آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جو یہاں تشرف فرما ہیں، اسی طرح ایران کے عزیز عوام، اور دنیا بھر کے مومنین اور مسلمانوں کو تبریب و تہنیت پیش کرتا ہوں آٹھویں امام حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی مناسبت سے۔
بیشک امامت کے ڈھائی سو سالہ دور میں ائمہ علیہم السلام کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو نمایاں اور منفرد نکات اور پہلو بکثرت دکھائي پڑتے ہیں اور اس میں ہر ایک پر بحث و مباحثہ، تفسیر و مطالعہ اور تحقیقی کام انجام دیا جا سکتا ہے، لیکن آٹھویں امام علیہ السلام کا زمانہ اس ڈھائی سو سالہ دور کا انتہائي اہم باب ہے۔ آٹھویں امام حضرت علی رضا علیہ السلام کی امامت کا دور ہارون الرشید کی استبدادی حکومت کے زمانے میں شروع ہوا، قید میں حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت ہوئی، عالم یہ تھا کہ حکومت کی مرضی سے ذرہ برابر بھی سرپیچی کرنے والے پر بے پناہ سختیاں برتی جا رہی تھیں۔ ان حالات میں آٹھویں امام علیہ السلام نے امامت کی ذمہ داری سنبھالی۔
روایت میں ہے کہ اصحاب میں سے کسی نے یہ جملہ بھی کہا کہ اس نوجوان نے، فرزند موسی ابن جعفر (علیہم السلام) نے ایسے حالات میں عہدہ امامت سنبھالا ہے کہ «وَ سَیفُ هارونَ یُقَطِّرُ الدَّم»؛ (۱) ہارون کی تلوار سے خون ٹپک رہا ہے، اس طرح کے حالات تھے۔ مگر اتنے سخت اور دشوار حالات میں بھی اس عظیم ہستی نے سیرت پیغمبر اور قرآنی و اسلامی تعلیمات کا روشن راستہ اسلامی معاشرے کے سامنے پیش کیا اور اسے وسعت دی، دلوں کو مکتب اہل بیت رسول اور خاندان پیغمبر سے قریب کیا۔ یہاں تک کہ مامون کا زمانہ آتا ہے، امام علیہ السلام کو مدینہ سے مرو اور خراسان آنے پر مجبور کیا جاتا ہے، اس زمانے میں مرو عباسی حکومت کا مرکز تھا۔ عباسی حکمراں اپنا دار الحکومت بغداد سے منتقل کرکے مرو لائے تھے، البتہ بعد میں بغداد کو ہی دوبارہ دار الحکومت بنا دیا گیا جو عباسی سیاست کا مرکز تھا۔ مامون اور اس کی حکومت نے امام ہشتم علیہ السلام کو اصرار کرکے اور دباؤ ڈال کر مرو بلایا تو اس کے پیچھے کیا عزائم مضمر تھے اور عباسی حکمراں کی کیا نیت تھی اس کی تفصیلات بہت طولانی ہیں۔ اس نے ایک منصوبہ بنایا تھا جو پوری طرح سیاسی اہداف کے زیر اثر تھا، اس کا مقصد حکومت کی بنیادوں کو مضبوط بنانا اور معرفت اہل بیت علیہم السلام کے سلسلے اور ائمہ علیہم السلام جس مہم کے قائد تھے اسے کمزور کرنا تھا۔ مامون کی اس شاطرانہ سیاسی چال کے جواب میں آٹھویں امام علیہ السلام نے مدبرانہ حکمت عملی طے کی اور اس پر عمل کیا، جس کے نتیجے میں خلیفہ وقت کے عزائم کی تکمیل تو در کنار، اس کے بالکل برعکس دنیا کے گوشہ کنار میں قرآنی معارف اور اہل بیت اطہار سے وابستہ افکار و نظریات کی ترویج ہونے لگی۔ اللہ تعالی کی ذات پر توکل کے ساتھ بڑا عظیم قدم اٹھایا اور امام ہشتم نے الوہی تدابیر کے ذریعے، گہری بینش کے ذریعے ظالم و جابر حکومت وقت کے معاندانہ سیاسی منصوبے کا رخ بالکل برعکس سمت میں یعنی حق و حقانیت کے اہداف کی طرف موڑ دیا۔ یہ ائمہ علیہم السلام کی تاریخ کا بڑا نمایاں باب ہے۔ اس مرقد مطہر کا عظیم اسلامی سرزمین کے اس حصے میں واقع ہونا بڑی برکتوں کا سرچشمہ ہے۔ بحمد اللہ دنیا کے دور دراز کے علاقوں میں آباد ان مسلمانوں کے درمیان، جن کے دل محبت اہل بیت میں دھڑکتے ہیں، جن کا تعلق مختلف اسلامی فرقوں اور مسلکوں سے ہے، اس پاکیزہ مزار کی برکت سے، اس باشرف روضے کی برکت سے اور خراسان میں اس حرم اہل بیت علیہم السلام کی برکت سے، رابطہ قائم ہے۔ میری دعا ہے کہ ان شاء اللہ اس مرقد مطہر کی برکتوں میں روز افزوں اضافہ ہو۔ حضرت علی ابن موسی الرضا سلام اللہ علیہ کا مقدس مزار، آسمان کے فرشتوں کے طواف کا مرکز ہے، عنایات الہیہ کا محور ہے۔ اس پاکیزہ خاندان کے شیدائی، عشق و مودت میں ڈوبے ہوئے پاکیزہ دل، اس مقام پر پہنچ کر اللہ تعالی سے اخلاص کے ساتھ مناجات کرتے ہیں، یہ ذکر و عبادت کا مرکز ہے، یہ اللہ کی جانب متوجہ ہونے کا مقام ہے، یہ مرکز یکتا پرستی ہے امام ہشتم علیہ آلاف التحیۃ و الثناء کے مزار کی برکتوں کے نتیجے میں۔ ہماری دعا ہے کہ اس عظیم ہستی کی نظر کرم ہم سب کے شامل حال ہو، ایران کے سارے عوام، دنیا بھر کے مسلمانوں کے شامل حال ہو اور ماضی کی طرح آئندہ بھی مسلمانوں کے مستحکم باہمی رابطے کا سبب قرار پائے۔
حج کا مسئلہ بیحد اہم ہے۔ حج کے معنوی و روحانی اثرات اور تعمیری اوصاف کے علاوہ خود سفر حج دیگر عظیم مواقع کی مانند ایک سنہری موقع ہے۔ کوئی بھی قوم اپنی دانشمندی اور سوجھ بوجھ کا ثبوت اس طرح دے سکتی ہے کہ دستیاب مواقع سے بھرپور استفادہ کرے، ان سے بنحو احسن فائدہ اٹھائے۔ حج بھی ایک سنہری موقع ہے۔ اسلامی نظام، اسلامی معاشرے اور مسلم عوام کو چاہئے کہ اس موقعے کو غنیمت جانیں اور متوجہ رہیں کہ اس عظیم موقعے کو وہ اپنے دینی و روحانی امور کی اصلاح کے لئے، اپنے غافل دل کو متوجہ اور منور کرنے کے لئے اور اسلامی معاشرے کی توجہ الطاف الہیہ کی جانب مبذول کرانے اور دوسری طرف امت اسلامیہ کے گوناگوں اہم مسائل کی اصلاح کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ حج کے معنوی و روحانی صفات سے استفادہ کرنا چاہئے۔ اللہ تعالی کی ذات سے خود کو مانوس بنانے اور ذکر خدائے تعالی کے مناسب مقام اور بارگاہ خداوندی میں حاضر ہونے کا احساس سب سے بڑھ کر مناسک حج کے موقع پر وجود میں آتا ہے۔ حرمین شریفین کے اندر، منی میں، عرفات میں، مشعر میں، صدائے لبیک بلند کرنے کے دوران، احرام پہننے کے وقت، اس فکر و احساس کے دوران کہ انسان دعوت پروردگار پر لبیک کہہ رہا ہے اور اس دعوت کو قبول کر رہا ہے، عظیم موقع فراہم ہوتا ہے آگاہ اور بیدار دلوں کے لئے کہ وہ پروردگار عالم سے اپنے رابطے کو مستحکم بنائیں۔ ہمیں اپنے دلوں کو معرفت پروردگار سے اور بھی بہرہ مند کرنا چاہئے۔ یہ بڑا اہم موقع ہے۔
البتہ جو متعلقہ ذمہ داران ہیں، محترم علمائے کرام جو حج کے قافلوں میں موجود ہوتے ہیں، قافلوں کے سرپرست حضرات، ادارہ حج و زیارات کے خدمت گزار افراد، ولی امر مسلمین کے نمائندہ دفتر میں مصروف خدمت افراد کے فرائض اور بھی سنگین ہیں۔ آپ حضرات اللہ کے مہمانوں کے خادم ہیں، لہذا آپ کے فرائض اور بھی زیادہ ہیں۔ یہ فرائض مناسک حج کی انجام دہی کے وقت تک محدود نہیں ہیں۔ مناسک حج مکمل ہو جانے کے بعد بھی، اسی طرح مناسک عمرہ اور مناسک حج کے درمیان جب محترم زائرین اور حجاج کرام کے پاس تھوڑا فراغت کا وقت ہوتا ہے، حجاج کرام کی رہنمائی، ان پر توجہ اور ان کے امور کا خیال رکھنا آپ کے لئے ضروری ہے۔ حاجی کے مکے جانے، وہاں مناسک حج انجام دینے اور پھر وطن واپس آنے کے اس پورے وقت کے دوران، محترم عہدیداروں کو چاہئے کہ ان کی ضرورتیں پوری کرنے کے تعلق سے اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں، ان کی مادی ضرورتوں کی تکمیل کے سلسلے میں اور اس سے زیادہ ان کی روحانی و معنوی ضرورتوں کی تکمیل کا خیال رکھیں؛ انہیں متوجہ کرائیں، انہیں بتائیں، ان کے اندر خضوع و خشوع کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کریں، عام حالات کے مشغلوں سے روگردانی کی ترغیب دلائیں، ہم اپنی روزانہ کی زندگی میں عام طور پر کچھ مشغلوں میں مصروف رہتے ہیں، ایام حج میں یہ مشغلے ہمیں غفلت میں ڈال دیتے ہیں، ہمیں خود کو ان مشغلوں سے الگ کر لینا چاہئے اور سراپا خضوع و خشوع بن کر متوجہ ہو جانا چاہئے۔ ان شرائط کے ساتھ حج بجا لانے والا انسان اپنے اندر حقیقت میں گہری تبدیلی محسوس کرتا ہے۔ بہت سے لوگ حج سے پہلے کی اپنی غلطیوں کو بالکل ترک کرکے راستہ بدل لیتے ہیں، حج کی برکت سے صحیح راستے پر، صداقت کے راستے پر، عبادت کے راستے پر اور حق کی پیروی کے راستے پر گامزن نظر آنے لگتے ہیں۔
عالم اسلام اور امت مسلمہ کے عمومی مسائل کے سلسلے میں بھی بڑی اہم ذمہ داریاں ہیں۔ آج عالم اسلام بڑے حساس اور نازک دور سے گزر رہا ہے۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ موجودہ دور گزشتہ ادوار سے زیادہ دشوار اور سخت ہے، ایسا نہیں ہے، گزشتہ ادوار میں بھی عالم اسلام، مسلم اقوام بڑے دشوار مراحل سے گزری ہیں، بڑی سخت آزمائشوں سے گزری ہیں، گوناگوں مشکلات سے دوچار رہی ہیں۔ آج بھی عالم اسلام بڑے سنگین حالات سے گزر رہا ہے لیکن ان سختیوں اور دشواریوں کے دریچوں سے درخشاں مستقبل کی جھلکیاں بھی دکھائی پڑ جاتی ہیں، اس مستقبل کو بغور دیکھنے کی ضرورت ہے، خطرات کا اندازہ لگانے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک ممکن ہے مبلغین، مختلف زبانوں سے آشنائی رکھنے والے افراد، عام حاجی، عالم اسلام کی مشکلات کو دور کرنے میں موثر کردار ادا کریں، جلسے تشکیل دیں، اطلاعات و معلومات کا تبادلہ کریں، گفتگو اور بحث کریں۔
آج امت اسلامیہ کے دشمنوں کا ایک اہم حربہ اختلافات کی آگ بھڑکانا ہے، اختلافات پیدا کرنا ہے۔ اگر کوئی اس حقیقت کو تسلیم کر لے کہ اسلامی تحریک اور اسلامی بیداری سے بڑی طاقتوں کے مفادات کو خطرہ ہے تو وہ خود بخود یہ بھی سمجھ جائےگا کہ بڑی طاقتوں نے اپنی ساری توانائی جھونک دی ہے کہ کسی طرح مسلمانوں میں اختلافات کی آگ بھڑک اٹھے، وہ آپس میں الجھ جائیں، آپس میں متصادم رہیں اور دشمنوں کے بارے میں کچھ سوچنے کا انہیں موقعہ ہی نہ ملے۔ بڑی طاقتیں یہ کام بڑی شد و مد اور تندہی کے ساتھ انجام دے رہی ہیں۔ یہ طاقتیں اسلامی مسلکوں بالخصوص شیعہ و سنی فرقوں کے درمیان جہاں تک ممکن ہے اختلافی علل و اسباب کی تشہیر کر رہی ہیں، دلوں کو ایک دوسرے کے سلسلے میں بغض و نفرت سے پر کر رہی ہیں، بد گمانی سے لبریز کر رہی ہیں۔ یہ اقدامات استعماری طاقتیں انجام دے رہی ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ کچھ لوگ خود ہمارے درمیان سے، ہم مسلمانوں کے اندر سے، خواہ وہ شیعہ ہوں یا سنی، دشمنوں کی مدد کر رہے ہیں اور غافل ہیں! انہیں پتہ ہی نہیں ہے کہ بغض و کینہ، دشمنی و عناد اور مخالفت و مخاصمت پھیلانے کے سلسلے میں وہ جو اقدامات کر رہے ہیں ان سے بڑی طاقتوں کے مفادات پورے ہو رہے ہیں، یہ بات وہ سمجھ ہی نہیں رہے ہیں۔ حج کے دوران جہاں تک ممکن ہو یہ کوشش کیجئے کہ اس غلط فہمی کا ازالہ ہو، یہ بغض و کینہ جو دشمنان اسلام نے پیدا کیا ہے اور امت اسلامیہ کے اندر اسے پھیلا رہے ہیں، کم ہو، اسے دور کیجئے۔ آج عالم اسلام کی مصلحت اس میں ہے کہ مسلمان بھائیوں کے دل ایک دوسرے کی طرف سے صاف ہوں۔ ان کے پاس بہت سے مشترکات ہیں، مسلمانوں کے درمیان اشتراکات کی کمی نہیں ہے اور دشمن انہیں اشتراکات کی نفی کر دینے کی کوشش میں ہے۔ آج دنیائے اسلام کے بعض خطوں میں تشیع کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ جس کا مقصد اشتراکات کو ختم کرنا ہے۔ یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ قرآن کے سلسلے میں شیعہ مذہب کا نظریہ دیگر مسلمانوں سے مختلف ہے، پیغمبر اسلام کے بارے میں ان کا عقیدہ دیگر مسلمانوں سے الگ ہے۔ یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اور اس پر کافی رقم بھی خرچ کی جا رہی ہے۔ استکباری طاقتوں کے اہداف کے مطابق، امریکا کے مفادات کے مطابق، صیہونزم کے اغراض و مقاصد کے مطابق اور دشمنان اسلام کی مرضی و منشاء کے مطابق اپنے مسلمان بھائیوں پر تہمت لگائی جا رہی ہے۔ جہاں تک ممکن ہو یہ کوشش کیجئے کہ اس غلط فہمی، اس بدگمانی اور اس دروغگوئی کا سد باب ہو۔ حج کے موسم میں مسلمانوں کا اجتماع بڑا عظیم موقعہ ہے، اس موقعے کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہئے، اس موقعے کا بہترین استعمال یہ ہے کہ مسلمانوں کے دلوں کو ایک دوسرے کے قریب لایا جائے۔ اجتماعات میں سب مل کر شرکت کریں، روحانی مناسک میں، عبادی اعمال اور نماز میں سب ایک ساتھ شرکت کریں، سب ایک ساتھ خدائے تبارک و تعالی کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوں، خانہ خدا کے روبرو اللہ کی بندگی میں ڈوب جائیں۔ دشمن کے ہاتھ سے اس کا حربہ چھین لیں۔ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ تکفیر کو دشمنان اسلام اور امت اسلامیہ کے مخالفین حربے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ صرف شیعوں کو ہی نہیں بلکہ اہل سنت کو بھی وہ کافر قرار دیتے ہیں، برادران اہل سنت کی مساجد میں بھی دھماکے کرتے ہیں، نماز کے دوران حملے کرتے ہیں اور اس سے صیہونی حکومت فائدہ اٹھا رہی ہے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو، مسلمانوں کو آپس میں اس طرح الجھا دیا جائے کہ وہ فلسطین جیسے کلیدی مسئلے کو بھی بھول جائیں، انہیں خیال ہی نہ رہے کہ قلب دنیائے اسلام میں دشمن موجود ہے، یہ ہے اصلی مقصد ہے۔ کچھ لوگ تو سادہ لوحی کی بنا پر اور کچھ باقاعدہ خاص مقاصد کے تحت عمدا ان کا ساتھ دے رہے ہیں، اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
حج کے دوران ایک اور اہم مسئلہ جو خاص طور پر پیش نظر رہنا چاہئے، وہ مسئلہ فلسطین ہے۔ مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا اولیں اور سب سے ترجیحی مسئلہ ہے۔ خوش قسمتی سے فلسطین کے قضیئے میں بتدریج مسلمانوں کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے۔ آپ پچاس روزہ جنگ غزہ سے جڑے واقعات کا جائزہ لیجئے! آپ دیکھئے کہ فلسطینیوں کی چھوٹی سی تعداد وہ بھی خالی ہاتھ، نہ اس کے پاس پیشرفتہ ہتھیار ہیں، نہ بہت زیادہ وسائل ہیں، دیگر علاقوں تک رسائی کے راستے بھی بند ہیں، وہ محصور ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ فلسطینی، صیہونی حکومت پر غالب آ گئے، اپنے مطالبات صیہونی حکومت سے منوانے میں کامیاب ہوئے، غزہ پر جس منصوبے کے تحت حملہ کیا گیا تھا اسے ناکام بنا دیا۔ ان چیزوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم اندرونی طور پر طاقتور اور مستحکم ہیں، ہمارے پاس کافی توانائیاں ہیں، ہم ہر طرح کے دشمنوں کو للکارنے کی طاقت رکھتے ہیں، ہمارے پاس اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت موجود ہے، ہمیں اپنی قوت و طاقت کو کمتر نہیں سمجھنا چاہئے۔ اسلام کی طاقت، قرآن کی طاقت، ایمان کی طاقت، امت اسلامیہ کی طاقت، بہت عظیم طاقت ہے۔ اسے کم نہیں سمجھنا چاہئے۔ یہ طاقت ظلم و زیادتی کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ ہم دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے، ہم تو بس استکباری طاقتوں کے مظالم کا سد باب کرنا چاہتے ہیں جو مسلمان اقوام کے ساتھ زیادتی کرتی ہیں، ہم اس ظلم کا خاتمہ چاہتے ہیں اور یہ عمل انجام دینے کی طاقت ہمارے پاس موجود ہے۔ حج کے امور میں جو لوگ کچھ ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں انہیں چاہئے کہ اس عظیم موقع پر اپنا کردار ادا کریں۔ آپ میں ہر کوئی، ایک اہم رول ادا کر سکتا ہے، موثر اقدامات انجام دے سکتا ہے۔ علمائے کرام اپنے انداز میں، ڈاکٹر حضرات اپنے انداز میں، حج کے قافلوں کے آپریٹر حضرات اپنے انداز میں اور ایک عام حاجی بھی، سب اپنے انداز میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس عظیم موقعے کی قدر و منزلت کو سمجھئے اور اس سے بھرپور استفادہ کیجئے۔
بحمد اللہ حج کی انجام دہی کا انداز اور اس کے لئے فراہم کئے جانے والے حالات ماضی کی نسبت بہت بہتر ہیں، بڑے اچھے کام انجام پائے ہیں، مادی و رفاہی امور کے اعتبار سے بھی اور روحانی، فکری اور تبلیغی خدمات کے اعتبار سے بھی۔ تاہم یہیں پر رک جانا مناسب نہیں ہے، پیشرفت جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ ابھی بہت سے امور میں خلا موجود ہے، انجام دینے کے لئے بہت کچھ باقی ہے، جسے انجام دیا جا سکتا ہے۔ اچھا خاصا موقع دستیاب ہے، اس موقعے سے بخوبی استفادہ کرنا چاہئے۔ دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان بھائیوں کے لئے خواہ ان کا تعلق کسی بھی فرقے اور مسلک سے ہو، ایران کے شیعہ سنی مسلمانوں کا باہمی اتحاد اور ان کی یکجہتی ان کے لئے اور عالم اسلام کے لئے نمونہ قرار پا سکتی ہے۔ آج ہمارے ملک کے اندر بحمد اللہ شیعہ اور سنی مسلک ایک دوسرے کے ساتھ، باہمی مدد اور تعاون کے ذریعے بڑے عظیم کام انجام دے رہے ہیں۔ یہ چیز عالم اسلام کے لئے نمونہ عمل قرار پا سکتی ہے۔
میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی امت اسلامیہ کو اور اس امت کی اصلاح کے لئے کوشاں افراد کو اپنے فضل و کرم اور نصرت و مدد سے بہرہ مند فرمائے، آج سب کے حج کو حج مقبول قرار دے اور آپ بھرے دامن کے ساتھ اس سفر سے وطن واپس آئیں۔
۱) کافى، جلد ۸، صفحہ ۲۵۷