اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
میں تمام عزیز بہنوں اور بھائیوں کا بالخصوص ان لوگوں کا خیر مقدم کرتا ہوں جنہوں نے زحمت کی اور دور دراز سے یہاں تشریف لائے۔ یہ موقع ہر سال آتا ہے کہ میں معاشرے کے دو طبقات کی قدردانی کروں اور ان کی خدمت میں چند باتیں عرض کروں۔ یہ میرے لئے بہت اچھا موقع ہے۔ ان میں سے ایک طبقہ ٹیچروں کا اور دوسرا محنت کشوں کا ہے۔ یہ دونوں، مختلف پہلووں سے ہمارے ملک کے ممتاز طبقات میں سے ہیں۔ اتفاق سے شہید مطہری جیسی عظیم شخصیت جو ایک طرف عظیم معلم اور اور ایک لحاظ سے مثالی محنت کش تھے، اسی یوم محنت کشاں پر شہید ہوئے۔ وہ پڑھاتے تھے، اس لئے معلم تھے اور کتابیں لکھنے، یہاں وہاں جانے، سفر کرنے اور تعلیم یافتہ اور روشن فکر لوگوں سے رابطہ کرنے کے لحاظ سے محنت کش تھے۔ یہ شہید مطہری کی شخصیت کا ایک اور نمایاں پہلو ہے۔
یہ عظیم ہستی جس کی شہادت ان ایام میں ہوئی، اس چیز کا نمونہ ہے جس پر میں آج تاکید کرنا چاہتا ہوں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، ٹیچر اور محنت کش دونوں ہی، معاشرے کے ممتاز طبقات ہیں۔ چند ملین کی آبادی والے ہمارے ملک میں ٹیچروں کا طبقہ شاید کل آبادی کا پانچواں یا چھٹا حصہ ہو۔ درحقیقت ہمارے چند ملین نوجوانوں اور بچوں کی، ملک کا مستقبل جن سے تعلق رکھتا ہے، تعلیم و تربیت ٹیچروں کے ذمے ہے۔ دوسرا طبقہ محنت کشوں کا ہے۔ ملک کی مادی زندگی، ملک کی پیداوار اور ملت کی ضروریات زندگی کی فراہمی اس طبقے کے ہاتھ میں ہے۔ بنابریں آپ ملاحظہ فرمائیں کہ ان دونوں طبقات کی اہمیت خود بخود واضح ہے اور ضروری نہیں ہے کہ ہم بیٹھیں اور توضیح و تشریح بیان کریں کہ معلم اس وجہ سے اہم ہے اور محنت کش اس لحاظ ہے اہم ہے۔
ان کی اہمیت خود بخود واضح ہے۔ البتہ انقلاب کے بعد کے حالات میں اور ملک کی موجودہ صورتحال میں ان دونوں طبقوں کی اہمیت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ کیونکہ گذشتہ پندرہ برسوں میں ہمارے ملک کو جو واقعات پیش آئے اور ان میں، عوام کی موجودگی ضروری تھی، جیسے مسلط کردہ جنگ، ان واقعات کے موقعے پر یہ دونوں، معاشرے کے فعال طبقات میں تھے۔ آپ دیکھیں کہ جنگ میں کتنے ٹیچروں اور محنت کشوں نے حصہ لیا اور کتنے طلبا، معلمین کی ہدایت اور حوصلہ افزائی پر محاذوں پر گئے، اس سے ہمارے ملک میں ٹیچروں اور محنت کشوں، دونوں طبقات کی حیثیت کی نشاندہی ہوتی ہے۔
