قائد انقلاب اسلامی نے1393/11/29 ہجری شمسی مطابق 18-02-2015 کو اہل تبریز کے تاریخی قیام کی سالگرہ کے موقعے پر شہر تبریز اور صوبہ مشرقی آذربائيجان سے تہران آنے والے ہزاروں افراد سے خطاب کرتے ہوئے امریکا کی جانب سے ایران کے سامنے نئی نئی شرطیں پیش کئے جانے اور یورپ کی جانب سے نئی پابندیاں عائد کئے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ملت ایران نے ہمیشہ ثابت کیا ہے کہ وہ مضبوط قوت ارادی کی مالک ہے اور پابندیوں کے معاملے میں ایرانی قوم سازشوں کو بے اثر بنا دینے پر قادر ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اقتصادی میدان میں بھی اسی تجربے کو دہرانے، اقتصادی میدان میں عوام کی منصوبہ بند شراکت اور عوامی صلاحیتوں سے استفادہ کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا اور ملک کی اقتصادی مشکلات کی وجوہات پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا:ایک اہم وجہ مسلط کردہ جنگ ختم ہونے کے بعد علاقے اور دنیا مین ایران کو اقتصادی مرکز میں تبدیل ہونے سے روکنے کے لئے استکباری طاقتوں کی جانب سے رچی جانے والی سازشیں ہیں۔ آپ نے مزید فرمایا: مغربی حکام اور خاص طور پر امریکی عہدیداروں نے منصوبہ بندی کے ساتھ اور گوناگوں حربوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، علاقے کے ملکوں کے ساتھ ایران کے بڑے اقتصادی پروجیکٹوں اور منصوبوں کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور تیل اور گیس کی سپلائی، زمینی، فضائی اور مواصلاتی نیٹ ورک سے ایران کو محروم رکھنے کی کوشش کی، انہوں نے ایٹمی مسئلہ پیش آنے سے برسوں پہلے ہی خاموشی سے ایران کے خلاف پابندیوں کا سلسلہ شروع کر دیا اور یہ اقتصادی مقابلہ آرائی تاحال جاری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے کہا کہ خام تیل فروخت کرنا اور اس کی آمدنی کو ملک کے کرنٹ افیئرز پر صرف کرنا، تیل کی ایڈڈ ویلیو سے حاصل ہونے والے بے پناہ ثمرات سے استفادہ نہ کرنا، طاغوتی شاہی حکومت کا منحوس ورثہ اور ناقابل تلافی نقصان ہے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ یہ طریقہ پیسہ حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ ہے اور مختلف ادوار میں حکام آسانی سے حاصل ہونے والی اسی رقم کے استعمال کو ترجیح دیتے تھے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملکی معیشت کے حکومتی معیشت ہونے کی بڑی مشکل کے سلسلے میں چند سال قبل آرٹیکل 44 سے متعلق پالیسیوں کا نوٹییفکیشن جاری کئے جانے اور ان پالیسیوں پر عمل درآمد کے سلسلے میں اپنی مکرر تاکید کو یاد دلاتے ہوئے فرمایا: حکومت واقعی محنت کر رہی ہے، لیکن صرف یہ کوششیں کافی نہیں ہیں، بلکہ اقتصادی میدان میں جاری کوششوں میں ایک نئی روح پھونک دینے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے 29 بہمن مطابق اٹھارہ فروری کی تاریخ کو مستحکم اور خود کفیل معیشت کی کلی پالیسیوں کا نوٹیفکیشن جاری کئے جانے کی پہلی سالگرہ قرار دیا اور فرمایا: مزاحمتی معیشت جو ملک کے لئے پابندیوں کے دور میں بھی اور پابندیاں ہٹ جانے کے بعد کے دور کے لئے بھی ضروری ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ملکی معیشت کی عمارت کو اس طرح تعمیر کیا جائے کہ عالمی سطح پر آنے والے اتار چڑھاؤ کا اس پر اثر نہ ہو۔
۱) قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے صوبہ مشرقی آذربائیجان میں ولی امر مسلمین کے نمائندے اور شہر تبریز کے امام جمعہ آیت اللہ محسن مجتہد شبستری نے اپنی تقریر میں اہم نکات پر روشنی ڈالی۔
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌

سب سے پہلے تو میں اپنے تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں جنہوں نے یہ طولانی سفر طے کیا اور آج ہمارے اس حسینیہ (1) کو اپنی تشریف آوری سے، اپنے اخلاص سے اور اپنی اس روحانیت و معنویت سے جو آذربائیجان اور تبریز کے عوام میں عام طور پر موجود ہوتی ہے، منور کر دیا۔ میں شکریہ ادا کرتا ہوں خاص طور پر شہداء کے عزیز اہل خانہ، 'ایثار گروں' (دفاع وطن میں محاذ جنگ پر خدمات انجام دیکر واپس آنے والے سپاہی) علمائے کرام اور محترم عہدیداروں کا۔ در حقیقت ہر سال 29 بہمن (مطابق 18 فروری) کا دن ہمارے لئے با برکت دن ثابت ہوتا ہے۔ یہ توفیق حاصل ہوتی ہے کہ اس دن اس حسینیہ میں کچھ عزیز نوجوانوں، عزیز و غیور عوام، صاحب ایمان عوام، ملک کی طویل تاریخ میں بار بار امتحانوں پر پورے اترنے والے عوام سے ملاقات ہو، یہ ہمارے لئے واقعی بڑی مسرت بخش بات ہے۔ میں اس دن کو حقیقی معنی میں ایک مبارک دن سمجھتا ہوں۔ بحمد اللہ یہ نشست جوش و جذبے اور گہرے معانی و مفاہیم سے معمور نشست ہے۔ جیسا کہ اس دلکش ترانے میں آپ نے بیان کیا «آماده جوانلار، آزاده جوانلار»؛(2) میں بھی حقیقت میں اس کی تصدیق کرتا ہوں۔ آپ کے اس ترانے میں ایک جملہ تھا کہ «شیطان بیزه ال تاپماز»؛(3) یہ عین حقیقت ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ آذربائيجان اور تبریز کے ماضی یہاں کے گوناگوں واقعات اور عجیب و غریب نشیب و فراز کے بارے میں ذہنوں میں جو کچھ ہے اس سے اس حقیقت کی تصدیق و تائید ہوتی ہے۔ جناب شبستری صاحب (تبریز کے امام جمعہ اور صوبہ مشرقی آذربائیجان میں ولی امر مسلمین کے نمائندے) کا بھی واقعی شکر گزار ہوں، ان کا وجود تبریز کے لئے مایہ برکت ہے، ایک نعمت ہے۔ بلا شبہ ایک فرض شناس، صاحب بصیرت، انقلابی عناصر کے قدرداں عالم دین کا وجود ہر شہر کے لئے خاص طور پر تبریز جیسے شہر اور آذربائیجان جیسے صوبے کے لئے سنہرا موقع ہے، میں امید کرتا ہوں کہ اس موقع سے کما حقہ استفادہ کیا جائے گا۔
میں نے آذربائیجان اور تبریز کے بارے میں اب تک بہت سے معروضات پیش کئے ہیں اور حقیقت میں ان باتوں پر میں تہہ دل سے یقین بھی رکھتا ہوں۔ بس یہ عرض کر دوں کہ آذربائیجان کے عوام نے اور اہل تبریز نے ثابت کر دیا کہ وہ پیش پیش رہنے والے ہیں، وہ موقع شناس ہیں، بر وقت اقدام کرنے والے ہیں، دلیر اور شجاع بھی ہیں چنانچہ مشکلات سے کبھی خائف نہیں ہوتے اور ساتھ ہی حقیقی معنی میں صاحب ایمان افراد ہیں۔ یہ عین حقیقت ہے، اس کی تصدیق ہر وہ شخص کرے گا جو آذربائیجان کی تاریخ سے واقف ہو، خواہ وہ آئینی انقلاب سے متعلق واقعات ہوں، خواہ اس سے پہلے تمباکو کے بائیکاٹ اور برطانوی کمپنی کے خلاف محاذ سنبھالے کا مسئلہ ہو، خواہ اس کے بعد قومی تحریک اور بعد کے واقعات ہوں یعنی سنہ 1951، 52 کے واقعات ہوں، خواہ اسلامی تحریک سے متعلق واقعات ہوں، خواہ اسلامی انقلاب کی فتح و کامرانی کا معاملہ ہو، ان تمام واقعات کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو (یہ نظر آتا ہے کہ) آذربائیجان اور تبریز کے عوام نے بروقت اقدام کیا اور دوسروں سے پہلے میدان میں وارد ہوئے، پیش پیش رہے۔ شجاعت و دلیری کا بھی مظاہرہ کیا اور حقیقی معنی میں پیر و جواں، مرد و زن سب کے پیش نظر معیار تھا ایمان اور اسلامی عقیدہ۔ یہ سلسلہ اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد بھی تاحال جاری ہے۔ وہ آٹھ سالہ مقدس دفاع کا زمانہ، وہ مایہ ناز عاشورا بٹالین، شہید باکری جیسے روحانیت و معنویت میں ڈوبے ہوئے عظیم کمانڈر، اسی طرح دوسرے واقعات۔ 30 دسمبر 2009 کا عظیم کارنامہ تیس دسمبر کو رونما ہوا لیکن تبریز میں انتیس دسمبر کو ہی یہ کارنامہ انجام دیا گیا۔ ان چیزوں میں خاص معنی و مفہوم ہے۔ یہ علامتیں ہیں، یہ نشانیاں ہیں۔ میں یہ باتیں اس لئے نہیں کہہ رہا ہوں کہ آپ کو خوش کروں، اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ پتہ چلے کہ ہمارے وطن عزیز کا یہ خطہ، کیسی عظیم صلاحیتوں کا مالک ہے۔ اس نظام کو، اسلامی انقلاب کو ابھی طویل سفر طے کرنا ہے۔ یہ سارے اوصاف و خصائص اس طولانی سفر میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
اٹھارہ فروری سنہ 1978 کو عوام نے میدان میں اتر کر جو کام انجام دیا وہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اور حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کے نہج پر انجام دیا جانے والا کارنامہ تھا جنہوں نے عاشورا کے واقعے کو فراموش نہیں ہونے دیا۔ 18 فروری سنہ 1978 کو اہل تبریز نے عظیم واقعے کو فراموش ہونے سے بچایا، ورنہ منصوبہ یہ تھا کہ قم میں انجام پانے والا قتل عام اور عوام کا کارنامہ ہمیشہ کے لئے فراموش ہو جائے۔ مگر اہل تبریز نے یہ نہیں ہونے دیا۔ میں کبھی نہیں بھولوں گا کہ اس زمانے میں یہ خبریں آ رہی تھیں کہ جابر اور طاغوتی شاہی حکومت نے اعلی فوجی افسران کو تبریز بھیجا ہے کہ عوام کے مظاہروں کو بند کروائیں۔ لیکن عوام نے 18 فروری کا عظیم کارنامہ انجام دیا اور یہ آج تک زندہ ہے۔ میں بھی جو آپ سے ملاقات پر اتنی تاکید کرتا ہوں تو وہ اس دن کی خاص اہمیت کی وجہ سے ہے۔
میدان عوام کے ہاتھ میں رہے، کارنامہ عوام انجام دیں، اقدامی کارروائی عوام کریں، یہ امام خمینی کی ہنرمندی کا نتیجہ تھا، یہ عظیم الشان امام خمینی کا کرشمہ تھا۔ امام خمینی نے میدان ان کے ہاتھوں میں دیا جو اصلی مالک ہیں، ظاہر ہے ملک کے مالک موجود ہیں۔ طاغوتی شاہی دور میں کہتے تھے کہ ملک کا ایک مالک ہے؟ ملک کا مالک کون تھا؟ شاہ۔ جبکہ وہ ملک میں ایک سپاہی اور ایک اضافی فرد سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ وہ ملک کا مالک نہیں تھا، ملک کے مالک تو عوام ہیں۔ بے شک ملک کا مالک ہے، مالک کون ہے؟ مالک عوام ہیں۔ جب کام خود عوام کے ہاتھوں میں سونپ دیا جاتا ہے جو ملک کے مالک ہیں، مستقبل کے مالک ہیں، تو پھر سارے کام صحیح اور درست انداز میں انجام پانے لگتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ کے اندر ہر دور میں حکام کی یہ مدبرانہ کوشش ہونی چاہئے کہ کاموں کو مناسب تدابیر کے ساتھ، صحیح منصوبہ بندی کے ساتھ، تمام باریکیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے عوام کے سپرد کر دیں۔ پھر سارے کام آگے بڑھیں گے۔ ابتدائے انقلاب سے اب تک ہم نے جو کام بھی عوام کے سپرد کیا ہے، وہ بہترین انداز میں انجام پایا ہے، جو کام بھی حکام اور سربراہوں کے حوالے کیا اس میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ کام ہمیشہ رکا ہی رہا، لیکن اکثر و بیشتر یا تو رک گیا یا سست روی سے دوچار ہو گیا۔ اگر پوری طرح ٹھپ نہیں ہو گیا تو سست روی کا ضرور شکار ہو گیا۔ مگر جو کام بھی عوام کے ہاتھوں میں گیا، عوام نے بہترین انداز میں انجام دیا۔
یہ چیز صرف ہم سے مختص نہیں ہے، یہ بھی عرض کر دوں کہ یہ معاملہ صرف ہم ایرانیوں تک محدود نہیں ہے۔ جہاں کہیں بھی کوئی بڑا کام عوام کے ہاتھ میں آ جاتا ہے اور عوام ہدف کے ساتھ کام کر رہے ہوتے ہیں، یعنی ایسے لوگ نہیں ہیں جو بے ہدف اور زندگی کے امور میں سرگرداں اور روز مرہ کے ذاتی کاموں میں الجھے ہوئے ہوں، تو وہ کیسا ہی کام ہو، کتنا ہی دشوار ہو، دفاعی مہم ہو، سیکورٹی سے متعلق امور ہوں، جب عوام کا ہاتھ لگ جاتا ہے، میدان جب عوام کے اختیار میں آ جاتا ہے تو پھر وہ کام آگے بڑھتا ہے۔ آپ ذرا غور کیجئے، دس سال سے بھی کم وقت میں لبنان کی مزاحمتی فورس نے جلاد صیہونی فوج کو کتنی دفعہ شکست سے دوچار کیا۔ پہلے لبنان کی اسلامی مزاحمتی فورس نے اور پھر فلسطین کے مزاحمتی محاذ نے۔ لبنان کی مزاحمتی فورس نے پہلے تو صیہونیوں کو جنوبی لبنان سے باہر نکالا، اس کے بعد 33 روزہ جنگ میں صیہونیوں کو دھول چٹائی، امریکا نے صیہونیوں کی مدد کی، داخلی خائن عناصر نے بھی مدد کی لیکن مزاحمتی فورس نے جو عوامی صفوں سے نکلی ہے، جو زیور ایمان سے آراستہ ہے، جو ہدف کے ساتھ کام کرتی ہے اور جو مکمل ادراک کے ساتھ آگے بڑھتی ہے، ان سب کو میدان سے پیچھے دھکیل دیا۔ تازہ ترین ضرب وہ ہے جو مزاحمتی فورس نے صیہونی فوج پر لگائی ہے اور جس کے زخم ابھی تازہ ہیں، جسے ابھی کوئی بھولا نہیں ہے۔ فلسطینی مزاحمتی محاذ بھی اسی طرح 22 روزہ جنگ میں، 8 روزہ جنگ میں گزشتہ موسم گرما میں ہونے والی 51 روزہ جنگ غزہ میں محدود طاقت اور تھوڑے سے ہتھیاروں کی مدد سے تھوڑی سی تعداد میں لوگوں نے ایک محدود علاقے کے اندر جارح صیہونی فوج کی ایسی درگت بنائی، اسے ایسا رسوا کیا کہ وہ جنگ بندی کے لئے گڑگڑانے لگی۔ عراق میں حالیہ دنوں میں جو واقعات رونما ہوئے انہیں آپ نے دیکھا، جو لوگ امریکا، صیہونیوں اور دوسروں کے اکساوے میں آ گئے تھے، بغداد کے قریب تک آ پہنچے، عراق کی مجاہد عوامی فورسز ملک کی فوج کی مدد کے لئے اٹھ کھڑی ہوئیں اور پھر داعش سے موسوم عناصر پر کاری ضرب لگائی۔ شام میں بھی یہی ہوا، عوامی فورسز نے اپنی فوج کی مدد کی۔ ایسے ہوتے ہیں عوام، جب بھی میدان عوام کے ہاتھ میں دے دیا جاتا ہے، عوامی جوش و جذبہ اور عوام کے اندر موجود گوناگوں اور بے پناہ توانائیاں، کاموں کو بہترین انداز میں انجام دیتی ہیں۔ اس کی ایک مثال یہی 22 بہمن (مطابق 11 فروری) ہے۔
میری زبان واقعی اپنے عزیز عوام، عظیم الشان ملت ایران کا شکریہ ادا کرنے اور اس سال 22 بہمن کے جشن میں عوامی شرکت کی توصیف سے قاصر ہے۔ حقیر کو جو صحیح رپورٹیں ملیں، جنہیں پوری درستگی کے ساتھ تیار کیا جاتا ہے، قریب قریب سارے ہی صوبائی مراکز میں، تقریبا ایک ہزار شہروں میں جلوس نکالے گئے۔ جو اندازہ لگایا گيا اس کے مطابق تقریبا تمام صوبائی مراکز میں اس سال جلوسوں میں عوام کی شرکت گزشتہ سال کی نسبت زیادہ تھی۔ تقریبا سارے ہی شہروں کا یہی عالم تھا۔ بعض شہروں میں عوام شدید سردی، برفباری اور بارش کے باوجود آئے اور جلوسوں میں شریک ہوئے۔ اہواز جیسے شہروں میں گرد و غبار کے طوفان کے باوجود لوگ جلوسوں میں پہنچے۔ یہ کوئی معمولی بات ہے؟ اسلامی انقلاب کو 36 سال کا عرصہ ہو رہا ہے؟ دنیا میں کہا ایسا ہے کہ عوام کے ذریعے اس پرشکوہ انداز میں انقلاب کا جشن منایا جاتا ہو؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ کام عوام کے ہاتھ میں ہے۔ جب کام عوام کو سونپ دیا جاتا ہے تو وہ اسی انداز سے عمل کرتے ہیں۔ یہ کلی قاعدہ ہے۔ چھوٹے بڑے جیسے بھی مسئلے میں عوام کی شرکت ہوئی اس میں ہم نے یہی معجزہ دیکھا ہے۔
میں آج اقتصاد کے بارے میں تھوڑی گفتگو کرنا چاہتا ہوں، ملکی معیشت کے بارے میں۔ کئی سال سے میں سال نو کی آمد پر اقتصادی امور پر تاکید کرتا آ رہا ہوں، ان پر خاص توجہ دیتا ہوں، یہ ملک بہت بڑا ملک ہے، بہت وسیع و عریض ملک ہے، بڑی آبادی والا ملک ہے، اس ملک کے اندر سات کروڑ سے زائد افراد پر مشتمل بڑا بازار ہے، ان چیزوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، یہ بہت باعظمت چیزیں ہیں۔ آپ ایک نظر ڈالئے ہمارے پاس موجود ان توانائیوں اور امکانات پر۔ ہماری افرادی قوت کو جس میں اس ملک کے نوجوانوں کی عظیم تعداد شامل ہے، جو مہارت رکھتے ہیں، تعلیم یافتہ ہیں، جوش و جذبے سے سرشار ہیں، کام کے لئے آمادہ ہیں، اسی طرح ہمارے پاس قدرتی دولت کو بھی آپ دیکھئے۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے سامنے اقتصادی مشکلات ہیں۔ تو مشکل کہاں پر ہے؟ راہ حل کیا ہے؟ کیا کرنا چاہئے؟
میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جنگ ختم ہونے کے بعد یعنی سنہ 1367 (ہجری شمسی مطابق 1988 عیسوی) سے جب آٹھ سالہ مقدس دفاع ختم ہوا تو استکباری طاقتوں کی سازش تیار ہو چکی تھی کہ اسلامی مملکت ایران کو علاقے کی بارسوخ اقتصادی طاقت میں تبدیل نہ ہونے دیں۔ اس کے لئے انہوں نے محنت کی، باقاعدہ اس مسئلے پر کام کیا۔ جب جنگ ختم ہوئی تو ہم نے ملک کے اقتصادی مسائل اور ترقی کے لئے منصوبہ بندی کا سلسلہ شروع کیا، ہم منصوبوں میں مصروف ہو گئے۔ ان طاقتوں نے بھانپ لیا کہ اگر ایران کا راستہ نہ روکا گیا، اگر اس کے راستے میں رکاوٹیں نہ کھڑی کی گئیں، اگر دخل اندازی نہ کی گئي، اگر خلل اندازی نہ کی گئی تو ایران اپنی صلاحیتوں کی مدد سے، ظاہر ہے اس زمانے میں ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کا سایہ ہمارے سروں پر تھا، آپ کی حیات مبارکہ کا زمانہ تھا، اسلام پر تکیہ کرکے، عوام کے تعاون سے ایک علاقائی اقتصادی محور میں تبدیل ہو جائے گا اور علاقے اور دنیا کی معیشت پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ لہذا منصوبہ بندی کی گئی کہ ایسا نہ ہونے پائے۔ یہ چیزیں ایٹمی مسئلے سے متعلق نہیں ہیں۔ ایٹمی مسئلہ تو آپ یہ سمجھئے کہ دس سال بارہ سال سے اٹھا ہے، یہ باتیں ایٹمی قضیہ پیش آنے سے پہلے کی ہیں۔ یہ سنہ اٹھاسی نواسی کی باتیں ہیں جب ایٹمی مسائل کا کہیں ذکر نہیں تھا۔ ہمارے دشمنوں نے اسی زمانے سے اپنا کام شروع کر دیا تھا۔ جو باخبر افراد ہیں، بخوبی جانتے ہیں کہ ایران کو حاشئے پر ڈالنے، تیل اور گیس کی پائپ لائن کے معاملے میں ایران کو محروم کرنے، زمینی، فضائی اور بحری راستوں کے معاملے میں ایران کو پیچھے دھکیل دینے، مواصلاتی ٹکنالوجی کے نیٹ ورک سے ایران کو بے بہرہ رکھنے کے لئے مغربی طاقتوں اور خاص طور پر امریکا کی منصوبہ بندی بڑی خاموشی سے شروع ہو گئی، ایک طرح کی پابندی کا آغاز ہو گیا تھا۔ ایران جب بھی کوئی اہم اقتصادی پروجیکٹ آگے بڑھانا چاہتا تو دوسرے فریقوں کو ڈرا دیا جاتا تھا۔ یہ ساری چیزیں اس ملک کے سلسلے میں رونما ہوئی ہیں۔ بے خبری میں بڑے بڑے دعوے کرنے والے افراد یہ نہ کہیں اور اس تصور میں نہ رہیں کہ کسی نے کچھ کیا ہی نہیں۔ ایسا نہیں ہے، بہت محنت کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں دشمن نے منصوبے کے تحت کام کیا ہے اور آج تک وہ اپنا منصوبہ ایک ایک قدم کرکے آگے بڑھا رہا ہے اور اس پر عمل کر رہا ہے۔ آپ جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ ملک کی داخلی کاوشوں اور دشمن کی معاندانہ کارروائیوں کا نتیجہ ہے۔ دشمن کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ اقتصادی میدان میں دشمن نے واقعی سازش رچی، بعض مواقع پر اس نے آشکارا اقدام کیا اور بعض مواقع پر بغیر اعلان کے اقدامات انجام دئے لیکن با خبر لوگ سمجھ جاتے تھے کہ دشمن کیا کر رہا ہے، دشمن کون ہے؟ دشمن امریکا اور اس کے نقش قدم پر چلنے والی چند یورپی حکومتیں ہیں۔ تو یہ چیزیں آج کی نہیں ہیں۔
اب اس کا علاج کیا ہے؟ یہ تو واضح ہے، دشمن تو دشمنی ہی برتے گا، کیا ہم دشمن سے کوئی آس لگا سکتے ہیں؟ نہیں، دشمن سے کوئی آس نہیں لگائی جا سکتی، دشمن سے گلہ و شکوہ نہیں کیا جا سکتا۔ کیا ہمیں امریکہ سے گلہ و شکوہ ہے۔ ہرگز نہیں۔ انسان گلہ و شکوہ دوست سے کرتا ہے۔ دشمن کی تو فطرت ہی معاندانہ اقدامات کرنا ہے۔ تو راہ حل کیا ہے؟ راہ حل یہ ہے کہ قوم اندرونی طور پر محنت کرے، ایسے اقدامات انجام دے کہ دشمن کا وار جو یقینی ہے، بے اثر ہوکر رہ جائے، یا اس کا اثر بہت محدود ہو جائے۔ یہ ہے راہ حل۔ میرے عزیزو! میرے نوجوانو! اس بات پر توجہ دی جانی چاہئے۔
ہماری معیشت میں دو بڑی خامیاں ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ ہماری معیشت تیل پر منحصر معیشت ہے، دوسری خامی یہ ہے کہ ہماری معیشت حکومتی معیشت (اسٹیٹ اکانومی) ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ یہ دو بڑی خامیاں ہیں۔ ہماری معیشت تیل پر منحصر معیشت ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم تیل کو جو ہمارا پائيدار سرمایہ ہے اور جس کے اندر کئی گنا 'ایڈڈ ویلیو' کی گنجائش موجود ہے، زمین کے نیچے سے باہر نکالیں اور اسے کچا ہی دنیا کو فروخت کر دیں، اور اس سے حاصل ہونے والے پیسے کو ملک کے 'کرنٹ افیئرز' پر صرف کریں۔ اس سے بڑا گھاٹے کا سودا کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ تیل پر منحصر معیشت ایسی ہی ہوتی ہے۔ تیل کو ظاہر ہے مختلف مصنوعات میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ بعض سائنسی تحقیقات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہی خام تیل جسے ہم پٹرول، ڈیزل، کیروسن وغیرہ میں تبدیل کرکے استعمال کرتے ہیں، ان چیزوں کے بجائے اسی خام تیل سے وہ مصنوعات تیار کرکے جو اب تک انسان نے تیار نہیں کی ہیں، تیل کی ایڈڈ ویلیو میں سو گنا کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ہم ان چیزوں سے غافل ہیں۔ خام تیل کو کنؤں کے اندر سے باہر نکالیں، اس سرمائے کو، ایسے سرمائے کو جو زمین کے اندر دوبارہ پیدا نہیں ہوتا، ان چیزوں میں ہے جو ختم ہو جانے والی ہیں، جنہیں ری سائیکل نہیں کیا جا سکتا کہ ہم یہ کہیں کہ اسے نکال لیتے ہیں، اس کی جگہ دوبارہ پر ہو جائے گی۔ ایسا نہیں ہے، جب ہم نے تیل کو باہر نکالا تو پھر وہ ختم ہو جاتا ہے۔ تیل اس طرح کی چیز ہے۔ گیس اسی طرح کی چیز ہے۔ ہم اسے فروخت کریں اور اس سے ملنے والے پیسے کو ملک کے کرنٹ افیئرز پر صرف کریں، اس سے بری صورت کوئی اور نہیں ہو سکتی۔ یہ گزشتہ طاغوتی حکومت کا منحوس ورثہ ہے۔ یہ پیسہ کمانے کا بہت آسان طریقہ ہے۔ مختلف ادوار میں بعض حکام نے اسی آسان راستے سے پیسہ حاصل کرنے کو ترجیح دی۔ تو ایک خامی یہ ہے۔
دوسری خامی میں نے عرض کیا کہ معیشت کا 'اسٹیٹ اکانومی' ہونا ہے۔ یہ ان مسائل میں ہے، جسے ہم وجود میں لائے ہیں، دوسروں نے ہم پر مسلط نہیں کیا ہے، ابتدائے انقلاب کے زمانے میں جو طرز فکر موجود تھا اس کی بنیاد پر ہم نے معیشت کو حکومت کے ہاتھوں میں سونپ دیا۔ اب لاکھ کوششیں ہو رہی ہیں کہ معیشت عوام کے ہاتھوں میں منتقل ہو جائے، اسے عوام کو سونپ دیا جائے، ایسی درست منصوبہ بندی کے ساتھ کہ انصاف و مساوات کے تقاضے مد نظر رہیں، مگر معاملہ صحیح انداز میں انجام نہیں پا رہا ہے، بہت دشوار ہے۔ ہم نے آرٹیکل 44 سے متعلق کلی پالیسیوں کا نوٹیفکیشن جاری کیا، اس کا مقصد یہ تھا کہ معیشت کو اسٹیٹ اکانومی کی حالت سے باہر نکالا جائے۔ میں نے اسی حسینیہ میں اسلامی نظام کے اعلی عہدیداروں کے اجلاس میں جو اوپری منزل پر منعقد ہوا تھا، تشریح کی کہ ہمیں زر مبادلہ کی کس مقدار میں احتیاج ہے اور یہ مقدار اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک ہم یہ کام انجام نہیں دیتے۔ آرٹیکل 44 پر ان پالیسیوں کے مطابق کہ جن کا ہم نوٹیفکیشن جاری کر چکے ہیں، عمل ہونا چاہئے (4)۔ یہ انجام دیا جانا چاہئے۔
میں نے اس سال، گزشتہ سال، اس سے پہلے والے برسوں میں، معیشت کے بارے میں گفتگو کی۔ عہدیداران واقعی محنت سے کام کر رہے ہیں۔ میں تصدیق کرتا ہوں کہ محنت سے کام کیا جا رہا ہے۔ ان حالیہ برسوں میں محنت کی گئی ہے لیکن کافی نہیں ہے۔ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ان کوششوں اور اقدامات میں ایک نئی جان ڈال دینے کی ضرورت ہے۔
آج 29 بہمن (مطابق 18 فروری) ہے۔ گزشتہ سال 29 بہمن کو ہم نے مختلف اداروں کو مزاحمتی اور خود کفیل معیشت کی کلی پالیسیوں کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔ آج ایک سال پورا ہو گیا۔ مزاحمتی معیشت ملک کے لئے بہت ضروری ہے۔ پابندیاں عائد رہیں تب بھی ضروری ہے اور پابندیاں ہٹ جائیں تب بھی یہ لازمی ہے۔ جس زمانے میں اس ملک پر کوئی پابندی نہ لگی ہو تب بھی مزاحمتی معیشت اس ملک کی اہم ضرورت ہوگی۔ مزاحمتی معیشت کا مطلب یہ ہے کہ ہم ملکی معیشت کی عمارت کو اس طرح تعمیر کریں کہ عالمی سطح پر اٹھنے والے جھٹکے اسے متاثر نہ کر سکیں۔ کسی دن تیل کی قیمت سو ڈالر سے پینتالیس ڈالر پر آ جائے تو ہم سوگ منانے پر مجبور نہ ہوں، کسی دن امریکیوں نے دھمکی دے دی کہ ہم فلاں چیز اور فلاں چیز پر پابندی عائد کر دیں گے یا وہ پابندی عائد کر دیں تو ہمارے یہاں فرش ماتم نہ بچھ جائے۔ ہم یہ سوگ منانے پر مجبور نہ ہوں کہ یورپی ملکوں نے ہمارے جہاز رانی کے شعبے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اگر ملک میں مزاحمتی معیشت ہوگی تو عالمی سطح کے یہ جھٹکے عوام الناس کی زندگی پر اثر انداز نہیں ہو سکیں گے۔ محکم مزاحمتی معیشت کا یہی مطلب ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ملک کے اندر اقتصادی عمارت ایسی ہو کہ افرادی قوت کو اس میں بھرپور طریقے سے استعمال کیا جائے، حقیقی معنی میں ان کی خدمات حاصل کی جائیں۔ اس کے لئے منصوبہ بندی کی جانی چاہئے اور ملکی معیشت کی عمارت کو مستحکم بنایا جانا چاہئے۔ میں ابھی اس سلسلے میں کچھ باتیں عرض کروں گا جن پر عمل کیا جانا چاہئے۔ ملک کے عہدیداروں کی توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ ملکی معیشت اس سمت میں جائے۔ اگر یہ ہو گيا تو شکوفائی نظر آئے گي، اگر یہ ہو گيا تو دشمن کی دھمکیاں ہمیں ہراساں نہیں کر پائیں گی، پابندیوں کا نام سن کر ہم پر لرزہ طاری نہیں ہوگا۔ تیل کی قیمت گر جانے کا ہم سوگ نہیں منائیں گے۔ یہ ہے مزاحمتی معیشت۔ مزاحمتی معیشت کا بنیادی طور پر انحصار اور تکیہ عوام الناس پر ہے، قومی پیداوار پر ہے۔
