ان کوششوں کے لئے ڈاکٹر مفتح شہید کا نام خاص طور پر لیا جاتا ہے۔ یونیورسٹی اور دینی علوم کے مرکز کے اتحاد کے قومی دن کی مناسبت سے قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں اہم ترین امور پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یونیورسٹی کا ماحول دینی ہونا چاہئے۔ یونیورسٹیوں میں متدین افراد یہ احساس کریں کہ وہاں کا عام ماحول ان کے لئے سازگار ہے۔ البتہ تدین، دین، معنویت اور اخلاق وغیرہ یہی انقلابی جذبات ہیں۔ آج کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں متدین ہوں لیکن انقلاب کے خلاف ہو، جس کی بنیاد دین ہے۔ البتہ مزاج کے فرق کی بات میں نہیں کر رہا ہوں۔ مختلف مزاج اور پسند کے لوگ اگر اہل دین و معنویت ہوں تو یہ ماحول ان کے لئے سازگار ہونا چاہئے۔ کوئی دوسرے پر یہ دباؤ نہ ڈالے کہ تمہیں اسی طرح فکر کرنی چاہئے جس طرح میں سوچتا ہوں۔ اس لئے یونیورسٹی طلبا کی تنظیمیں رہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنا کام کرے۔ سب کام کریں اور اچھی طرح کام کریں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سے پہلے تو میں ان برگزیدہ انسانوں کی ارواح طیبہ کے لئے جنہوں نے، دینی تعلیم کے مراکز اور یونیورسٹیوں کی ہم آہنگی اور قربت کا موضوع اٹھایا اور ان میں سے بعض نے اس راہ میں جام شہادت بھی پیا جیسے، شہید مفتح اور شہید مطہری، اور ان جیسی دیگر عظیم شخصیات کی ارواح کے لئے خدا سے بلندی درجات کی دعا کرتا ہوں۔
یونیورسٹی کا موضوع بذات خود ایک اہم موضوع ہے۔ اسی طرح 'حوزہ علمیہ' یعنی دینی تعلیم کے مرکز کا موضوع بھی ایک بنیادی اور اہم موضوع ہے۔ جب ہم یونیورسٹی اور دینی درس گاہ کی وحدت کی بات کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ مقصود یہ نہیں ہے کہ ان دونوں کو ایک دوسرے میں ضم کر دیں اور ایک بنا دیں۔ اگرچہ ماضی میں حوزہ علمیہ ( دینی تعلیم کے مراکز ) میں وہ تمام علوم پڑھائے جاتے تھے جو آج یونیورسٹیوں میں پڑھائے جاتے ہیں۔ لیکن اگر فرض کریں کہ وہ علوم جو حوزہ علمیہ میں پڑھائے جاتے تھے ، اگر اسی طرح وسعت اور پیشرفت کی منزلیں طے کرتے جس طرح آج طے کر رہے ہیں، تب بھی آج اسپیشلائزیشن اور شعبوں کی تقسیم کی ضرورت کے پیش نظر، لازمی ہوتا کہ ہر شعبہ اپنا کام کرے۔ بنابریں مقصود یہ نہیں ہے۔ ایسا نہ ہو کہ بعض حضرات اتنی واضح بات کو نظر انداز کر دیں اور یونیورسٹی اور حوزہ علمیہ کی وحدت کے غلط ہونے کے بارے میں قلم فرسائی کریں۔