ایک وقت معلم پڑھاتا ہے اور پھر اپنی شخصی زندگی کے امور میں مشغول ہوتا ہے۔ یا محنت کش کام کرتا ہے اور باقی وقت اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گذارتا ہے۔ مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ملک میں کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے اور وہ حادثہ لوگوں کی موجودگی کا طالب ہوتا ہے، اس وقت یہ دونوں طبقات پڑھانے اور کام کرنے کے ساتھ ہی، کمر ہمت باندھتے ہیں اور میدان میں آ جاتے ہیں۔ ہمارے ٹیچروں اور محنت کشوں نے اسی کردار کا مظاہرہ کیا ہے جس سے ان کی اہمیت کافی بڑھ گئی۔ البتہ ممکن ہے کہ دنیا کے بعض دوسرے ملکوں میں بھی یہ باتیں ہوں، جن کی ہمیں صحیح اطلاع نہ ہو، مگر ہمارے ملک میں ان دونوں طبقات کی حیثیت وہی ہے جو میں نے عرض کی، بنابریں یہ دونوں اہم ہیں۔
یہ بات کہنے سے رہ نہ جائے کہ ان دونوں طبقات کے پاس وسائل کم ہیں اور یہ پہلو بھی ان کا ایک خاص امتیاز ہے۔ بنابریں معلم اور محنت کش دونوں عزیز، محترم اور مکرم طبقات ہیں جن کی معاشرے کو ضرورت ہے اور دونوں ہی حقیقی قدروں کی اساس پر محترم ہیں اور یہ اپنی جگہ پر مسلمہ امر ہے۔ ملک کے منصوبے بنانے والے، پلاننگ کرنے والے اور دوسرے ذمہ دار افراد اس بات پر توجہ رکھیں کہ ہمارے معاشرے کے یہ دونوں طبقات، بہت مخلص، بہت مومن اور ملک کی سرنوشت میں بہت زیادہ دلچسپی رکھنے والے ہیں۔ اس اہم پہلو کو مد نظر رکھیں۔
آج میں جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اور تیسری دنیا کے بہت سے ملکوں میں امور مملکت چلانے کے لئے دو نظریات پائے جاتے ہیں۔ ایک نظریہ ہے کہ کسی ملک کے عوام، روشن فکر حضرات اور فیصلہ کرنے والے لوگ کہتے ہیں کہ ملک کی تعمیر کے لئے، مستقبل کو سنوارنے کے لئے، عالمی طاقت پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ یہ عالمی طاقت ہر زمانے میں جو بھی ہو۔ چاہے برتر علمی طاقت ہو، یا برتر سیاسی اور ثقافتی طاقت ہو۔ ان کے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ کہتے ہیں ہمیں ان طاقتوں کی پیروی کرنی چاہئے، جو آج علمی سیاسی اور اسلحے کے لحاظ سے سب سے اوپر ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ وہ قوی ہیں اس لئے ہمیں ان کے زیر سایہ رہنا چاہئے۔
یہ نظریہ اور طرزفکر دنیا کے پسماندہ ملکوں میں رائج ہے۔ جن لوگوں نے سیاسی و جغرافیائی مسائل کا مطالعہ کیا ہے، وہ جانتے ہیں کہ آج لاطینی امریکا، افریقا اور ایشیا کے بعض ملکوں میں یہ طرز فکر پایا جاتا ہے اور بعض سیاستداں اور روشن فکر حضرات اس نظریئے کی پیروی کرتے رہے ہیں۔ کہتے تھے کہ امریکا اور بعض یورپی ممالک دولتمند، طاقتور، صاحب علم اور اسلحے کے مالک ہیں، ہم خود کو ان سے الگ کیوں کریں؟ ہم ان طاقتوں کی پیروی کیوں نہ کریں۔ کچھ بھی ہو، آخر کار یہ مالک اور آقا ہیں۔
