اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

عزیز خدمتگذار بہنو اور بھائیو' میں آپ کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ خداوند عالم آپ کی یہ اہم خدمات جو مسلمانوں کے ایک اہم ترین فرائض سے تعلق رکھتی ہیں، قبول فرمائے، آپ کی مدد کرے، آپ کی کوششوں میں برکت عنایت فرمائے، تا کہ آپ انشاء اللہ اس عظیم اور اعلی فریضے کو بنحو احسن انجام دیں اور اس کا احیاء کریں۔
میں اپنا فریضہ سمجھتا ہوں کہ حج کمیٹی کے تمام کارکنوں بالخصوص ان لوگوں کا شکریہ ادا کروں جو پورے سال مسلسل اس کوشش میں رہتے ہیں کہ اس فریضے کی صحیح طور پر انجام دہی میں مدد ہو۔ یہ کام جو لوگوں کو حج کے ارکان کی انجام دہی سکھانے اور ان کے اندر شوق پیدا کرنے اور اس کے مقدمات فراہم کرنے کے لئے انجام دیئے جاتے ہیں واقعی اہم ہیں۔ میں خاص طور پر جناب رے شہری کا شکرگذار ہوں، اللہ ان کی حفاظت فرمائے اور انہیں طول عمر دے، انہوں نے واقعی اس کام کو بہت اچھے انداز میں آگے بڑھایا ہے اور جاری رکھا ہے۔ فریضہ حج درحقیقت ایک بے نظیر فریضہ ہے۔ اگر ہم تمام اسلامی تعلیمات پر غور کریں تو اس کی نظیر نہیں ملے گی۔ حج مخصوص حالت رکھتا ہے اور اس کا معنوی پہلو غیر معمولی ہے۔ مثال کے طور پر آپ ایک وقت کی نماز کو ملاحظہ فرمائیں چند منٹ کا ذکر خدا ہے۔ مگر حج اس سے متعلق اعمال کے آغاز سے لیکر جو کئی دن میں انجام پاتے ہیں، خانہ خدا کے اندر، یا سعی کے دوران، یا عرفات میں، یا مشعر میں، یا منی میں یا گوناگوں اعمال کے دوران چاہے مختلف قسم کے طواف ہوں یا نشست و برخاست ہو یا ایک نقطے سے دوسرے نقطے تک فیض رسانی ہو، سب ذکر خدا ہے۔ یہ اس کا معنوی پہلو ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حج میں ذکر الہی زیادہ ہے۔
دوسری طرف حج کا زندگی سے مربوط اور دنیاوی پہلو بھی بے نظیر ہے۔ یعنی یہ ایسا فریضہ ہے کہ جو صرف ایک شخص یا قوم سے مربوط نہیں ہے بلکہ پوری اسلامی دنیا سے متعلق ہے۔ خداوند عالم نے ایک نقطے کا تعین فرمایا اور ایک معین زمانے میں، معین ایام میں تمام مسلمانوں کو اس نقطے پر آنے کی دعوت دی ہے۔ کیا یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ تمام مسلمان متحد شکل میں نہیں بلکہ الگ الگ گروہوں کی صورت میں معین ایام میں نہیں بلکہ پورے سال اس نقطے پر جمع ہوتے؟ حج کے اس نکتے پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ خداوند عالم نے صرف یہ ارادہ نہیں فرمایا ہے کہ سب مکے میں، منی میں، مشعر میں، عرفات میں جمع ہوں۔ کیونکہ اگر ان مقامات کی طرف لوگوں کا آنا ہی مقصود ہوتا تو پورے سال میں لوگ یہاں آتے۔ خداوند عالم نے تمام مسلمانوں کو مخصوص ایام میں یہاں جمع ہونے کا لوگوں کو جو حکم دیا ہے، وہ کس لئے ہے؟ بنیادی اور اہم نکتہ یہی ہے۔
