اپنے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے شعری محاسن کا جائزہ لیا اور موجودہ دور میں شعر و ادب کی صورت حال کا ماضی کے ادوار سے موازنہ کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فارسی شاعری کے معروف انداز 'سبک ہندی' کے شعراء کی کاوشوں پر روشنی ڈالی اور خطباء و ذاکرین کو اہم امور کے تعلق سے ہدایات دیں۔

قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

پہلی بات تو یہ عرض کر دوں کہ دوستوں نے جو اشعار پڑھے، ہم سب محظوظ ہوئے۔ خصوصا بعض مدحیہ ترانے شاعری کے فروغ و ارتقاء کی راہ میں خوشی اور بالیدگی عطا کرنے والے تمام معیارات اور میزانوں کے حامل تھے۔ دوسری بات یہ کہ انسان اس طرح کی نشست اور بعض دوسری نشستوں میں بھی جب اس قدر قوی و پختہ صلاحیتوں کا مشاہدہ کرتا ہے تو امید بندھ جاتی ہے۔ میں پیشینگوئی کر سکتا ہوں کہ مستقبل میں وہ دن زیادہ دور نہیں ہیں کہ ہم ایک بار پھر شاعری اپنے پورے اوج پر دیکھیں گے۔ انہی نوجوان صلاحیتوں کے پھلنے پھولنے کی دیر ہے۔ انہیں آگے بڑھنا اور تکمیل کی منزل تک پہنچنا ہی چاہئے۔ شاعری میں اور زیادہ پختگی اور مزید گہرائی آنا چاہئے اور یقینی طور پر آئے گی۔ ان شاء اللہ ہمارے اسی دور میں ایک بلند و بالا عمارت کھڑی ہوگي جو ہمیں اس دور کی یاد دلائے گی جب ہمارے ملک میں شاعری اپنے اوج پر تھی۔ چونکہ شاعری تاریخ کے مختلف ادوار میں عروج و تنزل سے گزرتی رہی ہے اور بعض زمانوں میں شاعری اپنے اوج پر رہی ہے۔ اب ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں کہ ہم مستقبل قریب میں اس کا مشاہدہ کریں گے۔لیکن جو بات مناسب معلوم ہوتی ہے کہ میں اس نشست میں نصیحت کے عنوان سے آپ کی خدمت میں عرض کروں وہ چند نکتوں پر مشتمل ہے۔
ایک نکتہ یہ ہے کہ یہ شاعری جسے آپ نے 'آئینی شاعری' کا نام دیا ہے اور یہ نام دینا نامناسب بھی نہیں ہے یعنی آپ لوگ مذہبی شاعری کو جو 'آئینی شاعری' کے عنوان سے پیش کرنا چاہتے ہیں، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ یہ اپنے خداداد شاعرانہ ذوق کو بروئے کار لانے کا بہترین میدان اور ایک بڑا الہی عطیہ ہے۔ یہ ذوق ایک عظیم نعمت ہے جو خدا کسی کسی کو ہی عطا کرتا ہے۔ اس نعمت کا کفران (اور ناشکری) نہیں کرنا چاہئے۔ اس کا شکرانہ یہ ہے کہ اس ذوق سے کام لیکر ہم ایک ایسی چیز پیش کریں جو فکری دنیا اور انسانوں کے لئے مفید ہو نہ یہ کہ جمود پیدا کرنے والی کوئی خشک و بے جان چیز پیش کی جائے۔ ایسا نہیں ہے کہ اپنے سننے والوں کے فائدے اور استفادے سے قطع نظر شاعر خود اپنے دل کی بات اور اپنے احساسات کا اظہار نہ کرے۔ اظہار کرے! اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہم ایک شاعر کو اپنے دل سے اور اپنی واردات قلبی کے بارے میں بات کرنے سے منع کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بات ضرور کہنا چاہتے ہیں کہ تاریخی مناسبتوں اور تبصروں کی منزل میں اگر آپ کی خواہش ہے کہ شاعری میں مفہوم اور معنویت پیدا ہو تو بہترین مطالب و مفاہیم یہی دینی اور مذہبی شاعری سے مربوط مطالب و مفاہیم ہیں، اپنی عظیم وسعتوں اور گہرائیوں کے ساتھ جو ان میں پائی جاتی ہیں۔
