندھا دکھانے کے لئے یہ کام ہوتا تھا۔ مگر آج مسلمان خواتین، عالمی اداروں میں، عالمی کانفرنسوں میں، علمی مراکز میں اور یونیورسٹیوں میں علمی اور سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ یہ بہت اہم بات ہے۔
اس زمانے میں، ملکہ حسن کا خطاب دیکر لڑکی کو خاندان کی محبت آمیز اور پاکیزہ آغوش سے نکال کر برائیوں کی دلدل میں گرا دیتے تھے۔ مگر آج ایسا نہیں ہے۔ عورت کا حق کہاں ضائع ہو رہا ہے؟ جہاں عورتوں کو تعلیم سے روک دیا جائے، جہاں عورتوں کو ان کے مناسب کاموں سے روک دیا جائے، جہاں عورتوں کو خدمت کرنے سے یا ان کی خدمت کئے جانے کو روک دیا جائے اور جہاں عورتوں کی توہین ہو۔ جائیے اور امریکی معاشرے کو دیکھئے، آپ دیکھیں گے کہ وہاں عورتوں کی توہین کی جاتی ہے۔ گھریلو عورت کی شوہر توہین کرتا ہے۔ ماں کی توہین اولاد کرتی ہے۔ اسلامی مراکز میں جس طرح ماں کا حق ہے، وہاں نہیں ہے۔ ایک بین الاقوامی مرکز میں جس کی خصوصیات میں یہاں بیان کرنا نہیں چاہتا، ایک تقریر میں خاندان کے بارے میں ایک جملہ کہا گیا ہے۔ وہاں سے ہمارے پاس جو رپورٹیں آئیں، ان میں بتایا گیا ہے کہ اس ملک کے عوام نے اس جملے کی نسبت بہت زیادہ پسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ چونکہ وہاں خاندان کا شیرازہ بکھر چکا ہے، عورتوں پر ظلم ہوتا ہے، مگر یہاں عورت اور مرد کے درمیان وہ حدبندی موجود ہے۔ اس حدبندی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورتیں اور مرد ایک جگہ تعلیم حاصل نہ کریں، ایک جگہ عبادت نہ کریں، ایک جگہ کام نہ کریں، ایک جگہ خرید و فروخت نہ کریں، ایسی جگہیں بہت ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرتی رویئے میں حد و فاصلہ رکھیں اور یہ بہت اچھا کام ہے۔ عورت یہاں اپنے حجاب کی حفاظت کرتی ہے۔ ہمارے عوام نے چادر کا انتخاب کیا ہے۔ البتہ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ چادر ہی ہونا چاہئے اور چادر کے علاوہ دوسرا حجاب نہیں ہونا چاہئے، البتہ چادر دوسرے پردوں سے بہتر ہے مگر ہماری خواتین اپنے حجاب کی حفاظت کرنا چاہتی ہیں۔ چادر انہیں پسند ہے۔ چادر ہمارا قومی لباس ہے۔ چادر اسلامی حجاب سے زیادہ ایرانی حجاب ہے۔ ہمارے عوام کا اور ہمارا قومی لباس ہے۔
تعلیم یافتہ، پڑھنے لکھنے والی مسلمان اور مومن خواتین جو یا تو حصول علم میں مصروف ہیں یا بہترین یونیورسٹیوں میں اعلا سطح پر مختلف علوم کو پڑھانے میں مشغول ہیں، زیادہ ہیں اور یہ ہمارے اسلامی نظام کے لئے باعث افتخار ہے۔ ایسی خواتین ہیں جو الحمد للہ میڈیکل سائنس میں، دیگر مختلف علوم میں، پولیٹکل سائنس میں اور سائنس کے مختلف شعبوں میں اعلاترین مہارت رکھتی ہیں۔ ایسی خواتین بھی ہیں جنہوں نے دینی علوم میں کافی پیشرفت کی ہے اور اعلا سطح تک پہنچی ہیں۔ ایک وقت ایران میں، اصفہان میں ایک خاتون تھیں، جن کا نام بانو اصفہانی تھا۔ بہت عالی مرتبت خاتون تھیں۔ مجتہدہ، عارفہ اور فقیہ تھیں۔ مگر وہ اکیلی تھیں۔ آج الحمد للہ ایسی جوان طالبات جو بہت جلد فقہ اور فلسفے وغیرہ میں اعلا مدارج تک پہنچیں گی، بہت ہیں۔ یہ اسلامی نظام کے افتخارات میں سے ہے۔ عورت کی ترقی اس کو کہتے ہیں۔
مغرب اپنی تہذیب ہر جگہ مسلط کرنا چاہتا ہے۔ مغرب کی تہذیب عریانیت ہے۔ البتہ میں عرض کر دوں کہ یہ عریانیت، اخلاقی برائی، بے راہ روی اور یہ پستی، جو بہت سے مغربی ملکوں میں بعض عورتوں میں نظر آتی ہے، خود مغرب میں بھی ہمہ گیر نہیں ہے۔ یہ وہ کام ہے جو خود ان کی غلط تشہیرات کی وجہ سے روز بروز بڑھ رہا ہے، ورنہ چالیس پچاس سال پہلے مغربی ملکوں میں اس شدت سے نہں تھا۔ وہ وہی اخلاقی برائیوں اور بے راہ روی جس میں وہ خود گرفتار ہیں، اسلامی ملکوں کو برآمد کرنا چاہتے لیکن ہم یہ نہیں چاہتے۔ یہ معاشرتی زندگی کے لئے مضر ہے۔ خود ان کے لئے بھی مضر ہے۔ جہاں بھی ہو مضر ہے۔ ہمارے لئے بہترین روش، اسلامی روش ہے۔ ہماری خواتین نے انقلاب کے دوران اور انقلاب کے بعد ثابت کر دیا ہے کہ جو چیزیں، زندگی کا حقیقی معیار، امتیاز اور حقیقی قدریں ہیں، ان میں وہ اعلاترین سطح پر ہیں۔ جو ماں اپنے بیٹے کو راہ خدا میں ہدف کے لئے، اس ہدف کے لئے جو اس کے لئے بھی مقدس ہے اور خدا کے نزدیک بھی مقدس ہے، پیش کرتی ہے اور اس کی پیشانی پر بل نہیں آتے، درحقیقت وہ بہت نمایاں کام انجام دیتی ہے اور یہ معمولی کام نہیں ہے۔ جس معیار اور میزان پر بھی پرکھیں، باعظمت ہے۔ جو نوجوان عورت، اپنے شوہر اور اپنی عزت کو دس سال، گیارہ سال تک، اس مدت میں جب اس کا شوہر دشمن کی جیلوں میں قید ہوتا ہے، پوری عفت، سربلندی اور پاکدامنی کے ساتھ، محفوظ رکھتی ہے، کیا اس کا کام اہم نہیں ہے؟
ہماری خواتین میدان جنگ میں بھی آئیں، تعمیرنو کے میدان میں بھی آئیں، ذہنی قوتیں دکھانے کے میدان میں بھی آئیں اور سب سے زیادہ فعال رہیں۔ جن ہستیوں نے دشمن کے گوناگوں پروپیگنڈوں کے مقابلے میں زیادہ مزاحمت اور اسقتامت کا مظاہرہ کیا، وہ ہمارے ملک کی خواتیں ہیں۔ ہمارے دشمن اپنے پروپیگنڈوں میں، مختلف تنقیدوں کی شکل میں، رائی کا پہاڑ بناتے ہیں، چھوٹے سے مسئلے کو دس گنا بڑھاکر اس ریڈیو سے اور اس ریڈیو سے بیان کرتے ہیں۔ افسوس کہ خود ہمارے بعض بکے ہوئے قلم جنہیں انقلاب سے خدا واسطے کا بیر ہے، اس جریدے میں اور اس میگزین میں ان باتوں کو لکھتے ہیں۔ بعض پمفلٹ چھاپتے ہیں اور بعض آشکارا جریدوں میں لکھ کے پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ لوگوں کو پیسہ دیتے ہیں کہ کسی چیز اور بس کی لائن میں کھڑے ہوکر برا بھلا کہیں۔ یہ پیسہ افواہ پھیلانے اور ماحول خراب کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ اس ماحول میں ہماری خواتین نے زیادہ استقامت دکھائی ہے۔ الحمد للہ ان مومن خواتین کی تعداد، دشمنوں کی آنکھیں اندھی ہو جائیں، بہت زیادہ ہے۔
