4 آذر 1393 مطابق 25 نومبر 2014 کو ہونے والی اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے اپنے خطاب ميں تکفيريت کو اسلامي دنيا کے لئے سامراج کا پيدا کردہ فتنہ قرار ديا ۔ آپ نے اس فتنے کے اہداف پر روشني ڈالتے ہوئے فرمايا کہ عالم اسلام کے اہم ترين مسئلے يعني مسئلہ فلسطين سے توجہ ہٹانا اور اسلامي ملکوں کا بنيادي ڈھانچہ تباہ کر دينا اس فتنے کے بنيادي اہداف ميں شامل ہے۔
قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے تکفيريت کے موضوع پر قم ميں ہونے والي بين الاقوامي کانفرنس کے مہمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمايا کہ پچھلے چند سال کے دوران تکفيري نظريات کو دوبارہ پروان چڑھا کر عالمي سامراج نے عالم اسلام پر ايک مشکل مسلط کر دي ہے- قائد انقلاب اسلامي نے امريکا ، سامراجي حکومتوں اور صہيوني حکومت کے مفادات خاص طور پر مسئلہ فلسطين اور مسجد الاقصي کو فراموش کر دئے جانے کے مقصد سے جاری خبيث تکفيري گروہوں کے اقدامات کي طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمايا کہ تکفيري نظريات اور گروہوں کو جڑ سے ختم کرنا ، اس قسم کے گروہوں کو وجود ميں لانے کے لئے سامراجي طاقتوں کي پاليسيوں کو بے نقاب کرنا اور عالم اسلام کے سب سے اہم مسئلے کے طور پر فلسطين کے موضوع پر خاص توجہ دينا موجودہ حساس صورتحال ميں علمائے اسلام کي پہلي اور اہم ذمہ داري ہے -
آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے عراق، شام اور لبنان سميت پورے خطے ميں دشمنان اسلام کي مشکلات اور ناکاميوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمايا: دشمن کي کمزوري کي ايک اور مثال ايران کا ايٹمي پروگرام ہے، امريکا اور يورپ کے سامراجي ممالک ايک دوسرے کے شانہ بشانہ، ايران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لئے سرتوڑ کوششوں کے باوجود اپنے مقصد ميں کامياب نہيں ہو سکے اور آئندہ بھي انہيں ناکامي کا منہ ديکھنا پڑے گا-
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ غزہ کے فلسطینی بھائیوں کو تقویت پہنچانا، اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے فلسطینی عوام کی مدد کئے جانے کی واضح مثال ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہم نے پہلے بھی اعلان کیا ہے کہ مغربی کنارے کو ہتھیاروں سے لیس اور دفاع کے لئے آمادہ کیا جائے اور یہ کام ضرور انجام دیا جائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
 
طیب اللہ انفاسکم (1)
بسم ‏اللَّه ‏الرّحمن ‏الرّحيم‏
الحمد للَّه ربّ العالمين و صلّى اللَّه على سيّدنا و نبيّنا المصطفى الامين محمّد و آله الطّيّبين الطّاهرين المعصومين و على صحبه المنتجبين و التّابعين لهم باحسان الى يوم الدّين‏