حافظ کی غزلوں کے اکثر حصوں میں مذہبی شاعری موجود ہے۔ البتہ میرا یہی خیال ہے کہ حافظ کی تمام غزلیں اس طرح کی نہیں ہیں۔ پھر بھی حافظ کی غزلوں کا ایک بڑا حصہ در اصل اس معنی میں جو ہمارے پیش نظر ہے، مذہبی شاعری سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی ان میں معرفت اور الوہی حقائق کو ایک خاص قالب میں پیش کیا گیا ہے۔ اسی طرح کی صورت مولوی (یعنی مولانا روم) کی مثنوی کی بھی ہے۔ وہ بھی انہی الوہی افکار اور ملکوتی معارف کا ایک خزانہ اور گنجینہ ہے۔ بنابریں یہ سب وہ مفاہیم و مضامین ہیں کہ جن کا بہترین استعمال شاعری میں ہوا ہے۔ یقینا جس وقت انسان شاعری کی تاریخ پر نگاہ ڈالتا ہے دیکھتا ہے یہ احتیاط اور پابندی ہمارے ہر دور کے تمام شعراء کے یہاں نہیں پائی جاتی۔ یعنی اس قیمتی 'گوہر یکدانہ' اور بقول ناصرخسرو در دری کو لوگوں نے کتوں اور گدھوں کے سامنے ڈال دیا، قصیدے کہے اور لایعنی اور مفہوم سے خالی چیزوں سے استفادہ کیا اور بعض لوگوں نے ان سے اپنے مکروہ احساسات اور شہوانی جذبوں کے اظہار میں کام لیا۔ یہ سب حقیقت میں اسراف ہے کہ انسان اپنے شاعرانہ ذوق کو جہاں صرف کرنا چاہئے اس کے بجائے کہیں اور، کسی اور کے لئے استعمال کرے۔ البتہ ہمارے شعراء کے درمیان ایسے شعرا کہ جنہوں نے اس ذوق سے زيادہ سے زيادہ فائدہ اٹھایا اور بہترین اشعار کہے کم نہیں ہیں۔ ہماری تاریخ شاعری کے مختلف ادوار میں ایسے شعراء گزرے ہیں، خود ہمارے زمانے میں بھی پائے جاتے ہیں اور گزشتہ زمانوں میں بھی موجود رہے ہیں، جنہوں نے مختلف سبک و انداز میں شاعری کی ہے۔ قدما کے درمیان سنائی جیسے شاعر اور ناصرخسرو جیسے شاعر گزرے ہیں۔ انہوں نے اس ذوق سے بھرپور استفادہ کیا جیسا کہ انہیں کرنا چاہئے تھا۔ انصاف سے دیکھا جائے تو انہوں نے واقعی استفادہ کیا۔ اسی طرح سعدی گزرے ہیں اور بعد کے زمانوں میں بھی یہی صورت ہے۔ صائب کی مانند شاعر پائے جاتے ہیں۔ یقینا صائب کے یہاں مذہبی قیود اور معانی و معارف سے آزاد اشعار بھی کم نہیں ہیں لیکن معرفت سے سرشار اشعار کی بھی کمی نہیں ہے۔ یہ سب اخلاقی اور عرفانی اشعار ہیں اور وہ بھی اپنی اعلی اور بہترین حدوں پر پہنچے ہوئے کہ جن کے لئے تعریف میں انسان کہہ سکتا ہے کہ غزل اس کو کہتے ہیں اور انہوں نے کہی ہیں۔
بیدل کی بھی یہی صورت ہے ، بیدل کا تقریبا پورا دیوان عرفانی اشعار سے بھرا پڑا ہے۔ میں نے اس سے چند سال قبل مداح سرائی اہل بیت کرنے والے دوستوں سے گزارش کی تھی کہ صائب کے دیوان کا مطالعہ کریں اور ان کے اخلاقی اشعار، معرفتی اور عرفانی اشعار تلاش کریں جن کی تعداد کم نہیں ہے۔ یہ سب بڑے ہی پختہ مضامین ہیں جو دلوں کو منور کر دیتے ہیں۔