ایران میں بھی ماضی میں یہی طرزفکر حکمفرما تھا۔ اگر آپ میں سے کسی نے شاہی حکومت کے دور میں، زمینداروں کے گاوؤں کو دیکھا ہو تو( جانتا ہے کہ) خوار اور کمزور لوگوں میں جو خود بھی اور ان کے اہل خانہ بھی، زمینداروں کے دسترخوان کے ٹکڑوں پر پلتے تھے، اس طرح کا طرزفکر نظر آتا تھا۔ اس طرز فکر کا نتیجہ یہ تھا کہ پہلوی طاغوتی حکومت کے سربراہ باہوش، باغیرت، دلیر اور تہذیب و تمدن کے درخشاں ماضی کی مالک اس قوم کی دولت و ثروت، امریکا سے جنگی طیاروں کی خریداری پر خرچ کرتے تھے۔ اگر ہوائی جہاز کے کسی پرزے میں کوئی خرابی آ جاتی تھی تو ایرانی انجینئر یا میکینک کو یہ حق نہیں تھا کہ اس پرزے کو کھول کر خرابی دور کرنے کی کوشش کرے۔ کیونکہ پرزے مرکب تھے یعنی کبھی ایسا ہوتا تھا کہ ایک پرزہ، دس پرزوں سے مل کر بنتا تھا جو ایک دوسرے سے جڑے ہوتے تھے۔ خراب پرزے کو کھولتے تھے اور ہوائی جہاز کے ذریعے، بنانے اور بیچنے والے ملک کو جو عام طور پر امریکا ہوتا تھا، بھیجتے تھے اور خراب پرزہ دیکر نیا پرزہ خریدتے تھے اور واپس آتے تھے۔ ایرانی انجینیئروں کو خراب پرزوں کو ہاتھ لگانے کا حق کیوں نہیں تھا؟ اس لئے کہ کہتے تھے کہ تمہیں ان کاموں سے کیا واسطہ؟ یہ مسائل بیرونی ماہرین سے تعلق رکھتے ہیں۔ تم ان میں مداخلت نہ کرو، ان معاملات کے نزدیک نہ جاؤ۔ کسی قوم کی تحقیر یہی ہے۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج بھی ملک کے گوشہ و کنار میں ایسے لوگ ہیں جو یہی طرز فکر رکھتے ہیں۔ یعنی آج بھی ایسے لوگ ہیں جو مغرب اور امریکا سے وابستہ ماضی کے افراد کی فکر کے زیر اثر ہیں۔
یہ ایک نظریہ اور طرزفکر ہے۔ ایک نظریہ اور ہے جس کے ماننے والے کہتے ہیں کہ ہم ایک قوم ہیں، ہمارے اندر صلاحیتیں ہیں، ہمیں اسی پر بنا رکھنی چاہئے کہ اپنی توانائیوں سے کام لیں۔ البتہ جب مشکل میں پھنس گئے اور دیکھا کہ دوسرے کے پاس ہم سے بہتر وسائل ہیں تو اس کے پاس جائیں گے اس کے وسائل قرض لیں گے اور اپنا کام چلائیں گے اور پھر کوشش کریں گے کہ ہم خود ان وسائل کو بنالیں یہ عاقلانہ کام ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ جب بھی تمہاری گاڑی، گیس کا چولہا یا فریج خراب ہوا پڑوسی کے پاس جاؤ اور کہو کہ زخمت ہوگی، ہماری یہ چیز ٹھیک کر دیجئے۔ یہ کام انحصار ہے۔ البتہ کسی وقت ضروری ہوتا ہے۔ یعنی دوسرے کے پاس علم اور مہارت ہے، آپ کو اس سے سیکھنا چاہئے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پڑوسی کے پاس وسیلہ ہے جس سے وہ کام کر سکتا ہے۔ آپ اس سے ادھار لیں اور پھر کوشش کریں کہ اس کے محتاج نہ رہیں۔ ایک ملت کی سطح پر یہ بے نیازی علمی، عملی، فنی ثقافتی مختصر یہ کہ ہمہ گیر خود مختاری ہے۔ اسلامی انقلاب شروع سے ہی اس خودمختاری کی فکر میں رہا ہے۔
