اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں بھی اس عظیم دن اور اس بابرکت عید کی مناسبت سے، دنیا کے تمام حریت پسند انسانوں، حق طلب گاروں، آزادی کے طرفداروں، دلیر اور شجاع انسانوں بالخصوص ایران کی عظیم قوم اور اس سرزمین کے دلیر نوجوانوں، فرزندان قرآن، پاسداران انقلاب اور تمام حاضرین کرام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
یہ امام حسین بن علی علیہ الصلاۃ و السلام کی ولادت باسعادت کا دن، یوم پاسدار، کچھ رموز و اسرار کا حامل ہے اور ان لوگوں پر کچھ ذمہ داریاں عائد کرتا ہے جو بجا طور پر یہ کہتے ہیں کہ ہم پاسدار ہیں اور حسین ابن علی علیہ السلام کے راستے کے مسافر ہیں اس رمز و راز اور ان ذمہ داریوں کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے، حسین ابن علی علیہ الصلاۃ والسلام کے واقعے پر گہری نظر ڈالنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں بہت سے لوگوں نے قیام کیا ہے اور مارے گئے ہیں۔ ان میں پیغمبروں اور ائمہ کی اولاد بھی کم نہیں ہیں لیکن حضرت سید الشہدا ایک خاص ہستی ہیں۔ کربلا کا واقعہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے۔ شہدائے کربلا کا منفرد مرتبہ ہے۔ کیوں؟ اس کا جواب اس واقعے میں تلاش کرنا چاہئے۔ یہ وہی چیز ہے جو ہم سب کو درس دیتی ہے بالخصوص آپ پاسداران انقلاب کو۔
ایک خصوصیت یہ ہے کہ امام حسین ابن علی علیہ السلام کی تحریک صرف اور صرف خدا، دین خدا اور مسلمانوں کے معاشرے کے اصلاح کے لئے تھی۔ یہ پہلی اور اہم ترین خصوصیت ہے۔ یہ جو حسین ابن علی علیہ السلام نے فرمایا کہ انی لم اخرج اشرا ولا ظالما و لامفسدا ( 1) یہ خودنمائی نہیں ہے۔ اپنے آپ کو سامنے لانے کے لئے نہیں ہے۔ اپنے لۓ کچھ طلب کرنے کے لئے نہیں ہے۔ نمائش نہیں ہے۔ اس تحریک میں معمولی سا بھی ظلم یا فتنہ و فساد نہیں ہے۔ و انما خرجت لطلب الاصلاح فی امت جدی یہ نکتہ بہت اہم ہے۔ انما یعنی اس پاک نیت اور منور ذہن میں کوئی اور غرض و مقصد نہیں ہے۔ قرآن کریم صدر اسلام کے مسلمانوں کو مخاطب قرار دیکر فرماتا ہے کہ و لا تکونوا کالذین خرجوا من دیارھم بطرا و رئاء الناس (2) اور یہاں امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں انی لم اخرج اشرا و لا بطرا
دو راستے ہیں۔ وہاں قرآن فرماتا ہے کہ ان کی طرح نہ بنو کہ جو غرور، خودپسندی اور نفس پرستی کے لئے نکلے۔ یعنی اس نکلنے میں جو چیز نہیں ہے وہ اخلاص ہے۔ یعنی غلط راستے پر حرکت کرنے میں صرف اپنی ذات اور میں سامنے ہوتا ہے۔ رئاء الناس خود کو بنا سنوار کے قیمتی گھوڑے پر سوار ہوکر جواہرات سے خود کو آراستہ کرکے، رجز خوانی کرتے ہوئے، نکلتا ہے۔ کہاں کے لئے؟ میدان جنگ کے لئے۔ میدان جنگ وہ جگہ ہے جہاں یہ انسان اور اس کے جیسے دسیوں ہلاک ہوکے خاک میں مل جاتے ہیں۔ اس انسان کا نکلنا اس طرح ہے۔ اس کے پاس صرف اپنا نفس ہے۔