ملکی معیشت میں ایک اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ تیل پر سالانہ بجٹ کا انحصار ختم ہو۔ البتہ جو باتیں میں یہاں آپ کے سامنے عرض کر رہا ہوں اور بار بار دہراتا رہا ہوں، ان کا کہنا تو آسان ہے، ان کو عملی جامہ پہنانا کافی مشکل کام ہے۔ میں خود بھی برسوں اجرائی کاموں میں رہا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ اجرائی اقدامات بہت دشوار ہوتے ہیں، البتہ میرا نظریہ یہ ہے کہ ان سخت کاموں کو انجام دیا جا سکتا ہے۔ عملی جامہ پہنانا، لفظوں میں کسی بات کو بیان کرنے سے زیادہ دشوار ہوتا ہے لیکن اگر ہمت سے کام لیا جائے، عوام پر تکیہ کیا جائے، نوجوانوں کی خدمات حاصل کی جائیں، داخلی سرمائے پر بھروسہ کیا جائے، اللہ تعالی کی ذات پر توکل کیا جائے جس نے نصرت و مدد کا وعدہ کیا ہے تو اسے انجام دیا جا سکتا ہے۔ ایک اور کام جو انتہائی اہمیت رکھتا ہے یہ ہے کہ بجٹ، داخلی پیداوار کی بنیاد پر تیار کیا جائے، یعنی اس پیسے پر جو عوام کی پیداواری سرگرمیوں سے اور ان کے ذریعے دئے جانے والے ٹیکس سے حاصل ہو۔ ٹیکس کے بارے میں بھی کچھ باتیں عرض کرنی ہیں۔
میرے عزیزو! ٹیکس ادا کرنا ایک فریضہ ہے۔ اس وقت ہم کمزور طبقے سے ٹیکس حاصل کر رہے ہیں، ملازمت پیشہ افراد سے ٹیکس لے رہے ہیں، مزدوروں سے ٹیکس لے رہے ہیں، دوکانداروں سے ٹیکس لے رہے ہیں، لیکن بڑے بڑے سرمایہ دار ہیں جن سے ہم ٹیکس نہیں وصولتے، وہ ٹیکس سے ہمیشہ جان چھڑا لیتے ہیں۔ یہ جرم ہے۔ ٹیکس سے بھاگنا جرم ہے۔ جو بھی حکومت کو ٹیکس ادا نہیں کرتا، جو محصول ادا کرنا چاہئے نہیں دے رہا ہے، کیونکہ جو آمدنی اسے ہوئی ہے اور اس نے جو پیسہ کمایا ہے، اس فضا اور ماحول کی برکت سے ہے جو حکومت نے قائم کر رکھا ہے، حکومت کی محنتوں اور کاموں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، تو اسے ٹیکس ادا کرنا چاہئے، اب اگر وہ ٹیکس نہیں دیتا تو در حقیقت وہ ملک کو تیل کی آمدنی پر انحصار کی جانب دھکیل رہا ہے۔ جب ملک تیل کی آمدنی پر منحصر ہو گیا تو یہی مشکلات پیش آتی ہیں۔ کبھی پابندیاں لگا دی جاتی ہیں، کبھی تیل کی قیمت گرا دی جاتی ہے، کبھی آنکھ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، ملک اس حالت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ تو ٹیکس کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ البتہ میں نے سنا ہے کہ ٹیکس کے شعبے کے حکام منصوبہ بندی کر رہے ہیں، بڑے اچھے اقدامات انجام دے رہے ہیں۔ یہ کام جلدی ہو جانا چاہئے، اس پرعملدرآمد شروع ہو جانا چاہئے۔ اس طرح ملک کا بجٹ اور حکومت چلانے کا خرچ عوام کی اپنی داخلی آمدنی سے نکل آئے گا۔ یعنی اسی ٹیکس کی رقم سے، ٹیکس کا تعلق پیداواری سرگرمیوں اور تجارت سے ہے۔
ایک اور اہم نکتہ ہے پروڈکٹیوٹی میں اضافے کا جو آج کل کی رائج اصطلاح ہے۔ میں فارسی زبان میں دو جملوں میں اس کی تشریح یوں کرتا ہوں کہ ہمارے سرمایہ کار اور اقتصادی مراکز اضافی اخراجات کا سد باب کرکے پیداوار پر آنے والے خرچ کو کم کریں اور اس کے معیار کو بہتر بنائیں۔ اسے کہتے ہیں پروڈکٹیوٹی میں اضافہ۔ البتہ پیداوار پر آنے والے اخراجات کا ایک حصہ ایسا ہوتا ہے جو سرمایہ کاروں کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر افراط زر کی شرح بڑھ گئی ہو اور مزدوری بڑھ گئی ہو، خام مال مہنگا ہو گیا ہو، کسی حد تک یہ چیزیں بھی موثر ہیں لیکن کسی حد تک چیزوں کا ضیاع بھی ہے، اسراف بھی ہے، بیجا اخراجات بھی ہیں، اس کا سد باب کرنا چاہئے۔
ایک اور اہم مسئلہ ہے داخلی توانائيوں اور صلاحیتوں کا بھرپور استعمال۔ ہمارا ملک بڑے حساس علاقے میں واقع ہے۔ ہمارے بہت سے ہمسایہ ممالک ہیں، ایک طرف سمندر ہے، دوسری طرف بھی سمندر ہے۔ ساری دنیا تک رسائی کا راستہ ہے۔ اگر آپ نقشے کا مطالعہ کریں تو دیکھیں گے کہ ہمارا ملک حساس زمینی اور فضائی چوراہے پر واقع ہے۔ بین الاقوامی پانیوں تک رسائی رکھتا ہے، یہ چیزیں بہت اہم مواقع میں شمار ہوتی ہیں۔ ان وسائل اور مواقع کے ساتھ ہی ضروری ہے کہ منصوبہ بندی کی جائے، ان مواقع کا بہترین استعمال کرنے کے طریقوں کے بارے میں سوچا جائے۔