در ھیچ پردہ نیست نباشد نوای تو
عالم پر است از تو و خالیست جای تو
ہر چند کائنات گدای در تو اند
ھیچ آفریدہ نیست کہ داند سرای تو

دیکھئے جس وقت ایک مداح اہل بیت اپنی دلکش آواز اور خوبصورت آہنگ میں یہ اشعار کسی مجلس یا محفل میں پڑھتا ہے تو سننے والوں کے دل میں کیا انقلاب پیدا کر دیتا ہے۔ اس طرح کے اشعار سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
میں اس منزل پر یہ بات بھی عرض کر دوں جو میں نے نوٹ بھی کر رکھی ہے لیکن اب اسی جگہ عرض کر دیتا ہوں؛ مداحی کرنے والے بعض حضرات مجھ سے کہتے ہیں کہ: جناب یہ ادق اشعار جب ہم پڑھتے ہیں تو لوگ نہیں سمجھتے۔ چلئے ٹھیک ہے، بعض اشعار واقعی ایسے ہی ہیں، عام لوگوں کی فکری سطح سے بالاتر ہیں۔ یعنی ایک صاحب ذوق ادیب اور شاعر بھی جب غور و فکر کرتا ہے تب جاکر کہیں مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔ میں اس طرح کے اشعار پڑھنے کی سفارش نہیں کر رہا ہوں۔ لیکن ذہن میں رہنا چاہئے کہ لوگوں کی اور آپ کے مخاطب افراد کی فکری سطح آپ کے اشعار سے بلند بھی ہو سکتی ہے۔ اچھے اشعار جن میں خوبصورت الفاظ، اعلی مضامین اور قوی و محکم معارف ہوں، وہ پڑھے جانے چاہئے۔ اس طرح لوگ سننے پر مجبور ہوں گے، جب آپ اچھے اور لطیف انداز میں پڑھیں گے تو لوگ سنیں گے اور قدرتی طور پر ان کی فکری سطح بلند ہوگی۔ ہم کو یہ بات اپنے فرائض میں شامل کر لینا چاہئے۔ یہ حتمی طور پر ہمارا فریضہ ہے کہ لوگوں کی نگاہ، ذوق اور فکر و تدبر کی سطح کو بلند کریں۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ مناجات بھی آئینی شاعری کا ہی ایک حصہ ہے۔ آئینی شاعری صرف مدح و منقبت اور مرثئے تک محدود نہیں ہے۔ مناجات بھی آئینی شاعری کا ہی حصہ ہے۔ مناجات کے لئے اچھے مضامین تلاش کرنے کے لئے بہترین سرچشمہ دعائیں ہیں۔ دوستوں کو چاہئے کہ صحیفۂ سجادیہ سے مانوس ہوں۔ یہ ذوق و شوق اور صلاحیت جو میں آپ کے اندر دیکھ رہا ہوں آپ بڑی خوبی سے صحیفۂ سجادیہ کے مضامین خوبصورت اشعار کے قالب میں ڈھال سکتے ہیں۔ ہمارے ایک پرانے دوست 'بہجتی اردکانی مرحوم' نے تیس چالیس سال پہلے دعائے ابوحمزۂ ثمالی کا ایک حصہ نظم کیا تھا جو انہوں نے مجھے سنایا تھا۔ دعا کا یہ حصہ ایک بڑا ہی سخت و دشوار حصہ ہے جس کی خود عبارت بھی سخت ہے اور مضمون بھی بلند ہے، پھر بھی وہ اس دعا کو نظم کرنے میں کامیاب ہوئے اور دعا کو شعر میں ڈھال دیا۔ میں اس وقت ان نوجوانوں کے اندر وہ ذوق اور وہ صلاحیت دیکھ رہا ہوں جو بہجتی مرحوم کے شاعرانہ ذوق سے بھی بالاتر ہے۔ میں اس وقت اسی بزم میں شاعری کی وہ قوت و صلاحیت دیکھ رہا ہوں جو ہمارے قدما اور ہمارے پیش رؤوں سے زیادہ قوی، زیادہ تیز اور زیادہ محکم ہے۔ آپ سید الشہداء سلام اللہ علیہ کی دعائے عرفہ کے مضامین شعر میں ڈھال سکتے ہیں۔ امام حسین علیہ السّلام کی دعائے عرفہ عاشقانہ ہے۔ حضرت امام سید سجاد علیہ السّلام سے بھی روز عرفہ کی ایک دعا منسوب ہے۔ صحیفۂ سجادیہ میں سینتالیسویں دعا روز عرفہ کی دعا ہے۔ وہ دعا بھی بہت ہی پرمغز اور مضامین سے مملو ہے۔ لیکن امام حسین علیہ السّلام کی دعائے عرفہ عاشقانہ ہے۔ ایک اور ہی چیز ہے۔ چنانچہ اگر آپ اس سے آشنا ہو جائیں انس پیدا کریں اور غور و فکر سے کام لیں تو اس دعا کے ایک ایک فقرے سے ایک قصیدہ ایک نظم، ایک قطعہ اور ایک غزل، جو نہایت ہی خوبصورت ہوگي، کہی جا سکتی ہے۔ بنابریں مناجات اور ( حمد و) توحید کے لئے آپ صحیفۂ (سجادیہ) اور ( دوسری ) دعاؤں سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
ائمہ (ع) کی مدح و منقبت کے لئے زيارتوں خصوصا زیارت جامعۂ کبیرہ سے استفادہ کریں۔ ایسی صورت میں آپ کو کوئی ضرورت ہی نہیں پڑے گي کہ اپنے ذہن و تخيل میں مبالغے کی مدد لیں، ائمہ علیہم السّلام کے سلسلے میں جو کچھ کہا جانا چاہئے زيارت جامعہ میں موجود ہے۔ آپ زيارت جامعہ کے فقروں میں سے کوئی ایک فقرہ، جبکہ اس میں شاید ایسے سیکڑوں فقرے موجود ہوں، منتخب کیجئے اور اس سے اپنے اندر موجود شاعرانہ ذوق، قدرت و صلاحیت تخیل و تفکر اور ذہنی پرواز سے کام لیکر خلوص و حقیقت پر مبنی خوبصورت سی غزل تیار کر سکتے ہیں۔ ان معارف کے اندر یہ بلند و بالا ظرفیت موجود ہے۔ یہ بلند و بالا اسلامی وقرآنی معارف آپ خود قرآن حکیم سے، نہج البلاغہ سے اور اہلبیت علیہم السّلام کی بعض روایات سے اخذ کر سکتے ہیں۔ اصول کافی میں منقول روایات کے بعض حصے اسی طرح کے ہیں۔ ان بنیادی کتابوں سے انس پیدا کریں مذہبی شاعری کا دامن بہت زيادہ وسیع ہے اور آپ اپنی شاعری سے معاشرے کے ذہن کو متاثر کر سکتے ہیں۔ تحف العقول میں ایک روایت عبد اللہ ابن جندب سے امام جعفر صادق علیہ السّلام کی وصیت کے عنوان سے ہے جو چند ٹکڑوں کی شکل میں ہے؛ اے جندب کے بیٹے ! اے جندب کے بیٹے! یہ روایت حکمت سے معمور ہے۔ حقیقت یہ ہے وہ تمام چیزیں کہ جن کی ہم کو اپنے اخلاق و عادات کے لئے، اپنی سماجی معاشرت میں، شب و روز کی عام سرگرمیوں میں، اسلامی تہذیب و تمدن کی تعمیر کے لئے ضرورت ہے، اس روایت اور اسی طرح کی اور روایتوں میں مل سکتی ہے۔ یہ جو ہم نے ذکر کیا ہے صرف ایک نمونہ اور مثال ہے، اس طرح کے نمونے بہت ہیں اور آپ تلاش کر سکتے ہیں۔ بنابرایں اپنی مذہبی شاعری کو معارف حقۂ الہی سے مستند و معتبر بنائیے اور بنیادی مآخذ سے کہ جن کی طرف اشارہ کیا گیا فائدہ اٹھائیے۔
ایک اور بات؛ انسان جس وقت اس ذوق و صلاحیت کا مشاہدہ کرتا ہے، جوش و ولولے اور شوق و اشتیاق کو دیکھتا ہے تو واقعی وجد میں آکر جھوم اٹھتا ہے اور خواہش بڑھ جاتی ہے۔ لہذا ان چند باتوں پر پوری توجہ دیجئے! پہلی چیز مضمون کی تلاش ہے۔ آپ جس وقت اپنا مدعا بیان کرنا چاہتے ہوں تو اس کو مختلف مضامین کے تحت بیان کر سکتے ہیں۔ کسی حقیقت کے اظہار کے لئے مضمون کی تلاش خود ایک بڑا شاعرانہ فن ہے۔ البتہ اس کا اصلی منبع و مرکز سبک ہندی میں کہے گئے اشعار ہیں۔ یہی صائب کی شاعری، بیدل کی شاعری، عزمی کی شاعری، کلیم کی شاعری، جب آپ ان کا مطالعہ کریں گے تو دیکھیں گے کہ مضامین کی تخلیق اور مضامین کی تلاش، وہاں غیر معمولی طور پر وسعت رکھتی ہے۔ خوش قسمتی یہ ہے کہ آپ حضرات کے اشعار میں بھی اچھے اور نئے مضامین کی کمی نہیں ہے۔ میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ ایک بات کو کئی جامے پہنائے جا سکتے ہیں۔ ہر جامے اور لباس کو ہم ایک مضمون کا نام دے سکتے ہیں۔ حامل مضمون ہونے کا مطلب یہی ہے۔ تو ایک مسئلہ مضمون کی تلاش کا ہے۔
دوسری بات نئی ترکیبوں کے استعمال سے متعلق ہے۔ اب تو انقلاب کا زمانہ ہے۔ عام بول چال کی رائج زبان شاعری میں داخل ہو گئی ہے۔ انقلاب سے پہلے اس کا رواج نہیں تھا۔ البتہ اس کی شکلیں مختلف ہیں۔ بعض حضرات قوی و توانا ہیں اور اس زبان سے بڑے ہی خوبصورت انداز میں استفادہ کرتے ہیں۔ بعض کی زبان نسبتا سطحی ہے اور اتنی بلندی نہیں پائي جاتی۔ کوئی بات نہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ہم اپنی انہی رائج اور روز مرہ کے محاوروں سے اپنے معانی و معارف بیان کرنے میں فائدہ اٹھائیں۔ لیکن یہ کام نئی ترکیبوں، نئی شکلوں اور نئی اصطلاحوں کے انتخاب کے ساتھ ہونا جاہئے
ایک اور مسئلہ صحیح طور پر شعر کہنے کا ہے۔ دوستوں کو اس بات پر پوری توجہ صرف کرنا چاہئے کہ شعر اپنے اوزان اور شاعرانہ قواعد و اصول کے لحاظ سے صحیح ہو۔ افعال کا صحیح اور اپنی جگہ پر استعمال کیا جائے۔ جملے کے مختلف ٹکڑوں میں ایک قواعد کے مطابق منطقی رابطہ ضروری ہے۔
ایک اور نکتہ جو میری نظر میں ان تمام دوستوں کے لئے جو مذہبی شاعری کرتے ہیں، بہت ہی اہم ہے، فضا اور ماحول سے متاثر ہونے کا مسئلہ ہے۔ یقینا یہاں فضا سے میری مراد معاشرے کی عمومی فضا نہیں ہے۔ ظاہر ہے سماجی اور معاشرتی ماحول سے متاثر ہونا فطری ہے۔ اقتصادی حالات، سیاسی حالات اور معاشرتی حالات ہر انسان کو متاثر کرتے ہیں۔ شاعر بھی ان حالات سے متاثر ہوتا ہے اور اس کی شاعری پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ میں اس عمومی فضا کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ بلکہ خصوصی فضائیں اور ماحول، ایک خاص ادبی اور ثقافتی حلقے ذہنوں کو متاثر کرتے ہیں۔ دین و ایمان سے سرشار آپ تمام نوجوانوں سے جو محب اہلبیت (ع) ہیں اور اہلبیت علیہم السّلام کے سلسلے میں خاص عشق و عقیدت اور جوش و جذـے کے ساتھ گفتگو کرتے اور شعر کہتے ہیں، الہی معارف اور توحید کے سلسلے میں اس طرح کے عشق و معرفت میں ڈوبے حسین و زیبا اشعار کہتے اور پڑھتے ہیں، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ متوجہ رہیں کہ ماحول اور فضائیں اور مخصوص حلقے آپ کو ادھر ادھر کھینچ نہ لے جائیں۔ یعنی خود آپ اپنے آپ کی حفاظت کریں، اس راہ میں خود کو ثابت قدم رکھیں اور روز بروز اس میں استحکام پیدا کریں۔ کیونکہ ادبی ، فنی اور شعری فضائیں انسان کو متاثر کر دیتی ہیں۔
ایک مثال ہمیشہ سے میرے ذہن میں رہتی ہے۔ ایک شاعر جو میری نظر میں ہے، اس وقت میں اس کا نام لینا چاہتا ہوں ایک بڑے شاعر ہیں، محمد جان قدسی مشہدی، یہ گیارہویں صدی ہجری میں صفوی دور کے ممتاز شعراء میں شمار ہوتے ہیں، سبک ہندی میں شعر کہتے تھے اور ان کے اشعار محکم ترین اشعار کا حصہ ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ اس سبک ( ہندی) میں صائب کے بعد واقعی طور پر محمد جان (قدسی مشہدی) کے پائے کے ( شعرا) ایک دو سے زیادہ نہ ہوں گے۔ وہ جس وقت مشہد میں تھے 'آستانہ قدس رضویہ' کے خادموں میں حضرت امام رضا علیہ السّلام کے ایک مداح تھے ان کے اشعار دینی اشعار ہیں اور ان کا دیوان بھی ان اشعار سے بھرا پڑا ہے۔ الحاج محمد جان کا دیوان آپ لوگ پڑھیں! اس طرح کے قصائد بہت سے ہیں۔ وہ بعد میں ہندوستان چلے گئے اور ہندوستان کے سلاطین اور امراء کی ہم نشینی اختیار کر لی اور وہاں کے، ہر طرح کی دینی پابندیوں سے آزاد، درباروں نے اس شاعر کو گویا بالکل الٹ پلٹ کے رکھ دیا۔ انسان یہ چیز ان کی غزلوں میں دیکھ سکتا ہے۔ میں کافی عرصے سے اسی فکر میں ہوں۔ یہ اشعار محمد جان قدسی کے ہیں۔

پارسا در مجلس رندان نشستن خوب نیست
ہر کہ امشب مئی نمی نوشد بہ ما منسوب نیست
در چنین فصلی کہ بلبل مست و گلشن پر گل است
گر ہمہ پیمانہ ی عمر است خالی خوب نیست

یعنی شعر و شاعری کے ماحول اور بزم میں، ایک رند خرابات، مست و بے پروا، شراب خور شاعر آپ کو نظر آتا ہے! یہ کون شاعر ہے؟ یہ وہی پاک و زاہد انسان ہے جو مشہد میں امام رضا (ع) کی مدح و ثنا کیا کرتا تھا۔ تو اس طرح کے ماحول سے اسی طرح کے افراد پروان چڑھتے ہیں۔ بنابرایں ماحول کی طرف سے خبردار رہئے۔ یہ چیز بھی ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ اور تعلقات کے ذریعے ہی حاصل ہو سکے گی۔
میں سمجھتا ہوں کہ اہلبیت علیہم السّلام کی مداحی کرنے والے شعراء کو چاہے وہ جوان ہوں یا بوڑھے، پختہ کلام قدیم شعراء ہوں یا نئی پود، ان کو ایک دوسرے کے ساتھ نشستوں کا سلسلہ جاری رکھنا چاہئے۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لازمی طور پر باقاعدہ محفل کی صورت میں ہو، جی نہیں، نشستیں چلتی رہیں۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ اس ماحول میں نوجوانوں کی جوش مارتی ہوئی صلاحیتیں اور زيادہ پروان چڑھیں۔
