اپنے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران اور دنیا کے حالات کا جائزہ لیا۔ آپ نے اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں رونما ہونے والے تغیرات کو انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا۔ آپ نے دشمن کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ میں آپ بسیجیوں (رضاکاروں) سے، اپنے بچوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیشہ تجزیہ و تفکر کریں، دشمن کو پہچانیں، اس کو سمجھیں کہ وہ آج کیا کر رہا ہے۔ ایران جیسے بڑے ملک میں حکام جو امور مملکت چلاتے ہیں، عوام پر انحصار کرتے ہیں، ان نوجوانوں پر بھروسہ کرتے ہیں جو اپنے اہداف کی راہ میں خطرات کو خاطر میں نہیں لاتے، اپنے اعلا ہدف سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں، انہیں نے آٹھ سالہ جنگ لڑی اور آج جو ہم عالمی استکبار کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں تو اس لئے کہ ان طبقات پر اعتماد کرتے ہیں۔ جب، ملک کی مرکزیت، ملک کے حکام، امور مملکت چلانے کے نظام، رہبر اور حکومت سے اس عظیم قوت کا رابطہ مستحکم ہو تو امورمملکت چلانے والوں میں ایسی طاقت اور جذبہ پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ عالمی دباؤ اور تسلط کے مقابلے میں دٹ جاتے ہیں اور استکتبار ان پر کچھ اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتا۔ جیسا کہ آج امریکا اور دیگر ظالم اور غاصب طاقتیں اپنے مطالبات حکومتوں پر مسلط کرتی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خدائے متعال کا شکر ہے کہ الحمد للہ ہمارے مومن اور انقلابی عوام کو اس نے بسیج (رضاکار فورس) کی عظیم نعمت عطا کی۔ رضاکار فورس انقلاب اور ہمارے عوام کے لئے بہت اہم ہے اور آج الحمد للہ اس مقدس ادارے اور شجرہ طیبہ کو چودہ برس ہو گئے۔ اس سلسلے میں کچھ حقائق عوام پر روشن کرنے کے لئے چند جملے عرض کروں گا۔
رضاکار فورس کی ایک تاریخ ہے جس کا تعلق ماضی سے ہے اور رضاکار فورس کا ایک مستقبل ہے اور اس سلسلے میں ہمارے اور پوری قوم کے کچھ فرائض ہیں جو ان شاء اللہ ہمیں انجام دینے ہیں۔ رضاکار فورس کی تاریخ کے تعلق سے میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے عظیم ملک کی حوادث سے بھری تاریخ میں رضاکار فورس کا وجود میں آنا ناقابل فراموش ہے۔ یعنی چند سالہ طولانی جنگ میں، آٹھ سالہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ رضاکار فورس ان آٹھ برسوں سے پہلے بھی میدان میں موجود تھی اور اس کے بعد آج تک موجود ہے، ایک عظیم عوامی قوت نے میدان میں قدم رکھا اور سیاسی و عسکری پالیسی سازوں کے سارے اندازے اس نے درہم برہم کر دئے۔ یہی عوامی قوت و فورس بسیج ہے۔ فوج اور و سپاہ پاسداران انقلاب سمیت تمام مسلح افواج نے بہت زحمتیں اٹھائیں اور بہت عظیم خدمت انجام دی۔ مگر میں پورے اعتماد کے ساتھ دعوا کر سکتا ہوں کہ اگر عوامی موجودگی نہ ہوتی، اگر بسیج نہ ہوتی کہ ان برسوں میں گھروں سے، تعلیمی اداروں سے، کارخانوں سے، دفاتر سے، شہروں اور دیہی علاقوں سے مختلف سن کے لوگ، عورتیں اور مرد، سبھی ان میدانوں میں آئے جہاں ان کی ضرورت تھی، اگر یہ نہ ہوتا تو ہم نہ ملک کا مناسب طریقے سے دفاع کر پاتے اور نہ ہی دوسرے میدانوں میں، جہاں آج تک ہمیں ہر لمحہ دشمن کا سامنا ہے، اپنی قومی طاقت اور اسلامی جمہوریہ ایران کی پائیداری کا ثبوت دے سکتے تھے۔
