بسم اللہ الرحمن الرحیم

آج انشاء اللہ ایرانی قوم کے لئے ایک مبارک دن ہے۔ ہمارے عزیز، محترم اور با لیاقت صدر کی حکومت اور ذمہ داری کا دوسرا دور درحقیقت عالمی حالات اور دشمنوں کی کوششوں اور ان کے اہداف کے پیش نظر ایک بڑی نعمت الہی ہے۔ البتہ مجھے پہلے اپنے عزیز عوام کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کیونکہ وہی تھے جو میدان میں آئے، انتخاب میں بھرپور شرکت کی اور الیکشن صحیح طور پر انجام پایا۔
ہم اس الیکشن اور اس بات پر خداوند عالم کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جناب ہاشمی رفسنجانی نے الحمد للہ یہ ذمہ داری سنبھالی ہے۔ مجریہ پر ہماری تاکید کی وجہ ملک کی بقا و پیشرفت میں اس کی خاص اہمیت ہے۔ ملک چلانے کے بنیادی امور کا کم سے کم نصف حصہ مجریہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر پالیسیوں، منصوبوں اور پروگراموں کو پچاس فیصد سمجھیں تو امور مملکت کا کم سے کم پچاس فیصد حصہ اس مدیر سے تعلق رکھتا ہے جس کے ذمے منتظمہ ہے۔ کوئی بھی شعبہ چاہے وہ کتنا ہی بڑا ہو، چاہے جتنی وسعت رکھتا ہو اگر اس کا سربراہ اس کو چلانے کی ضروری صلاحیت رکھتا ہے تو انسان مطمئن رہتا ہے کہ سارے کام ٹھیک طور پر انجام پائیں گے۔
میری نظرمیں کسی بھی سربراہ میں تین باتیں ہونی چاہئیں۔ اول یہ کہ خود اس عمل اور کام کے لئے تیار ہو۔ سستی، کاہلی، لاپرواہی اور کام کو تقدیر کے سپرد کرکے بیٹھ جانا، پہلی بلا ہے جو کسی بھی مدیر کو ضروری شرائط سے عاری کر سکتی ہے۔ کام میں سنجیدہ ہونا، کام میں سست نہ ہونا، کام، اقدام اور اس فریضے کی انجام دہی میں جو قبول کیا ہے، ذمہ داری کا احساس بہت اہم ہے۔ بنابریں اگر ملک کے کسی شعبے میں کوئی یہ احساس کرے کہ اس کام کے لئے ضروری صلاحیت اس کے اندر نہیں ہے تو معلوم نہیں ہے کہ اس کو قبول کرنا جائز ہوگا یا نہیں۔ کیونکہ اس کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ قبول کرے اور عہد کرے کہ اس کام کو انجام دے گا جو بغیر صلاحیت اور لیاقت کے ممکن نہیں ہے۔ مدیر اور سربراہ کے بارے میں یہ پہلا نکتہ ہے۔
دوسرا ملک کے بنیادی منصوبوں اور پالیسیوں کے مطابق آمادگی، استعداد اور کام انجام دینے کا عہد ہے۔ اگر کسی مسئلے میں ملک کی پالیسی معین ہے تو اجرائی امور کی ذمہ داری قبول کرنے والے کو اسی ہدف کے ساتھ اس میں میں آگے بڑھنا ہے۔ چاہے خود اس نے مکمل طور پر اس پالیسی کی تائید نہ کی ہو، اگر چہ کسی پالیسی کا نفاذ کرنے والا اگر اس کو قبول نہ کرتا ہو تو معلوم نہیں ہے کہ اس کو کس حد تک صحیح انجام دے گا، لیکن جو چیز لازم ہے اور بنیادی حیثیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ مدیر، سربراہ اور وزیر جس نے یہ ذمہ داری قبول کی ہے، کام کو اسی پالیسی کے تحت انجام دے جو پالیسی ساز نے تیار کی ہے۔ یہ بھی وہ نکتہ ہے جو انتظامی اور کا دوسرا اہم ستون ہے۔