یہ ایک طرف اور دوسری طرف امام حسین علیہ الصلاۃ و السلام ہیں جن کے پیش نظر خود پسندی، میں، ذاتی، جماعتی یا قومی مفاد نہیں ہے۔ یہ امام حسین علیہ السلام کی تحریک کی پہلی خصوصیت ہے۔ اس میں جو کام انجام دیتے ہیں، اس میں ہمارے اور آپ کے اندر جتنا اخلاص ہوگا، اس کام کی اہمیت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ مرکز اخلاص سے جتنا دور ہوں گے اور خود پسندی، خود پرستی، اپنے لئے کام کرنے، اپنی فکر میں رہنے اور ذاتی و قومیتی مفادات وغیرہ کے جتنا قریب ہوں گے اتنا ہی دوسرے گروہ سے قریب ہوں گے۔ اس اخلاص مطلق اور اس خود پرستی مطلق میں بہت زیادہ فاصلہ ہے۔ اس طرف سے ہٹ کے جتنا اس طرف جائیں گے کام کی اہمیت اتنی ہی کم ہوگی اور اس کی برکت بھی اتنی ہی کم ہوگی۔ اس کی بقا بھی اتنی ہی کم ہوتی جائے گی۔ یہ اس مسئلے کی خاصیت ہے۔ یہ جنس جتنی کم خالص ہوگی ، ملاوٹ جتنی زیادہ ہوگی اتنی ہی جلدی خراب ہوگی۔ اگر خالص ہو تو کبھی خراب نہیں ہوگی۔ سامنے کی چیزوں سے اس کی مثال دینا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ سونا جتنا خالص اتنا ہی پائیدار ہوگا۔ اس میں زنگ نہیں لگے گا۔ لیکن اگر اس میں ملاوٹ ہو تو جتنا لوہا اور تانبا اور دوسری کم قیمت دھاتیں اس میں ملی ہوں گی اتنی ہی جلد یہ خراب ہوگا۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے۔
یہ سامنے کی باتیں ہیں۔ لیکن معنویات میں یہ موازنہ زیادہ باریکی سو ہوتا ہے۔ مادی اور معمولی دید سے اس کو نہیں سمجھ سکتے۔ اہل بصیرت سمجھتے ہیں۔ اس قضیے میں صراف، نقاد اور جوہری خداوند عالم ہے۔ فان الناقد بصیر ہمارے کام میں سوئی کی نوک کے برابر بھی خلوص کم ہو تو اسی کے برابر ہمارے کام کی اہمیت کم ہوگی اور خدا اس کی پائیداری کم کر دے گا۔
خدا ناقد بصیر ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے جو کارنامہ انجام دیا اس میں سوئی کی نوک کے برابر بھی ملاوٹ نہیں ہے۔ بنابریں آپ دیکھتے ہیں کہ یہ آج تک باقی ہے اور تا ابد باقی رہے گا۔ اس بیابان میں کچھ لوگ عالم غربت میں قتل کر دیئے گئے، ان کے جنازے بھی وہیں دفن کر دیئے گئے، ان کے خلاف پروپیگنڈے کئے گئے، انہیں ختم کیا، ان کی شہادت کے بعد مدینے میں آگ لگائی واقعہ حرہ جو اس کے ایک سال بعد رونما ہوا، اس گلستان کو روند ڈالا پھولوں کو کچل ڈالا، کون یقین کر سکتا تھا کہ اب بھی ان پھولوں کے شیدائی باقی ہوں گے؟ کس مادی اصول کے مطابق کہا جا سکتا ہے کہ اس عالم طبیعت میں یہ گلستان اب بھی باقی رہے؟ مگر آپ دیکھہ رہے ہیں کہ جیسے جیسے دن گزرتے گئے اس گلستان کی خوشبو دنیا میں پھیلتی گئی۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو یہ نہیں مانتے کہ امام حسین علیہ السلام کے جد پیغمبر تھے اور امام حسین علیہ السلام انہیں کی راہ پر تھے، مگر خود امام حسین علیہ السلام کو مانتے ہیں۔ آپ کے والد حضرت علی علیہ السلام کو قبول نہیں کرتے مگر آپ کو مانتے ہیں۔ خدا کو نہیں مانتے لیکن امام حسین علیہ السلام کو مانتے ہیں۔ حسین کے خدا کو نہیں مانتے مگر امام حسین علیہ السلام کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ یہ اسی خلوص کا نتیجہ ہے۔ ہمارے انقلاب میں بھی پائیداری کی بنیاد خلوص ہے۔ وہی خلوص جس کا مظہر امام خمینی رحمت اللہ علیہ تھے۔
آپ اپنے تجربات کو یاد کریں۔ ان بیابانوں کو، ان گرمیوں کو، میدان جنگ کے اس خوف و وحشت کو، اس مستقل خطرے کو، برف سے ڈھکے پہاڑوں کی سردی کو، محصور ہو جانے کو، اس ناتوانی کو، وسائل کی کمی کو کہ آپ میں سے کچھ لوگ ایک بندوق اور ایک مارٹر گولے کے لئے کتنی تگ و دو کرتے تھے، ان دنوں کے احساسات کو اپنے اذہان میں مجسم کریں، تب سمجھ میں آئےگا کہ اس انقلاب کے خلاف اتنی سازشیں کیوں کی گئی ہیں اور اب بھی کی جا رہی ہے لیکن اس کے باوجود یہ اسی طرح محکم اور استوار ہے۔
اسی جوہر نے اس کی حفاظت کی ہے۔ امام خمینی اور اس قوم کا خلوص بالخصوص میدان جنگ میں ہمارے غازیوں کا خلوص تھا جس نے اس کی آبیاری کی اور آپ اس کے نمونہ کامل ہیں۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے جس پر توجہ ضروری ہے۔ آپ لوگوں سے زیادہ مجھے اس نکتے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کی تحریک میں ایک اور نکتہ بہت اہم ہے جو ہماری آج کی صورتحال کے پیش نظر وہی قوت اخلاص کا مفہوم پیش کرتا ہے۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ صدر اسلام کے واقعات میں کوئی واقعہ ایسا نہیں ملے گا جس میں وہ تنہائی، بے کسی اور غربت ملے جو واقعہ کربلا میں تھی۔ نہ صدر اسلام کی جنگوں میں، نہ پیغمبر کی جنگوں میں اور نہ امیر المومنین عیلہ السلام کی جنگوں میں، کسی میں بھی یہ غربت و بے کسی نظر نہیں آتی۔ ان تمام جنگوں میں بہرحال ایک حکومت تھی، لوگ تھے، فوجی تھے جو میدان جنگ میں جاتے تھے اور ان کے ساتھ ماؤں کی دعائیں تھیں، بہنوں کی تمنائیں تھیں، دیکھنے والوں کی تحسین کی آوازیں تھیں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا امیرالمومنین علیہ السلام جیسے عظیم رہبروں کی حوصلہ افزائی تھی۔ جاتے تھے اور پیغمبر کی آنکھوں کے سامنے اپنی جان نثار کرتے تھے۔ یہ کام بہت سخت نہیں تھا۔ ہمارے کتنے نوجوان تھے جو امام خمینی کے ایک پیغام پر اپنی جان دینے کے لئے تیار تھے۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جن کی آرزو ہے کہ ہمارے امام غائب کا اشارہ ہو اور ہم اپنی جان قربان کر دیں۔
