19 بہمن 1391 ہجری شمسی مطابق 7 فروری 2013 کو فضائیہ کے کمانڈروں، عہدیداروں اور اہلکاروں سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ ملت ایران عیارانہ چالوں سے متاثر ہونے والی نہیں ہے، آپ نے فرمایا کہ ایران کی باوقار، دور اندیش اور ثابٹ قدم قوم جشن انقلاب کے دن بھرپور اتحاد کے ساتھ اور سبق سکھا دینے والے انداز میں سامنے آئیگی اور ملک گیر سطح پر انقلابی عمل انجام دیکر اسلامی نطام اور انقلاب سے عوام کو دور کرنے کی دشمن کی سازشوں کو ایک بار پھر نقش بر آب کر دے گی۔

قابل ذکر ہے کہ فصائیہ کے کمانڈروں اور اہلکاروں کی یہ ملاقات آٹھ فروری سنہ انیس سو اناسی کو حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے ہاتھوں پر فضائیہ کی بیعت کے دن کی مناسبت سے انجام پاتی ہے

قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران کی موجودہ عظیم پوزیشن اور چونتیس سال قبل کی اس کی صورت حال کے درمیان نمایاں فرق کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ان تین دہائیوں کے دوران ایرانی عوام نے دیگر اقوام کو بھی یہ سکھایا کہ اغیار کے تسلط کے سامنے ڈٹ جانا چاہئے اور ایسا کرنا دائرہ امکان سے باہر نہیں ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے عشرہ فجر سے موسوم دس روزہ جشن انقلاب اسلامی کو مختلف میدانوں میں اسلامی نظام اور ملت ایران کی پیشرفت کا جائزہ لینے کا بہترین موقعہ قرار دیا اور فرمایا کہ اس جائزے سے ہمیں اندازہ ہوگا کہ مستقبل کے لئے ہمیں کس راستے کا انتخاب کرنا ہے اور اس سفر کو کیسے طے کرنا ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے دشمن کی گوناگوں چالوں کا ذکر کرتے ہوئے کودتا، فوجی اشتعال انگیزی، مخالفین کی ہمہ جہتی مدد، فوجی تصادم، سافٹ وار، خبیث ابلاغیاتی سامراج کے شدید دباؤ اور سخت ترین پابندیوں کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ حالیہ تین دہائیوں میں انہوں نے جو بس میں تھا کیا کہ ملت ایران مایوسی کا شکار اور اسلام و اسلامی جمہوری نظام کی طرف سے بدگمانی میں مبتلا ہوکر میدان سے ہٹ جائے لیکن فضل خداوندی سے عوام کے جوش و جذبے اور وفاداری و جانفشانی میں اور بھی اضافہ ہوا۔

قائد انقلاب اسلامی نے امریکی حکام کی جانب سے ایران سے مذاکرات کی آمادگی کے مکرر اعلان کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ باتیں نئی نہیں ہیں بلکہ مختلف مواقع پر وہ اس کا اعادہ کرتے رہے ہیں اور ہر دفعہ ملت ایران نے ان کے بیانوں کو عملی اقدامات کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد اپنا فیصلہ سنایا ہے۔ امریکیوں کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہ اب گیند ایران کے کورٹ میں ہے، قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ گیند آپ کے کورٹ میں ہے، کیونکہ اس کا جواب آپ ہی کو دینا ہے کہ سختی اور دباؤ جاری رکھتے ہوئے مذاکرات کی بات کرنے کے کیا معنی ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ مذاکرات حسن نیت کے اثبات کے لئے ہوتے ہیں، آپ بری نیت کے ساتھ درجنوں اقدامات کر رہے ہیں اور پھر زبانی طور پر مذاکرات کی بات کرتے ہیں! کیا ایرانی عوام یہ اعتماد کر سکتے ہیں کہ آپ کی نیت صاف ہے؟ امریکی حکام کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہمیں خوب معلوم ہے کہ انہیں مذاکرات کی کتنی احتیاج ہے، کیونکہ امریکیوں کی مشرق وسطی اسٹریٹیجی شکست سے دوچار ہو چکی ہے اور وہ اسی شکست کا تدارک کرنے کے لئے کسی ترپ کے پتے کی تلاش میں ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ انقلابی و عوامی ماہیت والی اسلامیہ جمہوریہ کو مذاکرات کی میز تک لانا ایسا ترپ کا پتہ ہے جس کی امریکیوں کو شدید احتیاج ہے۔ آپ نے فرمایا کہ امریکی دنیا میں یہ تاثر پھیلانا چاہتے ہیں کہ وہ تو حسن نیت رکھتے ہیں لیکن کوئی اس نیک نیتی پر توجہ ہی نہیں دے رہا ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے دو ٹوک انداز میں فرمایا کہ میں ڈپلومیٹ نہیں ایک انقلابی انسان ہوں، اسی لئے اپنی بات صراحت، صداقت اور قطعیت کے ساتھ کہتا ہوں کہ مذاکرات کی پیشکش اسی وقت قابل فہم ہوگی جب اس کے ساتھ نیک نیتی کا بھی مظاہرہ کیا جائے۔ آپ نے امریکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایرانی عوام پر اسلحہ تانے کھڑے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ گفتگو کرو ورنہ فائر کر دیں گے! لیکن آپ یاد رکھئے کہ دباؤ اور مذاکرات کا کوئی تال میل نہیں ہے اور ملت ایران ان حیلوں سے متاثر ہونے والی نہیں ہے۔

قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم‌اللّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌
مجھے بے حد خوشی ہے کہ بحمد اللہ اس سالانہ ملاقات میں ایک بار پھر آپ عزیز بھائیوں سے، فرزندان و جوانان عزیز سے اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے فضائی شعبے کے جوانوں سے روبرو ہونے کا موقع میسر آیا۔ آپ سب کو تہہ دل سے خوش آمدید کہتا ہوں۔ جو ترانہ پیش کیا گیا، اس کے اشعار بھی بڑے با معنی، طرز بھی بہت اچھی اور پیش کرنے کا انداز بھی دلکش تھا، اعلی مضمون کا حامل ترانہ تھا۔ اللہ کرے کہ ہمارے اور آپ کے قلوب ہمیشہ رحمت و ہدایت خداوندی کی نسیم بہاری سے بہرہ مند رہیں کہ جو سب سے بڑا سرمایہ ہے۔

اگر اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کا عام جائزہ لیا جائے تو ان برسوں کے دوران بڑے عظیم حقائق نظروں کے سامنے آتے ہیں۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ آپ ہوائی جہاز کے کسی بھی پرزے کی تعمیر کرنے پر قادر تھے نہ اس کی آپ کو اجازت تھی لیکن آج یہ عالم ہے کہ آپ تربیتی طیارہ خود بنا رہے ہیں، جنگی طیارے خود تعمیر کر رہے ہیں، بڑے کلیدی کام آپ اپنے ہاتھ سے انجام دے رہے ہیں۔ انتہائی پیچیدہ پارٹس خود تیار کر رہے ہیں۔ فضائیہ کی سطح پر، پوری فوج کی سطح پر، ملک بھر میں مسلح فورسز کی سطح پر خود اعتمادی اور خود کفائی کی سمت میں مرکوز جدت عمل، ابتکار عمل، جذبہ عمل، کام سے عشق اور کام کی عظیم صلاحیتوں کی عظیم لہر ایک ایسی حقیقت میں تبدیل ہو چکی ہے جس کا ہمارے مخالفین بھی اور اسلامی جمہوریہ کے دشمن بھی انکار نہیں کر سکتے۔ سامراجی نظام نے دولت اور طاقت کے ذریعے، ہتھیاروں اور فوجی اقدامات کے ذریعے دنیا بھر کی اقوام اور ملکوں کے اختیارات کو اپنی مٹھی میں کر لینے کی منصوبہ بند کوششیں کی تھیں۔ اس نے قوموں کو یہ باور کرا دینے کی سازش رچی تھی کہ سپر طاقتوں کی مدد لئے بغیر، صاحبان دولت و طاقت کا آشیرباد حاصل کئے بغیر کہ جن کے پیشت پر اکثر و بیشتر صیہونی اور غیر صیہونی کمپنیاں ہیں، وقار، تشخص اور خود مختاری کا کوئی راستہ تلاش نہیں کیا جا سکتا لیکن آپ نے اس طلسم کو توڑ دیا۔ آج آپ جائزہ لیجئے اور ملت ایران کا موازنہ ان قوموں سے کیجئے جو تیس سال سے امریکی سامراج کے تسلط میں ہیں، پھر آپ دیکھئے کہ ملت ایران کس منزل پر ہے اور یہ قومیں کس مقام پر ہیں؟! ملت ایران تیس سال سے اپنی بات پوری آزادی سے بیان کر رہی ہے، اپنا حق بجانب موقف آزادانہ طور پر پیش کر رہی ہے، اس نے تسلط پسند طاقتوں کی پالیسیوں کو مسترد کرکے خود کو اس منزل پر پہچایا ہے۔ کچھ قومیں اور کچھ حکومتیں ایسی بھی تھیں اور ہیں جنہوں نے اس تیس سال کے عرصے میں امریکی تسلط میں زندگی بسر کی، امریکا کی غلامی کرنے والی حکومتیں جنہوں نے اپنے عوام کو امریکی تسلط کے پاؤں تلے کچلوا کر رکھ دیا، وہ بھی موجود ہیں۔ آپ دیکھئے کہ وہ آج کس مقام پر کھڑی ہیں؟! اور آپ کہاں پہنچ چکے ہیں؟! ملت ایران نے اپنے فیصلے سے، اپنے خود مختارانہ اقدامات سے، اپنی خود اعتمادی سے، اللہ کی ذات پر توکل کی خصوصیت سے ثابت کر دیا کہ اغیار اور توسیع پسندوں کے تسلط کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور ایسا کرنا لازمی ہے۔ اسے ملت ایران نے ثابت کر دیا۔ تیس سال قبل ملت ایران علم و دانش اور سائنس و ٹکنالوجی کے کارواں میں کس مقام پر تھی، سیاسی اثر و نفوذ کے لحاظ سے کہاں تھی اور آج کہاں ہے؟ استقامت و پائیداری کی برکت سے، اللہ کی ذات پر توکل کی برکت سے، تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے نتیجے میں یہ کامیابی ملی ہے اور یہ ایک اہم تجربہ ہے ملت ایران کے لئے بھی تجربہ ہے اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی سبق آموز تجربہ ہے، اسی طرح یہ دیگر اقوام کے لئے بہترین نمونہ عمل بھی ہے۔ اس استقامت اور اس نئی تحریک میں جو خود اعتمادی پر استورا تھی اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ قابل تقلید نمونہ ہے۔ اس سلسلے کو اسی طرح جاری رکھنا چاہئے، ہم ایرانی عوام کو اسی راستے پر آگے بڑھتے رہنا چاہئے، یہ بڑا بابرکت راستہ ہے۔ ملت ایران کے دشمن اس تیس سال سے زیادہ کے عرصے میں جو بھی ان کے بس میں تھا اس قوم کے خلاف کیا، ان کے ترکش میں کوئی بھی ایسا تیر نہیں ہے جو انہوں نے ملت ایران کے خلاف استعمال نہ کیا ہو۔ اشتعال انگیزیاں کیں، جنگ کا بازار گرم کیا، اسلامی جمہوریہ کے مخالفین کی بھرپور حمایت و پشت پناہی کی۔ فوجی حملے کئے، سافٹ وار کے حربے آزمائے۔ جو بھی ان کے بس میں تھا انہوں نے اس قوم کے خلاف کیا لیکن قوم اپنی جگہ پر ثابت قدمی سے ڈٹی رہی، پائيداری سے کھڑی رہی۔ دشمن صرف یہی نہیں کہ اس قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کر سکے بلکہ اس کی پیشرفت کا سلسلہ بھی نہیں روک پائے، اس قوم نے مسلسل ترقی کی شاہراہ پر پیش قدمی کی ہے۔ ان کے بس میں جو بھی تھا انہوں نے کیا، سازشیں رچیں، بغاوتیں کروائیں، فوجی اشتعال انگیزی کی، ہمارے طیارے پر حملہ کیا، پابندیوں میں زیادہ شدت پیدا کی، روز بروز پابندیوں میں لگاتار اضافہ کیا، اس امید پر کہ ایرانی قوم کو میدان سے خارج کر دیں، اس قوم پر قنوطیت مسلط کر دیں، قوم کو اسلام اور اسلامی جمہوری نظام کی بابت بدگمانی میں مبتلا کر دیں لیکن انہیں کوئی کامیابی نہیں ملی۔ یہ اسلامی جمہوریہ کا شاندار کارنامہ ہے۔

آج کل کے یہ ایام، عشرہ فجر (جشن انقلاب کے دس دن) کے ایام بہترین موقعہ ہیں کہ ہم اپنی ممتاز شخصیتوں، اپنے بیدار مغز بھائيوں، اپنے نوجوانوں اور اپنی قوم کے کارناموں کا جائزہ لیں جو انہوں نے چونتیس سال کے عرصے میں انجام دئے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ اپنی پیشرفت کا جائزہ لیں، کامیاب کوششوں پر ایک نظر دوڑائیں، نصرت الہی کے مواقع کو یاد کریں، دشمنوں کے مکر و حیلے کی ناکامی کو دیکھیں۔ و مكروا و مكر اللّه و اللّه خير الماكرين(1) یہ ہمارے لئے ایک کلی لائحہ عمل ہے جس کی بنیاد پر ہم اپنے مستقبل کے راستے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ آپ بھی فضائیہ کے اندر اسی نقطہ نگاہ کے ساتھ اور اسی نہج پر چلئے اور آگے بڑھئے۔ ملک کے مختلف شعبے، عوام، حکام سب اسی طرز فکر کے ساتھ آگے بڑھیں۔ بیشک دشمن ہمیں پریشن کرے گا، اذیتیں دینے کی کوشش کرے گا، لیکن پریشان کرنے اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کے علاوہ وہ اور کچھ نہیں کر سکتا۔ میں نے چند روز قبل عرض کیا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے؛ لن يضرّوكم الّا اذى ؛(2) ان کا کام آپ کو اذیت پہنچانا ہے لیکن وہ آپ کی پیش قدمی کو نہیں روک سکتے، آپ کا راستہ مسدود نہیں کر سکتے۔ ملت ایران کے خلاف تیس سال سے زیادہ کے عرصے میں امریکیوں نے کتنی رجز خوانی کی، جو بس میں تھا کہا اور کیا، خوب پروپیگنڈا کیا اور ایرانی عوام کے خلاف میڈیا کے سامراج کو خوب استعمال کیا لیکن سب بے سود رہا۔ آج فضل پروردگار سے ملت ایران ہمیشہ سے زیادہ شاداب، پرعزم، مصمم اور فعال ہے، مختلف شعبوں میں دن دونی رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے۔ دشمنوں کی یہ کوشش تھی کہ عوام کو اسلامی جمہوری نطام سے اور اسلامی انقلاب سے دل برداشتہ کر دیں۔ ہر سال بائیس بہمن (مطابق گیارہ فروری، انقلاب کی سالگرہ کی تاریخ) کو ملت ایران نے عمومی سطح پر پیش کئے جانے والے قومی و انقلابی منظر نامے میں اپنی پرجوش شراکت کے ذریعے دشمن کو شکست سے دوچار کیا۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ عوام کو اسلامی نظام سے جدا کر دیں۔ امریکا کی سابق ناتجربہ کار وزیر خارجہ (ہلیری کلنٹن) نے صریحی طور پر کہا کہ ہم یہ پابندیاں اس لئے عائد کر رہے ہیں کہ ایران کے عوام اسلامی نطام کے مقابل کھڑے ہو جائیں۔ ایرانی عوام نے ان کی ان حرکتوں کا جواب اپنے عملی اقدامات اور اپنی ریلیوں کے ذریعے دیا ہے اور آپ دیکھیں گے 22 بہمن (جشن انقلاب کی سالگرہ کی تاریخ) کو عوام ایک بار پھر اپنی دنداں شکن شراکت سے دشمن کو ایک بار پھر شکست دیں گے۔ ...(3) سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قوم بیدار ہے، بصیرت رکھتی ہے، دشمن کی نقل و حرکت کا مطلب خوب سمجھتی ہے، دشمن کے اقدامات کے رخ کو پہچان لیتی ہے، عوام فورا سمجھ جاتے ہیں کہ دشمن نے کون سی پالیسی کیوں اپنائی ہے اور پھر وہ اس کے عین برخلاف سمت میں آگے بڑھتے ہیں اور انہیں جو کچھ حاصل ہوا ہے اس پر اپنے اطمینان کا اظہار کرتے ہیں، عوام قومی وقار کے اس عظیم میدان میں اپنی بھرپور شراکت کا ثبوت دیتے ہیں، اپنی توانائی کا مظاہرہ کرتے ہیں، نمایاں تعاون کرتے ہیں، عوام کے اندر پائی جانے والی ہمہ گیر بصیرت بہت بڑا حسن ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے کہ عوام دشمنوں کے پروپیگنڈے کے باوجود جس میں امریکی اور صیہونی حلقے سب سے زیادہ پیش پیش ہیں، کبھی بھی وہ غلطی نہیں کرتے جو دشمن ایرانی عوام سے چاہتا ہے۔ یہ ہمارے بڑے اور دراز مدتی معاملات کے سلسلے میں بہت اہم بات ہے۔

امریکیوں نے حالیہ دنوں میں ایک بار پھر مذاکرات کا شگوفہ چھوڑا ہے۔ بار بار کہہ رہے ہیں کہ امریکا ایران سے مذاکرات کے لئے آمادہ ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مذاکرات کی بات تو امریکی ہمیشہ بار بار دہراتے رہے ہیں۔ اس وقت میدان کے نووارد امریکی سیاستدانوں نے ایک بار پھر وہی رٹ لگائی ہے کہ مذاکرات کیجئے۔ کہتے ہیں کہ گیند اب ایران کے کورٹ میں ہے، جبکہ حقیقتا گیند آپ کے کورٹ میں ہے۔ جواب آپ کو دینا ہے۔ آپ کو واضح کرنا ہے کہ دباؤ اور دھمکی کے ساتھ انجام دئے جانے والے مذاکرات کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ مذاکرات نیک نیتی ثابت کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ آپ دس کام ایسے کرتے ہیں جو آپ کے برے عزائم کی نشاندہی کرتے ہیں اور زبان سے آپ یہ رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ مذاکرات کیجئے! آپ کو توقع ہے کہ ملت ایران آپ کی نیک نیتی کا یقین بھی کر لے! ویسے ہمیں خوب اندازہ ہے کہ ان دنوں امریکی دوبارہ مذاکرات کا شگوفہ کیوں چھوڑ رہے ہیں۔ بار بار الگ الگ انداز میں یہی بات کیوں دہرا رہے ہیں۔ ہمیں اس کی وجہ معلوم ہے۔ بقول خود امریکیوں کے ان کی مشرق وسطی سے متعلق اسٹریٹیجی شکست سے دوچار ہوئی ہے۔ علاقے میں امریکا اپنی پالیسیوں کے سلسلے میں اوندھے منہ گرا ہے۔ اب امریکیوں کو ترپ کے پتے کی سخت ضرورت آن پڑی ہے، ان کے خیال میں ترپ کا پتہ یہ ہو سکتا ہے کہ اسلامی، عوامی اور انقلابی نظام کو مذاکرات کی میز پر لائیں۔ سر دست اس کی انہیں شدید ضرورت ہے۔ دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ نیک نیتی سے کام کر رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں کہیں کوئی نیک نیتی اور صدق دلی نظر نہیں آ رہی ہے۔ امریکا کی موجودہ حکومت کے پہلے دور کی شروعات میں جب مذاکرات کی پیشکش ہوئی تھی تب بھی میں نے اعلان کر دیا تھا کہ ہم پہلے سے کوئی فیصلہ نہیں کریں گے، قبل از وقت فیصلہ مناسب نہیں ہے۔ ہم پہلے جائزہ لیں گے، ہم دیکھیں گے کہ عملی طور پر ان کی طرف سے کیا اقدامات انجام دئے جاتے ہیں، اس کے بعد ہی ہم کوئی فیصلہ کریں گے۔ چار سال گزر جانے کے بعد آج ملت ایران کس نتیجے پر پہنچی ہے؟ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ امریکیوں نے داخلی آشوب اور فتنے کو ہوا دی، فتنہ پرور عناصر کی پشت پناہی کی، علاقے کی سطح پر انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر افغانستان پر لشکر کشی کی، بے شمار لوگوں کو کچل ڈالا، بڑے پیمانے پر تباہی مچائی اور آج شام میں وہ انہی دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں، مدد کر رہے ہیں۔ انہوں نے انہی دہشت گردوں کو ایران میں جہاں بھی ممکن ہوا استعمال کیا۔ ان کے ایجنٹوں نے، ان کے زرخریدوں نے، صیہونی حکومت کے جاسوسوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ کی۔ امریکی ان کی لفظی مذمت کرنے پر بھی تیار نہ ہوئے الٹے ان کی حمایت کی۔ یہ ان کی کارکردگی ہے۔ ایرانی عوام پر ایسی پابندیاں عائد کیں جن کے بارے میں ان کی خواہش تھی کہ مفلوج کن پابندیاں ثابت ہوں، کمر شکن اور مفلوج کن پابندیوں کی بات انہوں نے صراحت کے ساتھ کہی بھی۔ وہ کس کی کمر توڑنا چاہتے تھے؟ ملت ایران کی کمر توڑنا چاہتے تھے۔ یہ آپ کی نیک نیتی تھی؟ مذاکرات ہمیشہ نیک نیتی کے ساتھ، مساوی حالات میں ایسے دو فریقوں کے درمیان ہوں جو ایک دوسرے کو فریب دینے کا ارادہ نہیں رکھتے تب تو مذاکرات کی بات قابل فہم ہے۔ ورنہ مذاکرات کو حربے اور چال کے طور پر استعمال کرنا، مذاکرات برائے مذاکرات، دنیا پر اپنی سپر پاور والی حیثیت ظاہر کرنے کی غرض سے مذاکرات صرف حیلہ گری ہے، حقیقی اور بامعنی اقدام نہیں۔ میں کوئی ڈپلومیٹ نہیں ہوں، میں ایک انقلابی آدمی ہوں، اپنی بات دو ٹوک انداز میں پوری صداقت کے ساتھ بیان کر دینے کا عادی ہوں۔ ڈپلومیٹ کہتا کچھ ہے اور اس کا مقصود ایک بالکل مختلف چیز ہوتی ہے۔ ہم اپنی بات صادقانہ اور دو ٹوک انداز میں بیان کر دیتے ہیں۔ ہم پوری قطعیت سے اپنی بات کہتے ہیں۔ مذاکرات اسی وقت بامعنی ہو سکتے ہیں جب مذاکرات کا فریق نیک نیتی ثابت کر دے۔ اگر آپ نیک نیتی نہیں رکھتے اور خود اپنی زبان سے کہتے ہیں دباؤ اور مذاکرات تو یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے لئے سازگار نہیں ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ ایرانی عوام پر ہتھیار تانے ہوئے کہیں کہ مذاکرات کرو ورنہ فائر کر دوں گا، تا کہ ملت ایران کو خوفزدہ کیا جا سکے، تو یقین رکھئے کہ ملت ایران ان چیزوں سے مرعوب ہونے والی نہیں ہے۔ (4)