ظاہر کہ اس کیفیت کے ساتھ اجتماع اس لئے ہے کہ تمام مسلمان خود کو ایک دوسرے کے ساتھ محسوس کریں۔ یعنی اجتماعیت اور وحدت کا احساس کریں اور وسیع تر پہلو پر مسلم اقوام کے اجتماع سے ساری دنیا پر عظمت کا احساس طاری ہو جائے۔ اگر یہ احساس پیش نظر نہ ہوتا تو ضروری نہیں تھا کہ حج کے لئے چند معین ایام مد نظر رکھے جاتے۔
مگر یہ بات کہ امت اسلامیہ، مسلم اقوام میں سے ہرقوم، اپنے درمیان سے کچھ لوگوں کو ایک دن ایک جگہ روانہ کرتی ہیں تاکہ وہ ایک جگہ جمع ہوں، یہ اجتماع کس لئے ہے؟ یہ وہ نکات اور رموز ہیں جن کے بارے میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں یعرف ھذا و اشباھہ من کتاب اللہ ہر مسلمان کو قرآن اور اسلام کے مفاہیم کو جاننا چاہئے۔
خداوندعالم تمام مسلم اقوام میں سے ایک جماعت کو دعوت دیتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ آؤ ان معین ایام میں ایک دوسرے کے ساتھ رہو۔ ثم افیضوا من حیث افاض الناس سب مل کر چلو۔ مل کر فیض حاصل کرو۔ سب مل کر طواف کرو۔ یہ ہمہ گیر اجتماع کس لئے ہے؟ دنیا کے مختلف علاقوں کے مسلمان ایک جگہ جمع ہوتے ہیں، کیا کرنے کے لئے؟ جمع ہوں اور خاموشی سے ایک دوسرے کی صورت دیکھیں اور چند دنوں کے بعد اپنے اپنے وطن واپس لوٹ جائیں؟ ایک جگہ کیوں جمع ہوتے ہیں؟ اس لئے جمع ہوتے ہیں کہ اپنے اختلاف بیان کریں؟ اکٹھا ہونے کا مقصد کیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ تمام مسلم اقوام کے افراد کا ایک جگہ اور وہ بھی ایک مقدس جگہ پر جمع ہونے کا صرف یہ فائدہ اور مقصد ہو سکتا ہے کہ ایک جگہ جمع ہوں تاکہ امت اسلامیہ کی سرنوشت کے بارے میں اہم فیصلے کریں اور اس مجمع میں امت کی حیثیت سے ایک اچھا قدم اٹھائیں اور تعمیری اور مثبت کام کریں۔ یہ مثبت اور تعمیری کام کس کیفیت کا ہو سکتا ہے؟ اس کیفیت کا کہ ایک زمانے میں مسلم اقوام اتنی ترقی یافتہ ہوں - دعا ہے کہ وہ دن جلد آئے- جب حج میں جمع ہوں اور اس عظیم عوامی اجتماع کے دوران، اقوام کے منتخب افراد کی ہزاروں افراد پر مشتمل اسمبلی تشکیل پائے اور یہ اسمبلی فیصلے کرے اور یہ فیصلے اسی عوامی اجتماع میں مختلف ملکوں سے آنے والے تمام عازمین حج کے ذریعے منظور کئے جائیں اور پھر عمل درآمد کے لئے اقوام اور حکومتوں کے حوالے کئے جائیں۔ یہ بہترین کام ہے جو افسوس کہ آج تک عملی نہ ہو سکا۔ کیونکہ اقوام نے اس سلسلے میں اتنی پیشرفت نہیں کی ہے، خاص طور پر اس لئے بھی کہ حکومتیں ان کی مدد نہیں کرتیں۔ لیکن جب تک حج کے موقع پر یہ فیصلہ عملی نہ ہو اس وقت تک وہاں واجب کیا ہے؟ یہ ہے کہ اقوام جس طرح بھی ممکن ہو، عالم اسلام کی مصلحتوں سے قلبی وابستگی کا اظہار کریں اور اپنے درمیان وحدت پر تاکید کے ساتھ اسلامی دنیا کے دشمنوں سے برائت کا اعلان کریں۔ یہ کمترین کام ہے جو اس حج کے دوران جسے اسلام نے معین کیا ہے، انجام دیا جا سکتا ہے۔
