22 اپریل سنہ 2012 کو اسلامی جمہوریہ ایران کی افواج کے سربراہ کل ولی امر مسلمین حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای دام ظلہ نے ایران کی بری افواج کی کارکردگی اور پیش رفت کا قریب سے معائنہ کیا اور اس کے کمانڈروں سے خطاب کرتے ہوئے مسلح افواج میں دینی اقدار و ایمان پر توجہ اور اہتمام کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: آج اسلامی جمہوریۂ ایران کی فوج ملک کی ایک عوامی ترین یونٹ اور خالص الہی اسلامی فوج ہے جو قومی مفاد میں لوگوں کی خدمت انجام دے رہی ہے ، اسلامی جمہوریۂ ایران کی افواج اور اس کے کمانڈروں کے بھی بنیادی اعتقادات اور جذبے وہی ہیں جو عوام کی ایک ایک فرد میں پائے پاتے ہیں آپ نے اسلامی نظام کے خلاف تمام دھمکیوں ، بائیکاٹوں اور سینہ ؤ بازو کی کھوکلی نمائشوں کا اصل سبب ایران کی اسی طوفانی دھڑکن کو قرار دیتے ہوئے اس عظیم اور اہم تحریک کے جاری و ساری رہنے پر زور دیا اور فرمایا : تین دہائیاں گزرنے کے بعد مسلمان ملتوں کے دماغ اور جسم میں اس تحریک کو اثر و رسوخ حاصل ہوا ہے اور اب دلوں میں سرایت کرجانے والی ایک محکم و استوار قوت کی صورت میں یہ تحریک جلوہ گر ہوچکی ہے مصر اور کچھ دوسرے ملکوں میں رونما ہونے والے تغییرات اسی کا نتیجہ ہیں ۔
تقریر کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے :
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

بندہ کے لئے یہ دن بہت ہی شیریں اور پسندیدہ دن ہے کہ آپ تمام عزیزوں ، بھائیوں اور مسلح افواج کے جوانوں اور نورچشموں کے مجمع میں حاضرہوں اور آپ سب کو نزدیک سے دیکھ رہا ہوں اور چند جملے گفتگو کا موقع حاصل ہوا ہے کہ آپ کے پاک و نورانی قلوب کی دھڑکنوں اور جذبوں کو نمایاں کرنے والے کارناموں سے بہرہ مند ہوسکوں ۔ بری افواج کا یہ دن آپ سب کو مبارک ہو میری دعا ہے کہ آپ سبھی حضرات، کہ جن کے لئے شاید کہا جا سکتا ہے عموما سبھی جوان ہیں اور اپنی زندگي کے اچھے ایام گزار رہے ہیں ، انشاء اللہ ملک کے مستقبل کے لئے ملک کی عزت و سربلندی اور اس ملت کے اقتدار کا ایک مظہر ، ایک محاذ اور ایک بلند نمونہ ثابت ہوں گے، خداوند متعال سے تمنا ہے کہ وہ ایسا ہی مقدر کرے ۔ خوب ، بحمداللہ ۔ ایک انسان محسوس کرسکتا ہے کہ بری فوج نے کافی پیش رفت و کمال حاصل کیا ہے کمال اور ارتقاء کی یہ مبارک لہراسلامی انقلاب کی کامیابی کے آغاز اور اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل سے شروع ہوئی ہے ، اس سے کوئی یہ تصور نہ کرلے کہ طاغوتی نظام کے دوران فوج کے درمیان ، مومن قوتوں کا فقدان تھا یا کم افراد پائے جاتے تھے، نہیں، ایسا نہیں ہے بندہ ، اس زمانے میں بھی بعض فوجی افراد سے رابطہ رکھتا تھا ، بعض افراد سے دوستانہ تعلقات تھے ، بعض لوگوں سے انقلابی اور جہادی رابطے تھے اس زمانے میں بھی فوج کے اندر مومن و صادق ، عاشق و دیندار انسانوں کی کمی نہیں تھی ، انسان ان لوگوں کو مختلف جگہوں اور موقعوں پر ( منعقد دینی اجتماعات میں ) دیکھتا تھا چنانچہ بندے نے بھی دیکھا تھا دوسرے رفقاء بھی تھے جنہوں نے ان کے اندر یا گوشہ ؤ کنار سے ان کو دیکھا ہے اور آشنا ہیں ، پھر بھی افراد کی سمت گیری کچھ اور معنی و مفہوم رکھتی ہے اور کسی ( ہدف و مقصد کے لئے ) اجتماعی اور اداری سمت گیری کا مطلب کچھ اور ہی ہوتا ہے جس وقت کسی معاشرے ، کسی ادارے یا کسی مجموعے کی اجتماعی سمت گیری، نشانہ یا ( اجتماعی ہدف و مقصد ) غلط ہو تو انفرادی کوششیں چاہے وہ معاشرہ کتنا ہی بڑا معاشرہ کیوں نہ ہو اپنے نتیجہ تک نہیں پہنچ سکیں گی، اس زمانے میں کچھ ایسا ہی تھا ۔
امام ( جعفر) صادق ( علیہ السلام ) سے روایت ہے، علی الظاہر امام صادق ( علیہ السلام ) سے ہے، کہ آپ نے حدیث قدسی نقل کی ہے فرماتے ہیں : لاعذّبنّ کلّ رعیّۃ فی الاسلام اطاعت اماما جائرا لیس من اللہ عزّوجلّ و ان کانت الرّعیّۃ فی اعمالھا برّۃ تقیّۃ ( بحار الانار جلد 25 ص 110) حدیث کا مضمون یہ ہے کہ اگرکسی معاشرے میں نظام کی باگ ڈور منحرف و فاسد ظالم و ستمگر انسانوں کے ہاتھوں میں ہو تو اس معاشرے میں موجود مومن افراد کا ( انفرادی) اقدام کسی منزل تک نہیں پہنچ سکے گا اور اس طرح کے معاشرے میں لوگ سرجھکاکر ظالموں کی اطاعت کرتے رہیں تو خدا ان کو بھی عذاب میں مبتلا کردے گا ۔البتہ اسی حدیث میں اس کا دوسرا رخ بھی ہے ۔
و لاعفونّ عن کلّ رعیّۃ فی الاسلام اطاعت اماما ھادیا من اللہ عزّوجلّ و ان کانت الرّعیّۃ فی اعمالھا ظالمۃ مسیئۃ
کہ جس کی شرح کی ضرورت ہے صرف اس کے ظاہر پر ہی اکتفا نہیں کی جا سکتی۔ مطلب کا خلاصہ اور مطلب کی جان یہ ہے کہ اگر کسی نظام میں ، کسی مجموعے میں ایک ملک کے اندر، ایک معاشرے میں ، حکمراں نظام ایک الہی نظام ہے ، ایک عادلانہ نظام حکمراں ہے تو وہ لوگ جو اس اسلامی نظام کے مطیع و فرمانبردار ہیں الہی عفو و رحمت کے مستحق قرار پاتے ہیں ولو یہ کہ ان سے کبھی خطائیں بھی سرزد ہوگئی ہوں ۔
آپ اس کا ایک ملک ، ایک امت اور ایک معاشرے کے سانچے میں شمار کرسکتے ہیں ایک بڑے ادارے کے ڈھانچے میں ، ایک ملک کی فوجی یونٹ کے دائرے میں بھی اس کو دیکھ سکتے اور شمار کرسکتے ہیں۔