جب انسان رہبر کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہو۔ اتنی حوصلہ افزائی ہو رہی ہو اور معلوم ہو کہ کامیاب ہونے اور دشمن کو شکست دینے کے لئے جنگ کر رہے ہیں تو یہ کامیابی کی امید ہے جو جنگ کرتی ہے۔ واقعہ کربلا میں جو کچھ نظر آتا ہے اس کے سامنے یہ جنگ سخت نہیں ہے۔ البتہ بعض دیگر واقعات بھی ہیں جن میں کسی حد تک غربت کا پہلو پایا جاتا ہے۔ جیسے امام زادوں کے واقعات ہیں۔ جیسے آئمہ علیہم السلام کے زمانے میں حسنیوں کے واقعات ہیں۔ لیکن یہ حضرات بھی جانتے تھے کہ ان کی پشت پر امام جعفر صادق، امام موسی کاظم اور امام رضا علیہم الصلوات و السلام جیسے ائمہ ہیں جو ان کے آقا و مولا ہیں اور ان پر ان کی نظر ہے۔ ان کا خیال انہیں ہے۔ ان کے بال بچوں کی دیکھ بھال کریں گے۔ ایک روایت کے مطابق امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جائیں ان فاسد حکام سے جنگ کریں اور جہاد کریں وعلی نفقۃ عیالہ ان کے بال بچوں کے نان و نفقہ کی ذمہ داری میں قبول کرتا ہوں۔ شیعوں کی بڑی برادری تھی، جو ان کی تحسین کرتے تھے، تعریف کرتے تھے۔ میدان جنگ کے باہر سے ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ لیکن واقعہ کربلا میں مجسم اسلام، جس کو سب مانتے تھے، یعنی امام حسین علیہ السلام بنفس نفیس کربلا میں موجود ہیں اور آپ کو شہید ہونا ہے۔ اس کو خود آپ بھی جانتے ہیں اور آپ کے اصحاب بھی جانتے ہیں۔ ان کے لئے اس طویل و عریض اسلامی مملکت میں اور اس دنیا میں کوئی نقطہ امید اور جائے پناہ نہیں ہے۔ سخت عالم غربت ہے۔ اس زمانے میں دنیائے اسلام کی شخصیات میں سے کچھ ایسی تھیں کہ جنہیں حسین ابن علی علیہ السلام کے قتل کئے جانے کا کوئی غم نہیں تھا کیوں کہ آپ کو اپنی دنیا کے لئے مضر سمجھتی تھیں، کچھ لوگ جنہیں تھوڑا بہت غم تھا وہ کچھ کر نہیں رہے تھے، جیسے عبداللہ بن جعفر اور عبداللہ ابن عباس تھے۔ یعنی اس خون آلود میدان کے باہر کوئی نقطہ امید نہیں تھا۔ جو کچھ تھا سب اسی میدان میں تھا۔ تمام امیدیں اسی میدان میں اسی چھوٹے سے مجمع میں تھیں جن کے دل جذبہ شہادت سے سرشار تھے۔ ظاہر تھا کہ شہادت کے بعد کوئی ان کے لئے ایک فاتحہ بھی نہیں پڑھے گا۔ ہر جگہ یزید کا تسلط تھا۔ معلوم تھا کا ان کی عورتیں اسیر کی جائیں گی اور بچوں پر بھی رحم نہیں کریں گے۔ اس میدان میں فداکاری بہت سخت ہے۔ لا یوم کیومک یا ابا عبد للہ اگر وہ ایمان، وہ اخلاص اور امام حسین علیہ السلام کے وجود میں وہ نور الہی متجلی نہ ہوتا جو مومنین کی اس چھوٹی سی جماعت کو گرمی عطا کرتا تھا تو اس واقعے کا رونما ہونا ممکن نہیں تھا۔ دیکھیں یہ واقعہ کتنا عظیم ہے۔
مختصر یہ کہ اس واقعے کی ایک خصوصیت اس کا عالم غربت میں واقع ہونا ہے۔ اسی بناپر میں نے بارہا کہا ہے کہ ہمارے زمانے کے شہداء کا شہدائے بدر، شہدائے حنین، شہدائے صفین اور شہدائے جمل سے موازنہ کیا جا سکتا ہے اور ان میں سے بہت سے ان سے بالاتر ہیں مگر شہدائے کربلا سے موازنہ نہیں ہو سکتا۔ شہدائے کربلا کے برابر کوئی نہیں ہو سکتا۔ نہ آج، نہ کل، نہ اول اسلام میں اور نہ ہی اس زمانے میں جس کا علم صرف خدا کو ہے، کوئی ان کے برابر نہیں ہو سکتا۔ شہدائے کربلا ممتاز ہیں۔ علی اکبر اور جبیب ابن مظاہر کی کوئی نظیر ممکن نہیں ہے۔
