خداوند عالم یہ مبارک دن، تمام مسلمانوں، حریت پسندوں، انصاف کے طرفداروں بالخصوص مولائے متقیان کے چاہنے والوں، ایرانی قوم اور حاضرین مجلس کے لئے مبارک قرار دے۔
صدیوں سے ان تمام لوگوں نے جنہیں اس مقدس ہستی کی معرفت رہی ہے، چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام کے بارے میں کہا ہے اور لکھا ہے اور اب بھی لکھ رہے ہیں۔ آپ کی شان میں قصائد کہے گئے ہیں اور کہے جا رہے ہیں لیکن جو کچھ کہا گیا ہے وہ اس حیرت انگیز ہستی، قدرت کاملہ الہی کے اس نمونے، کلمہ کامل پروردگار کی شخصیت کے تمام پہلؤوں کو اجاگر کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔
البتہ یہ ہمارا نقص ہے۔ مادی معیارات سے مانوس ہمارے چھوٹے اذہان اتنے عظیم معنوی و روحانی پہلؤوں کی مالک ہستی کو اپنے تصور میں مجسم کرنے پر قادر نہیں ہے۔ ان ہستیوں کے کلام کی مدد سے جو خود امیرالمومنین جیسے یا آپ سے برتر تھے، مثلا رسول اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشادات کی روشنی میں، اس عظیم معنوی ہستی کی ایک تصویر ذہن میں متصور کی جا سکتی ہے۔ غیر شیعہ روایات میں نقل کیا گیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ من اراد ان ینظر الی آدم فی علمہ والی ابراھیم فی حلمہ والی موسی فی ھیبتہ و الی عیسی فی عبادتہ فلینظر الی وجہ علی بن ابی طالب (1) علم آدم جن کے لئے قرآن فرماتا ہے کہ علّم الادم الاسماء کلھا (2) تمام نشانیوں، ناموں، خلقت کے تمام علوم کو خداوند عالم نے حضرت آدم علیہ السلام کو ودیعت فرمایا۔ حلم ابراہیم کے بارے میں قرآن فرماتا ہے کہ ان ابراھیم لحلیم اوّاہ منیب(3) ہیبت موسی ایسی تھی کہ اس کے مقابلے میں فرعون کی طاقت و عظمت ہیچ تھی۔ (امیر المومنین کی) عبادت عیسی ایسی تھی کہ آپ پروردگار کی عبادت، اخلاص اور زہد کا مظہر تھے۔ بعض دیگر غیر شیعہ روایات میں اس میں بعض چیزوں کا اضافہ پایا جاتا ہے۔ جیسے زہد یحیی بن زکریا اور دیگر انبیاء کی علامات، سب اس عظیم اور اعلی انسان میں مجتمع تھیں جن کا ہم خود کو پیرو اور شیعہ کہتے ہیں۔ اس طرح اس عظیم ہستی کی یہ تصویر کسی حد تک ہمارے لئے روشن ہو سکتی ہے۔
اس عظیم ہستی اور دیگر اولیاء کی معرفت کی نسبت جو چیز ہمارے لئے اہم ہے وہ یہ ہے کہ اس بات پر توجہ رکھیں کہ وہ اعلی مثال جو خداوند عالم روئے زمین پر افراد بشر کو دکھاتا ہے تاکہ یہ سمجھیں کہ اسوہ کیا ہے اور کس چیز کی طرف جانا چاہئے، امام علی علیہ السلام کی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ یہ اہم بہت ہے۔ اسی بنا پر ہم دیکھتے ہیں کہ امام علیہ السلام انسانوں کی جتنی ہدایت اپنی گفتگو، اپنی زبان اور احکام سے فرماتے ہیں اتنا ہی یا اس سے زیادہ، اپنے اخلاق، اپنے کردار اور رفتار سے انسانوں کو راستہ دکھاتے ہیں اور ان کی ہدایت فرماتے ہیں۔ یہ مسئلہ اہم ہے۔