اس ( طاغوتی) دور میں فوج نااہلوں کے تصرف و اختیار میں تھی، مگر جس وقت عوامی تحریک شروع ہوئی مومنین کے ایک گروہ اور ایمان کے اعلی سطح پر فائز کچھ عناصر نے اپنی راہ پہچان لی اور اپنی حیثیت و مقام کو جان لیا، انقلاب کی کامیابی کے ان ہی ابتدائی دنوں سے افراد آئے اور انہوں نے انقلابی عناصر کی مدد کی ۔ فوج کے ساتھ ایک مشترکہ زبان پیدا کرنے اور ان کے ساتھ ہم آواز ہونے کے لئے یہ ضروری تھا ، خوب ، ایک دوسرے سے کوئی آشنائی نہیں تھی نہ حکام، نہ انقلابی ، نہ مجاہدین ، نہ علماء نہ یونیورسٹیوں کے دانشور حضرات ، فوج سے کسی کا کوئی سروکار نہیں تھا، کوئی مشترکہ زبان و آواز نہیں تھی، انقلاب کی برکتوں سے یہ مشترک زبان ( اور آواز ) ایجاد ہوئی ہے ۔
آج ( اسلامی جمہوریہ ایران کی ) فوج ہمارے ملک کے عوامی ترین ڈھانچوں میں سے ایک ہے، ان ڈھانچوں کے درمیان کہ جن سے ملک اور نظام کی عمارت تشکیل پائی ہے ، جب ہم فوج پر نظر ڈالتے ہیں ، دیکھتے ہیں یہ لوگوں کی ایک ایک فرد سے ، لوگوں کی خواہشات اور لوگوں کے احساسات سے سب سے زیادہ قریب ہے اور لوگوں کی عوامی تحریکوں کو قریب کرنے میں سب سے زیادہ مددگار ہے یہ چیز بڑی ہی قیمتی ہے اور بہت اہمیت رکھتی ہے ٹھیک ہے کہ دنیا میں فوجیں ، قومی مفادات کی حفاظت کے نعرے لگا کرہی وجود میں آتی ہیں اور استعمال کی جاتی ہیں لیکن کیا واقعا ایسا ہی ہوتا ہے ؟ کیا امریکی افواج عراق میں یا امریکی افواج افغانستان میں،امریکہ کے قومی مفادات کی حفاظت کررہی ہیں ؟ ملت امریکہ کو افغانستان پر فوجی قبضے سے فائدہ پہنچ رہا ہے ؟ افغانستان میں عوام کے قتل عام سے وہ راضی ہیں ؟ اس چیز سے کہ اس کے زرخرید جوان آئیں، لوگوں کے بدن چھلنی کریں اس کے بعد جنازوں کو روندیں اور مثلہ کریں اور پھر بدن کے ٹکروں کے ساتھ یادگار کے طور پر تصویریں کھینچیں امریکی مفادات کے حصول کے لئے ہے؟! اگر کوئی متحدہ امریکہ کے حکمرانوں سے سوال کرے کہ جناب ! اس قدر وسیع فوج کی اور اتنے جدید اور غیر معمولی سطح کے فوجی ساز و سامان کی آپ کو کیا ضرورت ہے تو وہ بھی یہی جواب دیں گے : قومی مفادات کے لئے !! لیکن کیا اس میں صداقت پائی جاتی ہے ؟ ! دنیا میں ہر جگہ تقریبا یہی صورت حال ہے یقینا میں اس کا دعوی نہیں کررہا ہوں ، تحقیق کریں تو ایسا ہی ہوگا ۔ چونکہ پوری اطلاع نہیں رکھتا ؛ ممکن ہے کہیں گوشہ ؤ کنار میں یہ بات پوری طرح صادق نہ آتی ہو لیکن جو کچھ ہم نے دیکھا ہے اور جانا ہے غالبا دنیا میں یہی صورت حال ہے فوجیں قومی مفادات کے نام پر تشکیل پاتی ہیں لیکن قومی مفادات کی راہ میں استعمال نہیں ہوتیں سیاسی جاہ طلبی کے کام آتی ہیں تاریخ کے طویل دور میں ایسا ہی رہا ہے یہاں سے اٹھیں، دسیوں لاکھ سے بھی زائد جوانوں کو ساتھ لیا، یونان کی طرف چل پڑیں یہ ہمارے طاغوت کے تاریخ افتخارات میں سے ہے خشایار شاہ نے یونان پر قبضہ حاصل کرنے کے لئے ، جس میں بعد میں شکست ہوئی اور ٹوٹے جہاز اور نابودی کے ساتھ ملک واپس ہوئے ۔ یہ سب کچھ قومی مفادات کے لئے نہیں ہوا ۔تاریخ کے طویل دور میں دنیا کی فوجیں ، جہاں تک ہم کو معلوم ہے اور تاریخ نشان دہی کرتی ہے اور میری اور آپ کی دست رس میں ہے اور آج بھی ہم دنیا میں مشاہدہ کررہے ہیں زيادہ تر یہی صورت رہی ہے ( فوجیں ) یا تو شخصی قوت و اقتدار کی توسیع کے لئے استعمال کی گغی ہیں یا طاغوتی قوتوں کی حفاظت کے کام آئی ہیں ۔انقلاب کے اوائل میں ان ہی شاہی محلوں میں سے ایک میں جہاں برّی فوج کی ایک ٹکڑی حفاظت و پاسبان کے لئے مستقر تھی ایک بورڈ لگا ہوا تھا جس کے اوپر کچھ اس طرح کی عبارت لکھ ہوئی تھی کہ : ہماری ، یعنی فوج کی ، بنیادی طور پر تشکیل ہی طاغوت کی جان بچانے کے لئے ہوئی ہے ! اچھا تو یہ چیز قومی مفادات سے کتنا فاصلہ رکھتی ہے ۔ اب اگر ہم دنیا میں ایک ایسی فوج دیکھیں کہ اس کے اعتقادات وہی ہوں جو عوام کے اعتقادات ہیں وہی احساسات ہوں جو ملت کے احساسات ہیں وہ خود بھی کسی خاص شخص یا افراد کے لئے نہیں بلکہ عوام الناس کے لئے کام کررہی ہو اور حقیقی معنی میں قومی مفادات کے لئے کام کرے تو یہ فوج بہت زيادہ لائق قدر کہی جائے گی؛ یہ فوج ، آپ نے تشکیل دے رکھی ہے مجھے اس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی ۔ اب وہی ان ملکوں کی بات ، جہاں تازہ طور پر انقلاب آئے ہیں دیکھتے ہیں کیا نتیجہ سامنے آتا ہے اور وہ کیا کام کرتے ہیں ، لیکن اب تک تو مجھے اس طرح کی فوج کہیں نظر نہیں آئی ۔ ایک ایسی فوج جو نہ کسی شخصی اقتدار پسندی کے لئے ہو اور نہ ہی کسی شخص کے ساتھ اس کا خاتمہ وابستہ ہو ؛ میں اس بات پر تاکید کرنا چاہتا ہوں نہ اس بات سے خدا راضی ہوگا؛ نہ اسلامی احکام اجازت دیتے ہیں کہ تم میں سے کوئی کہے کہ ہماری فوج یا ہماری فوجی طاقت یا ہمارے عناصر، فلاں شخص کےلئے جانا دیدیں ، نہیں ( یہ صحیح نہیں ہے ) ہاں اسلام کی خاطر سب جان دیدیں ، فلاں شخص بھی اسلام کی خاطر مرجائے ملک کی خود مختاری کا پرچم سربلند رکھنے کے لئے ، جو ایک اسلامی ملک ہے سب لوگ تیار ہیں اس راہ میں مرنے کےلئے ( سب آمادہ رہیں ) کیونکہ اس موت کا نام شہادت ہے اسی صورت میں یہ فوج الہی فوج اور معنوی فوج کہلائے گی ۔ یہ فوج اسلامی فوج کہی جائے گی ؛ یہ وہی شجرۂ طیبہ ہے کہ جس کے بارے میں ، بندے نے عرض کیا ، اول انقلاب سے آج تک یہی ہدف و مقصد رہا ہے اور ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم اس ہدف سے ہر روز نزدیک سے نزدیک تر ہوتے جارہے ہیں ۔ یہ بات میں آپ سے عرض کردینا چاہتا ہوں کہ میں نے تیس بتیس سال کے اس طویل دور میں فوج کی اس حرکت کو بہت قریب سے دیکھا ہے (انقلاب کے بعد ) سب سے پہلی فوجی پریڈ میں ، 17 اپریل کو بندہ موجود تھا اس وقت سنہ 1979 ع میں امام ( خمینی رح) اسپتال میں داخل تھے وہیں اسپتال کے سامنے ایک ڈائس تیار کیا گیا اور فوجی دستے آئے اور سلامی دی اور امام ( خمینی رضوان اللہ علیہ ) نے اس دن کو ( بری) فوج کا دن اعلان کیا، میں فوج کے حالات ( شروع سے ) دیکھتا آیا ہوں آپ کے درمیان اس اجتماع میں جو یہاں موجود ہے ، وہ لوگ جو ادھر تیس سال سے فوج میں ہیں ایسا، شاید کوئی نہ ہو کہ جس کی فارغ التحصیلی کے جشن میں میری شرکت نہ ہوئی ہو علی الظاہر بندہ آپ لوگوں کے درمیان ایک ایک شخص کی فارغ التحصیلی کے جشن اور ( فوجی ) گریڈ کی تقسیم میں موجود رہا ہے آپ لوگ جو کالج میں گئے ہیں ، افسر بنے ہیں اور آپ کے شانوں پر نشان نصب ہوئے ہیں ، میں نے دیکھے ہیں اور میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری فوج نے بیس سال پہلے کے مقابل ، پندرہ سال پہلے کے مقابل ، بہت ترقی کی ہے ، اولی انقلاب سے تو بہت زيادہ ترقی ہوئی ہے ، یہ ایک اچھی پیش رفت ہے اس پیش رفت کو جاری رہنا چاہئے یہ پیش رفت وہ پیش رفت ہے کہ جس میں دنیاؤ آخرت ( دونوں ) کی سعادت و کامرانی ہے ۔
آج ایک لہر ( اور تحریک ) دنیا میں پیدا ہوچکی ہے جس کو سب جانتے اور پہچانتے ہیں کہ یہ لہر تسلط پسند ( سامراجی) نظام کی مخالف ہے ہمارا اشخاص کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے یہ اشخاص اس طرف کی دنیا سے ہوں یا اس طرف کی دنیا سے ہوں اوپر کے ہوں یا نیچے کے ، مسئلہ ، تسلط پسند نظام کا مسئلہ ہے ، تسلط پسند نظام ؟ یعنی کیا ؟ یعنی یہ کہ دنیا کا وہ نظام ( اور راہ و روش ) کہ جس کے تحت دنیا کے ملکوں اور قوموں کو دوحصوں میں تقسیم کردیتے ہیں تسلط حاصل کرنے والے ( سامراج ) اور تسلط قبول کرلینے والے ( مستعمرہ ) اب ان ہی تسلط پسند سامراجی قوتوں میں سے بعض خبیث اس مفہوم اور اس مضمون کو چھپاتے اور انکار کرتے ہیں ، زبان پر نہیں لاتے ( اگرچہ کرتے وہی ہیں ) مگر بعض وہ بھی ہیں جواپنی ذاتی ضعیف العقلی کی بنا پر ، جوان میں موجود ہے ، اس کو زبان سے کہہ دیتے ہیں ، جیسا کہ امریکہ کے سابق صدر جمہوریہ نے صاف طور پر کہا تھا : افغانستان کے مسئلے میں ، اور ( امریکہ کے تجارتی مرکز) جڑواں ٹاوروں اور ان چیزوں کے مسئلے میں، جو کوئی بھی امریکہ کے ساتھ نہیں ہے ہمارا مخالف ہے ! اچھا یہ تو حماقت ہے ؛ ( لیکن ) دنیا کی تسلط پسند ( طاقتیں ) دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات اسی طرح تنظیم کرتے ہیں ؛ تسلط کو قبول کرنا ضروری ہے ۔