آج دنیا پر نگاہ ڈالیں تو دیکھیں گے کہ بعض ممالک اس راستے پر چلے اور نتیجہ بھی حاصل کیا۔ ان ممالک نے جن کے لئے مبالغہ آمیز لفظوں میں کہا جاتا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد تقریبا برباد ہو گئے تھے، کمر ہمت باندھی اور اپنے آپ پر توجہ دی۔ درحقیقت اپنی اندرونی افرادی قوت سے کام لیا اور آج اپنی دنیا کے امور چلانے میں ان سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں جنہوں نے انہیں زمین بوس کر دیا تھا۔ بنابریں نتیجہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اس طرز فکر کے ذریعے علمی اور فنی خود مختاری حاصل ہو سکتی ہے۔ ہمارے امام ( خمینی ) رضوان اللہ تعالی علیہ ملت ایران سے یہ کہنا چاہتے تھے کہ اے ملت ایران، اے ایرانی نوجوانو، اے ایرانی محنت کشو، اے ایرانی انجینیئرو، اے ایرانی عہدیدارو' تم بیرونی طاقتوں پر انحصار کئے بغیر اپنا کام خود کرسکتے ہو امام خمینی ہمارے اندر کرسکتے ہیں کا جذبہ باقی رکھنا چاہتے تھے۔ جو لوگ پہلی فکر، جو دوسروں پر انحصار پر منتج ہوتی ہے، رکھتے ہیں انہوں نے گذشتہ عشروں کے دوران مسلسل ایرانیوں کامذاق اڑایا۔ لطیفہ بنا دیا کہ اندرون ملک تیار ہونے والا مال بھی کوئی مال ہے کسی قوم کے ساتھ اس سے بڑا ظلم نہیں ہو سکتا۔
آج آپ دیکھیں کہ ملک کے اندر تیار ہونے والی مصنوعات غیرملکی مصنوعات سے بہت بہتر ہیں۔ البتہ منافع پرست لوگ جو صرف اپنی جیب بھرنے اور نفع کمانے کے بارے میں سوچتے ہیں اور ان کے اندر قومی و دینی حمیت نہیں ہے اور ملت ایران کی سماجی اہمیت پر توجہ نہیں دیتے، بعض ملکی مصنوعات پر دنیا کے مشہور کارخانوں یا سپر مارکٹوں کا لیبل لگا دیتے ہیں اور انہیں یورپی بازاروں میں بیچتے ہیں۔ یہ لوگ اس طرح صرف پیسہ حاصل کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں۔ جبکہ یہ مصنوعات، ملک کے اندر ایرانی فنکاروں کی ظریف انگلیوں، تیز بیں نگاہوں، اعلا ایرانی ذہانت اور برتر ایرانی صلاحیتوں سے تیار ہوئی ہیں۔
میں نے کبھی عرض کیا ہے کہ ملت ایران کے پاس جو کچھ ہے وہ، دنیا کے لوگوں کی اوسط ذہانت سے بالاتر ہے۔ بنابریں یہ ملت اپنی اعلا ذہانت اور صلاحیت سے کام لیکر اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکتی ہے۔ ہمارے اسلامی انقلاب نے الحمد للہ، ملک کی افرادی قوت کے لئے کھلا میدان فراہم کیا ہے۔ چنانچہ آج ہوائی جہاز کا وہی خراب ہو جانے والا پرزہ جو ماضی میں ایک دو آدمیوں کے ہمراہ اور خاص اہتمام کے ساتھ باہر بھیجا جاتا تھا، ہماری فوج اور ہمارے ٹکنیشین بہت کم خرچ سے اس طرح تعمیر کرتے ہیں کہ پہلے سے بہتر ہو جاتا ہے۔ کسی قوم کی تحقیر کیوں کرتے ہیں؟ اور کہتے ہیں کہ تم نہیں کرسکتے اگر ہم چاہیں تو خود اعتمادی اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا عملی ثبوت دے سکتے ہیں۔ آپ دونوں، یعنی معلمین اور محنت کش حضرات اس کے موثر عوامل ہو سکتے ہیں۔ آپ اس کا اظہار کریں، ثابت کریں، دوسروں کو تعلیم دیں کہ ملت ایران اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکتی ہے۔ الحمد للہ ہمارے پاس ذخائر کافی ہیں۔