امیر المومنین علیہ السلام ہمارے امام ہیں۔ تمام مسلمانوں کے امام ہیں۔ سب آپ کو امام مانتے ہیں۔ امام یعنی کیا؟ یعنی یہ کہ ہم اس ہستی کے تمام پہلؤوں کو نظر میں رکھیں۔ جیسے آپ کوئی نمونہ اپنے سامنے رکھتے ہیں اور پھر ویسی ہی چیز بنانے کی مشق کرتے ہیں اسی طرح ہمیں چاہئے کہ ہم آپ کی زندگی اور شخصیت کو نظر میں رکھیں اور اپنی شخصیت میں، اپنی ذات میں، اپنے کردار میں، خدا سے اپنے تعلق اور رابطے میں، اپنے تعلق سے جو کام کرتے ہیں اس میں، لوگوں کے ساتھ اپنے برتاؤ میں، بیت المال کے تعلق سے اپنے کردار میں، جو وسائل ہمارے اختیار میں ہیں اور جو پیسہ ہمارے اختیار میں ہے، جو حکومتی وسائل ہمارے اختیار میں ہیں، اس کے سلسلے میں اپنے طرزعمل میں، انسانی مجموعے کی حیثیت سے ان لوگوں کے تعلق سے اپنے عمل میں کہ جن کے ہم نگراں ہیں اور جن کی زندگی کے ایک حصے پر ہم حکومت کرتے ہیں، کمزور اور محروم افراد، چاہے وہ مالی لحاظ سے غریب ہوں یا فکری لحاظ سے محتاج ہوں، چاہے علمی اور اعتقادی لحاظ سے محروم ہوں، ان کے ساتھ اپنے روئے میں، دین خدا کے تعلق سے اپنے طرز عمل میں کہ کس طرح اس کا دفاع کریں اور کس طرح اس کے سلسلے میں دقت نظر سے کام لیں اور دشمنوں کے ساتھ ہمارا رویہ کیسا ہونا چاہئے، ان سب امور میں امیر المومنین علیہ الصلاۃ والسلام کی ذات گرامی ہمارے لئے نمونہ عمل ہو اور ہم آپ جیسا بننے کی کوشش کریں۔
کیسے ممکن ہے کہ کوئی خود کو شیعہ علی کہے؟ آپ نے اپنی ساری زندگی عبادت خدا میں بسر کی۔ پہلے دن سے کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے توسط سے نور ہدایت الہی آپ کے وجود میں داخل ہوا، اس لمحے تک جب دشمنان خدا کی شمشیر سے لقاء خدا کی جانب سدھارے، ایک لمحہ بھی حضرت کی زندگی کا ایسا تلاش کریں کہ جب آپ عبادت خدا، یاد خدا اور اس رابطے سے غافل رہے ہوں، چاہے خوشی کا موقع ہو یا غم کا، جنگ میں ہوں یا صلح میں، رات میں، دن میں، مسجد میں، میدان جنگ میں، مسند حکومت پر، کرسی عدالت پر، جہاں بھی رہے، ہر حال میں خدا سے مرتبط رہے، اس کی بارگاہ میں رہے، اس کی عبادت میں رہے، ہر کام اس کے لئے کیا۔ امیر المومنین یہ ہیں۔ اب کوئی یہ دعوا کرے کہ آپ ہمارے امام ہیں جبکہ زندگی میں سب سے کم جس چیز پر توجہ دیتا ہے وہ خدا سے قلبی رابطہ ہے تو کیا واقعی حضرت ایسے انسان کے امام ہو سکتے ہیں؟ کیا یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے؟
