19 دی مطابق 9 جنوری کی اہل قم سے منسوب تاریخ کی مناسبت سے قم کے ہزاروں لوگوں نے تہران ميں قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي سے ملاقات کي- اس موقع پر قائد انقلاب اسلامي نے اپنے خطاب ميں ايران ميں آئندہ چند مہينوں ميں ہونے والے صدارتي اليکشن کي طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمايا کہ اليکشن ميں عوام کي پرجوش شرکت کو روکنے کے لئے دشمن کا ايک منصوبہ يہ ہے کہ عوام کو سياسي، اقتصادي يا سيکورٹي سے متعلق مسائل ميں الجھا ديا جائے، ليکن ايران کے عوام کا فہم و ہوش دشمن کے فریب و مکر کی رسائی سے بالاتر ہے۔
قائد انقلاب اسلامي نے فرمايا کہ انتخابات کو مکمل طور پر سالم اور شفاف ہونا چاہئے اور سرکاري عہديداروں اور غير سرکاري شخصيات سبھي کو چاہئے کہ قوانين، تقوی اور پاکدامني کے اصولوں کي مکمل پاسداری کرتے ہوئے صحتمند اور بے داغ انتخابات منعقد کرائيں۔
قائد انقلاب اسلامی نے انتخابات ميں عوام کي شرکت کو ان کا حق اور فريضہ قرار ديا۔ آپ نے فرمايا کہ قوم کي ہر فرد جو اسلامي جمہوري نظام پر يقين رکھتي ہے اور ملک کے آئين کو قبول کرتي ہے، اپنے اس حق سے استفادہ اور اپنا يہ فريضہ پورا کرنا چاہتي ہے جبکہ اس درميان کچھ لوگ اپني صلاحيتيں عوام کے سامنے پيش کرنا چاہتے ہيں۔
آپ نے ايراني قوم کو تھکا دينے کي غرض سے سامراجي طاقتوں کي طرف سے عائد کي جانے والي پابنديوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمايا کہ سامرجي طاقتيں ماضي کے برخلاف اب صراحت کے ساتھ اعتراف کر رہي ہيں کہ پابنديوں کا مقصد، عوام کو تھکا مارنا ہے، عوام کو اسلامي جمہوري نظام کے خلاف ورغلانا، ايراني حکام پر دباؤ بڑھانا اور سرانجام انہيں اپنا طور طریقہ اور پاليسياں بدلنے پر مجبور کرنا ہے ليکن اسلام اور انقلاب کے اصولوں کي جانب ايراني عوام کے جھکاؤ اور ايرانيوں کے قومي وقار ميں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے اور يہ وہ چيز ہے جو دشمن کي خواہش کے خلاف ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسم‌اللّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

قم کے تمام بھائیوں بہنوں، عزیز نوجوانوں، علمائے کرام، طلاب محترم، اعلی علمی شخصیات کو خوش آمدید کہتا ہوں جو اس انتہائی اہم مناسبت پر ایک بار پھر ہمارے حسینیہ (امام باڑے) میں تشریف لائے اور اپنے وجود کی برکتوں، پاکیزہ احساسات و جذبات اور دانشمندانہ و مدبرانہ گفتگو سے فضا کو معطر کر دیا اور نو جنوری کے لازوال تاریخی واقعے کی یاد تازہ کر دی۔ یہاں پڑھی جانے والی پرمغز نشید کے سلسلے میں آپ کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔
انیس دی (مطابق نو جنوری) کا واقعہ اور ہر سال اس کی یاد منانے کی روایت کسی چیز کی بار بار تکرار اور عادتا انجام دیا جانے والا کوئی فعل نہیں ہے۔ یہ ایک اصولی اور کلیدی مسئلہ ہے۔ یہ چیز ہماری تمام اہم تاریخی مناسبتوں میں نظر آتی ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل جس نے اوائل انقلاب کی نوجوان نسل کی ذمہ داری اس وقت اپنے دوش پر اٹھائی ہے، ان تاریخی واقعات کو بار بار یاد کرکے اپنی تحریک اور اپنے مشن کی تاریخی حیثیت اور ماہیت کا تعارف کراتی ہے اور اسے خود بھی باقاعدہ اس کا احساس و ادراک ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ملت ایران کو اس منزل پر پہنچانے کے لئے جو جفاکشی اور جانفشانی کی گئی ہے، جو سختیاں برداش کی گئی ہیں، جن خطرات کا عوام نے بے جگری کے ساتھ سامنا کیا ہے، ان کی قدر کرنا ضروری ہے، انہیں بیان کرنا لازمی ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آج ملت ایران کے پاس جو کچھ ہے وہ آسانی سے ہاتھ آ جانے والی نعمت نہیں ہے، حادثاتی اور اتفاقی طور پر مل جانے والی دولت نہیں ہے۔

«رو خطر كن ز كام شير بجوى»

ملت ایران نے خطرات مول لئے، سختیاں برداشت کیں، جانوں کا نذرانہ دیا، طاغوتی حکومت کے ظالم اہلکاروں کے سامنے سینہ سپر ہو گئی، لوگ قتل کئے گئے، شہید ہوئے، زخمی ہوئے، تب جاکر یہ عظیم اور پرعزم کارواں اپنے راستے پر پہنچ سکا اور اس منزل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ یہ دوسرا اہم نکتہ ہے۔
تیسرا اہم نکتہ وہ حیاتی سبق ہے جو آج ہمیں مل رہا ہے۔ ہمارے عزیز نوجوانوں نے ان ایام کو نہیں دیکھا ہے، انہیں اندازہ نہیں ہے کہ اس وقت کیا حالات تھے؟ جن لوگوں نے وہ زمانہ دیکھا ہے انہیں معلوم ہے کہ طاغوتی حکومت کے استبداد کے سامنے پائیداری سے ڈٹ جانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ ظواہر کے جال میں اسیر رہنے والے مصلحت کوش افراد سے اگر کہا جاتا تھا کہ ایرانی عوام یا مثال کے طور پر اہل قم طاغوتی پہلوی حکومت کے سامنے علم بغاوت بلند کرنا چاہتے ہیں اور اسے نابود کر دینے کا ارادہ رکھتے ہیں تو تضحیک آمیز ہنسی ہنستے تھے اور کہتے تھے کہ کیا محال کام بھی انجام دئے جا سکتے ہیں؟ لیکن یہ کارنامہ انجام پایا۔ محال نظر آنے والا کام بھی ممکنات کے دائرے میں آیا، انجام بھی پایا اور ہمیشہ کے لئے یادگار بن گیا۔ یہ ایک سبق ہے۔
آج بھی ملت ایران کے پیش نظر کچھ بلند اہداف ہیں، اس کے کچھ عزائم ہیں، اس کے کچھ بلند مقاصد ہیں۔ اپنے وطن عزیز کے لئے بھی، دنیائے اسلام کے لئے بھی اور عالم بشریت کے لئے بھی۔ اس قوم کے سامنے کچھ وحشی اور بھوکے بھیڑئے اور آوارہ پھرنے والے درندے، یہ طاقت و دولت کی کمپنیاں اور دنیا طلب و دنیا پرست گروہ صف آرا ہیں۔ اسلحہ تیار کرتے ہیں، ہتھیار ایکسپورٹ کرتے ہیں، جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں، اقوام متحدہ کو اپنی مرضی و خود غرضی کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔ جہاں چاہتے ہیں اپنے فوجی اتار دیتے ہیں، جرائم انجام دیتے ہیں، ظلم کی حمایت کرتے ہیں، غاصب صیہونیوں کی پشت پناہی کرتے ہیں، انسانی معاشرے میں ظلم کا بازار گرم کرتے ہیں۔ اسی ظاہری طاقت کے ذریعے اور اسی ظاہری رعب و دبدبے کی بدولت جس کا ایک نمونہ ہم نے ایران میں طاغوتی پہلوی دور میں دیکھا ہے۔ آج بھی کچھ لوگ اسی طرح یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ دولت و طاقت، میڈیا، سیاست اور اقتصاد کی اتنی عظیم اور منظم طاقت کے سامنے کیا کوئی ٹک سکتا ہے؟ کیا ان سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے؟ آج بھی وہی باتیں کی جا رہی ہیں۔ حالانکہ تجربہ گواہ ہے کہ استقامت کی جا سکتی ہے اور یہ ہماری بات نہیں ہے بلکہ خود قرآن نے کہا ہے کہ اگر تم نے اللہ کے لئے میدان میں قدم رکھے اور پائیداری و استقامت کا ثبوت دیا تو فتح و کامرانی یقینی ہے۔ «و لو قاتلكم الّذين كفروا لولّوا الأدبار ثمّ لا يجدون وليّا و لا نصيرا سنّة اللّه الّتى قد خلت من قبل و لن تجد لسنّة اللّه تبديلا».(1) یہ صرف صدر اسلام کی جنگ سے مخصوص نہیں ہے یہ تو قرآن کے بقول«و لو قاتلكم الّذين كفروا لولّوا الأدبار»؛ سنّت خداوندی ہے۔ بیشک اگر ہمیں اپنی بات کے تمام جوانب کا علم نہیں ہے، یا ہم اپنی بات کہنے کا طریقہ نہیں جانتے، یا اپنی بات پر ہم خود قائم رہنے کا حوصلہ نہیں رکھتے، یا شیطانی وسوسوں میں پڑ کر ہمارے اندر تساہلی اور غفلت کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے تو پھر مجاہدت اور جدوجہد کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا، یہ تو سب جانتے ہیں۔ ساری بحث: «لينصرنّ اللّه من ينصره».(2) میں مضمر نکتے کے بارے میں ہے۔ اللہ کی مدد کرنے کا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ تدبر کیا جائے، جدید افکار و نظریات کا ذخیرہ تیار کیا جائے، اسے دنیا میں صحیح شکل میں پیش کیا جائے، پھر اس پر ثابت قدمی سے قائم رہا جائے، اس کو آگے لے جانے کی فکر کی جائے، اس سفر میں پیش آنے والے خطرات کا بے خوفی کے ساتھ مقابلہ کیا جائے۔ اگر ہم اسے انجام دینے میں کامیاب ہو گئے تو اللہ تعالی یقینا ہماری نصرت کو آئے گا۔ لینصرنّ کا مفہوم یہی ہے۔ یعنی اللہ ضرور بالضرور مدد کرے گا۔. «و من اصدق من اللّه قيلا»؛(3) اللہ سے زیادہ سچا کون ہو سکتا ہے؟
ملت ایران نے اسے عملی طور پر آزمایا۔ چنانچہ اگر آج بھی ہمارے عزیز عوام، ہمارے بلند ہمت اور پرعزم نوجوان اپنی اس راہ میں استقامت و پائیداری کا مظاہرہ کریں تو یہ طے ہے کہ اپنے وقت پر، مناسب حالات پیدا ہو جانے کے بعد تمام امنگیں اور تمام امیدیں پوری ہوں گی، تمام نعرے اور دعوے جامہ عمل پہنیں گے، صرف وطن عزیز کے دائرے میں ہی نہیں بلکہ عالم اسلام، امت اسلامیہ اور انسانی معاشرے کی سطح پر بھی اس کی عملی تصویریں نظر آئیں گی۔ ہر عمل اور فعل کے لئے خاص وقت اور مدت درکار ہوتی ہے، اس کا ایک مناسب وقت ہوتا ہے اور وہ وقت آ جانے پر امیدیں پوری ہوتی ہیں۔ جس منزل پر ملت ایران کی نگاہیں ہیں اور جس کی جانب اس کا سفر جاری ہے اس منزل تک وہ ضرور پہنچے گی بس شرط ہے استقامت و مزاحمت۔ جب وہ مطلوبہ منزل مل جائے گی تو پھر کیا صورت حال ہوگی؟ پوری دنیا کا راستہ تبدیل ہوتا دکھائی دے گا، تاریخ ایک نئی سمت میں مڑتی ہوئی محسوس ہوگی۔ آج تاریخ جس راستے پر چل رہی ہے وہ ظلم کا راستہ ہے، توسیع پسندی کا راستہ ہے۔ دنیا میں کچھ طاقتیں کشور گشائی اور توسیع پسندی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور کچھ اقوام ہیں جنہوں نے ان کی توسیع پسندی کا شکار ہونا اپنی قسمت سمجھ کر قبول کر لیا ہے۔ ان حالات میں اگر ملت ایران اپنے مشن میں کامیاب ہو گئی، اگر اسے اس کی مطلوبہ منزل مل گئی تو پھر تاریخ کا رخ ایک بار پھر بدلے گا۔ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کے لئے حالات سازگار ہوں گے، دنیا ایک نئے دور میں قدم رکھے گی۔ اس کا انحصار ہمارے عزم و ارادے پر ہے، اس کا دارو مدار ہماری اور آپ کی معرفت پر ہے۔ اللہ تعالی اپنے وعدوں کے ایفاء کی بابت لوگوں کے دلوں کو مطمئن کرنے کے لئے بعض وعدے کوتاہ مدت میں ہی پورے کر دیتا ہے۔ اللہ تعالی نے مادر موسی پر وحی نازل کی کہ: «فألقيه فى اليمّ». (بچےکو دریا میں ڈال دو) اس کے بعد ارشاد فرمایا: «انّا رادّوه اليك و جاعلوه من المرسلين».(4) اللہ نے دو وعدے کئے، بچے کو موج دریا کی آغوش میں دے دو اور گھبراؤ نہیں، ہم اسے تمہارے پاس واپس پلٹائیں گے اور اسے مقام نبوت پر فائز کریں گے۔ یہ در حقیقت وہ نبوت تھی جس کا انتظار بنی اسرائیل برسوں بلکہ صدیوں سے کر رہے تھے۔ پھر جب فرعون کے محل میں حضرت موسی کو دوبارہ آغوش مادر ملی تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ «فرددناه الى امّه كى تقرّ عينها و لا تحزن و لتعلم انّ وعد اللّه حقّ»؛(5) ہم نے ایک وعدے کو پورا کر دیا موسی کو ان کی آغوش میں لوٹا دیا تا کہ انہیں یقین ہو جائے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور دوسرا وعدہ بھی یقینا پورا ہوگا۔
اللہ تعالی نے ایرانی عوام کے ساتھ بھی یہی لطف کیا اور بہت سے وعدوں کی تکمیل فرمائی، بڑے عظیم کام انجام پائے۔ میرے عزیز نوجوانو! آپ یقین جانئے کہ اس زمانے میں کوئی بھی یہ باور کرنے کو تیار نہیں تھا کہ طاغوتی سلطنتی نطام کو ہلایا جا سکتا ہے، اسے نابود کرنا تو خیر بہت بڑی بات تھی۔ لیکن آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ طاغوتی نظام جو دنیائے اسلام کا بد ترین نطام تھا، ایران سے مکمل طور پر مٹ گیا اور معروف محاورہ ہے؛ تاریخ کے اوراق کی نذر ہو گیا۔ اس زمانے میں اگر کوئی یہ کہتا تھا کہ ایران امریکی تسلط کے چنگل سے آزاد ہو سکتا ہے تو جن لوگوں کو امور مملکت کا علم تھا، وہ پورے وثوق سے یہی کہتے تھے کہ ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ ملک کے جملہ امور اور تمام دراز مدتی پالیسیاں امریکیوں کے ہاتھ میں تھیں۔ بسا اوقات وہ جزوی باتوں اور معاملات میں بھی دخل اندازی کرتے تھے؛ کہ فلاں وزارت خانے کا قلمدان کس کو دیا جائے، کسے نہ دیا جائے، تیل کی قیمت میں کتنا اضافہ کیا جائے۔ جس طرح کا تسلط امریکا نے اور اسی کے طفیل میں دیگر عالمی اوباشوں نے ہمارے ملک پر، ہمارے عوام پر، ہمارے مفادات اور ہماری عزت و آبرو پر جما لیا تھا، اس کو دیکھتے ہوئے کون سوچ سکتا تھا کہ یہ غلامی ایک دن ختم ہو جائے گی؟ آج آپ دیکھئے! دنیا میں اگر کبھی آزاد و خود مختار اور امریکا اور اس کے جیسی دیگر سامراجی طاقتوں کی استکباری پالیسیوں سے خود کو بالاتر رکھنے والی قوم کی بات ہوتی ہے تو ایران کا نام لیا جاتا ہے۔ دیگر قومیں ملت ایران کو تحسین آمیز نگاہ سے دیکھتی ہیں، اس استقامت کو دیکھ کر ان میں جوش و خروش پیدا ہو جاتا ہے، اس صاف گوئی کو دیکھ کر، اس شجاعت کو دیکھ کر اور اس ثابت قدمی کو دیکھ کر ان میں بھی ہیجان پیدا ہوجاتا ہے۔
