قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم

عظیم ایرانی قوم کے ممتاز اور منتخب جوانو' میں آپ کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ شہریور کے آخری اور مہر کے ابتدائی ایام (شمسی ہجری کیلنڈر کا چھٹا مہینہ شہریور تیئیس اگست کو اور ساتواں مہینہ مہر تیئیس ستمبر کو شروع ہوتا ہے) ہماری قوم کو اس سانحے اور عبرت انگیز واقعے کی یاد دلاتاے ہیں جس نے بہت سی حقیقتوں کو آشکارا کر دیا۔ یہ باتیں تاریخ میں ہمیشہ محفوظ رہیں گی۔ کرام الکاتبین کے دفتر میں خدا کے علم محیط میں اور پروردگار کی اجر و پاداش کی کتاب میں بھی درج ہو چکی ہیں۔ یہ عبرت انگیز ماجرا، ایرانی قوم کا آٹھ سالہ مقدس دفاع ہے۔ اس مقدس دفاع اور شجاعت کی اس داستان میں آپ نے نمایاں اور فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔
البتہ اس مقدس دفاع میں فوج اور دیگر تمام مسلح افواج نے بھی کردار ادا کیا ہے۔ خداوند عالم ان سب کو اس کا اجر عطا کرے گا۔ لیکن سپاہ پاسداران انقلاب اپنی مخلصانہ فداکاریوں کے ذریعے، اس آیہ شریفہ صدقوا ما عاھدو اللہ علیہ (1) کی مصداق بن گئی۔ اس نے اسلام کے حقائق میں سے اس حقیقت کو زندہ کر دیا کہ انسان، یہی معمولی انسان، معمول کے علل و اسباب میں گرفتار یہی انسان جب خدا سے رابطہ قائم کر لیتا ہے تو کس طرح اس کو معنوی اقتدار اور عظیم غلبہ حاصل ہو جاتاہے کہ حتی عالم مادہ کے ناقابل انکار علل و اسباب پر بھی قابو حاصل کر لیتا ہے۔ ہمیں اس کی قدر معلوم تھی۔ اسلامی تعلیمات میں اس حقیقت کی بابت کوئی شک نہیں تھا۔ لیکن صرف جان لینا کچھ اور ہوتا ہے اور اپنی آکھوں سے براہ راست دیکھنا اور لمس کرنا کچھ الگ ہی ہوتا ہے؟ ان آٹھ برسوں کے دوران آپ نے جو فداکاریاں کیں اور اس میدان میں آنے والے دوسرے جاں نثاروں نے جو قربانیاں دیں، ان کو ہم نے محسوس کیا، لمس کیا اور دیکھا۔ پوری دنیا متحد ہوکر اسلامی جمہوریہ ایران پر ٹوٹ پڑی۔ اس میں تو کسی کو شک نہیں ہے۔ ہم تو ان دنوں بھی کہتے تھے، لیکن جنگ ختم ہونے کے بعد سب نے کہا اور بہت سے راز ہمارے اوپر بھی برملا ہوئے۔ سب اس شعلے کو خاموش کرنے کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران پر ٹوٹ پڑے تھے، جو شمع یہاں روشن ہوئی تھی وہ اس سے خوفزدہ تھے۔ اسلامی جمہوریہ ایران پر اس یلغار اور اس جنگ کو شروع کرنے سے ان کا مقصد کیا تھا؟ یہ جو آپ نے ان آٹھ برسوں کے دوران مسلسل دیکھا کہ امریکا اور سابق سوویت یونین، دنیا کے بڑے دفاعی معاہدوں کی لیڈر طاقتیں، اس دور کی دونوں سپر طاقتوں سے وابستہ اور رجعت پسند ممالک، سب ہمارے زبوں حال ظالم دشمن کو تقویت پہنچانے میں مصروف تھے، یہ کس لئے تھا؟ کیا اس لئے تھا کہ آٹھ سال تک دونوں جنگ کریں اور پھر وہی بین الاقوامی سرحدیں باقی رہیں، مسئلہ یہیں پر ختم ہو جائے اور اسلامی حکومت پہلے سے زیادہ طاقتور اور مقتدر بن کے ابھرے؟
