ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے قوموں کے درمیان اسلاموفوبیا کے پروپیگنڈے کی سامراجی طاقتوں کی کوششوں کے مقابلے میں حقیقی اسلام پیش کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ در پیش چیلنجوں کے علل و اسباب اور راہ حل کا جائزہ لینے کے عمل میں سطحی فکر سے پرہیز کرتے ہوئے مسائل کی تہہ تک پہنچنے اور منطقی انداز میں انہیں کنرول کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
آپ کا کہنا تھا کہ عالمی توسیع پسند طاقتیں اسلام کامل کے نفاذ کی جانب جاری پیش قدمی کے عمل کی اصلی مخالف ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ صیہونیوں کے سیاسی و تشہیراتی اداروں کے ذریعے اسلاموفوبیا کا پرچار اپنے ناجائزہ مفادات کے نابود ہو جانے کی بابت ان کے خوف و ہراس کی علامت ہے۔قائد انقلاب اسلامی نے اسلاموفوبیا کے مقابلے میں دفاعی روش سے اجتناب کو بہت ضروری قرار دیا اور فرمایا کہ اسلاموفوبیا در حقیقت اس سیاسی اسلام اور قوموں کی زندگی کے متن میں رچے بسے اسلام سے، کہ ملت ایران نے اسلامی انقلاب لاکر جسے وجود بخشنے اور پھر اس کی تقویت و استحکام کا پرچم بلند کیا ہے، عالمی منہ زور طاقتوں کی سراسیمگی اور اضطراب کی علامت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکیوں کی چالبازیوں کی طرف سے بہت ہوشیار رہنے کی ہدایت دی اور فرمایا کہ امریکی ہمیشہ مذاکرات کے لئے طے شدہ میعاد پوری ہونے کے وقت اپنا لہجہ سخت، تند اور تلخ کر لیتے ہیں تاکہ اپنے اہداف پورے کر سکیں، لہذا اس چال کی طرف سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے حالیہ دنوں اور ہفتوں کے دوران امریکیوں کے بد دل کر دینے والے پست بیانوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک صیہونی مسخرے نے وہاں جاکر بیان دیا اور امریکی حکام نے کنارہ کشی کرنے کی غرض سے کچھ باتیں کہیں لیکن انہیں باتوں میں انہوں نے ایران پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگا دیا جو واقعی بہت مضحکہ خیز ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکیوں اور علاقے میں ان کے اتحادیوں نے خبیث ترین اور خوں آشام ترین دہشت گردوں یعنی داعش اور دیگر گروہوں کی تشکیل کی اور بدستور ان کی حمایت بھی کر رہے ہیں اور اس کے بعد وہ ان حرکتوں کو ملت ایران اور اسلامی نظام کے سر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم‌
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الأرضین.

آپ محترم حضرات کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ مجلس خبرگان (ماہرین کی کونسل) کے محترم صدر جناب یزدی صاحب نے جو خاص باتیں بیان فرمائیں (2) ان کے علاوہ بھی ایک خاص بات ہے جو اس حقیر سے مختص ہے اور وہ یہ ہے کہ ان اجلاسوں میں، برادران عزیز اور محترم صاحبان کی قریب سے زیارت کا مجھے موقع مل جاتا ہے۔ یہ ہمارے لئے ایک موقع ہوتا ہے اور اللہ تعالی سے ہماری دعا ہے کہ آپ سب کو ، تمام احباب کو، تمام صاحبان کو توفیق عطا کرے کہ ان عظیم فرائض کو جو ہم سب کے دوش پر ہیں ان شاء اللہ بنحو احسن انجام دیں۔
میں سب سے پہلے جناب یزدی صاحب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں صدارت کی ذمہ داری سنبھالنے پر۔ جناب عالی کی شخصیت، ماضی کی خدمات اور کارکردگی، سب ایسی چیزیں ہیں جو اس انتخاب کو بالکل موزوں اور بجا ثابت کرتی ہیں۔ اللہ تعالی صحت اور دیگر مختلف پہلوؤں سے آپ کی مدد فرمائے اور آپ اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ جناب مہدوی مرحوم (3) رضوان اللہ علیہ کو ہم خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ واقعی بڑی نمایاں شخصیت تھی، اسلامی انقلاب سے قبل کی جدوجہد کے علاوہ انقلاب کی کامیابی کے بعد اس طویل مدت میں بھی جناب مہدوی مرحوم نے واقعی ایک موثر ہستی، سرگرم دینی رہنما اور عالم با عمل کی تصویر پیش کی۔ خداوند عالم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ انہیں جزائے خیر عنایت کرے اور انہیں اپنی رحمت و مغفرت سے بہرہ مند فرمائے۔