پوری سامراجی دنیا نے، تمام سامراجی حکومتوں نے آپس میں ساز باز کرکے ملت ایران پر پابندیاں عائد کیں کہ ان پابندیوں سے ملت ایران کو جاں بلب کر دیں، اسے تھکا ماریں اور اس کے جذبہ استقامت کا امتحان لیں۔ وہ خود کہتی بھی ہیں کہ ہمارا ارادہ یہ ہے کہ ایرانی عوام کو اسلامی جمہوری نظام کے مقابل کھڑا کر دیں، تا کہ اسلامی جمہوریہ کے حکام کے اندازے اور ان کی پالیسیاں تبدیل ہوں۔ یہ بات وہ صراحت سے کہتے ہیں۔ اوائل میں جب ہم اپنے تجزئے میں یہی بات کہتے تھے، اس وقت یہ طاقتیں اس صراحت کے ساتھ یہ بات نہیں کہتی تھیں، لیکن آج وہ صاف صاف کہہ رہی ہیں۔ اس کا جو نتیجہ نکلا ہے وہ آپ اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی اصولوں کی طرف، انقلابی اہداف کی طرف، استقامت و خداداد عزت و وقار کی طرف ملت ایران کا رجحان اور میلان روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ دشمنوں نے جو سوچا اس کے بالکل برخلاف نتیجہ سامنے آیا ہے۔ یہ اللہ تعالی کی جانب سے ہمیں ملنے والے اہم سبق ہیں۔ انہی اسباق میں سے ایک اہم سبق یہی 19 دی (مطابق 9 جنوری) کا واقعہ ہے، جس کا سہرا آپ اہل قم کے سر ہے۔ البتہ اہل قم کے پاس یہی ایک افتخار نہیں ہے بلکہ تاریخ میں بے شمار افتخارات ہیں جو قم سے وابستہ ہیں۔ اس نوے سال کے عرصے میں، سو سالہ مدت میں قم سے بے شمار چشمے جاری ہوئے ہیں۔ اہل قم نے ہی الحاج شیخ رضوان اللہ علیہ کا کھلے دل سے استقبال کیا، انہیں لاکر اس عظیم دینی درسگاہ کی داغ بیل رکھوائی۔ اس دینی درسگاہ میں دینی تربیت کا بے مثال اور غیر متوقع گہوارہ تیار ہوا جو اہل قم کی بلند ہمتی کی برکتوں کا نتیجہ تھا۔ تربیت کا وہ عظیم گہوارہ جس سے ہمارے عظیم الشان امام خمینی جیسی شخصیت نکلی اور اس ملک ہی نہیں بلکہ دنیا کے اس عظیم واقعے کو جنم دیا۔ سنہ تیرہ سو بیالیس ہجری شمسی (مطابق انیس سو ترسٹھ عیسوی) کے واقعات، سنہ تیرہ سو اکتالیس (انیس سو باسٹھ) کے واقعات، انقلابی تحریک سے وابستہ نشیب و فراز، مسلط کردہ جنگ کے واقعات اور دیگر تمام مراحل میں قم کا کردار اور اس کا تعاون بہت نمایاں نظر آتا ہے اور میری دعا ہے کہ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے۔ میں آپ عزیز اہل قم کی خدمت میں ایک اہم نکتہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تحریک میں اور جدو جہد میں پوری ہوشیاری اور ذہانت کے ساتھ دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا، اس کی باریکیوں کو بھانپ لینا، اس کے عزائم کو سمجھ لینا، بیحد اہم ہوتا ہے۔ اگر آپ کسی ذاتی لڑائی میں، شخصی دفاع کے مسئلے میں اپنے حریف کے مقابل کھڑے ہیں اور اس کی نقل و حرکت کو بغور دیکھ رہے ہیں تو وہ آپ کو کوئی ضرب نہیں لگا پائے گا۔ لیکن اگر آپ کی توجہ ہٹی، آپ نے کوئی بھی غفلت برتی، آپ کا ارتکاز ختم ہوا، آپ کا ذہن کسی اور چیز میں مشغول ہوا اور آپ پہلے سے اندازہ نہیں کر پائے کہ دشمن کیا اقدام کرنا چاہتا ہے تو یقینا آپ مار کھا جائیں گے۔ دشمن سویا نہیں ہے، وہ جاگ رہا ہے۔: «و انّ اخا الحرب الأرق و من نام لم‌ينم عنه».(6) اگر آپ کے حواس درست نہیں ہیں، اگر آپ اپنی پوزیشن کی طرف سے غافل ہیں تو ضروری نہیں ہے کہ وہ دشمن بھی غافل ہو جو آپ کے مقابل کھڑا ہے۔ ممکن ہے کہ پوری توجہ سے وہ آپ پر نظر رکھے ہوئے ہو اور اسی لمحہ آپ پر وار کر دے۔ تو ذہن بیدار رہنا چاہئے۔ ہم یہ جو اتنی تاکید کرتے ہیں، سفارش کرتے ہیں، حکام سے بھی کہتے ہیں، عوام سے بھی کہتے ہیں کہ خود کو فروعی اور جزوی مسائل میں نہ الجھائیے، اس کی وجہ یہی ہے۔ ہم جو اخبارات و جرائد کو، ذرائع ابلاغ کو، ویب سائٹوں کو جن کا آج کل بہت رواج ہو گیا ہے، بار بار سفارش کرتے ہیں کہ غلط باتوں اور موضوعات کو جو عوام کے ذہن کو الجھا سکتے ہیں، منظر عام پر پیش نہ کیجئے، اسی وجہ سے کرتے ہیں۔