سب سے پہلے تو معزز مہمانوں، حاضرین محترم اور اس نشست میں تشریف فرما مختلف اسلامی مذاہب کے علمائے کرام کو خوش آمدید کہتا ہوں اور انتہائی اہمیت کی حامل دو روزہ کانفرنس میں آپ کی سرگرم اور موثر شرکت پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ضروری سمجھتا ہوں کہ قم کے بزرگ علماء و فضلا بالخصوص آیت اللہ مکارم شیرازی اور آیت اللہ سبحانی کا بھی شکریہ ادا کروں، جنہوں نے یہ نئی فکر پیش کی اور اسے عملی جامہ پہنایا۔ بحمد اللہ انہوں نے اس مہم کا پہلا قدم اٹھایا اور یہ مہم آگے بھی جاری رہنی چاہئے۔ گزشتہ دو دنوں کے دوران مقررین کی تقاریر سے اجمالی طور پر میں مطلع ہوا۔ میں بھی چںد نکات پیش کرنا چاہوں گا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اجلاس تکفیری تحریک کے بارے میں بحث کے لئے منعقد ہوا جو عالم اسلام کے اندر بڑی خطرناک اور ضرر رساں تحریک کے طور پر فعال ہے۔ تکفیری تحریک ویسے تو نئی نہیں ہے، اس کا تاریخی ماضی ہے، لیکن گزشتہ چند سال سے استکبار کی سازشوں، علاقے کی بعض حکومتوں کی دولت اور امریکا، برطانیہ اور صیہونی حکومت جیسی استعماری طاقتوں کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کی منصوبہ بندی کے نتیجے میں اس تحریک کا احیاء عمل میں آیا ہے اور اسے تقویت پہنچی ہے۔ یہ نشست، یہ کانفرنس اور آپ کی مہم، اس تحریک کا ہمہ جہتی مقابلہ کرنے کے لئے ہے، صرف اس گروہ کا مقابلہ کرنے کے لئے نہیں جو آج داعش کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آج داعش کے نام سے جس گروہ نے اپنی شناخت بنائي ہے وہ تکفیریت کے 'شجرہ خبیثہ' کی ایک شاخ ہے، یہ مکمل درخت نہیں ہے۔ اس گروہ نے جو فنتہ برپا کیا ہے، یہ 'کھیتیوں اور نسلوں کی تباہی' (2) بے گناہوں کا خون بہانا، عالم اسلام میں تکفیریت کی تحریک کے جرائم کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ تو اس مسئلے کا اس نقطہ نظر سے جائزہ لینا چاہئے۔
آج دنیائے اسلام کی سطح پر ہماری طاقت و توانائی صیہونی حکومت کی سازشوں کا مقابلہ کرنے پر صرف ہونی چاہئے تھی، قدس شریف اور مسجد الاقصی کے خلاف جو قدم انہوں نے اٹھایا ہے، اس سے پورے عالم اسلام کو حرکت میں آ جانا چاہئے تھا، مگر مجھے دلی افسوس ہے کہ ہم ان مشکلات میں سر کھپانے پر مجبور ہیں جو استکبار نے عالم اسلام کے اندر کھڑی کر دی ہیں۔ ہمارے پاس کوئی اور اس سے ہمیں مفر بھی نہیں ہے۔ در حقیقت تکفیریت کے مسئلے کا علاج ایسا معاملہ ہے جو عالم اسلام کے علمائے کرام، اسلامی دنیا کی نمایاں ہستیوں اور ممتاز شخصیات پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ دشمن نے اپنے ہاتھ سے تیار کرکے اس 'دست ساز مشکل' کو عالم اسلام پر مسلط کر دیا ہے۔ لہذا ہم اس کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ اصلی مسئلہ، صیہونی حکومت کا مسئلہ ہے۔ اصلی قضیہ بیت المقدس کا قضیہ ہے، اصلی معاملہ مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کا معاملہ ہے۔ ہمارے اصلی مسائل یہ ہیں۔
ایک ناقابل انکار نکتہ یہ ہے کہ تکفیری موومنٹ اور اس کی پشت پناہی کرنے والی حکومتیں پوری طرح استکبار اور صیہونزم کے عزائم و مقاصد کے دائرے میں رہتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں۔ ان کے اقدامات امریکا، یورپ کی استعماری حکومتوں اور غاصب صیہونی حکومت کے اہداف کے تناظر میں انجام پا رہے ہیں۔ شواہد سے اس خیال کی تصدیق ہوتی ہے۔ تکفیری تحریک بظاہر تو اسلامی ہے لیکن عملی طور پر ان سیاسی استعماری و استکباری طاقتوں اور حلقوں کی خدمت کر رہی ہے جو دنیائے اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں۔ اس بات کے واضح ثبوت موجود ہیں، جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ میں ان میں سے بعض شواہد کا ذکر کروں گا؛ ایک ثبوت تو یہ ہے کہ تکفیری تحریک نے اسلامی بیداری کی لہر کو منحرف کر دیا۔ اسلامی بیداری کی لہر امریکا مخالف، داخلی استبداد کے خلاف اور علاقے میں امریکا کے گماشتہ حکمرانوں کے خلاف اٹھنے والی لہر تھی۔ یہ لہر عوامی لہر تھی جو شمالی افریقا کے ملکوں میں استکبار کے خلاف اور امریکا کے خلاف اٹھی تھی۔ لیکن تکفیری تحریک نے امریکا مخالف، استبداد مخالف اور استکبار مخالف اس عظیم لہر کا رخ مسلمانوں کے درمیان آپسی جنگ اور برادر کشی کی جانب موڑ دیا۔ اس علاقے میں جدوجہد کی فرنٹ لائن مقبوضہ فلسطین کی سرحدیں تھیں۔ تکفیری موومنٹ نے اس فرنٹ لائن کی جگہ بدل کر اسے شام اور دمشق کی مسجد جامع، بغداد کی سڑکوں، پاکستان کی سڑکوں اور شام کے مختلف شہروں میں پہنچا دیا۔ اب یہ جگہیں فرنٹ لائن بن گئی ہیں۔
آپ آج لیبیا کی حالت دیکھئے، شام کی حالت کا جائزہ لیجئے، عراق کے حالات پر نظر ڈالئے، پاکستان کی صورت حال کو دیکھئے۔ غور کیجئے کہ مسلمانوں کی توانائیاں اور تلواریں کس کے خلاف استعمال ہو رہی ہیں؟ یہ صیہونی حکومت کے خلاف استعمال ہونی چاہئے تھیں۔ تکفیری موومنٹ نے اس مقابلہ آرائی کا رخ ہی موڑ دیا اور اسے گھروں کے اندر، ہمارے شہروں کے اندر اور اسلامی ممالک کے اندر پہنچا دیا۔ دمشق کی جامع مسجد کے اندر دھماکہ کرتے ہیں۔ بغداد میں عام شہریوں کی بھیڑ میں دھماکہ کرتے ہیں، پاکستان میں سیکڑوں لوگوں کو گولیوں سے بھون دیتے ہیں۔ لیبیا میں وہ حالات پیدا کر دئے ہیں کہ جن کا آپ آج خود مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ سب تکفیری موومنٹ کی کبھی فراموش نہ کی جانے والی مجرمانہ کارروائیاں ہیں۔ یہ حالت کس نے پیدا کی ہے۔ اس مکتب فکر کی طرف سے جو اقدامات انجام پا رہے ہیں وہ در حقیقت امریکا کی خدمت ہے، برطانیہ کی مدد ہے، ایسے اقدامات ہیں جن سے امریکا اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسیوں اور موساد کی مدد ہو رہی ہے۔
ایک اور ثبوت یہ ہے کہ جو لوگ تکفیری مکتب فکر کے حامی اور اس کے بہی خواہ ہیں، وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لئے صیہونی حکومت سے تعاون کر رہے ہیں۔ صیہونی حکومت کے معاملے ہو تو ان کی پیشانی پر کبھی بل نہیں پڑتا، لیکن اسلامی ملکوں کے معاملے میں، مسلم اقوام کے سلسلے میں، گوناگوں بہانوں سے، مختلف طرح کی ضربیں لگاتے ہیں، سازشیں کرتے ہیں۔
ایک اور ثبوت یہ ہے کہ اس تکفیری موومنٹ نے اسلامی ملکوں میں، عراق میں، شام میں، لیبیا میں، لبنان میں، بعض دیگر اسلامی ممالک میں جو فتنہ انگیز مہم چلائی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان ملکوں کی گراں قیمت بنیادی تنصیبات تباہ ہوکر رہ گئیں۔ آپ دیکھئے کہ کتنی سڑکیں، کتنی ریفائنریاں، کتنی معدنیات، کتنے ایئرپورٹ، کتنی شاہراہیں، کتنے شہر، کتنے گھر، ان ملکوں میں داخلی جنگوں کی وجہ سے اور اس برادر کشی کے نتیجے میں تباہ ہو گئے۔ ان کو سابقہ حالت پر لوٹانے میں کتنا سرمایہ، کتنا وقت اور کتنے وسائل صرف ہوں گے۔ یہ وہ خسارہ ہے جو تکفیری موومنٹ نے عالم اسلام کو پہنچایا ہے، ان چند برسوں کے دوران۔