یہ حسین بن علی علیہ السلام کا واقعہ۔ میرے عزیزو ' یہ استوار و محکم ستون ہے جس نے ایک ہزار تین سو سال سے زیادہ عرصے سے اسلام کو باقی رکھا ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اگر وہ شہادت نہ ہوتی، وہ پاک خون نہ بہتا، وہ عظیم واقعہ نہ ہوتا تو اسلام باقی رہتا؟ یقین جانیں اسلام باقی نہ رہتا۔ یقین جانیں اسلام طوفان حوادث میں ختم ہو جاتا۔ ممکن تھا کہ ایک تاریخی دین کی حیثیت سے یہ دین اسلام اور اس کے تھوڑے سے طرفدار دنیا کے کسی گوشے میں باقی رہ جاتے، مگر اسلام زندہ نہ رہتا۔ صرف اس کا نام اور اس کی یاد ممکن ہے باقی رہ جاتی۔ مگر آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ ایک ہزار چار سو سال کے بعد بھی دنیا میں اسلام زندہ ہے۔ اسلام ترقی کر رہا ہے۔ آج دنیا میں اسلام زندگی عطا کر رہا ہے۔ آج دنیا میں اسلام اقوام کی امیدوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہ سب اسی واقعہ کربلا اور حسین ابن علی علیہ السلام کی قربانیوں کی برکت ہے۔ اب خداوند عالم نے حسین ابن علی علیہ السلام کے بعد پہلی قرآنی حاکمیت یعنی اسلامی جمہوری نظام قائم فرمایا۔ یعنی اس واقعے کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب آپ کے اس عصر حاضر کے لئے مقدمہ تھا۔ تمام علمائے اسلام، تمام مفکرین، تمام فلسفیوں، تمام متکلمین کی زحمتوں، کوششوں اور مجاہدتوں نے اسلام کو باقی رکھا تاکہ آج خدائی اور قرآنی اقدار کی اساس پر ایک حکومت قائم ہو۔ یہ آپ کی اور ایرانی قوم کی قسمت ہے کہ خداوند عالم نے یہ بار گراں پہلی بار اس کے کندھوں پر ڈالا۔ البتہ قسمت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اتفاقیہ ایسا ہو گیا۔ خداوند عالم یونہی اور مفت میں کسی کو عظمت عطا نہیں کرتا۔ ایرانی قوم نے بہت محنت کی ہے، بہت کام کیا ہے اور پھر خدا نے اس کو یہ اقبال عطا کیا۔ یہ فداکاریاں ، مجاہدتیں، اخلاص اور محنتیں ختم ہونے والی نہیں ہیں۔ اگر کچھ سادہ لوح، بیچارے انسان دنیا کے اس کونے میں بیٹھ کر بیکار کی باتیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بس آج کل میں ہی اسلامی جمہوریہ کا کام تمام ہونے والا ہے تو یہ نہ سمجھیں کہ یہ ہونے والا ہے۔ جی نہیں۔ یہ بنیاد ختم ہونے والی نہیں ہے۔
ہم آپ ختم ہو جائیں گے۔ افراد باقی نہیں رہتے۔ بہترین افراد وہ ہیں جو اچھی طرح جی کر موت کو گلے لگاتے ہیں۔ بعض افراد آخر تک اچھے نہیں رہتے۔ ہر طرح کے انسان ہوتے ہیں۔ افراد آفت میں گرفتار ہوکے، ختم ہو جاتے ہیں۔ مگر بنیاد باقی رہتی ہے۔ یہ اسلامی تحریک، یہ اسلامی حیات نو، اس کی جڑیں صدیوں پر محیط ہیں۔ اس کی جڑیں دس صدیوں کی مجاہدت میں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ تحریک اسلام پر استوار ہے۔ اسی لئے آپ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں صیہونی اور استکباری پروپیگنڈا ادارے، اسلامی جمہوریہ ایران، ایرانی عوام، ہماری اور سب کی شبیہ کو بگاڑ کے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اتفاق سے پوری دنیا میں ہر جگہ، گذشتہ پانچ دس سال سے اسلام کی طرف رجحان پہلے سے زیادہ ہو گیا ہے۔ اسلامی ملکوں کو اور ان مسلمانوں کو جو غیر اسلامی علاقوں میں اقلیت میں ہیں، دیکھیں۔ مسلمانوں کے ساتھ استکبار کی سختیاں دیکھیں۔ یہ سختیاں یونہی تو نہیں ہیں۔ اگر یہ بے جان ہوتے تو یہ سختیاں نہ ہوتیں۔
میں جو عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ اس تحریک میں غربت و تنہائی کے اس عنصر نے ہماری تحریک کو قیام حسینی سے اتنا ہی مشابہ بنا دیا ہے جتنا یہ عنصر پایا جاتا ہے۔ اس غربت سے، نہ ڈریں نہ وحشت زدہ ہوں۔ غربت و بیکسی کی چوٹی حسین ابن علی اور آپ کے عظیم ساتھیوں نے، جن کے لئے ہم اشک بہاتے ہیں، سینہ زنی کرتے ہیں اور انہیں اپنی اولاد سے بھی زیادہ چاہتے ہیں، فتح کر لی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ آج اسلام زندہ ہے اور واقعہ کربلا آج صرف چھوٹی سی سرزمین میں ہی نہیں بلکہ انسانی زندگی کی تمام وسعتوں میں پھیلا ہوا ہے۔ کربلا ہر جگہ ہے۔ ادبیات میں، ثقافت میں، رسم و رواج میں، اعتقادات میں، دلوں میں، ہر جگہ کربلا ہے۔ وہ بھی جو خدا کے سامنے سجدہ نہیں کرتا، حسین ابن علی کی عظمتوں کے سامنے پیشانی جھکاتا ہے۔ آپ کی غربت کا یہ ثمرہ ہے۔ آپ کی غربت، در حقیقت بے کسی کی بلند ترین چوٹی تھی۔ آج دنیا میں آپ غریب ہیں۔ آج دنیا میں ایرانی قوم غریب اور مظلوم ہے۔ بے کس اور مظلوم ہونے کا مطلب کمزور ہونا نہیں ہے۔ آج ہم بہت قوی ہیں۔ اس پر یقین کریں کہ آج کوئی بھی مسلمان قوم مسلمان ایرانی قوم کی طرح قوی نہیں ہے۔ کوئی بھی نہیں۔ چھوٹی، بڑی، سو ملین کی آبادی والی قوم، کسی کے پاس بھی ایرانی قوم کی طاقت و قوت نہیں ہے۔ آج ایران اوج پر ہے۔ حکومت ایران بھی اسی طرح۔ حکومت بھی بہت مضبوط ہے۔ بہت عزت ہے اس کی۔ دنیا کی طاقتیں اس کو اہمیت دیتی ہیں۔ اسی کے باوجود یہ توانا اور طاقتور حکومت اور قوم جو اپنے امور پر قادر ہے، عالم غربت میں اور مظلوم قوم ہے۔ آج دنیا میں ہم عالم غربت میں ہیں۔ دنیا کی کوئی بھی طاقت ہماری حمایت نہیں کرتی۔
البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام طاقتیں ہمارے مقابلے میں صف آرا ہو گئی ہیں۔ نہیں، ہمارے دشمن خوش نہ ہوں کہ تمام طاقتیں ان کے خلاف ہیں اگر ایسا ہوتا تب بھی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ اس کا بھی تجربہ ہم نے کیا ہے۔ مگر آج ایسا نہیں ہے کہ دنیا کی تمام طاقتیں اور حکومتیں ہمارے مقابلے میں صف آرا ہوں۔ بہت سے لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ خود ان کے مادی معیاروں کے مطابق ایرانی قوم کے مقابلے پر آنا ان کے دنیاوی فائدے میں نہیں ہے۔ مگر کوئی اس قوم کی مدد اور اس کی حمایت نہیں کرتا۔ دنیا کی مستکبر ترین طاقتیں اس قوم کی دشمن ہیں۔ اس سے عناد رکھتی ہیں۔ اس پر ظلم کرتی ہیں۔ اس کے حق کو نظر انداز کرتی ہیں۔ اس پر الزام لگاتی ہیں۔ اس کی اچھائیوں کو نہیں بیان کرتی ہیں۔ اس کی ذرہ برابر بھی برائی نظر آ جائے تو رائی کا پہاڑ بنا دیتی ہیں۔ یہ ایرانی قوم کی غربت اور مظلومیت ہے۔ مگر یہ غربت اور مظلومیت آپ کے قویتر ہونے کا باعث ہونا چاہئے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ نعمت خدا ہے۔ بہت سے ممالک اور حکومتیں ہیں کہ جو گویا کہ انقلابی تھیں اور اس دور کی ایک بڑی طاقت جو سوویت یونین تھی، ان کی حمایت کرتی تھی، ہم اگر اس طرح ہوتے تو ہماری حکومت اور قوم خراب ہو چکی ہوتی۔ یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج الحمد للہ ہماری حکومت اور قوم صحیح ہے، اسی وجہ سے ہے۔ یہ نہیں ہے کہ ہمارے عوام میں یا حکام میں کوئی برائی ہے ہی نہیں۔ مگر مجموعہ سالم اور صحیح ہے۔ ڈھانچہ صحیح ہے۔ بنیادی نقاط صحیح ہیں۔ حساس اعضاء صحیح ہیں۔
یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ تنہا رہنے کی برکت ہے۔ یہ غیر خدا کا سہارا نہ لینے کی برکت ہے۔ دعاؤں میں ہے کہ یا ملاذ من لا ملاذ لہ، یا عون من لا عون لہ، یا حصن من لا حصن لہ کتنا اچھا ہے، کتنا خوشگوار ہے کہ انسان کوئی مدد نہ لے تاکہ کہہ سکے کہ یا عون من لا عون لہ سب سے اچھی بات یہ ہے۔ اگر کوئی ہماری مدد کرے تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یا عون من لاعون لہ اے اس کی مدد جس کی کوئی مدد نہیں ہے۔ اگر غیر خدا سے امید رکھیں تو ذوق و شوق سے نہیں کہہ سکتے کہ یا رجاء من لا رجاء لہ اے اس کی امید جس نے تیرے علاوہ کسی سے امید نہیں رکھی ہے۔ اب جب کہ ہم دنیا میں کسی بھی طاقت اور کسی بھی حکومت، کسی بھی انٹیلیجنس ایجنسی، کسی بھی فوجی سسٹم، کسی بھی سیاسی نظام، کسی بھی جنرل اسمبلی سے امید نہیں رکھتے اور ان سے برائی اور موذی پن کے علاوہ ہم نے اور کچھ نہیں دیکھا ہے تو خدا سے کہہ سکتے ہیں کہ اے میرے خدا، یا میرے مولا، یا میرے عزیز، اے میرے محبوب، صدق دل سے اور خلوص سے اس سے کہہ سکتے ہیں کہ یا رجاء من لا رجاء لہ ہماری امید صرف تجھ سے ہے اور یہ چیز قوم کو قوت دیتی ہے۔ ہمارے امام خمینی اسی طرح کے تھے۔ وہ فولادی ہستی جس کے مقابلے پر مشرق و مغرب متحد ہو گئے اور اس کی پیشانی پر شکن نہ آئی، نصف شب میں خدا کے سامنے اس طرح اشک بہاتا تھا کہ ان کے قریبی لوگ کہتے تھے کہ راتوں میں امام خمینی گریہ کرتے ہیں تو آنسو پوچھنے کے لئے رومال کافی نہیں ہوتا۔ امام خمینی اپنی آنکھیں تولیے سے پوچھتے ہیں یہ اسی قوت کی برکت ہے۔
