اگر روحانی پہلوؤں اور اللہ کی طرف سے مومنین و مجاہدین راہ خدا سے کئے گئے وعدوں کو نظر انداز کر دیا جائے تب بھی انسانی معاشروں کے عام اصول بھی یہی کہتے ہیں کہ ہر سماج کے وقار، قوت، آبرو، ساکھ اور شناخت کا دار و مدار اس کی جفاکشی اور سعی و کوشش پر ہوتا ہے۔ تساہلی اور تن پروری سے کوئی بھی قوم پوری تاریخ میں اقوام عالم کے درمیان کبھی بھی کوئی قابل ذکر مقام حاصل نہیں کر سکی ہے۔ تاریخ میں جو چیز قوموں کو خود اپنے زمانے میں بھی اور تاریخ عالم میں بھی سربلند و سرفراز کرتی ہے وہ مجاہدت و طاقت فرسائی ہے۔ سعی و کوشش کی الگ الگ شکلیں ہوتی ہیں، علمی کوشش، اقتصادی جفاکشی، افراد کے اجتماعی تعاون کی شکل میں انجام پانے والی کوشش، یہ سب ضروری ہے۔ لیکن ان میں سب سے اہم ہے کسی قوم کا جاں فشانی کے لئے آمادہ ہونا، یہ خصوصیت اسے دیگر قوموں کے درمیان سربلند کر دیتی ہے۔ اگر قوم کے اندر ایسے افراد کا فقدان ہے جو اعلی اہداف کے حصول کے لئے اپنی جان قربان کر دینے اور زندگی کی راحت و آسائش کو خیرباد کہنے پر آمادہ ہوں، تو وہ قوم اقوام عالم کے درمیان کوئی مقام و مرتبہ حاصل نہیں کر پائے گي۔ اسلامی انقلاب نے ہم ایرانی عوام پر ایک بڑا احسان یہ کیا کہ ہمارے لئے اس راستے کو واضح کر دیا، ہمارے عوام سمجھ گئے اور انہیں اس حقیقت کا ادراک ہو گیا کہ اعلی اہداف کے حصول کے لئے جہاد کرنے اور ان تک رسائی کے لئے دشمنوں کے سامنے ڈٹ جانے اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے مقدس دفاع کا زمانہ، اس ملک کا گوناگوں واقعات و تغیرات سے بھرا ہوا آٹھ سالہ جنگ کا زمانہ عالمی استکبار اور کفر و نفاق کی خباثتوں اور مخاصمتوں کے سامنے ہمارے نوجوانوں کی استقامت اور ملت ایران کی جانفشانی کا مرقع ہے۔ یہ بات درست ہے کہ بظاہر ہمارے سامنے بعثی حکومت تھی، صدام تھا جو اپنے آپ میں بے حد خبیث آدمی تھا، انسانیت دشمن اور بشریت کے لئے کلنک تھا مگر وہ اکیلا نہیں تھا۔ یہ جنگ آٹھ سال تک جو جاری رہی تو اس کی وجہ پردے کے پیچھے سرگرم عالمی استکبار تھا جو اس کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا، اس سے وعدے پر وعدے کر رہا تھا، وسائل فراہم کر رہا تھا۔ اس زمانے میں جب خوزستان کی سرزمین پر جس کا کچھ حصہ آپ لوگوں نے ابھی دیکھا، ہمارے دشمن پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے تو ایک یورپی حکومت نے انہیں وسائل فراہم کئے کہ وہ بحری علاقوں میں اپنی شیطنت، خباثت اور شرپسندی کا سلسلہ جاری رکھ سکے۔ انہیں میزائل دیا۔ علاقے میں جو آپریشن کئے جاتے تھے انہیں کامیاب نہیں ہونے دیتے تھے کہ کہیں جنگ ختم نہ ہو جائے، صدام کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ یعنی خبیث کینہ پرست بعثی حکومت کی پشت پر عالمی استکبار، انہیں یورپی حکومتوں اور امریکی حکومت کا ہاتھ تھا اور وہ اسے جارحیت کا سلسلہ جاری رکھنے کی ترغیب دلاتی رہتی تھیں۔ اس عظیم معرکے میں اسلامی جمہوریہ کو کسی صورت بھی کامیاب اور فتحیاب نہیں ہونے دینا چاہتی تھیں، یہ بات وہ آشکارا طور پر کہتی بھی تھیں۔