اس کو سبھی سمجھتے تھے۔ نہ امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) نے اور نہ ہی دوسرے بزرگوں نے، ان میں سے کسی نے بھی یہ کہنا نہیں چاہا ہے کہ یونیورسٹیاں ختم کر دی جائیں اور سب قم جائیں یا قم کا ایک شعبہ بن جائیں۔ یا یہ کہ قم کا دار العلوم یونیورسٹیوں میں ضم ہو جائے یا ان کا ایک شعبہ ہو جائے۔ کسی نے بھی نہ یہ کہا اور نہ چاہا۔ معاملہ یہ ہے کہ ہمارے پاس حصول علم کے دو بنیادی ادارے ہیں۔ ایک دین کے فہم و ادراک اور تبلیغ، دینی مباحث میں نظریہ پردازی، موجودہ اور لگاتار پیدا ہونے والے نئے نئے مسائل کو سمجھنے اور نئی جہت دینے کا مرکز ہے، یہ 'حوزہ علمیہ' ہے جس کا کام دینی مسائل میں تحقیق اور زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق الہی احکام کا تعین کرنا ہے۔ صرف وہی نہیں جن کا تعلق محراب یا گھر سے ہے، بلکہ انسانی زندگی کے وسیع قلمرو میں جو کچھ ہے سب سے متعلق۔ اس جماعت کو چاہئے کہ اس کو حاصل کرے، نئے احکام کے بارے میں تحقیق کرے، غیر خالص کو الگ کرے، اور اس کو مناسب زبان میں، ہر معاشرے میں، ہر زمانے میں، تمام مخاطبین تک، موثرترین شکل میں پہنچائے۔ یہ فریضہ اس مرکز کا ہے جس کا نام 'حوزہ علمیہ' ہے۔
حصول علم کا دوسرا مرکز، دینی مسائل کو چھوڑ کر تمام امور زندگی پر محیط ہے۔ لوگوں کی معیشت، روزگار، تعمیرات، راستوں اور جسم سے متعلق اور دیگر گوناگوں علوم، لوگوں کی زندگی کے امور کے بارے میں تحقیقات، انواع و اقسام کے دیگر علوم، لوگوں کی زندگی بہتر بنانے کے علوم، اس مرکز میں پڑھائے جاتے ہیں۔ اس مرکز میں لوگ آتے ہیں تاکہ ان علوم میں مہارت حاصل کریں، ان میں صاحب الرائے ہوں، تحقیق کریں، معاشرے میں عمل درآمد کے لئے انہیں آمادہ کریں۔ دنیا کی نئی تحقیقات جمع کریں، خود بھی اپنی تحقیقات اور ایجادات سے ان میں اضافہ کریں اور بشریت کے سامنے پیش کریں۔ حصول علم کا یہ دوسرا مرکز ہے۔
اب اگر حصول علم کے یہ دونوں مراکز اچھی طرح کام کریں۔ ان کے درمیان دوستانہ رابطہ ہو اور علم و دانش کے میدان میں باہمی تعاون کریں تو معاشرے کی دنیا اور دین دونوں سنور جائیں گے۔ یہ طرز زندگی کی اصلاح کریں گے۔ زندگی میں سہولتیں پیدا کریں گے۔ یہ معاشرے کی فکر، ذہن اور روح کو اس طرح برائیوں اور غلط باتوں سے پاک کریں گے کہ اس کو معلوم ہو جائے کہ اس کو کس سمت میں جانا ہے اور اس کے وسائل اس کو فراہم کریں گے۔
ایک وسیلہ ضروری ہے جس سے استفادہ کرکے ہم آگے بڑھیں۔ ایک بینش ضروری ہے تاکہ ہمیں معلوم ہو سکے کہ کس طرف جائیں۔ کہاں سے کہاں اور کس طرف؟ کس راہ سے کس منزل کی طرف؟ یہ دونوں چیزیں انسان کی زندگی کے لئے ضروری ہیں۔ وہ دنیا ہے یہ آخرت ہے۔ دونوں اگر مل جائیں تو سعد الدنیا والاخرہ، حصل الدنیا والاخرہ ہو جائے۔ جس کو دنیا بھی مل جائے اور آخرت بھی، وہ خوش نصیب انسان ہے، وہ سعادت مند انسان ہے۔ یہ وہی چیز ہے جو انبیاء چاہتے تھے۔ بنابریں آپ دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دین لائے اور جہت اور سمت بتائی۔ دینی امور پر تاکید فرمائی لیکن اسی کے ساتھ لوگوں کو مسلسل مادی وسائل بھی دیئے۔ آپ نے خود لوگوں کو زندگی اور امور زندگی چلانے سے متعلق تعلیمات دیں۔ جہاں مسئلہ پیچیدہ ہوتا تھا اور مہارت کی ضرورت ہوتی تھی تو فرماتے تھے جاؤ علم حاصل کرو، جاؤ تحقیق کرو، چیزوں کا غور سے مشاہدہ کرو۔
قران اور سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں، انکشاف، ایجاد، دیکھنے اور تلاش کرنے کی راہیں بتائی گئی ہیں۔ بنابریں آپ دیکھتے ہیں کہ ابتدائی دور کے اسلامی معاشروں میں دونوں شعبوں میں عروج نظر آتا ہے۔ دنیاوی شعبے میں بھی اسلام کی برکت سے یہ انسانی علوم کی چوٹی پر تھے۔ یہ وہ چیز ہے جس کو مغرب والے سلب نہیں کر سکتے۔ مسلم اقوام کی تاریخ سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر یہ دونوں یعنی دین و دنیا مل جائیں تو وہ ہوگا جو میں نے عرض کیا اور اگر انسان سے یہ دونوں سلب کرلئے جائیں تو مشکل درپش ہوگی۔
آج مغربی ثقافت کے بنائے ہوئے نظام میں، مغرب کی جغرافیائی حدود کے اندر بھی اور دوسری جگہوں پر بھی، زندگی کے وسائل کے شعبے میں اتنی ترقی کرلی گئی ہے کہ انسان ديگر آسمانی سیاروں تک بھی پہنچ گیا ہے۔ علمی لحاظ سے یہ واقعی غیر معمولی ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ فرض کریں، آسمانوں میں چلے جائیں اور ٹیلی اسکوپ وہاں نصب کریں، یہ انسان کے لئے عظیم پیشرفت ہے۔ لیکن اگر زندگی کی جہت کے تعین کے لئے جو بینش ضروری ہے وہ نہ ہو تو یہ وسائل نہ صرف یہ کہ انسان کے لئے ضروری نہیں ہیں بلکہ مضر بھی ہیں۔ اس لحاظ سے آج کا انسان پسماندہ ہے۔ اس کے ہاتھ خالی ہیں۔ دنیا میں معنویت نہیں ہے۔ سمت اور جہت صحیح نہیں ہے۔ اسی لئے دنیا ظلم و جور سے بھری ہوئی ہے۔ افسوس کہ بعض لوگ اتنی واضح باتیں نہیں سمجھتے۔ کیا یہ دنیا انسان کے لئے نہیں ہے؟ کیا یہ علوم اس لئے نہیں ہیں کہ انسان ان سے استفادہ کرے؟ جب ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی حالت یہ ہے کہ اکثر انسانوں کی حالت روز بروز بدتر ہو رہی ہے اور کچھ لوگ علمی پیشرفت کی مدد سے انسانوں پر اس طرح ظلم کرتے ہیں! تو کیا یہ سمجھنے کے لئے کافی نہیں ہے کہ انسانیت کا ایک بازو ٹوٹ کر گر گیا ہے ؟