اس جنگ سے ان کا مقصد کیا تھا؟ کیا اس کے علاوہ کچھ اور تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ اسلامی نظام کو ختم کر دیں یا اس پر ناتوانی کا الزام لگائیں اور کہیں کہ تمھاری سرحدیں توڑ دی گئیں، تمہارے ملک کے حصے بخرے کر دیئے گئے اور تم کچھ نہ کر سکے؟! وہ یہ چاہتے تھے۔ یا پھر یہ سوچتے تھے کہ اسلامی جمہوریہ جب دیکھے گی کہ عراق کی پشت پر عالمی طاقتیں ہیں تو ان کا دل جیتنے کے لئے، اپنے اصولوں سے دستبردار ہو جائے گی، اسرائیل کے خلاف سخت موقف نہیں اپنائے گی اور مسلمانوں اور مظلوموں کا کھل کر دفاع نہیں کرے گی۔
جنگ کے آٹھ سال گذر گئے۔ دشمن کا کون سا مقصد پورا ہوا؟ اربوں ڈالر انہوں نے خرچ کر دئے۔ کیا یہ کوئی ہنسی کھیل تھا؟ دنیا کے اسلحے کے تمام بڑے گوداموں سے ان سرحدوں پر اسلحے بھیجے جا رہے تھے جہاں ہم سے جنگ ہو رہی تھی۔ روس، امریکا، برطانیہ اور دوسری جگہوں کے تمام مفکرین، سیاستداں، اور درجہ ایک کے پالیسی ساز، سب متحد ہو گئے مگر ان کے اہداف میں سے کون سا ہدف پورا ہوا؟ پوری دنیا شاہد ہے اور یہ حقیقت ایرانی قوم پر سب سے زیادہ آشکارا ہے کہ دشمن کا کوئی بھی مقصد پورا نہ ہو سکا۔ وہ اسلامی حکومت کو ختم کر سکے نہ کمزور کر سکے۔ بلکہ اس کے برعکس، اسلامی جمہوریہ ایران، جنگ کے دور میں، خدا کی نصرت کے سائے میں، اس عظیم اور بے نظیر معنوی فورس کے ذریعے، دنیا میں زیادہ طاقتور ثابت ہوئی اور نگاہوں میں اس کی مقبولیت و عظمت میں زیادہ اضافہ ہوا۔ سوئی کے برابر بھی وہ ہماری سرحدوں کو ادھر سے ادھر نہ کر سکے۔ ہماری حاکمیت کو کمزور نہ کر سکے۔ بلکہ جن علاقوں میں وہ ہماری حاکمیت کو کمزور کرنا چاہتے تھے وہاں ہماری حاکمیت مستحکم تر ہوئی۔ ہمیں اپنے اصولوں سے ذرہ برابر بھی پیچھے نہ ہٹا سکے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ عظیم کامیابی ہمیں کیسے ملی؟ اس کے جواب میں بس یہی کہنا چاہئے کہ ایمان اور دین کے سائے میں، جو ہمیشہ آپ کے پاس ایک عظیم سرمائے کی حیثیت سے موجود رہا اور آپ نے ہمیشہ اس کی مدد کے لئے کام کیا ہے۔ جنگی وسائل یقینا غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں مگر وہ فیصلہ کن نہیں ہوتے۔ کیونکہ وسائل سے انسان کام لیتا ہے۔ اب یہ دیکھنا پڑے گا کہ وہ انسان کیسا ہے؟ محکم ہے۔ خود کفیل ہے۔ موت سے نہ ڈرنے والا ہے۔ یا کمزور ہے جو وسائل کے پیچھے خود کو چھپانا چاہتا ہے؟ کون سا عامل ہے جو انسان کو وہ قوت دیتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں موجود اسلحہ دشمن کو کچل دینے کا وسیلہ ہو؟ وہ عامل ہے ایمان اور خدا پر بھروسہ، البتہ ہمیشہ مہارت اور علم کے ساتھ یہ ہتھیار کس کے پاس تھا؟ کس کے دل جذبہ ایمان سے سرشارتھے؟
