قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ ملاحظہ فرمائیے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں بھی اس عظیم دن کی، دنیا کے تمام مسلمانوں، حق پرستوں، انصاف کے طرفداروں بالخصوص عزیز ایرانی قوم اور آپ بہنوں اور بھائیوں کو جو اس جلسے میں موجود ہیں اور امور مملکت چلانے کی سنگین اور بنیادی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر ہے، تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ غدیر کے واقعے میں، ہم جیسے مطالعہ کرنے والوں کے نقطہ نگاہ سے جو بات سمجھی جا سکتی ہے، وہ اس الہی منصب کے لئے، امور مملکت چلانے کے لئے اور عظیم ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لئے صالح سانوں کا انتخاب ہے۔ البتہ جو لوگ حق شناسی کی اعلا عرفانی بینش رکھتے ہیں اور ان کے قلوب نور و معرفت کے منابع سے متصل ہیں، اس واقعے میں بہت سے دوسرے حقائق بھی دیکھتے اور اخذ کرتے ہیں۔ اس واقعے میں ہم جو چیز محسوس کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ غدیر کے دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پروردگار کے حکم سے حضرت امیرالمومنین علیہ الصلوات و السلام کی ولایت کا اعلان کرکے اسلام کی اس حقیقت کو آشکارا فرمایا ہے کہ اسلامی نظام میں معاشرہ چلانے کی عظیم ذمہ داری ایسی چیز نہیں ہے کہ اس کے سلسلے میں اسلامی معیاروں کو نظر انداز کیا جا سکے۔ اس عظیم کام میں اسلامی معیاروں اور اقدار کو مو بمو مد نظر رکھنا چاہئے۔
امیر المومنین علیہ الصلوات و السلام سے بالاتر کون ہے؟ وہ تمام خصوصیات جو اسلام کی نظر میں اہم ہیں، البتہ منصف مزاج عقل سلیم کے نقطہ نگاہ سے بھی یہ خصوصیات بہت اہم ہیں، امیر المومنین علیہ الصلوات و السلام میں جمع تھیں۔ آپ کا ایمان، آپ کی فداکاری، آپ کا ایثار، آپ کا تقوا، آپ کا جہاد، اسلام میں آپ کی سبقت، خدا کے علاوہ ہر چیز سے اور ہر اس ہدف سے آپ کی بے اعتنائی جو خدائی نہ ہو، مادی چیزوں سے آپ کی بے التفاتی،آپ کی نظر میں دنیا کا بے وقعت ہونا، آپ کا علم، آپ کی معرفت اور ہر پہلو سے آپ کے اندر انسانیت کا اپنی ارتقائی منزلوں میں نظر آنا، وہ خصوصیات ہیں جو امیرالمومنین علیہ الصلوات و السلام کی زندگی میں نمایاں ہیں۔ ان باتوں کا دعوی شیعوں سے مخصوص نہیں ہے۔ بلکہ تمام مسلمین، مورخین اور محدثین نے جنہوں نے امیرالمومنین علیہ الصلوات والسلام کے بارے میں منصفانہ بات کہنی چاہی ہے، یہی خصوصیات بلکہ اس سے زیادہ بیان کی ہیں۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس دن ان لوگوں کے سامنے جو اچھی طرح جانتے تھے کہ امیرالمومنین علیہ الصلوات والسلام میں یہ خصوصیات موجود ہیں، آپ کے منصب ولایت پر فائز ہونے کا اعلان فرمایا۔ اس منصب کے اعلان کا مطلب انہیں معیاروں کو اہمیت دینا تھا۔ یہ وہی نکتہ ہے جو اسلامی معاشرے اور اسلامی نظام میں، قیام قائم ( یعنی انقلاب حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) تک ہر ایک کے مد نظر ہونا چاہئے۔ اگر مسلمان تاریخ میں اسلامی برکات سے مکمل طور پر بہرہ مند نہ ہو سکے تو اس کا سبب، معیاروں کی عدم شناخت کے باعث پیدا ہونے والا نقص رہا ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ جو نکتہ ہمارے لئے، ایران کے اسلامی نظام کے ذمہ داروں اور حکام کے لئے اہم ہے، وہ یہ ہے کہ جب نبوی اسلامی نظام کی قیادت یعنی اس اسلامی نظام کی سربراہی جو خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مقدس ہاتھوں کا تیار کردہ تھا، امیرالمومنین علیہ الصلوات و السلام جیسے انسان کو سونپی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں، اسلامی نظام میں تمام بنیادی عہدوں اور ذمہ داریوں کے سلسلے میں ان معیاروں کی پابندی ضروری ہے۔ معیاروں کی پابندی صرف اسلامی معاشرے کی سربراہی سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اصولوں، اور معیاروں کو اہمیت دینا پورے اسلامی معاشرے میں رائج ہونا چاہئے۔ اس صورت میں مسلمان، برکات سے بہرہ مند ہوں گے۔ ہم ایرانی عوام نے جو اسی حد تک اپنی زندگي میں اعلا اسلامی اصولوں کو نافذ کیا ہے تو اس کی برکات کا آج ہم مشاہدہ کر رہے ہیں۔