یہ معنویت و روحانیت کا بازو ہے۔ اگر ہم بھی اپنے معاشرے میں معنوی پہلو کو نظرانداز کر دیں، اس کو ختم کر دیں، یا کوشش کریں کہ معاشرے سے باہر کر دیں تو یہی ہوگا۔ جب مغربی ثقافت کی علامتیں، قصوں، کہانیوں اور مصوری کی صورت میں، اس فطری شکل میں نہیں جو انسان کی عمومی زندگی کا لازمہ ہے، ہمارے ملک میں آنا شروع ہوئیں تو ناصرالدین شاہ کے دور سلطنت کے آخری برسوں سے دین کو زندگی سے الگ کرنے کے لئے، دین مخالف مہم بھی شروع ہو گئی۔ البتہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سلسلہ رضا خان کے زمانے سے شروع ہوا اور قاجاری سلاطین سے تعلق نہیں رکھتا ہے، مگر یہ ایک حقیقت ہے۔ علمائے دین کو گوشہ نشین کرنے، دین کو زندگی سے الگ کرنے، خباثت آمیز مقاصد کی تکمیل کے لئے افواج سے کام لینے کا آغاز ہو جائے تو معاشرہ ایسا ہو جائے گا کہ زندگی کے وسائل کے لحاظ سے جس کو ہم دنیا کہتے ہیں، یعنی وہی چیز جس کو سائنس اور یونیورسٹی کے علوم کا نام دیا جاتا ہے، پیشرفت ہوگی لیکن اس معاشرے کی ایک جہت اور پہلو یعنی معنوی پہلو ناقص ہوگا۔
اب ایک وقت کوئی معاشرہ سائنس میں، زندگی کے وسائل سے مربوط علوم میں، ترقی کرتا ہے، جیسے مغربی معاشرے ہیں۔ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ پیشرفت بھی نہیں ہوتی جیسے مغرب کے تابع بہت سے معاشرے ہیں کہ جنہوں نے دین و روحانیت ختم کر دی اور مادیت بھی حاصل نہ کر سکے۔ جیسے پہلوی دور میں ہماری زندگی تھی۔ معنویت کو مسترد کر دیا اور حقیقی سائنسی ترقی کی شکل میں مادی ترقی بھی ملک میں نہ لا سکے۔ یعنی خسر الدنیا والاخرۃ کے مصداق ہو گئے۔
ادھر کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ یعنی معاشرہ اگر صرف معنوی پہلو رکھے اور سائنس اور دیگر علوم سے غافل ہو جائے، سائنسی ایجادات و اختراعات، اپنے بچوں کو زیور علم سے آراستہ کرنے اور ایسا انسان بنانے سے غفلت برتے کہ جو انسان کی ضرورتوں کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال سکیں اور وہ آسانیاں اور سرعت حاصل کر سکیں جس کی آج کی دنیا متقاضی ہے تو دوسرا بازو ٹوٹ جائے گا۔ یہ نہ سمجھیں کہ اسلام اس بات کو طرفدار ہے کہ تمام چیزیں صرف معنوی اور روحانی مسائل تک محدود ہوکر رہ جائیں اور مادیات پر کوئی توجہ نہ دی جائے۔ نہیں، یہ انحراف بھی اتنا ہی بڑا ہے جتنا بڑا پہلا انحراف تھا۔ اسلام نے گوشہ نشینی کی زندگی کو واضح طور پر مسترد کیا ہے۔
نہج البلاغہ میں امیرالمومنین علیہ الصلوات و السلام کے کلام میں اس کو آپ دیکھ سکتے ہیں۔ نہج البلاغہ کتاب زہد ہے لیکن جس نے آخرت صحیح کرنے کی فکر میں دنیا چھوڑ دی ہے اس کی سخت الفاظ میں مخالفت کرتی ہے۔ اسلام یہ ہے۔