برائت ہم باہر سے حج میں نہیں لائے ہیں۔ بلکہ یہ حج کی روح، جزو حج اور حج کے حقیقی مفہوم میں شامل ہے۔ بعض لوگوں کو اچھا لگتا ہے کہ اخبارات اور اپنے بیانات میں، دنیا کے اطراف و اکناف میں مسلسل یہی باتیں دوہراتے رہیں کہ تم نے حج کو سیاسی بنا دیا ہے حج کو سیاسی بنا دیا ہے کا مطلب کیا ہے؟ اگر مقصد یہ ہے کہ ہم نے ایک سیاسی بات کو حج میں داخل کیا ہے تو کہنا چاہئے کہ حج کبھی بھی سیاسی مفہوم سے عاری نہیں تھا۔ اگر کسی کو حج میں سیاسی مفہوم نظر نہ آئے تو دعا کرنی چاہئے کہ خدا اس کو شفا دے تاکہ وہ حقیقت کو دیکھ سکے۔ جو اسلام اور قرآن کریم کی حج کی آیات سے واقف ہے اور اس طرح وحدت کی اہمیت کو سمجھ سکتا ہے، کیسے ممکن ہے کہ یہ نہ سمجھ سکے کہ یہ عظیم اجتماع اعلی سیاسی و الہی مقاصد کے لئے ہے۔ یہ سیاسی ہے جو تمام مسلمانوں کی وحدت کے لئے، اسلامی دنیا کی مشکلات کے حل کے لئے، دلوں کو ایک دوسرے کے نزدیک لانے کے لئے ہے؟ اگر مراد یہ ہے حج بڑی طاقتوں کی ظالمانہ پالیسیوں کو آگے بڑھانے کا وسیلہ نہ ہو تو ٹھیک ہے۔ ہم اس کو قبول کرتے ہیں۔ جو لوگ کسی طرح حج سے تعلق رکھتے ہیں، انہیں اس الہی فریضے اور مسلمانوں سے عشق و محبت سے متعلق اس واجب کا عالمی پالیسیوں سے سودا نہیں کرنا چاہئے۔ یہ ہمیں بھی منظور نہیں ہے۔ جو بھی حج کو اس معنی میں سیاسی بنائے، اس نے حج کے ساتھ خیانت کی ہے۔ مگر اسلامی دنیا کے مسائل اہم مسائل ہیں۔ ان مسائل کو کہاں پیش کیا جائے؟ مسلمانوں کے ساتھ پوری دنیا میں جو یہ تمام ناانصافیاں ہو رہی ہیں ان کے خلاف مسلمان متحدہ آواز حج کے علاوہ کہاں اٹھائیں اور دنیا اور خائن سیاستدانوں کے کانوں تک پہنچائیں؟
دیکھئے آج یورپ میں مسلمانوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟ بوسنیا کے واقعات واقعی دردناک ہیں۔ انسان اس سانحے کی گہرائی اور وسعت کی توصیف نہیں کر سکتا ہے۔ جو بھی کہیں وہ جو کچھ ہوا ہے اس سے کم ہی ہوگا۔ دنیا کے عالمی سامراج کے سرغنہ بیٹھے اس قربانی کو دیکھ رہے ہیں جو ان کے سامنے ہو رہی ہے اور منتظر ہیں کہ اس قربانی کا کام کب پورا ہوگا۔ یہ بھینٹ چڑھنے والے سابق یوگوسلاویہ کے مسلمان ہیں۔ ان کا جرم کیا ہے؟ مسلمان ہونا! اب یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں < میں نے اس حقیقت کو تین سال پہلے اپنے حج کے پیغام میں لکھا تھا، اگرچہ اس وقت انکار کر رہے تھے، مگر آج خود سامراجی لاؤڈ اسپیکر کہہ رہے ہیں کہ چونکہ یہ مسلمان ہیں اس لئے ان کی مدد نہیں کرنی چاہئے> یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ بوسنیا کے عوام کا جرم ان کا مسلمان ہونا ہے۔ چونکہ یورپ کے قلب میں ایک مسلمان قوم نے سر اٹھایا ہے اس لئے سامراج برہم ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اسلامی حکومت کیونکہ اگر حکومت بنتی تو یقینی نہیں تھا کہ وہ سو فیصدی اسلامی حکومت ہوتی کیونکہ بہرحال اس سرزمین کے عوام تقریبا پچاس سال تک کمیونسٹ حکومت میں رہے ہیں، اس سے پہلے طویل برسوں تک فاسد عثمانی حکام یا ان کے جیسے ہی افراد یا بعض فاسد یورپی حکومتوں اور یورپی سلطنتوں جیسے آسٹریا اور دیگر ملکوں کی حکومت میں رہے ہیں۔ یہ لوگ ایک رات میں اسلامی اور قرآنی حکومت قائم نہیں کر سکتے تھے۔ یہ کام متوقع نہیں تھا۔ جس چیز نے دنیا پر مسلط سامراج کو بوسنیا ہرزے گووینا کے مسلمانوں کی نسبت اس حد تک غضبناک کیا ہے وہ یورپ میں ایک ایسے ملک کا وجود ہے جس کی قوم مسلمان ہے۔ وہ ایسی قوم کو برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ دنیا کے مسلمانوں کی حالت ہے اور اس مسئلے میں بین الاقوامی تنظیموں اور سب سے بدتر اور گھناونا کردار اقوام متحدہ کا رہا ہے۔
