پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کی عید اور آپ کے فرزند حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت با سعادت پر اس جلسے کے تمام محترم حاضرین، ہفتہ اتحاد بین المسلمین کے عزیز مہمانوں، اسلامی ملکوں کے سفراء اور ملک کے ان جملہ عہدیداروں کو جن کے دوش پر سنگین کاموں کی ذمہ داریاں ہیں، دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اسی طرح تمام ملت ایران، دنیا بھر کے مسلمانوں بلکہ ساری دنیا کے آزاد منش انسانوں کو اس موقعے کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ ولادت ان برکتوں کا سرچشمہ ہے جو ان صدیوں کے دوران تمام انسانیت کے لئے نازل ہوتی رہی ہیں اور جن سے قومیں، دنیا کے انسان اور ساری انسانیت بلند ترین انسانی، فکری اور روحانی منزلوں، اعلی ترین تمدن اور تابناک مستقبل تک رسائی کے قابل ہوئی ہے۔ اس عظیم ولادت کی سالگرہ پر عالم اسلام اور اسلامی سماج کے لئے جو چیز اساسی اور کلیدی ہے، وہ یہ ہے کہ اسلامی دنیا سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی توقعات پر توجہ دی جائے اور اس بات کی کوشش اور جدوجہد کی جائے کہ آنحضرت کی توقعات کو پوری ہوں۔ عالم اسلام کی سعادت و خوشبختی اسی میں ہے۔ اسلام، انسان کے لئے آزادی کی سوغات لیکر آیا۔ ظالم و جائر نظاموں کی طرف سے انسانی طبقات پر ہونے والے مظالم سے آزادی دلانے اور انسانوں کے لئے عدل و مساوات پر استوار حکومت کی تشکیل کے لئے بھی آیا اور انسانی زندگی پر حکمفرما ان توہمات اور غلط نظریات سے معاشرے کی رہائی کے لئے بھی آیا جن توہمات اور غلط نظریات نے انسانی زندگی کو اس کی اپنی مصلحت اور فلاح و بہبود کے منافی سمت میں موڑ دیا تھا۔ امیر المومنین علیہ السلام نے اسلام کے ظہور کے ایام میں انسانوں کی زندگی کو فتنوں کے نرغے میں محصور زندگی سے تعبیر فرمایا ہے۔ فى فِتَنٍ داسَتهُم بِاَخفافِها وَ وَطِئَتهُم بِاَظلافِها (1) فتنہ یعنی ایسی غبار آلود فضا اور ماحول کہ جس میں انسانی آنکھوں کو کچھ بھی سجھائی نہ دے رہا ہو، ، انسان راستہ نہ دیکھا پا رہا ہو، اپنی بھلائی اور برائی بھی سمجھ نہ پا رہا ہو۔ یہ ان لوگوں کی حالت تھی جو اس پرمحن اور سخت دور میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس زمانے کے بڑے ملکوں میں اور بڑی تہذیبوں میں بھی کچھ حکومتیں تھیں، قومیں تھیں، لیکن وہاں تھوڑے سے فرق کے ساتھ یہی حالات تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ اسلام کے ظہور کے زمانے میں جزیرۃ العرب میں بسنے والے عوام ہی بدقسمتی و نگوں بختی کا شکار تھے اور بقیہ قوموں کے حالات اچھے تھے۔ ظالم و جائر حکومتوں کے تسلط، انسان و انسانیت کی توہین اور کشور گشائی کے لئے بڑی طاقتوں کے درمیان ہونے والی خانماں سوز جنگیوں نے لوگوں کی زندگی تباہ کرکے رکھ دی تھی۔ تاریخ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے کی دو معروف حکومتیں، یعنی ایران کی ساسانی حکومت اور روم کی شہنشاہیت کے دور میں ان دونوں قلمرؤوں میں بسنے والے عوام الناس کی زندگی ایسے ابتر حالات میں گزر رہی تھی کہ اس کے تصور سے ہی دل کانپ اٹھتا ہے۔ عوام الناس بے حد دردناک زندگی گزار رہے تھے، قیدیوں جیسی زندگی بسر کرتے تھے۔ اسلام نے آکر انسانوں کو آزادی دلائی۔ یہ آزادی سب سے پہلے انسان کے دل میں اور انسان کی روح کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ جب انسان آزادی کی فرحت کا احساس کر لیتا ہے، زنجیروں کے ٹوٹ جانے کا احساس کر لیتا ہے تو پھر اس کی توانائیاں اسی احساس سے متاثر ہوتی ہیں، ایسے میں اگر وہ ہمت سے کام لے اور آگے بڑھے تو پھر یہ ذہنی آزادی خارجی اور باہری دنیا کی آزادی کا راستہ بھی صاف کر دیتی ہے۔ اسلام نے انسانوں کے لئے یہی کام انجام دیا۔ آج بھی اسلام ساری دنیائے اسلام بلکہ پورے عالم انسانیت کو یہی پیغام دے رہا ہے۔ بشر کی آزادی کے دشمن انسانوں کے ذہن و دل سے آزادی کا تصور مٹا دینے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ اگر فکر و نظر آزاد نہ ہو تو پھر حریت کی جانب پیش قدمی کا عمل سست روی کا شکار رہے گا بلکہ عین ممکن ہے کہ سرے سے ختم ہی ہو جائے۔ آج ہم مسلمانوں کا فرض ہے کہ خود کو اس آزادی کی منزل تک پہنچائیں جو اسلام کو مطلوب ہے۔ مسلم اقوام کی خود مختاری، تمام عالم اسلام میں عوام کی منتخب کردہ حکومتوں کی تشکیل، فیصلہ سازی کے عمل میں اور مستقبل کے تعین کے اقدامات میں عوام کی بھرپور شراکت اور اسلامی شریعت کی بنیاد پر ہر عمل کی انجام دہی وہ راستہ ہے جو قوموں کو آزادی دلا سکتا ہے۔ یقینی طور پر آج مسلم اقوام کو بخوبی یہ احساس ہے کہ انہیں یہ عمل انجام دینے کی ضرورت ہے۔ پورے عالم اسلام میں یہ فکر اور یہ جذبہ موجزن ہے اور بلا شبہ یہ جذبہ سرانجام اپنی منزل تک ضرور پہنچے گا۔ اگر قوموں کے دانشور اور اہم شخصیات خواہ ان کا تعلق سیاسی شعبے سے ہو یا علمی و دینی حلقوں سے، اپنا فریضہ کما حقہ انجام دیں تو دنیائے اسلام کا مستقبل یقینی طور پر سنور جائے گا۔ اس مستقبل کے سلسلے میں قوی امید پائي جاتی ہے۔ آج عالم اسلام اپنے اندر بیداری کی انگڑائیاں دیکھ رہا ہے اور یہی وہ موقعہ ہے کہ جب دشمنان اسلام، وہ لوگ جو اسلامی بیداری کے دشمن ہیں، جو قوموں کی خود مختاری کے مخالف ہیں، ملکوں میں دین خدا کی حکمرانی کے اندیشے سے خائف ہیں، میدان میں اتر پڑتے ہیں، اسلامی معاشروں کو الجھائے رکھنے کے لئے گوناگوں حربے آزمائے جاتے ہیں جن میں سب سے کلیدی حربہ ہے داخلی اختلافات کی آگ بھڑکانا۔
پینسٹھ سال سے دنیائے استکبار، صیہونی حکومت کا وجود مسلم اقوام پر مسلط کرنے کے لئے ہر ممکنہ کوشش انجام دے رہی ہے، انہیں اس حکومت کا وجود تسلیم کرنے پر مجبور کر دینا چاہتی ہے لیکن اب تک اسے ناکامی ہی ہاتھ لگی ہے۔ ہمیں ان چند ملکوں اور حکومتوں پر نہین جانا چاہئے جو اپنے اسلام دشمن بیرونی دوستوں کے مفادات کی حفاظت کے لئے، خود اپنے قومی مفادات کو اور اسلامی مفادات کو نظر انداز کرنے پر آمادہ ہو جاتی ہیں۔ قومیں صیہونیوں کے وجود کی مخالف ہیں۔ پینسٹھ سال سے استکباری قوتیں فلسطین کا نام ذہنوں سے مٹا دینے کے لئے کوشاں ہیں لیکن انہیں تاحال کامیابی نہیں ملی ہے۔ حالیہ کچھ برسوں میں، تینتیس روزہ جنگ لبنان، بائیس روزہ جنگ غزہ اور دوبارہ آٹھ روزہ جنگ غزہ میں امت اسلامیہ نے ثابت کر دیا کہ اس کے وجود میں گرمی حیات موجود ہے، اور مغربی طاقتوں اور خاص طور پر امریکا کی سرمایہ کاری اور منصوبہ بندی کے باوجود امت اسلامیہ اپنا وجود اور اپنی شناخت قائم رکھنے میں کامیاب رہی اور عالم اسلام جعلی اور مسلط کردہ صیہونی نظام پر کاری ضرب لگانے میں کامیاب ہوا۔ اس مدت کے دوران ظالم صیہونیوں کے آقاؤں، دوستوں اور اتحادیوں کو جنہوں نے اس ظالم و جرائم پیشہ حکومت کی حفاظت کے لئے اپنا سب کچھ داؤں پر لگا دیا، ناکامی ہاتھ لگی ہے۔ امت اسلامیہ نے ثابت کر دیا کہ اس نے مسئلہ فلسطین کو ہرگز فراموش نہیں کیا ہے۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ انہی حالات کو دیکھتے ہوئے دشمن کی ساری کوشش یہ ہے کہ امت مسلمہ کو کسی صورت سے مسئلہ فلسطین سے لا تعلق کر دے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ داخلی اختلافات سے ممکن ہے، خانہ جنگی سے ممکن ہے، اسلام کے نام پر، دین کے نام پر اور شریعت کے نام پر انتہا پسندی کی ترویج سے ممکن ہے۔ اس طرح ممکن ہے کہ ایک گروہ اپنے سوا تمام مسلمانوں کو، مسلمانوں کی اکثریت کو کافر قرار دے دے۔ عالم اسلام میں سر ابھارنے والی ان تکفیری تحریکوں کا وجود، استکبار کے لئے اور دشمنان عالم اسلام کے لئے منہ مانگی مراد ہے۔ یہ گروہ خبیث صیہونی حکومت کی طرف توجہ دینے کے بجائے، سب کی توجہ دیگر امور کی طرف موڑ رہا ہے۔ بالکل اس کے برخلاف سمت میں، جس کا حکم اسلام نے دیا ہے۔ اسلام نے مسلمانوں کو «اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم»(2) کی تعلیم دی ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ دشمنان دین کے سلسلے میں سخت بن جائیں، ان کے مد مقابل ڈٹ جائیں، دباؤ میں نہ آئیں، «اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّار» آیت قرآنی میں واضح طور پر یہ بات کہی گئی ہے۔ آپس میں مہربان رہیں، متحد رہیں، ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے رہیں۔ اللہ کی رسی کو سب مضبوطی سے پکڑ لیں۔ یہ اسلام کا فرمان ہے۔ اس سب کے باوجود ایک گروہ نمودار ہوتا ہے اور مسلمانوں کو مسلم و کافر میں تقسیم کر دیتا ہے! کچھ لوگوں کو کافر قرار دیکر اپنے حملوں کا نشانہ بناتا ہے، مسلمانوں کو آپس میں دست و گریباں کر دیتا ہے! ایسے میں کہاں شک و شبہے کی گنجائش رہ جاتی ہے کہ یہ تحریکیں اور ان کی پشت پناہی و مالی سرپرستی، انہیں ہتھیاروں کی فراہمی یہ سب کچھ استکباری طاقتوں کا کام ہے۔ یہ استکباری حکومتوں کی خبیث انٹیلیجنس ایجنسیوں کی کارستانی ہے؟ وہ سر جوڑ کر بیٹھتی ہیں اور اسی صورت حال کے لئے منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ عالم اسلام کو چاہئے کہ اس مسئلے پر توجہ دے۔ یہ بہت بڑا خطرہ ہے۔ بد قسمتی سے کچھ مسلم حکومتیں جو غفلت کا شکار ہیں، ان اختلافات کو ہوا دیتی ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ ان اختلافات کو ہوا دینے سے ایسی آگ بھڑکے گی جو خود ان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیگی۔ یہی استکبار کا منصوبہ بھی ہے۔ مسلمانوں کا ایک گروہ دوسرے گروہ سے الجھ جائے، متصادم ہو جائے۔ اس فتنے کی جڑ وہ لوگ ہیں جو استکباری طاقتوں کے گماشتہ حکمرانوں کے پیسے استعمال کر رہے ہیں، عسکریت پسندوں کی مالی مدد کرتے ہیں، انہیں ہتھیار سپلائی کرتے ہیں۔ مختلف ملکوں میں لوگوں کو ایک دوسرے کی جان کا دشمن بنا رہے ہیں۔ گزشتہ تین چار سال کے دوران جب بعض مسلم اور عرب ممالک میں اسلامی بیداری کی لہر اٹھی ہے، یہ سازشیں اور تیز ہو گئی ہیں تا کہ اسلامی بیداری کی لہر دب کر اور نظر انداز ہوکر رہ جائے۔ مسلمانوں کو آپس میں لڑوا بھی رہی ہیں اور دشمن تشہیراتی و ابلاغیاتی اداروں کی مبالغہ آرائیوں کے ذریعے عالمی رائے عامہ کی نگاہ میں اسلام کی بے حد خوفناک تصویر پیش کرنے کی کوشش بھی کر رہی ہیں۔ جب ٹی وی چینل کسی آدمی کو دکھاتے ہیں جو اسلام کا نام لیوا ہے اور ایک انسان کا جگر چبا رہا ہے اور کھا رہا ہے تو اس سے اسلام کے بارے میں کیا تصور پیدا ہوتا ہے؟ دشمنان اسلام نے اس کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی ہے۔ یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں جو یکبارگی وجود میں آ گئی ہوں، یہ آنا فانا رونما ہو جانے والی باتیں نہیں ہیں۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کے لئے مدتوں منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ ان ساری چیزوں کے پیچھے خاص سیاست کارفرما ہے، ان کے پیچھے سرمایہ کاری ہے اور خفیہ اداروں کی سرگرمیاں ہیں۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ اتحاد مخالف اور اتحاد مسلمین سے متصادم ہر شئے کا مقابلہ کریں۔ یہ ہم سب کا بڑا اہم فریضہ ہے۔ یہ ذمہ داری شیعہ بھی اپنے دوش پر لیں اور اہل سنت بھی یہ ذمہ داری اٹھائیں۔ اسی طرح شیعہ اور سنی مذاہب کے اندر موجود مختلف مسلک اور مکاتب فکر یہ ذمہ داری قبول کریں۔
اتحاد اور وحدت سے مراد یہ ہے کہ اشتراکات کو بنیاد قرار دیکر کام کیا جائے۔ ہمارے پاس اشتراکات کی کمی نہیں ہے۔ مسلمانوں کے اشتراکات ان کے اختلافی مسائل سے کہیں زیادہ ہیں تو انہی اشتراکات کو اساس قرار دینا چاہئے۔ اس سلسلے میں زیادہ ذمہ داری دانشوروں اور مفکرین کی ہے۔ خواہ ان کا تعلق سیاسی شعبے سے ہو یا علمی و دینی شعبے سے ہو۔ دنیائے اسلام کے علماء کو چاہئے کہ عوام الناس کو فرقہ وارانہ اور مسلکی اختلافات سے محتاط رہنے کی تلقین کریں۔ یونیورسٹیوں سے وابستہ دانشور اور اسکالر، اسٹوڈنٹس کے سامنے حقائق پیش کریں اور انہیں سمجھائيں کہ اس وقت عالم اسلام کا سب سے اہم مسئلہ اور سب سے بڑی ضرورت اتحاد ہے۔ اہداف کے حصول کے لئے اتحاد، سیاسی خود مختاری حاصل کرنے کے لئے اتحاد، دینی جمہوریت کے قیام کے ہدف کے لئے اتحاد، اسلامی معاشروں میں احکام الہیہ کے نفاذ کا ہدف حاصل کرنے کے لئے اتحاد۔ وہ اسلامی معاشرہ جو آزادی کا پیغام دیتا ہے، وہ اسلام نوازی جو انسانوں کو عزت و شرف کا درس دیتی ہے۔ آج یہ ہمارا فریضہ ہے، یہ شرعی فریضہ ہے۔ سیاسی شخصیات کو بھی یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ ان کا وقار و اعتبار عوام اور قوموں کا مرہون منت ہے۔ اغیار پر تکیہ کرکے، دل کی گہرائیوں تک اسلامی معاشروں کا کینہ رکھنے والوں کی مدد سے یہ وقار کبھی حاصل نہیں ہوگا۔ ایک زمانہ تھا جب ان تمام علاقوں میں استکباری طاقتوں کی حکمرانی تھی۔ امریکی پالیسیوں، اس سے قبل برطانیہ اور بعض دیگر یورپی ملکوں کے اشاروں پر کام ہوتا تھا۔ قومیں رفتہ رفتہ خود کو استکبار کے براہ راست تسلط کی زنجیر سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوئیں۔ اب استکباری طاقتیں براہ راست استعمار کے بجائے بالواسطہ طور پر سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی تسلط قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ البتہ دنیا کے بعض خطوں میں براہ راست تسلط کی کوشش بھی کر رہی ہیں۔ آپ افریقا پر نظر ڈالئے۔ بعض یورپی ممالک چاہتے ہیں کہ وہی پرانہ قصہ پھر شروع ہو جائے۔
راہ نجات ہے اسلامی بیداری، راہ نجات ہے آگاہی اور مسلم اقوام کے حالات و امور سے واقفیت۔ مسلم اقوام کے پاس بے پناہ وسائل موجود ہیں، ان کے پاس انتہائی اہم اور حساس جغرافیائی محل وقوع ہے، گراں قدر تاریخی ورثہ ہے، بے مثال اقتصادی وسائل و ذخائر ہیں، اگر قومیں بیدار ہو جائیں اور اپنی توانائیوں کو پہچان لیں، اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں پر تکیہ کریں، ایک دوسرے کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھائیں تو یہ علاقہ ایک درخشاں علاقہ بن جائے گا اور دنیائے اسلام عزت و شرف اور قائدانہ مقام حاصل کر لیگی۔ ان شاء اللہ مستقبل میں یہ منزل ضرور حاصل ہوگی، اس کے آثار ابھی سے دکھائی دینے لگے ہیں۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی فتح اور اس حساس علاقے میں اسلامی جمہوری نظام کا قیام اور اسلامی جمہوریہ کا روز افزوں استحکام اس کے آثار ہیں۔
استکباری طاقتیں بشمول امریکا گزشتہ پینتیس سال سے اسلامی جمہوری نظام کے خلاف اور ملت ایران کے خلاف جو بھی بس میں ہے کر رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام کی طاقت روز بروز بڑھتی رہی ہے اور اس کی جڑیں اور بھی گہرائی میں اترتی رہی ہیں اور اس کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ہے۔ ان شاء اللہ یہ استحکام اور یہ قوت اور بھی بڑھے گی۔ عالم اسلام میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ نسلوں کی علمی سطح بڑھی ہے، اسلام اور اسلام کے مستقبل کے سلسلے میں ان کے علم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ بعض جگہوں پر آگاہی کی یہ سطح ماضی کی نسبت بہت اونچی ہے۔ البتہ دشمن اپنی ریشہ دوانیوں میں مصروف ہے تاہم اگر ہم بغور اور دقت نظری کے ساتھ جائزہ لیں تو مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ اسلامی لہر مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔
اللہ کی رحمتیں نازل ہوں ہمارے عظیم الشان امام خمینی پر جنہوں نے ہمیں اس راستے سے روشناس کرایا۔ انہوں نے ہمیں سکھایا کہ کیسے اللہ پر توکل کرنا چاہئے۔ اللہ سے طلب نصرت کیجئے اور مستقبل کے تئیں پرامید رہئے۔ ہم اس راستے پر چلے ہیں اور آئندہ بھی ہمارے قدم اسی راستے پر آگے بڑھیں گے۔ اسلام اور مسلمانوں کی فتح و کامرانی کی امید کے ساتھ اور اس روشن راستے کے شہیدوں کے لئے اللہ کی رحمت و مغفرت کی دعاؤں کے ساتھ آپ سے اجازت چاہتا ہوں۔
۱) نهج البلاغه، خطبهى دوّم
۲) سورهى فتح، آیت ۲۹