بنابریں ان دونوں کو حاصل کرنا چاہئے۔ ایک ساتھ ہونا چاہئے۔ حصول علم کے یہ دونوں ادارے کام کریں مگر مل کے اچھی طرح کام کریں۔ ایک دوسرے سے محبت و مہربانی کا رابطہ رکھیں، ایک دوسرے کو مسترد نہ کریں۔ سامراجی جو اس ملک پر سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی تسلط جمانا چاہتے تھے، انہوں نے دین کو یونیورسٹی کے ماحول سے نکال دیا۔ اس تسلط کا راستہ یہ تھا کہ دین کو ختم کر دیں۔ اہل دین اور علمائے دین کو ختم کر دیں۔ اگر بالکل ختم نہ کریں تو کم سے کم بے جان کر دیں۔ یہ وہ کام تھا جو اسی وقت سے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا یعنی تقریبا ڈیڑھ سو سال قبل ناصرالدین شاہ کی حکومت کے اواخر سے شروع ہوا۔ وہ چاہتے تھے کہ علماء بھی رہیں، شاید کبھی ان کی ضرورت پڑ جائے، مگر عالم دین کے مفہوم اور روح سے عاری ہوں۔
رضا خان نے آکے غنڈہ گردی اور بے عقلی کی۔ اس ظاہرداری کو بھی معاشرے بالخصوص علمی فضا سے ختم کرنے کی کوشش کی۔ نیت یہ تھی۔ بنا بریں ہماری یونیورسٹیوں میں دین بیگانہ ہو گیا۔ ہماری یونیورسٹیوں کو ایسا بنا دیا۔ دین بیگانہ کیوں؟ مقصد واضح ہے۔ منصوبہ بندی بڑی زیرکی سے کی گئی تھی۔ اس لئے کہ اگر یونیورسٹی میں دین نہ ہو تو اس ماحول میں بڑے ہونے والے، وہی جو آئندہ زندگی کے امور چلانے والے ہوں گے، اگر بے دین ہوں تو معاشرہ آسانی سے بے دین ہو جائے گا۔ یہ وہ ہدف تھا جس کے لئے کام کیا گیا اور واقعی ایک مدت کے لئے ایک طولانی عرصے کے لئے وہ یونیورسٹی کے ماحول کو دین سے عاری بنانے میں کامیاب بھی رہے۔
البتہ یونیورسٹیوں کو متدین لوگوں سے بالکل عاری نہیں کر سکتے تھے۔ یہ واضح ہے۔ آخرکار اس مملکت کے نوجوان، متدین خاندانوں کی اولادیں تھیں جو یونیورسٹی میں آتی تھیں۔ کچھ لوگ دین سے خارج ہو جاتے تھے یا بالکل دین کی جانب سے غافل ہو جاتے تھے۔ مگر کچھ لوگ متدین باقی رہتے تھے۔ بنابریں ایسا نہیں تھا کہ یونیورسٹیوں میں متدین لوگ باقی ہی نہ رہے ہوں۔ لیکن وہ متدین افراد یونیورسٹیوں میں الگ تھلگ تھے۔ وہ متدین طالبہ جو دین اور حجاب کی پابندی قائم رکھنا چاہتی تھی، اس زمانے کے مسلمان اور اسلامی ملک ایران کی یونیورسٹیوں میں اجنبی اور الگ تھلگ تھی۔ متدین طالب علم بھی احنبی تھا۔ متدین ٹیچر بھی اجنبی تھا۔ یونیورسٹیوں کا معمول کا ضابطہ اس کی کوئی مدد نہیں کرتا تھا۔ بلکہ اکثر معاملات میں اس کی راہ میں رکاوٹ بھی ڈالی جاتی تھی۔ جبکہ جو ٹیچر اور طالب علم بے دین تھا اس کی کوئی مخالفت نہیں ہوتی تھی۔ بلکہ اس کو سہولتیں فراہم کی جاتی تھیں۔
یہ غلط طریقہ تھا۔ یہ وہی چیز ہے کہ ہمارے امام نے ہمیشہ جس کا گلہ کیا ہے۔ اور حوزہ علمیہ اور یونیورسٹی کی وحدت کا نعرہ اسی روش کے مقابلے کے لئے دیا گیا۔ حوزہ علمیہ اور یونیورسٹی کی وحدت کا مطلب اس منزل پر سمجھ میں آتا ہے۔ وحدت کلی اہداف میں۔ اس قوم اور ملک کے تکامل کے لئے وحدت۔ ایک ساتھ چلنے اور باہمی اختلاف کے بغیر دو متوازی خطوط پر آگے بڑھنے کے لئے وحدت۔ یعنی دونوں اپنا اپنا کام کریں، مگر ایک ہدف کے لئے اور وہ ہدف ملک و قوم کی تعمیر و تکامل ہو۔ اس راستے پر چلیں۔