دنیا کی تسلط پسند طاقتوں کی اس پوری مشینری کی مشکل یہ ہے کہ آج عالمی سطح پر ایک لہر پیدا ہوگئی ہے جو اس نظام اور مشینری کی مخالف ہے اس لہر میں مرکزیت اسلامی ایران کو حاصل ہے آپ ہی لوگوں کی مرکزيت حاصل ہے اسلامی ایران نے بہت زيادہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے شروع کے دنوں میں جب ہم نے یہ تحریک شروع کی ہے دنیا میں کہیں سے اس کا (مثبت ) جواب نہیں ملا، ہم نے سوچا تھا کہ بعض قومیں بہت جلد حرکت میں آکر اس تحریک سے ملحق ہوجائیں گی لیکن ایسا نہیں ہوا برسوں گزرنے کے بعد تدریجی طور پر آہستہ آہستہ یہ فکر ملتوں کے ذہنی خانوں میں داخل ہوئی ہے ، آہستہ آہستہ ڈھلتی رہی ، ڈھلتی رہی یہاں تک کہ ایک امکان پیدا ہوسکا ، تاریخ کی تمام تحریکیں اسی طرح کی ہیں تاریخ میں رونما ہونے والی تمام تحریکں اگرچہ لگتا ہے کہ یکایک رونما ہوئی ہیں لیکن کوئی بھی یک دفعہ رونما نہیں ہوئی ہے سب تدریجی ہیں بس آپرشیشن کے ایک نقطے کا انتظار رہتا ہے کہ ایک حادثہ پیش آجائے ایک ہلادینے والا مسئلہ رونما ہو اور ناگہانی طور پر وہ صلاحیتیں ، وہ بکھری ہوئی قوتیں ایک فنر میں جمع ہوجائیں اور خود کو نمایاں اور آزاد کریں تو مصر جیسی اور بقیہ دوسری جگہوں ، جیسی صورت پیدا ہوجاتی ہے تیس سال کا زمانہ لگا ہے تب کہیں جاکر یہاں پہنچے ہیں بنابریں، یہ تحریک اور حرکت ایک اہم حرکت ہے سامراجی اور استکباری قوتیں ، واقعی معنی میں اس تحریک سے خوف زدہ ہیں یہ دست و بازو کھینچنا گردنیں اکڑانا بائیکاٹ دعوے ، دھکیاں اور یہ تمام چیزیں خوف کی وجہ سے ہیں ۔
میں ادعا نہیں کرتا کہ اسلامی جمہوریہ سے علی الخصوص ایک حکومت یا ایک فوج کے عنوان سے خوف زدہ ہیں ، مسئلہ یہ نہیں ہے ؛ اس لہر سے اور اس تحریک سے ڈر رہے ہیں یہ بات ان کے لئے بالکل نئی ہے سابق میں جس کی مثال نہیں ہے اس سے خوف زدہ ہیں یہ تحریک جو اس علاقے میں ہے اس کی دھڑکنیں بڑھتی جارہی ہیں پھیلتی جا رہی ہیں اور روز بروز نئی روح پھونکتی جارہی ہیں ، وہ لوگ ہمارے مومن جوانوں سے ، ہمارے مستعد و پرعزم جوانوں سے اوج پر پہنچے ہوئے ہمارے قومی احساسات سے ، جو بلند وعالی نہ کہیں تو اچھی معرفت و شناخت کے ساتھ ہے ، خوف زدہ ہیں ، آج ہمارے ملک میں معرفت و بصیرت کی سطح ، انصاف یہ ہے کہ بہت اچھی ہے ۔