ایک آخری بات یہ بھی کہنی ہے کہ بعض موضوعات ہیں مذہبی اور آئینی شاعری میں جن پر کم شعر کہے گئے ہیں۔ منجملہ ان کے وہ موضوعات بھی آتے ہیں جو انقلاب کے مسائل اور مقدس دفاع کے مسائل سے مربوط ہیں۔ یقینا ایک زمانے میں، ان موضوعات پر بہت اچھے اچھے کلام سامنے آئے۔ یہی جناب مؤید صاحب جنگ کے زمانے میں جس وقت شہداء کے جنازے مشہد میں لائے جاتے تھے شاید ہر روز یا ہر چند روز کے فاصلے سے غزلیں کہا کرتے تھے اور مداحی کرنے والے (غزل خواں افراد) ان کو پڑھا کرتے تھے۔ دوسرے شعراء بھی کہتے تھے، لیکن اب اس طرح کے شعر کہنے والوں کی کمی کا احساس ہوتا ہے۔ مقدس دفاع کا آٹھ سالہ دور، زمانے کے لحاظ سے آٹھ سال کا دور ہے، لیکن معنویت، فکر و نظر اور تہذیب و ثقافت کے تسلسل کے اعتبار سے صدیوں تک یہ دور جاری و برقرار رہے گا۔ وہ کارنامے جو مقدس دفاع کے دوران وجود میں آئے ہیں۔ وہ جذبے جو ان کارناموں کی پشت پر کارفرما رہے ہيں۔ وہ چھوٹے چھوٹے واقعے اور حادثے جو اس دوران رونما ہوئے ہیں۔ وہ چیزیں نہیں ہیں جو ان ہی آٹھ دس برسوں میں، پندرہ بیس سال میں تمام ہو جائیں۔ ان کے امانتداروں میں سے ایک آپ بھی ہیں۔ آپ کا بھی فریضہ ہے کہ اس امانت کی حفاظت کیجئے، ان کو منتقل کرتے رہئے۔
یقینا انقلاب میں روز بروز نو بہ نو حوادث پیش آتے ہیں اور ان سب پر نگاہ اور جنبش فکر و قلم ضروری ہے لیکن اس دور کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ انہی میں سے ایک چیز جو جنگ سے تعلق رکھتی ہے اور ان چیزوں میں ہے جو ہمیشہ میرے ذہن کو مشغول رکھتی ہیں، یہ جنگ میں زخمی ہونے والے افراد ہیں، جو گویا مسلسل شہادت کی منزل سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ یہ خود ایک خاص موضوع ہے۔ یہ ان شہداء کی شہادت سے ایک الگ چیز ہے جو مورچوں پر شہید ہوئے ہیں اور جن کے بارے میں اشعار بھی کہے گئے ہیں۔ یہ وہ انسان ہیں جو ایک تجربے سے گزرے، مصیبتیں برداشت کیں اور رنج و تعب کے بعد بالآخر شہید ہو گئے۔ گھوم پھر کر تلاش کیجئے اور اس طرح کے موضوعات سے آگاہی حاصل کیجئے۔ اسی طرح وہ موضوعات جو مرثیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ سید الشہداء امام حسین (ع) اور واقعات کربلا سے متعلق مرثیے۔ ٹھیک ہے ایک انسان دیکھتا ہے، زبان حال سے کہتا ہے اور زبان حال سے بیان کئے جانے والے واقعات کی کمی نہیں ہے، بہت ہیں۔ البتہ ممکن ہے ان میں بعض واقعات حقیقت ماجرا کے مطابق نہ ہوں۔ یعنی ان چیزوں میں نہ ہوں کہ انسان اس کی تصدیق کر سکے۔ بہرحال میدان سامنے موجود ہے اور اس میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں مثلا حضرت ابوالفضل العباس (علیہ الصلوۃ و السلام) کے مصائب میں ایک بڑا ہی اہم اور دل کو چھو لینے والا حصہ، جو اس مصائب کو بیان کر سکتا ہے وہی حضرت ابوالفضل العباس کی مادر گرامی کی زبان حال سے ہے وہی جس میں فرماتی ہیں کہ مجھ کو اب ام البنین کہہ کر مت پکارا کرو لاتدعوّنی ویک امّ البنین یا وہ دوسرا نوحہ جو آپ سے منسوب ہے۔ یہ دو مرثیئے ہیں۔ یقینا ان کے منظوم ترجمے بھی ہوئے ہیں، مگر یہ ترجمے بہت اچھے نہیں ہیں۔ ان کو قوی و محکم نہیں کہا جا سکتا۔ بہرحال یہ ایک وسیع باب ہے۔ ایک ماں ہے، وہ کربلا میں شہید ہونے والے اپنے چار جوانوں کی قبروں کے نشان، جنت البقیع میں کھینچتی ہے اور نوحہ سرائی کرتی ہے۔ ایک پورا رزمیہ ہے صرف تڑپ کر آنسو بہانا اور سر پیٹنا نہیں ہے۔ یقینا آنسوؤں کی روانی بھی ہے اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے بلکہ اس میں بھی رزمیہ جوش و خروش پیدا کرنے کی قوت موجود ہے۔ ان جوانوں پر افتخار کرتی ہیں کہ انہوں نے کیا کارنامہ انجام دیا ہے اور ( مرثیہ کا ) یہ رخ بہت ہی عمدہ ہے اور مصائب کے ان پہلوؤں سے بھرپور استفادے کی ضرورت ہے یا کربلا کے سرفروشوں کی جانبازیوں اور شجاعانہ جذبوں کی توصیف، جیسا کہ عمان سامانی نے اپنے ان اشعار میں کی ہے کہ جن میں انہوں نے قتل گاہ کی طرف حضرت سیدالشہداء کی رخصت کے لمحات کی منظر کشی کی ہے۔ اب اس میں کس قدر حقیقت ہے میں نہیں کہہ سکتا؛ البتہ (روضہ خوانی کرنے والے) ذاکرین پڑھتے ہیں کہ حضرت زينب سلام اللہ علیہا سامنے آ گئیں اور راستے میں کھڑی ہو گئیں اور دونوں بزرگواروں کے درمیان گفتگو ہوتی رہی عمان (سامانی) نے اس گفتگو سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت زينب کی شخصیت کو پہچنوایا ہے :

کہ ای عنان گیر من آیا زینبی
یا کہ آہ دردمندان در شبی
( کہ آیا زین میری تھامنے والی یہ زینب ہے
یا وہ ہے آہ مظلومین جو سنتی دم شب ہے )
جس میں آگے بڑھ کر کہتے ہیں
زن مگو مرد آفرین روزگار

دیکھئے ایک مناسب موقع سے، بھائی بہن کی گفتگو سے فائدہ اٹھا کر حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی شخصیت کے بعض اہم پہلوؤں کی تشریح کرتے ہیں۔ یہ بڑے ہی اہم میدان ہیں۔ یعنی شرح احوال اور زبان حال سے زندگی کے مختلف پہلوؤں کا بیان۔ یعنی صرف ان ہی حالات کا ذکر نہ ہو کہ جن سے داستان میں ایک بہادر کو گزرنا پڑ رہا ہے۔ بلکہ اس شخصیت کے اوصاف و خصوصیات اور جذبات و احساسات کے ساتھ اس کی روحانی عظمتوں اور معنوی بلندیوں کو بھی بیان کیا جائے جو اس کے وجود میں پائي جاتی ہیں۔ یہ سب شاعری کے میدان اور موضوعات ہیں۔
بہرحال، خداوند عالم سے دعا ہے کہ وہ آپ کی توفیق و تائید میں اضافہ فرمائے اور آپ سب اس میدان میں زیادہ سے زيادہ آگے بڑھیں، آج کا دن میرے لئے بہت ہی اچھا تھا۔ دوستوں نے جو اشعار پڑھے میں بہت ہی زیادہ ان سے محظوظ ہوا۔ میں آپ سب کے لئے دعاگو ہوں، خداوند عالم ان شاء اللہ روز بروز آپ کے ذہنوں کو اور زیادہ فعال کرے، شاعرانہ ذوق اور زيادہ پروان چڑھے، زبان میں اور زیادہ گویائی پیدا ہو اور کام اور زيادہ بامقصد اور بہتر سے بہتر انجام پائے

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