اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے لطف کیا اور عمر میں اتنی برکت دی کہ ایک بار پھر، ایک اور نئے سال کی آمد پر اس پرنور ملکوتی بارگاہ میں، جذبات اور محبت سے چھلکتے اس اجتماع میں، آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں سے ہمکلام ہو سکوں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کو جو میری آواز سن رہے ہیں اور اسی طرح تمام ملت ایران کو سال نو اور نوروز کی آمد کی ایک بار پھر مبارکباد پیش کروں، ملت ایران اور تمام مسلمین جہان کے لئے اللہ تعالی کی بارگاہ میں برکتوں سے معمور سال اور سعادت و کامرانی سے آراستہ آیام کی دعا کروں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی کرم فرمائی کرے اور اس سال کو جو آج سے شروع ہوا ہے، ایسا سال قرار دے جو عظیم الشان ملت ایران کے شایان شان ہو، فضل الہی اور الطاف پروردگار سے سرشار سال ہو۔
کچھ باتیں بیتے سال 1392 (ہجری شمسی) کے بارے میں عرض کرنا ہیں جو کل اختتام پذیر ہوا۔ میں نے آغاز سال کے اپنے پیغام میں بھی اشارہ کیا کہ اس سال کے دوران سیاسی جہاد کے میدان میں جو توقعات تھیں وہ ملت ایران نے پوری کیں۔ بلا شبہ سیاسی جہاد باوقار ملت ایران کے دو کارناموں کی صورت میں زیادہ نمایاں ہوا۔ ایک ہے الیکشن جو سال کے پہلے نصف حصے میں منعقد ہوا اور دوسرے عوام کی عظیم ملک گیر ریلیاں جو دوسرے نصف حصے میں نکلیں۔ انتخابات کے بارے میں ہم نے بہت کچھ کہا۔ اس دفعہ کے انتخابات اور اوائل انقلاب سے تا حال منعقد ہونے والے مختلف انتخابات، اسی طرح گیارہ فروری کو ملک گیر سطح پر نکلنے والے عظیم جلوسوں کے بارے میں اس حقیر نے بھی اور دوسرے افراد نے بھی بہت کچھ کہا ہے، میں وہی باتیں دہرانا نہیں چاہتا، لیکن ان دونوں واقعات کے سلسلے میں دو نکتے بیان کرنا چاہوں گا۔ ان دونوں واقعات کے بارے میں جن میں ہر ایک واقعہ عالمی تشہیراتی اداروں کی معاندانہ انداز میں ہم پر کیچڑ اچھالنے کی کوششوں کے جواب میں ملک و قوم کی حقیقی صورت حال کا ایک جامع پیغام ہے۔ میں چاہوں گا کہ سنہ 1393 (ہجری شمسی مطابق 21 مارچ 2014 الی 20 مارچ 2015) کے بارے میں اپنے معروضات پیش کرنے سے قبل ان دونوں نکات کی تشریح کر دوں۔
پہلا نکتہ انتخابات سے متعلق ہے۔ خواہران و برادران گرامی توجہ دیں! انقلاب کے آغاز سے اب تک انتخابات میں عوام کی شرکت کی شرح کم نہیں ہوئی ہے، اس میں گراؤٹ نہیں آئی ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ پچھلے انتخابات یعنی گیارہویں صدارتی انتخابات میں ہمارے عوام کی شرکت 72 فیصدی رہی۔ یہ شرح شرکت عالمی سطح پر بھی ایک نمایاں شرح شرکت ہے اور اوائل انقلاب سے اب تک جو انتخابات ہمارے ملک کے اندر ہوئے ہیں ان میں بھی یہ ووٹنگ کی بہت اچھی اور نمایاں شرح ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ انتخابات میں عوام الناس کی وسیع پیمانے پر شرکت کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں دینی جمہوریت کو مکمل استحکام حاصل ہو چکا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام ملک کے اندر جمہوریت کی جڑیں مستحکم کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ جو ملک صدیوں سے مستبد اور ڈکٹیٹر حکمرانوں کے ہاتھ میں رہا، جمہوریت اور ارباب اقتدار کے انتخاب میں عوام کی شرکت سے کچھ ایسا مانوس اور اس کا کچھ ایسا عادی ہو گیا کہ انقلاب کے جوش و خروش اور ہیجانات کو 35 سال گزر جانے کے بعد بھی جب الیکشن ہوتا ہے تو 72 فیصدی رائے دہندگان اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کی قدر کرنا چاہئے۔ میں آپ نوجوانوں اور پورے ملک میں ان افراد کی خدمت میں جو صاحب فکر ہیں، یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اس عظیم نعمت کی ناقدری نہ کیجئے! جیسا کہ سنہ 2009 میں کچھ لوگوں نے اس کی ناقدری کی تھی۔ کبھی کبھی سننے میں آتا ہے کچھ لوگ ملک کے اندر ہونے والے انتخابات میں عدم شفافیت کی بات کرتے ہیں، گویا دشمن کی باتوں کو دہراتے ہیں، یہ بھی کفران نعمت ہے۔ وطن عزیز کے اندر جمہوریت پوری طرح مستحکم اور معمول کی چیز بن گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام ملک بھرے میں، قریوں میں، شہروں میں ہر جگہ ووٹنگ کے تعلق سے اپنی ذمہ داری کو باقاعدہ محسوس کرتے ہیں اور پولنگ مراکز پر پہنچتے ہیں۔ نتیجتا 72 فیصدی ووٹنگ ہوتی ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ دنیا میں ووٹنگ کی یہ شرح بہت اچھی شرح مانی جاتی ہے۔
دوسرا نکتہ جس پر میرے عزیز بھائیوں اور بہنوں کو توجہ دینی چاہئے، گیارہ فروری (اسلامی انقلاب کی فتح کی تاریخ) کے جلوسوں کے بارے میں ہے۔ کچھ لوگ اجتماعات میں بھیڑ کا تخمینہ لگاتے ہیں، کچھ لوگ کیمرے کی مدد سے اور دیگر وسائل کے سہارے بڑے مجمعے میں موجود لوگوں کی تعداد کا اندازہ لگاتے ہیں۔ اس سال اس پہلو پر کام کرنے والے تمام افراد نے، ان تمام لوگوں نے جو جلوسوں پر گہری نظر رکھتے ہیں، مجھے یہ رپورٹ دی کہ تہران اور دوسرے بڑے اور معروف شہروں میں جلوسوں کے شرکاء کی تعداد گزشتہ برسوں کے مقابلے میں زیادہ تھی اور لوگ بھی زیادہ پرجوش نظر آ رہے تھے، لوگوں کے نعرے زیادہ پرمغز، بامعنی اور جوش و جذبے سے بھرے ہوئے تھے۔ کیوں؟ مختلف مسائل کا تجزیہ کرنے والے ماہرین اس نتیجے پر پہنچے اور میری نظر میں بھی یہ نتیجہ بالکل درست ہے کہ (اس وسیعتر شرکت) کی وجہ یہ تھی کہ اس سال استکباری سیاست کے موثر عناصر کا ملت ایران کے تعلق سے لہجہ اور انداز زیادہ گستاخانہ اور توہین آمیز تھا۔ کیونکہ ایٹمی مسئلے کے بارے میں مذاکرات ہوئے تھے۔ امریکی سیاستدانوں نے بیان دئے تھے کہ ایسا لگتا ہے کہ ملت ایران اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئی ہے، اپنے اصولوں سے اس نے صرف نظر کر لیا ہے، اس سوچ کی بنیاد پر ملت ایران کے سلسلے میں ان کا لہجہ اور انداز گستاخانہ اور توہین آمیز ہو گیا تھا۔ عوام نے اسے دیکھا اور بخوبی سمجھا۔ جب دشمن اپنے اصلی چہرے کے ساتھ یا ایسے چہرے کے ساتھ جو اس کے اصلی چہرے کے کافی قریب ہے، میدان میں آتا ہے تو عوام میں شرکت کا جوش و خروش اور بڑھ جاتا ہے۔ عوام نے دیکھا کہ امریکی حکام گستاخیاں کر رہے ہیں، ایسی باتیں کر رہے ہیں کہ عوام اسلامی نظام سے کنارہ کش ہو گئے ہیں تو انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ گیارہ فروری کو یہ اعلان کر دیا جائے گا کہ عوام اسلامی نظام، اسلامی جمہوریہ اور لہراتے ہوئے پرچم اسلام سے اپنے پورے وجود کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس سے اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں اور ایران کے مخالفین کی شرارت و عناد کی بابت ہمارے عوام کی حساسیت اور ان کے جذبہ حمیت کا پتہ چلتا ہے۔ تو یہ گیارہ فروری کے جلوسوں کے تعلق سے اہم نکتہ ہے۔