آپ حکومت، طاقت اور اقتدار کے تمام مراحل میں جو خدا نے آپ کو عطا کیا تھا، معاشرے کے کمزور ترین فرد کی فکر میں رہتے تھے۔ خود بھی اس فکر میں رہتے تھے اور جن لوگوں کو حاکم، گورنر اور سفیر کے عنوان سے مختلف جگہوں پر روانہ کرتے تھے، ان سے بھی اس کی سفارش کیا کرتے تھے۔ آپ مالک اشتر سے فرماتے ہیں گھومو اور ایسے فرد کو تلاش کرو جس پر عموما تم جیسے لوگوں کی نگاہیں نہیں پڑتیں۔ مالک اشتر حاکم و گورنر تھے، کچھ لوگ ہمیشہ ایسے انسان کے اطراف میں رہتے ہیں، خود کو ان کے نزدیک کرتے ہیں، ان تک خود کو پہنچاتے ہیں، یہ متمول لوگ ہیں، بولنے والے لوگ ہیں، مقام و مرتبہ رکھنے والے افراد ہیں، میں یہ نہیں کہتا کہ برے لوگ ہیں، مگر ایسے ہیں کہ یہ کام کر سکتے ہیں، مگر معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس کام پر قادر نہیں ہیں۔ اس کا امکان نہیں رکھتے۔ اس کی جرائت نہیں رکھتے۔ پیسے نہیں رکھتے۔ اس کی راہ و روش سے واقف نہیں ہیں۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں؛ ایسے لوگوں کو تلاش کرو اور ان کا حال معلوم کرو!
امیرالمومنین علیہ السلام اپنے گورنر سے اس طرح سفارش کرتے ہیں اور خود اس طرح عمل کرتے ہیں کہ غریب کے گھر جاتے ہیں۔ یتیم بچوں کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتے ہیں۔ ( کسی نے کہا کہ امیرالمومنین علیہ السلام اس طرح یتیم بچوں کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتے تھے کہ ہمارے دل میں آرزو پیدا ہوئی کہ کا ش ہم بھی یتیم ہوتے) اب اگر کوئی دعوی کرے کہ آپ ہمارے امام ہیں، جب کہ اس کی حکومت، اس کے اقتدار، اس کی ریاست، چھوٹے سے مجموعے پر ہی سہی، ایک گاؤں، ایک گوشے، ملک کے ایک گوشے پر اس کی حکومت میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی، لوگ محروم، غریب اور مستضف ہیں، اور ایسا حاکم کہے کہ آپ ہمارے امام تھے کیا اس کاعمل اس کے اس قول سے ہم آہنگ ہے؟
امیر المومنین علیہ السلام ایسے تھے کہ تبیلیغ، راہ خدا میں عمل اور دشمنان خدا کے خلاف جہاد میں رات اور دن کی پروا نہیں کرتے تھے۔ چند ایک کو چھوڑ کر پیغمبر اکرم کی تمام جنگوں میں موجود رہے۔ بظاہر جنگ تبوک میں پیغمبر نے فرمایا کہ یا علی آپ رکیں اور مدینے کی حفاظت کریں! چونکہ مدینے کو خطرہ تھا، اس لئے پیغمبر نے آپ کو مدینے میں چھوڑا۔ اس کے علاوہ بقیہ تمام جنگوں میں یا تقریبا تمام جنگوں میں، آپ پیغمبر کے ساتھ رہے۔ جب کوئی نہ تھا تو آپ تھے۔ جب ہمیشہ سے زیادہ سخت مرحلہ تھا تو آپ خطرے کے قریبی ترین نقطے پر موجود تھے۔ اب اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ آپ ہمارے امام تھے اور راہ خدا میں دین خدا کے لئے ایک طمانچہ بھی کھانے کے لئے تیار نہ ہو، کیا یہ ہو سکتا ہے؟ آپ کو اپنا امام کہے اور دشمن خدا، دشمن دین، دشمنان اسلام پر ان کی طاقت اور غنڈہ گردی کے سبب معمولی سا اعتراض بھی کرنے کو تیار نہ ہو؟