اے با ایمان جوانو' اے آغوش اسلام کے پروردہ سپاہیو' ہماری نسل، اسلام کی پروردہ نہیں تھی لیکن آپ نوجوان، اسلام کے پروردہ ہیں۔ آپ وہ نسل ہیں کہ جس کی پرورش اس الہی اور دینی ہستی نے کی کہ تاریخ میں جس کی نظیر بہت ندرت سے ملتی ہے۔ امام خمینی جب آپ کو دیکھتے تھے ان کا دل امیدوں سے لبریز ہو جاتا تھا۔ اسلام کی پروردہ نسل نے ، ایمان اور خدا پر اعتقاد و توکل کی برکت سے الہی و اسلامی اقدار پر حقیقی اعتقاد کے ساتھ بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔
دنیا میں کون سا ایسا ملک نظر آتا ہے؟ دنیا کا طاقتور ترین ملک ہی کیوں نہ ہ و، اگر تمام ممالک اس کے خلاف متحد ہو جائیں تو کیا وہ اپنی جگہ قائم رہ سکتا ہے، کیا اس کے اندر تزلزل پیدا نہیں ہوگا؟ دنیا کے طاقتورترین ملکوں کو ایک ایک کرکے دیکھئے کہ کیا ان میں یہ توانائی ہے؟ کون اس طرح پائیدار رہ سکتا تھا؟ سوائے اس کے جس کے دل کو خدائے عظیم کی نصرت کے وعدے پر یقین تھا۔ و لینصرن اللہ من ینصرہ (2) اس کی کو‏ئی تاویل نہیں کی جا سکتی۔ ہمارے معاشرے کی حقیقتوں اور ہماری تاریخ نے اس کو ثابت کر دیا۔ آپ وہی نوجوان ہیں۔ اپنی قدر کو یعنی اپنے وجود کے گوہر گراں قدر کی اہمیت کو سمجھیں۔ جان لیں کہ آپ کے قلب و وجود میں جو الہی امانت ہے وہ اسلامی دنیا کی تمام بڑی مشکلات کو حل کر سکتی ہے۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ اسلامی دنیا پینتالیس سال تک وار کھانے، نقصان اٹھانے اور قربانی دینے کے بعد کچھ کمزور، حقیر اور نالائق لوگوں کی، جن کے دلوں میں خدا کا خوف نہیں ہے اور وہ اسلامی جذبے سے بالکل آشنا نہیں ہیں، شرمناک خیانت کے نتیجے میں ٹوٹ جاتی ہے اور مسئلہ فلسطین میں دشمن اپنی سازش پوری کر لیتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ گوہر گرانبہا جو یہاں خدا کے فضل سے فراوانی کے ساتھ موجود ہے، افسوس کہ وہاں جہاں ہونا چاہئے، بہت کم ہے اور بعض جگہوں پر تو ہے ہی نہیں۔
آج اسلامی دنیا کو سب سے زیادہ اس چیز کی ضرورت ہے کہ مسلم نوجوان اور ہر مسلمان قرآن اور خدا کے وعدوں پر یقین کرے۔ یہ جو ہم کہتے ہیں ایمان رکھتے ہیں، مسلمان ہیں، حقیقی مسلمان ہیں یہ کہہ دینا ہی کافی نہیں ہے۔ ان باتوں سے بھی کہ آئیں اور اسلامی جمہوریہ ایران کو، ہماری آزمودہ قوم کو جو مقام عمل میں بھی اپنے ایمان کا مظاہرہ کر چکی ہے، قصور وار قرار دیں اور کہیں کہ حقیقی اسلام اور حقیقی ایمان وہ نہیں ہے جو تم کہتے ہو بلکہ حقیقی اسلام وہ ہے جو ہم کہتے ہیں کوئی کام ٹھیک نہیں ہوگا اور نہ ہی کچھ ثابت ہوگا۔