ایرانی قوم کی یہ خودشناسی اور اسلام سے وابستہ ہونے پر احساس افتخار، اس چیز کے برعکس ہے جو دشمنان اسلام نے ہمیشہ چاہا ہے اور جس کی تلقین کی ہے کہ مسلمان ہونے پر مسلمانوں کے سر جھکے رہیں اور کوشش کریں کہ ان کی حرکات و سکنات سے اسلام اور مسلمان ہونے کا پتہ نہ چلے۔ بلکہ اسلام مخالف رجحان اور دشمنان اسلام کی طرف میلان ظاہر ہو۔
اسلامی معاشروں میں سامراجیوں کا ایک کام یہ تھا کہ انہوں نے کوشش کی ہے کہ مسلمان عوام، زندگی اور معاشرے میں جس رتبے اور مقام پر بھی ہوں، خود کو غیر اسلامی اقدار سے نزدیک کریں۔ یعنی ان کا لباس غیر مسلموں کے لباس کی طرح ہو، ان کا طرزعمل ان کے طرز عمل کی طرح ہو، ان کی بینش ان کی بینش کی مانند ہو اور ان کے اعمال، ان کے اعمال کی طرح ہوں۔ درحقیقت مسلمان غیر مسلموں کی اقدار کو اپنی اقدار سمجھیں اور ان چیزوں کو خلاف تہذیب سمجھیں جن چیزوں کو مغرب والوں نے خلاف تہذیت قرار دیا ہے اور اسلام کی کوئی بات انہیں یاد نہ آئے۔ انہوں نے یہ کام کرنے کی کوشش کی اور افسوس کہ اکثر اسلامی علاقوں میں، سامراج کے تسلط کے دوران اور اسلامی ملکوں میں سامراجی تہذیب کی آمد کے زمانے میں وہ کامیاب بھی ہوئے۔ لباس کوتبدیل کر دیا، طرزعمل تبدیل کر دیا، آداب زندگی تبدیل کر دیئے، طرزفکر تبدیل کر دیا، مسلمانوں کو اسلام سے دور اور ان چیزوں سے نزدیک کر دیا جو اسلام کے خلاف ہیں۔ آج بھی، جب ایرانی قوم اس بات پر ڈٹی ہوئی ہے اور مصر ہے کہ وہ اپنے طرز عمل میں، اپنی حرکات میں، اپنے لباس میں، اپنی عالمی روش میں اور دوست اور دشمن کے انتخاب میں اسلامی تہذیب، اسلامی موقف اور اسلامی اقدار کی پابندی کرنا چاہتی ہے تو اس وجہ سے اس پر حملے ہو رہے ہیں۔
اس دنیا میں ملت ایران نے اپنا اسلامی تشخص اور اپنا وقار دوبارہ حاصل کیا ہے۔ یعنی ہمارے عوام اس بات پر عزت کا احساس کرتے ہیں کہ مسلمان ہیں اور حقیقت امر بھی یہی ہے۔ و للہ العزت و لرسولہ و للمومنین مومنین صاحب عزت ہیں۔ جس کے دل میں ایمان ہے اور اپنے عمل میں اس چیز کی پابندی کرتا ہے جو ایمان کا لازمہ ہے، وہ حقیقی معنوں میں صاحب عزت ہے۔ الحمد للہ ہماری قوم کے دل میں عزت کا احساس ہے اور یہ ان اقدار کی پابندی کی برکت سے ہے جو غدیر میں ثابت ہوئی ہیں۔
خاص طور پر ہم لوگ، جو غدیر کے ماننے والے ہیں، غدیر کے مسئلے کو اپنے اعتقادات کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ درحقیقت شیعہ، غدیر کو شیعی اعتقادات کی اساس اور بنیاد سمجھتا ہے۔ ہمیں اس واقعے سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنا اور اس کی پیروی کرنا چاہئے۔ طاغوت (شاہی حکومت) کے دور میں معمول تھا کہ یوم غدیر پر یہ پڑھتے تھے الحمد للہ الذی جعلنا من المتمسکین بولایت امیر المومنین والائمہ علیھم السلام ولایت سے یہ تمسک اس دور میں اعتقاد میں شامل تھا مگر عمل میں یہ ولایت نہیں تھی بلکہ طاغوت کی ولایت تھی۔ استکبار کی ولایت تھی۔ دشمنان دین کی ولایت تھی۔ اس دور میں ہمارے دوست پڑھتے تھے الھم اجعلنا من المتمسکین بولایت امیر المومینین یعنی خدا سے دعا کرتے تھے کہ امیر المومنین عیلہ الصلوات و السلام کی ولایت سے متمسک ہونے والوں میں رہیں۔ آج یہ دعا مستجاب ہوئی ہے۔ ملت ایران آج اس اسلامی نظام کے ساتھ جو قرآن اور دین سے ماخوذ ہے اور ہمارے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی تدبیر سے اس ملک میں نافذ ہوا ہے، امیرالمومنین علیہ الصلوات و السلام کی ولایت سے متمسک ہوئی ہے۔ اس تمسک کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کریں۔ ولایت سے تمسک کی اساس بھی اسلامی اقدار سے تمسک ہے۔ اسلام میں جن جن چیزوں کو اہمیت دی گئی ہے، کوشش کریں کہ عمل میں اس کو نافذ کریں۔ چاہے وہ انفرادی قدریں ہوں جیسے ہر شخص کا اپنے خدا سے رابطہ اور تعلق ہے۔ امیرالمومنین علیہ الصلوات والسلام کا ایک اہم ترین اصول یہی تھا۔ یعنی پروردگار سے توسل اور اس سے اپنے رابطے کو مستحکم بنانا، چاہے سماجی اور معاشرے سے مربوط قدریں ہوں۔ جیسے سیاسی، اقتصادی اور بین الاقوامی قدریں اور چاہے عمومی آداب و رسوم سے متعلق اقدار ہوں۔ آپ دیکھیں کہ اسلام نے کس خصوصیت اور عمل کو اہم قرار دیا ہے پھر اس پر عمل کی کوشش کریں۔ دوسرے الفاظ میں ان اقدار کو اپنے کام کی جگہ پر، شرکاء کار کے انتخاب میں، اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں اور اس شعبے کے لئے منصوبے بنانے میں جہاں آپ کام کرتے ہیں عمل میں لائیں۔ ولایت سے مکمل تمسک کا مطلب یہی ہے ۔
میرے عزیزو' ہم اصول و اقدار پر جتنا زیادہ عمل کریں گے اسلامی معاشرہ اتنا ہی سربلند ہوگا۔ امت اسلامیہ اتنی ہی قوی ہوگی اور زندگی کے تمام مراحل میں ہماری پیشرفت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ آج وہی حساس اور اہم دن ہے۔ انقلاب کے بعد اگر چند مواقع ہمارے لئے اہم رہے ہیں تو ان میں سے ایک یہی ایام ہیں جو ماضی کی تباہیوں کی اصلاح کے ایام ہیں۔ وہ بربادیاں جو ایک دو نہیں ہیں۔ اگر ملت ایران ان بربادیوں کی اصلاح نہ کر سکے اور ملک کی تعمیر نہ کر سکے تو دنیا کے عوام کی نگاہ میں اس کا اسلام کا دعوی نعوذ باللہ، جھوٹا ثابت ہوگا۔ یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ حکام اور ملک کے خد متگذار تینوں شعبوں (مجریہ، مقننہ، عدلیہ) کے ذمہ دار ملک کی تعمیر نو کی اتنی باتیں کرتے ہیں، یہ اس لئے ہے کہ آج تعمیر کا زمانہ ہے۔ آج وہ دن ہے کہ ملت کو طولانی جنگ کے بعد یہ موقع ملا ہے۔ اسی حساسیت کی وجہ سے آپ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا نے کس طرح چارو طرف سے ملت ایران کی تعمیر نو کی پالیسیوں کو زہریلے تیروں کی آماجگاہ بنا رکھا ہے۔ پروپیگنڈے ایک طرف، سیاست ایک طرف، سیکیورٹی سے متعلق اقدامات ایک طرف اور اقتصادی تخریبکاری ایک طرف، دشمن جو بھی کر سکتا ہے کر رہا ہے مگر الحمد للہ اکثر ناکام رہا ہے۔ آپ دشمن کو بعض سازشوں میں جو کامیاب ہوتے دیکھتے ہیں وہ دراصل اس کی سازشوں کا بہت چھوٹا سا حصہ ہے۔ شایہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دشمن اس سے دس گنا زیادہ سازشیں کرتا ہے مگر الحمد للہ اکثر میں ناکام رہتا ہے صرف بہت معمولی سے حصے میں کامیاب ہو پاتا ہے۔ ایسے زمانے میں جو چیز آپ کو کامیاب کر سکتی ہے، ملک کو ترقی دے سکتی ہے، ملت ایران کو میدان میں باقی رکھ سکتی اور اس مقدس تعمیر پر تمام قوتوں کو مرکوز رکھ سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ اسلامی اقدار سے وابستہ رہیں۔ البتہ خدا کی جانب سے توفیق بھی ضروری ہے۔
ہماری دعا ہے کہ ہمارا کردار ایسا ہوکہ الہی توفیقات ہمیں حاصل ہوں اور جو کریں، جو سوچیں اور اپنے فریضے کے عنوان سے جو انجام دیں وہ مرضی حق کے مطابق ہو اور پروردگار کی مقدس ذات اسے قبول فرمائے اور انشاء اللہ حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ، عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کا قلب مقدس ہم سے راضی اور خوشنود ہواور ہمارے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح پاک شاد ہو۔
و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