تیسرا ستون، طہارت و تقوی کی حفاظت ہے۔ عمل میں پاکیزگی کی حفاظت ہے۔ غیر شرعی، غیر مسلمہ اور غیر اخلاقی اہداف سے احتناب ہے۔ یہ تیسری صلاحیت ہے۔ اچھا مدیر وہ ہے کہ جو بھی کام قبول کرے، صحیح اخلاقی اصولوں کی پابندی کے ساتھ اس کو انجام دے۔ اسلامی نظام میں جس چیز کی سختی سے محالفت کی جاتی ہے وہ بدعنوانی ہے۔ اسلامی نظام میں برے اور غلط نظریئے کی اتنی شدید مخالفت نہیں ہوتی جتنی کہ غیر اخلاقی عمل اور خدا نخواستہ بدعنوانی پھیلنے کی مخالفت کی جاتی ہے۔ تعمیر نو کے اس دور میں، ملک کے حکام، عہدیداروں، دوسرے اور تیسرے درجے کے ذمہ داروں سے لیکر نچلی سطح تک سبھی افراد کو جس چیز کا خیال رکھنا چاہئے وہ یہ ہے کہ اس دور میں بدعنوانی پھیلنے کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔ بہت سنجیدہ ہے۔ بدعنوانی خود تو نہیں کہے گی میں بدعنوانی ہوں بدعنوان شخص، جو دوسروں کو بھی بدعنوانی کی طرف لے جاتا ہے، مالی بدعنوانی کی طرف، کام کی بدعنوانی کی طرف، غیرقانونی اور ناجائز طور پر کام چھوڑ دینے کی طرف لے جانا چاہتا ہے، لوگوں میں لغزش پیدا کرتا ہے، اکساتا ہے، وہ شروع میں ہی تو نہیں کہتا کہ میں تم لوگوں کو بدعنوانی میں مبتلا کرنے کے لئے آیا ہوں پہلے وہ ایک جواز کے ساتھ اور ایک چھوٹی سی شکل میں اس میدان میں اترتا ہے۔ انسان ہے، اس کے قدموں میں لغزش پیدا سکتی ہے۔ لغزش کا امکان اس کے اندر بہت ہے لہذا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہئے۔
مجریہ پر ہمارے بھروسے اور پروردگار عالم کے اتنے شکر کی وجہ یہ ہے کہ امور مملکت ایک جانے پہچانے اور تجربے کار شخص کے ہاتھ میں ہیں۔ میں جھتیس سال، تقریبا چالیس سال سے انہیں نزدیک سے جانتا ہوں۔ مختلف میدانوں میں ایک ساتھ رہے ہیں۔ ایک ساتھ کام کیا ہے اور ہم فکر رہے ہیں۔ چالیس سال کا امتحان کسی انسان پر اعتماد کے لئے کافی ہے۔ اس تمام عرصے میں میں نے انہیں راہ خدا میں، راہ حقیقت میں، کلمہ دین کی سرافرازی کی راہ اور اسلامی اہداف کو آگے بڑھانے کی راہ میں پایا ہے۔ اس راہ سے الگ اور ہٹتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔
ہماری خوشی کی وجہ یہ ہے کہ ایک اعلی عہدیدار میں یہ کردار پایا جاتا ہے۔ شرکائے کار بھی جہاں بھی ہیں، اسی خصوصیت کے مالک ہیں۔ البتہ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ کئی برسوں کے دوران مجریہ کے کام کا جو تجربہ مجھے حاصل ہوا ہے، اس سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ایک مدیر اگر یہ چاہے کہ جہاں تک اس کا دائرہ کار ہے ماحول پاک اور صحتمند رہے تو انجام کار میں موثر نچلی ترین سطح تک کا خیال رکھے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہم نے یہاں ایک اچھا وزیر متعین کر دیا ہے، اب ہمارا کام ختم ہو گیا۔ نہیں؛ اس وزیر کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس کے معاون اچھے ہوں۔ اچھے عہدیداروں کا تعین کرے۔ مختلف شعبوں کے انچارج اچھے ہوں۔ البتہ کام جتنا بڑا ہوگا معیار اتنا ہی اعلا ہوگا۔ اعلا سطح کے عہدیدار سے جو توقع ہے وہ دوسرے درجے کے عہدیدار سے نہیں ہے لیکن اچھائی، سالم ہونا، کام کی شناخت، کام کرنے میں دلچسپی، تقوی و پاکیزگی ہر سطح کے لوگوں میں ہونی چاہئے۔