دشمنان دین جن کو امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنی خلافت سے پہلے بھی اور خلافت کے دوران بھی نہیں چھوڑا، کیا طاقت والے نہیں تھے؟ سیاسی طاقت رکھتے تھے، فوجی طاقت رکھتے تھے، بعض عوام میں اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ روحانی مدارج کے دعویدار تھے، مقدس مآب تھے، جیسے خوارج، ہمارے انتہا پسند انقلابی نماؤں کی طرح تھے جو کسی کو بھی قبول نہیں کرتے تھے۔ صرف خود کو قبول کرتے تھے اور خود کو دین کا طرفدار کہتے تھے۔ اپنے علاوہ کسی کو بھی قبول نہیں کرتے تھے۔ جیسے ابتدائے انقلاب میں بعض لوگ امام (خمینی) کو بھی انقلابی نہیں مانتے تھے۔
امیرالمومنین علیہ السلام نے ان سے جنگ کی اور ان کو تہس نہس کر دیا اور فرمایا کہ اگر میں ان سے جنگ نہ کرتا تو کوئی بھی ان سے لڑنے کی ہمت نہ کرتا امیر المومنین علیہ السلام کے مخالف ایسے لوگ تھے۔ اب اگر آج کچھ لوگ کہیں کہ آپ ہمارے امام تھے، لیکن استکبار، تسلط پسند امریکا اور جو لوگ آج صدر اسلام کے مقابلے میں لوگوں پر سو گنا ظلم کر رہے ہیں، (طویل برسوں تک انہوں نے جو ظلم کئے وہ سب یہ کر رہے ہیں) ان کے بارے میں ایسی کوئی بات بھی کہنے کو تیار نہ ہوں جو ان کو بری لگ سکتی ہو۔ اور پھر کہیں کہ ہم علی کے شیعہ ہیں اور آپ ہمارے امام ہیں! امام یعنی کیا؟ امیرالمومنین علیہ السلام ایسے لوگوں کے ساتھ ہو سکتے ہیں۔ کیا ان باتوں سے حضرت علی علیہ السلام کی ذات گرامی کی جامعیت کی تصویر کشی کی جا سکتی ہے؟ ہم اس جاہل، اور فن و ہنر سے نابلد مصور کی طرح ہیں جو ایک خوبصورت چہرے کو صفحہ قرطاس پر اتارنا چاہتا ہے، چار لکیریں اس طرف اور چار لکیریں اس طرف کھینچتا ہے اور ایک چیز تیار ہو جاتی ہے۔ کیا وہ خوبصورت چہرہ یہی ہے؟ امام علیہ السلام اس سے بہت بالاتر ہیں۔
لیکن بہنو اور بھائیو! وہی ناقص تصویر جو ہم کھینچتے ہیں، اتنی خوبصورت ہے، اتنی حسین اور اتنی عظیم ہے کہ انسان کی آنکھیں اسے بھی دیکھ کر خیرہ ہو جاتی ہیں۔ ہمیں آپ کی طرف جانا چاہئے لیکن کسی کو توقع نہیں ہے کہ آپ سے ایک فرسخ کے فاصلے تک بھی پہنچ سکے گا۔ یہ حقیقت ہے۔
چند سال پہلے، میں نےایک بار نماز جمعہ کے خطبے میں کہا تھا کہ ہم امیر المومنین جیسے نہیں بن سکتے۔ کسی نے خط لکھا کہ آپ نے خوب خود کو بچایا ہے کہتے ہیں؛ ہم امیرالمومنین جیسے نہیں ہو سکتے۔ بات خود کو بچانے کی نہیں ہے، امیرالمومنین علیہ السلام نے خود فرمایا ہے کہ تم ہم جیسے نہیں ہو سکتے۔