یہ رضاکار فورس ہی تھی جس نے ہمیں یہ طاقت دی۔ رضاکار فورس کی یہ چند سالہ تاریخ ؛ جوکچھ جنگ کے میدان میں رونما ہوا وہ ہو یا دوسرے میدانوں میں جیسے مختلف مظاہروں اور تمام میدانوں میں عوام کی مشارکت کا مرحلہ ہو، اس موجودہ لمحے تک جس میں ہم گفتگو کر رہے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ساری چیزیں ضبط تحریر میں نہیں آ سکی ہیں۔ یعنی بہت سی کتابیں لکھی جائیں، بہت زیادہ تصویریں بنائی جائیں، فلمیں تیار کی جائیں اور داستانیں لکھی جائیں تب عوام کی اس مشارکت کی عظمت کو ان لوگوں کے لئے بیان کیا جا سکتا ہے جنہوں نے اسے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے۔ ہم نے اور آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، لیکن جب کہیں سے رپورٹ آتی ہے جہاں ہم نہیں تھے، تو دیکھتے ہیں کہ بہت سے نکات ہماری آنکھوں سے پوشیدہ رہے ہیں۔ جب محاذ پر کوئی کاروائی کرنی ہوتی تھی تو آپ دیکھیں کہ کس طرح اسلحہ ہاتھ میں اٹھانے والے ہر طرف سے دوڑ پرتے تھے۔ اسلحہ اٹھانے والوں کو ٹریننگ دینے والے، جہاں بھی ہوتے تھے وہاں سے آ جاتے تھے۔ ان اسلحہ برداروں کو اگلے محاذوں تک پہنچانے والے، اپنی گاڑیوں کے ساتھ آ جاتے تھے اور یہ فریضہ پورا کرتے تھے۔ اس گروہ کو سپورٹ کرنے والے، ان کے لئے خوراک، لباس، اور دیگر وسائل فراہم کرنے والے، ملک میں ہر جگہ سرگرم ہو جاتے تھے۔ درزیوں کی دکانوں میں کام شروع ہو جاتا تھا اور امام بارگاہیں اور مساجد باورچی خانوں میں تبدیل ہو جاتی تھیں تاکہ محاذوں پر جانے والے مسلح افراد کو سپورٹ فراہم کریں۔ جو لوگ ان میں سے کوئی کام نہیں کر سکتے تھے، وہ آتے تھے اور ان لوگوں کے لئے دعا کرتے تھے جو بیچ صحرا میں دفاع کے لئے گئے تھے۔ ان کے لئے نعرے لگاتے تھے اور اس طرح ان کا حوصلہ بڑھاتے تھے۔ اگر ایمان، اور جوش وجذبہ نہ ہو تو کیا ایسی حالت پیدا کی جا سکتی ہے؟ یہ لوگوں کا ایمان تھا۔ یہ لوگوں کا جوش و جذبہ تھا۔ یہ لوگوں کی امید تھی۔
یہاں ایک نکتہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ایرانی قوم اور عوام ہمیشہ رہے ہیں، لیکن تاریخ کے دیگر ادوار میں یہ بات کیوں نہیں ہوئی کہ بڑے واقعات پر لوگ اس طرح دوڑ پڑتے اور وسیع پیمانے پر اپنے تعاون سے مشکلات کو حل کرتے؟ میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ کیوں نہیں، جب کوئی ہلاکت خیز واقعہ رونما ہوا ہے اور ہمارے عوام نے احساس کیا ہے کہ یہ دینی فریضہ ہے تو آ گئے ہیں اور دفاع کیا ہے۔ البتہ ضرورت اس بات کی رہی ہے کہ ہمارے علماء اور دینی رہنما، لوگوں کو بتاتے کہ یہ ان کا دینی فریضہ ہے۔ ماضی کی تاریخ میں متعدد واقعات ہیں، آئینی انقلاب کی تحریک میں، اس سے پہلے اور اس کے بعد بہت سے واقعات ہیں، جنگیں ہیں، جن میں عوام میدان میں آئے ہیں۔ لیکن اس طرح ملک کے ہر گوشے سے، اس پائیداری کے ساتھ، اس روشن فکری کے ساتھ اور وہ بھی کئی سال تک لوگ جس جوش و جذبے کے ساتھ میدان میں رہے، وہ اس انداز میں ماضی میں کیوں نظر نہیں آتا؟ ان ایک دو صدیوں میں، گذشتہ دو سو سال کے دوران پڑوسیوں کے ساتھ تمام جنگوں میں ایران کو شکست کیوں ہوئی؟ اسی آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ میں جو ایران کی تمام جنگوں سے زیادہ طولانی اور زیادہ سخت جنگ تھی، ایسا کیوں نہیں ہوا؟ اس کی مثال نہیں ملتی۔ فتح علی شاہ کے زمانے میں ایران اور روس کی جنگ میں ہمیں شکست ہوئی، جنگ ہرات میں شکست ہوئی، دوسری عالمی جنگ میں، جب اتحادی ہمارے ملک میں داخل ہوئے، شکست ہوئی۔ اس مدت میں تمام پڑوسیوں نے ملک میں جہاں بھی، جارحیت کی، ان کی جارحیت کے مقابلے میں ہمیں شکست ہوئی۔ لیکن اس آٹھ سالہ جنگ میں، جس میں دنیا کی تمام فوجی طاقتوں نے متحد ہوکر، ایک ملک کے ذریعے ہم پر حملہ کیا، ہم نے انہیں شکست دے دی۔ ہم نے شکست نہیں کھائی، بلکہ کامیاب ہوئے۔ کیوں؟ یہی بات دوسرے ملکوں میں بھی ہے۔ میں یہ بار بار اس لئے کہتا ہوں تاکہ فکر کریں اور اس سوال کا صحیح جواب تلاش کریں اور معقول فہم کے ساتھ، معقول ہدایت کے ساتھ، دقیق اندازوں کے ساتھ مستقبل کا راستہ معین کریں۔ جیسا کہ خدا کے فضل سے ایرانی قوم آج تک اسی طرح آگے بڑھی ہے۔
دوسرے ملکوں کو دیکھیں۔ دوسرے اسلامی ملکوں کے عوام بھی مسلمان ہیں۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس ملک کے عوام صحیح دین و ایمان نہیں رکھتے۔ اب اگر بعض ملکوں میں بعض عوامل کے زیر اثر عوام ایمان کی کمزوری سے دوچار ہوں یا بعض غیر دینی باتیں ان کے اندر پائی جاتی ہوں تو یہ دوسری بات ہے۔ مگر اکثر ملکوں میں عوام کا ایمان گہرا ہے اور اس کے شواہد دیکھے جا سکتے ہیں۔ انہی وسطی ایشیا کے ملکوں میں جہاں تقریبا اسی سال دین کے خلاف کام ہوا، اب بھی ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں میں دینی جذبہ موجود ہے۔ بہت سے ملکوں میں، لوگوں کی نماز، لوگوں کا روزہ، یعنی وہ چیزیں جن کو عوام نے سمجھ لیا ہے کہ دین ان سے یہ چاہتا ہے، اسے صحیح طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔ مگر یہ عوام، دشمنوں کی ثقافتی یلغار کے مقابلے میں، دشمنوں کی سیاسی یلغار کے مقابلے میں، دنیا کی سامراجی کمپنیوں کی اقتصادی یلغار کے مقابلے میں اور اگر کبھی دشمن کا فوجی حملہ ہو جائے تو اس فوجی حملے کے مقابلے میں وہ کچھ کیوں نہیں کر پاتے؟ مشرق وسطی کے بڑے اور زیادہ آبادی والے ممالک صیہونی حکومت کا جس کے وہ پڑوسی ہیں، اس سرطانی پھوڑے کا کوئی علاج کیوں نہیں کر پاتے؟
وجہ کیا ہے؟ وجہ وہی ہے جس کے سبب ایرانی قوم، اپنے دین اور ایمان کے باوجود، اسلامی انقلاب سے قبل تک، جو مسائل اس کو درپیش ہوئے ان میں اس کو شکست ہوئی۔ وجہ ہر جگہ ایک ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہماری قوم ان آٹھ برسوں کے دوران جن خصوصیات سے آراستہ تھی، اس سے پہلے نہیں تھی۔ آج بھی افسوس کہ بہت سے دوسرے مسلمان ملکوں میں عوام میں وہ خصوصیات نہیں پائی جاتیں۔ ہماری قوم میں انقلاب کے بعد جو خصوصیات پیدا ہوئیں وہ کیا ہیں؟ یہ ایک بنیادی نکتہ ہے۔ یہ ایرانی قوم کی بڑی کامیابیوں کا بنیادی سبب ہے۔ مومن عوام، ان نوجوانوں، ان مردوں، ان خواتین اور مختلف طبقات کے لوگوں کا اس الہی و ایمانی مرکزیت اور قیادت سے رابطہ ہے جو اپنے پورے وجود سے اسلامی اہداف کی راہ میں کوشاں تھی اور عوام کی اس راستے کی طرف ہدایت کرتی تھی جس پر انہیں چلنا تھا۔ رہبری، ہدایت و قیادت جو اس دینی پیشوا اور حکیم یعنی ہمارے امام میں مجسم تھی، اس نے مومن اور دیندار عوام کو راستہ دکھایا۔ آپ نے عوام کو بتایا کہ کس سے جدوجہد کریں۔ لوگوں کو دعوت دی کہ اپنے دلوں کو خدا سے مرتبط کریں اور خدا پر توکل کریں۔ لوگوں کو خبردار کرتے تھے کہ دشمن کے مقابلے میں کس طرح آمادہ و مسلح رہیں کہ وہ انہیں فریب نہ دے سکے۔ جب ضرورت ہوتی تھی تو لوگوں کو اس چیز سے آگاہ کرتے تھے جس سے ان کی آگاہی ضروری ہوتی تھی۔ ملک کو چلانے والا ادارہ یعنی اسلامی جمہوری نظام امام کی پشت پر تھا لیکن قضیہ امام (خمینی) کی ذات پر منحصر نہیں تھا۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ اسلامی جمہوری نظام میں، عوام کو صرف رہبر سے مرتبط رہنا چاہئے اور امور مملکت چلانے والا ادارہ، عوام کو جمع کرنے، ان کی ہدایت و رہنمائی، عوامی قوت کو فعال کرنے اور ان کی پشت پناہی میں کوئی کردار نہیں رکھتا۔ نہیں یہ غلط ہے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ دیکھتے تھے کہ امام ہمیشہ ملک کے حکام کی حمایت اور پشت پناہی کرتے تھے۔
البتہ ملک کے حکام میں اگر کبھی انحراف پیدا ہوتا تھا تو امام خبردار کرتے تھے اور یہ ایک فریضہ بھی ہے۔ لیکن وہ مرکزیت جس سے عوام اور رضاکار فورس متصل تھی وہ اسلامی جمہوری نظام کی مرکزیت تھی۔ یعنی ہمارے اسلامی نظام میں عوام اور ملک کے حکام جن کا محور اور مرکزی نقطہ، امام اور رہبر کی شخصیت ہے، ایک دوسرے سے مستقل طور پر متصل رہتے ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جو آج تک اسلامی جمہوریہ ایران کی کامیابیوں کا باعث رہی ہے۔ اس پر توجہ رکھیں۔
میں نے کچھ عرصہ پہلے عرض کیا کہ تاریخ میں گوناگوں شکستوں کی وجہ یہ ہے کہ کبھی لوگوں کی قوت تجزیہ ختم ہو جاتی ہے۔ جہاں عوام صحیح تجزیہ نہ کر سکیں، وہ خطرناک خطرناک منزل ہوتی ہے۔ اس جگہ ممکن ہے کہ دشمن وار کر جائے۔
میں آپ بسیجیوں (رضاکاروں) سے، اپنے بچوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیشہ تجزیہ و تفکر کریں، دشمن کو پہچانیں، اس کو سمجھیں کہ وہ آج کیا کر رہا ہے۔ ایران جیسے بڑے ملک میں حکام جو امور مملکت چلاتے ہیں، عوام پر انحصار کرتے ہیں، ان نوجوانوں پر بھروسہ کرتے ہیں جو اپنے اہداف کی راہ میں خطرات کو خاطر میں نہیں لاتے، اپنے اعلا ہدف سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں، انہیں نے آٹھ سالہ جنگ لڑی اور آج جو ہم عالمی استکبار کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں تو اس لئے کہ ان طبقات پر اعتماد کرتے ہیں۔ جب، ملک کی مرکزیت، ملک کے حکام، امور مملکت چلانے کے نظام، رہبر اور حکومت سے اس عظیم قوت کا رابطہ مستحکم ہو تو امورمملکت چلانے والوں میں ایسی طاقت اور جذبہ پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ عالمی دباؤ اور تسلط کے مقابلے میں دٹ جاتے ہیں اور استکتبار ان پر کچھ اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتا۔ جیسا کہ آج امریکا اور دیگر ظالم اور غاصب طاقتیں اپنے مطالبات حکومتوں پر مسلط کرتی ہیں۔ اس رابطے سے حکام میں طاقت بھی آتی ہے اور عوامی قوت ملک کی مصلحت کے مطابق استعمال ہوتی ہے۔ عوام کا عزم و ارادہ، ملک کی خودمختاری اور ترقی میں مدد کرتا ہے اور قوم کی آزادی اور عزت و وقار کے کام آتا ہے۔ کسی بھی قوم کے لئے اس سے بڑی عزت اور کیا ہو سکتی ہے کہ کوئی بھی طاقت اس کو اپنی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ نہ بنا سکے؟ یہ کسی بھی قوم کے لئے سب سے بڑی عظمت و عزت ہوتی ہے۔
آج عالمی طاقتیں اتنی ذلیل ہو گئی ہیں، ان کے نجس باطن کی سامراجی سرشت اتنی قوی ہو گئ ہے کہ صراحت کے ساتھ کہتی ہیں کہ فلاں ملک اور فلاں حکومت کو ہمارے مفاد کے لئے کام کرنا چاہئے۔ تم ہو کون؟ تم کیا ہو جو ایشیائی و افریقی ملکوں اور دنیا میں ہر جگہ مداخلت کرتے ہو؟ تم اگر بہت اچھے ہو، اگر تمہارے ملک کے عوام تمھاری پشت پر ہیں تو اپنا ملک چلاؤ۔ تم سے کیا مطلب کہ جو تم دنیا کے دوسرے سرے پر واقع ملک کے امور میں مداخلت کرتے ہو؟ یہ تم سے کیا مطلب کو افسوس کہ حکومتیں، اقوام، اور دنیا کو چلانے والے ادارے صراحت کے ساتھ نہیں کہتے کہ استکبار کے منہ پر ایک تھپڑ پڑے۔ ورنہ استکبار کبھی اتنا ڈھیٹ نہ ہوتا۔ لیکن ایرانی قوم مستکبرین اور تسلط پسندوں کے مقابلے میں اتنی طاقت رکھتی ہے کہ انہیں منہ توڑ جواب دے سکتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام میں یہ طاقت اوائل انقلاب سے اب تک عوام سے ان کے رابطے کا نتیجہ ہے اور حکام اور عوام کے رابطےکا سرچشمہ قرآنی تعلیمات اور مقدس الہی آیات ہیں۔
آپ عالمی پروپیگنڈوں پر نظر ڈالئے۔ ملک کے اندر کے پروپیگنڈوں کو بھی دیکھئے۔ لوگوں کی باتوں پر غور کیجئے۔ یہ ایک معیار ہے۔ ہر آواز اور ہر بات جس میں عوام سے اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کی مرکزیت کا رابطہ ختم کرنے کی کوشش کی جائے، وہ دشمن کی آواز اور بات ہے۔ ہر تنظیم، ہر آواز اور ہر بات جس میں کسی طرح بھی کوشش کی جائے کہ عوام میں اسلامی جمہوری نظام کی مرکزی قیادت کی نسبت شک و تردد پیدا ہو، عوام میں تزلزل پیدا ہو اور انہیں شک میں ڈالا جائے، وہ بات دشمن کی ہے۔ ممکن ہے کہ کہنے والا خود یہ نہ جانے، جو لکھ رہا ہے ممکن ہے کہ وہ خود نہ سمجھ سکے کہ کیا لکھ رہا ہے۔ ممکن ہے کہ وقتی جذبات کے تحت کوئی بات کہے یا لکھے لیکن بہرحال یقینا یہ یا دشمن کے ورغلانے کا نتیجہ ہے یا دشمن کے فائدے میں ہے، دشمن کی بات ہے۔ ہرقلم، ہر بات، ہر وہ ہاتھ اور ہر وہ کوشش جو ایرانی قوم کے اتحاد و یک جہتی کو جو اسلامی جمہوریہ ایران اور قوم کے مفاد میں ہے، ختم کرنے کی سعی کرے، اس کا تعلق دشمن سے ہے۔ کیونکہ ہم اسی اتحاد و یکجہتی کے ذریعے دشمن کو زیر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ہر بات، ہر تحریر اور ہر تنظیم جو ہمارے امام کی شبیہ کو بگاڑنے کی کوشش کرے، آپ کے کاموں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرے، جن فیصلوں سے ایرانی قوم کو عروج حاصل ہوا آج ان کے بارے میں شک پیدا کرنے کی کوشش کرے، جان لیں کہ وہ دشمن سے جڑی ہوئی ہے۔ وہ سانس، وہ قلب اور وہ گفتگو حق ہے جو عوام کے باہمی اتحاد، امور مملکت چلانے والے اداروں اور عوام کے اتحاد، اصول دین سے عوام کے اتصال اور حکام کے درمیان اتحاد کو مستحکم کرنے کی کوشش کرے اور لوگوں کے دلوں میں مستقبل کی نسبت امید پیدا کرے، لوگوں پر ثابت کرے اور انہیں سمجھائے کہ جب ایرانی قوم میں عشق خدا، ایمان اور اعتقاد ہو اور اس کے دل نور مکتب اسلام سے منور ہوں، جب ان کے ہاتھ اور بازو ایک دوسرے کے لئے مددگار ہوں اور وہ متحد ہوں تو ان کے اندر یہ طاقت ہے کہ دشمن کو پیچھے دھکیل دیں اور ملک کی اس طرح تعمیر کریں جو ایک قوم کے شایان شان ہو۔ اس کی بات حق ہے جو دلوں میں امید پیدا کرے، قدموں میں استحکام لائے، ذہنوں کو روشنی عطا کرے، رشتوں کو مضبوط کرے، ایمانوں کو محکم کرے اور دشمن کی طاقت کے بارے میں مبالغہ آرائی نہ کرے۔
البتہ دشمن کو جتنا وہ ہے اس سے کم بھی نہیں سمجھنا چاہئے۔ کیونکہ اس صورت میں وار لگ سکتا ہے۔ لیکن دشمن کو جتنا وہ ہے اس سے بڑا بھی نہیں ظاہر کرنا چاہئے۔ یعنی وہ نہیں کہنا چاہئے جو آج سامراجی اور صیہونی تشہیراتی ادارے کہتے ہیں۔ انہوں نے امریکا کو ہوّا بنا دیا ہے۔ اگر کسی کو تجربہ نہ ہو تو سوچے گا کہ اس کے ایک اشارے سے کوئی بھی جگہ خاک میں مل سکتی ہے، دھواں ہو جائے گی، ختم ہو جائے گی۔ یہ کیا بات ہوئی؟ اگر ان کے پاس طاقت ہوتی تو دنیا میں اسلامی تحریکیں روزبروز وسیع تر اور مستحکم تر نہ ہوتیں۔ انہوں نے جہاں بھی زور زبردستی سے کام لیکر مداخلت کی اس جگہ کو اپنے لئے اور اپنے کارندوں کے لئے جہنم اور دلدل میں تبدیل کر دیا، جس میں وہ گردن تک ڈوب گئے۔ ان جگہوں کو دیکھئے جہاں انہوں نے عوام پر تسلط جمانے کی کوشش کی۔ دیکھئے وہاں ان کی کیا بری حالت ہے اور وہ کتنی مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں۔
استکبار کی طاقت کے بارے میں مبالغہ نہیں کرنا چاہئے۔ حقیقی طاقت اقوام کی طاقت ہے۔ اگر کوئی قوم خدا پر ایمان رکھتی ہو، الہی اصول و احکام سے واقف ہو، افراد قوم کے دل محکم ہوں اور ہمدرد حکام کی مرکزی حیثیت اور محوریت پر ایمان اور یقین رکھتے ہوں تو یہ حقیقی طاقت تشکیل دیں گے اور یہ وہی چیز ہے جو الحمد للہ ہمارے ملک میں اول انقلاب سے ہی موجود ہے۔ سب سے آگے ہمارے عظیم قائم (امام خمینی)، ملک کے حکام ان کے اطراف میں اور امام (خمینی) کے نور ہدایت سے عوام کے قلب منور ہو گئے۔ جہاں بھی ملک و قوم کی مصلحت متقاضی ہوئی اس پر توجہ دی، عظیم کارنامے انجام دیئے اور الحمد للہ ملک نے پیشرفت حاصل کی۔
آج دنیا میں ایرانی قوم صاحب عزت ہے۔ آج ایرانی قوم کو ایک عظیم قوم سمجھا جاتا ہے۔ آج ملک میں عوام کا ارادہ حکومت کر رہا ہے اور قوم کے سامنے راستے کھول رہا ہے۔ آج ہمارے اوپر دشمنوں کا تسلط اور اثر و رسوخ نہیں ہے اور خدا کے فضل سے ہرگز تسلط حاصل نہیں کر سکیں گے۔ کوشش کرتے ہیں کہ مشکلات کھڑی کریں، کاموں میں رکاوٹ ڈالیں، اسلامی جمہوریہ ایران کی راہ میں روڑے اٹکائیں اور جتنا ان سے ہو سکتا ہے اس قوم اور حکام کے خلاف پروپیگنڈے کرتے ہیں۔ لیکن خدا کے فضل سے آپ کی ہمت سے، قوم کے ارادے سے، یہ سب ناکام رہے گا۔ ھباء منثورا (1) ہی رہے گا اور ختم ہو جائے گا۔