ایک اور ثبوت یہ ہے کہ تکفیری موومنٹ نے دنیا میں اسلام کی شبیہ مسخ کرکے رکھ دی ہے۔ ساری دنیا نے ٹیلی ویژن چینلوں پر دیکھا کہ کسی کو بٹھاتے ہیں اور پھر تلوار سے اس کی گردن کاٹ دیتے ہیں، اس کا کوئی بھی جرم ثابت ہوئے بغیر؛ لا يَنهكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذينَ لَم يُقاتِلوكُم فِى الدّينِ وَ لَم يُخرِجوكُم مِن دِيارِكُم اَن تَبَرّوهُم وَ تُقسِطوا اِلَيهِم اِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ المُقسِطين } اِنَّما يَنهكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذينَ قاتَلوكُم فِى الدّينِ وَ اَخرَجوكُم مِن دِيارِكُم وَ ظاهَروا عَلى‏ اِخراجِكُم اَن تَوَلَّوهُم.(3) مگر یہ لوگ اس کے بالکل برخلاف عمل کر رہے ہیں۔ مسلمان کو قتل کیا، کوئی تعرض نہ کرنے والے غیر مسلم کو تلوار کے نیچے بٹھایا اور پھر اس کی تصویر ساری دنیا میں نشر کی، ساری دنیا نے اسے دیکھا۔ ساری دنیا نے دیکھا کہ ایک شخص نے اسلام کے نام پر ایک شخص کے سینے کے اندر سے جو قتل ہو چکا تھا، ہاتھ ڈال کر اس کا دل باہر نکالا اور دانتوں سے چبا ڈالا۔ اسے دنیا نے دیکھا اور یہ سب اسلام کے سر گیا۔ دین رحمت اسلام کو، عقل پسندی کے دین اسلام کو، منطقی دین اسلام کو، 'لا يَنهكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذينَ لَم يُقاتِلوكُم فِى الدّين' کا سبق دینے والے اسلام کو، اس اسلام کو ان لوگوں نے اس انداز سے پیش کیا، اس سے بڑا جرم کیا ہو سکتا ہے؟! اس سے زیادہ نفرت انگیز فتنہ کیا ہو سکتا ہے؟ یہ تکفیری موومنٹ کی دین ہے۔
ایک اور ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اسلامی مزاحمتی محاذ کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ غزہ پچاس دن تک اکیلا لڑتا رہا، پچاس دن تک اکیلا مزاحمت کرتا رہا۔ اسلامی حکومتیں غزہ کی مدد کے لئے آگے نہیں آئیں، پیسہ اور پیٹرو ڈالر غزہ کے لئے خرچ نہیں کیا، البتہ بعض نے صیہونی حکومت کی ضرور مدد کی۔ یہ بھی ایک دلیل ہے۔
ایک اور فعل قبیح اور مزید ایک دلیل یہ ہے کہ تکفیری موومنٹ نے پورے عالم اسلام میں مسلمان نوجوانوں کے جوش و خروش کو منحرف کر دیا۔ آج پورے عالم اسلام میں ایک جوش و جذبہ نظر آ رہا ہے، ان پر اسلامی بیداری نے اپنا اثر ڈالا ہے۔ وہ اسلام کے اعلی اہداف کے لئے خدمت انجام دینے پر آمادہ ہیں، مگر اس تکفیری تحریک نے اس جوش و جذبے کو غلط سمت میں موڑ دیا۔ غفلت اور جہالت کے شکار جوانوں کو مسلمانوں کے سر کاٹنے اور کسی بستی کے بچوں اور عورتوں کے قتل عام پر مامور کر دیا، یہ تکفیری تحریک کی بداعمالیاں ہیں۔ ان شواہد اور قرائن سے سرسری طور پر نہیں گزرا جا سکتا۔ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ تکفیری تحریک، سامراج کی خدمت کر رہی ہے، دشمنان اسلام کی مدد کر رہی ہے، امریکا کی خدمت کر رہی ہے، برطانیہ کی خدمت کر رہی ہے اور صیہونی حکومت کی خدمت کر رہی ہے۔