میرے عزیزو' جہاں تک ہو سکے یہ قوت اپنے اندر پیدا کریں۔ یہ قوم ایسی ہو جائے گی کہ کوئی اس کو نقصان نہ پہنچا سکے گا۔ یہ انقلاب ایسا ہو جائے گا کہ اس پر کوئی وار کاری نہیں ہوگا۔ اس کے خلاف کوئی چیز بھی کارگر نہیں ہو سکے گی۔ دشمن اپنے کام میں مصروف ہے۔ آج دشمن کچھ کہے بغیر، بعض کمزور عناصر کے لئے اپنی مسکراہٹوں کے ذریعے ایسا کام کرنا چاہتا ہے کہ وہ فراموش کر دیں کہ یہ نظام استکباری طاقتوں کے مقابلے پر ڈٹا ہوا ہے۔
دو صفیں ہیں۔ ایک صف اسلام، قرآن، خدائی اقدار اور معنویت کی ہے کہ جس کی چوٹی اسلامی جمہوریہ ایران ہے۔ اس نظام کے حکام کسی خوف اور ہراس کے بغیر، پوری قوت سے اس سنگین ذمہ داری کو پورا کر رہے ہیں اور ان کی پیشانی پر شکن نہیں ہے بلکہ خوش ہیں۔ اور ایک صف دنیا کے تمام شیطانوں کی، تمام خبیثوں کی اور تمام رذیلوں کی ہے۔ اگر کسی کے پاس طاقت ہو تو اس کو اپنی طاقت کہاں استعمال کرنی چاہئے؟ یہ صف بندی ہے۔ اگر کسی کے پاس زبان ہو، قوت ایجاد ہوتو کہاں اسے استعمال کرے ؟ اگر کوئی شخص، جماعت حق کے اندر یا جماعت حق کے باہر، اس نقطہ نگاہ سے کہ یہ جماعت، باطل طاقتوں اور رذالتوں کے خلاف مجاہدت کر رہی ہے، یہ دیکھے کہ فلاں نکتے کا خیال نہیں رکھا گیا ہے، یا بالفرض، کوئی غلطی، خطا یا حتی گناہ سرزد ہوا ہے تو اس جماعت سے جنگ شروع کر دے، آپ کی نظر میں وہ حق بجانب ہوگا؟ کیا یہ خدائی طاقت کو کفران نعمت کی راہ میں خرچ کرنا نہیں ہوگا۔ جو لوگ کسی بہانے سے محاذ حق کو کمزور کرتے ہیں، حکام کو کمزور کرتے ہیں، حکومت کو کمزور کرتے ہیں، صدر مملکت کو کمزور کرتے ہیں، عدلیہ کو کمزور کرتے ہیں، پارلیمنٹ کو کمزور کرتے ہیں، کیا وہ کفران نعمت نہیں کر رہے ہیں؟ کسی معاملے میں کسی جگہ عدلیہ نے بالفرض غلط فیصلہ کیا ہے، یا کسی جگہ کسی جج نے کچھ کہا ہے، کسی حکومتی کارندے نے کوئی کام کیا ہے، اگر ان باتوں کو بہانہ بنائیں اور تمام قوتوں کو باطل کے خلاف استعمال کرنے کے بجائے، حق کے خلاف استعمال کریں تو کیا یہ کفران نعمت خدا نہیں ہے؟ یہ لوگ خدائی سرزنش کے مستحق نہیں ہیں؟ ہمارے زمانے کے انسانوں کو بہت زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ صف کو فراموش نہ کریں۔ محاذ کو پہچاننے میں غلطی نہ کریں۔
آج کا دن سب کے لئے مبارک ہے۔ آپ عزیز پاسداران انقلاب کے لئے انشاء اللہ سب سے زیادہ مبارک ہو۔ دعا ہے کہ حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کی عنایتوں سے آپ سب کو ہم سب کو اپنے زمانے کی اس عظیم ترین اسلامی تحریک کے تعلق سے اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق حاصل ہو۔ اپنے فرائض کو ادا کریں اور خود کو امام حسین علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں کے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

(1)-فتوح ابن اثم ؛ ج 5 ص 34: مقتل مقرم ص 139
(2)- انفال 47