اس نئے سال کا جہاں تک تعلق ہے تو اس بارے میں میں نے کچھ باتیں نوٹ کی ہیں، کچھ معروضات پیش کرنے ہیں، میں کوشش کروں گا کہ اپنی بات اختصار کے ساتھ اسی وقت کے اندر جو آج ہمیں ملا ہے، آج چونکہ جمعہ بھی ہے اور نماز جمعہ سے پہلے ہماری گفتگو کا اختتام ہونا ہے، تو ان شاء اللہ میں اسی وقت میں اپنی جملہ باتیں پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ اب اگر کوئی بات بیان کرنے سے رہ جائے تو میں امید کرتا ہوں کہ صاحبان نظر اور معاشرے کے اہل دانش افراد جو اسلامی جمہوریہ کی پالیسی کا ادراک رکھتے ہیں، جنہیں علم ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران آج کس مقام پر ہے اور کیا اقدامات انجام دئے جا رہے ہیں، وہ رائے عامہ کے لئے اس کی تشریح کریں گے۔ میرا موقف جو میں آج اختصار کے ساتھ پیش کرنا چاہتا ہوں، ایک جملے میں بیان کیا جائے تو یہ ہے کہ ملت ایران خود کو مستحکم کرے۔ یہ میرا موقف ہے۔ یہ قومی اقتدار سے متعلق بات ہے۔ میں اپنی قوم کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اگر قوم قوی نہ ہو، کمزور ہو تو اس کے ساتھ زور زبردستی ہوگی، اگر قوم طاقتور نہ ہو تو دنیا کی باج خواہ طاقتیں اس سے غنڈہ ٹیکس وصول کریں گی، اس سے باج خواہی کریں گی، اگر ان کے بس میں ہوا تو اس قوم کی توہین کریں گی، اگر ان کا بس چلا تو اس قوم کو کچل دیں گی۔ مادہ پرستانہ افکار کی بنیاد پر جو دنیا چل رہی ہو اس کا مزاج ہی یہی ہے۔ جو بھی خود کو طاقتور پائے گا وہ کمزور دکھائی دینے والوں پر اپنی مرضی مسلط کرے گا، خواہ کمزور نظر آنے والا کوئی فرد ہو یا کوئی قوم۔ معروف شاعر کا شعر ہے؛ـ
(کمزور کا مر جانا فطری امر ہے، قوی پہلے کمزور ہوتا ہے پھر اس کی موت واقع ہوتی ہے۔)
کہتے ہیں کہ پکا ہوا مرغ لاکر ایسے انسان کے سامنے رکھا گیا جو گوشت نہیں کھاتا تھا۔ اس نے غور سے دیکھا، اس کی دونوں آنکھوں سے حسرت کے آنسو بہنے لگے، اس نے سامنے رکھے ہوئے مرغ کو دیکھتے ہوئے کہا؛ـ
(اس نے کہا کہ خود کو شیر جیسا طاقتور کیوں نہیں بنایا، کہ کوئی تجھے مذبح تک لانے کی جرئت ہی نہ کرتا۔)
اگر تم خود اپنا دفاع کر پاتے اور تمہارے اندر طاقت ہوتی تو کوئی اس طرح تمہارا سر کاٹنے کی جرئت نہ کرتا۔ میں نے تو اس شاعر کو مانتا ہوں اور نہ ہی ابو العلا معری کو جن کے حوالے سے یہ بات نقل کی گئی ہے لیکن اس بات سے میں پوری طرح متفق ہوں کہ مادی نظریات کی بنیاد پر چلنے والی دنیا میں کمزور کی موت ایک فطری امر ہے۔ میں اسے مانتا ہوں۔ اگر قوم بیدار نہیں ہوتی، خود کو طاقتور نہیں بناتی تو دوسرے آکر منمانی کریں گے۔ بعض قومیں ہیں جنہیں طاقتور بننے کے لئے بڑا لمبا سفر طے کرنا ہے، ان میں یہ امید نہیں پائی جاتی کہ توسیع پسند طاقتوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت اپنے اندر پیدا کر پائیں گی۔ لیکن ہماری قوم ایسی نہیں ہے۔ کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ طاقتور بننے کی ہمارے اندر بھرپور صلاحیت ہے، ضروری وسائل اور ذرائع بھی موجود ہیں، ہماری قوم قومی اقتدار کے راستے پر رواں دواں بھی ہے، اس نے کافی راستہ طے کر لیا ہے۔ اسی بنیاد پر میں سنہ 1393 کے روڈ میپ کے دو بنیادی عنصر ان چیزوں کو سمجھتا ہوں جن کا میں نے آغاز سال کے اپنے پیغام میں ذکر کیا؛ـ قومی عزم اور مجاہدانہ انتظام و انصرام کے سائے میں معیشت و ثقافت۔
کسی بھی قوم کی طاقت کا انحصار بس پیشرفتہ فوجی ساز و سامان پر نہیں ہوتا۔ البتہ پیشرفتہ اسلحہ بھی ضروری ہے لیکن صرف ہتھیاروں کے بلبوتے پر کوئی قوم طاقتور نہیں بن سکتی۔ میں جب غور کرتا ہوں تو مجھے تین اہم عناصر نظر آتے ہیں جن میں سے دو تو یہی ہیں جن کا ذکر میں نے اپنے پیغام میں کیا ہے۔ اگر ان تینوں عناصر پر بھرپور توجہ دی جائے تو قوم طاقتور بن سکتی ہے۔ ایک ہے معیشت، دوسرے ثقافت اور تیسرے علم و دانش۔ گزشتہ دس بارہ سال کے دوران علم و دانش کے بارے میں بہت کہا اور لکھا گيا ہے اور بحمد اللہ اس کا اثر بھی ہوا۔ آج علم و دانش کے میدان میں ہم ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہیں۔ اس موضوع کا بھی شاید میں بعد میں اختصار سے ذکر کروں، تاہم اقتصاد اور ثقافت کے سلسلے میں معمول سے زیادہ توجہ اور محنت درکار ہے تاکہ ہم ملکی معیشت کو ایسی شکل میں ڈھالیں کہ دنیا کے دوسرے سرے پر بیٹھ کر کوئی اپنے ایک فیصلے اور ایک نشست سے ہمارے ملک کے اقتصاد اور ہمارے عوام کی معیشت پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ ایسا کرنا ہمارے اختیار میں ہے اور ہمیں یہ کام ضرور کرنا چاہئے۔ یہ وہی مزاحمتی معیشت ہے جس کی پالیسیوں کا ابلاغ اسفند کے مہینے (فروری-مارچ) میں انجام دیا جا چکا ہے۔ ملک کے اعلی عہدیداروں کے ساتھ میرا ایک اجلاس ہوا جس میں تفصیل کے ساتھ اس بارے میں گفتگو ہوئی۔ انہوں نے اتفاق بھی کیا۔ یعنی تینوں شعبوں، (مجریہ، مقننہ اور عدلیہ) کے سربراہان ان پالیسیوں کی تدوین کے عمل میں باقاعدہ طور پر شامل بھی تھے، انہوں نے ان پالیسیوں کا خیر مقدم بھی کیا اور کہا کہ ہم اس پر عمل کریں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے عزیز عوام سے مزاحمتی معیشت کے بارے میں تھوڑی گفتگو کروں اور عوام خود اس حقیر کی زبان سے وہ باتیں سن لیں جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں۔