کچھ لوگوں نے سادہ لوحی کی بنیاد پر اور کچھ لوگوں نے خاص مقصد کے تحت خوش ہوکر کہنا شروع کر دیا کہ آئيے مذاکرات کرتے ہیں۔ اس بارے میں فیصلہ کرنا اور دونوں قسم کے لوگوں کے مابین فرق کو پہچاننا مشکل کام ہے تاہم جو شخص سادہ لوحی کی بنیاد پر یہ بات کہہ رہا ہے اس میں اور اس شخص میں جو خاص مقصد کے تحت یہ بات کہہ رہا ہے، اصل ماجرا اور حقیقت ماجرا کے تعلق سے کوئی فرق نہیں ہے۔ معاملہ یہ نہیں ہے، مذاکرات سے کوئی مشکل حل ہونے والی نہیں ہے، امریکا سے گفتگو کر لینے سے کچھ بھی حل ہونے والا نہیں ہے۔ امریکیوں نے کب اپنے وعدے پر عمل کیا ہے۔ انیس اگست سنہ 1953 کے واقعے کے بعد سے ساٹھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس مدت میں جب بھی ہمارے ملک کے حکام نے امریکیوں پر اعتماد کیا، انہیں نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ڈاکٹر مصدق نے امریکیوں پر اعتماد کیا، ان پر بھروسہ کیا، انہیں اپنا دوست سمجھ لیا تو 19 اگست 1953 کی بغاوت کا واقعہ رونما ہوا۔ بغاوت کی جگہ امریکیوں کے ہاتھ میں تھی اور ایک امریکی ایجنٹ پیسوں سے بھرے ہوئے صندوق کے ساتھ تہران آیا اور اس نے اوباشوں کو جمع کرکے پیسے تقسیم کئے کہ حکومت کے خلاف بغاوت کریں۔ یہ امریکیوں کا کام تھا۔ اپنی ان چالوں کا اعتراف خود امریکیوں نے کیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے برسوں تک اس ملک پر ظالم پہلوی حکومت کو مسلط رکھا، ساواک (شاہ کے زمانے میں ایران کا خوفناک خفیہ ادارہ) قائم کیا، مجاہدین کو پابند سلاسل کر دیا، انہیں ایذائیں دیں، یہ اس زمانے کی بات ہے۔ اسلامی انقلاب کے بعد ایک زمانے میں ملک کے حکام نے حسن ظن کا ثبوت دیتے ہوئے امریکیوں پر ایک بار پھر اعتماد کیا، لیکن امریکی حکومت کی سیاست یہ رہی کہ ایران کو بدی کا محور قرار دے دیا گیا۔ جبکہ بدی کا محور خود آپ (امریکی) ہیں۔ آپ دنیا بھر میں شر پھیلا رہے ہیں، جنگ کی آگ بھڑکا رہے ہیں، قوموں کو لوٹ رہے ہیں، صیہونی حکومت کی پشت پناہی کر رہے ہیں، اسلامی بیداری کی اس لہر کے نتیجے میں اٹھ کھڑی ہونے والی قوموں کی جہاں تک ممکن ہے آپ سرکوبی کر رہے ہیں، انہیں کمزور کر رہے ہیں، ان میں اختلافات کی آگ بھڑکا رہے ہیں، بدی و شر کا محور تو آپ ہوئے، یہ آپ کا وتیرہ ہے۔ ملت ایران پر بدی اور شیطنت کا الزام لگایا ہے، یہ بہت بڑی توہین ہے۔ جب بھی امریکیوں پر اعتماد کیا گیا انہوں نے اس طرح کی حرکت کی ہے۔ انہیں نیک نیتی ثابت کرنا ہوگی۔۔ دباؤ اور دھمکی کے ساتھ مذاکرات کی بات گلے سے نہیں اترے گی۔ دباؤ اور مذاکرات دو الگ الگ راستے ہیں۔ ایرانی عوام یہ ہرگز نہیں قبول کریں گے کہ دباؤ میں آکر اور دھمکیوں سے متاثر ہوکر دھمکی دینے والے سے مذاکرات شروع کر دیں۔ ایسی گفتگو کا کیا نتیجہ ہے؟ اس سے کیا حاصل ہونے والا ہے؟