آپ اس اہم اور حساس مجموعے کا ایک حصہ ہیں مسلح افواج ، حساسیت رکھتی ہیں اس کی حفاظت ضروری ہے یہ سلسلہ آپ کو باقی رکھنا چاہئے میں آج محترم کمانڈروں کے اجتماع میں ایک جملہ ، ایک فوجی کمانڈر کا قول نقلی کرنا چاہتا ہوں ، اوائل انقلاب میں وہ میرے پاس آئے اور ایک جملہ کہا اور مجھ کو وہ جملہ بہت پسند آیا اور صحیح بھی ہے ، اسی لئے میرے ذہن سے چیک گیا ہے انہوں نے کہا تھا : فوجی کمان میں ایک عنصر یا ایک جزء رہبری کا پایا جاتا ہے ۔
آپ لوگ مستقبل میں ملک کی افواج اور سپاہ کے کمانڈر ہوں گے آپ کو اپنے اندر قیادت و رہبری کی اس قوت کو قوی و مستحکم کرنا چاہئے ، قیادت یعنی یہ کیجئے یہ نہ کیجئے ، امر و نہی ؛ قیادت یعنی اقدام ، حرکت ، روش و رفتار اور سنگ میل کی نشان دہی جو کرنے اور نہ کرنے کی جگہ لیلے یہ کرو اور یہ نکرو کے بغیر ہی حرکت ایجاد کردے ، تحرک جو دل سے ( اپنے آپ ) ہو، جسمانی حیثیت سے قریب ہونے کے بجائے دلوں میں قربت پیدا ہوجائے اس طرح کی حالت اپنے اندر پیدا کیجئے اور اپنے وجود میں اس کی تقویت کیجئے ۔ اگر یہ ہوگیا تو اس وقت ہمارے ملک اور ہماری قوم و ملت کی کامیابی یقینی ہے یعنی سخت و دشوار لمحات میں یہ احساس اور یہ حالت انسان کی مددگار ہوتی ہے ، میں نے اس طرح کے نمونے اپنی آنکھوں سےدیکھے ہیں اب ان میں کچھ چہرے تو ٹھیک ہے کافی مشہور ہیں اور ان کو سبھی جانتے اور پہچانتے ہیں شہید صیار شیرازی،شہید بابائی ، یہ وہ لوگ ہیں جو ابتدائے جنگ سے انتہائے جنگ تک رہے ہیں اور درجۂ شہادت پر فائز ہوئے ہیں لیکن اس کے تنے اور ڈھانچے میں بھی میں نے اس طرح کے بہت سے افراد دیکھتے ہیں مسلح افواج کے درمیان ، جنگ کے دوران ؛ خود جنگی محاذوں پر ، فیصلہ کن جلسوں میں اور محاذ سے دور منصوبہ بندیوں میں ، یہ بھی بڑی اہم بات ہے ۔ جنگی محاذوں پر اگلی صفوں میں زیادہ تر جو اقدامات انجام پاتے ہیں ان عزموں اور ارادوں کا نتیجہ ہوتے ہیں کہ جن میں بہت سے فیصلے محاذ جنگ کی پشت پر کئے جاتے اور عمل میں آتے ہیں اگر یہ فیصلے صداقت و اخلاص کے حامل ہوں اور اگلی صفوں تک خود کو پہنچانے میں کامیاب ہوجائیں اس وقت وہ بہادرانہ کارنامے رونما ہوتے ہیں کہ انسان بعض اوقات ان بہادریوں کو واضح طور پر مشاہدہ کرلیتا ہے ان چیزوں کو آپ لوگ بھی پیش نظر رکھیں ۔
بہرحال، بری فوجیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں ملک کے فوجی مجموعے میں بری فوج ایک بہت ہی اہم حصہ ہے ہمیشہ کہا جاتا رہا ہے کہ بری افواج ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں ممکن ہے عصر حاضر میں رائج دنیوی جنگوں میں زمینی مقابلہ آرائی نسبتا کم ہو، چنانچہ حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے ؛ آجکل بحری افواج اورا ن کی دفاعی ٹکڑیوں کے درمیان مقابلہ آرائیوں کا احتمال زيادہ رہتا ہے پھر بھی بری افواج کو ہمیشہ اور بروقت حقیقی شکل میں آمادہ ؤ تیار رہنا چاہئے اور فروغ و ارتقا پیدا کرتے رہنا چاہئے ۔ حقیقی آمادگی کا مطلب ہے ایمان ، جذبہ فوجی تعلیم و تربیت اور ضروری مہارت ، عملی تیاریاں اور شخصیت میں استحکام ، ہر وقت موجود رہے ؛ شخصیت میں اخلاق و رفتار دونوں اعتبار سے ایسا استحکام ہو کہ طرح طرح کی پر فریب چیزیں جو اپنی طرف کھینچتی ہیں عزم و ارادہ کو متاثر نہ کرسکیں اور خود اپنی نگاہ میں شخصیت ذلیل نہ ہو بعض اوقات زندگی کی رغبتیں انسانوں کو ذلیل کردیتی ہیں انسان بعض لوگوں کو دیکھتا ہے کہ وہ پیسے کے لئے ذلیل ہوجاتے ہیں ، مقام و منصب کے لئے خود کو ذلیل کرلیتے ہیں جنسی جذبوں کے تحت ذلیل ہوجاتے ہیں ، یہ انسان کی ذلت ہے ۔ صاحبان عزت اور صاحبان وقار و اقتدار وہ انسان ہیں جنہیں یہ خواہشیں ذلیل نہ کرسکیں ، یقینا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی زندگی کی خواہشوں اور رونقوں سے منہ موڑ لے بلکہ مطلب یہ ہے کہ یہ خواہشیں شخصیت پر غالب نہ آنے پائیں ورنہ اسلام نے ہرگز یہ حکم نہیں دیا ہے کہ آپ کے پاس پیسہ نہ ہو، آپ منصب و مقام حاصل نہ کریں وہ یہ نہیں کہتا کہ آپ مختلف خواہشوں سے بہرہ مند نہ ہوں لیکن آپ خواہشوں کے اسیر و غلام نہ بنیں ، آپ ان کو خود پر غالب نہ آنے دیں ان کے قلادے میں ذلیل نہ ہوں آپ کے یہاں استقامت اور ثبات و استحکام ہونا چاہئے خواہشوں سے مقابلے اور مخالفت کی قوت ہونا چاہیے یہ چیز آپ کو آمادہ ؤ تیار کرتی ہے ۔
اچھا تو آپ تمام دوستوں ، بھائیوں ، جوانوں اور عزیز بچوں سے باتیں کرنے کو بہت ہیں لیکن وقت بھی اب زيادہ نہیں ہے امیدوار ہوں کہ انشاء اللہ خداوند متعال آپ سب کو توفیق و تائید عطا کرے۔
خدایا! اپنی برکتیں اس اجتماع پر نازل فرما؛ خدایا اپنی برکتیں ملت ایران پر نازل فرا؛ اپنا فضل اور برکتیں ہماری مسلح افواج پر اسلامی جمہوریۂ ایران کی تمام افواج پر نازل فرما،
پروردگارا! اپنی مہربانی ، باہمی رشتے ، اخوت و بھائی چارگی ،اخلاص و دوستی تمام مسلح فوجوں کے درمیان ، فوج ، سپاہ ، رضاکار دستوں ، انتظامی قوتوں اور دوسری تمام فورسز کے درمیان ہمیشہ سے بھی زيادہ مستحکم کردے۔
پروردگارا! تجھے محمد و آل محمد علیہم السلام کا واسطہ ہے ہم سب کو ان بندوں میں قرار دیدے کہ جن کے لئے تو نے رضی اللہ عنھم و رضواعنہ فرمایا ہے ۔
پروردگارا ! ہم کو اپنے ان خاص بندوں میں قرار دیدے کہ جن کی حمایت اور دفاع کا تونے وعدہ کیا ہے ۔
پروردگارا ! حضرت ولیعصر ارواحنا فداہ کی دعائیں ہمارے شامل حال کردے اور ان کی دعائیں ہمارے حق میں مستجاب فرما۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