رضاکار فورس کی قدر کو سمجھیں۔ بسیجی بھی اپنی قدر کو سمجھیں۔ رضاکار فورس کے ایک ایک رکن کو قوم کے ان کاموں کے لئے جن کی ان میں توانائی پائی جاتی ہے قوم کے باصلاحیت ترین افراد شمار کریں۔ رضاکار نوجوان، بالخصوص رضاکار کمانڈر اور رضاکار دستے جو پورے ملک سے آج یہاں جمع ہوئے ہیں، اس تنظیم اور اس الہی اجتماع کی قدر کو سمجھیں۔ یہ بہت اہم ہے۔ کوشش کریں کہ ان پاکیزہ نوجوانوں کو ان مومن نوجوانوں کو، ان پاک اور نورانی دلوں کو دشمنوں کے پروپیگنڈوں سے محفوظ رکھیں۔ دشمن ایک کوشش یہ کرتا ہے کہ ہمارے ان پاک و پاکیزہ نوجوانوں کو برائیوں میں مبتلا کر دے۔ ہمارے نوجوان لڑکوں کو بھی اور لڑکیوں کو بھی برائیوں میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دشمن کی اس پرفریب مہم کے مقابلے میں پہلے درجے میں خود نوجوانوں کو مزاحمت کرنی چاہئے۔ دشمن کے ہوس انگیز اور نوجوانوں کو گمراہ کرنے والے پروپیگنڈوں کے مقابلے میں مزاحمت کریں۔ اس کے بعد رضاکار فورس کے کمانڈروں اور عہدیداروں کو اس فورس کے فکری اور دینی شعبے کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ ان کی حفاظت کریں۔ ان پر توجہ دینے اور ان کی حفاظت کے ساتھ ہی ان کی دینی، الہی اور فوج تربیت بھی ضروری ہے۔ لازمی مشقوں کے ساتھ رضاکار فورس کو اور محکم بنائیں، وسیع تر بنائیں۔ رضاکار خواتین و حضرات، بوڑھوں اور جوانوں کو اس کے کام اور وقت کو مد نظر رکھتے ہوئے، ذمہ داریاں دی جائیں تاکہ ان شاء اللہ یہ فورس، با صلاحیت رضاکار سپاہیوں کے ساتھ اس مقدس اور پر افتخار راہ میں ثابت قدمی کے جوہر دکھائے۔
میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ملک کے تمام رضاکاروں کو جن کے آّپ نمائندے ہیں، پرجوش اور پر خلوص سلام پیش کروں اور شہیدوں، رضاکار فورس، تمام مسلح فورسز، فوج، پاسداران انقلاب اسلامی فورس اور پولیس کے شہداء کی ارواح پر جنہوں نے مختلف میدانوں میں خدمت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا، درود بھیجوں۔ اسی طرح ان شہیدوں کے گھر والوں پر بھی میں درود و سلام بھیجتا ہوں جنہوں نے ان سپاہیوں کا حوصلہ بڑھایا۔ اسی طرح دشمن کی قید سے آزاد ہونے والے اور اب بھی قید میں موجود سپاہیوں اور لاپتہ ہونے والے غازیوں پر درود و سلام بھیجتا ہوں۔ میری دعا ہے کہ ان کے تعلق سے ہمیں اور ان کے گھروالوں کو خوش خبری ملے۔ اسی طرح زخمی ہونے والوں اور اپنے اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے 'جانبازوں' اور ان کے گھروالوں پر بھی درود و سلام بھیجتا ہوں۔
دعا ہے کہ رحمت و لطف الہی آپ سب اور سبھی عزیزوں کے شامل حال ہو۔ بہت مناسب ہے کہ رضاکار فورس کا مرکز روز بروز وسیع تر اور عوام میں مقبول تر ہو۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

1) سوہ فرقان آیت 23