بولتے سبھی ہیں لیکن ہماری قوم جو کہتی ہے اس کو میدان عمل میں ثابت کر چکی ہے۔ ان پندرہ برسوں میں استکباری طاقتوں کو اپنے امور اور مسائل میں معمولی سی بھی مداخلت نہیں کرنے دی۔ یہ ہمارا ایمان ہے۔ و لما رائ المومنون الاحزاب قالوا ھذا ما وعدنا اللہ و رسولہ و صدق اللہ و رسولہ ( 3) ہمارے عوام نے جب دیکھا کہ مشرق و مغرب متحد ہوکر ان سے جنگ کر رہے ہیں تو کہا ہمیں اس کی توقع تھی اور انہوں نے پائیداری اور استقامت سے کام لیا۔ سر انجام انہیں پسپا کیا اور شکست دی۔ یہ میدان عمل کا تجربہ۔ وہ جو یہ کہے کہ حقیقی اسلام وہ ہے جو ہم کہتے ہیں اور پھر ہر اس چیز کی جو اسلام کے صریحی احکام کے خلاف ہے، تائید کرے، یا اس پر خاموشی اختیار کرے یا اس پر عمل کرے، تو یہ صرف زبانی دعوی اور بے معنی بات ہے۔
فلسطین کے قضیے میں امر واقعہ وہی ہے جو اسلامی جمہوریہ برسوں سے آشکارا طور پر اور استدلال کے ساتھ کہتی آ رہی ہے۔ عالمی طاقتوں سے وابستہ اور ان کے زرخرید ایک گینگ اور گروہ نے آکر سرزمین فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کر لیا۔ کیا کوئی اس سے انکار کر سکتا ہے؟ ان چند ملین صیہونیوں میں جو آج فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں ہیں، ان میں سے کتنے فیصد فلسطینی ہیں؟ ان کے باپ فلسطین میں تھے یا وہ خود فلسطین میں پیدا ہوئے ہیں؟ یہ وہ غیر فلسطینی ہیں جو غلط اہداف کے ساتھ دنیا کے مختلف علاقوں سے یہاں جمع ہوئے ہیں تاکہ اس جگہ کو اپنا اڈا بنا کے علاقے میں استکباری طاقتوں کے تسلط کی توسیع میں آسانیاں پیدا کریں۔ کیا یہ غاصبانہ کارروائی نہیں ہے؟ یہ ظلم نہیں ہے؟ کیا یہ مذموم نہیں ہے؟ اگر کچھ لوگ جاکے دوسرے شہر میں دوسروں کے گھروں پر قبضہ کر لیں تو کیا یہ کام ہر دین و مذہب کے عام لوگوں، انصاف پسندوں اور حریت پسندوں کی نگاہ میں ناقابل قبول نہیں ہے؟ اگر ہم نے کہا ہے کہ صیہونی غاصب اور ظالم ہیں تو کیا غلط کہا ہے؟ کچھ مظلوموں نے جن کی سرزمین کو غصب کیا گیا ہے اور جن پر ظلم کیا گیا ہے، طویل برسوں سے جدوجہد شروع کر رکھی ہے تو جو اپنی سرزمین کے دفاع کے لئے جدوجہد کرے، وہ دہشتگرد ہے یا مجاہد؟ پوری دنیا میں عالمی سامراج کے سرکاری ذرائع ابلاغ عامہ نے، ان تشہیراتی ذرائع نے جو خود صیہونیوں کے ہیں اور ان کے سرمائے سے چلتے ہیں، برسوں سے مسلسل یہی رٹ لگائے رکھی کہ یہ دہشتگرد ہیں۔ کیوں جنگ کر رہے ہیں؟ یہاں تک کہ ایک دو سال پہلے یہ انتظام کیا اور اس کا نام صلح رکھا۔ یہ صلح ہے؟ وہ حضرت بھی وہاں ہمارے لئے اسلامیات کے ماہر ہو گئے ہیں کہتے ہیں قرآن کہتا ہے کہ صلح کرو یہ صلح ہے؟ اسلام اور قرآن نے یہ صلح کرنے کے لئے کہا ہے؟ کوئی کسی پر ظلم کرے اور پھر ظالم مظلوم کو مجبور کرے کہ ظلم کو قبول کر لو، بغیر اس کے کہ ظالم میں ذرا سی بھی نرمی آئے یا اس کا ظلم کم ہو، تو یہ صلح ہے یا ننگ و عار ہے؟ یہ ظلم کے سامنے جھکنا ہے۔ یہ وہی ظلم قبول کرنا ہے جو اسلام کی مقدس شرع میں حرام اور مذموم ہے۔