میں کہتا ہوں کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو معلوم ہونا چاہئے کہ انہوں نے مسلمانوں کے درمیان خود کو اتنا منفور بنا لیا ہے کہ کسی بھی قیمت پر اصلاح نہیں ہو سکتی۔ دنیا کے مسلمان دیکھ رہے ہیں کہ بوسنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ ایک وقت کہا کہ ہمیں اجازت دو کہ ہم جاکر ان کی مدد کریں کیونکہ بوسنیا کے مسلمانوں کے مخالفین کی مدد ہو رہی ہے جواب ملا کہ ممکن نہیں ہے مطالبہ کیا کہ ان کے لئے اسلحہ بھیجنے کی اجازت دو کہہ دیا کہ نہیں ہوسکتا۔ بظاہر بات یہ ہے کہ کسی بھی فریق کو اسلحہ نہیں دیں گے، مگر تنازعے کے ایک فریق کے پاس سابق یوگوسلاویہ کے تمام اسلحے پہلے ہی موجود ہیں۔ اس حکومت کے تمام وسائل اس کے پاس ہیں جو برسوں عراق کو اسلحے، ٹینک اور دیگر وسائل سپلائی کرتی رہی۔ آج یہ سب وسائل سربوں کے پاس ہیں اور دوسرے فریق کے ہاتھ خالی ہیں، وہ شہر کے نہتے عوام، عورتیں اور بچے ہیں۔
یہ جو کہتے ہیں کہ ہم نےکسی بھی فریق کو اسلحہ نہیں دیا اس کا مطلب کیا ہے؟ دنیا والوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ کہتے ہیں کسی بھی فریق کی مدد نہیں کر رہے ہیں ایک فریق مسلح ہے اور دوسرا غیر مسلح ہے۔ تم بجائے اس کے کہ مسلح فریق سے اسلحہ لے لو یا غیر مسلح فریق کو بھی اسلحہ دو، کنارے کھڑے ہو اور کہتے ہو کہ کسی بھی فریق کی مدد نہیں کر رہے ہیں!! اس کا مطلب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ تم منتظر بیٹھے ہو اور یہ دیکھنا چاہتے ہو کہ غیر مسلح فریق کب زمین پر گرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے۔ وہ واقعی اس بات کے منتظر ہیں کہ مسلمان کب گرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے فوجی بھیجیں گے۔ اسلامی اقوام نے کہا کہ ہمیں بھی اجازت دو کہ اقوام متحدہ کے فوجیوں میں شامل ہو کر وہاں جائیں اور تشدد روکیں۔ کہا یہ نہیں ہو سکتا۔ صرف یہ اسلامی جمہوریہ ایران کو ہی نہیں بلکہ کسی بھی مسلمان ملک کو اس بات کی اجازت نہیں دے رہے ہیں کہ وہاں فوج بھیجے۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ یعنی جن فوجیوں کو وہاں بھیجتے تھے ان سے کہتے تھے کہ وہاں جاکر سربوں کی مدد کرو۔ مسلمانوں سے تو یہ بات نہیں کہہ سکتے۔ لہذا مسلمانوں کو وہاں جانے ہی نہیں دے رہے ہیں۔ آج اس جدید نظام پر جو یہ دنیا میں نافذ کرنا چاہتے ہیں یہ ننگ و عار کا بد نما داغ لگا ہوا ہے۔ یہ امریکیوں کا رویہ، یہ بوسنیا ہرزے گووینا کے مسلمانوں کے مسئلے میں ان کا وعدہ، کہ ان کی ہرگز کوئی مدد نہیں کی اور یہ اقوام متحدہ اور برطانیہ اور بعض دیگر یورپی حکومتوں کا سلوک!! وہاں مسلمان مظلوم ہیں اور یہ منتظر ہیں کہ کب ان کا قتل عام ہوتا ہے؟! اس سلسلے میں مسلمان کیا کریں؟ کیا حج کے علاوہ کوئی اور جگہ ہے؟ (جہاں آواز اٹھائیں) جوعامل سامراجی طاقتوں پر لرزہ طاری کر دیتا ہے وہ سواد الناس یعنی عوام کا جم غفیر ہے۔ ورنہ دنیا کے کسی گوشے میں ہونے والی کانفرنس میں چند حکومتیں جمع ہوں اور قرارداد بھی پاس کریں تو اس کو اہمیت نہیں دیتے۔ سو قراردادیں بھی منظور کریں تو بے نتیجہ ہیں۔ کیا اب تک غاصب صیہونیوں کے خلاف متعدد قراردادیں منظور نہیں ہوئیں؟ لیکن کچھ بھی نہیں ہوا، جیسے ہوا کا کوئی جھونکا آیا اور چلا گیا، قرارداد کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ جو چیز واقعی سامراجی طاقتوں کو خوفزدہ کرتی ہے وہ عوام الناس کا اجتماع ہے۔ حج سے بہتر کہاں (یہ اجتماع ہوگا)؟ وہاں تمام اسلامی ملکوں کے بیس لاکھ مسلمان جمع ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک سے پوچھیں کہ (بوسنیا کے علاقے) گواردژے بارے میں آپ کے جذبات کیا ہیں؟ کہے گا میرا دل چاہتا ہے گواردژے جاکر وہاں کے مظلوم مسلمانوں کا دفاع کروں افسوس کا مقام نہیں ہے کہ ہم اس اجتماع کو گنوا دیں؟ افسوس کا مقام نہیں ہے کہ اتنا اچھا اجتماع جو اتنا بابرکت ہو سکتا ہے اور اتنی جگہوں پر مسلمانوں کو بچا سکتا ہے، اس کو گنوا دیں؟ کیا یہ حج کو سیاسی رنگ دینا ہے؟
اسلامی جمہوریہ ایران پر اعتراض کرتے ہیں حج کو سیاسی کیوں بنا دیا؟ اس کے معنی یہ ہیں۔ برائت یعنی یہ۔ برائت یعنی لوگ وہاں جمع ہوں اور ان جلادوں کے خلاف جو استری کئے ہوئے لباس، ٹائی اور پرفیوم لگاکے آتے ہیں اور وحشی ترین وحشیوں کی طرح انسانوں کا قتل عام کرتے ہیں، صدائے احتجاج بلند کریں اور ان لوگوں کے خلاف جو ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کے خلاف بھی جو عالمی اداروں میں ان کے حق میں فیصلے کرتے ہیں، فریاد کریں۔ یہ ہیں برائت کے معنی۔ کیا ممکن ہے کہ حج اس سے عاری ہو؟ کیا برائت سے عاری حج، حج ہے؟ جولوگ اسلام سے اور قرآن سے واقف ہیں جواب دیں۔ منصفانہ جواب دیں۔ حضرت امام (خمینی رحمت اللہ) کے اس قول کا مطلب کیا ہے کہ برائت کے بغیر حج، حج نہیں ہے۔ یعنی یہ برائت جزو حج اور اور ذات حج میں شامل ہے۔
حج میں مسلمانوں کی شرکت با معنی ہونی چاہئے۔ اگر صرف معنوی پہلو اور ذکر خدا مقصود ہوتا تو انسان اپنے گھر کے اندر بیٹھ کر ذکر خدا کر سکتا تھا۔ اور یاتوک رجالا وعلی کل ضامر یاتین من کل فج عمیق کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر اجتماع بے معنی ہوتا تو پھر ایام معلومات کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ کہتے کہ ہر شخص، سال میں جب بھی جا سکے مکے جائے، کیا ایسا نہ ہوتا؟ یہ جو کہا ہے کہ ایک جگہ جمع ہوں، انہیں چیزوں کے لئے ہے۔ اس لئے ہے کہ ذکر خدا بھی اجتماعی شکل میں ہو۔ پروردگار کی رسی کا پکڑنا بھی اجتماعی شکل میں ہو۔ ارشاد ہوتا ہے واعتصموا بحبل اللہ جمیعا یعنی فرادی نہیں، مسئلہ یہ ہے۔