میری حقیقی آرزو، جو ممکن ہے جلدی پوری نہ ہو، یہ ہے کہ ہم تیل کے کنووں کو بند کر دیں اور اپنے اقتصاد کی بنیاد غیر پٹرولیم مصنوعات پر رکھیں۔ یعنی فرض کریں کہ اس ملک میں تیل نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ البتہ ممکن ہے کہ یہ کام اتنی جلدی عملی نہ ہو۔ کیونکہ ایران کے دشمنوں نے دوسروں پر منحصر اور بدعنوان پہلوی حکومت میں تصور سے زیادہ تخریب کاری کی ہے اور ہمارے ملک اور ملت کو تیل پر منحصر کر دیا ہے تاکہ آسانی سے یہ کام نہ کیا جا سکے۔ مگر ایک روز یہ کام ہونا ہے اور وہ دن ایسا دن ہوگا کہ ملت ایران اپنا سرمایہ مفت میں ان لوگوں کو دیئے بغیر جو انتہائی خباثت کے ساتھ ملکوں کے قومی سرمائے کو غارت کرتے ہیں، اپنے وسائل پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے پیروں پر کھڑی ہوگی۔
افسوس کہ آج یہ کام ممکن نہیں ہے۔ آج تیل پیدا کرنے والے بعض ملکوں کی خیانت اور بین الاقوامی لٹیروں کے ساتھ ان کے تعاون کی وجہ سے جو بجائے اس کے کہ تیل کی دولت، تیل پیدا کرنے والے ملکوں کے پاس نفع کمانے یا سیاسی اور اقتصادی فائدہ اٹھانے کا وسیلہ ہوتی، اس کے برعکس استعمال کرنے والوں کے ہاتھ میں ایک حربہ بنی ہوئی ہے۔ آج تیل ایک بیکار شے ہوکر رہ گیا ہے۔ جبکہ تیل ایسی چیز ہے کہ اگر آج دنیا کو نہ دیں تو دنیا میں کہیں بھی حرارت اور روشنی نہیں ہوگی اور صنعتیں ٹھپ ہو جائیں گی۔ آج کے صنعتی تمدن کی بنیاد مشینوں پر ہے، اگر تیل نہ ہو مشینیں رک جائیں گی۔ ہمارے تیل کی اہمیت اس قدر ہے۔
البتہ ہم جب کہتے ہیں کہ ہمارا تیل تو اس علاقے اور دنیا کے تیل پیدا کرنے والے تمام علاقوں کا تیل مراد ہوتا ہے۔ اس علاقے میں دنیا کے تیل کا بڑا حصہ پایا جاتا ہے۔ وہ حکومتیں جنہوں نے عالمی لٹیروں سے ہاتھ ملا رکھا ہے، افسوس کہ تیل کے بڑے حصے کی مالک ہیں۔ آج اتنی اہم چیز ان صارفوں کے ہاتھ کا وسیلہ ہے، جنہیں اس کی سخت ضرورت ہے۔ انہوں نے دسیوں سال سے آج تک اسی پالیسی پر عمل کیا ہے اور افسوس کہ ہمیشہ منحصر ملکوں کے خائن سیاستداں ان کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ ان حالات میں اگر ملت ایران، ایرانی محنت کش، ایرانی نوجوان، ایرانی صنعتکار، ایرانی معلم سب مل کر کوشش کریں، غیرت سے کام لیں اور اس ملک کی اس طرح تعمیر کریں کہ درآمدات و برآمدات اور روز مرہ کی ضرورتوں کے لئے، تیل بیچنے اور وہ بھی اتنی کم قیمت پر اس کی فروخت کا محتاج نہ رہے تو دیکھیں گے کہ یہ، ملک کے حال اور مستقبل کے لئے کتنی بڑی خدمت ہوگی؟!