میں نے ملک کے حکام سے مختلف جگہوں پر بارہا عرض کیا ہے کہ کسی دور افتادہ گاوں یا شہر کے لوگ، نظام کو مقامی حاکم یا پولیس چوکی کے انچارج یا متعلقہ عہدیدار کی شکل میں ہی دیکھتے ہیں۔ ان کی نظر میں صدر مملکت، وزیر، نائب وزیر سب کچھ وہی ہے جس سے انہیں سروکار ہے۔ اگر وہ صحیح ہو، امین ہو، لوگوں کا ہمدرد ہو، تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ حکومت کا پورا نظام اسی طرح ہے۔ اگر خدانخواستہ غلط ہوا تو لوگ اسی سے حکومت کو پرکھیں گے اور اس کو روکا نہیں جا سکتا۔
انشاء اللہ اسلامی جمہوریہ ایران کی یہ حکومت ہمارے ملک اور ایرانی قوم کو مبارک ثابت ہوگی۔ اس حکومت کے آغاز میں تاکید کے ساتھ میری سفارش یہ ہے کہ شرکائے کار کا انتخاب بہت اہم ہے۔ البتہ وزیروں کی سطح پر کافی دقت نظری سے کام لیا جاتا ہے۔ صدر مملکت بھی اور پارلیمنٹ بھی، بہت اچھی طرح تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتی ہے مگر اسی پر اکتفا نہ ہو۔ میں ان محترم وزیروں سے جو مختلف شعبوں کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں یا سنبھالیں گے، عرض کرتا ہوں کہ اپنے شعبے میں، ہر معاون، ہر مدیر، ہر انچارج کا انتخاب، الہی معیاروں کے مطابق کریں۔ ماہر، لائق، پاک اور ایک مدیر کے لئے ضروری ہے کہ ان صفات سے آراستہ ہو۔
دوسرا مسئلہ پالیسیوں اور منصوبوں کا ہے۔ اقتصادی پالیسیوں کے تعلق سے میں صرف ایک جملہ عرض کروں گا، الحمد للہ ہماری محترم حکومت نے پہلا منصوبہ آخر تک پہنچایا اور بہت جلد دوسرا منصوبہ، ایک سال یا اس سے کم مدت میں شروع کرے گی، اسلامی نظام میں بنیاد، عوام کی آ‎سائش اور سماجی انصاف ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام سے ہمار نمایاں فرق یہی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں اساس اقتصادی ترقی، اقتصادی پیشرفت اور پیداوار نیز دولت میں اضافہ ہے۔ جو زیادہ اور اچھی مصنوعات اور دولت پیدا کرے وہ آگے ہے۔ وہاں اس کی پرواہ نہیں ہے کہ امتیاز اور دوری پیدا ہو جائے گی۔ سرمایہ دارانہ نظام کو لوگوں کی آمدنیوں میں فاصلہ بڑھ جانے اور عوام کے ایک بڑے حصے کے آ‎سائش سے محروم ہو جانے کی پرواہ نہیں ہوتی۔ حتی سرمایہ دارانہ نظام میں دولت کی تقسیم کا سسٹم بھی خراب اور ناقابل قبول ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کہتا ہے یہ بات بے معنی ہے کہ ہم یہ کہیں کہ دولت جمع کرو تا کہ اسے تم سے لیکر تقسیم کر دیں۔ یہ بیکار بات ہے۔ اس طرح ترقی نہیں ہوگی اسلامی نظام اس طرح نہیں ہے۔ اسلامی نظام دولت مند معاشرہ چاہتا ہے، غریب اور پسماندہ معاشرے پر یقین نہیں رکھتا۔ اقتصادی ترقی کا قائل ہے لیکن اقتصادی ترقی سماجی انصاف اور عوام کی آسائش کے لئے چاہتا ہے۔ اس نظام میں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے میں کوئی غریب نہیں ہونا چاہئے، محروم نہیں ہونا چاہئے، عام رفاہی وسائل سے استفادے میں امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔ جس نے خود جو وسائل حاصل کئے ہیں وہ اس کے ہیں۔ لیکن جو چیز عمومی ہے جیسے مواقع اور امکانات، یہ پورے ملک سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ کوئی سرکاری حکام کے سہارے اور خدا نخواستہ، غلط روشوں اور چالوں سے کام لیکر مراعات حاصل کر لے اور افسانوی انداز میں ترقی کرے اور پھر کہے جناب یہ دولت میں نے خود کمائی ہے۔ اسلامی نظام میں یہ چیز نہیں ہے۔ جس دولت کی بنیاد صحیح نہیں ہے وہ ناجائز ہے۔