اس علاقے میں جو آپریشن انجام دیا گیا، دار خوین کے علاقے میں بڑا فیصلہ کن معرکہ ہوا اور ثامن الائمہ آپریشن انجام دیا گیا، پاسداران انقلاب فورس اور فوج نے مل کر امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے فرمان کے مطابق منصوبہ بندی کرکے اور اسٹریٹیجی تیار کرکے اسی علاقے میں دشمن کو پیچھے دھکیل دیا اور انگریزوں، غیر ملکیوں اور یورپی حکومتوں کی پشت پناہی کی وجہ سے دشمن کے اندر جو حوصلہ پیدا ہو گیا تھا وہ پست ہو گیا اور آبادان کے علاقے کے ارد گرد دشمن کا حصار ٹوٹ گیا۔ اس آپریشن کے بعد، طریق القدس آپریشن ہوا، اس کے بعد فتح المبین آپریشن ہوا، اس کے بعد 'بیت المقدس کی سمت' آپریشن انجام دیا گیا۔ ہمارے عزیز مجاہدین نے، ہمارے جاں نثار نوجوانوں نے فوج کے اندر، پاسداران انقلاب فورس کے اندر، رضاکار فورس کے اندر اور عوامی فورسز کے اندر اسی طرح قبائلی فورسز کی شکل میں، حتی پولیس فورس کے تحت جب یکے بعد دیگرے کئی کامیاب آپریشن کئے تو یہ آپریشن جنگ کو وہیں ختم کر سکتے تھے، جنگ اسی وقت تمام ہو جاتی مگر اسلامی نظام کا مخالف محاذ یعنی وہی یورپ، یورپی ملکوں کی حکومتیں اور امریکی حکومت اسے ہرگز ختم نہیں ہونے دینا چاہتی تھیں۔ وہ ہمارے دشمن کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں، اسے نئے وسائل فراہم کرتی تھیں، اس جنگ میں فتح کی اسے یقین دہانی کراتی تھیں، اس طرح یہ جنگ آٹھ سال تک کھنچ گئی۔ آٹھ سال تک جنگ کا جاری رہنا کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے، ہمارے اس موجودہ دور کے آس پاس جو بھی جنگیں ہوئی ہیں وہ چار سال، پانچ سال یا چھے سال سے زیادہ نہیں چلیں۔ آٹھ سال تک جنگ کا جاری رہنا، وہ بھی اتنے بڑے اور وسیع علاقے میں، شمال سے لیکر جنوب تک، ملک کے شمال مغربی علاقے سے لیکر اس آخری جنوبی علاقے تک، جھڑپیں ہو رہی تھیں۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ اسلامی نظام کو یقین ہو جائے کہ اتنے دشمنوں کا مقابلہ کر پانا اس کے بس سے باہر ہے۔ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کو ایک کمزور و ناتواں ملک کے طور پر پیش کرنا چاہتے تھے۔ اللہ تعالی نے اپنے دست قدرت کا اعجاز دکھایا اور اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں اور لہراتے ہوئے پرچم اسلام کے دشمنوں کے منہ پر وہ فولادی مکا پڑا کہ ان کا منہ ٹوٹ گیا اور ناک زمین پر رگڑ دی گئی۔ ساری دنیا پر ثابت ہو گیا کہ اسلامی نظام چونکہ عوام کی قوت ایمانی پر استوار ہے اور عوام کے جذبات و احساسات پر ٹکا ہوا ہے لہذا یہ نظام دنیا کی مادی طاقتوں کا خوب ڈٹ کر مقابلہ بھی کر سکتا ہے، اپنا دفاع بھی کر سکتا ہے اور اپنے حریفوں کو اعتراف شکست و ناتوانی پر بھی مجبور کر سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی ناتوانی کا اعتراف کیا، باقاعدہ تسلیم کیا کہ وعدہ الہی پر ایمان رکھنے والوں اور اسلام کے گرویدہ لوگوں کی استقامت و پائیداری کے سامنے کوئی ٹک نہیں سکتا، دشمن کے سارے پروپیگنڈے بے اثر ثابت ہوئے۔ ان کی کوشش یہ تھی کہ ہم ایرانی عوام کو، آیات الہیہ پر ایمان رکھنے والی ملت ایران کو یہ یقین دلائیں کہ دنیا کی مادی طاقتوں کے سامنے آپ کی ایک نہیں چلے گی، آپ مقابلہ نہیں کر سکیں گے، وہ ہمیں یہ باور کرانا چاہتے تھے۔ میں آپ تمام عزیزوں اور ملت ایران کی خدمت میں یہ عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ کسی بھی قوم کو شکست اسی وقت ہوتی ہے جب اسے اپنی کمزوری اور ضعف کا یقین ہو جائے۔ یہیں سے شکست و ہزیمت کی شروعات ہوتی ہے۔ وہ مسلط کردہ جنگ کے زمانے میں ایرانیوں کے ذہن و دل پر یہ قنوطیت مسلط کر دینا چاہتے تھے لیکن ہوا اس کا الٹا۔ مسلط کردہ جنگ یعنی ملت ایران کے مقدس دفاع سے ثابت ہو گیا کہ اتحاد کی طاقت سے، ایمان باللہ کی قوت، اللہ تعالی کے وعدوں پر حسن ظن اور ان وعدوں کی صداقت پر مکمل یقین کے سائے میں تمام دشوار گزار مراحل کو بھی عبور کیا جا سکتا ہے، دشمنوں کا پامردی سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے، اتنا ہی نہیں دشمن کو شکست اور پسپائی پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ مسلط کردہ جنگ نے ہمیں اس حقیقت کا احساس کروایا۔
میں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مقدس دفاع کے زمانے کی یادوں کو کبھی فراموش نہ ہونے دیجئے۔ جنگ کے علاقوں میں آنا، نوروز کی تعطیلات کے زمانے میں، اسی طرح سال بھر کے دوران، بحمد اللہ سال بھر لوگ ان علاقوں کا سفر کرتے ہیں اور ان علاقوں کی زیارت کے لئے آتے ہیں، یہ بڑا مستحسن عمل ہے، بالکل درست عمل ہے، ایرانی عوام کا یہ نہایت دانشمندانہ فعل ہے، ان سرزمینوں کی یادوں کو ہمیشہ تازہ رکھئے۔ یہ علاقے، یہ بیابان، یہ دریائے کارون، یہ اہواز خرم شہر روڈ یا آبادان خرم شہر روڈ، یہ مختلف علاقے جو مختلف ناموں سے خود کو آپ کے سامنے متعارف کراتے ہیں، یہ سب فداکاری، جاں نثاری اور جہاد کے آئینے ہیں۔ میں کبھی نہیں فراموش کر سکتا، جنگ کے ابتدائی مہینوں میں، ان سخت مہینوں کے دوران، جب فورسز کی کمی تھی، وسائل کا فقدان تھا، تربیت کی کمی تھی، منظم اور تربیت یافتہ فوج کی کمی تھی، ہمہ جہتی مادی دشواریاں اور سختیاں تھیں، جوش و جذبے سے بھرے ہمارے نوجوان آتے تھے، یہیں اہواز سے آتے تھے، مختلف محاذوں پر جاتے تھے، یہاں آتے تھے، دارخوین جاتے تھے۔ کچھ مومن اور شجاع متدین نوجوان جن میں بعض کو میں پہچانتا بھی ہوں، یہاں آئے، اسی محمدیہ گاؤں میں جو یہاں سے نزدیک ہے، بنکر بنائے، رات کی تاریکی میں ان بنکروں سے باہر نکلتے تھے اور سو میٹر دو سو میٹر آگے بڑھتے تھے، پھر وہاں بنکر بنا لیتے تھے، پورا دن خوزستان کی اس چلچلاتی دھوپ میں بنکروں کے اندر رہتے، کیسی کیسی سختیاں برداشت کرتے تھے، خود کو دشمن کے قریب پہنچاتے تھے، یہاں تک کہ آپریشن کا وقت قریب آ گیا۔
دشمن نے ستمبر سنہ 1980 میں جارحیت کا آغاز کیا اور اکتوبر سنہ 1981 میں دارخوین کے اس علاقے میں، اسی طرح گرد و نواح کے علاقوں میں فوج، پاسداران انقلاب فورس، رضاکار فورس، وغیرہ کے جوانوں کو اپنی مجاہدتوں کا ثمرہ ملا اور انہوں نے ملت ایران کو اس عظیم کامیابی کا تحفہ دیا۔ یہ بڑی قیمتی یادیں ہیں، انہیں آپ ہرگز فراموش نہ ہونے دیجئے۔