ایک اور اہم نکتہ جس کا زیادہ تر تعلق عوام سے ہے، داخلی مصنوعات اور اشیاء کے استعمال کا ہے۔ میں نے آغاز سال کی اپنی تقاریر اور دوسری تقریروں میں بارہا اس پر زور دیا ہے اور ایک بار پھر اعادہ کرتا ہوں کہ عوام داخلی اشیاء کا استعمال کریں۔ ٹریڈ مارک کے پیچھے نہ بھاگیں۔ آج کل فیشن ہے برانڈ کا کہ فلاں برانڈ ہے، برانڈ کیسا، آپ ملک کے اندر تیار ہونے والی اشیاء کو استعمال کیجئے۔ جن امپورٹڈ چیزوں کا ایرانی متبادل موجود ہے، عوام کو چاہئے کہ خاص قوم پرستانہ جذبے کے ساتھ ایرانی متبادل کا استعمال کریں، امپورٹڈ چیز کو ترک کر دیں۔ یہ بات میں کسی خاص صنف اور طبقے کے لئے نہیں کہہ رہا ہوں۔ جب ہم کوئی بات کہتے ہیں تو کچھ مذہبی افراد فورا اس پر عمل کرتے ہیں، ایک دوسرے کو پیغام دیتے ہیں کہ فلاں چیز خریدیں اور فلاں چیز نہ خریدیں۔ میں یہ بات صرف دیندار افراد اور ان لوگوں سے نہیں کہہ رہا ہوں جو ہماری بات کو شرعی حجت سمجھتے ہیں۔ میں یہ بات ہر اس شخص کے لئے عرض کر رہا ہوں جو ایران سے لگاؤ رکھتا ہے، جسے ملک کے مستقبل کی فکر ہے، جسے اپنے بچوں کی فکر ہے جو کل کو اسی ملک میں زندگی بسر کریں گے۔ جب آپ غیر ملکی مصنوعات کا استعمال کرتے ہیں تو در حقیقت غیر ملکی سرمایہ کار، غیر ملکی اقتصادی مرکز اور غیر ملکی مزدور کی طاقت اور وسعت میں مسلسل اضافہ کرتے ہیں اور داخلی پیداوار کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ بات میں تمام افراد سے خاص طور پر ان لوگوں سے کہہ رہا ہوں جو بڑے پیمانے پر چیزوں کا استعمال کرتے ہیں۔ حکومت کے افراد بھی اسی طرح سے خیال رکھیں، حکومتی اداروں کی عمارتوں میں استعمال کی چیزوں میں ہمیشہ داخلی مصنوعات کو ترجیح دیں۔
فضول خرچی سے اجتناب بھی ایک اہم باب ہے۔ اسراف سے پرہیز، مال کی تضییع، عمومی املاک کی تضییع، پانی کی تضییع، روٹی کی تضییع، مٹی کی تضییع۔ مٹی بھی ایک دولت ہے، پانی بھی سرمایہ ہے، روٹی بڑی قیمتی چیز ہے۔ سب خیال رکھیں، سب متوجہ رہیں، ذمہ داری کا احساس کریں، ان چیزوں کو ضائع نہ کریں۔
نالج بیسڈ کمپنیاں، جن کے سلسلے میں میں تاکید کرتا رہتا ہوں۔ آج ہمارے پاس بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ نوجوان ہیں، ہائي اسکول کے بچوں نے ایک دو ہفتہ قبل اسی حسینیہ میں ایک نمائش کا اہتمام کیا (5)۔ یہاں انہوں نے لاکر واقعی عجیب و غریب اور حیرت انگیز چیزیں ہمیں دکھائیں، اکثر نوجوان، ہائی اسکول کے طلبہ تھے! یہ ہے ہمارا سرمایہ، یہ ہے ہماری ثروت۔ نالج بیسڈ کمپنیاں قائم ہوں۔ نالج بیسڈ کمپنیاں صرف صنعتی میدان تک محدود نہیں ہیں۔ صنعت کے شعبے میں، زراعت کے شعبے میں، سروسز کے شعبے میں، ضرورتوں کی نشاندہی کے لئے جمع ہوں، غور کریں، گوناگوں اقتصادی مراکز کو کن چیزوں کی ضرورت ہے، کہاں پر کمیاں ہیں، ان کا تعین کریں۔ ان میدانوں میں بھی نالج بیسڈ کمپنیاں کام کر سکتی ہیں۔ اشیاء کی اسمگلنگ اور کالا بازاری کا سد باب ملکی معیشت کے تعلق سے بہت اہم اور ضروری ہے۔ بینکنگ کے شعبے میں نادہندگی کا سختی سے مقابلہ، کچھ لوگ ہیں جو بینکوں کے ذریعے فراہم کی جانے والی سہولتوں کا ناحق اور غلط طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ لون کسی کام کے لئے لیتے ہیں اور اسے خرچ کسی اور کام پر کرتے ہیں جو ملکی مفاد میں نہیں ہے، پھر بینکوں سے لیا گيا قرضہ لوٹاتے بھی نہیں۔ یہ لوگ واقعی مجرم ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ جو بھی بینک کا مقروض ہے مجرم ہے۔ نہیں، ممکن ہے کوئی شخص بینک کا مقروض ہو، لیکن وہ ایسی پوزیشن میں ہے کہ اس کی مزید مدد کی جانی چاہئے۔ ایسے افراد ہیں جو مقروض ہیں لیکن ان کی مدد کرنا ضروری ہے۔ لیکن بعض افراد ایسے ہیں جن کا مواخذہ کرنا چاہئے، ان سے جواب طلب کیا جانا چاہئے۔ یہ اقدامات ملک کے اندر انجام دئے جانے چاہئے۔
یہ سارے کام کون کرے؟ ان برسوں کے دوران ہم نے بار بار متنبہ کیا۔ حکام نے بھی بڑی محنت کی۔ لیکن نہ تو انتباہات کافی ہیں جو میں نے دئے اور نہ وہ محنت کافی ہے جو حکام نے کی۔ یہ کافی نہیں ہے۔ موثر اور ٹھوس کارروائی کی جانی چاہئے۔ عوام کو چاہئے کہ حکومت کی مدد کریں، حکام سے تعاون کریں، عدلیہ سے تعاون کریں تاکہ ان کاموں کو انجام دیا جا سکے۔ ہم کر سکتے ہیں، ہمارے دشمن پابندیوں کے سلسلے میں جو گدڑ بھبکیاں دیتے رہتے ہیں اور بیان بازی کرتے ہیں ہم اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ہم ان کے عزائم کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ اگر ہم نے یہ سارے کام نہ کئے تو نتیجہ وہی ہوگا جو آج آپ ملاحظہ کر رہے ہیں۔ دشمن اپنی جگہ پر بیٹھ کر ہمارے ایٹمی پروگرام کے لئے شرطیں معین کرے گا اور پھر کہے گا کہ اگر شرطوں کو قبول نہ کیا تو یہ پابندیاں لگا دیں گے، وہ پابندیاں لگا دیں گے۔ یہی ہوتا ہے۔
دشمن پابندیوں کا خوب جی بھر کے استعمال کر رہا ہے۔ اس کا ہدف یہ ہے کہ ملت ایران کی تذلیل کی جائے، ان کا مقصد یہ ہے کہ وہ عظیم تحریک جو ملت ایران کے ذریعے آگے بڑھ سکتی ہے، رک جائے۔ اسلامی انقلاب کی تحریک، اسلامی نظام کی تحریک، جدید اسلامی تمدن کی تحریک، وہ سب کو روک دینا چاہتے ہیں۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ تحریک صیہونی سرمایہ داروں اور دنیا کی ظالم و خوں آشام کمپنیوں کے مالکان کے مفادات کے عین مخالف سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ تحریک ساری دنیا میں پھیلتی جا رہی ہے، قومیں اس کی جانب راغب ہو رہی ہیں، لہذا وہ اس سلسلے کو دبا دینا چاہتے ہیں۔ یہ ساری پابندیاں، یہ دھمکیاں، یہ شرطیں سب اسی مقصد کی تکمیل کے لئے ہیں۔