مزاحمتی اقتصاد یعنی ایسا اقتصاد جو مستحکم ہو، عالمی سطح پر پیدا ہونے والی لرزش اور جھٹکوں سے، امریکا اور دیگر ملکوں کی پالیسیوں سے درہم برہم نہ ہو جائے۔ یہ ایسی معیشت ہے جس کا دارومدار عوام پر ہے۔ مزاحمتی معیشت کے بارے میں جو در حقیقت ایک مستحکم معیشت ہے، تین اہم سوال ہیں۔ میں یہ تینوں سوال پیش کروں گا۔ پہلا سوال یہ ہے کہ مزاحمتی معیشت کی کیا خصوصیات ہیں اس میں کون سی چیزیں لازمی ہیں اور کن چیزوں کی نفی ضروری ہے؟ اس معیشت کی خصوصیات کیا ہیں؟ دوسرا سوال: یہ مزاحتمی اور مستحکم معیشت جس کا ہم نعرہ لگا رہے ہیں کیا عملی طور پر ممکن ہے یا یہ محض خیالی اور تصوراتی چیز ہے؟ تیسرا سوال: اگر مزاحتمی معیشت عملی طور پر ممکن ہے تو اس کے تقاضے اور لوازمات کیا ہیں اور اس کے لئے کون سے اقدامات ضروری ہیں؟ آج میں ان تینوں سوالوں کے جواب دوں گا، ان کا تعلق مزاحمتی معیشت سے ہے۔ اس کے بعد میں ثقافت کے مسئلے کے بارے میں جو میری نظر میں بیحد اہم مسئلہ ہے، اپنے کچھ معروضات پیش کروں گا۔
پہلا سوال: میں نے کہا کہ مزاحمتی معیشت میں کون سی چیزیں ہیں اور کون سی باتیں نہیں ہونی چاہئیں۔ سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ یہ ایک علمی ماڈل ہے جو ملکی ضرورتوں سے مکمل مطابقت رکھتا ہے، یہ اس کا مثبت اور لازمی پہلو ہے، یہ ہمارے ملک سے مختص نہیں ہے۔ یعنی بہت سے دوسرے ممالک بھی ان دنوں سماجی جھٹکوں اور گزشتہ تیس سال کے دوران اقتصادی میدان میں جو الٹ پلٹ ہوئی ہے اسے دیکھتے ہوئے اپنے اپنے حالات کے مطابق اسی سمت میں آگے بڑھنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ تو پہلی بات یہ ہے کہ جو کام ہم انجام دے رہے ہیں دیگر ممالک بھی اس کی فکر میں ہیں، یہ صرف ہم سے مخصوص نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے عرض کیا کہ یہ معیشت 'دروں زائیدہ' ہے۔ دروں زائیدہ کا کیا مطلب ہے؟ یعنی ہمارے اپنے ملک اور ہمارے اپنے عوام کے اندر موجود صلاحیتوں اور استعداد سے وجود میں آئيگی اور ہمارے اپنے ملک کے وسائل اور ذرائع پر اس پودے اور اس درخت کے نشونما کا انحصار ہوگا۔ 'دروں زائیدہ' کا مفہوم یہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ معیشت ملک کے اندر محدود رہ جانے والی معیشت نہیں ہے۔ یعنی مزاحمتی معیشت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنی معیشت کو اپنے ملک کی حدود میں محصور اور محدود کر دیں۔ نہیں، یہ بیشک 'دروں زائیدہ' تو ہے لیکن باہر کی دنیا میں پھیلنے والی ہے۔ عالمی معیشتوں سے تعاون کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پورے اعتماد کے ساتھ دنیا کے دیگر ممالک کی معیشتوں سے لین دین رکھنے اور تعاون کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ تو 'دروں زائیدہ' تو ہے لیکن باہر پھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ باتیں اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ عناد رکھنے والے قلم، زبانیں اور دماغ اپنے کام میں لگ گئے ہیں۔ یہ ذہنیت پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ حکام ملکی معیشت کو ملک کے اندر محدود و محصور کر دینا چاہتے ہیں۔ عوام اور عہدیداروں کو اس راستے سے جو سعادت و کامرانی کا راستہ ہے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ میں یہ باتیں بیان کر رہا ہوں تا کہ ہماری رائے عامہ کے لئے صورت حال واضح ہو جائے۔
تیسرے یہ کہ یہ معیشت جو مزاحمتی اقتصاد کے نام سے متعارف کرائی جا رہی ہے اس میں عوام الناس کی حیثیت بنیادی اور کلیدی ہے۔ یہ سرکاری اقتصاد نہیں ہے، عوامی اقتصاد ہے، عوامی ارادے سے، عوامی سرمائے سے اور عوامی شراکت سے اسے جامہ عمل پہنانا ہے۔ سرکاری نہیں ہے کا یہ مطلب نہیں کہ اس سلسلے میں حکومت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ حکومت کی بھی ذمہ داری ہے، منصوبہ بندی کرنا، زمین ہموار کرنا، استعداد اور توانائیوں کو فروغ دینا، رہنمائی اور مدد کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اقتصادی سرگرمیاں اور اقتصادی کام عوام کے ہاتھ میں ہوگا، عوام کے اختیار میں ہوگا، اور حکومت ذمہ دار ادارے کی حیثیت سے نگرانی کا کام کریگی، رہنمائی کرے گی، مدد کرےگی۔ اگر کہیں کچھ لوگ غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں، اقتصادی بدعنوانی کی کوشش کریں تو حکومت انہیں روکے، جہاں کچھ لوگوں کو مدد کی ضرورت پیش آئے، وہاں حکومت ان کی مدد کرے۔ بنابریں حالات کو سازگار اور موافق بنانا اور کام کو آسان کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ چوتھی چیز ہم نے یہ کہی کہ مزاحمتی معیشت 'نالج بیسڈ اکانومی' ہے۔ یعنی علم و سائنس کے شعبے کی ترقی سے بھرپور استفادہ کریگی، سائنسی ترقی کی بنیاد پر آگے بڑھے گی، علم و دانش کے محور کے ارد گرد گھومے گی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ معیشت صرف سائنسدانوں اور صاحبان رائے سے مختص ہے اور صرف دانشوروں کا طبقہ ہی اس میں کوئی رول ادا کر سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے، بیشک تجربات اور مہارتیں، وہ افراد جو تجربہ اور مہارت رکھتے ہیں صنعت کاروں کے پاس جو تجربات ہیں وہ بھی بہت اثر رکھتے ہیں، ان تجربات سے بھی اس معیشت میں استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ کہا جاتا ہے کہ 'نالج بیسڈ اکانومی' تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تجربہ کار کسان اور صنعت کار جنہوں نے گزشتہ برسوں کے دوران اپنے تجربات کی مدد سے بڑے نمایاں کام انجام دئے ہیں، وہ اب کوئی رول ادا نہیں کر سکتے، نہیں، ایسا نہیں ہے۔ ان کا رول بھی بہت اہم ہے۔