سوشلسٹ نظام سے ہمارا اتنا ہی فر‍ق ہے۔ سوشلسٹ نظام عوام سے مواقع سلب کر لیتا ہے۔ کام، پیداوار، دولت، پیداوار کے وسائل، سرمائے اور پیداوار کے اہم منابع سب حکومت کے اختیار میں ہوتے ہیں۔ یہ غلط انداز ہے۔ اسلام میں یہ چیزنہیں ہے۔ نہ وہ ہے نہ یہ ہے۔ وہ بھی غلط ہے اور یہ بھی غلط ہے۔ اسلامی اقتصادی نظام صحیح ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اسلامی اقتصادی نظام کا مطلب یہ ہے کہ ہر دور میں جو بھی مصلحت ہو ویسا عمل کیا جائے۔ جی نہیں۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کا نظریہ بھی یہ نہیں تھا۔ میں نے خود ایک بار ان سے پوچھا تھا۔
اسلام کی اپنی خاص روش ہے۔ جامع اقتصادی مسائل میں اسلام کا اپنا ایک راستہ ہے۔ ملک کی کلی اقتصادی پالیسی کی بنیاد، عوام کی آسائش اور سماجی انصاف پر استوار ہے۔ البتہ ممکن ہے کہ کوئی زیادہ استعداد اور زیادہ کوشش سے اپنے لئے زیادہ سہولیات اور وسائل جمع کر لے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن معاشرے میں کوئی غریب نہیں ہونا چاہئے۔ منصوبہ سازی کرنے والوں کا ہدف یہ ہونا چاہئے۔ ملک کا پلاننگ اور منصوبہ ساز ادارہ، اس کلی سیاست کی بنیاد پر منصوبے تیارکرے۔
ثقافتی شعبوں میں بھی عرض کروں گا کہ یہ ہمیں سے مخصوص نہیں ہے۔ دنیا کی تمام زندہ اقوام اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کسی قوم نے اس بات کی اجازت دے دی کہ اس کی قومی ثقافت، بیرونی ثقافتی یلغار میں پامال ہو جائے تو وہ قوم ختم ہو جائے گی۔ غالب قوم وہ ہے جس کی ثقافت غالب ہو۔ ثقافتی غلبہ اپنے ساتھ اقتصادی، سیاسی، فوجی اور سیکیورٹی، ہر طرح کا غلبہ لاتا ہے۔
دنیا کے طاقتور ممالک کوشش کرتے ہیں کہ دنیا میں اپنی زبان رائج کریں۔ کیونکہ زبان ثقافت منتقل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے جو لباس، آداب، دین، عقائد اور سماجی نظریات سب کچھ منتقل کرتی ہے۔ آج عالمی طاقتیں حتی فوجی طاقت کے ذریعے اپنی ثقافت منتقل کرنا اور پھیلانا چاہتی ہیں۔ امریکی اپنی حکومت، اقتصادی اور سماجی نظام کے لئے جن روشوں کے قائل ہیں، ان کے ذریعے یہاں وہاں دنیا میں ہر جگہ لشکر کشی کرتے ہیں۔ یعنی اغیار کی ثقافتی یلغار یہاں بھی پہنچتی ہے مگر دوسرے ناموں سے جیسے انسانی حقوق وغیرہ۔ کوئی نہیں ہے جو امریکیوں سے پوچھے کہ دنیا میں کہاں سیاہ فاموں کے ساتھ اس طرح کا سلوک ہوتا ہے جو تم کرتے ہو؟ دنیا میں کہاں کئی سو افراد کو، عورتوں، مردوں اور بچوں کو ایک عمارت میں آگ لگا کر جلا کر مار ڈالتے ہیں؟ جہاں یہ ہو وہاں اعتراض کرو کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ امریکا میں یہ کام ہوا ہے ۔ دوسری جگہ ہمیں ایسا کوئی کام نظر نہیں آیا۔ صیہونی بھی دنیا کے وحشی ترین انسان ہیں اور امریکیوں کی حمایت سے یہ کام کرتے ہیں۔