میرا تو نظریہ یہ ہے کہ اگر ایٹمی مسئلے میں ہم بالکل اسی طرح عمل کریں جیسی ان کی ہدایات ہوں تب بھی ان کی تباہ کن کارروائياں اور پابندیاں رکنے والی نہیں ہیں۔ وہ اس کے بعد بھی گوناگوں مشکلات کھڑی کرتے رہیں گے۔ کیونکہ وہ خود انقلاب کے دشمن ہیں۔ البتہ میرا یہ خیال ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی صلاحیتیں بہت بالاتر ہیں۔ ابھی دو دن پہلے، رضاکار طلبہ نے مجھے پیغام بھجوایا اور شکوہ کیا کہ آپ اسلامی انقلاب کے اہداف کی تکمیل میں ہم طلبہ کا استعمال نہیں کرتے، یہ بہت اہم بات ہے۔ زیر تعلیم طالب علم کو توقع ہے اور وہ مجھے پیغام بھجواتا ہے کہ کیوں علاقے میں انقلاب سے وابستہ امور خواہ وہ عسکری امور ہوں، سیکورٹی کے معاملات ہوں یا دیگر مسائل ہوں، ہمیں کیوں نہیں استعمال کرتے۔ یہ ہے ہمارے نوجوانوں کا جذبہ۔ ملت ایران کے جوش و جذبے کو آپ نے گیارہ فروری کے دن دیکھا۔ البتہ ایک طرف وہ غنڈہ صفت امریکی حکومت ہے جو علاقے میں تمام تر شکستوں کے باوجود سامراجی لہجہ ترک کرنے پر تیار نہیں ہے اور دوسری طرف اس کے اشاروں پر چلنے والی کچھ یورپی حکومتیں ہیں جو پابندیاں لگاتی ہیں۔
تو پھر ملت ایران بھی پابندی لگا سکتی ہے۔ میں یہ واضح کر دوں کہ اگر معاملہ پابندیاں لگانے کا ہے تو مستقبل میں پابندیاں ملت ایران کی جانب سے مغرب پر لگائی جائیں گی۔ دنیا کے استعمال کی گیس کا بڑا حصہ ہمارے پاس ہے، وہ گیس جو انتہائی اہم اور موثر انرجی ہے اور دنیا کو اس کی شدید احتیاج ہے، خود ان بیچارے یورپی ملکوں کو بھی اس کی ضرورت ہے۔ یہ گیس ہمارے پاس ہے۔ ایران میں اب تک گیس کی تلاش میں جو ذخائر ملے ہیں ان کی بنیاد پر دنیا کی گیس کا بیشتر حصہ ایران کے پاس ہے۔ گیس اور تیل کو ایک ساتھ ملاکر دیکھا جائے تو دونوں کے مجموعی ذخائر کے اعتبار سے اسلامی جمہوریہ ایران دنیا کا پہلے نمبر کا ملک ہے۔ ہم مناسب وقت پر ان پر پابندیاں لگا دیں گے۔ اسلامی جمہوریہ یہ کام کر سکتی ہے۔
ملت ایران اور اسلامی جمہوریہ نے ثابت کر دیا ہے کہ محکم قوت ارادی کی مالک ہے۔ جس میدان میں بھی اور جس معاملے میں بھی اسلامی جمہوریہ ایران نے سنجیدگی کے ساتھ قدم رکھا ہے، ثابت کر دیا ہے کہ وہ مضبوط قوت ارادی کا مالک ہے، اس کا عزم پختہ ہے، کام انجام دینے پر قادر ہے۔ خود داعش کے مسئلے میں، انہوں نے ایک اتحاد تشکیل دیا۔ البتہ یہ ان کی دروغ گوئی ہے، یہ فریب ہے۔ ہماری وزارت خارجہ کو مراسلہ بھیجا کہ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ امریکا داعش کی حمایت کر رہا ہے تو یہ جھوٹ ہے، ہم حمایت نہیں کر رہے ہیں۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد داعش کو امریکا کی اسلجہ جاتی امداد کی تصاویر جو انقلابی مجاہدین کے پاس تھیں منظرعام پر آ گئيں! صرف لفاظی کرتے ہیں، بیان بازی کرتے ہیں، دعوے کرتے ہیں۔ لیکن سب غلط بیانی ہے۔ وہ بھی ایسی غلط بیانی جس کی حقیقت فورا کھل جاتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران ایسا نہیں ہے۔ جب ہم میدان میں قدم رکھتے ہیں تو جیسا کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ چمک اور گرج نہیں ہوتی، اگر ہوتی ہے تو اسی وقت جب واقعی بارش ہوتی ہے (6)۔ ملت ایران مستقبل میں جو ان شاء اللہ بہت زیادہ دور نہیں ہے اور آپ عزیز نوجوان وہ دن ضرور اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے، ہر اعتبار سے افتخارات اور عزت و وقار کی بلندیوں پر نظر آئے گی۔
اللہ تعالی آپ سب کو توفیقات سے نوازے، آپ سب کو اپنے لطف و کرم کے سائے میں رکھے۔ «مندن ده سلام یتیرین عزیزلریم تبریزلی لرو آذربایجانی لار»؛(7) ہمیشہ سلامت اور کامیاب رہئے۔

 
 
1) حسینیہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ
2) ترکی زبان میں پیش کئے جانے والے ترانے کا شعر؛ آمادہ نوجوان، حریت پسند نوجوان
3) ترکی زبان میں پیش کئے جانے والے ترانے کا ایک مصرعہ؛ شیطان ہم پر غالب نہیں آ سکتا
4) اقتصادی شعبے میں سرگرم افراد سے ملاقات میں کی جانے والی تقریر مورخہ (۱۳۹۰/۵/۲۶ ہجری شمسی مطابق 17 اگست 2011)
5) حسینیہ امام خمینی میں نینو ٹکنالوجی کی مصنوعات اور ایجادات کی نمائش کے معائنے کے وقت کی تقریر مورخہ (۱۳۹۳/۱۱/۱۱ ہجری شمسی مطابق 31 جنوری 2015)
6) نهج‌البلاغه، خطبه‌ ۹؛ «وَ لَسنا نُرعِدُ حَتّی نوقِعَ وَ لانُسیلُ حَتّی نُمطِر»
7) قائد انقلاب اسلامی نے ترک زبان حاضرین سے یہ الوداعیہ جملہ ترکی زبان میں کہا جس کا ترجمہ ہے میری جانب سے بھی میرے عزیزوں کو، اہل تبریز اور اہل آذربائیجان کو سلام کہئے