یہاں کا ہر علاقہ کسی اہم واقعے کی یادگار ہے، ایسے اہم واقعات کہ جن میں کوئی ایک واقعہ بھی ایک ملک اور ایک قوم کے لئے تاریخ میں خود کو سربلند قوم اور ملک کے طور پر درج کرانے کے لئے کافی ہے۔ جو واقعات بیت المقدس آپریشن میں پیش آئے، یا جو کچھ فتح المبین آپریشن میں ہوا، یا اس کے بعد خیبر آپریشن میں جو کچھ ہوا، ان آپریشنوں کا ایک ایک مرحلہ اور وہ عظیم ہستیاں جنہوں نے یہ کارنامے انجام دئے اور یادگار واقعات رقم کئے، سب ملت ایران کے لئے پائيدار اور ناقابل فراموش عظیم افتخارات کی ایک طویل فہرست تیار کرتے ہیں۔ دشمن چاہتا ہے کہ ہم یہ چیزیں فراموش کر دیں، دشمن کی خواہش ہے کہ مقدس دفاع کو ہم بھلا دیں، جو قربانیاں دی گئيں انہیں فراموش کر دیں، جن ہستیوں نے یہ قربانیاں پیش کیں انہیں فراموش کر دیں، ہمیں ان کی شناخت نہ رہے۔ دشمن یہ چاہتا ہے۔ کچھ لوگ اس دور پر ہی سوالیہ نشان لگا دینا چاہتے ہیں، ان ہستیوں کے عمل کو بیجا اور غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں، ان کے رخ اور سمت و جہت کو اس عظیم راستے کو جس کا تعین اللہ کے اس عظیم بابصیرت بندے نے ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے فرمایا، غلط قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ان واقعات و تغیرات کا ہر پہلو اور ہر ہر جز، ایرانی عوام کے لئے عظیم تعمیری تاثیر رکھتا ہے اور اسے ہرگز فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
میں ملت ایران کی خدمت میں ایک بار پھر یہ گزار ش کروں گا کہ 'راہیان نور' کی اس اہم شروعات کی قدر کریں۔ دور دراز کے علاقوں سے یہاں تشریف لانے والے آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کا میں شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ یہاں آئے اور 'راہیان نور' کے اس عظیم عمل کا حصہ بنے۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب کو مثاب فرمائے، آپ اس علاقے سے جب واپس جائیں تو روحانی انوار کے ساتھ، بصیرت اور اہم تجربات کے ساتھ، بھرا دامن لیکر واپس جائیں۔ اللہ تعالی آپ سب کی حفاظت فرمائے۔
پالنے والے! محمد و آل محمد کے صدقے میں مسلط کردہ جنگ کے عظیم شہیدوں کی ارواح طیبہ کو اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما! پالنے والے! ان عزیزوں کی یادوں اور ان کی قربانیوں کو ہمارے ذہنوں میں اور ہماری تاریخ میں ہمیشہ محفوظ رکھ۔ پالنے والے! ہمیں دشمنوں کے مقابلے میں، مخاصمتوں اور شر انگیزی کے مقابلے میں، ان کی خباثتوں کے سامنے ہمارے اسی جذبے کو قائم کو دائم رکھ جو پیغمبر اکرم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کو پسند ہے۔ پالنے والے! ملت ایران کو دشمنوں پر فتحیاب کر، ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مطہر کو اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما۔