یہ زینبی اور فاطمی خواتین کا معاشرہ ہے۔ یہ اسلامی تربیت اور اسلامی نظام ہے۔ خواتین کا مرتبہ اور آزادی یہ ہے۔ البتہ ہمارے ملک کی خواتین کو معلوم ہونا چاہئے کہ ابھی ان کی پیشرفت کی بہت گنجائش ہے۔ میں اپنے ملک کی خواتین سے، ان خواتین سے بھی جو حصول علم میں مصروف ہیں اور ان خواتین سے بھی جو فارغ التحصیل ہو چکی ہیں، ان خواتین سے بھی جو سیاسی و سماجی سرگرمیوں اور دیگر فعالیتوں میں مصروف ہیں، ان خواتین سے بھی جو مختلف شعبوں میں اعلا عہدوں پر فائز ہیں اور ان خواتین سے بھی جو گھروں میں ہیں مگر ان کے دل انقلاب کے جذبے سے سرشار اور نور معرفت سے منور ہیں اور اپنے گھر کے ماحول کو اسلامی باقی رکھا ہے، گزارش کروں گا کہ اپنے معاشرے کی پیشرفت میں عورت کے کردار کے بارے میں زیادہ فکر کریں۔ سیاسی تنظیموں، علمی کارناموں، اہم خدمات، معلومات اور معرفت کی سطح بڑھانے اور تمام مراکز اور میدانوں میں دشمن کے مقابلے میں استقامت کے بارے میں فکر کریں جہاں استقامت موثر ہے۔ آپ دیکھیں کہ دشمن خفیہ طورپر بھی اور کھلے عام بھی، کتنے وحشیانہ انداز میں اسلامی مقدسات پر حملے کر رہا ہے؟! اس پورے پندرہ سال میں، امام (خمینی ) رضوان اللہ تعالی علیہ کی حیات کے دس برسوں میں بھی اور آپ کی رحلت کے بعد گذشتہ پانچ برسوں میں ایک لمحہ کے لئے بھی دشمن اسلامی جمہوریہ پر وار لگانے کی نیت سے باز نہيں آئے۔ کبھی آپ انہیں جو خاموش دیکھتے ہیں تو وہ سازش تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ اگر آپ دیکھتے ہیں کہ اسلامی نظام اپنی جگہ مستحکم باقی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا وار کارگر ثابت نہیں ہوا، ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے وار نہ لگایا ہو۔
آج عالمی سامراج کے بعض بے خرد حکام صراحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور بعض نہیں کہتے اور خفیہ رکھتے ہیں۔ ہمارے علاقے میں جو واقعات رونما ہوتے ہیں ان میں سے اکثر کا مقصد اسلام، اسلامی نظام اور مسلم قوم کو وار لگانا ہے۔ یہی ان دنوں کے معاملات، خلیج فارس پر امریکا کی لشکر کشی، طیارہ بردار جنگی بحری جہازوں اوربحریہ کے فوجیوں کا آنا، عراق کے اقدام پر پروپیگنڈہ مہم اور خود عراق کی فوجی کاروائی، ہماری نظر میں بہت مشکوک کام ہیں۔ ظاہر ہے کہ عالمی سامراج اس فکر میں ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو، اس علاقے میں اپنے قدم جمائے۔ ایک زمانے میں انگریزوں کو خلیج فارس میں مطلق حکمرانی حاصل تھی۔ الحمد للہ کہ اسلامی تحریک، ایرانی قوم کی بیداری اور مختلف واقعات نے انہیں خلیج فارس میں تہس نہس کر دیا۔ آج امریکی چاہتے ہیں کہ اپنی اور انگریزوں کی کھوئی ہوئی جگہ دوبارہ حاصل کریں۔