یونیورسٹیوں میں اب بھی دین مخالف جذبات کم نہیں ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ طلبا میں ہیں۔ طلبا اس قوم کے فرزند اور انقلاب کے بچے ہیں۔ آج یونیورسٹیوں میں جو طلباء و طالبات ہیں وہ انقلاب کے پروردہ ہیں۔ اگر ان کے اعتقادات میں کمی ہو تو یہ ہمارا قصور ہے۔ ان لوگوں کا قصور ہے جن کا فرض تھا کہ، انہیں دین کی تعلیم دیتے۔
یونیورسٹیوں کے ماحول میں عقیدے، عمل اور دینی رجحان کے لحاظ سے طلبا میں کوئی کمی نہیں ہے۔ مگر اب بھی بعض عہدیدار اور اساتذہ ایسے ہیں جنہیں دین، ایمان، دینی اور انقلابی جذبات قبول نہیں ہیں۔ ایسے لوگوں کو یونیورسٹیوں پر اثر انداز ہونے کا موقع نہیں دینا چاہئے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ کس طرح مگر ایسا ہونا چاہئے کہ یہ افراد اپنے غلط افکار و خیالات سے یونیورسٹیوں کے ماحول کو متاثر نہ کر سکیں۔ کیونکہ یہ بات قوم کی بد قسمتی پر منتج ہوگی۔ غیروں کے تسلط کا سبب بن سکتی ہے۔ قوم کی زندگی کا ایک پہلو ناقص رہ جانے کا سبب بنے گی۔
یونیورسٹی کا ماحول دینی ہونا چاہئے۔ یونیورسٹیوں میں متدین افراد یہ احساس کریں کہ وہاں کا عام ماحول ان کے لئے سازگارہے۔ البتہ تدین، دین، معنویت اور اخلاق وغیرہ یہی انقلابی جذباب ہیں۔ آج کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ میں متدین ہوں لیکن وہ انقلاب کے خلاف ہو، جس کی بنیاد دین ہے۔ البتہ مزاج کے فرق کی بات میں نہیں کر رہا ہوں۔ مختلف مزاج اور پسند کے لوگ اگر اہل دین و معنویت ہوں تو یہ ماحول ان کے لئے سازگار ہونا چاہئے۔ کوئی دوسرے پر یہ دباؤ نہ ڈالے کہ تمہیں اسی طرح فکر کرنی چاہئے جس طرح میں سوچتا ہوں۔ اس لئے یونیورسٹی طلبا کی تنظیمیں رہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنا کام کرے۔ سب کام کریں اور اچھی طرح کام کریں۔ بالخصوص یونیورسٹیوں میں علمائے کرام کی موجودگی، اگر ان شاء اللہ اسی شکل میں جس کی کوشش ہو رہی ہے، جو میری آرزو ہے اور مجھے پسند ہے، اس میں پیشرفت ہوتی ہے تو یونیورسٹیوں میں معنوی پہلو زیادہ فراہم ہوگا۔
یہی بات حوزہ علمیہ کے لئے بھی ہے۔ دینی تعلیم کے مراکز کے مسائل کے بارے میں میرے پاس کہنے کے لئے بہت کچھ ہے اور بہت کچھ میں نے کہا بھی ہے۔ مگر چونکہ یہاں یونیورسٹی طلبا زیادہ ہیں اس لئے یونیورسٹیوں کے بارے میں زیادہ باتیں کیں لیکن حوزہ علمیہ کے مسائل بھی اسی طرح ہیں۔ حوزہ علمیہ کو بھی جدید تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ دینی تعلیم کے تمام مراکز کی بلند ترین چوٹی کے عنوان سے حوزہ علمیہ قم کو اور اس کے بعد دینی تعلیم کے دیگر تمام مراکز کو ایسا کام کرنا چاہئے کہ عوام میں دین خدا کے لئے رغبت و شوق پیدا ہو۔ دین کو لوگوں کے درمیان اس طرح پیش کریں جس طرح خدا نے چاہا ہے۔ حوزہ علمیہ کو بھی تحقیق، ایجادات، نظریہ پردازی، روشنفکری، دنیا سے واقفیت اور دنیاوی ہوا و ہوس سے پاک رہنے کی ضرورت ہے۔ کم سے کم اس کے بڑے حصے کو اور ان حضرات کو جو ذمہ دار ہیں ضرور ایسا ہونا چاہئے۔ اسی لئے آپ دیکھتے ہیں کہ اسلام میں مرجع تقلید کے لئے کتنی سخت شرائط ہیں صائنا لنفسہ، حافظا لدینہ، مخالفا لھواہ، مطیعا لامر مولاہ
ہم نے دیکھا کہ ایک مرجع تقلید، آیت اللہ العظمی گلپائيگانی رحمت اللہ علیہ، جو میری شناخت اور تشخیص کے مطابق، حقا اور انصافا ان خصوصیات کے مالک تھے، جس وقت اس دنیا سے رخصت ہوئے تو لوگوں کے جذبات کیا تھے۔ جس سے ظاہر ہوا کہ ایرانی عوام کا ایمان اور جذبات کیا ہیں۔ اسی کے ساتھ دشمنوں کی کوششوں اور پروپیگنڈوں کے ناکام رہنے کی بھی عکاسی ہوئی۔
حوزہ علمیہ کو ایسا ہونا چاہئے کہ اپنی تربیت سے ایسی شخصیات زیادہ تعداد میں پیش کرے۔ سبھی زیادہ عمر کو نہیں پہنچتے۔ سبھی 'مرجعیت' تک نہیں پہنچتے۔ مگر اچھے انسان جس مرتبے پر بھی ہوں، ان کا وجود مفید اور موثر ہوتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ یہ دونوں مل کے کوشش کریں۔ ایک دوسرے سے انس و محبت رکھیں۔ ایک دوسرے کے علمی تجربات سے استفادہ کریں۔ یہ وہ نکات ہیں جو ملاقاتوں اور تقاریر میں مسلسل کہے جاتے ہیں۔
میں جو عرض کرنا چاہتا ہوں اور یہ بیان جس کے پیش نظر انجام پایا، یہ ہے کہ یہ دونوں ادارے، ایک ہدف پر توجہ رکھیں اور وہ عوام کی زندگی کا تکامل ہے۔ حوزہ علمیہ کمال کی جانب گامزن ہو، یونیورسٹی بھی کاملیت کے مدارج طے کرے، اور پھر دونوں اپنے حقیقی کمال کے ساتھ، ہم آہنگ ہوکر کام کریں تو قوم خود مختار ہوگی اور ایرانی معاشرہ ایک مثالی معاشرہ ہوگا۔ یعنی دین کے دشمنوں، دین کے طاقتور دشمنوں سے جن کے پاس آج دنیاوی طاقت ہے، آپ کی نفرت اور بیزاری مستحکم ہوگی۔ ایرانی قوم کا حرف انکار، یعنی وہ انکار جو اس قوم کی زبان سے جاری ہوتا ہے اور وہ انکار جو اس کی زبان سے جاری ہونے والے کلمات کے اثبات میں صادر ہوتا ہے، دونوں دنیا میں مثالی ہوں گے۔ آج دنیا کو اس نمونے اور اسوہ کی ضرورت ہے۔
دعا ہے کہ خداوند عالم آپ کے دلوں کو نور ایمان اور نور معرفت سے منورکرے۔ آپ کو الہی تائیدات اور حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کی خاص عنایات حاصل ہوں۔ ان شاء اللہ اس ہدف کو اس شکل میں جو مناسب ہے اور جیسا خدا چاہتا ہے، آگے بڑھانے میں کامیاب رہیں۔
و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