ان دنوں انہوں نے اس گمان کے تحت کہ مسئلہ فلسطین ختم ہو گیا ہے، جش منایا۔ میں عرض کروں گا فلسطین کا قضیہ ختم نہیں ہوا ہے۔ غلطی نہ کریں۔ استکباری دنیا ذھب اللہ بنورہم وترکھم فی ظلمات لایبصرون (4) کے نتیجے میں، اپنے تمام نام نہاد ماہرانہ تجزیوں کے باوجود ان انسانی حقائق کو نہیں چھپا سکتی۔
یہ ‍قضیہ ختم نہیں ہوا ہے۔ اس میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ فلسطین کا مسئلہ اپنی جگہ باقی ہے۔ اس معاہدے پر دستخط کرنے والا حقیر، روسیاہ، ظاہر میں فلسطینی اور باطن میں خدا جانتا ہے کہ کیا ہے، کیا عرفات تنہا، فلسطینی قوم ہے؟ عرفات کون ہوتا ہے کہ جاکے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے صیہونیوں سے جن کے سیکڑوں المناک جرائم تاریخ میں محفوظ ہیں، اور بہت سے ایسے ہیں جو تاریخ میں درج نہیں ہوئے ہی، ان سے جاکے سودے بازی کرے؟ دیر یاسین کا واقعہ اور گاؤں کے گاؤں ڈائنامائٹ لگاکے لوگوں کے سروں پر منہدم کرنے کے واقعات فراموش کر دیئے گئے ہیں؟ کیا ان واقعات کو فراموش کیا جا سکتا ہے؟ یہ کام کس نے کئے ہیں؟ اب وہی لوگ آئیں اور ایک ایسے شخص سے جو کچھ بھی نہیں ہے، اس بات پر دستخط لے لیں کہ یہ جگہ جو ہم نے چالیس پینتالیس سال سے غصب کر رکھی ہے، ہماری ہے، کیا یہ ہو سکتا ہے؟ کوئی اس کو قبول کر سکتا ہے؟ امریکی و صہیونی حکام اور اسی طرح وہ حقیر اور زبوں حال لوگ جنہوں نے مذاکرات کئے اور اس پر دستخط کئے، جان لیں کہ غاصبین کے خلاف فلسطینیوں کی جدوجہد جاری رہے گی۔ عالمی سطح پر پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ کچھ فلسطینی خوش ہیں۔ ہاں، ہر جگہ بکنے والے، کمزور اور بے خبر لوگ مل جائیں گے جو نہیں جانتے کہ اس کے دوسرے دن کیا ہوگا۔ ممکن ہے ایسا بھی ہو۔ اس قضیے میں عالم اسلام سے استصواب رائے کیوں نہیں کرایا جاتا؟ یہ ایک اسلامی قضیہ ہے۔ اسی عرب دنیا میں کہ افسوس جن کے بعض سربراہ ذلت آمیز طریقے سے اس خیانت کے سامنے جھک گئے اور اس کو انہوں نے تسلیم کر لیا، انہیں ملکوں میں، اگر تم سچ کہتے ہو کہ عالمی تشہیرات آزاد ہیں، تو جاؤ اور لوگوں سے انٹرویو کرو۔ جب یہ بات ہو تو ذرائع ابلاغ کی آزادی اور آزادی بیان بے معنی ہو جاتی ہے اور مغرب کے ڈیموکریسی کے اصولوں میں اس کا شمار نہیں ہوتا۔