دوسرے لوگ حج میں کیا کرتے ہیں، اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ البتہ اس معنی میں ہم سے تعلق نہیں ہے کہ ہمارا جو فریضہ ہے وہ ہم حج میں انجام دیں اور پروردگار کے فضل سے انجام دیتے ہیں۔ یہ کہ مظلوم اقوام کے لئے دوسرے کیا کرتے ہیں، ہم سے تعلق نہیں رکھتا۔ اس معنی میں کہ اگر دوسروں نے مظلوم اقوام کی مدد نہیں کی تو بھی ہم نہیں رکیں گے۔ کوشش کرتے رہیں گے۔ جس طرح خدا کے فضل سے ہماری حکومت اور حکام نے کوشش کی ہے کہ دیگر اقوام کو بوسنیا کے مظلوموں کی مدد کی ترغیب دلائیں۔ اگر وہ تیار ہو گئیں تو بہتر ہے اور اگر تیار نہ ہوئیں تو ہم اپنی طرف سے مدد جاری رکھیں گے۔ الحمد للہ آج تک اسلامی جمہوریہ ایران کے مختلف اداروں اور عوام نے بوسنیا کے مسئلے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے۔ میدان میں آئے اور آئندہ بھی میدان میں آئیں گے۔ آج ہلال احمر کو جو اس سے ہو سکے کرنا چاہئے تاکہ شاید محصور مظلومین تک خوراک اور زندگی کی ضرورت کی چیزیں پہنچانے کا موقع مل جائے۔ فوج، پاسداران انقلاب اور عوامی رضا کار فورس بسیج کے مومن نوجوانوں کو آمادگی کا اعلان کرنا چاہئے تاکہ جب بھی وہاں جانے کے لئے کہیں، کوئی رکاوٹ نہ رہے۔ راستہ کھلنے کے بعد جا سکیں۔ انقلاب اور امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے ہمیں یہ سیکھایا ہے۔ ہمیں سکھایا ہے کہ فریضے کی انجام دہی میں دوسروں کے منتظر نہ رہیں۔ لا یضرکم من ضل اذا اھتدیتم جب آپ فریضہ ادا کرنے کے لئے آمادہ رہ سکتے ہیں تو آمادہ رہیں۔ چاہے دوسری اقوام نہ آمادہ نہ رہیں۔ چاہے دوسری حکومتیں اجازت نہ دیں۔ ایران کی ملت اور حکومت خدا کے فضل سے اسلامی فریضے کی انجام دہی میں پیش پیش رہی۔ وہ اسلامی فریضہ چاہے جو بھی ہو۔
آج میں نے سابق یوگوسلاویہ کے سانحے کے بارے میں جو کچھ عرض کیا حقیقت صرف یہی نہیں ہے۔ ہمارے قریب بھی، علاقے کے مسلمانوں کے ساتھ آذربائیجان میں، اور قرہ باغ جو ہو رہا ہے وہ بھی اسی سانحے کی طرح ہے۔ تاجکستان کے مسلمانوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ بھی اسی طرح ہے۔ کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ بھی اس سانحے سے کم نہیں ہے۔ البتہ ان میں سے کوئی بھی بوسنیا کے سانحے جیسا المناک نہیں ہے۔ وہاں دشمن مقامی دشمن نہیں ہے۔ جن علاقوں کا میں نے نام لیا وہاں دشمن مقامی ہے۔ بوسنیا میں، قلب یورپ میں، سامراجی پالیسیوں پر عمل ہو رہا ہے۔ کیونکہ وہاں ان کے لئے یہ معاملہ زیادہ اہم ہے۔ اصل ہدف یہ ہے کہ جو فریضہ ہے وہ کسی کے ڈر اور خوف کے بغیر انجام دیں۔ ملت ایران بڑی طاقتوں کے خوف کی زنجیریں توڑ کر اٹھ کھڑی ہونے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اور اس کا سربلندی کے ساتھ کھڑا ہونا، دوسروں کے لئے درس ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج دنیا میں نوجوان اسلام کے نام کا نعرہ لگاتے ہیں۔