یہ کام کیسے ممکن ہوگا؟ اس طرح کہ ایرانی محنت کش کام کو صرف لفظی نہیں بلکہ حقیقی عبادت سمجھے۔ اپنا کام کرنے کے لئے قربت کی نیت کرے۔ اسی طرح مسلمان ایرانی معلم بچوں اور نوجوانوں کو یہ طرز فکر سکھائیں۔ تاکہ آئندہ دس برسوں میں ہمارے کارخانوں اور تعلیمی و تحقیقاتی مراکز میں اس طرح کام ہو کہ اس ملت کی استعداد ابھر کر سامنے آئے۔ اس وقت زندگی آرام دہ ہوگی، ہر جگہ اور سب کے لئے آسائش ہوگی، دشمن کا اقتصادی تسلط ختم ہوگا، ملک کا سرمایہ محفوظ اور ملک کو عزت و عظمت حاصل ہوگی۔ ان دو طبقات، معلمین اور محنت کشوں کے کام کی اہمیت اس طرح معلوم ہوگی۔ اگر میں نے کہا کہ شہید مطہری اس طرح کے تھے تو واقعی اسی طرح کے تھے۔
شہید مطہری ان لوگوں میں سے تھے جن کے لئے کام کرنا اور پڑھانا صرف ایک مقدس فریضہ تھا۔ وہ بھی اس کے بغیر کہ کوئی مجبور کرتا یا ان سے کہتا۔ البتہ دنیا کے زیادہ تر محققین اسی طرح ہیں۔ دنیا کی تمام علمی پیشرفت اس طرح آئی ہے کہ کچھ لوگوں نے عشق یا ایمان یا دونوں کے ساتھ کام کیا ہے۔ عشق کارفرما ہو یا الہی ثواب پر ایمان یا دونوں۔ آپ کے پاس دونوں چیزیں ایک ساتھ ہو سکتی ہیں۔ اس طرح ملت ایران حقیقی خودمختاری کو کہ سیاسی خود مختاری جس کا مقدمہ ہے، حاصل کر سکتی ہے اور یہ خود مختاری سیاسی خود مختاری کی بقا کی ضامن ہے۔
یہ وہ نکتہ ہے جو ہم یوم محنت کشاں اور یوم معلم پر آپ سے عرض کر سکتے ہیں۔ دشمن دشمنی کرتا ہے اور اس سے دشمنی کے علاوہ کسی اور چیز کی توقع نہیں ہے۔ دشمن کے ریڈیو جو پروپیگنڈہ کرتے ہیں، جو باتیں عالمی صیہونزم کے جرائد لکھتے ہیں، ہمیں اس سے کم کی توقع نہیں ہے۔ آخرکار وہ دشمن ہے۔ دشمن برائی کرتا ہے، خیانت کرتا ہے، الزام لگاتا ہے، جھوٹ بولتا ہے۔ دعوی کرتا ہے کہ انسانیت کا طرفدار ہے لیکن یہ دعوی جھوٹا ہے۔ اس سے اس کے علاوہ کسی اور چیز کی توقع نہیں ہے۔
ہمارے لئے جو چیز ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہم خود اسلامی قدروں کو عملی شکل دینے کی کوشش کریں۔ کام اور تعلیم، اس نیت کے ساتھ، اس احساس اور غیرت کے ساتھ انجام پائے، تاکہ مستقبل قریب میں انشاء اللہ ملک ایسی پوزیشن میں ہوکہ لیظھرہ علی الدین کلہ و لو کرہ المشرکون وہی ہو جس کا آپ کے لئے خدا نے ارادہ کیا ہے، جو اس نے چاہا ہے اور مقدر فرمایا ہے۔ دعا ہے کہ خداوند عالم اس دن اور ان ایام کو آپ کے لئے مبارک فرمائے اور ہم سب کو توفیق عنایت فرمائے کہ ان فرائض کو سمجھیں اور ان کی بنیاد پر عمل کریں۔