اس کے علاوہ بھی شواہد اور دلائل موجود ہیں۔ ہمیں اطلاع ملی کہ امریکا کے ٹرانسپورٹ طیارے سے جنگی وسائل کی کھیپیں، عراق کے ان علاقوں میں جہاں داعش گروہ موجود ہے اور جہاں اس گروہ کو ان وسائل کی ضرورت تھی، آسمان سے گرائیں، ان کی مدد کی۔ ہم نے سوچا شاید غلطی سے ایسا ہو گیا ہے۔ لیکن دوبارہ یہی واقعہ پیش آیا۔ مجھے جو اطلاعات ملی ہیں ان کے مطابق پانچ دفعہ یہ عمل انجام پایا ہے۔ پانچ دفعہ غلطی ہوتی ہے؟ اور دوسری طرف داعش مخالف اتحاد تشکیل دیتے ہیں جو کذب محض ہے۔ یہ اتحاد دوسرے خبیثانہ اہداف کے حصول کے در پے ہے۔ وہ اس فتنہ کو شعلہ ور رکھنا چاہتے ہیں۔ دو فریقوں کو ایک دوسرے سے دست و گریباں رکھیں، مسلمانوں کے اندر داخلی جنگ بدتسور جاری رہے، یہ سلسلہ چلتا رہے، ان کا ہدف یہ ہے۔ البتہ آپ یہ یقین رکھئے کہ وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔
کچھ اہم فرائض ہیں جنہیں انجام دیا جانا چاہئے۔ اس دو روزہ کانفرنس کے مختلف سیشن میں آپ نے طریقہ کار پر غور کیا، جائزہ لیا، کچھ فرائض کا تعین کیا۔ میں دو تین اقدامات کے بارے میں عرض کروں گا جنہیں ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایک تو ہے تکفیری موومنٹ کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے تمام اسلامی مکاتب فکر کے علمائے کرام کی جانب سے ہمہ گیر، علمی و منطقی مہم کا آغاز۔ یہ مسئلہ کسی ایک مکتب فکر سے مختص نہیں ہے۔ اسلام کا درد رکھنے والے، اسلام کو ماننے والے اور اسلام سے دلی ہمدردی رکھنے والے تمام مکاتب فکر اس فریضے میں برابر کے شریک ہیں۔ ایک عظیم علمی مہم کا آغاز ہونا چاہئے۔ وہ 'سلف صالح' (4) کی پیروی کے جھوٹے نعرے کے ساتھ وارد میدان ہوئے ہیں، تو ان کے اعمال و اقدامات سے 'سلف صالح' کی بیزاری کو دین کی زبان میں، علمی طریقے سے اور صحیح عقل و منطق کے ذریعے ثابت کیا جائے۔ نوجوانوں کو نجات دلائيے! کچھ لوگ ان گمراہ کن افکار سے متاثر ہو جاتے ہیں اور بیچارے اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ بڑا اچھا کام کر رہے ہیں، یہ لوگ در حقیقت اس آیہ کریمہ؛ «قُل هَل نُنَبِّئُكُم بِالاَخسَرينَ اَعمالاً. اَلَّذينَ ضلَّ سَعيُهُم فِى الحَيوةِ الدُّنيا وَ هُم يَحسَبونَ اَنَّهُم يُحسِنونَ صُنعاً»(5) کے مصداق ہیں۔ وہ اس خام خیالی میں ہیں کہ جہاد فی سبیل اللہ کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو روز قیامت اللہ سے کہیں گے؛
«رَبَّنا اِنّا اَطَعنا سادَتَنا و كُبَراءَنا فَاَضَلّونَا السَّبيلا. رَبَّنا ءاتِهِم ضِعفَينِ مِنَ العَذابِ وَ العَنهُم لَعنًا كَبيرا»،(6) یہ بیچارے وہی لوگ ہیں۔ جو شخص دمشق کی مسجد میں ایک بزرگ مسلمان عالم دین کو قتل کر دے، وہ اسی زمرے میں قرار پائے گا۔ جو دین سے منحرف ہو جانے کا دعوی کرکے مسلمانوں کے سر کاٹ رہا ہے، اسی گروہ میں شامل ہے، جو پاکستان میں، افغانستان میں، بغداد میں، عراق کے مختلف شہروں میں، شام میں اور لبنان میں دھماکے کرکے بے گناہوں کو خاک و خوں میں غلطاں کر رہے ہیں وہ اسی گروہ میں شامل ہیں جو روز قیامت کہے گا: «رَبَّنا اِنّا اَطَعنا سادَتَنا و كُبَراءَنا فَاَضَلّونَا السَّبيلا. رَبَّنا ءاتِهِم ضِعفَينِ مِنَ العَذابِ»(7) قرآن میں ایک اور جگہ پر اللہ فرماتا ہے؛«لِكُلٍ‏ّ ضِعفٌ»(8) اللہ اسے قبول نہیں کرے گا کہ «رَبَّنا ءاتِهِم ضِعفَينِ» بلکہ «لِكُلٍ‏ّ ضِعفٌ» سردار اور پیروکار دونوں کے لئے (دہرا عذاب ہوگا) «تَخاصُمُ اَهلِ النّار»(9) وہ آپس میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے۔ تو ان نوجوانوں کو نجات دلانا چاہئے، انہیں بچانا چاہئے اور یہ علماء کی ذمہ داری ہے۔ علما کا رابطہ دانشور طبقے سے بھی ہوتا ہے اور عوام الناس سے بھی ہوتا ہے، انہیں چاہئے کہ کوشش کریں۔ اللہ تعالی اس کے بارے میں روز قیامت علماء سے سوال کرے گا کہ آپ نے کیا کیا؟ اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ تو یہ رہا ایک کام۔
دوسرا اقدام جو بیحد ضروری ہے، امریکا اور برطانیہ کی استکباری پالیسیوں کے کردار پر روشنی ڈالنا ہے۔ حقیقت سامنے لانا چاہئے۔ عالم اسلام کو معلوم ہونا چاہئے کہ امریکی پالیسیوں کا اس معاملے میں کیا رول ہے؟ تکفیری موومنٹ کے احیاء میں امریکا، برطانیہ اور صیہونی حکومت کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کا کیا رول ہے؟ اسے سب ذہن نشین رکھیں۔ سب اس بات کو سمجھیں کہ یہ ایجنسیاں اپنا کام کر رہی ہیں، منصوبہ وہی بناتی ہیں، سپورٹ کا کام وہی کرتی ہیں اور طریقہ کار وہی بتاتی ہیں۔ پیسے فراہم کرنا علاقے میں ان کی آلہ کار حکومتوں، ان کے گماشتہ حکمرانوں کا کام ہے، سرمایہ یہ لوگ دے رہے ہیں۔ سازشیں وہ رچتی ہیں اور ان بد بختوں کو تباہ کر رہی ہیں، عالم اسلام کو اس بحران میں گرفتار کر رہی ہیں۔ یہ بھی بہت ضروری کام ہے جو انجام پانا چاہئے۔
تیسرا کام جو حتمی طور پر انجام دیا جانا چاہئے، مسئلہ فلسطین پر بھرپور توجہ ہے۔ ہرگز اس بات کی اجازت نہ دیجئے کہ مسئلہ فلسطین، قدس شریف کا مسئلہ اور مسجد الاقصی کا مسئلہ فراموش کر دیا جائے۔ دشمن اسی کوشش میں ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عالم اسلام مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں غفلت برتے۔ آپ غور کیجئے، انہیں دنوں کے دوران صیہونی حکومت کی کابینہ نے ملک فلسطین کی یہودیت کا اعلان کر دیا، اسے ایک یہودی ملک قرار دے دیا۔ وہ مدتوں سے اسی کوشش میں تھے اور اب صریحی طور پر انہوں نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ عالم اسلام پر طاری غفلت، مسلم اقوام اور عوام الناس پر چھائی بے خبری کے عالم میں صیہونی حکومت بیت المقدس پر قبضہ کر لینے کی کوشش میں ہے، مسجد الاقصی کو ہڑپ لینے کی تگ و دو میں ہے، فلسطینیوں کو زیادہ سے زیادہ کمزور کر دینے کے در پے ہے، اس پر توجہ دینا چاہئے۔
تمام اقوام کو چاہئے کہ اپنی حکومتوں سے مسئلہ فلسطین پر آواز اٹھانے کا مطالبہ کریں۔ علمائے کرام اپنی حکومتوں سے مطالبہ کریں کہ وہ مسئلہ فلسطین پر توجہ دیں۔ یہ ایک اہم اور بنیادی ذمہ داری ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس معاملے میں اسلامی جمہوریہ ایران میں حکومت اور عوام میں مکمل ہم فکری اور ہم آہنگی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت نے، ہمارے عظیم الشان رہنما امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے روز اول سے ہی فلسطین کی حمایت اور صیہونی حکومت سے دشمنی کی پالیسی کا اعلان کر دیا اور اس پر عمل کیا جو تاحال جاری ہے۔ پینتیس سال ہو گئے ہیں اور ہم اس راستے سے ہٹے نہیں ہیں۔ عوام بھی دل سے، پوری رغبت سے ہمارے ساتھ ہیں۔ بعض اوقات ہمارے کچھ نوجوان رجوع کرتے ہیں اور کوئي جواب نہیں ملتا تو مجھے خط لکھتے ہیں، التجا کرتے ہیں کہ اجازت دیجئے ہم فرنٹ لائن پر جاکر صیہونی حکومت سے جنگ کریں۔ صیہونیوں کے خلاف جنگ کا انہیں عشق ہے۔ قوم صیہونیوں سے جنگ کی خواہشمند ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران نے اس کا ثبوت بھی پیش کیا ہے۔ توفیق خداوندی اور لطف پروردگار سے ہم مسلکی اختلافات جیسے مسائل کو عبور کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ہم نے جو مدد حزب اللہ لبنان کو دی کہ جو شیعہ تنظیم ہے، وہی مدد حماس اور جہاد (10) کو بھی دی اور آئندہ بھی مدد دیتے رہیں گے۔ ہم فرقہ وارانہ محدودیتوں میں گرفتار نہیں ہوئے۔ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ یہ شیعہ ہے، وہ سنی ہے، یہ حنفی ہے وہ مالکی ہے، یہ شافعی ہے، وہ زیدی ہے۔ فلسطین کے ہر علاقے کو ہتھیاروں سے لیس کیا جانا چاہئے۔
ہم نے اس اصلی اور کلیدی ہدف پر نظر مرکوز کی اور مدد کی، جس کے نتیجے میں غزہ میں اپنے فلسطینی بھائیوں کے بازو ہم مضبوط کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، دیگر علاقوں میں بھی ہمیں کامیابی ملی ہے اور یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ میں آپ برادران عزیز کی خدمت میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ امریکی رعب و دبدبے سے آپ کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، دشمن کمزور پڑ چکا ہے۔ اسلام کا دشمن عالمی سامراج اس وقت ماضی کے تمام ادوار کی نسبت گزشتہ ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کے مقابلے میں سب سے زیادہ کمزور پوزیشن میں ہے۔ آپ یورپ کی استعماری حکومتوں کو دیکھ رہے ہیں۔ اقتصادی مشکلات میں گرفتار ہیں، سیاسی مشکلات میں الجھی ہوئی ہیں، سیکورٹی سے متعلق مسائل سے دست و گریباں ہیں، آج یورپ کی استعماری طاقتیں گوناگوں مشکلات و مسائل کی شکار ہیں اور امریکا کی حالت تو ان سے بھی زیادہ ابتر ہے۔ اخلاقیاتی مشکلات، سیاسی مشکلات، شدید مالیاتی و اقتصادی بحران، دنیا بھر میں خطرے میں پڑ چکی سپر پاور والی حیثیت، صرف عالم اسلام میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں۔ صیہونی حکومت بھی ماضی کی نسبت کہیں زیادہ کمزور ہو گئی ہے۔ یہ وہی حکومت ہے جو 'نیل تا فرات' کا نعرہ لگاتی تھی! چیخ چیخ کر یہ نعرہ لگاتے تھے، صاف طور پر کہتے تھے کہ نیل سے فرات تک کا علاقہ ہماری ملکیت ہے۔ مگر یہی حکومت پچاس دنوں تک چلی جنگ غزہ میں فلسطینیوں کی سرنگوں کو فتح نہیں کر پائی۔ یہ وہی حکومت ہے جس نے پچاس دن تک اپنی ساری طاقت جھونک دی کہ حماس اور جہاد اسلامی کی بنائی ہوئی سرنگوں کو مسمار کر دے، نابود کر دے، اپنے قبضے میں لے لے، لیکن ناکام رہی۔ یہی وہ حکومت ہے جس کا دعوی تھا کہ نیل سے فرات تک کا علاقہ ہمارا ہے۔ آپ دیکھئے کہ کتنی بدل چکی ہے، کتنی کمزور ہو گئی ہے۔ دشمنان اسلام گوناگوں مشکلات میں گرفتار ہیں۔ عراق میں اسلام دشمن طاقتوں کو ناکامی ہاتھ لگی، شام میں بھی ہزیمت اٹھانی پڑی، لبنان میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا، گوناگوں علاقوں میں ہدف پورا نہیں ہو سکا، مقاصد ادھورے رہ گئے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے مقابلے میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ ایٹمی مسئلے میں امریکا اور یورپ کی استعماری حکومتیں جمع ہوئيں، انہوں نے اپنی ساری توانائی استعمال کر ڈالی کہ ایٹمی مسئلے میں اسلامی جمہوریہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں لیکن نہ تو کامیاب ہوئیں اور نہ ہی مستقبل میں کامیاب ہوں گی۔ یہ مد مقابل فریق کی کمزوری کا نتیجہ ہے۔ آپ ان شاء اللہ روز بروز زیادہ قوی ہوں گے، مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے اور؛ وَ اللَّهُ غالِبٌ عَلى‏ اَمرِه(11)

والسّلام عليكم و رحمة اللَّه و بركاته‏

۱) یہ کانفرنس تیئیس اور چوبیس نومبر کو آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی( کانفرنس کے صدر) اور آیت اللہ جعفر سبحانی (کانفرنس کے کنوینر) کی کاوشوں سے مقدس شہر قم میں منعقد ہوئی۔ قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل کانفرنس کے نائب کنوینر اور منتظمہ کمیٹی کے سربراہ حجت الاسلام سید مہدی علی زادہ موسوی نے بریفنگ دی۔ جس کے بعد قائد انقلاب اسلامی نے دعائیہ جملہ طیب اللہ انفاسکم کہا اور اس کے بعد اپنا خطاب شروع کیا۔
۲) قرآن کے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 205 کی جانب اشارہ ہے جس میں کھیتیوں اور نسل کو تباہ کرنے والوں کا ذکر ہے۔
۳) سورہ ممتحنہ آیت نمبر 8 اور 9 اللہ تم کو ان لوگوں کے ساتھ نیک برتاؤ کرنے اور انصاف سے پیش آنے سے نہیں روکتا جنہوں نے دین کے معاملات میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے دیار سے بے دخل نہیں کیا ہے۔ کیونکہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اللہ تمہیں صرف ان لوگوں سے دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے بے دخل کر دیا ہے اور اس عمل میں جنہوں نے آپس میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔
۴) حقیقی معنی میں سنت پیغمبر کا اتباع کرنے والے
۵) سورہ کہف آیت 103 اور 104 کہہ دیجئے! اے لوگو میں تمہیں سب سے زیادہ خسارہ اٹھانے والے لوگوں سے باخبر کروں؟ یہ وہ لوگ ہیں دنیا کی زندگی میں جن کی کوششیں رائیگاں چلی گئيں اور وہ سمجھتے ہیں کہ بڑے اچھے کام کر رہے ہیں۔
۶) سورہ احزاب آیت 67 اور 68 کے کچھ حصے پروردگارا! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا، پالنے والے! ان کے عذاب کو دگنا کر دے، ان پر لعنت بھیج، بہت بڑی لعنت
۷) سورہ احزاب آیت 67 اور 68 کے کچھ حصے پروردگارا! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا، پالنے والے! ان کے عذاب کو دگنا کر دے، ان پر لعنت بھیج، بہت بڑی لعنت
۸) سوره‌ اعراف، آیه‌ ۳۸کا کچھ حصہ « دونوں کے لئے دگنا عذاب ہے»
۹) سوره‌ ص، آیه‌ ۶۴ کا ایک حصہ؛ «...اہل دوزخ کا جھگڑا»
۱۰) فلسطین کی جہاد اسلامی تنظیم ‌
۱۱) سوره‌ یوسف، آیه‌ ۲۱ کا ایک حصہ؛ «... اللہ اپنے امور پر غالب ہے...»