خلیج فارس میں تمہارا کیا کام ہے؟! خلیج فارس کی سلامتی کا تم سے کیا تعلق ہے؟ کہ دنیا کے اس سرے سے اٹھ کے آتے ہو اور دنیا کے اس سرے میں مداخلت کرتے ہو۔ کہتے ہیں یہاں ہمارے مفادات ہیں یہ کیا بات ہوئی کہ کوئی ملک دوسرے ملکوں کے امور میں مداخلت کرے اور کہے ہمارے مفادات ہیں۔ پھر بین الاقوامی قوانین کس لئے ہیں؟ اتنی بڑی اقوام متحدہ کس لئے ہے؟ پھر یہ دعوے، یہ عالمی قراردادیں اور بین الاقوامی کنونشن کس لئے ہیں؟ یہ سب اس لئے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی منہ زور حکومت، اس بہانے سے کہ فلاں جگہ ہمارے مفادات ہیں، اٹھے اور کسی ملک، کسی علاقے، کسی سمندر، کسی خلیج یا کسی بین الاقوامی آبی راستے کی طرف چل پڑے۔ اس علاقے میں جس کا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے، یعنی خلیج فارس میں، اس بہانے سے کہ عراق لشکر کشی کرنا چاہتا ہے اور عراق مسلسل اس کی تردید کرتا ہے۔ اتنی بڑی فوج لیکر کس لئے آئے ہو؟
یہ وہ مسائل ہیں جن کی نسبت ایرانی قوم کو حساس ہونا چاہئے۔ جو سمجھتے ہیں کہ دشمن سو گیا ہے، یہ نہ سمجھیں کہ اس خیال خام کے ساتھ زندگی گذاری جا سکتی ہے۔ امیر المومنین نے فرمایا ہے من نام لم ینم عنہ جن آنکھوں کے سامنے بڑا ہدف اور فطری طور پر بڑا دشمن ہو وہ نہیں سوتیں۔ اس مدت میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ ) مسلسل فرماتے رہے کہ ایرانی قوم حوادث عالم کے سلسلے میں اپنی حساسیت باقی رکھے۔ آج بھی یہ حساسیت ہونی چاہئے۔ اور الحمد للہ ہے۔ پورے ملک میں حزب اللہی اور مومن نوجوان اور گھرانے، سختی سے انقلابی اصولوں کے پابند ہیں۔ مومنہ خواتین، مومن مرد، مضبوط دل، بلند حوصلے، تمام میدانوں میں اس حد تک ہیں کہ پرودگار کے فضل سے دشمن کے مقابلے میں اپنے اسلام کا، اپنی اسلامی جمہوریہ کا، اپنے وقار کا، اپنی خودمختاری اور اپنے ملک کا دفاع کر سکتے ہیں۔
خداوند عالم آپ محترم خواتین کو جن میں سے ہرایک، اس ملک میں کسی کام میں، چاہے وہ یونیورسٹیوں کا کام ہو یا سروسز کے شعبے سے تعلق رکھتا ہو، علمی ہو یا سیاسی ہو، کسی نہ کسی کام میں مصروف ہے، کامیابی و کامرانی عطافرمائے اور انشاء اللہ حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کا اسوہ ہمیشہ ہمارے مردوں اور عورتوں کی نگاہوں کے سامنے زندہ و مجسم رہے۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