پانچویں چیز یہ ہے کہ یہ معیشت انصاف اور مساوات کو اپنا محور قرار دیتی ہے۔ یعنی صرف سرمایہ داری کے معیاروں اور انڈیکیٹر جیسے قومی نمو اور قومی پیداوار کی علامات پر ہی اکتفا نہیں کرتی۔ مطمح نظر یہ نہیں ہے کہ ہم بیان کریں کہ قومی شرح نمو اتنی فیصد ہے یا ہماری قومی پیداوار اتنی ہے، جو آپ سرمایہ دارانہ معیشتوں میں اور عالمی سطح کے گراف میں دیکھتے ہیں۔ بعض ممالک کی قومی پیداوار بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن اسی ملک میں کچھ لوگ بھوک سے مر جاتے ہیں! ہم اس کی حمایت نہیں کرتے۔ بنابریں انصاف، سماجی انصاف اور اقتصادی مساوات مزاحمتی معیشت کا بہت اہم معیار ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم دنیا میں ترقی اور نمو کے لئے جو پیمانے معین ہیں ان کو یکسر نظر انداز کر دیں۔ ہم ان پیمانوں کو بھی دیکھتے ہیں لیکن ہماری معیشت کا محور انصاف اور مساوات ہے۔ اس پروگرام میں مساوات اور انصاف کا مطلب غربت تقسیم کرنا نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے سرمائے کی پیداوار میں اضافہ اور قومی ثروت کا فروغ۔
چھٹی چیز یہ کہ ہم نے کہا کہ مزاحمتی معیشت ملک کی اقتصادی مشکلات کا بہترین حل ہے، اس میں کوئی شک نہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ملک کی موجودہ مشکلات کو مد نظر رکھ کر یہ بات کہی جا رہی ہے جن کا ایک حصہ پابندیوں کا نتیجہ ہے یا ایک حصہ کسی غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے پیدا ہو گیا ہے۔ یہ دائمی حل ہے۔ مزاحمتی معیشت یعنی اقتصاد کے ستونوں کو محکم اور پائيدار بنانا۔ اس طرح کی معیشت پابندیوں کے عالم میں بھی اور معمول کے حالات میں بھی بارور ہوگی اور لوگوں کی مدد کریگی۔ یہ تو رہا پہلے سوال کا جواب۔
دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا یہ اقتصادی پروگرام جسے آپ مزاحمتی معیشت کہتے ہیں، ایک توہماتی اور خیالی شئے ہے جسے عملی جامہ پہنانے کی آپ آرزو رکھتے ہیں یا نہیں یہ کوئی باقاعدہ عملی جامہ پہننے والا نظریہ ہے؟ جواب یہ ہے کہ یہ بالکل قابل عمل چیز ہے اور یقینی طور پر دائرہ امکان میں ہے، کیوں؟ اس کی وجہ صلاحیتیں اور توانائیاں ہیں، اس ملک میں بے پناہ اور غیر معمولی توانائیاں ہیں۔ میں ان میں سے بعض صلاحیتوں کی جانب اشارہ کروں گا۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جنہیں ثابت کرنے کے لئے عجیب و غریب اعداد و شمار کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہیں اور سب دیکھ رہے ہیں۔ ہماری اہم توانائیوں اور صلاحیتوں میں سے ایک ہماری افرادی قوت ہے۔ ہمارے ملک میں افرادی قوت ہماری انتہائی اہم صلاحیتوں اور توانائیوں میں سے ایک ہے۔ یہ بہت بڑی چیز ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ ہمارے ملک میں نوجوانوں کی تعداد جو پندرہ سے تیس سال کی عمر کے ہیں، ہماری کل آبادی کے کافی بڑے حصے پر مشتمل ہے۔ یہ اپنے آپ میں بہت بڑی خصوصیت ہے۔ ہمارے یہاں یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل افراد کی تعداد ایک کروڑ ہے۔ یعنی ان گزشتہ برسوں میں ہمارے ایک کروڑ نوجوان یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوکر نکلے ہیں۔ چالیس لاکھ اسٹوڈنٹس ایسے ہیں جو آئندہ چند سال کے اندر یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوکر نکلنے والے ہیں۔ ہمارے عزیز نوجوان یہ بات یاد رکھیں کہ یہ جو ہم چالیس لاکھ اسٹوڈنٹس کی بات کر رہے ہیں، شاہ کے طاغوتی دور میں طلبہ کی تعداد کی پچیس گنا زیادہ تعداد ہے۔ ملک کی آبادی اس وقت کے مقابلے میں آج دگنی ہوئی ہے لیکن طلبہ کی تعداد اس دور کے مقابلے میں پچیس گنا زیادہ ہے۔ آج ہمارے یہاں طلبہ اور فارغ التحصیل ہو چکے نوجوانوں کی تعداد کا یہ عالم ہے۔ اس کے علاوہ بھی دسیوں لاکھ کی تعداد میں ہمارے یہاں تجربہ کار اور ماہر افراد ہیں۔ آپ غور کیجئے! مقدس دفاع کے زمانے میں یہی افرادی قوت ہماری مسلح فورسز کی مدد کے لئے آگے آئی تھی۔ مسلط کردہ جنگ کے دوران ہماری ایک بہت بڑی مشکل یہ تھی کہ ہمارے بہت سے سسٹم ناکارہ ہو جاتے تھے، ہمارے مراکز پر بمباری کی جاتی تھی اور ہمارے فوجی خالی ہاتھ رہ جاتے تھے، نقل و حمل کے ذرائع اور دیگر ساز و سامان تباہ ہو جاتا تھا۔ یہ مسائل تھے۔ تہران اور دیگر علاقوں سے کچھ تجربہ کار اور ماہر افراد روانہ ہوئے جنہیں جنگ کے اوائل میں میں نے خود بھی دیکھا ہے، میں انہیں دیکھتا تھا اور ابھی حال ہی میں بحمد اللہ توفیق حاصل ہوئی اور ان سے ملاقات کا موقعہ ملا، ان میں سے کچھ لوگ ملنے کے لئے آئے، اس وقت نوجوان تھے مگر اب خاصا وقت گزر چکا ہے لیکن جوش و جذبہ وہی ہے، تو یہ لوگ میدان جنگ میں گئے اور صف اول تک پہنچ گئے۔ ان میں کچھ تو شہید ہو گئے، ان لوگوں نے وسائل اور سسٹم کی مرمت کا کام سنبھالا، تعمیرات کا کام انجام دیا، صنعتی تعمیرات کا کام انجام دیا۔ یہ عجیب و غریب پل جو جنگ کے دوران ہماری مسلح فورسز کے بہت کام آتے تھے، دیگر بے شمار وسائل، گاڑیاں، سڑکیں وغیرہ یہ سب انہی تجربہ کار اور ماہر افراد نے تیار کیا۔ وہ آج بھی موجود ہیں، ہمارے ملک میں آج بھی ماشاء اللہ ان کی خاصی تعداد ہے۔ یہ اعلی تعلیم یافتہ افراد نہیں ہیں مگر ایسا تجربہ اور مہارت رکھتے ہیں کہ بسا اوقات تو اعلی تعلیم یافتہ افراد سے بھی کہیں زیادہ کارآمد اور بہتر ثابت ہوتے ہیں۔ یہ بھی ہماری افرادی قوت کا ایک اہم حصہ ہے، یہ افراد زرعی شعبے میں بھی ہیں اور صنعتی شعبے میں بھی کثرت موجود ہیں۔
ہمارے ملک کے اندر موجود اہم صلاحیتوں اور توانائیوں میں ایک ہمارے قدرتی ذخائر ہیں۔ میں نے گزشتہ سال اسی جگہ پر تیل اور گیس کے بارے میں بتایا تھا کہ تیل اور گیس دونوں مجموعی طور پر دیکھے جائیں تو ہمارا ملک پہلے نمبر پر ہے۔ یعنی دنیا میں کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے جس کے پاس تیل اور گیس دونوں ذخائر اس مقدار میں ہوں جس مقدار میں ایران کے پاس ہیں۔ ہمارے تیل اور گیس کے ذخائر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو دنیا کے ہر ملک سے زیادہ ہیں۔ اس سال جو میں یہاں آیا ہوں اور آپ سے گفتگو کر رہا ہوں تو اس دوران گیس کے جو نئے ذخائر ملے ہیں ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ گزشتہ سال گیس کے ذخائر کے سلسلے میں ہمارے جو اعداد و شمار تھے ہمارے ذخائر اس سے کہیں زیادہ ہو چکے ہیں۔ یہ تو تیل اور گیس کے ذخائر کی صورت حال ہے۔ انرجی کے ذخائر کہ جس پر ساری دنیا کی روشنی، حرارت، صنعت اور ترقی کا انحصار ہے ان کی سب سے بڑی مقدار ہمارے ملک کے پاس ہے۔ اس کے علاوہ سونے اور نایاب معدنیات کی کانیں اس پورے ملک میں جابجا موجود ہیں۔ لوہا، قیمتی پتھر، انواع و اقسام کی قیمتی اور اہم دھاتیں جن پر صنعتوں کا انحصار ہے ہمارے ملک میں پائی جاتی ہیں، یہ بھی بہت اہم پہلو ہے۔