قوم کے حواس بجا ہونے چاہئے، اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اس کے قدم کس سمت میں بڑھ رہے ہیں، اسی کو اجتماعی تقوی بھی کہتے ہیں۔ قوم کو علم ہونا چاہئے کہ کیا اقدام کرنے جا رہی ہے، پوری طرح چوکس رہے کہ اس پر کہاں سے وار ہو سکتا ہے۔ شخصی رفتار و گفتار میں بھی اگر ہمارے اندر تقوا ہے تو ہم اپنے اعمال کی بابت محتاط رہیں گے، اپنے ہر عمل پر بغور نظر رکھیں گے۔ جس جگہ انسان کے پاؤں پھسل رہے ہیں وہاں وہ قدم نہیں رکھتا۔ جہاں سقوط اور گر جانے کا خطرہ ہے وہاں انسان بہت چوکنا ہو جاتا ہے۔ یہ بہت ضروری ہوتا ہے۔
دشمن کی نقل و حرکت کے جائزے سے جو چیز سامنے آتی ہے اور آج میں جس نتیجے پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ ابھی انتخابات کو بیشک پانچ مہینے کا وقت باقی ہے لیکن دشمن ابھی سے انتخابات کی فکر میں لگ گيا ہے۔ آئندہ خرداد (مئی-جون) مہینے میں جو انتخابات ہونے والے ہیں، وہ اگر ہماری نظر سے اہم ہیں تو دشمن کے نقطہ نگاہ سے بھی خاص اہمیت کے حامل ہیں، چنانچہ دشمن کی توجہ انتخابات پر مرکوز ہے۔ اگر اس کے بس میں ہوتا کہ انتخابات کو رکوا دے تو وہ یقینا کچھ نہ کچھ ایسی حرکت کر دیتا کہ انتخابات منعقد نہ ہو پاتے۔ لیکن یہ اس کے بس میں نہیں ہے، یہ اس کی توانائی میں نہیں ہے، اس کی طرف سے تو وہ مایوس ہے کہ انتخابات رکوانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ایک دفعہ کچھ لوگوں نے پارلیمانی انتخابات کو التوا میں ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ ہم سے بھی کہا کہ اگر ممکن ہے تو انتخابات کو دو ہفتے کے لئے ڈال دیجئے۔ ہم نے کہا کہ ہرگز نہیں، انتخابات کا انعقاد اپنے معینہ وقت پر ہی ہونا چاہئے، ایک دن آگے نہ پیچھے۔ وہ ناکام ہو گئے، ان کی کوششیں بے سود رہیں۔ اس کا انہیں تجربہ ہو چکا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ انتخابات میں تاخیر ممکن نہیں ہے، لہذا اب دوسرے راستے تلاش کر رہے ہیں۔
دشمنوں کی ایک کوشش یہ بھی ہے کہ انتخابات میں عوام کی شرکت بہت محدود ہو۔ یہ بات سب ذہن نشین کر لیں کہ اگر کوئی ہمدردی کے تحت ہی سہی یس؛ طرح کی عام سفارش کرنا چاہتا ہے کہ انتخابات اس طرح کے ہوں، فلاں چیزیں انتخابات میں نہ ہونے پائیں وہ اس پہلو پر ضرور نظر رکھے کہ کہیں دشمن کے مقصد کی برآری میں مددگار تو ثابت نہیں ہو رہا ہے، کہیں لوگوں کو انتخابات سے مایوس تو نہیں کر رہا ہے۔ بار بار اسی بات کی رٹ نہ لگائیں کہ انتخابات آزاد اور شفاف ہوں۔ سب جانتے ہیں کہ انتخابات کا آزادانہ اور شفاف انعقاد ضروری ہے۔ ابتدائے انقلاب سے اب تک ہم تیس سے زائد انتخابات منعقد کر چکے ہیں۔ کب انتخابات آزادانہ نہیں ہوئے؟ کون سا ملک ہے جہاں ایران سے زیادہ آزادانہ انتخابات ہوتے ہیں؟ کون سا ملک ہے جہاں امیدوار کی صلاحیت اور اہلیت نہیں دیکھی جاتی، جو ان باتوں پر اتنا ہنگامہ کیا جا رہا ہے، بار بار کہا جا رہا ہے، بار بار اعادہ کیا جا رہا ہے کہ رفتہ رفتہ عوام کے ذہنوں میں یہ خیال پیدا ہو کہ ان انتخابات کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے؟ یہ در حقیقت دشمن کی خواہش ہے۔ ملک کے اندر جو لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں، ممکن ہے کہ وہ غفلت میں ایسا کر رہے ہوں۔ لیکن میرا کہنا ہے کہ آپ غفلت کا شکار نہ ہوئیے، اپنے حواس بجا رکھئے، تا کہ آپ کے اس عمل سے دشمن کے مقاصد کی تکمیل نہ ہو، آپ اس کا ہدف پورا ہونے کا ذریعہ نہ بنئے۔ تو یہ انتخابات کی رونق اور آب و تاب کم کرنے کا دشمن کا ایک حربہ ہے۔
ایک اور مسئلہ عوام میں یہ تاثر پھیلانے کا ہے کہ انتخابات میں اتنی شفافیت نہیں ہے جتنی ہونی چاہئے۔ ویسے میں بھی تاکید کرتا ہوں کہ انتخابات صاف ستھرے اور شفاف ہوں لیکن یہ بات کہنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ میں، ہمارے قوانین میں انتخابات کی صحتمندی اور شفافیت کو یقینی بنانے کے قانونی راستے موجود ہیں۔ اب اگر کوئی چاہے کہ غیر قانونی طریقے سے عمل کرے تو اس سے وطن عزیز کو نقصان پہنچے گا۔ جیسے دو ہزار نو میں کچھ لوگوں نے غیر قانونی راستے اختیار کرنے کی کوشش کی تو وطن عزیز کو بڑی قیمت چکانی پڑی، عوام الناس کے لئے مشکلات کھڑی ہوئیں اور یہ افراد دنیا و آخرت میں خود اپنی بدبختی و سقوط کے باعث بنے۔ بڑے اچھے قانونی راستے موجود ہیں۔ بیشک میں بھی تاکید کرتا ہوں کہ انتخابات شفاف اور صحتمند ہوں۔ حکومت سے تعلق رکھنے والے افراد اسی طرح انتخابات کے لئے کام کرنے والے دیگر افراد سب قانون کے مطابق پوری توجہ سے اور تقوی و پاکدامنی کا پورا خیال رکھتے ہوئے اپنا کام کریں تا کہ صحیح و سالم انتخابات ہوں اور یقینی طور پر ایسا ہی ہوگا۔
دشمن کا ایک حربہ یہ ہے کہ انتخابات کے زمانے میں لوگوں کے ذہنوں کو کسی مختلف مسئلے میں الجھا دے۔ کوئی واقعہ معرض وجود میں لائے، کوئی نیا قضیہ اٹھائے، کوئی سیاسی بکھیڑا کھڑا کرے، کوئي اقتصادی مسئلہ اٹھائے یا سیکورٹی سے متعلق کوئی شگوفہ چھوڑے جس میں لوگ الجھ کر رہ جائیں۔ یہ دشمن کی سازش کا حصہ ہے تا ہم مجھے یقین ہے کہ ملت ایران کی بصیرت و دور اندیشی ایسی ہے کہ دشمن اور اس کے زر خریدوں کے ان معاندانہ حربوں سے متاثر ہونے والی نہیں ہے۔ انشاء اللہ انتخابات فضل پروردگار سے جوش و جذبے کے ساتھ انجام پائیں گے۔ البتہ انتخابات کے بارے میں مجھے بہت کچھ کہنا ہے۔ اگر زندگی رہی تو آئندہ دنوں میں انتخابات کے بارے میں مزید گفتگو کروں گا۔ کچھ سفارشیں، باتیں اور نکات ہیں جنہیں بیان کرنا ہے تاہم اس وقت اختصار سے ہی عرض کروں گا۔ آپ دھیان رکھئے کہ انتخابات ایک فریضے اور ایک حق سے عبارت ہیں۔ ملت ایران کی ایک فرد ہونے کی حیثیت سے ہم میں ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ انتخابات میں شرکت کریں اور ساتھ ہی یہ ایک فریضہ بھی ہے جسے ہمیں پورا کرنا ہے۔ جو لوگ اسلامی جمہوری نظام پر عقیدہ رکھتے ہیں، آئین کو دل سے قبول کرتے ہیں، وہ اپنے اس حق سے بھی استفادہ کرتے ہیں اور اپنا فریضہ بھی پورا کرتے ہیں۔ یہ فریضہ ہر کسی کو پورا کرنا ہے۔ ایک شخص (امیدوار) کا فریضہ یہ ہے کہ عوام کے سامنے اپنی لیاقت اور صلاحیت کو پیش کرے۔ جو شخص بھی اپنے کو اہل سمجھتا ہے، اپنے اندر اجرائی امور کی توانائی پاتا ہے سامنے آئے اور خود کو انتخابات کے لئے پیش کرے۔ ملک کو چلانا اور اجرائی شعبے کو سنبھالنا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ بڑے اور سنگین کام مجریہ کے اعلی سطح کے عہدیداروں کے دوش پر ہوتے ہیں۔ جو لوگ نچلی سطح پر مصروف کار ہیں ممکن ہے وہ اس کام کی سنگینی کا اندازہ نہ کر پائیں کہ اس کا وزن کتنا زیادہ ہے۔ جو لوگ میدان میں اتر رہے ہیں ان میں اس بھاری بوجھ کو اٹھانے اور آگے لے جانے کی صلاحیت ہونا چاہئے۔ وہ صلاحیتیں جن کا تعین آئین نے کیا ہے اور شورائے نگہبان (نگراں کونسل) جن کو معیار قرار دیتی ہے امیدوار کے اندر موجود ہوں، وہ حقیقی معنی میں اسلامی نظام اور آئين سے قلبی لگاؤ رکھتا ہو، آئین کے نفاذ کا عزم رکھتا ہو۔ کیونکہ صدر مملکت حلف لیتا ہے کہ آئین کو نافذ کرے گا تو جھوٹی قسم تو کھائی نہیں جاتی۔ جو لوگ اپنے اندر یہ خصوصیات موجود پاتے ہیں وہ انتخابات کے میدان میں آئیں۔ جو لوگ انتخابی میدان میں نہیں اترنا چاہتے انہیں چاہئے کہ انتخابات میں شاندار عوامی شرکت اور انتخابات کے پرشکوہ انعقاد میں مدد کریں۔
میں آپ کی خدمت میں عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ اللہ کے وعدوں پر ہمارا جو اعتماد ہے اور یقینی طور پر اللہ کے وعدے برحق اور سچے ہیں، اس کے پیش نظر اس بات میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے کہ اللہ تعالی اس قوم کو موجودہ مرحلے میں بھی اور آئندہ مراحل میں بھی اپنے دشمنوں پر فتح و کامرانی عطا کرے گا۔ اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے اپنے تئیں ہمیں کسی بدگمانی و بے اعتمادی میں مبتلا نہیں ہونے دیا۔ «الظّانّين باللّه ظنّ السّوء»؛(7) ہمیں اس طرح کے لوگوں کے زمرے میں قرار نہیں دیا۔ ہم اللہ تعالی کے وعدوں کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہیں، ہمیں ان وعدوں پر مکمل اعتماد ہے۔ ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے نصرت و مدد کا وعدہ کیا ہے اور دوسری طرف انسان عوام الناس کی اس شراکت اور دلی تعاون کا مشاہدہ کرتا ہے، ان کے لگاؤ، ان کے بلند حوصلے کو دیکھتا ہے، ان نوجوانوں کے اخلاص، ان کی پاکیزگی ، ملک بھر میں ان مومن اور محبت کرنے والے ماں باپ کو دیکھتا ہے، ہر طبقے، ہر شکل اور ہر منظر نامے میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ قوم بحمد اللہ میدان میں بھرپور ثبات قدمی کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے۔
ہم اللہ تعالی کی بارگاہ میں یہ دعا کرتے ہیں کہ آپ اہل قم کو، قم کی عظیم الشان دینی درسگاہ کو اپنے لطف و کرم اور رحمت و عنایت سے نوازے۔ ہمارے عظیم الشان امام خمینی کی روح طیبہ کو جنہوں نے ہمارے لئے یہ راستہ تعمیر کیا، اپنے اولیائے خاص کے ساتھ محشور فرمائے۔ اس راہ میں ایثار و فداکاری کے نمونے پیش کرنے والے ہمارے شہیدوں کو اور راہ حق کے تمام مجاہدین کو اپنے فضل و کرم کے سائے میں رکھے اور ہمیں اس راستے پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عنایت فرمائے۔

والسّلام عليكم و رحمةاللّه و بركاته‌

1) فتح: 22 و 23
2) حج: 40
3) نساء: 122
4) قصص: 7
5) قصص: 13
6) نهج البلاغه، نامه‌ى 62
7) فتح: 6