جائیں لوگو ں سے انٹرویو کریں۔ دیکھیں کہ عوام کیا کہتے ہیں؟ کیا امت اسلامیہ ان قربانیوں سے صرف نظر کرنے کے لئے تیار ہے جو ان پینتالیس برسوں کے دوران اس نے دی ہیں؟ کیا وہ چار سلطان ، صدر اور سربراہان مملکت جو امریکا کے اشارے پر سب کچھ دینے کے لئے تیار ہیں، امت اسلامیہ ہیں؟ امت اسلامیہ یہی چار لوگ ہیں؟ عرب قوم یقینا اپنی جگہ پر اتنی بہادر اور سربلند ہے کہ ان باتوں کو قبول نہیں کر سکتی۔ یہ جدوجہد اقوام کے اندر پہنچے گی بلکہ پہنچ چکی ہے۔
بنابریں معلوم ہوا کہ نشینلزم اور قوم پرستی بڑی مشکلات کو حل نہیں کر سکتی۔ ان مسائل کو اسلام حل کر سکتا ہے اور خدا کے فضل سے حل کرے گا۔ تمام اسلامی ممالک میں مسلمان عوام موجود ہیں جن کے اندر اسلامی ہمدردی اور اسلامی غیرت موجود ہے۔ کیا یہ اتنی آسانی سے ان سے دستبردار ہو جائیں گے؟ ایک شخص نے جاکے دستخط کر دیئے۔ اس نے غلط کیا ہے۔ اس کو دستخط کرنے کا کیا حق ہے؟
فلسطینی قوم بھی ہاتھ کھینچنے والی نہیں ہے۔ البتہ یہ بہت اہم دور ہے۔ یہ بہت بڑی سازش ہے۔ پوری اسلامی دنیا میں ہمدردی رکھنے والے ہوشیار رہیں۔ یہاں بھی وہی ہے۔ دشمن ایک مورچہ فتح کرکے آگے آ گیا ہے۔ مگر یہ فتح فیصلہ کن نہیں ہے۔ یہ حقیقی فتح نہیں ہے۔ دشمن منہ کی کھائے گا۔ اسلامی دنیا کو جوابی حملہ کرنا چاہئے۔ پوری اسلامی دنیا میں نوجوان، روشنفکر حضرات، دانشور اور علمائے کرام اپنی ذمہ داری کا احساس کریں۔
میں اسی جگہ پر اسلامی حکومتوں کے سیاسی سربراہوں سے کہتا ہوں کہ یہ نہ سمجھیں کہ اس بڑے مسئلے میں پسپائی اختیارکرنے سے، غاصب اسرائیل اور اس کے حامی امریکا کی جارحیتیں رک جائیں گی۔ ایک قدم آگے آئے ہیں، اب اگر آپ جھک گئے تو ایک قدم اور آگے بڑھ آئیں گے۔ اب تک جو لوگ یہ نعرہ لگاتے تھے، ان کے پاس ایک حربہ تھا، اس کو ہاتھ سے کیوں جانے دیا؟ کس صحیح تجزیئے کی بنیاد پر؟ اسلامی جمہوریہ ایران نے ان پندرہ برسوں میں اپنے قائد امام خمینی رحمت اللہ علیہ اور ایرانی قوم کی زبان سے اپنی بات کہی ہے اور آج بھی اس کی بات وہی ہے۔ حق وقت گذرنے سے فرسودہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح ظلم بھی وقت گذرنے کے ساتھ قانونی عمل نہیں بن جاتا۔
پینتالیس سال پہلے ایک ظلم ہوا۔ فلسطینی قوم کا گھر اس سے چھین لیا گیا۔ یہ گھر پورا، بغیر کسی شرط کے فلسطینی قوم کو واپس کیا جائے۔ اسلامی حکومت کی خصوصیت یہ ہے کہ ناسازگار ماحول دیکھ کر پسپائی اختیار نہیں کرتی۔ مسلسل کہتے ہیں جناب الگ تھلگ ہو جائیں گے! الگ تھلگ یعنی کیا ؟ اگر دنیا کی منہ زور طاقتیں ہلڑ ہنگامے مچاتی ہوئی آئیں اور ناحق کو حق ثابت کرنا چاہیں تو ہم بھی دوسروں کی طرح الگ ہٹ جائیں اور کہیں کہ آپ صحیح فرماتے ہیں؟! تو اسلامی حکومت کا مطلب کیا ہوگا؟