ہمارے ملک کی ایک اور انتہائی اہم خصوصیت اس کا جغرافیائی محل وقوع ہے۔ ہم پندرہ ملکوں کے پڑوسی ہیں جو ہمارے یہاں آمد و رفت رکھتے ہیں۔ نقل و حمل اور ٹرانزٹ ہمارے ملک کی بہت اہم خصوصیت ہے، ہمارے جنوب میں 'ٹرانس باؤنڈری واٹر' (بحیرہ عرب) اور شمال میں 'انکلوزڈ واٹر' (بحیرہ کیسپین) واقع ہے۔ ہمارے ان پڑوسی ملکوں میں تقریبا سینتیس کروڑ لوگوں کی آبادی ہے۔ اتنے سارے ہمسایہ ممالک اور رابطے کی یہ کیفیت کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی اور رونق کے لئے بہت اہم خصوصیت ہے۔ یہ سب ہمارے اپنے داخلی بازار سے ہٹ کر ہے۔ ہمارے اپنے ملک کا ساڑھے سات کروڑ کی آبادی کا بازار کسی بھی معیشت کے لئے بہت اہم اور اچھا بازار ہے۔
ہمارے ملک کے پاس ایک اور اہم خصوصیت سافٹ اور ہارڈ دونوں طرح کے بنیادی سسٹم اور تنصیبات ہیں۔ جیسے دفعہ چوالیس کی پالیسیاں (نجکاری سے متعلق آئینی پالیسیاں)، 'سند چشم انداز' (پانچ مراحل پر استوار ترقیاتی منصوبہ) ان گزشتہ برسوں میں جو کام انجام پائے۔ اسی طرح بنیادی تنصیبات میں اور انفراسٹرکچر میں ہماری سڑکیں، پل، ڈیم، کارخانے وغیرہ ہیں۔ یہ سب کسی بھی ملک کی پیشرفت و ترقی کے لئے بہت اہم مقدمات ہیں، یہ کسی بھی ملک کے لئے بہت اہم خصوصیات ہیں۔ اب ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ اگر پابندیاں نہ ہوتیں تو ان توانائیوں اور صلاحیتوں سے آپ بخوبی استفادہ کر سکتے تھے، لیکن چونکہ پابندیاں لگی ہوئی ہیں لہذا آپ اپنی ان توانائیوں کو بروئے کار نہیں لا سکتے۔ یہ تصور غلط ہے، یہ خیال درست نہیں ہے۔ ہم دوسرے بھی بہت سےشعبوں میں عین پابندیوں کے عالم میں انتہائی نمایاں اور بلند مقام پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس کی ایک مثال علمی اور سائنسی شعبے کی ترقی ہے، ایک اور مثال صنعت و ٹکنالوجی کے میدان کی کامیابیاں ہیں، ان شعبوں میں ہم پر پابندیاں لگی ہوئی تھیں اور آج بھی لگی ہوئی ہیں۔ آج بھی جدید ٹکنالوجی کے سلسلے میں دنیا کے اہم سائنسی مراکز کے دروازے ایرانی سائنسدانوں اور ایرانی طلبہ کے لئے بند ہیں لیکن اس کے باوجود ہم نے نینو ٹکنالوجی کے شعبے میں ترقی کی ہے، ایٹمی شعبے میں ترقی کی ہے، اسٹیم سیلز کے شعبے میں ہم نے ترقی کی ہے، دفاعی صنعت کے شعبے میں ہم نے ترقی کی ہے، ڈرون طیاروں اور میزائل کے شعبے میں ہم نے ترقی کی جو دشمن کی آنکھ میں کانٹا بن کر کھٹک رہی ہے، تو پھر ہم اقتصادی شعبے میں ترقی کیوں نہیں کر سکتے؟ جب ہم ان میدانوں میں اور نمایاں شعبوں میں اتنی ترقی کرنے پر قادر ہیں تو اقتصادی میدان میں بھی ہمیں اپنے عزم کو پختہ کرنا ہوگا اور ایک دوسرے کے شانے سے شانہ ملاکر آگے بڑھنا ہوگا تاکہ معیشت کو بھی فروغ دیں۔ ہماری نگاہ امید دشمن کے ہاتھوں پر مرکوز نہ ہو کہ کب وہ پابندیاں اٹھائے گا، کب فلاں چیز کی موافقت کرے گا، اس کو جہنم میں ڈالئے! ہمیں اپنی توانائيوں کا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟
تیسرا سوال جو میں نے اٹھایا، اب اس کا جواب دینا چاہتا ہوں۔ تیسرا سوال یہ تھا کہ یہ عظیم کام، یہ مزاحمتی معیشت جامہ عمل پہنے، اس کے لئے ہمیں کیا اقدامات انجام دینے ہیں، اس کے تقاضے کیا ہیں؟ میں اختصار کے ساتھ اس کا جواب دوں گا؛ سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ حکام قومی پیداوار کی حمایت کریں، قومی پیداوار ملک کی معاشی پیشرفت کی بنیادی اور کلیدی کڑی ہے۔ حکام قومی پیداوار کی حمایت کریں! کس طرح حمایت کریں؟ اس طرح حمایت کریں کہ جہاں کسی قانون کی ضرورت ہے، قانون سے مدد کریں، جہاں عدالتی پہلو سے مدد کی ضرورت ہے وہاں اس پہلو سے مدد کریں، جہاں انتظامی اور اجرائی امور میں مدد کی ضرورت ہے وہ مدد فراہم کریں۔ ترغیب دلائیں، کام کریں، یہ سارے اقدامات انجام دیں تاکہ قومی پیداوار کو فروغ حاصل ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ ملک کے سرمایہ کار اور افرادی قوت جن پر پیداوار کا انحصار ہے، قومی پیداوار کو خاص طور پر اہمیت دیں۔ کس طرح؟ اس طرح کہ پیداوار میں اضافہ کریں۔ پیداوار میں اضافے سے مراد یہ ہے کہ جو وسائل موجود ہیں ان کو بنحو احسن بروئے کار لائیں، محنت کش طبقہ اپنا کام پوری توجہ اور باریک بینی سے کرے۔ رحم الله امرء عمل عملاً فأتقنه یہ ہے پروڈکٹیوٹی میں اضافے کا مطلب۔ پیغمبر اسلام کا یہ قول ہے کہ اللہ تعالی رحمت نازل کرے اس شخص پر جو کوئی کام انجام دیتا ہے تو بھرپور طریقے سے اور محکم انداز میں سرانجام دیتا ہے۔ جو شخص سرمایہ کاری کر رہا ہے وہ اس سرمائے سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی کوشش کرے۔ یعنی پیداوار پر آنے والے خرچ کو کم کرے۔ بعض دفعہ غیر مدبرانہ روش اور درست منصوبے اور پروگرام کے فقدان کی وجہ سے پیداوار کا خرچ بڑھ جاتا ہے اور سرمائے اور محنت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی پیداوار کی مقدار بھی کم ہو جاتی ہے۔
تیسری چیز یہ ہے کہ ملک کے سرمایہ کار پیداواری سرگرمیوں کو دیگر سرگرمیوں پر ترجیح دیں۔ ہم نے دیکھا کہ کچھ افراد کے پاس سرمایہ موجود تھا اور اسے وہ کسی میدان میں لگا کر اچھا منافعہ حاصل کر سکتے تھے لیکن انہوں نے نہیں کیا، وہ گئے پیداواری سرگرمیوں کی جانب، انہوں نے کہا کہ ہم ملکی پیداوار کو تقویت پہنچانا چاہتے ہیں۔ یہ نیک عمل ہے، یہ ایک طرح کا کار خیر بھی ہے، اس کا شمار انتہائی قابل تعریف کاموں میں ہوتا ہے۔ جن لوگوں کے پاس سرمایہ ہے وہ اپنا سرمایہ پیداواری کاموں میں لگائیں اور ملکی پیداوار کی مدد کریں، خواہ ان کا یہ سرمایہ کم ہو یا زیادہ۔
اس کے بعد یہ نکتہ عرض کرنا ہے کہ ملک کے عوام ہر سطح پر قومی پیداوار کی ترویج کریں۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب وہی ہے جو میں نے دو تین سال قبل اسی جگہ پر تاکید کے ساتھ کہا تھا اور کچھ لوگوں نے خوش قسمتی سے اس پر عمل بھی کیا تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ سب اس پر عمل پیرا ہوں، وہ ہے داخلی مصنوعات کا استعمال۔ میرے عزیزو! جب آپ امپورٹڈ چیزوں کے بجائے ملک کے اندر تیار ہونے والی اشیاء اور مصنوعات کو خریدتے ہیں تو ایک طرف تو آپ روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مددگار بنتے ہیں، دوسری طرف آپ ایرانی محنت کش طبقے کو اس بات کی ترغیب دلاتے ہیں کہ وہ اپنی مہارت اور جدت عملی کا مظاہرہ کرے۔ جب داخلی مصنوعات کا استعمال بڑھتا ہے تو یہ مصنوعات تیار کرنے والا جس کے اندر کچھ جدت عملی اور صلاحیتیں ہیں وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لاتا ہے۔ جب آپ داخلی مصنوعات کو استعمال کریں گے تو اس سے قومی ثروت میں اضافہ ہوگا۔ ماضی میں، طاغوتی شاہی دور میں غیر ملکی مصنوعات کا استعمال ایک عام چلن تھا، جب کوئی چیز خریدنے کے لئے لوگ جاتے تھے تو سب سے پہلے دریافت کرتے تھے کہ ایرانی ہے یا غیر ملکی ہے؟ اگر غیر ملکی ہو تو زیادہ رغبت سے خریدتے تھے۔ یہ چیز ختم ہونا چاہئے اور اس کے برعکس صورت حال پیدا ہونا چاہئے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ امپورٹڈ اشیاء کا خریدنا حرام ہے، تاہم ہمارا یہ کہنا ہے کہ ملکی معیشت کو مستحکم بنانے کے لئے داخلی مصنوعات کی خریداری ایک اہم ضرورت ہے۔ اس کا ان تمام چیزوں پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ کردار عوام الناس کو ادا کرنا ہے۔ البتہ دیگر امور کی طرح اس معاملے میں بھی حکام اور عہدیداروں کی ذمہ داری دوسروں سے زیادہ ہے۔ بسا اوقات عوام الناس کے اندر اسراف اور فضول خرچی کی وجہ ان لوگوں کا طرز عمل بنتا ہے جنہیں وہ اپنا بڑا سمجھتے ہیں۔ اگر اعلی سطح پر اسراف نہ ہو تو عوام الناس کے اندر بھی اسراف میں کمی آئے گی۔ تو داخلی پیداوار کا فروغ ایک اہم ضرورت ہے۔
میں اس موضوع کو سمیٹتے ہوئے بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ مزاحمتی معیشت کا مطلب ہے معیشت کی بنیادوں اور ستونوں کو مستحکم بنانا جو ہماری عمومی ذمہ داری ہے، اس میں سب اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں، حکام بھی اور عوام الناس بھی، اسی طرح وہ لوگ بھی جو کوئی مہارت رکھتے ہیں، وہ لوگ بھی جن کے پاس سرمایہ ہے، وہ لوگ بھی جو صاحب نظر ہیں۔ ہم نے جو باتیں عرض کیں وہ ان چیزوں کا خلاصہ ہے جو بیان کی جانی چاہئے۔ اب مفکر اور دانشور حضرات کی ذمہ داری یہ ہے کہ اس کی تفصیلات کو بیان کریں۔
میری گفتگو کا دوسرا حصہ ثقافت سے متعلق ہے۔ میں ایک جملے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ میرے عزیزو! ثقافت، معیشت سے بھی زیادہ اہم ہے، کیوں؟ اس لئے کہ ثقافت اس آکسیجن کی مانند ہے جس سے ہم سانس لیتے ہیں، آپ ہوا میں سانس لینے پر مجبور ہیں، خواہ آپ چاہیں یا نہ چاہیں۔ اب اگر یہ ہوا صاف ستھری ہوئی تو آپ کے بدن پر اس کے اپنے اثرات ہوں گے اور اگر ہوا آلودہ ہوئی تو اس کے کچھ اور اثرات ہوں گے۔ کسی ملک کی ثقافت ہوا کی مانند ہوتی ہے، اگر صحیح ہو تو اس کے کچھ اثرات ہوں گے۔ ہم داخلی پیداوار کے بارے میں ابھی گفتگو کر رہے تھے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ داخلی مصنوعات کے استعمال کا حقیقی معنی میں چلن ہو تو اس کے لئے ضروری ہےکہ عوام کے ذہن میں داخلی مصنوعات کے استعمال کی ثقافت جاگزیں ہو۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ عوام اسراف اور فضول خرچی سے پرہیز کریں تو ضروری ہے کہ یہ بات لوگوں کے ذہن میں پورے باور کے ساتھ بیٹھ جائے۔ یہی ثقافت ہے۔ ثقافت کا مطلب ہے لوگوں کا باور و یقین، ان کا ایمان، عوام کے عادات و اطوار، وہ چیزیں جن سے لوگ روزانہ روبرو ہوتے ہیں اور جن کا عوام کے حرکات و سکنات اور اعمال و اقدامات میں اثر ہوتا ہے، یہی ثقافت ہے۔ بنابریں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ مثال کے طور پر سماجی شعبے میں قانون کی بالادستی یعنی یہ کہ لوگ قانون کا احترام کریں، یہ ایک ثقافتی مسئلہ ہے۔ سماجی تعاون ایک ثقافتی معاملہ ہے۔ شادی اور کنبے کی تشکیل ایک کلچر ہے۔ بچوں کی تعداد کلچر کا حصہ ہے۔ اگر ان امور میں لوگوں کی نظر اور لوگوں کی سوچ درست ہوگی تو معاشرے میں لوگوں کی زندگی کا ایک انداز ہوگا اور اگر سوچ اور سمت درست نہ ہو تو زندگی کسی اور نہج پر آگے بڑھے گی، اور خدانخواستہ ہم بھی اسی بلا میں گرفتار ہو سکتے ہیں جس میں آج وہ ممالک مبتلا ہیں جنہوں نے خاندان اور خاندانی بنیادوں کو مسمار کر دیا اور شہوت و لذت کی ترویج کی۔ وَاتَّبِعوُا الشَّهَواتِ فَسَوفَ یَلقَونَ غَیّا (۱) ــ ان کا یہی انجام ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ثقافتی شعبہ دشمنوں کے نشانے پر ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ ثقافت کا اثر بہت زیادہ ہے۔ ثقافتی میدان میں دشمن کا نشانہ اور اس کے حملوں کی آماجگاہ ہے لوگوں کا ایمان اور عقیدہ۔ ثقافتی حکام اس شعبے میں ہونے والی دراندازی کی طرف سے ہوشیار رہیں، ثقافتی دراندازی بہت خطرناک ہے۔ حکام بہت محتاط رہیں، بہت ہوشیار رہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ تمام ثقافتی مسائل کی جڑ اغیار ہیں۔ نہیں، خود ہم نے بھی کوتاہی کی ہے، حکام، ثقافتی شعبےاور دیگر شعبوں کے حکام سے کوتاہی ہوئی ہے، غلطیاں ہوئی ہیں جن کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ہم سب کی ذمہ داری دشمن کی گردن پر نہیں ڈالتے لیکن ثقافتی معاملے میں دشمن کی ریشہ دوانیوں کو نظر انداز بھی نہیں کر سکتے۔ آج بھی اور اوائل انقلاب میں بھی دشمن کے تشہیراتی اداروں کی ساری کوشش یہ رہی کہ عوام کو انقلاب کی بنیادوں کے سلسلے میں لا تعلق بنا دیں۔ انہوں نے عوام الناس کی فکر اور طرز عمل کو نشانہ بنایا، لوگوں کے عقائد و نظریات پر حملہ کیا۔ ان چیزوں کو انسان کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔
یہاں ممکن ہے کہ یہ سوال اٹھے کہ آپ کہتے ہیں کہ ملک کے حکام بہت محتاط رہیں، تو سوال یہ ہے کہ کتنا محتاط رہیں؟ کیا یہ آزادی سے جو انقلاب کا نعرہ بھی ہے اور جو اسلامی جمہوریہ کے اہم ستونوں کا جز ہے، متصادم نہیں ہے؟ جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں! آزادی سے اس کا کوئي ٹکراؤ نہیں ہے۔ آزادی، تمام اصولوں اور ضوابط کو خیرباد کہہ دینا نہیں ہے، آزادی مکمل وارفتگی نہیں ہے۔ آزادی جو ایک عظیم نعمت خداوندی ہے اپنے کچھ ضوابط اور اصول رکھتی ہے۔ ضوابط کے بغیر آزادی بے معنی ہے۔ اگر ملک میں کچھ ایسے افراد ہوں جو نوجوانوں کے ایمان و عقیدے پر وار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تو آزادی کا واسطہ دیکر اس پر خاموش نہیں بیٹھا جا سکتا۔ جیسے اگر کوئی ہیروئن یا دیگر نشہ آور اشیاء جو بدن کو زہر آلود اور خاندانوں کو بدبخت بنا دیتی ہیں، لوگوں کے درمیان پھیلانے کی کوشش کرے تو لا تعلق ہوکر بیٹھا نہیں جا سکتا۔ اگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ کچھ لوگ فن و ہنر کی آڑ میں، چرب زبانی کرکے، یا دیگر وسائل کی مدد سے مثلا پیسے کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں، لوگوں کے ایمان و عقیدے پر وار کر رہے ہیں، لوگوں کی اسلامی و انقلابی ثقافت میں دراندازی کر رہے ہیں، اور ہم خاموش تماشائی بنے رہیں کہ سب کو آزادی حاصل ہے تو اس طرح کی آزادی دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے! ساری دنیا میں کہیں نہیں ہے۔ وہی ممالک جو آزادی کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں اپنی ریڈ لائنوں کے سلسلے میں بہت سخت گیری کرتے ہیں۔ آپ دیکھ لیجئے کوئی بھی شخص یورپی ممالک میں ہولوکاسٹ کے بارے میں ایک لفظ نہیں بول سکتا۔ حالانکہ معلوم نہیں کہ اس قضیئے کی واقعی کوئی حقیقت ہے یا نہیں اور اگر حقیقت میں ہولوکاسٹ ہوا ہے تو کیسے ہوا۔ ہولوکاسٹ کے بارے میں رائے زنی، اس کے بارے میں کسی بھی طرح کے شبہے کا اظہار، بہت بڑا گناہ سمجھا جاتا ہے اور اس پر سختی سے روک لگائی جاتی ہے، ایسا کرنے والے کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے، عدالتی کارروائی شروع ہو جاتی ہے اور اوپر سے وہ آزادی کے علم بردار بھی بنے ہوئے ہیں۔ جو چیزیں ان کی نظر میں ریڈ لائن کا درجہ رکھتی ہیں ان کی وہ بڑی سختی سے پابندی کرتے ہیں تو پھر انہیں ہم سے کیوں یہ توقع ہے کہ ہم اپنے ملک اور اپنے نوجوانوں کی انقلابی اور اعتقادی ریڈ لائنوں کو نظر انداز کر دیں؟ اگر کوئی قومی خود مختاری کے جذبے کو نشانہ بنائے، اس وقت کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو خود مختاری کی بات ہوتی ہے تو تمسخر آمیز انداز میں مسکراتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ سب پسماندگی کی باتیں ہیں، خود مختاری کیا ہوتی ہے؟ وہ اغیار پر انحصار کو تھیوری کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، خود مختاری کے نظرئے کا مذاق اڑاتے ہیں، خود مختاری کی زندگی بسر کرنے کے نوجوانوں کے جذبے کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا جواب دینا ضروری ہے۔ کوئی دینی و اخلاقی اصولوں کی توہین کرتا ہے، فارسی زبان کا مذاق اڑاتا ہے، ایرانی آداب و اخلاق کی تحقیر کرتا ہے، یہ چیزیں ہیں، یہ چیزیں آج کل نظر آ رہی ہیں۔ کچھ لوگوں کی یہ کوشش ہے کہ ایرانی نوجوان کے ملی جذبے اور حمیت کو کچل دیں۔ بار بار منفی اخلاقیات کا حوالہ دیتے ہیں کہ آپ اہل یورپ سے سیکھئے! اہل مغرب سے سبق لیجئے! ان لوگوں میں ایک دوسرے کے لئے رواداری اور تحمل کا جذبہ ہے، ہم ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے۔ کیا واقعی یہ حقیقت ہے؟ آج کی بات نہیں بیس سال اور پچاس سال پہلے کی بات ہے، یورپی ملکوں کی سڑکوں پر یورپی ملکوں کے دار الحکومت کی سڑکوں پر کوئی خاتون باحجاب نکلتی ہے تو وہاں کے نوجوان اس پر حملہ کر دیتے ہیں۔ لوگوں کی نظروں کے سامنے پردہ نشیں خاتون کو مار مار کر زخمی کر دیتے ہیں بلکہ قتل کر ڈالتے ہیں اور کوئی یہ پوچھنے کی جرئت نہیں کر پاتا کہ ایسا کیوں ہوا؟ ایک آدمی کو جو اس ملک کا رہنے والا نہیں ہے لوگوں کی نظروں کے سامنے آگ لگا دیتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں رواداری؟ یہ واقعہ تو ابھی حال ہی میں رونما ہوا ہے۔ چند ماہ قبل کچھ اوباش لڑکوں نے ایک یورپی ملک کے ایک شہر میں ایک ایرانی کو زد وکوب کیا، پھر اس پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی اور ہمسائے کھڑے دیکھتے رہے، کوئی کچھ نہیں بولا۔ اسے کہتے ہیں مخالف کو تحمل کرنا؟ جو لوگ ملت ایران کی، ایرانی شناخت کی اور ایرانی اخلاقیات کی تحقیر کرتے ہیں، جو لوگ اسلامی اصولوں کو لوگوں کے ذہنوں میں متزلزل کر دینے کی کوشش کرتے ہیں، جو لوگ انقلاب کے اصلی نعروں پر حملے کر رہے ہیں، جو لوگ کنبے اور خاندان کو بے وقعت ظاہر کرتے ہیں، شادی کو بے معنی قرار دیتے ہیں، یہ چیزیں آج ہمارے معاشرے میں موجود ہیں، کچھ لوگ یہ کام کر رہے ہیں، جو لوگ لذت پسندی کو اقدار میں شمار کرتے ہیں، لذت پسندی بھی در حقیقت مغربی ثقافت کی دین ہے، جس چیز سے بھی لذت حاصل ہو، کسی کو منشیات سے لذت ملتی ہے، کوئی جنسی شہوت کی تسکین سے لذت پاتا ہے، کوئی دوسروں کو زد وکوب کرکے لذت حاصل کرتا ہے، تو جس چیز سے بھی لذت حاصل ہو اسے جائز مانتے ہیں۔ جو لوگ اس طرح کی باتوں کی ترویج کریں ان کے سامنے خاموش نہیں رہا جا سکتا۔ کچھ لوگ ہر خوب و بد کے جواز کی ترویج کرتے ہیں۔ ایسے میں متعلقہ اداروں کو چاہئے کہ اپنے فرائض کو محسوس کریں۔ ثقافت کو تباہ کرنے کے سلسلے میں تخریبی عناصر ایک اہم حربہ یہ اختیار کرتے ہیں کہ پختہ قومی عزم کی جگہ لوگوں میں شک و تردد کی کیفیت پیدا کر دیں۔ اگر قوم کے اندر عزم راسخ نہ ہو تو وہ کسی منزل تک نہیں پہنچ سکتی۔ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ملک کی تقدیر اور مستقبل سے تعلق رکھنے والے مسائل کے سلسلے میں قوم کے عزم راسخ کو ختم کر دیں، اس کے اندر شک و شبہ پیدا کر دیں، قومی خود اعتمادی اور وقار کی جگہ ان کے اندر حقارت اور فرومائگی کا احساس پھیلائیں۔ پختہ ایمان کی جگہ، شکوک و شبہات اور لا دینیت، محنت و جفاکشی اور بلند ہمتی کی جگہ تعیش اور تن پروری جیسی چیزوں کی ترویج کرتے ہیں۔ یہ چالیں ہیں جو آزمائی جاتی ہیں۔ بنابریں ملک کے رسمی ثقافتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ان مسائل کے سلسلے میں اپنے فرائض پر عمل کریں۔ بعض فرائض اقدامی ہیں اور بعض دفاعی ہیں، دونوں ہی طرح کے فرائض پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اقدامی فرائض پر بھی اور دفاعی فرائض پر بھی۔ ہمارے ملک کے تشہیراتی ادارے خواہ وہ براہ راست حکومت سے تعلق رکھتے ہوں یا جو براہ راست حکومت سے مربوط نہیں ہیں، بیرونی ذرائع ابلاغ اور انہی کی زبان بولنے والے دیگر ابلاغیاتی اداروں کی ہنگامہ خیزی سے ہراساں نہ ہوں، خود کو انہیں کے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش نہ کریں، یہ تو ملک کے رسمی ثقافتی اداروں سے متعلق بات تھی۔ اس سلسلے میں ایک اور اہم نکتہ ان نوجوانوں کی خدمت میں عرض کرنا ہے جو ملک بھر میں رضاکارانہ طور پر ثقافتی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں اور بحمد اللہ اس کا دائرہ بھی کافی وسعت حاصل کر چکا ہے۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جو نوجوان تہران میں دیگر شہروں میں، دیگر صوبوں میں، خود مشہد میں اور دوسرے گوناگوں شہروں میں ثقافتی کاموں میں مصروف ہیں، خود اپنی مرضی اور ارادے سے اور خود اپنے جذبات و احساسات کی بنیاد پر، وہ اپنا یہ کام پوری سنجیدگی سے اور لگن کے ساتھ جاری رکھیں، انہوں نے بڑے اچھے کام انجام دئے ہیں ان کے بارے میں کچھ اطلاعات بحمد اللہ ہم تک بھی پہنچی ہیں۔ ہمارے یہ نوجوان یاد رکھیں کہ انقلابی اور باایمان نوجوانوں کے اندر ثقافتی کاموں کی یہی وسعت ملک کی ترقی و پیشرفت میں اور ملت ایران کے دشمنوں کے سامنے ہماری استقامت و ثابت قدمی میں بہت کلیدی رول ادا کرتی رہی ہے۔ ان کے علاوہ جو ثقافتی امور میں مرجع خلائق ہیں۔ ثقافتی امور کے مرجع خلائق کون لوگ ہیں؟ ان سے مراد ہیں علما، اساتذہ، انقلابی مفکرین، فرض شناس فنکار، ان لوگوں کو چاہئے کہ ملک کے ثقافتی حالات و تغیرات کا ناقدانہ نظر سے جائزہ لیتے رہیں اور انتباہات دیتے رہیں۔ البتہ انتباہات کے سلسلے میں میرا یہ خیال ہے کہ یہ عمل مدلل انداز میں اور واضح بیان کے ذریعے درست نقطہ نظر کو پیش کرنے کی صورت میں انجام دیا جائے۔ تہمتیں لگانے اور ہنگامہ کھڑا کرنے کی میں ہرگز حمایت نہیں کرتا۔ لوگوں کو دائرہ دین سے خارج قرار دینا، الزام لگانا، میں ان چیزوں سے اتفاق نہیں کرتا۔ میرا موقف یہ ہے کہ ہمارے ملک کی انقلابی برادری جو ہمارے نوجوانوں کے درمیان، ہمارے دانشوروں کے درمیان، ہمارے اساتذہ کے درمیان، ہمارے بزرگوں کے درمیان اور ہمارے اعلی تعلیم یافتہ افراد کے درمیان بڑی کثرت سے موجود ہے وہ مدلل طرز بیان کے ساتھ اس میدان میں اترے، تعمیری تنقید کرے۔ وہ خامیوں اور کمیوں کو ہم عہدیداروں کے گوش گذار کرے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ عہدیدار کو خبر نہیں ہوتی کہ معاشرے میں کیا حالات ہیں۔ لیکن وہ نوجوان تو معاشرے کے وسط میں موجود ہے، وہ بخوبی سمجھتا ہے، ہم نے ثقافتی شعبے میں، قومی عزم اور مجاہدانہ انتظام و انصرام کی جو بات کہی ہے اس سے مراد یہی ہے۔
میں آخر میں ملت ایران کی خدمت میں ایک نکتہ عرض کرنا چاہوں گا؛ آپ یاد رکھئے کہ عالمی برادری کے حقائق اور تغیرات امریکا کی مرضی اور خواہش کے مطابق وقوع پذیر نہیں ہو رہے ہیں۔ عالمی استکبار اور ملت ایران کے دشمنوں کی جو خواہش تھی وہ پوری نہیں ہو سکی۔ عالمی سطح پر بھی یہ خواہش نہ تو پوری ہوئی اور نہ ہوگی۔ امریکا فلسطین میں ناکام ہو گیا، اس نے فلسطین کے لئے جو منصوبہ بنایا تھا اور جس کے لئے اس نے بڑی کوشش بھی کی وہ عملی جامہ نہیں پہن سکا اور ان شاء اللہ آئندہ بھی یہ منصوبہ پورا نہیں ہوگا۔ وہ مملکت فلسطین کو ایک یہودی ملک بنا دینا چاہتے ہیں۔ یعنی فلسطینی خواہ مسلمان ہو یا عیسائی اس کے فلسطین میں رہنے کا کوئی امکان نہ رہے، یعنی فلسطین کا قضیہ جڑ سے ختم ہی کر دیں۔ اس کی بڑی کوشش کی، گزشتہ چند برسوں میں بڑی تگ و دو کی لیکن وہ کچھ نہیں کر سکے۔ امریکا فلسطین میں اپنا مقصد پورا نہیں کر پایا، شام میں بھی اس کی مراد پوری نہیں ہوئی، عراق سے بھی بے نیل مرام اسے نکلنا پڑا، افغانستان اور پاکستان میں بھی اس کے جو مقاصد تھے پورے نہیں ہوئے۔ اور اب آپ یورپ میں بھی دیکھ رہے ہیں اور سن رہے ہیں کہ امریکا کا منصوبہ نقش بر آب ہو گیا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے وطن عزیز میں انہوں نے انقلاب کے خلاف جتنی بھی سازشیں کیں اور ہماری انقلابی قوم کے خلاف جتنی بھی چالیں چلیں سب بے نتیجہ رہیں۔ اس کی دلیل یہی عوام کی شرکت ہے۔ امریکی حکومت کے اندر موثر افراد نے صریحی طور پر یہ کہا کہ ہم نے پابندیاں عائد کیں اور ان میں شدت پیدا کی کہ عوام اسلامی نظام سے برگشتہ ہو جائیں، عوام کو ہم سڑکوں پر اتار لیں۔ انہوں نے صریحی طور پر یہ بات کہی کہ پابندیاں اس لئے ہیں کہ انقلاب کو جڑ سے ختم کر دیا جائے، عوام کو اسلامی نظام کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا جائے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ نتیجہ وہی نکلا جو ہم نے عرض کیا کہ سنہ 1392 میں الیکشن ہوا تو عوام کی شاندار شرکت رہی اور بائیس بہمن سنہ 1392 (11 فروری 2014) کو جلوس نکلے تو عوام کی شرکت گزشتہ برسوں سے زیادہ وسیع تر رہی اور لوگوں میں جوش و جذبہ کئی گںا بیشتر نظر آیا۔ یہ بات میں بارہا عرض کر چکا ہوں۔ عزیز نوجوان یہ بات یاد رکھیں کہ مستقبل آپ کا ہے، توفیق الہی سے شکست آپ کے دشمنوں کا مقدر ہے۔ میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں یہ دعا کرتا ہوں کہ اپنی توفیقات کے ذریعے آپ سب کی راہ سعادت کی سمت ہدایت فرمائے اور حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے قلب مقدس کو ہم سے راضی و خوشنود رکھے۔
۱) سوره مریم، آیت۵۹