آج ملت ایران پوری طرح بیدار ہے۔ امریکا کی اصلیت ایران ہی نہیں پورے علاقے میں عیاں ہو چکی ہے۔ امریکا کے سلسلے میں قوموں کے اندر بدگمانی ہے اور اس بدگمانی کے پختہ قرائن و دلائل ہیں۔ ایرانی قوم نے بھی امریکا کو خوب پہچان لیا ہے، اسے معلوم ہے کہ امریکا کیا چاہتا ہے، قوم ہوشیار ہے۔ آج اگر کچھ لوگ اس ملک میں دوبارہ امریکی تسلط کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کریں گے، اگر قومی مفادات، علمی ترقی اور خود مختار پیش رفت سے صرف نظر کرنے کی کوشش کریں گے کہ اس طرح امریکا کی خوشنودی حاصل کر لیں تو یہ قوم ان کا گریبان پکڑ لے گی۔ خود میں بھی اگر اس عوامی نہج کے برخلاف اور عوامی مطالبے کے خلاف عمل کرنا چاہوں تو عوام کو اعتراض ہوگا، یہ معلوم ہے۔ تمام حکام کی ذمہ داری ہے کہ قومی مفادات کو ملحوظ رکھیں، قومی خود مختاری کا پاس و لحاظ رکھیں اور ملت ایران کے وقار کی حفاظت کریں۔

جن ملکوں نے ملت ایران کے خلاف سازشیں نہیں کیں اور آج بھی سازشوں میں مصروف نہیں ہیں ان سے ہم نے مذاکرات کئے، معاہدے کئے اور ان سے ہمارے روابط ہیں۔ ملت ایران امن پسند اور صلح پسند قوم ہے، ایرانی قوم ایک بردبار قوم ہے، ملت ایران کا اتحاد تمام بشریت کے مفادات کی خدمت کے لئے ہے۔ آج ملت ایران جو اقدامات کر رہی ہے وہ ایران کے قومی مفادات کے ساتھ ہی امت اسلامیہ اور تمام بشریت کے مفادات کے لئے ہیں۔ بلا شبہ ملت ایران کو نصرت خداوندی کا شرف بھی حاصل ہے۔ ملت ایران اس بصیرت کے ساتھ، اس عزم محکم کے ساتھ اور روشن راستے پر اپنی ثابت قدمی کے ذریعے جس کا اس نے مظاہرہ کیا ہے اور آئندہ بھی اسے جاری رکھے گی، صرف ایران کو نہیں بلکہ ان شاء اللہ پوری مسلم امہ کو افتخارات کی بلند چوٹی پر پہچائے گی۔ اس کا راستہ یہ ہے کہ بصیرت کو قائم رکھا جائے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ اتحاد کی حفاظت کی جائے، اس کی روش یہ ہے کہ ملک کے حکام قومی مفادات کی حفاظت کریں۔ ان بد اخلاقیوں کو جو بعض حکام کی طرف سے بعض مواقع پر نظر آئی ہیں، ترک کریں، میں آئندہ عوام سے ان بد اخلاقیوں کے بارے میں گفتگو کروں گا۔ قوم کے اندر اتحاد ہے، قوم پرعزم ہے، سرگرم عمل ہے۔ اگر بعض مسائل کے سلسلے میں قوم کے اندر اختلاف نظر ہے تب بھی وہ دشمن کے مقابل، استکبار کے مقابل، اس قوم اور اس نظام کی بیخ کنی پر کمربستہ عناصر کے مقابل، عوام کے اندر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اس معاملے میں عوام کے اندر بھرپور اتحاد ہے۔

ان شاء اللہ 22 بہمن (جشن انقلاب) کے موقع پر عوام ایک بار پھر ثابت کر دیں گے کہ فضل الہی سے اور توفیق پرورگار سے وہ انقلاب کی حفاظت کے لئے ہمیشہ میدان میں حاضر ہیں۔ اس مقصد کے لئے ان میں بھرپور اتحاد، یکجہتی اور ہم آہنگی ہے۔ ان شاء اللہ توفیق الہی یقینا ان کے شامل حال ہوگی۔
والسّلام عليكم و رحمة‌اللّه و بركاته
1) آل‌عمران: 54
2) آل عمران: 111
3) حاضرین کی جانب سے اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے

(4 حاضرین کی جانب سے اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے