قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حقیقت پسندانہ نگاہ، خامیوں کے ساتھ ساتھ بے شمار مثبت پہلوؤں اور خوبیوں پر بھی توجہ، صاحب ایمان اور انقلابی نوجوان نسل پر افتخار، داخلی اور ملی توانائیوں سے بھرپور استفادہ، دشمن سے ہراساں نہ ہونا، عوامی قوت پر اعتماد کرنا، مجاہدانہ روش کی تقویت، قومی اتحاد کی حفاظت، انقلابی و دینی ثقافت پر توجہ اور اس کی ترویج مختلف سطح پر مصروف کار اسلامی نظام کے عہدیداروں کی اہم ذمہ داریاں ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں اسلامی نظام کے اندر ماہرین کی کونسل کے خاص مقام و منزلت کا ذکر کیا اور فرمایا کہ 'مجلس خبرگان' کے اجلاسوں میں ملت ایران کے علما، بزرگ ہستیوں اور مجتہدین کا جمع ہونا خاص اہمیت رکھتا ہے تاہم بعض حالات و مواقع پر اس کی اہمیت دگنا ہو جاتی ہے اور موجودہ حالات اسی قسم کے حالات ہیں۔
ماہرین کی کونسل (مجلس خبرگان) کے سربراہ اور ارکان سے ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب سے قبل کونسل کے سربراہ آیت اللہ مہدوی کنی نے ماہرین کی کونسل کے پندرہویں اجلاس کے انعقاد کا حوالہ دیتے ہوئے اجلاس میں تقریبا سارے ارکان کی موجودگی پر ان کا شکریہ ادا کیا اور کچھ نکات بیان کئے۔ کونسل کے نائب سربراہ آیت اللہ یزدی نے کونسل کے دو روزہ اجلاس کی رپورٹ پیش کی۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحیم‌

اللہ تعالی کی بارگاہ میں شکر بجا لاتا ہوں کہ اس نے زندگی دی اور اس باعظمت نشست میں شرکت اور کچھ باتیں سننے اور بیان کرنے کا موقعہ مرحمت فرمایا۔ شکریہ ادا کرتا ہوں ماہرین کی کونسل کے محترم صدر (1) کا جو معینہ وقت پر کونسل کا اجلاس منعقد کرتے ہیں حالانکہ انہیں (طبیعت کی ناسازی کے باعث) کافی دشواری ہوتی ہے۔ اسی طرح دیگر محترم حضرات کا بھی شکر گزار ہوں۔
اس کونسل کی اہمیت و افادیت کے بارے میں بہت کچھ بیان کیا گیا ہے، ہم نے کچھ باتیں عرض کیں، آپ حضرات نے بھی کئی بار اس پر روشنی ڈالی۔ اسلامی نظام اور اسلامی جمہوری نظام کے ستونوں میں اس کونسل کا خاص مقام و مرتبہ ہے۔ لیکن بعض اوقات خاص مناسبتوں کی وجہ سے جن میں کچھ کا تعلق داخلی مسائل سے ہو سکتا ہے اور کچھ کا تعلق بیرونی مسائل سے ہو سکتا ہے، اس کونسل اور اتنے سارے علماء، بزرگ حضرات، ملک میں خاص اثر رکھنے والے علمائے کرام، مجتہدین کا اجتماع ایک الگ ہی اہمیت حاصل کر لیتا ہے۔ میری نظر میں موجودہ دور ایسے ہی ادوار میں سے ایک ہے۔ ہمارے گرد و پیش میں نہایت اہم مسائل رونما ہو رہے ہیں۔ کچھ مسائل کا تعلق براہ راست ہم سے ہے اور کچھ مسائل براہ راست ہم سے مربوط نہیں ہیں لیکن پھر بھی ہم انہیں نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اس طرح کے مسائل دنیا میں اور ہمارے علاقے میں کثرت سے رونما ہو رہے ہیں۔ ایشیا میں، افریقا میں اور یورپ میں عمومی حالات پر نظر ڈالئے تو بڑی پیچیدہ صورت حال دکھائی دیتی ہے۔ بڑے اہم مسائل نظر آتے ہیں۔ فطری طور پر ان مسائل کے سلسلے میں اسلامی جمہوری نظام کا اپنا ایک موقف ہے۔ اس نظام کے تعلق سے محاسبہ نفس اور اپنے فریضے کا ادراک موجودہ دور میں ہم سب کی اہم ذمہ داری ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ دنیا میں بھی بڑی مشکلات ہیں اور علاقائی معاملات بلکہ بسا اوقات عالمی معاملات میں اسلامی جمہوریہ ایران کا اثر آج ہمیشہ سے زیادہ ہے۔ بنابریں اسلامی نظام کے تمام اہم ادارے منجملہ یہ کونسل مسائل کا خلاقانہ اور کلیدی نقطہ نگاہ سے جائزہ لے، علما کا جو ذاتی اور شخصی فریضہ ہوتا ہے اس کی وجہ سے بھی کیونکہ علماء امت کے ہادی ہیں، ان کے کچھ فرائض ہیں اور عوام کے سامنے حقائق کی تشریح ان کی اہم ذمہ داری ہے، اسلامی نظام میں علما کی ذمہ داری صرف نماز اور روزے کے مسائل بیان کر دینا نہیں ہے، وہ عوام کو بیدار کرتے ہیں، متنبہ کرتے ہیں، لوگوں کے سامنے حقائق بیان کرتے ہیں، لوگوں کی بصیرت میں اضافہ کرتے ہیں۔ اسی طرح خود اس کونسل کا رکن ہونے کی وجہ سے بھی جو ایک حکومتی ادارہ ہے، ان کی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔
میں دو چیزیں عرض کروں گا۔ پہلے میں کچھ باتیں در پیش عالمی مسائل کے تعلق سے بیان کرنا چاہتا ہوں جو ہم سے بھی مربوط ہیں، کیونکہ بہت سے مسائل ایسے بھی ہیں جن کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تو چند نکات عالمی مسائل میں ان چیزوں کے بارے میں بیان کروں گا جن کا ہم سے تعلق ہے۔
ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ آج دنیا بڑے اساسی قسم کے تغیرات سے دوچار ہے۔ اس کا کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ آپ شمالی افریقہ کے علاقے اور افریقا کے دیگر خطوں کو دیکھئے، ایشیا کے علاقے اور یہاں نمودار ہونے والی طاقتوں کو دیکھئے جو بین الاقوامی سطح پر بھی بڑی طاقتوں کے سامنے خود کو منوانے میں کامیاب ہوئی ہیں، یا جو حالات یورپ میں ہیں ان کو دیکھئے تو دنیا اساسی تبدیلیوں کے دور سے گزرتی دکھائی دیتی ہے۔ ظاہر ہے عالمی اور تاریخی تغیرات راتوں رات رونما نہیں ہوتے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ اگر تبدیلی ہو رہی ہے تو چھے مہینے میں یا ایک سال دو سال کے اندر نظر آنا چاہئے۔ ایسا نہیں ہے۔ تبدیلی کے آثار کو محسوس کرنا چاہئے، ممکن ہے کہ یہ تبدیلی بیس سال میں انجام پائے، تاہم ہمیں یہ ادراک ہونا چاہئے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ تو پہلا نکتہ یہ ہے کہ دنیا کلیدی تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے اور ہمیں اس کا ادراک ہونا ضروری ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ دنیا کے تسلط پسند سامراجی محاذ کے اندر یعنی اب تک پوری دنیا میں منمانی کرنے والی روایتی طاقتیں خواہ وہ امریکا ہو یا یورپی طاقتیں، ان کے اندر ایک سکون اور طمانیت کا ماحول ہوتا تھا، اقتصادی اعتبار سے بھی، میڈیا کے اعتبار سے بھی، سماجی آسودگی کے اعتبار سے بھی ان ملکوں میں ہمیشہ ایک آسودگی چھائی رہتی تھی، آج وہ سکون ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ان ملکوں کے پاس وسائل کی کمی نہ پہلے تھی اور نہ آج ہے۔ پیسہ بھی ہے، اسلحہ بھی ہے، تشہیراتی طاقت بھی ہے اور سائنس و ٹکنالوجی بھی ہے۔ بنابریں جس طاقت کے پاس یہ سارے وسائل موجود ہوں اسے پوری طرح اطمینان اور آسودگی ہونا چاہئے، سکون اور طمانیت ہونا چاہئے۔ برسوں سے ان ملکوں میں یہ سکون اور آسودہ خیالی رہی ہے۔ لیکن اب وہ چین و سکون باقی نہیں رہا۔
کئی میدانوں میں یہ سکون اب باقی نہیں رہا۔ سب سے پہلے اقتصادی شعبے کو دیکھئے کہ آج کیا حالات ہیں؟ حالانکہ اقتصادی پیشرفت اور اقتصادی نمو ان کا طرہ امتیاز ہوا کرتا تھا۔ یورپ بھی بحران میں گرفتار ہے، امریکا بھی معاشی بحران میں ڈوبتا جا رہا ہے۔ وہ مستحکم معیشت آج اپنے دیوالئے پن کے آثار چھپا نہیں پا رہی ہے۔ آپ غور کیجئے! ایک حکومت اپنے ملک کی پوری قومی پیداوار سے زیادہ قرضے کے نیچے دبی ہوئی ہو تو کیا عالم ہوگا، آج امریکا کی یہی حالت ہے۔ آج وہ ایسی نادہندہ حکومت ہے جس کے پاس اپنا قرضہ ادا کرنے کا بظاہر کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ان کے بہت سے بڑے منصوبے عملی جامہ نہیں پہن پاتے۔ خود امریکا کے اندر یہ حالت ہے۔ بڑے اور طاقتور یورپی ملکوں میں بھی یہی حالات ہیں البتہ ان کے بارے میں کم گفتگو ہوتی ہے۔ امریکا میں موجودہ صدر نے اپنے پہلے دور صدارت میں عوام سے عمومی میڈیکل انشورنس (اوباما کیئر) کا وعدہ کیا لیکن تقریبا چھے سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر اب تک اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے۔ یعنی اتنے مالیاتی وسائل رکھنے والا ملک، اتنے ذخائر سے مالامال ملک ہے اور وہاں کا صدر اپنے عوام سے ایک وعدہ کرتا ہے لیکن اس وعدے کے ایفاء پر قادر نہیں ہے۔ آج حالات یہ ہیں۔ بنابریں اقتصادی میدان میں جو استکباری محاذ کے اہم ملکوں اور روایتی طاقتوں کی مستحکم پوزیشن والا میدان تھا، آج وہ بحران سے دوچار ہیں، مشکلات میں گرفتار ہیں۔ خبروں میں سب دیکھتے اور سنتے ہیں کہ یورپ کے بھی مختلف ممالک گوناگوں اقتصادی بحرانوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
اخلاقیات کے میدان میں بھی وہ بازی ہار چکے ہیں۔ موجودہ مغربی تمدن انسان کے احترام اور توقیر کے نظرئے کی بنیاد پر استوار ہے۔ یہ تہذیب 'ہیومنزم اور اصالۃ الانسانیہ' کے مکتب فکر کی بنیاد پر تشکیل پائی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانیت ہی اس تہذیب و تمدن کا قبلہ، مطمح نظر اور اصلی عنصر ہے۔ لیکن آج مغربی تہذیب میں انسانیت پامال ہوکر رہ گئی ہے تو حقیقت یہی ہے کہ ان کے اس مکتب فکر کو شکست ہوئی ہے۔ پہلے تو وہ اسے علمی تقاضا قرار دیتے تھے اور یونیورسٹیوں کے ماحول کا نام دیتے تھے اور خامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے تھے لیکن بتدریج یہ خامیاں آشکارا ہونے لگیں اور اس تہذیب کا اصلی چہرہ سامنے آ گیا۔ اس تمدن کا باطن جو انسانیت مخالف اور انسان کی پاکیزہ فطرت سے متصادم ہے، خود بخود نمایاں ہونے لگا ہے۔ اس کا ایک نمونہ قتل و غارت اور تشدد پسندی ہے۔ یہ قتل و غارت اور تشدد اتنا بڑھ گیا ہے کہ آج یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ایک زمانہ ایسا تھا کہ انگریز ہندوستان میں جرائم کا ارتکاب کرتے تھے، برما میں مجرمانہ حرکتیں کرتے تھے لیکن دوسرے خطوں میں خود کو بہت صاف ستھرا، مودب اور پاکیزہ بناکر پیش کرتے تھے مگر اب وہ زمانہ نہیں رہا۔ آج اس وحشی پنے کی خبر سب کو ہے۔ جو لوگ عوامی جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں وہ استکباری محاذ کے سامنے اس کے تشدد کی داستان پیش کر رہے ہیں۔ قتل و غارت، تشدد اور انسانیت کو مسخ کر دینے والی شہوت رانی؛ ہم جنس پرستوں کی شادیاں! یہ ہم جنس پرستی سے الگ ایک چیز ہے، کئی گنا زیادہ سنگین ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی فطرت کے مخالف کو اعلانیہ طور پر اپنے درمیان اور سماج میں جگہ دی جا رہی ہے۔ قرآن میں آیا ہے؛ «وَ تَأتونَ فى ناديكُمُ المُنكَر» (2)۔ آج وہ صریحی طور پر اس کا اعتراف کر رہے ہیں۔ دو ہم جنس باز ایک دوسرے سے شادی کرتے ہیں، کلیسا میں اس کا اندراج بھی ہوتا ہے، امریکی صدر جمہوریہ بھی اس پر اظہار خیال فرماتے ہیں، اپنا موقف بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں اس سے اتفاق کرتا ہوں، اس کا مخالف نہیں ہوں! یعنی شہوت پرستی اور اس جیسے دیگر مسائل کا وہ باطنی و درونی فساد طشت از بام ہو گیا ہے۔
دہشت گردی کی اعلانیہ حمایت و پشت پناہی۔ آپ علاقائی مسائل میں اس کا بخوبی مشاہدہ کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ ایک انسان کا جگر سینہ چاک کرکے باہر نکالتے ہیں اور ٹی وی کیمروں کے سامنے اسے چبا جاتے ہیں، یورپی حکومتوں پر سکوت طاری ہے۔ وہ احتیاط کرتی ہیں، کچھ بولتی نہیں۔ یہ نہیں کہتیں کہ ہم اس کی حمایت کر رہے ہیں، بلکہ یہ بیان دیتی ہیں کہ ہم تو مخالف محاذ کی مدد کر رہے ہیں۔ یہ ہے صورت حال۔ یعنی دہشت گردی کی، وہ بھی وحشیانہ اور درندہ صفت دہشت گردی کی، حمایت کرتی ہیں۔
اسلامی مقدسات کی توہین کرتے ہیں۔ آزادی اظہار خیال کے نام پر، مقدسات کی نورانی ہستیوں کو داغدر کر دیتے ہیں، گستاخیاں کرتے ہیں۔ پیغمروں کی عظیم ہستیوں کی، صرف ہمارے پیغمبر اکرم کی نہیں بلکہ تمام پیغمبروں کی توہین کرتے ہیں۔ میں نے ثقافتی حکام سے کہا کہ افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے بہت سے ثقافتی عہدیدار میدان عمل میں ثقافتی مسائل سے سروکار نہیں رکھتے مثلا کتابیں پڑھیں، مختلف کتابوں کو دیکھیں، ان چیزوں سے دور ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ مغرب والے حضرت موسی کی توہین کرتے ہیں، حضرت عیسی کی توہین کرتے ہیں۔ عظیم انبیاء کی آشکارا توہین کرتے ہیں۔ یہ سب آج کل ہو رہا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اخلاقیات کے میدان میں بھی استکباری محاذ جو ساری دنیا کو کنٹرول کرنے کا دعویدار تھا، شکست سے دوچار ہوا ہے۔ یعنی اس شعبے میں بھی بے شمار مشکلات سے دوچار ہو گیا۔
اپنی علمی شناخت کے اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو بھی یہ تہذیب شکست سے دوچار ہوئی ہے۔ کیونکہ مغربی تہذیب کی علمی بنیادیں یکے بعد دیگر منہدم ہوتی جا رہی ہیں۔ کچھ ایسے مفکرین آئے جنہوں نے 'بشریات' کے شعبے میں بھی اور دیگر علمی میدانوں میں بھی ان کے نظرئے پر خط تنسیخ کھینچ دیا۔ اس طرح اس تہذیب کی علمی بنیادیں بھی مسمار ہو گئیں۔
عالمی ساکھ اور عزت کے اعتبار سے بھی آج حقیقت امر یہی ہے کہ استکباری محاذ خالی ہاتھ ہے۔ اس کی کوئی آبرو نہیں رہ گئی ہے۔ یعنی مغربی حکومتوں اور ان کے پٹھو حکمرانوں کے جرائم دنیا کے عوام کی نگاہوں کے سامنے آ چکے ہیں۔ چنانچہ آج وہ دنیا میں سب سے نفرت انگیز سمجھی جاتی ہیں۔ ان حکومتوں کے بعض حکمراں، کچھ پٹھو حکومتیں، کمزور حکومتیں اور بزدل حکومتیں تکلف میں کچھ باتیں کہتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے عوام میں وہ منفور ہیں۔ اس علاقے میں بھی اور دیگر خطوں میں بھی۔ اسلامی ممالک میں تو بڑی شدت ہے، جبکہ دیگر علاقوں میں بھی ایسے ہی حالات ہیں۔ بنابریں عزت و وقار کے میدان میں بھی انہیں ہزیمت اٹھانی پڑی ہے۔ یہ ایسا معاملہ ہے جس نے غنڈہ گردی کرنے والے اس محاذ کے لئے جس کی قیادت امریکی حکومت کرتی ہے، کچھ بھی باقی نہیں رکھا۔ امریکا ان میں سب سے زیادہ مضبوط اور قوی ہے لیکن اس کی بھی کوئی عزت نہیں رہ گئی ہے۔ یہ دوسرا نکتہ ہے ان نکات میں سے جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں۔
عالمی حقائق اور دنیا کے حالات کے سلسلے میں اگلا نکتہ ہے قوموں کی بیداری۔ ہم نے عرض کیا کہ عرب علاقے میں، شمالی افریقا کے علاقے میں اسلامی بیداری آئی۔ اس اہم تبدیلی کے خلاف محاذ تیار ہو گیا کہ کسی بھی صورت میں اسے اسلامی بیداری نہیں تسلیم کیا جا سکتا، اس کا اسلام سے کوئی ربط نہیں ہے۔ لیکن بعد میں واضح ہو گیا کہ نہیں، یہ پوری طرح اسلام سے مربوط ہے۔ اس وقت علی الظاہر تو انہوں نے اس لہر کو دبا دیا ہے لیکن حقیقت میں یہ شمع بجھنے والی نہیں ہے۔ جب کسی قوم میں اسلامی فرائض کا احساس بیدار ہو جاتا ہے، اسلامی شناخت کا احساس انگڑائیاں لینے لگتا ہے تو پھر اسے اس آسانی سے نابود نہیں کیا جا سکتا۔ چلئے مان لیا کہ ایک حکومت کا تختہ الٹ دیا گيا، اسے کچل دیا گيا، کودتا کے ذریعے یا کسی اور طریقے سے۔ لیکن عوام الناس میں جو جذبہ بیدار ہوا ہے، خود اعتمادی پیدا ہو گئی ہے اور اسلامی شناخت کی جو بازیابی عمل میں آئی ہے وہ مسلسل آتش فشاں کی مانند پک رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بیداری کی یہ لہر ختم ہو گئی ہو۔ یہ بھی آج کی دنیا کی ایک حقیقت ہے، اسلامی استقامت شباب پر پہنچ گئی ہے۔
ایک اور اٹل سچائی جو شائد ان حقائق میں سب سے زیادہ اہم ہے، ملت ایران کا معاملہ ہے۔ آفتاب انقلاب کے طلوع کو پینتیس سال گزر جانے کے بعد بھی انقلاب سے ملت ایران کی والہانہ رغبت اور لگاؤ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے، اس نے انقلاب کو حاشئے پر نہیں ڈالا، اپنے انقلابی مزاج اور جذبات کو ماند نہیں پڑنے دیا۔ آپ نے بائیس بہمن (گیارہ فروری، اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی تاریخ) کو دیکھا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے بارے میں میں بارہا عرض کر چکا ہوں کہ ہم اسے دیکھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ جن حقائق پر توجہ دینا ضروری ہے ان کی تشریح کے ساتھ ہی ان حقائق کے ذیل میں اپنے نوجوانوں کے بارے میں بھی کچھ باتیں عرض کروں گا۔ یہ بھی ایک اساسی مسئلہ ہے۔ تو ہم آج ایسی دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس دنیا میں، ہمارے اطراف میں، ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جو اساسی تغیرات کا مقدمہ ہیں۔ ہمارے ملک میں اسلامی فکر کا نمو اور اسلامی استقامت کا نمو دیکھنے میں آ رہا ہے، اسلامی حکومت اور اسلامی نظام کا درخت تناور ہو چکا ہے اور اسے مزید استحکام مل رہا ہے۔ تو ہمیں اپنے مسائل اور عالمی حالات کا بڑی سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہئے۔
دوسری چیز جو عرض کرنی ہے، یہ ہے کہ اس وقت ہمارے دوش پر کون سی اہم ذمہ داریاں ہیں۔ میں نے کچھ باتیں نوٹ کی ہیں۔ البتہ ساری باتیں یہی نہیں ہیں۔ میں جو باتیں عرض کرنے جا رہا ہوں وہ نئی نہیں ہیں بلکہ ایسی چیزیں ہیں جن سے آپ حضرات واقف ہیں تاہم ان کا اعادہ کرنا اور دہرا دینا بھی مفید ہے۔ ہماری ذمہ داریاں بہت ہیں۔ منجملہ یہ ذمہ داریاں جو میں عرض کر رہا ہوں؛۔
ایک اہم ذمہ داری ہے کہ حقیقت بینی، ہمیں چاہئے کہ اپنے معاشرے کے حقائق پر نظر رکھیں۔ عام طور پر جب ہم حالات کو دیکھتے ہیں تو انسان کا مزاج ہے کہ خامیوں کو تلاش کرتا ہے۔ اس طرح جو حقائق ہم دیکھتے ہیں مثلا گرانی کو دیکھتے ہیں، بعض اسلامی اہداف کی عدم تکمیل کو دیکھتے ہیں، بیشک یہ بھی حقائق ہیں جنہیں ہم اکثر و بیشتر دیکھتے ہیں، بعض لوگ ہیں جو انہی میں مبالغہ آرائی بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان کے علاوہ بھی کچھ حقائق اس ملک کے اندر موجود ہیں۔ یہ حقائق بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک اہم حقیقت تو یہی ہے جس کا ہم نے ذکر کیا، اسلام پر استوار نظام کی استقامت و پائیداری۔ یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے۔ اسلام کے دشمن اور ایران کے دشمن یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ ایک سال، دو سال یا پانچ سال بعد عوام تھک جائیں گے، انہیں یاد بھی نہیں رہے گا، وہ انقلاب سے کنارہ کشی کر لیں گے، چنانچہ دنیا کے بہت سے انقلابوں کے سلسلے میں ایسا ہی ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ بہت سے انقلابوں میں ایسا ہوا لیکن یہ کہنا بھی غلط نہیں ہے کہ تمام انقلابوں میں یہ صورت حال پیش آئی۔ یہ تمام انقلاب جو گزشتہ دو سو سال اور ڈھائی سو سال کے عرصے میں رونما ہوئے، جہاں تک مجھے علم ہے، یہی حالات ہوئے۔ تھوڑا وقت گزرا تو جوش و خروش ٹھنڈا پڑ گیا، انقلاب کی لہر بیٹھ گئی اور سب کچھ پہلے والی حالت پر لوٹ گیا۔
میں اپنی صدارت کے زمانے میں ایک ملک کے دورے پر گیا، ایسے ملک کے دورے پر جہاں سات آٹھ سال قبل انقلاب آیا تھا۔ اس ملک کا صدر بھی انہی انقلابی رہنماؤں میں سے تھا۔ جب ہم وہاں گئے اور اس جگہ پر پہنچے جہاں ہمیں مہمان کے طور پر بلایا گیا تھا تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ سب کچھ بالکل ویسا ہی ہے جیسا پرتگال کے استعمار کے زمانے میں تھا، وہ ملک پرتگال کی نوآبادیات کا حصہ تھا۔ جو حالت استعماری دور میں تھی وہی اب بھی نظر آ رہی تھی۔ ظاہری تکلفات، آداب و اطوار، کورنش کا انداز سب کچھ وہی تھا، کچھ بھی نہیں بدلا تھا۔ حالانکہ شروع میں جب یہ لوگ اقتدار میں آئے تھے تو یہ صورت حال نہیں تھی۔ بعد میں رفتہ رفتہ ان پر سابق استعماری حکام اور مستبد حکمرانوں کا انداز اور طور طریقہ حکمفرما ہو گیا۔ لیکن اسلامی انقلاب مغلوب نہیں ہوا، اسلامی جمہوریہ مغلوب نہیں ہوئی۔ جو لوگ اس ملک پر اور اس انقلاب پر وہی سابقہ عادات و اطوار، طرز عمل اور روش کار مسلط کرنا چاہتے تھے وہ اس مقصد میں ناکام رہے۔ انقلاب بدستور اسلام کی بات کرتا رہا، خود مختاری کی بات کرتا رہا، قومی استقامت کا پیغام دیتا رہا، 'دروں زائیدہ' ترقی کی بات کرتا رہا، انصاف و مساوات پر تاکید کرتا رہا اور ان اعلی اہداف کے لئے محنت کر رہا ہے، کام کر رہا ہے۔ یہ سب انقلاب سے وابستہ مسائل ہیں۔ یہ سب اہم چیزیں ہیں، یہ حقائق ہیں۔
ایک اور حقیقت جس سے کبھی غفلت نہیں برتنا چاہئے، موجودہ نوجوان نسل کے اندر موجزن انقلابی جذبہ ہے۔ یہ الگ بات ہوگی کہ انقلاب کے زمانے کے ہم جیسے کچھ بوڑے افراد انقلابی بنے رہیں اور ہمارے نوجوان ہمارے طور طریقے اور انداز سے خود کو دور کر لیں، ہمارے یہاں یہ صورت حال نہیں ہے۔ ہمارے یہاں آج انقلابی نوجوانوں کی کثیر تعداد ہے۔ انقلابی نوجوان پورے ملک میں ہیں اور ان کا تعلق معاشرے کے تمام طبقات سے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں ایسے نوجوان ہیں جو دیندار بھی ہیں اور انقلابی بھی ہیں۔ میری نظر میں اوائل انقلاب کے انقلابی نوجوانوں سے یہ نوجوان زیادہ بلند مرتبہ کے مالک ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس زمانے میں تو اتنا عظیم اور ہنگامہ خیز انقلاب رونما ہوا تھا، دوسری وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں انٹرنیٹ نہیں تھا، سیٹیلائٹ چینل نہیں تھے، یہ گوناگوں تشہیراتی وسائل نہیں تھے، نوجوان نسل ان تمام اندیشوں اور خطروں کی زد پر نہیں تھی، مگر آج کا نوجوان ان تمام خطرات سے روبرو ہے۔ انٹرنیٹ اس کے سامنے ہے، اس نوجوان کو گمراہ کرنے کے لئے وسیع پیمانے پر کوششیں ہو رہی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ نوجوان دیندار نوجوان ہے، پابند صوم و صلاۃ نوجوان ہے، نماز کو خاص اہمیت دیتا ہے، نماز شب پڑھتا ہے، نافلہ نمازیں پڑھتا ہے، اہم دینی پروگراموں میں شرکت کرتا ہے، انقلاب کی حمایت کے لئے سینہ سپر ہے، اس کی زبان سے ایسے نعرے نکلتے ہیں جو اس کے دل کی گہرائیوں میں موجود ہیں۔ یہ بڑی اہم چیزیں ہیں۔ آج کی انقلابی نسل ہماری نظر میں ہمارا عظیم افتخار ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جسے مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
ایک اور اہم حقیقت جس پر توجہ دینا چاہئے، ہماری بے پناہ قومی و ملی صلاحیتیں اور استعداد ہے۔ خوشی کا مقام ہے کہ ملک کے حکام، نئی حکومت کی تشکیل کے بعد مجھے ان ایام میں ان سے ملاقات کا موقعہ ملا، میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ بھی اس کے قائل ہیں، اس سے باخبر ہیں، واقف ہیں کہ ہمارے ملک کی کیا داخلی صلاحیتیں ہیں۔ یہی بے پناہ صلاحیتیں باعث بنیں کہ یہ حقیر اور دیگر ہم خیال افراد اور رفقائے کار مزاحتمی معیشت کے موضوع پر غور کریں۔ ورنہ اگر ہمارے وطن عزیز کے پاس یہ داخلی توانائیاں نہ ہوتیں تو مزاحمتی معیشت کو وجود میں لانا ممکن ہی نہیں تھا۔ مزاحمتی معیشت تبھی تشکیل پا سکتی ہے جب داخلی صلاحیتیں اور استعدادیں فراوانی کے ساتھ موجود ہوں۔ جب ہم اقتصادی شعبے کے حکام کے ساتھ بیٹھتے ہیں اور اس شعبے سے وابستہ افراد سے گفتگو کرتے ہیں تو محسوس کرتے ہیں کہ انہیں ملک کے اندر وسیع پیمانے پر صلاحیتں اور توانائیاں نظر آ رہی ہیں۔ تو یہ بھی ایک حقیقت ہے جو بہت اہم ہے۔
ایک اور اہم حقیقت، جس سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہئے، ہمارے دشمنوں کا کینہ اور عناد ہے۔ دشمن کے مخاصمانہ اقدامات سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہئے۔ سعدی کے بقول:
«دشمن چون از همه حیلتی فرومانَد، سلسله‌ی دوستی بجنبانَد»، (3)
اور پھر دوستی کا جھانسا دیکر ایسا حملہ کرتا ہے کہ کوئی دشمن کیا کرے گا۔ اسے فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ ہمارے دشمن موجود ہیں، اسلام کے دشمن موجود ہیں، ہماری قومی خود مختاری کے دشمن موجود ہیں، ہماری قوم کے اندر جو خصوصیات ہیں ان کی وجہ سے اس قوم کے دشمن موجود ہیں۔ ہاں اگر اس قوم نے بھی انقلاب سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہوتی، اسلام سے ناطہ توڑ لیا ہوتا، جارح قوتوں کے سامنے سر تعظیم خم کر لیا ہوتا تو پھر یہ دشمن طاقتیں ہم سے بہت خوش رہتیں، ہماری خوب تعریفیں کرتیں۔ لیکن وہ تو ہماری قوم کی دشمنی دل میں رکھے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ؛ قَد بَدَتِ البَغضآءُ مِن اَفواهِهِم (4) جو بیان وہ دیتی ہیں اس سے صاف جھلکتا ہے کہ ان کا بغض اور کینہ کس قدر ہے۔ وَ ما تُخفى صُدورُهُم اَكبَر (5) جو دشمنی وہ زبان سے ظاہر کرتے ہیں وہ ان کے دل میں موجود کینے کا بہت چھوٹا سا حصہ ہے۔ ان کے دلوں میں یہ دشمنی کئی گنا زیادہ ہے۔ یہ بھی ایک اٹل سچائی ہے جسے ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ ایک اور حقیقت یہ ہے کہ ملت ایران کے مقابل اور اسلامی نظام کے مقابل یہی دشمن بے دست و پا ہو گیا ہے، بے بس ہو گیا ہے۔ اس کی ناتوانی کی آپ دلیل اگر مانگیں تو اس کی دلیل یہ ہے کہ مقابلہ آرائی میں ناکام ہو جانے کی وجہ سے ہی دشمن نے اقتصادی پابندیوں کا راستہ اختیار کیا ہے۔ ورنہ اگر وہ مقابلہ کرنے پر قادر ہوتا تو پابندیوں کی کیوں ضرورت پڑتی؟ ان پابندیوں کا اسے کوئی فائدہ پہنچا ہے اور نہ پہنچے گا، اس کی دلیل یہ ہے کہ دشمن بار بار فوجی حملے کی دھمکی دے رہا ہے۔ اگر وہ دنیا میں عام طور استعمال ہونے والے حربوں اور طریقوں کے ذریعے اس انقلاب کو ختم کرنے پر قادر ہوتے، ملت ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتے تو ان دھمکیوں اور اس دباؤ کی ضرورت پیش نہ آتی۔ یہ پابندیاں بھی کوئی نئی بات نہیں ہے، اسے خود انہوں نے بھی کہا ہے۔ خوش قسمتی سے آج حکومتی عہدیداروں میں، صدر محترم، متعلقہ وزرا، مقننہ اور عدلیہ کے سربراہوں کے درمیان مزاحمتی معیشت کے مسئلے پر جو اتفاق رائے ہے اور جس پر اظہار تشکر اور قدردانی کرنا چاہئے، انہوں نے واقعی اس نظرئے کا خیر مقدم کیا، البتہ خود یہ عہدیدار بھی تشخیص مصلحت نظام کونسل میں، اس موضوع پر ہونے والی مشاورت میں شریک تھے اور بحث میں پوری طرح شامل تھے، تو ان کا یہ اتفاق رائے اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ دشمنوں نے بغض و عداوت میں ملت ایران پر جو پابندیاں عائد کی ہیں ان کا کوئي اثر باقی نہیں رہے گا۔ ان شاء اللہ یہ مزاحمتی معیشت دشمنوں کی تمام چالوں پر غالب آئیگی۔ یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے۔ یہ حقیقت بھی میں آپ کے سامنے بیان کرتا چلوں، اچھے حقائق بہت ہیں، ہم نے جہاں بھی اللہ پر توکل کیا ہے، عوامی قوت پر اعتماد کیا ہے اور مجاہدانہ انداز میں کام کرنے کے لئے آگے بڑھے ہیں، ہمیں کامیابی ملی ہے۔ آپ آغاز انقلاب سے لیکر اب تک جائزہ لیجئے۔ جہاں بھی ہم نے عوام کو میدان عمل میں وارد کیا ہے اور اللہ کا نام لیکر مجاہدانہ انداز میں اپنا کام شروع کیا ہے، وہاں ہمیں ضرور فتح ملی ہے۔ خود انقلاب کی تحریک میں یہی ہوا۔ عوام میدان میں اترے، سڑکیں عوام سے چھلک اٹھیں، مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ میدان میں آئے اور جو اقدام ہوا وہ مجاہدانہ اقدام تھا۔ آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران بھی عوام میدان عمل میں موجود تھے۔ آٹھ سال تک جنگ کوئی مذاق نہیں ہے، اس ملک پر آٹھ سالہ جنگ مسلط کر دی گئی تھی۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے، اللہ ان کی روح مطہرہ کو شاد کرے اور انبیاء و اولیا کے ساتھ محشور فرمائے، حقیقت ماجرا کا بخوبی ادراک کر لیا تھا، اللہ نے یہ خیال بصورت الہام آپ کے ذہن میں ڈال دیا تھا، اللہ نے ہدایت فرمائی تو آپ نے عوام کو میدان عمل میں اتارا اور اللہ کا نام لیکر آگے بڑھے۔ آٹھ سالہ جنگ میں ہم فتحیاب ہوئے۔ دوسرے معاملات میں بھی جب عوام میدان میں آئے، عوام کے زبان و دل پر نور پروردگار کا سایہ رہا اور کام مجاہدانہ انداز میں کیا گيا تو ہمیں کامیابی ملی۔ یہ بھی اٹل حقیقت ہے۔
حقائق کے سلسلے میں آخری چیز یہ عرض کرنا ہے کہ ہم کہاں تھے اور اب کہاں پہنچ گئے ہیں؛ وَاذكُروا اِذ اَنتُم قَليلٌ مُستَضعَفُون؛ (6) ہمیں وہ دن فراموش نہیں کرنا چاہئے جب مستضعف تھے، کمزور تھے، ہمارے وفادار نوجوان بھی کم اور کمزور تھے، پیچھے تھے لیکن آج اللہ تعالی نے انہیں قوی بنا دیا ہے۔ ہمارے خیال میں ہمارا ایک فرض تو یہی ہے کہ ان حقائق کو کبھی فراموش نہ ہونے دیں، ان حقائق کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ یہ ایک فریضہ ہے۔
ایک اور فریضہ جو میں نے نوٹ کر رکھا ہے، جس پر ہمیشہ اور خاص طور پر آج کے ان حالات میں ہم سب کی توجہ رہنا چاہئے دشمن محاذ سے اپنے فرق اور فاصلے کو صریحی انداز میں نمایاں رکھنا ہے۔ حدبندی ہونا چاہئے۔ آیہ شریفہ میں ارشاد رب العزت ہے؛ قَد كانَت لَكُم اُسوَةٌ حَسَنَةٌ فى اِبراهيمَ وَ الَّذينَ مَعَهُ اِذ قالوا لِقَومِهِم اِنّا بُرَءآؤُ مِنكُم وَ مِمّا تَعبُدونَ مِن دونِ الله كَفَرنا بِكُم وَ بَدا بَينَنا وَ بَينَكُمُ العَداوَةُ وَالبَغضآءُ ابداً حَتّى‌ تُؤمِنوا بِاللهِ وَحدَه (7) یہ قرآن نے صرف تاریخ نہیں بیان کی ہے۔ قرآن صریحی طور پر یہ کہہ رہا ہے کہ یہ تمہارے لئے اسوہ حسنہ ہے؛ قَد کانَت لَکُم اُسوَةٌ حَسَنَةٌ فی اِبراهیم یعنی آپ بھی ایسے بنیں۔ حدبندی کریں۔ حدبندی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم رابطہ ختم کر لیں۔ اس پر توجہ دیجئے! کسی کو غلط فہمی نہ ہو کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم ساری دنیا کے دشمن ہیں۔ نہیں ہمیں حدبندی کرنا ہے، حدود کو معین رکھنا ہے، اس میں خلط ملط نہیں ہونے دینا ہے۔ جیسے جغرافیائی حدود ہوتی ہیں۔ جغرافیائی حدود کے سلسلے میں یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے ملک کے اطراف میں واقع ممالک کے ساتھ اپنی سرحدوں کو معین کر لیتے ہیں۔ سرحدیں معین کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ دوسرے ملکوں میں نہ جائیں اور دوسرے ممالک کے لوگ آپ کے یہاں نہ آئیں۔ سرحدوں کو معین کرنے کا یہ مطلب ہے کہ آمد و رفت اصول و ضوابط کے تحت ہو۔ یہ واضح رہے کہ ہم کب جا رہے ہیں، کون جا رہا ہے، کیسے جا رہا ہے؟ وہاں سے کون آ رہا ہے، کب آ رہا ہے، کیسے آ رہا ہے، کیوں آ رہا ہے؟ جغرافیائی حدود اسی لئے ہوتی ہیں اور جغرافیائي حدبندی اسی طرح کی جاتی ہے۔ عقیدہ و ایمان کے سلسلے میں بھی یہی روش اختیار کی جانی چاہئے۔ اسی آیت شریفہ میں اللہ تعالی نے اسوہ حسنہ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا طرز عمل بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ: اِلّا قَولَ ابراهيمَ لِاَبيهِ لَاَستَغفِرَنَّ لَك؛ (8) یعنی یہ حدبندی اس بات میں رکاوٹ نہیں بنے گی کہ ابراہیم علیہ السلام اپنے والد سے یہ کہیں کہ مجھے آپ پر رحم آ رہا ہے، میں آپ کے لئے استغفار کروں گا، یہ ساری چیزیں ہیں۔ بنابریں حدبندی کا مطلب یہ واضح ہونا ہے کہ ہم کون ہیں اور آپ کون ہیں۔ میرے خیال میں سورہ مبارکہ قل يا ايها الكافرون اسی حدبندی کو بیان کر رہا ہے: لا اَعبُدُ ماتَعبُدون، و لا اَنتُم عابِدُونَ مااَعبُد؛ (9) یعنی سرحد واضح رہنی چاہئے، خلط ملط نہیں ہونا چاہئے۔ جو لوگ اس حدبندی کو کم رنگ یا ختم کر دینا چاہتے ہیں وہ حقیقت میں عوام کی خدمت نہیں کر رہے ہیں، وہ ملک کی خدمت نہیں کر رہے ہیں، خواہ وہ دینی و اعتقادی حدبندی کا مسئلہ ہو یا سیاسی حدبندی کا معاملہ ہو۔ خود مختاری بھی ملک کے لئے ایک طرح کی سرحد کا درجہ رکھتی ہے۔ جو لوگ کوشش کرتے ہیں کہ قوم کی خود مختاری کی اہمیت کو، عالمگیریت کے نام پر اور گلوبل ولیج کے نام پر، ختم کر دیں یا کم رنگ کر دیں، مقالے لکھ رہے ہیں، تقریریں کر رہے ہیں وہ حقیقت میں ملک کی خدمت نہیں کر رہے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ دنیا سے ہمارا رابطہ ہونا چاہئے۔ بیشک رابطہ رکھئے! لیکن یہ واضح رہنا چاہئے کہ آپ کس سے رابطہ قائم کر رہے ہیں، کیوں رابطہ قائم کر رہے ہیں، کس انداز سے رابطہ قائم کر رہے ہیں، یہ چیزیں واضح رہنی چاہئے، حدبندی کرنے اور سرحد کو واضح رکھنے کا یہ مطلب ہے۔ داخلی سطح پر بھی حدبندی کا یہی معاملہ ہے۔ میری نظر میں یہ بھی ایسا مسئلہ ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ حدود کو معین کر لیں۔
بعض لوگ ہیں جو ملک کے لئے کوئی بھی مشکل اور مسئلہ پیش آتے ہی ان لوگوں کی ملامت شروع کر دیتے ہیں جو استقامت و پائیداری کے حامی ہیں؛۔ کہ دیکھا آپ نے، اگر انسان اپنی بات پر اس طرح بضد رہتا ہے تو یہ مشکلات پیش آتی ہیں! صدر اسلام میں بھی یہی ہوا تھا۔: لَو اَطاعونا ماقُتِلوا قُل فَادرَءوا عَن اَنفُسِكُمُ المَوت (10) اللہ نے یہ طے کر دیا ہے کہ ہم سنت الہیہ کے مطابق نہیں چلیں گے تو مشکلات سے دوچار ہوں گے۔ جنگ بدر کے سلسلے میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ: يَقولونَ لَو كانَ لَنا مِنَ الاَمرِ شَى‌ءٌ ما قُتِلنا هاهُنا (11) یعنی ماجرا یہ نہیں ہے کہ اگر ہم دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دیں تو ہماری مشکلات ختم ہو جائیں گی، دور ہو جائیں گی۔ جی نہیں۔ مجھے واقعی ملک کے حکام کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ وہ دشمن کے سامنے اپنی بات دو ٹوک انداز میں کہتے ہیں، ملت ایران اور انقلاب کی اقدامی پوزیشن کو صریحی انداز میں بیان کرتے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے۔ یہ چیز ہمیں پورے ملک میں عام کر دینا چاہئے۔ یہ بھی ہمارے اہم مسائل میں سے ایک ہے۔
ایک اور مسئلہ جو ہمارے اہم فرائض کا جز ہے، یہ ہے کہ ہمیں شرپسندوں کی دشمنی سے کبھی گھبرانا نہیں چاہئے۔ دشمنی تو بیشک موجود ہے۔ جو قوم بھی اپنا ایک نظریہ، ایک موقف اور خاص طرز عمل رکھتی ہے، دشمنوں کی دشمنی سے محفوظ نہیں ہے۔ آج میری نظر میں ملت ایران کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اس قوم کا دشمن اور ملت ایران کے دشمن ساری دنیا میں انتہائی بدنام لوگ ہیں۔ آپ دیکھئے! آج امریکی حکومت عالمی سطح پر تشدد پسند اور جرائم میں آلودہ حکومت کے طور پر دیکھی جاتی ہے اور حقیقت امر بھی یہی ہے۔ آج بین الاقوامی سطح پر امریکی حکومت کا تعارف یہ ہے؛ ایک تشدد پسند طاقت، جو جرائم میں ملوث ہے، اپنی پست حرکتوں کی جسے کوئی پروا نہیں ہے اور جو بڑی آسانی سے قوموں کے حقوق اور انسانی حقوق کو پامال کرتی ہے۔ خود اپنے ملک کے اندر بھی اس حکومت کو دروغگو اور عیار حکومت کے طور پہچانا جاتا ہے جو وعدے تو کرتی عمل نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں کرائے جانے والے سروے میں موجودہ صدر کے بارے میں بھی اور سابق صدر کے بارے میں عوامی حمایت کا گراف بہت کم تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام انہیں پسند نہیں کرتے۔ ایسے لوگ ہیں جو ہمارے دشمن ہیں۔ ہماری دشمنی کسی آبرومند اور باعزت حکومت سے نہیں، منطقی اور مدلل موقف رکھنے والی حکومت سے نہیں ہے، اس قماش کی حکومتوں سے ہے۔ لہذا ان سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ نصرت خداوندی پر تکیہ کرنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ جناب مہدوی (12) صاحب نے ابھی قوم موسی سے متعلق آیت قرآنی کا حوالہ دیا۔ اسی آیت کا ایک حصہ میں بھی پڑھتا ہوں؛ جب بنی اسرائیل روانہ ہوئے اور مصر سے باہر نکلے، جناب موسی انہیں لیکر نکلے تھے، تو کچھ دیر بعد فرعون کا لشکر تعاقب کرتا ہوا آن پہنچا؛۔ فَلَمّا تَرآءَا الجَمعانِ قالَ اصحابُ موسى‌ اِنّا لَمُدرَكون، (13) جب یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے اتنے قریب پہنچ گئے کہ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے یعنی یہ لوگ دیکھ رہے تھے کہ لشکر فرعون آ رہا ہے، لشکر فرعون بھی ان لوگوں کو دیکھ رہا تھا تو جناب موسی کے ساتھیوں نے کہا کہ انّا لمدرکون (اب ہم پکڑے جائیں گے) اب ہماری خیر نہیں ہے، اب ہمارا قصہ تمام ہے؛۔ قالَ كَلّا اِنَّ مَعِىَ رَبّى سَيَهدين؛ (14) دیکھئے یہ بہت بڑا سبق ہے۔ آپ اللہ کے ساتھ رہئے! بھلا یہ کیونکر ممکن ہے کہ اللہ اسے دوسرے کے قبضے میں جانے دے جو اللہ کے ساتھ ہے؛۔ لاَتخافا اِنَّنی مَعَکُما اَسمَعُ و اَری‌؛ (15) حضرت موسی کی سرگزشت میں ہی ایک اور جگہ پر آیا ہے کہ اگر ہم اللہ کے ساتھ ہوں، اللہ کے لئے ہوں تو اللہ مدد کرتا ہے۔ تو یہ بھی ذمہ داری ہے کہ ہم خوف و ہراس سے بچیں۔
اتحاد، قومی وحدت اور اتحاد کی حفاظت بھی ہمارا اہم فریضہ ہے۔ تکفیری طاقتوں کی موجودگی جو بدقسمتی سے ہمارے علاقے میں بعض جگہوں پر بڑے سرگرم ہیں، ان سے لاحق سب سے بڑا خطرہ یہ نہیں ہے کہ وہ بے گناہوں کو قتل کر رہے ہیں، بیشک یہ بھی بہت بھیانک جرم ہے، لیکن ان سے سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ شیعہ اور سنی فرقوں کو ایک دوسرے کی بابت بدگمانی میں مبتلا کر رہے ہیں۔ یہ بہت بڑا خطرہ ہے۔ اس بدگمانی کا سد باب کیا جانا چاہئے۔ نہ تو اہل تشیع میں یہ خیال پیدا ہونا چاہئے کہ جو گروہ اس طرح شیعوں کو مار رہا ہے وہی اہل سنت کا اصلی محاذ ہے لہذا اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے اور نہ ہی اہل سنت اس گروہ کی ان باتوں سے متاثر ہوں جو وہ شیعوں کے بارے میں کہتے ہیں، شیعوں کے خلاف تہمتیں لگاتے ہیں اور اختلاف کی آگ بھڑکاتے ہیں۔ بہت ہوشیار رہیں، شیعہ بھی اور اہل سنت بھی۔ یہ بات ملک کے تمام علاقوں میں تمام افراد ذہن نشین کر لیں۔ اہل سنت بھی بخوبی سمجھ لیں اور اہل تشیع بھی جان لیں۔ ملک میں آج جو اتحاد ہے اسے ہرگز ختم نہ ہونے دیں۔ اس اتحاد و یگانگت کا ایک حصہ شیعہ سنی اتحاد اور قومیتوں کا اتحاد ہے۔ قومیتی مسائل کو اٹھانا اور اختلاف کی آگ بھڑکانا بہت خطرناک ہے، آگ سے کھیلنے کی مانند ہے۔ اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ ثقافت کا ہے۔ اندازہ ہوا کہ آپ حضرات بھی اس سلسلے میں تشویش میں مبتلا ہیں۔ میں بھی بہت فکرمند ہوں۔ ثقافت کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ ہماری اس استقامت، اس پیش قدمی اور سرانجام بتوفیق پروردگار فتح و کامرانی کا دارومدار اسلامی و انقلابی ثقافت کے قائم رہنے پر ہے، اس کا انحصار مومن کے ثقافتی پہلو کی تقویت پر ہے، ثقافت کے میدان میں اگنے والے پودوں کے استحکام پر ہے۔ بحمد اللہ ہمارے ملک میں جذبہ ایمانی سے آراستہ بڑے اچھے نوجوان موجود ہیں جو فن و ثقافت کے میدان میں سرگرم عمل رہے ہیں۔ ان میں بعض نوجوان ہیں اور بعض نوجوانی کے دور سے گزر چکے ہیں۔ تو ثقافتی میدان میں کام کرنے والوں کی ہمارے یہاں کمی نہیں ہے۔ ثقافتی مسئلے پر ہمیں بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ محترم حکومت بھی اس پر دھیان دے، دوسرے لوگ بھی توجہ دیں۔ آپ کی اس تشویش میں میں بھی شریک ہوں اور امید کرتا وں کہ ثقافتی شعبے کے حکام پوری توجہ سے کام کریں گے۔ ثقافتی مسائل کا معاملہ مذاق نہیں ہے، اس میں تساہلی نہیں برتی جا سکتی، اگر اس میدان میں کہیں کوئی رخنہ پڑ گيا تو یہ اقتصادی میدان کی کسی مشکل جیسا نہیں ہے کہ بعد میں بھی جس کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ پیسہ جمع کیا جا سکتا ہے، نقد سبسیڈی دیکر اس کی بھرپائی ہو سکتی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ ثقافتی مشکل اتنی آسانی سے حل نہیں ہوتی۔ پھر بڑے جتن کرنے پڑیں گے۔ واقعی باایمان اور انقلابی نوجوانوں کی قدر کرنا چاہئے، سب ان کی قدر کریں۔ یہ انقلابی اور مومن نوجوان ہی ہیں جو سینہ سپر ہوکر کھڑے ہو جاتے ہیں، آٹھ سال تک مسلط کردہ جنگ میں شجاعت کے جوہر دکھاتے ہیں، یہ کام انہی نوجوانوں کا ہے۔ جو لوگ ان نوجوانوں کو حقارت آمیز نگاہ سے دیکھتے ہیں اور دوسروں کو ان کے سلسلے میں ورغلاتے ہیں، وہ حقیقت میں ملک کی، ملکی خود مختاری کی، ملکی ترقی کی اور اسلامی انقلاب کی خدمت نہیں کر رہے ہیں۔ ان نوجوانوں کی حفاظت کرنا چاہئے، ان کی قدردانی کرنا چاہئے، آج بھی ان نوجوانوں کی تعداد بحمد اللہ کم نہیں ہے۔ خاصی تعداد میں ہیں۔ ان باایمان نوجوانوں کو گوناگوں بہانوں سے حاشئے پر ڈالنے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے، ویسے وہ الگ تھلگ ہونے والے بھی نہیں ہیں۔ جوش و جذبے سے بھرے ہوئے یہ نوجوان ان باتوں سے الگ تھلگ ہونے والے نہیں ہیں۔ لیکن بہرحال ہمیں ان کی قدر کرنا چاہئے۔
آخری مسئلہ ہے ماحول سازی کا۔ میں نے جو باتیں عرض کی ہیں یہ فقط نصیحت اور دل ہلکا کر لینے کی بات نہیں ہے کہ میں بیان کروں آپ سن لیں یا آپ بیان کریں اور میں سن لوں۔ ان چیزوں کا ماحول بنانا چاہئے۔ عوام کے ذہنوں میں یہ باتیں اتارنا چاہئے۔ یعنی یہ کہ جو چیز تمام عوام مانتے اور قبول کرتے ہیں اس پر دائمی طور پر ان کی توجہ بھی ہو۔ یہ چیز ماحول سازی سے ممکن ہے۔ منطقی انداز میں، مدلل انداز میں، عالمانہ اور مدبرانہ روش سے اظہار خیال کرکے یہ ہدف حاصل ہوتا ہے۔ علمی اور منطقی انداز میں خوش اسلوبی سے اسے پیش کرنے اور لوگوں کے ذہنوں میں منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔
میری دعا ہے کہ پروردگار عالم آپ تمام محترم حضرات کو اپنی توفیقات سے نوازے، ہماری مدد فرمائے، ہدایت فرمائے اور سہارا دے کہ ہم اپنے فرائض پر عمل کر سکیں۔ ذمہ داریاں پوری کرنے کا ہمیں پختہ عزم دے۔
«اللهم قو علی‌ خدمتک جوارحی، و اشدد علی العزیمة جوانحی و هب لی الجد فی خشیتک، و الدوام فی الاتصال بخدمتک».

و السلام علیکم و رحمةالله و برکاته‌

1) آیت‌ الله مهدوی‌ کنی‌
2) سوره‌ عنکبوت،آیت ۲۹
3) گلستان، باب هشتم، در آداب صحبت‌
4) سوره‌ آل عمران، آیت ‌۱۱۸
5) سوره‌ آل عمران، آیت ۱۱۸
6) سوره‌ انفال، آیت ‌۲۶
7) سوره‌ ممتحنه، آیت ‌۴
8) سوره‌ ممتحنه، آیت ‌۴
9) سوره‌ کافرون، آیات ۲و۳
10) سوره‌ آل عمران، آیت ۱۶۸
11) سوره‌ آل عمران، آیت ۱۵۴
12) ماہرین کی کونسل کے سربراہ
13) سوره‌ شعراء آیت ۶۱
14) سوره‌ شعراء، آیت ۶۲
15) سوره‌ طه، آیت ۴۶