جی ہاں معلوم ہے کہ ان لوگوں کے درمیان جو باطل اور غیر قانونی باتوں کے علاوہ اور کچھ نہیں جانتے، انسان الگ تھلگ ہو جائے گا۔ ان یتخذونک الا ھزوا (5) ظاہر ہے۔ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی دعوت کا آغاز کیا تو کیا آپ کا بائیکاٹ نہیں کیا گيا؟ کیا ہمارے امام (خمینی) طاغوت کے دور میں، اپنے گھر میں الگ تھلگ نہیں تھے؟ الگ تھلگ یعنی کیا؟ اسلامی حکومت میں اتنی دلیری اور شجاعت ہے کہ جو حق بات ہے وہ کہے اور امریکا اور اس کی اتحادی طاقتوں سے نہ ڈرے۔ اس کمزور اور اغیار پر منحصر ملکوں سے ہمارا فرق یہی ہے۔ وہ حکومتیں ڈرتی ہیں کیونکہ اپنی قوم سے وابستہ نہیں ہیں۔ وہ بھی اگر اپنی قوم سے جڑی ہوتیں تو ان کے اندر بھی اپنے ضمیر کی بات کہنے کی ہمت ہوتی۔ ہم قوم سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہماری حکومت بغیر حامی و پشت پناہ کے نہیں ہے۔ ہم اس پردے کی طرح نہیں ہیں کہ جب کوئی طاقت اس کو اپنی طرف کھینچنا چاہے تو بآسانی کھینچ لے اور اس کے پیچھے سنبھالنے والا کوئي سہارا نہ ہو۔ ہمارا سہارا بہت مضبوط ہے۔ ہماری پشت پر ایک عظیم اور با ایمان قوم ہے جس کی تعداد پچاس کروڑ سے زائد ہے۔ ہمیں منطق اور استدلال کا سہارا حاصل ہے جو ہماری روح پر حکمفرما ہے۔
ہم ظاہری قوتوں کے سامنے نہیں جھکتے۔ ہم امریکا اور اس کے اتحادیوں کی زور زبردستی اور تسلط پسندی کو تسلیم نہیں کرتے۔ قرآن نے ہمیں سکھایا ہے کہ حق بات کو پوری طاقت سے کہیں اور اس پر ڈٹے رہیں، اصرار کریں اور اس پر اپنی پوری طاقت لگا دیں۔ خدا بھی ہماری نصرت کرے گا اور ہمیں برکت دے گا۔ جس طرح ان پندرہ برسوں میں ایرانی قوم کے شجاعانہ کارنامے سے ثابت بھی ہوا ہے۔
خدا آپ کے ساتھ ہے۔ یہ آپ یقین جانئے! وہ بات جو ہمارے عظیم امام خمینی اکثر فرمایا کرتے تھے، مجمع میں بھی اور ہم سے علیحدگی میں بھی اور میں نے بھی باقاعدہ طور پر محسوس کیا ہے کہ خدا اس قوم کی مدد کرتا ہے اور اس ملت کے سر پر دست قدرت الہی ہے میں اس کا عینی طور پر مشاہدہ کرتا ہوں۔
خدا کی نصرت پر بھروسہ کریں۔ آج دنیا کی امیدیں آپ سے وابستہ ہے۔ آپ مرکز امید ہیں۔ افواہ پھیلانے والوں کی باتوں پر توجہ نہ دیں۔ یہ دنیا کے عوام نہیں ہیں۔ یہ روشنفکر اور مفکر نہیں ہیں۔ یہ جھوٹ بولتے ہیں۔ یہ گستاخ لوگ ہیں جو بے سر پیر کی باتیں کرتے ہیں، ہجو کرتے ہیں۔ یہ قوم نہیں ہیں۔ وہ قوم جو صحیح بات پر ڈٹ جاتی ہے وہ تمام اقوام کی امیدوں کا مرکز قرار پاتی ہے، جس کی صحیح باتیں سب کو اچھی لگتی ہیں، وہ قوم آپ ہیں۔ خدا کا فیضان اور برکت آپ کو حاصل ہو۔
امید ہے کہ حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کی پاک دعائیں ہمیشہ اس عزیز اور دلیر قوم بالخصوص آپ مومن، صالح اور فداکار جوانوں کے شامل رہے گی اور خداوند عالم آپ سب کو حقیقی کامیابی عطا کرے گا۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

(1)- احزاب ؛ 23
(2)- حج ؛40
(3) احزاب ؛ 22
(4) بقرہ ؛ 17
(5)- انبیاء ؛ 36