ثقافتی شعبے میں ملک کی پالیسی قومی ثقافت کی حفاظت اور اس سے مکمل اور شدید وابستگی پر استوار ہونی چاہئے۔ البتہ قومی ثقافت کا اہم ترین رکن اسلام ہے۔ ہم ایرانی عوام اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہماری ثقافت، زبان، آداب و رسوم، لباس سب کچھ ایک ہزار تین سو پچاس سال پہلے ہی اسلام سے آمیختہ ہو چکا ہے۔ شاید دنیا کی کوئی اور قوم اسلام سے اس طرح آمیختہ نہیں ہوئی ہے جس طرح ہم ہوئے ہیں۔ اسلام اور اسلامی آداب و ثقافت ہماری قومی ثقافت کا جز ہے۔ یہاںقومی اسلامی کے مقابلے پر نہیں بلکہ عین اسلامی ہے۔
قومی ثقافت یعنی اپنی تہذیب۔ اپنی ثقافت کی حفاظت ہونی چاہئے۔ البتہ اپنی ثقافت دیگر ثقافتوں سے بھی کچھ چیزیں اخذ کرے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اطلبو العلم و لو بالصین یہ بھی ثقافت ہے۔ یہ کہ دنیا میں ہر طرف جاکے اچھی چیزیں لائی جائیں یہ بھی جزو ثقافت ہے۔ اس کی بھی حفاظت ہونی چاہئے۔ لیکن جو ہمارے جسم کے لئے ضروری ہے اس کو تلاش کریں، جسم کو دیں نہ کہ ہم وہاں جاکے گر جائیں اور دوسرے آکے جو مصلحت سمجھیں ہمارے جسم میں انجیکٹ کریں۔ ایک مرے ہوئے اور بے ہوش انسان کی طرح، یہ اقتصاد، یہ ثقافت، یہ خود مختاری کی سیاست جو اسلامی جمہوری نظام کی سیاست کی بنیاد ہے، ہمارا اصلی نعرہ ہے۔ مکمل خودمختاری ہرلحاظ سے۔ یعنی کسی کی زور زبردستی قبول نہ کرنا۔ عالمی مسائل کو اپنے معیاروں کے مطابق حل کرنا اور اس راہ پر چلنا۔
مسئلہ فلسطین کو ہم اپنے معیاروں کے مطابق حل کریں گے اور اسی بنیاد پر فیصلے اور اقدام کریں گے اور دنیا کی کسی بھی طاقت کے تابع نہیں ہوں گے۔ بلقان کے مسئلے میں بھی اسی طرح عمل کریں گے۔ مسئلہ افغانستان میں بھی، آٹھ سالہ جنگ کے دوران، تمام پریشانیوں اور تنگ دستیوں کے باوجود ہم اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور اپنے اسلامی نظریئے کی اساس پر اس مسئلے میں عمل کیا۔ اگر یہ سیاست مدنظر ہو اور وہ انتظامی روش ہو تو امور مملکت اچھی طرج انجام پائیں گے۔ مگر پہلی شرط بے مثال قوم کا وجود ہے جس پر ملک کے حکام اعتماد کر سکتے ہیں۔ یہ قوم بہت عظیم اور بہت اچھی ہے۔ ہمارے عظیم الشان امام خمینی نے اس قوم کو خوب پہنچانا تھا۔ میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ جس نے آپ کی طرح اس قوم کی خصوصیات کو پہچانا ہو۔ جس طرح قرآن میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں فرمایا ہے کہ یومن باللہ و یومن بالمومنین امام اس قوم پر ایمان رکھتے تھے۔ امید ہے کہ انشاء اللہ حضرت ولی عصر اروحنا فداہ کی عنایات اس حکومت، ہمارے صدر محترم، زحمت کش حکام، عظیم الشان قوم اور ہمارے بزرگوں کے شامل رہیں گی۔ بفضل پروردگار یہ قوم اس مقام تک پہنچے جو اس کے شایان شان ہے اور جس کا اللہ تعالی نے وعدہ فرمایا ہے۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ برکاتہ