اول انقلاب کو پندرہ سال کا عرصہ گذرگیا۔ حضرت امام (خمینی) رضوان اللہ علیہ کی رحلت کو پانچ سال ہو گۓ۔ سب سمجھ رہے تھے کہ مبداء سے جتنا دور ہوں گے، بالخصوص امام خمینی قدس سرہ کی رحلت کے بعد، ایران اور انقلاب اسلامی سے مسلم اقوام کا لگاؤ ختم ہوتا جائے گا۔ مگر آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ جوش و جذبہ روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے اور اسی کے ساتھ عالمی سامراج کے لئے مشکل روز بروز سخت تر ہوتی جا رہی ہے۔ یہ خدائی کام ہے، ہمارا کام نہیں ہے۔ یہ ارادہ الہی ہے۔ البتہ ملت ایران نے خدا کی مدد اور الہی توفیقات سے اپنی فداکاری کے ذریعے خدا کے اس فضل کی راہ ہموار کی۔ اپنی کوششوں سے، اپنی فداکاریوں سے، اپنا خون دیکر، اپنے عقیدے اور وحدت کی حفاظت کرکے اس کی راہ ہموار کی ہے۔
اتحاد کی حفاظت کریں۔ بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ اس وحدت کو اس کے گھر کے اندر ہی اختلاف و تفرقے کی بھینٹ چڑھا دیں۔ سب اس بات کو یاد رکھیں۔ مختلف گروہ، مختلف مذاہب، مختلف شہر اور مختلف لوگ، ( سبھی) اس کوجان لیں۔ اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے دشمن بہت چاہتے ہیں کہ یہ کہہ سکیں کہ یہی وہ اسلامی جمہوریہ ہے کہ جو اتحاد کا دم بھرتی تھی، دیکھو' آج اپنے گھر میں اختلاف اور تفرقے کا شکار ہے ان کا دل چاہتا ہے کہ یہ صورت حال پیش آئے۔ خدا کے فضل سے آج تک وہ کامیاب نہ ہو سکے اور خدا کی نصرت اور ہدایت کے طفیل اور عزیز ملت کی ہوشیاری اور بیداری کے نتیجے میں وہ آئندہ بھی ایسا نہیں کر سکیں گے۔
ہماری دعا ہے کہ خداوند عالم آپ کا اور ان تمام لوگوں کا یہ حج، جو انشاء اللہ اس سال حج کے سفر پر روانگی کا شرف حاصل کریں گے، قبول فرمائے، اللہ آپ سب کی زحمتوں کو قبول فرمائے اور اچھی طرح حج ادا کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
جو لوگ حج کے لئے جاتے ہیں وہ حج کی قدر و قیمت کو سمجھیں۔ میں یہ ایک جملہ فی الحال عرض کروں گا اور اگر تفصیل کا موقع ملا تو بعد میں زیادہ وضاحت کے ساتھ عرض کروں گا، جو لوگ مکے جاتے ہیں، مکے کے بازاروں اور دوکانوں میں گھومنے میں وقت نہ گنوائیں۔ مکہ اس سے بالاتر ہے۔ بعد میں تجارت کا سفر بھی کر سکتے ہیں اور جہاں چاہیں گھوم سکتے ہیں لیکن حج میں ان ایام معلومات کو اپنے لئے، زیارت اور ذکر کے لئے محفوظ رکھیں۔ انہیں عبث کاموں پر قربان نہ کریں۔
جماعت کی نمازوں میں شرکت کریں، اجتماعات میں شرکت کریں، نماز کو حرمین میں اول وقت جماعت کے ساتھ ادا کریں، آپ کی موجودگی مومنوں اور پرہیزگاروں کی موجودگی ہو جس کی ملت ایران سے توقع ہے۔
میری دعا ہے کہ پروردگار آپ سب کو کامیاب فرمائے اور حضرت امام زمانہ ولی عصر ارواحنا فداہ کی پاکیزہ دعائیں آپ کے شامل حال ہوں۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ۔