آپ جوٹی پر ہیں۔ ایک اونچی چوٹی کو نظر میں رکھیں۔ ہمیں اس چوٹی کی طرف جانا چاہئے۔ چاہے صرف اس کے دامن تک ہی پہنچ سکیں۔ اہم یہ ہے، معیار یہ ہے کہ آگے بڑھیں۔ یہ نہ کہیں کہ وہاں تک نہیں پہنچ سکتے تو آگے نہ بڑھیں۔
جو لوگ نظام حکومت کے کسی حصے کے ذمہ دار ہیں، امیرالمومنین علیہ السلام ان کے لئے نمونہ عمل ہیں۔ جیسے آپ کے درمیان دفتری اور سرکاری شعبوں کے اعلا عہدیدار موجود ہیں، وہ چاہے جہاں بھی چھوٹی جگہ پر ہوں یا بڑی جگہ پر، کام کو عوام سے ہمدردی کے ساتھ انجام دیں۔ کوئی احسان جتائے بغیر انجام دیں۔ جو لوگ ان کے پاس کام لیکر آئیں ان کا احترام کریں، ان کی تحقیر نہ کریں۔ ان پر احسان نہ رکھیں۔ ان سے کوئی توقع نہ رکھیں۔ ہم سے ہاتھوں کی پاکیزگی، آنکھوں کی پاکیزگی، زبان کی پاکیزگی، جیب کی پاکیزگی اور قلب کی پاکیزگی جو سب سے مشکل ہے، طلب کی گئی ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے انسانوں کے احیاء کے لئے کام کیا ہے۔
اس مجمع میں تحریک خواندگی کی کارکن خواتین بھی موجود ہیں۔ تحریک خواندگی بھی امیر المومنین علیہ االسلام کے بتائے ہوئے راستے کا ہی ایک نیک عمل ہے۔ پڑھنا پڑھانا، لوگوں کی خدمت کرنا، لوگوں کے لئے کام کرنا، عوام الناس کے لئے محنت کرنا، امانت اور پارسائی کی حفاظت، حق بات کہنا، یہ سب حضرت علی علیہ الصلاۃ والسلام کی تعلیمات میں موجود ہے۔
آج اسلامی جمہوری نظام میں جو حکومت قائم ہوئی ہے، وہ ایسی حکومت ہے جو صدیوں کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام کی تعلیمات کے مطابق قائم ہوئی ہے۔ دوسرے الٹے راستے پر چلتے تھے۔ یعنی امیرالمومنین علیہ السلام جو چاہتے تھے، جو کہتے تھے اور کرتے تھے اس کے بر عکس تھے لیکن یہ حکومت آپ کے راستے پر گامزن ہے، اس کی مدد کرنی چاہئے۔ اس کا ساتھ دینا چاہئے۔ اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔ اس کے نقائص کی طرف برادرانہ اور دوستانہ انداز میں اس کو توجہ دلانی چاہئے تاکہ یہ اپنے راستے پر گامزن رہے اور اس صراط مستقیم کی حفاظت کرے۔ جس طرح گزشتہ دور میں قاسطین، مارقین اور ناکثین حضرت علی علیہ السلام کی حکومت کے مخالف تھے، اس کے علاوہ دنیا کے کفار بھی آپ کی حکومت کے مخالف تھے، آج بھی ایسا ہی ہے۔ آج دنیا میں مسلمانوں کے حقوق کا کون دفاع کرتا ہے؟ یہی حکومت، مسئلہ فلسطین کو کون صداقت کے ساتھ اٹھاتا ہے؟ کون لبنان کا مسئلہ اٹھاتا ہے؟ اسلامی جمہوری نظام۔