بحمد اللہ داخلی الیکشن کے لئے جو نشست منعقد ہوئی، جیسا کہ مجھے رپورٹ ملی، بہت با وقار اور دیگر اداروں کے لئے جہاں اندرونی الیکشن ہوتا ہے، نمونہ عمل نشست تھی۔ مکمل متانت کے ساتھ اور الیکشن اور رائے دہی کی نشستوں میں پیش آنے والے تمام منفی باتوں اور حاشیوں سے دور رہتے ہوئے بحمد اللہ بہت بڑا کام آپ نے انجام دیا۔
ہمارے علاقے میں جو حالات ہیں بلکہ دنیا میں جو صورت حال حکمفرما ہے، بعض استکباری اور متکبر حکومتوں کے ساتھ مختلف مسائل کے بارے میں، خواہ وہ ایٹمی مسئلہ ہو یا دیگر مسائل ہوں، اسلامی جمہوریہ ایران کے جو چیلنجز ہیں، اسی طرح اقتصادی بحثیں جو ملک کے اندر ہیں اور مختلف حکام جو اقدامات انجام دے رہے ہیں، ہر کوئی اپنے طریقے سے اسلامی مقاصد اور عوام الناس کے مفادات کی تکمیل کے لئے کوشاں ہے، اسی طرح اسلاموفوبیا پھیلانے کا مسئلہ جو اس وقت استکباری دنیا میں اور مغربی ممالک میں بہت عام ہے، ان تمام مسائل کے تعلق سے مجھے لگا کہ اس موضوع کو اٹھایا جائے کہ قرآنی آیات و تعلیمات سے ہم نے جو سمجھا ہے اور جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں سے اسلام نے ایک کامل اسلامی نظام کی تشکیل کا مطالبہ کیا ہے، اسلام کا مطالبہ دین اسلام کا مکمل نفاذ ہے۔ مجموعی طور پر انسان اسی نتیجے کا مشاہدہ کرتا ہے۔
کم ترین سطح کی دینداری اور دینی احکامات میں کم ترین سطح پر اکتفا کر لینا، اسلام کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ ہماری تعلیمات میں کم ترین سطح کی دینداری ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔ بلکہ قرآن میں متعدد مقامات پر دینی تعلیمات میں بعض پر عمل آوری اور بعض کو ترک کر دئے جانے کے روئے کی مذمت کی گئی ہے (4)۔ «اَلَّذینَ جَعَلُوا القُرءانَ عِضین» (۵) یا آیه‌ شریفه‌ ہے «وَ یَقولونَ نُؤمِنُ بِبَعضٍ وَ نَکفُرُ بِبَعض» (۶) جو منافقین سے متعلق ہے، اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہاں تک کہ دین کے بعض انتہائی اہم حصے جیسے عدل کا قیام بھی کافی نہیں ہے کہ انسان اسی پر خوش ہو جائے کہ ہم تو قیام عدل کی کوشش میں مصروف ہیں، عدل قائم کریں گے تو یہی اسلام کا نفاذ قرار پا جائے گا۔ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ بیشک معاشرے میں انصاف کا قیام انتہائی اہم ہدف ہے۔ قرآن مجید کے سورہ حدید کہ اس آیہ شریفہ سے؛ لَقَد اَرسَلنا رُسُلَنا بِالبِیِّنت وَ اَنزَلنا مَعَهُمُ الکِتبَ وَ المیزانَ لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسط (۷) سے بادی النظر (8) میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ رسولوں کو مبعوث کرنے اور صحیفے نازل کرنے اور معارف الہیہ کا بنیادی ہدف عدل قائم کرنا ہے۔ خواہ اس جملے؛ «لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسط» کا کسی بھی طرف سے مفہوم نکالیں۔ چاہے اس معنی میں لیں کہ «لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسط» یعنی «لِیُقیمَ النّاسُ القِسطَ» کہ 'ب' کے بارے میں کہیں کہ فعل لازمی کو متعدی بنانے کے لئے ہے۔ یعنی لوگوں کا فرض ہے کہ اپنی زندگی اور ماحول میں عدل قائم کریں یا 'ب' کو 'سببیہ' مانیں۔ یعنی «لِیَقومَ النّاسُ بِسَبَبِ القِسط» لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف کا برتاؤ کیا جائے۔ ان دونوں معانی میں سے یا جو دوسرے ممکنہ معانی ہو سکتے ہیں، جو بھی معنی مراد لیں اس سے معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنے کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالی اسی کو کافی سمجھے گا کہ ہم عدل قائم کر دیں اور اپنی ساری توانائی انصاف قائم کرنے پر صرف کر دیں۔ خواہ اسلام کے دیگر احکامات سے بے توجہی برتی جائے۔ نہیں، آیہ شریفہ میں ارشاد ہوتا ہے؛ «اَلَّذینَ اِن مَکَّنّهُم فِی الاَرضِ اَقامُوا الصّلوةَ وَ ءاتَوُا الزَّکوةَ وَ اَمَروا بِالمَعروفِ وَ نَهَوا عَنِ المُنکَر»(۹) یعنی روئے زمین پر صاحبان اختیار سے اللہ تعالی کا مطالبہ یہ ہے۔ پہلا مطالبہ ہے؛ «اَقامُوا الصّلوة» پھر اس کے بعد «وَ ءاتَوُا الزَّکوةَ وَ اَمَروا بِالمَعروفِ وَ نَهَوا عَنِ المُنکَرِ وَ للهِ‌ عاقِبَةُ الاُمور» (۱۰) ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اگر ہم عدل پر توجہ دے رہے ہیں تو ہمیں حق حاصل ہے کہ اقامہ نماز کے سلسلے میں، نماز کی اہمیت کے سلسلے میں یا زکات کے بارے میں یا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں غفلت برتیں۔ بلکہ «اَنِ اعبُدُوا اللهَ وَ اجتَنِبُوا الطّاغوت» (۱۱) قرآن میں یہ لفظ اور یہ مفہوم کئی بار دہرایا گیا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے پیغمبروں کو طاغوت سے اجتناب اور بندگی پروردگار کا درس دینے کے لئے بھیجا ہے۔ بنیادی کام یہ ہے۔ یا پھر اللہ تعالی نے سورہ شوری کی آیہ شریفہ میں حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسی اور بقیہ انبیاء کو جو ہدایت کی ہے کہ اَن اَقیمُوا الدّین (۱۲) وہاں اقامہ دین مد نظر ہے۔ یعنی مکمل دین نافذ ہونا چاہئے؛ وَ لاتَتَفَرَّقوا فیهِ کَبُرَ عَلَی المُشرِکینَ ما تَدعوهُم اِلَیهِ اللهُ یَجتَبی اِلَیهِ مَن یَشآءُ وَ یَهدی اِلَیهِ مَن یُنیب (۱۳) یعنی کلّ دین، دین کے تمام ارکان اور تمام اجزاء پر توجہ دی گئی ہے۔ اس روش اور اس طرز عمل یعنی دین کے مکمل طور پر اور تمام اجزاء و ارکان سمیت نفاذ کے مخالف ہیں دنیا کے سرکش افراد، مستکبرین عالم؛ کَبُرَ عَلَی المُشرِکینَ ما تَدعوهُم اِلَیه (۱۴) اے رسول جس کی دعوت آپ دے رہے ہیں وہ مشرکین کے لئے بہت گراں ہے۔ یا پھر سورہ احزاب کے آغاز میں آیہ شریفہ میں ارشاد ہوتا ہے؛ یاَ ایُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللهَ وَ لا تُطِعِ الکفِرینَ و المنِفقینَ اِنَّ اللهَ کانَ عَلیمًا حَکیمًا (۱۵) یعنی اللہ تعالی علیم بھی ہے اور تمام امور دنیا کے تمام اجزاء و ذرات اور ان ذرات کے جملہ امور کا علمی احاطہ رکھتا ہے، اسی طرح اللہ حکیم بھی ہے؛ بڑے حکیمانہ انداز میں اس مجموعے کے اندر آپ کے راستے کو اس نے معین کر دیا ہے جس پر آپ کو چلنا ہے۔ وَ اتَّبِع ما یوحی‌ اِلَیکَ مِن رَبِّکَ اِنَّ اللهَ کانَ بِما تَعمَلونَ خَبیرًا * وَ تَوَکَّل عَلَی اللهِ و کَفی‌ بِاللهِ وَکیلًا (۱۶) اے نبی آپ کے اس عمل کے خلاف دشمنیاں سامنے آئیں گی۔ تو قضیہ یہ ہے۔
اسلامی نظام جس کے ہم دعویدار ہیں اور جس کے نفاذ کے لئے کوشاں ہیں، اسلامی نظام سے مراد ملک کے اندر موجود وہ تمام صورتیں ہیں جو عوام الناس اور حکام کی عمومی نقل و حرکت کو منعکس کرتی ہیں۔ ہم انہی کو نظام کہتے ہیں۔ وہ تمام چیزیں جو عوام اور عہدیداران کے عمومی فعل و عمل اور نقل و حرکت کا باعث بنتی ہیں، ان کی مجموعی شکل کو اسلامی نظام کہا جاتا ہے۔ وہ نظام اسی وقت حقیقی معنی میں اسلامی ہوگا جب اس میں اسلام کے تمام اجزاء و ارکان محفوظ ہوں، اس میں اسلام کی ظاہری صورت اور عملی سیرت دونوں کی پاسداری کی جائے۔ ظاہری صورت سے مراد یہی ہماری باتیں، بیان اور سرگرمیاں ہیں جو ہم انجام دیتے ہیں۔ یہ ظواہر ہیں۔ سیرت اسلام یہ ہے کہ ہم ایک ہدف کو، ایک نصب العین کو، ایک منزل کو مد نظر رکھیں، معین کریں اور پھر اس منزل تک رسائی کے لئے منصوبہ بندی کریں۔ اس پیش قدمی کے لئے کام کریں، آگے بڑھیں، اپنی تمام توانائیوں کے ساتھ گامزن ہو جائیں۔ ایسی صورت میں اسلامی سیرت کی پاسداری بھی ہو جائے گی اور اسے تکامل بھی حاصل ہوگا۔ یعنی صرف ایک حد پر جاکر ٹھہر نہیں جائے گی۔ تو ان اہداف تک رسائی کے لئے ہمیں اس منصوبے کی ضرورت ہے۔
ہم آج اسلامی ںظام بلکہ واضح طور پر یوں کہیں کہ اسلامی جمہوری نظام کے مخالفین اور استکباری طاقتوں کی زبان سے جو چیز سن رہے ہیں اسے وہ 'روش کی تبدیلی' کا نام دیتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ ہم نظام تبدیل کرنا نہیں چاہتے ہم روش اور طرز سلوک بدلنا چاہتے ہیں۔ نظام کی تبدیلی اور روش کی تبدیلی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ بعینہ وہی چیز ہے۔ اس سے مراد ہے اسلامی سیرت کی تبدیلی، یہی روش کی تبدیلی ہے۔ روش کی تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ آپ نصب العین کی جانب پیش قدمی کے عمل میں جن لوازمات اور تقاضوں کی پابندی کرتے ہیں، انہیں ترک کر دیجئے، ان پر سمجھوتا کر لیجئے اور ان پر اتنی توجہ نہ دیجئے۔ یہ ہے روش اور طرز سلوک کی تبدیلی کا مفہوم۔ یعنی وہی چیز جو بعض بیانوں اور تحریروں میں دینداری کی کمترین سطح کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ اگر اعلی اہداف و مقاصد میں کمی کی جائے تو یہ دینی سیرت کی نابودی ہے۔ کمترین دینداری کا مطلب دین کو حذف کر دینا ہے۔