البتہ پوری دنیا کی مسلم اقوام کا دل اپنے مذہب والوں کے لئے دھڑکتا ہے مگر اقوام حکومتوں کی مدد سے کچھ کر سکتی ہیں۔ دوسری جگہوں پر اجازت نہیں دی جاتی۔ یا بہت کم شاذ و نادر اجازت ملتی ہے۔ یہاں حکومت خود عوام کے آگے آگے چـلتی ہے۔ اس لئے ہمارے مخالف ہیں۔ وہ سب جو فلسطین کے قضیے میں، فلسطین کے خلاف سازش میں شریک ہیں، فلسطینیوں کے حق میں ایران کی حکومت اور عوام کے اقدام کے مخالف ہیں۔ وہ تمام جلاد جن کے ہاتھ کہنیوں تک بوسنیا ہرزے گووینا کے مسلمانوں کے خون میں ڈوبے ہوئے ہیں، اس حکومت کے مخالف ہیں۔ ان دنوں پھر اس مظلوم قوم کا نام لیا جا رہا ہے۔ وہ اس حکومت کے مخالف کیوں ہیں؟ اس لئے کہ دنیا کی تمام اقوام اور حکومتوں کے آگے چلتی ہے اور کہتی ہے کہ آؤ اس مظلوم قوم کی مدد کریں۔
کہاں ہیں وہ لوگ جو انسانیت کا دعوی کرتے ہیں؟ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ انسانی حقوق کے طرفدار کہاں ہیں؟ کون سے انسانی حقوق کی طرفداری یہ کرتے ہیں؟ جھوٹ بولتے ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ متعصب، قوم پرست، انسان اور انسانیت کے دشمن سرب اور کروٹ، کس طرح سے ایک قوم کو عورتوں، مردوں اور بچوں کو سب کو مار رہے ہیں؟ یہ اسلامی جمہوریہ کی حکومت اور مسلمان ایرانی قوم ہی ہے جو اتنی صراحت کے ساتھ یہ باتیں کرتی ہے۔ صرف زبان سے نہیں بلکہ عملا بھی مدد کر رہی ہے۔ ایرانی قوم نے مدد کی، مدد کرے گی اور اس کو مدد کرنی بھی چاہئے۔ حکومت ایران نے اس سلسلے میں کافی مدد کی ہے۔ جو کچھ ہوتا رہا ہے اس کی تبلیغ ہونی چاہئے، کہنا چاہئے اور کہا گیا ہے۔ اس کا بڑا حصہ ان شاء اللہ مستقبل میں واضح ہو جائے گا۔ اس لئے اسی حکومت کی مخالفت کر رہے ہیں۔
آج دنیا میں کوشش یہ ہے کہ ایرانی قوم کو راہ امیرالمومنین اور راہ اسلام کی جانب سے مایوس کر دیں۔ میں آپ سے، پوری ایرانی قوم سے عرض کروں گا کہ آج تبلیغات کے میدان میں سب سے بڑا جہاد یہ ہے کہ ایرانی قوم میں اس راہ پر چلنے کے اچھے انجام کی امید پیدا کی جائے۔ جو بھی عوام کو مایوس کرے، اس نے اس قوم کے ساتھ خیانت کی ہے۔ ایک کوہ پیما جو تمام وسائل سے لیس کمربستہ چوٹی سر کرنے کے لئے تیار ہو، اس کا حوصلہ پست کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جھوٹ گڑھا جائے اور اس سے کہا جائے کہ اس چوٹی تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ راستے میں خرابی اور رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے۔ وہ چوٹی سر کرنے جا رہا ہے۔ چوٹی کو فتح کرنا اس کا ہدف ہے لیکن جب وہ یہ سمجھ لے کہ اس ہدف تک نہیں پہنچا جا سکتا تو اس کے ہاتھ پاؤں میں سستی آ جاۓ گی اور وہ وہیں سے واپس آ جائے گا۔
پندرہ سال سے عالمی ڈھنڈورچی ڈھنڈوررا پیٹ رہے ہیں اور آج کچھ زیادہ ہی کوشش کر رہے ہیں کہ ایرانی قوم کو مایوس کر دیں۔ کہتے ہیں جناب اقتصاد کی حالت خراب ہے۔ جناب دنیا نہیں کرنے دے رہی ہے۔ جناب امریکا اجازت نہیں دیتا ہے۔ جناب عوام ناراض ہیں۔ لوگوں کے بیچ مسلسل یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ وہ بھی بہت زیرکانہ تشہیراتی روش کے ساتھ۔ میں ان کی باتیں سنتا ہوں۔ کبھی براہ راست سنتا ہوں لیکن اکثر اوقات کچھ افراد ان کی باتیں لکھتے ہیں، ریکارڈ کرتے ہیں اور میرے لئے لاتے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ یہ کیا کہہ ر ہے ہیں۔ میں جانتا ہوں، انہوں نے بیٹھ کے ایسے الفاظ کا انتخاب کیا ہے کہ عوام ان باتوں پر یقین کریں۔ چاہتے ہیں بالکل جھوٹی بات کا لوگ یقین کر لیں۔ افسوس کہ ملک کے اندر بھی بعض لوگ ایسے ہیں جو جب بھی بولتے ہیں تو لوگوں کو مایوس کرنے کے لئے بولتے ہیں۔ خاموش رہتے ہیں یا بولتے ہیں تو لوگوں کو مایوس کرنے کے لئے۔
لوگوں کو مایوس کیوں کرتے ہو؟ اس طاقتور اور دلیر قوم کو جو دشوار راہیں طے کر سکتی ہے اور دشوارترین راہیں طے کر چکی ہے، نا امید کرنے کی کوشش کیوں کرتے ہو؟ (آپ کیوں یہ کہتے ہیں کہ) عادلانہ اسلامی نظام، معاشرے اور حکومت کی تشکیل کے ہدف تک نہیں پہنچا جا سکتا؟ کیوں؟ دشمن آپ کو شکست دینے کے لئے تمام طریقے آزما چکا ہے مگر کامیاب نہیں ہوا۔ سارے طریقے آزما لئے۔ جنگ مسلط کی، اقتصادی محاصرہ کیا۔ پروپیگنڈہ کرکے دیکھ لیا۔ فحاشی کا راستہ بھی آزما لیا۔ حکام پر الزامات بھی لگائے، کتنے الزامات لگائے اور آئندہ بھی لگائيں گے لیکن کسی نے یقین نہیں کیا۔ جھوٹی باتیں کرتے ہیں، جھوٹے شواہد پیش کرتے ہیں۔ جھوٹے دعوے کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو مایوس کریں۔
عظیم مرجع تقلید اس دنیا سے چلا گیا اور لوگوں نے حق ادا کر دیا۔ وہ تشییع جنازہ، وہ عزاداری، وہ ٹیلیگراف، وہ تعزیت کے پیغامات، وہ وفاداریاں اور اس حالت میں کچھ افراد، لوگوں کے درمیان آکے کہنے لگے؛ جناب! مرجعیت ختم ہو گئی۔ اب کوئی مرجع تقلید نہیں ہے۔ اس کے بعد کیا کریں؟ کچھ متدین لوگوں میں اضطراب پیدا کیا۔ خداوند عالم نے اپنے لطف سے حوزہ علمیہ قم میں اپنے ایک ذخیرے سے ایک مرجع تقلید لوگوں کو دیا۔ اس سن رسیدہ، لیکن مستحکم معنوی و دینی بنیادوں کے مالک، فقہ اور دینی علوم کے مرکز کے اس محکم ستون کو خداوند عالم نے دسیوں سال باقی رکھا۔ اس زمانے کے لئے یہ چیز عجیب ہے۔ اس زمانے میں جب ہم قم میں تھے، عظیم مرجع تقلید آیت اللہ العظمی اراکی کو دیکھتے تھے، آپ کے علم کا سب کو اعتراف تھا، آپ کے تقوا کے سب معترف تھے لیکن آپ کی مرجعیت کا امکان نہیں تھا۔ کیونکہ انہوں نے خود کو ان خطوط سے دور رکھا تھا جو مرجعیت پر منتج ہوتے تھے۔ زہد، تقوا، پارسائی میں معروف تھے۔ خداوند عالم نے اس ہستی کو زندہ رکھا۔ آپ کی عمر طولانی کی۔ آپ کے حواس بجا رکھے۔ آپ کی معنوی، روحانی اور علمی قوتوں کی حفاظت کی۔ آج کے لئے۔ میں آپ سے عرض کروں گا کہ تمام ادوار میں، اس دینی علوم کے مرکز قم میں پروردگار کے فضل سے ایسی ہستیاں ہمشیہ رہی ہیں کہ جن کی تقلید کی جا سکتی ہے۔ آج بھی ممکن ہے کہ آپ انہیں نہ پہچانیں۔ ممکن ہے کہ اس ضروری لمحے سے پہلے کوئی انہیں مرجع کی حیثیت سے نہ پہنچانے۔ (ایسا نہیں ہے کہ کوئی اجنبی سامنے آئے) جب ان کا نام آیا تو دیکھتے ہیں کہ عجیب بات ہے؛ یہ تو تیس سال سے چالیس سال سے، پچاس سال سے، اس حوزہ علمیہ میں درس وتدریس میں مصروف ہیں اور کسی نے یہ نہ سوچا کہ یہ مرجعیت کے لئے مناسب ہیں۔
خداوند عالم اپنے ذخائر کو اس طرح معین دن کے لئے محفوظ رکھتا ہے۔ خدا کے فضل سے شیعوں کے دینی تعلیم کے بہت سے مراکز جو حوزہ علمیہ قم سے دور ہیں، ایسے ذخائر سے سرشار ہیں۔ ہمارے اسلاف نے کام کیا۔ ہمارے بزرگوں نے کام کیا۔ دینی تعلیم کے ان مراکز میں عظیم فقہا نے کام کیا۔ ان مراکز میں ذخائر موجود ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ لوگوں کے سامنے آکے صف میں کھڑے ہو جائیں کہ جناب ہم بھی ہیں۔ یہ حوزہ علمیہ قم میں ہیں اور جس دن خدا کا ارادہ ہوگا سامنے آئيں گے۔ خداوند عالم ان کی نشاندہی کرے گا۔ آج ان میں سے ایک کی نشاندہی کی ہے۔ لوگوں کے لئے کافی ہے۔ اگر کسی دن ضرورت ہوئی تو کسی دوسری ہستی کو پیش کرے گا۔ خدا کے فضل سے لوگوں کو تقلید میں کوئی مشکل پیش نہیں آئےگی۔ دشمن لوگوں کو اس طریقے سے بھی مایوس کرنا چاہتا تھا۔ ان کے اندر اضطراب پیدا کرنا چاہتا تھا۔ ہوشیاری کی ضرورت ہے۔ ایرانی قوم کو ہوشیار رہنا چاہئے۔ آپ اپنی ہوشیاری کی برکت سے الحمد للہ اس دشوار راستے کو اس منزل تک طے کرنے میں کامیاب رہے۔ ہوشیاری، خدا کی ذات پر بھروسہ، حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ سے توسل، اتحاد کی حفاظت، دشمن سے نہ ڈرنا، اور خدا سے ڈرنا، یہ اس بات کا باعث ہوا کہ آپ آج تک یہ راستہ طے کرنے میں کامیاب رہیں۔ ان شاء اللہ مستقبل میں بھی خدائے متعال مدد کرے گا اور پروردگار کے فضل سے یہ اسلامی معاشرہ مادی ومعنوی لحاظ سے وہی مثالی معاشرہ بنے گا جس میں دنیا کی تمام اقوام کے لئے کشش ہوگی۔
پالنے والے محمد و آل محمد کا واسطہ ہمارے امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کو اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما۔ ہمارے بزرگوں، ہمارے فقہاء اور ہمارے فضلاء کی حفاظت فرما۔ ہماری قوم کو اس راہ میں روز بروز زیادہ استواری و ثابت قدمی عنایت فرما۔ اسلام اور مسلمین سے دشمنوں کے شر کو دور کر دے۔
1) مشارق انوارالیقین؛ صفحہ 109 مناقب ابن مغازلی صفحہ 212 احقاق الحق جلد 4 صفحہ 392 الی 405
2) سورہ بقرہ آیت 31
3) سورہ ھود آیت 75
4) مراد آیت اللہ العظمی گلپائیگانی ہیں۔