اس صورت حال میں ہمارا ہدف اور حتمی طرز عمل یہ ہونا چاہئے کہ اسلام کامل کی فکر میں لگے رہیں۔ یعنی اس کوشش میں رہیں کہ واقعی جہاں تک ہماری توانائي میں ہے ہم کام کریں اور ہماری توانائی اور طاقت میں جو نہیں ہے اللہ نے ہمیں اس کا حکم بھی نہیں دیا، ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے اور ہمارا ہدف یہ ہونا چاہئے کہ ہمارے معاشرے میں پورا اور کامل اسلام جامہ عمل پہنے۔ جب ہمارا ہدف یہ ہو تو فورا ایک مسئلہ پیش آئے گا جسے اسلاموفوبیا کہتے ہیں، آج دنیا میں یہ بہت عام ہے۔ میرے خیال میں اسلاموفوبیا کے مسئلے میں ذرہ برابر دفاعی رخ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بیشک اسلاموفوبیا موجود ہے، کچھ افراد ہیں جو عوام الناس کو، معاشروں کو، نوجوانوں کو اور اذہان کو اسلام سے ہراساں کر رہے ہیں۔ یہ کون افراد ہیں؟ جب ہم باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ وہی مٹھی بھر توسیع پسند اور سرکش افراد ہیں جنہیں اسلام کی حکمرانی سے خوف ہے۔ جو سیاسی اسلام سے ڈرتے ہیں، معاشروں کے متن زندگی میں اسلام کی غلبے سے خائف ہیں۔ ان کے خوف کی وجہ یہ ہے کہ ان کے مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے۔ اسلاموفوبیا در حقیقت اسلام کے مد مقابل طاقتوں کی سراسیمگی اور بدحواسی کی ترجمانی ہے۔ حقیقت ماجرا یہ ہے۔ یعنی یہاں آپ نے محنت کی، ایرانی عوام نے جانفشانی کی، زحمتیں اٹھائیں، جد و جہد کی اور اسلامی نظام کو اقتدار تک پہنچایا، پھر اسے مستحکم بنایا، اس کی بنیادوں کو مضبوط کیا، گوناگوں حوادث کے سامنے اسے تحفظ بخشا، روز بروز اس کی قوت و طاقت میں اضافہ کیا، یہ چیز دنیا کی سرکش طاقتوں کو خوفزدہ کر رہی ہے۔ آج جو اسلاموفوبیا ہے وہ در حقیقت ان کی گہری تشویش اور فکرمندی کی جھلک ہے، ان کی سراسیمگی کی علامت ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ آگے بڑھنے میں کامیاب ہوئے ہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کامیابی کے ساتھ اس منزل تک پہنچ چکا ہے۔
البتہ اس سب کے بعد بھی انہوں نے اسلام کو خوفناک شئے بناکر پیش کرنے کی جو کوشش کی ہے اور جو اقدامات انجام دئے ہیں ان کا الٹا نتیجہ نکلے گا۔ اس طرح سے کہ وہ اسلام کو نوجوانوں کے تجسس اور سوال کا مرکز بنا رہے ہیں۔ یعنی دنیا کے عام انسانوں کو اگر ذرا سی توجہ دلائی جائے، انہیں ذرا سا متنبہ کر دیا جائے تو لوگ اس سوچ میں پڑ جائیں گے کہ صیہونی ذرائع ابلاغ میں، طاقتور اور دولتمند حلقوں سے وابستہ ٹی وی چینلوں میں اسلام پر جو یہ یلغار ہو رہی ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ اپنے آپ میں خود ہی سوال کا مقدمہ ہے اور ہماری نظر میں یہ سوال بڑی برکتوں کا حامل ہے، یہ سوال چیلنج کو موقع میں تبدیل کر سکتا ہے۔
ہمیں محنت کرنی چاہئے۔ یعنی اسلامی جمہوری نظام میں اہم اور بڑا کام یہ ہو سکتا ہے کہ ہم سب، جو جس جگہ پر بھی ہے اور اس میدان میں کچھ کام کرنے کی توانائی رکھتا ہے، سارے لوگ کوشش کریں کہ حقیقی اسلام کو پیش کیا جائے، مظلوموں کے حامی اور ظالمین کے مخالف اسلام کو دنیا میں متعارف کرایا جائے۔ یہی نوجوان جو یورپ میں ہے، امریکا میں ہے یا دوسرے دور دراز کے علاقوں میں ہے، اسلام کی اس خصوصیت سے وجد میں آ جائے گا۔ اگر اسے معلوم ہو جائے کہ اسلام اس قوت، اس جذبے اور اس فکر کا نام ہے جو ظالمین اور ستمگروں کے خلاف اور مظلومین کے حق میں کام کرتی ہے، اس دین کے پاس باقاعدہ لائحہ عمل موجود ہے اور اسے وہ اپنا فریضہ سمجھتا ہے تو اس نوجوان کے اندر تلاطم برپا ہو جائے گا۔ معقولیت کا طرفدار اسلام، عمیق و ادق نظریات کا حامل اسلام، فکر و تدبر کی دعوت دینے والا اسلام، وہ اسلام جس نے قرآن کریم میں عقل و فکر و لبّ (17) کو اتنی اہمیت دی ہے، ہمیں پیش کرنا چاہئے۔ معقولیت کو فروغ دینے والا اسلام، اشرافیہ کلچر کی مخالفت کرنے والا اسلام، رجعت پسندی کا مخالف اسلام، اپنے توہمات اور خرافاتی باتوں کا فکری طور پر اسیر ہونے سے روکنے والا اسلام، کیونکہ کچھ لوگ ہیں جو انہیں چیزوں کو اسلام کا نام دیکر پیش کر رہے ہیں، ہمیں حقیقی اور خالص اسلام دکھانا ہے۔ ہمیں بتانا چاہئے کہ یہ ہے اسلام، لا ابالی پن کے بجائے فرائض پر کاربند رہنے کا درس دینے والا اسلام۔ جی ہاں، آج بے شمار ادارے نوجوانوں کو لا ابالی پن، وارفتگی اور ہر نظم و ضبط سے لا تعلقی کی دعوت دے رہے ہیں۔ جس اسلام نے انسان کو فرض شناس قرار دیا ہے وہ انسان سے فرائض پر عمل آوری چاہتا ہے۔ متن زندگی میں نمایاں اسلام، سیکولر اسلام کے برخلاف ہے۔ سیکولر اسلام سیکولر عیسائیت کی مانند ہے جو کلیسا کے ایک گوشے میں جاکر خود کو مقید کر لیتا ہے، عام زندگی کے پلیٹ فارم پر اس کا کوئی نام و نشان نہیں ہوتا۔ سیکولر اسلام بھی ایسا ہی ہے۔ آج ایسے بھی افراد ہیں جو الگ تھلگ ہو جانے والے اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔ ایسے اسلام کی دعوت جس کا لوگوں کی زندگی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ اسلام لوگوں سے بس یہ چاہتا ہے کہ وہ مسجد کے ایک گوشے میں یا گھر کے اندر کچھ عبادت وغیرہ کر لیا کریں۔ ہمیں زندگی کے پلیٹ فارم پر پوری شدومد کے ساتھ موجود اسلام سے لوگوں کو متعارف کرانا چاہئے، کمزوروں کے سلسلے میں سراپا رحمت اسلام اور مستکبرین سے جہاد اور مقابلے کی دعوت دینے والے اسلام کا تعارف کرانا چاہئے۔ میرے خیال میں یہ ایک فریضہ ہے جو ہم سب کے دوش پر ہے۔ ہمارے تشہیراتی اداروں، ہمارے علمی اداروں، ہمارے دینی علوم کے مراکز سب کو چاہئے کہ اس ہدف کے لئے کام کریں۔ اسلام پر جو آج یہ شدید یلغار ہے اس کی وجہ یہی ہے۔ جن لوگوں کی طرف سے یہ یلغار ہے، واضح ہے کہ یہ کون لوگ ہیں، کون سے ادارے ہیں اور کون سے حلقے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ سب سیاسی و اقتصادی قوت رکھنے والے ایک طاقتور گروپ سے وابستہ ہیں، جس میں بیشتر یہودی صیہونی ہیں اور اگر یہودی صیہونی نہیں تو غیر یہودی صیہونی ہیں۔ آج دنیا میں غیر یہودی صیہونی بھی موجود ہیں۔ ان کے مقابلے میں ہمیں چاہئے کہ اس موقع کا بخوبی استعمال کریں اور دنیا کے لوگوں کے ذہن میں اور نوجوانوں کے ذہن میں یہ سوال ڈالیں کہ اسلام پر اتنی شدید یلغار کی وجہ کیا ہے؟ اس بارے میں آپ سوچئے اور غور کیجئے! اس کے بعد ہم لوگوں کو حقیقی اسلام سے روشناس کروائیں!
میرے خیال میں ہم علمائے دین، اہل علم حضرات اور وہ لوگ جو دینی امور میں مصروف عمل ہیں، اپنے تمام مسائل میں اس چیز کو اپنا ہدف بنا لیں، یعنی مکمل اسلام کا نفاذ اور دشمنیوں کا اس انداز سے مقابلہ، تو ہمیں بڑی کامیابیاں مل سکتی ہیں۔
ہمارے سامنے عالمی چیلنج بھی ہیں۔ میرا یہ کہنا ہے کہ عالمی چیلنجوں کے بارے میں سطحی انداز فکر سے بچنا چاہئے۔ آج امریکا کے ساتھ ہمارے کچھ مسائل ہیں یا بعض یورپی ملکوں سے ہمارے کچھ چیلنجز ہیں۔ آج سب سے واضح اور نمایاں چیلنج ہے ایٹمی معاملہ۔ دوسرے بھی متعدد مسائل ہیں جو ان ملکوں اور ہمارے درمیان چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہمیں دیکھنا چاہئے اور غور کرنا چاہئے کہ اس مسئلے کی جڑ کیا ہے۔ ہمیں تہہ تک پہنچنا چاہئے سطحی سوچ سے بچنا چاہئے۔
جن مشکلات کے ذمہ دار ہم خود ہیں ان کا بھی باریک بینی سے تجزیہ کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر آپ دیکھئے کہ پابندیوں سے ہمیں نقصان پہنچا، ہماری معیشت کو ہمارے دیگر امور کو نقصانات پہنچے۔ یہ نقصانات کیوں پہنچے؟ اگر انسان اس کا باریک بینی سے جائزہ لے تو نظر آئے گا کہ یہ نقصانات تیل پر ہمارے انحصار کی وجہ سے پہنچے ہیں، یا اقتصادی میدان کے مرکز میں عوام کی عدم موجودگی یعنی معیشت کو 'اسٹیٹ اکانومی' بنا دینے کی وجہ سے پہنچے ہیں۔ اگر ہم جائزہ لیں اور اصلی وجوہات کی نشاندہی کر لے جائیں اور ان اصلی وجوہات کا تدارک کر لیں تو پابندیاں بے اثر ہو جائیں گی یا ان کا اثر بہت محدود ہو جائے گا۔ دشمن اگر ہم پر پابندی لگانے میں کامیاب ہو جاتا ہے، ہمارے تیل کو نشانہ بناتا ہے اور اس سے ہمیں تکلیف پہنچتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے تیل کو اپنی زندگی میں اور اپنی معیشت میں بہت بنیادی مقام دے رکھا ہے۔ دشمن جب ہماری حکومت کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو مختلف حکومتی اداروں پر پابندیاں لگاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ادارے حکومت سے وابستہ ہیں۔ ہم اقتصادی میدان میں گوناگوں عوامی طبقات کو شامل کر سکتے تھے۔ ہم نے انقلاب کے ابتدائی ایام میں غلطیاں کیں اور پھر ان غلطیوں پر اصرار کیا کہ سب کچھ حکومت کے ہاتھ میں ہونا چاہئے، ضروریات زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بھی ہم نے حکومت کے سپرد کر دیا، تو اس کا نتیجہ یہی مشکلات ہیں۔ ان مشکلات کو حل کرنا چاہئے۔
میرے خیال میں اگر اس نہج پر سوچا جائے اور اس طرح کام کیا جائے تو مشکلات حل ہو جائیں گی۔ یعنی ہم مشکلات کے سلسلے میں مد مقابل فریق کی محبت اور مہربانی کے محتاج نہیں رہیں گے۔ ہمارے دشمنوں اور استکباری طاقتوں کے ساتھ ہمارے جو چیلنجز ہیں اس کی فضا پر ہم واقعی اثر انداز ہو سکتے ہیں، منجملہ ان مذاکرات کے سلسلے میں بھی جو اس وقت جاری ہیں۔ سر دست یہی مذاکرات ہماری سفارتی سرگرمیوں پر اور ہماری خارجہ پالیسی پر سب سے زیادہ اثر انداز ہیں۔ یہی بات، یہی معیار اور یہی منطقی روش میرے خیال میں ان مذاکرات کے سلسلے میں انتہائی نتیجہ خیز ثابت ہوگی۔
میں یہیں یہ بھی عرض کر دوں کہ ایٹمی مذاکرات کے لئے صدر محترم نے جس ٹیم اور وفد کو مامور کیا ہے، اس کے ارکان امین اور بڑے اچھے افراد ہیں۔ بعض کو ہم قریب سے جانتے ہیں اور واقعی معتمد افراد ہیں۔ بعض دیگر کو ہم ان کی گفتار اور ان کی کارکردگی کے توسط سے بالواسطہ طور پر پہچانتے ہیں۔ یہ امین بھی ہیں، ہمدرد بھی ہیں، محنت کر رہے ہیں، کام کر رہے ہیں۔ اس چیز کو منصفانہ طور پر بیان کرنا ضروری ہے۔ البتہ باوجود اس کے کہ یہ احباب اور یہ برادران عزیز بہت اچھے افراد ہیں، امین افراد ہیں اور ہمیں معلوم ہے کہ ملک کی بھلائی کے لئے کام کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود مجھے تشویش ہے۔ کیونکہ مد مقابل فریق، چالباز ہے۔ جو چیزیں عام طور پر آنکھوں سے پوشیدہ رہ جاتی ہیں، ان افراد اور حلقوں کی چالیں اور عیاریاں ہیں جو بڑے 'بھاری بھرکم ظاہر' کے مالکے ہوتے ہیں۔ انسان سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ لوگ بھی چالبازی کریں گے۔ آج امریکا بھاری بھرکم ظاہر رکھتا ہے۔ مالیاتی طاقت، اقتصادی طاقت، سیاسی طاقت، عسکری طاقت، سیکورٹی کی طاقت، ایسے میں غفلت ہو جاتی ہے اس حقیقت کی طرف سے کہ یہی صاحب قوت سسٹم، کمزور انسانوں کے خلاف موذیانہ کارروائیوں میں مصروف ہو سکتا ہے۔ جبکہ وہ حقیقت میں مصروف ہے، چالبازیاں کرتا ہے، فریب دیتا ہے، پیٹھ میں خنجر مارتا ہے، یہ ہے صورت حال ہے۔ ہمیں اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ چونکہ ان کے پاس ایٹم بم ہے، طاقتور فوجی وسائل ہیں تو انہیں کسی کو دھوکہ دینے اور فریب میں رکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے، اتفاق سے انہیں اس کی ضرورت بھی ہے اور وہ اس پر عمل بھی کر رہے ہیں، واقعی دھوکا دیتے ہیں۔ یہ چیز ہماری تشویش کا باعث ہے۔ ہمیں دشمن کی چالوں کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہئے۔ جب بھی مذاکرات کے اختتام کے لئے طے شدہ ڈیڈ لائن نزدیک آتی ہے، مد مقابل فریق کا لہجہ بالخصوص امریکیوں کا لہجہ زیادہ تند، زیادہ سخت اور زیادہ پرخاش گرانہ ہو جاتا ہے۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ یہ ان کا حربہ ہے، یہ ان کی چال اور فریب ہے۔
آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ جو بیان دیتے ہیں بڑے پست ہوتے ہیں، بددل کر دینے والے بیان ہوتے ہیں۔ انہی ایام میں جب ایک صیہونی مسخرہ وہاں گيا اور اس نے خرافات گوئی کی (18) تو امریکی حکام نے خود کو لا تعلق ظاہر کرنے کے لئے بیان دئے۔ لیکن انہوں نے ایران کو بھی مورد الزام ٹھہرایا، ایران پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگایا۔ یہ بات مضحکہ خیز ہے۔ آج دنیا میں سب دیکھ رہے ہیں کہ وہ طاقت اور وہ حکومت جو خبیث ترین دہشت گردوں یعنی انہیں داعش وغیرہ کی حمایت کرتی رہی ہے، جس نے انہیں وجود بخشا ہے اور اب بھی جب وہ بظاہر کہتے ہیں کہ ہم ان کا مقابلہ کر رہے ہیں، ان کی حمایت سے باز نہیں آتی، امریکا کی حکومت اور اس کی اتحادی حکومتیں ہیں۔ علاقے میں جو لوگ اب بھی امریکا کو گلے لگائے ہوئے ہیں، امریکی جن کی مدد کر رہے ہیں، پشت پناہی کر رہے ہیں، تعاون کر رہے ہیں، وہی دہشت گردی اور خبیث ترین اور خوں آشام دہشت گردوں کے حمایتی بنے ہوئے ہیں۔ امریکا اس حکومت کی بھی جو رسمی طور پر اپنے دہشت گرد ہونے کا اعتراف کرتی ہے یعنی جعلی صیہونی حکومت، حمایت کر رہا ہے، آشکارا حمایت کر رہا ہے۔ دہشت گردی کی حقیقی مصداق یہی حکومت ہے۔ دہشت گردی کی حمایت کی بدترین شکل یہی ہے جس کے وہ مرتکب ہو رہے ہیں، اوپر سے وہ اسلامی جمہوریہ پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کی حامی ہے۔ ان باتوں پر توجہ دینی چاہئے۔
یہی خط جو سینیٹروں نے لکھا، اس خط میں انسان واقعی گوناگوں باتیں دیکھ سکتا ہے، یہ خط امریکی نظام میں سیاسی اخلاقیات کے انحطاط کی ایک نشانی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ سقوط کے مرحلے میں ہیں۔ کیونکہ دنیا کی تمام حکومتیں بین الاقوامی سطح پر مسلمہ اور معتبر قوانین کے اعتبار سے اپنی ذمہ داریوں کی پابند رہتی ہیں۔ اگر کسی ملک میں کوئی حکومت اقتدار میں ہے، وہ کوئی معاہدہ کرتی ہے اور پھر وہ حکومت ختم ہو جاتی ہے اور ایک نئی حکومت تشکیل پاتی ہے تو وہ معاہدہ اپنی جگہ قائم رہتا ہے، معاہدے کو کالعدم نہیں کیا جاتا۔ ان سینیٹر حضرات نے صریحی طور پر اعلان کر دیا کہ اگر امریکا کی موجودہ حکومت اقتدار سے ہٹی تو جو معاہدہ آپ کے ساتھ وہ کرے گی، جو وعدہ کرے گی وہ کالعدم ہو جائے گا۔ یہ سیاسی اخلاقیات کے انحطاط کی بدترین منزل ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ نظام ایسا نظام ہے جو واقعی اس قابل نہیں ہے کہ جاری رہ سکے۔ یعنی یہ سسٹم بکھراؤ سے دوچار ہے کہ انسان اس کے اندر ان چیزوں کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ اور اس پر طرہ یہ ہے کہ فرماتے ہیں؛ ہم ایرانیوں کو سکھانا چاہتے ہیں، سمجھانا چاہتے ہیں کہ ہمارے قوانین کیا ہیں؟ ظاہر ہے ہمیں ان کے درس کی ضرورت نہیں ہے۔ معاہدہ ہو گیا تب بھی ہم خوب جانتے ہیں کہ کس طرح عمل کرنا ہے کہ وہ بعد میں اسلامی جمہوریہ ایران کو کہیں پھنسا نہ پائیں۔ اسلامی جمہوری نظام کے حکام اس سے واقف ہیں کہ کیسے کام کرنا ہے، ان کے سبق کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ ہہرحال ان کا طرز عمل یہی ہے، یہ واقعی انحطاط اور سقوط کی علامت ہے۔
بہرحال ان تمام کاموں میں جو ہم انجام دے رہے ہیں، اپنی تمام تر مساعی میں، ان فیصلوں میں جو اقتصادی امور کے بارے میں ہم کر رہے ہیں اور ثقافتی مسائل کے بارے میں ہم جو منصوبے بنا رہے ہیں، اگر زندگی رہی اور سال نو کا موقع آیا تو کچھ باتیں ہیں جنہیں اس وقت بیان کروں گا، تو ان تمام امور میں ہمیں ہرگز یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ ہمارا فریضہ ہے اسلام کو مکمل طور پر نافذ کرنا، ہمیں اسلام کامل کی طرف بڑھنا ہے۔ یہ نہ ہو کہ کسی معاملے میں کامیاب ہونے کے لئے ہم اسلامی اہداف و مقاصد میں کمی کرنا شروع کر دیں۔ نہیں، ہماری کامیابی اور ہماری پیشرفت کا دار و مدار اس پر ہے کہ بفضل پروردگار ہم اسلام کامل کو جامہ عمل پہنائیں۔ اگر ہم اس میں کامیاب ہو گئے تو اللہ تعالی بھی ہماری مدد کرے گا۔ یقینا نصرت خداوندی کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم دین الہی کی نصرت کریں؛ اِن تَنصُرُوا اللهَ یَنصُرکُم (19) اس سے بھی زیادہ واضح اور آشکار اور کیا بات ہوگی۔ ؛ «اِن تَنصُرُوا الله» یعنی دین خدا کی نصرت کیجئے؛ اِن تَنصُرُوا اللهَ یَنصُرکُم وَ یُثَبِّت اَقدامَکُم (20) وَ لَیَنصُرَنَّ اللهُ مَن یَنصُرُه (21) یہ ایسی چیزیں ہیں جنہیں انتہائی تاکید کے ساتھ بیان کیا گيا ہے۔ یہ اللہ تعالی کے وعدے ہیں ان سے بے اعتنائی نہیں برتنا چاہئے؛ اَلظّآنّینَ بِاللهِ ظَنَّ السَّوء (22) اگر کوئي انسان وعدہ الہی کو ناقابل ایفاء سمجھے تو اللہ تعالی کے سلسلے میں یہ بہت بڑا سوء ظن ہے۔ اللہ تعالی نے سورہ 'انّا فتحنا' میں ان لوگوں کو اپنے کو غیظ و غضب کا حقدار قرار دیا ہے جو اس طرح سوء ظن رکھنے کی روش اپناتے ہیں (23)۔
دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو اور ہمیں یہ توفیق کرامت فرمائے کہ اس سلسلے میں جو فریضہ ہے اس پر عمل کر سکیں، برکات الہیہ جو اس طرح کے عمل پر عطا ہوتی ہیں، ہمارے اور ہماری قوم کے شامل حال ہوں۔ دعا کرتے ہیں کہ خداوند عالم ہمارے عظیم امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی روح کو شاد کرے، شہدا کی ارواح طیبہ کو بھی شاد کرے جنہوں نے یہ راستہ ہمیں دکھایا اور ہمارے سامنے یہ راستہ کھولا اور ہمیں اس جادے پر گامزن کر دیا۔

و السّلام ‌علیکم ‌و رحمة الله ‌و برکاته‌

1) قائد انقلاب اسلامی سے 'مجلس خبرگان' (ماہرین کی کونسل) کے اراکین 19 اور 20 اسفند مطابق 10 اور 11 مارچ کو منعقد ہونے والے سالانہ اجلاس کے بعد ملاقات کے لئے گئے۔ ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل ماہرین کی کونسل کے نو منتخب سربراہ آیت اللہ محمد یزدی نے اجلاس کے دستور العمل کی تفصیلات بیان کیں۔
2) ماہرین کی کونسل کے سربراہ نے کہا کہ تازہ واقعات و تغیرات سے کونسل کے اعضا کا باخبر رہنا اس سالانہ اجلاس کا اہم مقصد ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اجلاس کے چار سیشن ہوئے جو دو حصوں پر مشتمل تھے۔ پہلے حصے میں در پیش مسائل سے متعلق افراد (وزیر خارجہ اور پاسداران انقلاب اسلامی فورس کے سربراہ) کو تقریر کی دعوت دی گئی۔ جبکہ یورپ میں اسلام کی صورت حال، ایران اور دیگر ملکوں میں حلال غذاؤ کے اسٹینڈرڈ اور ملک کی ثقافتی و اقتصادی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔
3) ماہرین کے سابق صدر آیت آیت اللہ محمد رضا مہدوی کنی مرحوم
4) قرآن کی متعدد آیات ایسی ہیں جن میں اس بات کی مذمت ہوئی ہے کہ انسان دین کے بعض احکامات پر تو عمل کرے مگر بعض دیگر کو ترک کر دے۔
5) سورہ حجر آیت نمبر 91، وہی لوگ جنہوں نے قرآن کو اجزاء میں بانٹ دیا ( ان میں بعض پر عمل کیا اور بعض کو ترک کر دیا)
6) سورہ نساء آیت نمبر 150 کا ایک حصہ؛ ( اور کہتے ہیں؛ ہم بعض پر ایمان رکھتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں)
7) سورہ حدید آیت نمبر 25 کا ایک حصہ؛ ( بیشک ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی نشانیوں کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔)
8) پہلی نظر میں
9) سورہ حج آیت نمبر 41 کا ایک حصہ؛ (وہی لوگ جنہیں زمین میں اگر ہم استطاعت دے دیں تو نماز قائم کرتے ہیں، زکات دیتے ہیں، اچھے کاموں کا حکم دیتے ہیں اور برے کاموں سے روکتے ہیں۔)
10) سورہ حج آیت نمبر 41 کا ایک حصہ ( اور تمام کاموں کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے)
11) سورہ نحل آیت نمبر 36 کا ایک حصہ (تاکہ وہ لوگ کہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔)
12) سورہ شوری آیت نمبر 13 کا ایک حصہ؛ (دین قائم کرو۔)
13) سورہ شوری آیت 13 کا ایک حصہ ( اور ان میں تفرقہ نہ ڈالو مشرکین کو وہ چیز جس کی آپ انہیں دعوت دیتے ہیں، ان پر گزاں گزرتی ہے۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنے راستے کی ہدایت فرماتا ہے، جو بھی توبہ کے دروازے سے داخل ہوتا ہے اللہ کی سمت جانے والے راستے کو طے کرتا ہے۔)
14) سورہ شوری، آیت نمبر 13 کا ایک حصہ؛ (وہ چیز جس کی آپ انہیں دعوت دیتے ہیں، ان پر گزاں گزرتی ہے۔)
15) سورہ احزاب آیت نمبر 1 ( اے پیغمبر آپ اللہ کی مرضی کو دیکھئے کفار اور منافقین کی بات نہ مانئے، کہ خداوند عالم دانا و حکیم ہے۔)
16) سورہ احزاب، آیت 2 اور 3؛ (آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر جو وحی نازل ہوتی ہے، اس کی پیروی کیجئے، اللہ آپ کے تمام اعمال سے آگاہ ہے۔ اللہ پر بھروسہ کیجئے بھروسے کے لئے اللہ ہی کافی ہے۔ )
17) عقل، خرد
18) صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو کے دورہ امریکا اور امریکی کانگریس سے خطاب کی جانب اشارہ
19) سورہ محمد، آیت نمبر 7 ؛ (اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو اللہ تمہاری نصرت کرے گا۔)
20) سورہ محمد آیت 7؛ (تمہارے قدموں کو ثبات عطا کرے گا۔)
21) سورہ حج، آیت نمبر 40 کا ایک حصہ؛ (بیشک اللہ اس کی مدد کرے گا جو دین خدا کی مدد کر رہا ہے۔)
22) سورہ فتح، آیت نمبر 6 کا ایک حصہ؛ (اللہ کے بارے میں سوء ظن نہ رکھو)
23) سورہ فتح، آیت نمبر6 کا ایک حصہ؛ (اور تاکہ منافق مرد اور عورتیں اور مشرک مرد اور عورتیں جنہوں نے اللہ کے سلسلے میں سوء ظن کا ارتکاب کیا ہے ان پر بری گردش ہے اور اللہ نے ان پر غضب نازل کیا، ان پر لعنت کی اور ان کے لئے دوزخ تیار کر رکھا ہے اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔)