قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: اقتصادی ترقی و نمو کے لئے حکام کی جانب سے منصوبہ بندی اور اہداف کا تعین جبکہ عوام اور خاص طور پر اقتصادی شعبے کے افراد اور ذرائع ابلاغ کی جانب سے ملکی معیشت کی مدد و اعانت عمومی فریضہ ہے اور آج اقتصادی میدان ایک خاص طرح کا میدان کارزار ہے جہاں توانائیوں کو مجتمع کرکے، داخلی خلاقانہ صلاحیتوں، وسائل، تدابیر اور اس میدان کی خاص حکمت عملی کے تحت مجاہدانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ایٹمی مذاکرات کے سلسلے میں زور دیکر کہا کہ ایران میں کوئی بھی شخص ایٹمی مسئلے کے سفارتی حل کا مخالف نہیں ہے، تاہم دوسری جانب ملت ایران، ہمارے حکام اور مذاکراتی ٹیم کے ارکان امریکا کی زور زبردستی اور مرضی مسلط کرنے کی کوششوں سے متاثر ہونے والے نہیں ہیں۔ بلکہ اس عظیم امتحان سے بھی وہ اپنی استقامت کے ذریعے سرخرو ہوکر باہر نکلیں گے۔ قائد انقلاب اسلامی نے قرآن مجید کی آیہ کریمہ کی روشنی میں چار ستونوں 'نماز، زکات، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر' کو اسلامی نظام کی شناخت اور عناصر ترکیبی سے تعبیر کیا۔ آپ نے فرمایا: اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے کہ جس قوم کے پاس بھی یہ چار خصوصیتیں ہوں گی، اللہ اس کی نصرت فرمائے گا اور ظالم طاقتوں کے تسلط سے اسے نجات دلائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم
الحمد لله ربّ‌ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی اله الاطیبین الاطهرین المنتجبین الهداة المهدیّین المعصومین المکرّمین سیّما بقیة الله فی الارضین. اللّهمّ صلّ علی فاطمة بنت نبیک و زوجة ولیّک و امّ السبطین الحسن و الحسین سیّدی شباب اهل الجنّة الطّهرة الطّاهرة المطهّرة التّقیّة النّقیّة الزّکیّة سیّدة نساء اهل الجنّة اجمعین. اللّهمّ صلّ علی ولیّک علیّ بن موسی عدد ما فی علمک صلاة دائمة بدوام ملکک و سلطانک. اللّهمّ سلّم علی ولیّک علیّ بن موسی عدد ما فی علمک سلاماً دائماً بدوام مجدک و عظمتک و کبریائک.

اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ایک بار پھر اور اس سال بھی یہ موقع ہمیں عنایت فرمایا کہ بارگاہ حضرت ابو الحسن علی ابن موسی الرضا علیہ الصلاۃ و السلام کی بارگاہ میں آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں، زائرین و خدام حرم رضوی سے ملاقات کروں۔
ذہین مسلمان ایرانیوں نے نوروز کی قدیم روایت کو اپنے عقیدے کے مطابق اور اپنی مرضی کے مطابق نئی شکل میں ڈھال لیا۔ نوروز کی ظاہری شکل و صورت کو باقی رکھا، لیکن اس کے مضمون کو بدل دیا۔ قدیم زمانے میں نوروز بادشاہوں کا نوروز ہوتا تھا، یہ سلاطین اور حکمرانوں کے لئے اقوام پر اپنی عظمت و شوکت کے اظہار کا موقع ہوا کرتا تھا۔ عوام الناس سے ہدیئے اور تحفے وصول کرنے کا موقع ہوتا تھا۔ بنی امیہ اور بنی عباس کے زمانے میں بھی جب نوروز اموی اور عباسی خلفاء کے دربار میں پہنچا تو قدیم ایرانی بادشاہوں اور سلاطین کے طور طریقے کے مطابق ان کے درباروں میں اسے منایا گیا۔ لیکن مسلمان ایرانی نے اس انداز کو، اس تہوار کے پیکر کو اپنے فائدے کے مطابق تبدیل کر لیا۔ اگرچہ یہ تبدیلی یکبارگی عمل میں نہیں آئی، لیکن صدیاں گزر جانے کے بعد آپ آج دیکھ رہے ہیں کہ عظمت و عزت کے سرچشمے یعنی ذات باری تعالی سے بندوں کے رابطے اور انس کا یہ ایک ذریعہ و وسیلہ بن گیا ہے۔ ایرانی نوروز میں آج اس تہوار کی حقیقت ایک عوامی حقیقت ہے۔ نوروز کے موقع پر لوگ ایک دوسرے سے محبت و مہربانی سے پیش آتے ہیں، ایک دوسرے کو تہنیت پیش کرتے ہیں، تحفے دیتے ہیں۔ آج صدیاں گزر جانے کے بعد نوروز میں وہ شاہانہ اور روایتی انداز اور رسومات ختم ہو چکی ہیں۔ نوروز کے ایام میں اور 'تحویل سال' کے موقع پر ہمارے وسیع و عریض ملک میں سب سے زیادہ ازدہام کے مراکز ائمہ علیہم السلام اور ان کی اولادوں کے مزارات ہوتے ہیں۔ گزشتہ شب، آدھی رات کے وقت، اس مقدس بارگاہ میں لاکھوں مومنین اپنے پاکیزہ قلوب کے ساتھ عظمت و قدرت کے مرکز کی جانب متوجہ ہوئے اور اپنے خالق سے راز و نیاز میں مصروف ہو گئے۔ حالات کو تبدیل کر دینے والے خالق سے اپنے لئے بہترین حالت کی التجا کی اور دینی اعمال بجا لائے۔ بنابریں جو نوروز آج ہم مناتے ہیں، وہ قدیمی اور روایتی نوروز نہیں ہے، ایرانی نوروز ہے، ایک مسلمان قوم کا نوروز ہے جس نے اس قدیمی تہوار کو اپنے لئے اور اپنے اعلی اہداف کی جانب ارتقائی عمل طے کرنے کے لئے ایک سرمائے میں تبدیل کر لیا ہے۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالی عزیز ملت ایران کی نصرت و مدد فرمائے کہ وہ تمام مسائل میں اور تمام مواقع پر اپنی اس ذہانت کو بروئے کار لا سکے۔ بنابریں اس سال نوروز کے ایام جو عالم اسلام کی عظیم خاتون حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم شہادت کے موقع پر آئے ہیں تو نوروز کی رسومات کسی بھی صورت میں اس عظیم ہستی کے اسم مبارک اور آپ کے ذکر کے منافی انداز میں انجام نہ دئے جائیں۔ یقینا ایسا ہی ہوگا۔ میں نے چند باتیں مد نظر رکھی ہیں جو اس پرشکوہ اجتماع میں تشریف فرما آپ خواہران و برادران گرامی اور تمام ملت ایران کی خدمت میں عرض کروں گا۔
بحث کا آغاز ایک قرآنی نکتے سے کروں گا۔ اللہ تعالی نے جن لوگوں کی نصرت کا وعدہ کیا ہے ان کے سامنے کچھ شرطیں مقرر کی ہیں۔: وَ اِنَّ اللهَ عَلی نَصرِهِم لَقَدیر (۱) اَلَّذینَ اِن مَکَّنّاهُم فِی الاَرضِ اَقامُوا الصَلوةَ وَ ءاتَوُا الزَّکوة وَ اَمَروا بِالمَعروفِ وَ نَهَوا عَنِ المُنکَرِ وَ لِلّهِ عاقِبةُ الاُمور (۲) خداوند عالم نے اس آیہ شریفہ میں ان لوگوں کے سلسلے میں جنہیں قدرت و اختیار حاصل ہوتا ہے اور جو ظالم طاقتوں کے تسلط سے نجات حاصل کرتے ہیں، چار اوصاف معین کئے ہیں اور وعدہ فرمایا ہے: «اِنَّ اللهَ عَلی نَصرِهِم لَقَدیر» اللہ تعالی ایسی قوم کی مدد کرنے پر قادر ہے اور یقینا مدد فرمائے گا۔ ان چار صفتوں اور شرطوں میں سے ایک نماز ہے، ایک شرط زکات ہے، ایک امر بالمعروف ہے اور ایک نھی عن المنکر ہے۔ ان چار خصوصیات اور چار معیاروں میں سے ہر ایک کے اندر انفرادی و شخصی پہلو بھی ہے اور اس کے ساتھ ہی سماجی و گروہی پہلو بھی ہے، جس کا سماجی نظام کی تسکیل میں گہرا اثر ہے۔ حقیقت نماز کے اندر جو بے شمار اسرار پوشیدہ ہیں کہ وہ ہر مومن کی معراج ہے؛ «قُربانُ کُلِّ تَقی»(۳) ہے۔ کامیابی و کامرانی کا ذریعہ ہے، تمام اعمال سے برتر اور افضل ہے، اس کے ساتھ ہی نماز میں سماجی پہلو بھی پوشیدہ ہے۔ نماز کا سماجی پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں کی ہر فرد، نماز کے ذریعے ایک مرکز واحد سے متصل ہوتی ہے۔ نماز کے وقت آن واحد میں، اس وسیع و عریض دنیائے اسلام میں ہر جگہ پر تمام مسلمین اپنے قلوب کو مرکز واحد سے متصل کر لیتے ہیں۔ مرکز واحد سے تمام دلوں کا اتصال، ایک سماجی و اجتماعی معاملہ ہے، یہ نظام سازی سے متعلق پہلو ہے، یہ اسلامی نظام کے خدوخال اور قالب کی تشکیل دینے والا عمل ہے۔
زکات جو انفرادی اور شخصی پہلو کی حامل ہے، جو انسان کو دوسرے افراد کے لئے اپنی پسندیدہ چیزیں قربان کر دینے اور ایثار کا درس دیتی ہے کہ جو اپنی جگہ پر بڑا اہم تجربہ اور امتحان بھی ہے، اسی زکات کے اندر ایک سماجی پہلو کی بھی ترجمانی موجود ہے۔ قرآنی آیات میں زکات کا لفظ ہر طرح کے 'انفاق' کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اصطلاح میں جسے زکات کہتے ہیں اس کے لئے بھی جیسے؛ «خُذ مِن اَموالِهِم صَدَقَةً» (۴) میں اس کی جانب اشارہ ہے۔ زکات کے معنی ہیں انفاق کرنے کے۔ تاہم زکات کا سماجی پہلو، نظام کی تشکیل میں مددگار سماجی پہلو یہ ہے کہ اسلامی معاشرے اور اسلامی ماحول میں جس انسان کے پاس مال دنیا ہے، وہ اپنا فرض سمجھتا ہے، اپنے دوش پر ذمہ داری کا احساس کرتا ہے، خود کو اسلامی معاشرے کا مقروض سمجھتا ہے، فقرا اور کمزور طبقات کے تعلق سے بھی اور راہ خدا میں انجام پانے والے عمل کے تعلق سے بھی۔ اس زاوئے سے زکات نظام کی تشکیل دینے والا حکم ہے۔
امر بالمعروف اور نھی عن المنکر جو ایک طرح سے اسلام کی تمام سماجی سرگرمیوں کی بنیاد ہے؛ «بِها تُقامُ الفَرائِض» (۵) امر بالمعروف یعنی مومنین جو دنیا میں کہیں بھی سکونت پذیر ہوں، اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ معاشرے کو نیکی، اچھائی اور نیکوکاری کی جانب لے جائيں۔ نھی عن المنکر یعنی سب کو برائیوں سے اور مذموم اعمال سے باز رکھنے کی کوشش کریں۔ ان چاروں شرطوں اور اوصاف میں سے ہر ایک اسلامی نظام کی ساخت اور ڈھانچے کی ترجمان ہے۔
ضمنی طور پر یہ بھی عرض کر دوں کہ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کو 'نصاب' سے کم اہمیت والے امور تک محدود نہیں کرنا چاہئے۔ بعض افراد یہ تصور کرتے ہیں کہ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کا انحصار اس پر ہے کہ کوئی شخص کسی عورت کو یا کسی مرد کو جو فروعات دین میں سے کسی ایک کی پابندی نہیں کرتا، ٹوکے۔ بیشک یہ امر بالمروف اور نھی عن المنکر ہے، لیکن امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کا سب سے ترجیحی موضوع نہیں ہے۔ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر میں سب سے اہم ترجیح یہ ہے کہ سب سے بڑی نیکی کا حکم دیا جائے اور سب سے بڑی برائی سے روکا جائے۔ سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ اسلامی نظام تشکیل دیا جائے اور پھر اس نظام کی حفاظت کی جائے۔ یہ ہے امر بالمعروف۔ اسلامی نظام کی تشکیل اور اسلامی نظام کی حفاظت سے بڑی کوئی اور نیکی نہیں ہے۔ اس راہ میں جو جدوجہد کرے، وہ امر بالمعروف پر کاربند ہے۔ ملت ایران کی عزت و آبرو کی حفاظت سب سے بڑی نیکی ہے۔ بڑے 'معروف' یہ ہیں: ثقافت کا ارتقاء، اخلاقیاتی فضا کی صحتمندی، خاندانی ماحول کی صحتمندی، نسل میں اضافہ اور ملک کو بلندیوں پر لے جانے کی آمادگی رکھنے والی نوجوان نسل کی تربیت، معیشت اور پیداوار کی رونق بڑھانا، اسلامی اخلاقیات کی وسیع پیمانے پر ترویج، سائنس و ٹکنالوجی کی ترویج، اقتصادی و عدالتی انصاف کا قیام، ملت ایران اور اس سے آگے بڑھ کر امت اسلامیہ کی قوت و طاقت بڑھانے کے لئے جدوجہد، اتحاد بین المسلمین کے لئے سعی و کوشش، یہ اہم ترین نیکیاں ہیں اور سب کی ذمہ داری ہے کہ ان نیکیوں کی راہ میں جانفشانی کریں، حکم دیں۔ ان کے مد مقابل اور ان کی ضد جو چیزیں ہیں وہ منکرات ہیں۔ اخلاقی انحطاط منکر ہے، دشمنان اسلام کی مدد منکر ہے، اسلامی نظام کو کمزور کرنا منکر ہے، اسلامی ثقافت کو زک پہنچانا منکر ہے، معاشرے کی معیشت کو کمزور کرنا منکر ہے، سائنس و ٹکنالوجی کو نقصان پہنچانا منکر ہے، ان منکرات سے روکنا چاہئے۔ امر بالمعروف کرنے والی اولیں ہستی خود ذات اقدس پروردگار ہے جو فرماتا ہے؛ اِنَّ اللهَ یَأمُرُ بِالعَدلِ وَ الاِحسانِ وَ ایتآئِ ذِی‌القُربی وَ یَنهی عَنِ الفَحشآءِ وَ المُنکَرِ وَ البَغی (۶) اللہ تعالی امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کرنے والا ہے۔ نیک کام بھی واضح ہیں اور منکرات بھی عیاں ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات گرامی، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کرنے والوں میں سب سے افضل ہے۔ آیہ قرآن (کہتی ہے؛) «یَأمُرُهُم بِالمَعروفِ وَ ینهاهُم عَنِ المُنکَر» (۷) ائمہ علیہم السلام امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کرنے والی عظیم ہستیاں ہیں۔ زیارت میں ہم پڑھتے ہیں: اَشهَدُ اَنَّکَ قَد اَقَمتَ الصَّلاةَ وَ آتَیتَ الزَّکاةَ وَ اَمَرتَ بِالمَعروفِ وَ نَهَیتَ عَنِ المُنکَر (۸) مومنین دنیائے اسلام میں جہاں کہیں بھی آباد ہوں، وہ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کرنے والے ہیں: وَ المُؤمِنونَ وَ المُؤمِناتُ بَعضُهُم اَولیآءُ بَعضٍ یَأمُرونَ بِالمَعروفِ وَ یَنهَونَ عَنِ المُنکَرِ وَ یُقیمونَ الصَّلوةَ وَ یَؤتونَ الزَّکوة (۹) یہ نظام کی تشکیل کے چار بنیادی ستون ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی کچھ اہم شاخیں ہیں۔ اسلامی نظام، نماز قائم کئے جانے، زکات دئے جانے، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر پر استوار ہے۔ یعنی اسلامی نظام میں لوگوں کے درمیان سماجی اور قلبی وابستگی اور یکجہتی ہوتی ہے۔
میں اپنی گفتگو کے آغاز میں ہی اس بحث سے ایک نتیجہ اخذ کرنا چاہتا ہوں اس سال کے نعرے کے لئے، جس کا ذکر میں نے گزشتہ رات، نیمہ شب کی اپنی گفتگو میں کیا۔ ہمارے معاشرے میں، ہمارے اس وسیع و عریض ملک میں اسلام تمام لوگوں کو خواہ ان کا تعلق کسی بھی سماجی طبقے سے ہو، کسی بھی سماجی رجحان سے ہو، ہم سب کو یکجہتی کی، امداد باہمی کی اور ایک دوسرے کا مددگار بننے کی دعوت دیتا ہے۔ اسلامی نظام میں حکومت کو عوامی پشت پناہی حاصل ہونی چاہئے۔ یہاں تک کہ وہ افراد بھی جنہوں نے حکومت میں موجود کسی خاص شخص کو ووٹ نہیں دیا ہے، حمایت و پشت پناہی کریں۔ ہماری اسلامی مملکت میں سماجی و ملی یکجہتی کا لب لباب اور حقیقی مفہوم یہی ہے۔ سب بر سر اقتدار حکومت کے ساتھ جو کاموں کی انجام دہی اور خدمات میں مصروف ہے یکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ کریں، اس کی مدد کریں، خصوصا ایسے مواقع پر جب بڑے مسائل در پیش ہوں، اس سلسلے میں بھی مجھے کچھ باتیں عرض کرنی ہیں۔
آج قوم کی ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ ملک کے حکام کی حمایت کرے اور حکومتی عہدیداروں کی مدد کرے۔ یہ صرف موجودہ حکومت کی بات نہیں ہے، تمام حکومتوں کے سلسلے میں یہی ہونا چاہئے۔ آئندہ بھی جو حکومتیں تشکیل پائیں گی ان کے سلسلے میں بھی یہی صورت حال ہے۔ کیونکہ پہلی بات یہ ہے کہ تمام حکومتوں کی سب سے کلیدی اور اساسی فکر عوام کی مشکلات کا ازالہ ہوتا ہے۔ البتہ ممکن ہے کہ الگ الگ حکومتوں کے پاس الگ الگ توانائیاں ہو، سب ایک ہی سطح کی نہ ہوں۔ ممکن ہے کہ ہر حکومت کا اپنا الگ طرز فکر ہو، لیکن نصب العین تمام حکومتوں کا یہی ہے کہ اپنے دور میں حتی المقدور ملک کی مشکلات کو حل کریں۔ آئین کے دائرے میں جو حکومت بھی تشکیل پائے وہ قانونی حکومت ہے، اس کی قانونی حیثیت ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کس صدر کو کتنی اکثریت میں عوام نے ووٹ دیا ہے۔ ووٹوں کی اکثریت میں کمی یا زیادتی کا تعلق مقبولیت سے ہوتا ہے، حکومت کی قانونی و آئینی حیثیت سے نہیں۔ آئین کے دائرے میں عوامی ووٹوں کی جس اکثریت سے بھی کوئی منتخب ہو، اس کی قانونی حیثیت ہے، حکومت قانونی ہے۔ عوام کو چاہئے کہ اسے قانونی حکومت سمجھیں اور جہاں تک ممکن ہے اس کی مدد کریں۔ البتہ حقوق دو طرفہ ہوتے ہیں۔
بیشک ہر حکومت کے کچھ ناقدین ہوتے ہیں، چنانچہ موجودہ حکومت پر بھی کچھ تنقید کرنے والے موجود ہیں۔ گزشتہ حکومتوں میں بھی ہر ایک کے کچھ ناقدین رہے ہیں۔ یہاں تک تو اس مسئلے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو موجودہ طریقہ کار سے اتفاق نہیں رکھتے، اسے صحیح نہیں مانتے، اس حکومت کی باتوں سے اتفاق نہیں کرتے، اس کی پالیسیوں سے مطمئن نہیں ہیں۔ یہ ناقدین ہیں اور تنقید کرتے ہیں۔ اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے۔ لیکن تنقید عقل و منطق کے دائرے میں ہونی چاہئے۔ مختلف حکومتوں پر میری بھی تنقید رہی ہے اور میں نے ہمیشہ متنبہ بھی کیا ہے۔ جب بھی کسی مسئلے میں کوئی خامی اور عیب مجھے نظر آیا کوئی چیز قابل تنقید دکھائی دی تو میں نے متنبہ کرنے میں کبھی پس و پیش نہیں کیا۔ لیکن میں نے انتباہ مناسب صورت میں، مناسب موقع و محل پر اور مناسب انداز میں دیا ہے۔ کبھی پیغام بھجوایا اور کبھی سامنے کہا، کچھ مسائل کو اصرار کے ساتھ اٹھایا۔ متنبہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ یہ انتباہ اس انداز میں دیا جائے کہ جو لوگ مصروف عمل ہیں ، جو خدمات انجام دے رہے ہیں ان سے عوام الناس کا اعتماد سلب نہ ہو۔ انتباہ اس انداز سے دیا جائے کہ عمومی بے اعتمادی کا سبب نہ بنے، اس میں توہین کا پہلو نہ ہو، خشمگیں انداز میں نہ ہو۔ حکومت اور عوام کے درمیان رابطے کو سب اسلامی اخوت کے تناظر میں دیکھیں اور اسی معیار کے مطابق عمل کریں۔
البتہ یہ چیز دو طرفہ ہوتی ہے۔ میں عوام کو بھی سفارش کروں گا کہ حکومت سے ہمدردانہ انداز میں، تعاون اور ہمدلی کے جذبے کے ساتھ اپنی بات کہیں اور ملک کے حکام کو تینوں شعبوں (مجریہ، عدلیہ، مقننہ) میں، میری یہ تاکید ہے کہ وہ اپنے ناقدین سے، اپنے اوپر تنقید کرنے والوں سے شائستہ انداز میں پیش آئیں۔ ان کی تحقیر نہ کریں، ان کی توہین نہ کریں۔ عہدیداران کی طرف سے ناقدین کی توہین حکمت و تدبیر کے خلاف ہے۔ میں اپنے عزیز عوام کو لا تعلقی اور بے توجہی کی دعوت نہیں دے سکتا، میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ نگرانی نہ کریں۔ بلکہ میں انہیں ملک کے بنیادی مسائل کے سلسلے میں پوری توجہ رکھنے کی دعوت دیتا ہوں۔ لیکن میں تاکید کے ساتھ یہ بھی کہوں گا کہ حکام کے سلسلے میں عوام کا برتاؤ اور ناقدین کے بارے میں حکام کا رویہ ہرگز تخریبی نہیں ہونا چاہئے۔ اس میں کوئی تحقیر نہ ہو، کسی طرح کی توہین کا پہلو نہ ہو۔ ممکن ہے کہ کسی مسئلے میں کچھ لوگوں کو تشویش ہو۔ فکرمند ہونا تو جرم نہیں ہے! تشویش میں مبتلا ہونا تو گناہ نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو ملک کے کسی حساس اور اہم مسئلے کے بارے میں واقعی اضطراب اور تشویش ہو۔ اس میں کوئی ممانعت بھی نہیں ہے۔ لیکن یہ تشویش دوسروں پر الزام عائد کرنے اور ان کی خدمات اور زحمتوں کو نظر انداز کرنے کا سبب نہ بنے! دوسری جانب حکومت اور حکومت کے طرفدار فکرمندی اور تشویش کا اظہار کرنے والوں کی توہین نہ کریں! میں یہ بات اپنے عزیز عوام کی خدمت میں صراحت کے ساتھ عرض کر رہا ہوں اور پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ میں نے تمام حکومتوں کی جب وہ اقتدار میں تھیں، حمایت کی۔ موجودہ حکومت کی بھی حمایت کر رہا ہوں۔ اگر ضرورت ہو تو انتباہ بھی دیتا ہوں، البتہ میں نے بلینک چیک کسی کو نہیں دیا ہے۔ میں کارکردگی کا جائزہ لیتا ہوں اور اسی کارکردگی کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہوں۔ توفیق خداوندی سے، نصرت پروردگار سے آئندہ بھی کارکردگی کے مد نظر عمل کروں گا۔ یہ تو رہی پہلی بات سال نو کے نعرے؛ حکومت اور عوام کے درمیان ہمدلی و ہم زبانی کے تعلق سے، جو میں نے عرض کی۔ ہمدلی کا مظاہرہ کریں، ایک آواز ہو جائيں، تعاون کریں، مشکلات کے ازالے کے لئے ایک دوسرے کے شانے سے شانہ ملا کر آگے بڑھیں۔
میں نے عرض کیا کہ اس چیز کی اہمیت اس وقت بڑھ جاتی ہے جب بڑے مواقع سامنے ہوں اور انسان بڑے مسائل پیش آنے کی توقع کر رہا ہو۔ اس وقت وہی ایام ہیں۔ آج ہمارے پاس بہت بڑے مواقع بھی ہیں اور مسائل بھی در پیش ہیں۔ ہمیں ان مسائل سے نمٹنا ہے اور ان مواقع کی مدد سے ان مسائل پر بفضل پروردگار قابو بھی پانا ہے۔ بہت سے مواقع ہمارے ہاتھ میں ہیں۔ انہیں میں سے ایک ہے ملک کے اندر کارآمد اور مہارت رکھنے والی افرادی قوت۔ بحمد اللہ کارآمد اور نوجوانوں کی اکثریت والی افرادی قوت موجود ہے، جو جوش و جذبے اور خلاقانہ صلاحیتوں سے سرشار ہے۔
ہمارے پاس موجود اہم مواقع میں ایک اسلامی نظام، امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) اور اسلامی نظام کے اہداف سے عوام اور نوجوانوں کی گہری وابستگی ہے۔ میں آپ عزیز بہنوں اور بھائیوں کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ نگاہ ڈالئے یوم القدس کے جلوسوں پر، بائیس بہمن ( مطابق 11 فروری اسلامی انقلاب کی سالگرہ) کی ریلیوں پر، ان میں بنیادی طور پر نوجوان نظر آئیں گے۔ یہ نوجوان وہی ہیں جن پر شب و روز آڈیو، ویڈیو اور انٹرنیٹ ذرائع ابلاغ کی مسلسل تباہ کن بمباری ہوتی رہتی ہے۔ دنیا میں، سائبر دنیا میں ایک ہنگامہ برپا ہے۔ آڈیو اور ویڈیو ابلاغیاتی ذرائع کی سطح پر سیکڑوں ذرائع ابلاغ بلکہ ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو ہزاروں ذرائع ابلاغ، ہمارے نوجوانوں کی فکر و نظر کو تہہ و بالا کر دینے کے لئے بمباری میں مصروف ہیں۔ ان میں بعض کی کوشش ہوتی ہے کہ نوجوانوں کو دین سے منحرف کر دیں، ان میں بعض کی کوشش ہوتی ہے کہ نوجوانوں کو اسلامی نظام سے بیزار کر دیں، کچھ کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ انہیں اخلافات پیدا کرنے کے لئے برانگیختہ کریں، بعض کی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں اپنے شوم اور خبیثانہ اہداف کے لئے استعمال کریں، بعض کی کوشش ہے کہ ان میں لاابالی پن اور بے مقصد زندگی گزارنے کے رجحان کی ترویج کریں، یہ بمباری دائمی طور پر ہمارے نوجوانوں پر انہیں آدیو، ویڈیو اور انٹرنیٹ ذرائع ابلاغ کی طرف سے ہو رہی ہے۔ اس کے باوجود آپ دیکھتے ہیں کہ ملک بھر میں یہی نوجوان کروڑوں کی تعداد میں 11 فروری کو باہر آتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں، احساسات و جذبات کا اظہار کرتے ہیں، امام (خمینی) سے، اسلام سے اور اسلامی نظام سے اپنی عقیدت و وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ یہ بہت اہم خصوصیت ہے۔
اہم مواقع میں سے ایک اور ہے پابندیوں کے زمانے میں سائنس و ٹکنالوجی کے میدانوں میں حاصل ہونے والی ترقی۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ عالمی و بین الاقوامی طاقتیں اور حکومتیں سرمائے اور پیسے سے کسی قوم کی مدد کرتی ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی قوم پر سارے دروازے بند کر دیتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ قوم مختلف شعبوں میں بڑی کامیابیاں حاصل کرتی ہے۔ آج آپ جن کامیابیوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں انہیں کم نہ سمجھئے! یہی جنوبی پارس کا بارہواں فیز جس کا چند روز قبل صدر محترم کے ہاتھوں افتتاح ہوا، بہت بڑا اور انتہائي پیچیدہ صنعتی پروجیکٹ ہے، جو ملک کے اقتصادی نمو میں اور ملک کی عمومی مساعی کے ثمرات میں نمایاں طور پر اضافہ کر سکتا ہے۔ اس طرح کے متعدد نمونے ہمارے پاس موجود ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ مسلح فورسز کی مشقوں میں ایسے سسٹم اور ساز و سامان نظر آئے جنہیں دیکھ کر دشمن حیرت زدہ ہیں۔ زبان سے اپنی حیرت کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف ہم اس تعجب کے بارے میں قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔ وہ خود کہتے ہیں کہ انہیں بہت تعجب ہے۔ یہ سب کچھ پابندیوں کے زمانے میں انجام پایا ہے۔ یہ معمولی چیز نہیں ہے، یہ بہت اہم خصوصیت اور سنہری موقع ہے۔ پابندیوں کے ان برسوں میں یعنی 2010، 2011، 2012 اور 2013 میں لگائی گئی پابندیاں ان کے خیال میں کمر شکن پابندیاں تھیں جو ہمارے ملک پر عائد کی گئیں۔ ان حالات میں ہمارے نوجوانوں نے اور ہماری ماہر افرادی قوت نے یہ کارنامے انجام دئے ہیں۔ یہ ملک کے پاس بہت بڑا سرمایہ ہے۔ اس طرح یہ پابندیاں بھی مواقع میں تبدیل ہو گئیں۔ میں بعد میں اس طرف آؤں گا کہ یہ پابندیاں کس طرح ایک لحاظ سے ملت ایران کے لئے اہم موقع ثابت ہوئیں۔ بیشک ان پابندیوں کی وجہ سے کچھ دشواریاں پیدا ہوئی ہیں، لیکن یہ پابندیاں ان میدانوں میں جن کا میں نے ذکر کیا مواقع میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ البتہ کچھ مسائل بھی ہیں، آج میں ان مسائل کے بارے میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔ اس وقت سب سے بڑا اور سب سے فوری مسئلہ ہے قومی معیشت کا۔ ہمارے عوام کی بجا توقع یہ ہے کہ نمو کے مراحل طے کرنے والی معیشت کے مالک ہوں، رفاہ عامہ کے وسائل موجود ہوں، کمزور طبقہ اس حالت سے باہر آئے جو قابل قبول نہیں ہے، مشکلات سے اسے نجات ملے۔ یہ ہمارے عوام کی توقعات ہیں اور یہ توقعات بالکل بجا ہیں۔ ملکی معیشت کو موثر انداز میں متحرک کرنے اور ایک بڑا کام انجام دینے کی ضرورت ہے جس کی بعض خصوصیات پر میں گفتگو کروں گا۔ البتہ میں کئی سال سے اقتصاد کے موضوع پر گفتگو کر رہا ہوں۔ میں نے چند سال قبل اسی تقریر میں پیشین گوئی کی تھی اور کہا تھا کہ ہمارے دشمنوں کا سارا دھیان ہماری معیشت پر مرکوز ہونے والا ہے (10)۔ حکام اس کی فکر میں رہیں، خود کو آمادہ کریں، کمر ہمت کسیں، ملکی معیشت کو نشانہ بنانے والے دشمنوں کی معاندانہ پالیسیوں اور مخاصمانہ اقدامات کا سامنا کرنے کے لئے۔ میں اقتصاد کے بارے میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔
اس وقت مساوات و پیشرت کی دہائی کا نصف سے زیادہ حصہ گزر چکا ہے۔ ہم نے ایک دہائی کو مساوات و پیشرفت کی دہائی قرار دیا۔ ہم نے 'بیس سالہ وژن' معین کیا تھا اور اس کے لئے پالیسیاں تیار کی تھیں، اس مدت کا آدھا حصہ گزر چکا ہے، دس سال بیت چکے ہیں، باقی دس سال اس وقت ہمارے سامنے ہیں۔ یہ بڑے اہم مسائل ہیں، ان حقائق کو مد نظر رکھا جائے تو اقتصادی مسائل کی حساسیت و اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
ہمارے دشمن کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ اقتصادی دباؤ کے پیچھے ان کے سیاسی اہداف کارفرما ہیں۔ ان کا ہدف یہ ہے کہ ایران کے عوام کو اسلامی نظام کے خلاف کھڑا کر دیں (11)۔ توجہ فرمائيے! بالکل امریکا مردہ باد کہنا چاہئے کیونکہ امریکا ہی اس دباؤ کا اصلی محرک اور سبب ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ ہمارے عزیز عوام کی معیشت کو حملوں کی آماجگاہ بنائیں۔ ان کا مقصد کیا ہے؟ مقصد یہ ہے کہ عوام کو نظام کے مد مقابل لائیں۔ صریحی طور پر وہ کہتے بھی ہیں کہ ہم اقتصادی دباؤ ڈال رہے ہیں تاکہ عوام کی زندگی سخت ہو جائے او لوگ حکومت کے خلاف اور اسلامی نظام کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور ہو جائيں۔ آشکارا طور پر یہ بات کہتے ہیں، البتہ اس کے ساتھ ہی جھوٹا دعوی کرتے ہیں کہ وہ ایرانی عوام کے خیر خواہ ہیں۔ اس جھوٹ پر یقین نہیں کیا جا سکتا، دشمن کی باتوں کا یوں بھی یقین نہیں کرنا چاہئے۔ بہرحال ان کا ہدف وہی سیاسی ہدف ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ امن و سلامتی جو ہمارے ملک میں اس وقت ہے اور جو مغربی ایشیا کے علاقے میں جہاں ہمارا ملک واقع ہے، بے مثال ہے، بحمد اللہ ایسا امن آج نہ ہمارے مشرق میں ہے، نہ مغرب میں ہے، نہ شمال میں ہے اور نہ جنوب میں ہے، جو امن و سلامتی ہمارے ملک کے اندر موجود ہے وہ کسی بھی ملک میں نہیں ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام کو استعمال کرکے اس امن و سلامتی کو تباہ کر دیں، عوام کو ورغلا رہے ہیں کہ سیکورٹی کا یہ ماحول درہم برہم ہو جائے، ملک بھر میں احتجاجی اقدامات شروع ہو جائیں، اشتعال دلا رہے ہیں، اس کے لئے باقاعدہ کام کر رہے ہیں، منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ بڑے شدومد سے وہ اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ خاص طرح کی صورت حال ہے، یہ ایک چیلنج ہے۔ جب اس طرح کا مسئلہ ہمیں در پیش ہے تو ملک کی تمام فورسز کو شانہ بشانہ ہوکر کھڑے ہو جانا چاہئے، مل کر کام کرنا چاہئے، ملک کے اقتصادی مسئلے پر بھرپور توجہ دینا چاہئے۔
میں اقتصاد کے مسئلے میں چند نکات بیان کروں گا۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ آج امریکا کی معاندانہ پالیسیوں کی وجہ سے اقتصادی میدان، میدان کارزار بن گیا ہے، جنگ کا میدان بن گیا ہے، خاص طرح کی جنگ کا میدان۔ اس میدان کارزار میں ہر شخص ملک کے مفادات کے مطابق جدوجہد کر سکتا ہے، خدمات انجام دے سکتا ہے۔ آج جو بھی ملکی معیشت کی مدد کر سکے اس نے گویا جہاد انجام دیا ہے۔ یہ جہاد ہے۔ البتہ ایسا جہاد ہے کہ جس کے اپنے مخصوص وسائل اور ہتھیار ہیں، اس کے خاص طریقے اور اقدامات ہیں۔ یہ جہاد سب کے سب مل کر اس کی مخصوص تدابیر کے ذریعے اور مخصوص ہتھیاروں کے ذریعے لڑیں۔ یہ ہے پہلا نکتہ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ وطن عزیز کی معیشت کے سلسلے میں دراز مدتی سطح پر دو طرح کے نظریات ہیں۔ میری گزارش ہے کہ اہل نظر حضرات، اسی طرح ہمارے عزیز عوام اور نوجوان اس نکتے پر توجہ دیں کہ ملکی معیشت کی پیشرفت اور رونق کے سلسلے دو نظریات ہیں۔ ایک نظریہ یہ کہتا ہے کہ ہمیں ملکی معیشت کی پیشرفت و نمو کو ملک کی داخلی توانائیوں اور عوام کے اندر موجود صلاحیتوں سے حاصل کرنا چاہئے۔ ملک کے اندر بہت زیادہ صلاحیتیں موجود ہیں، جن سے اب تک یا تو بالکل استفادہ نہیں کیا گيا، یا پھر ان سے صحیح طریقے سے استفادہ نہیں کیا گيا ہے۔ ہمیں ان توانائیوں اور صلاحیتوں کو استعمال کرنا چاہئے۔ یعنی اندرونی ذرائع کی مدد سے پنپنے والی معیشت ہو، ایسی معیشت جس کا سرمایہ اور جس کے مواد ملک کے اندر سے، ملکی توانائیوں سے اور خود ہمارے عوام کی صلاحیتوں سے حاصل ہوتا ہے۔ تو ایک نظریہ یہ ہے جو کہتا ہے کہ اقتصادی ترقی کے لئے ہمیں ملک کے اندر موجود توانائیوں، وسائل اور عوامی صلاحیتوں کو پہچاننا اور انہیں صحیح طور پر استعمال کرنا چاہئے۔ ایسا کرنے سے معیشت ترقی اور نمو کے مراحل طے کریگی۔ یہ رہا ایک نظریہ۔
ملکی معیشت کے بارے میں دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اقتصادی ترقی کے لئے بیرونی مدد لی جائے۔ یہ نظریہ کہتا ہے کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کریں تاکہ ہماری معیشت ٹھیک ہو۔ فلاں استکباری طاقت کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا جائے تاکہ ہماری معیشت ترقی کرے۔ مختلف شعبوں میں اور مختلف مسائل میں ہم استکباری طاقتوں کی جانب سے مسلط کردہ پالیسیوں کو تسلیم کر لیں تاکہ ہماری معیشت میں رونق پیدا ہو۔ یہ ہے دوسرا نظریہ۔ آج ملک کے جو حالات ہیں ان سے ثابت ہو چکا ہے کہ یہ دوسرا نظریہ بالکل غلط، بے سود اور بے نتیجہ ہے۔ یہی پابندیاں جو آج ملت ایران پر لگائی گئی ہیں، اس دوسرے نظرئے کے بطلان کی محکم دلیل ہیں۔ یعنی جب آپ اس آس میں بیٹھے رہیں گے کہ بیرونی طاقتیں آکر آپ کی معیشت کو فروغ دیں اور آپ ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں تاکہ آپ کی معیشت ترقی کرے تو یہ طاقتیں کسی خاص سطح پر پہنچ کر مطمئن ہونے والی نہیں ہیں۔ جب آپ باہری دنیا سے آس لگائیں گے تو آپ کو تیل کی قیمتوں میں گراوٹ جیسی صورت حال کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ اچانک استکباری طاقتیں اپنے علاقائی مہروں کے ساتھ یہ فیصلہ کریں گی کہ تیل کی قیمت کو نصف یا اس سے بھی کم کر دینا ہے۔ آپ کو اس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑےگا۔ اگر آپ بیرونی طاقتوں سے آس لگائیں تو یہی ہوگا۔ لیکن اگر آپ کی توجہ داخلی توانائیوں پر ہے تو پھر ایسا نہیں ہوگا۔ آج بیرونی طاقتیں اور سامراجی حکومتوں کے سربراہان، اسی دوسرے نظرئے کو ہمارے عوام کے اندر پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
میں نے امریکا کے صدر کے پیغام کو دیکھا ہے جو انہوں نے عید نوروز کی مناسبت سے ملت ایران کو دیا ہے۔ وہ اس پیغام میں فرماتے ہیں کہ آپ ہماری بات مان لیجئے۔ ان کی بات کا ماحصل یہ ہے کہ ایٹمی مذاکرات میں جو کچھ ہم آپ سے کہیں آپ اسے قبول کر لیجئے! تاکہ آپ کے ملک میں کام کے مواقع پیدا ہوں، تاکہ سرمایہ کاری ہو، تاکہ آپ کے ملک میں اقتصادی سرگرمیاں تیز ہوں۔ یعنی یہی دوسرا نظریہ۔ یہ نظریہ ایسا ہے جو کبھی بھی نتیجہ بخش نہیں ہو سکتا۔ ہمیں ملک کی اندرونی صلاحیتوں اور توانائیوں پر توجہ دینی ہوگی۔ داخلی توانائیاں بے پناہ ہیں۔ مزاحمتی معیشت کا مسئلہ جو ہم نے اٹھایا ہے اور جس پر بحث کی ہے اسی پہلو پر مرکوز ہے۔ خوش قسمتی سے اسے پذیرائی ملی۔ تمام اہل نظر افراد نے اس کی حمایت کی۔ میں نے سماجی اور اقتصادی امور کے ماہرین میں کسی ایک شخص کو بھی نہیں دیکھا جس نے مزاحمتی معیشت کے تعلق سے جو پالیسیاں طے کی گئی ہیں انہیں مسترد کیا ہو۔ مزاحمتی معیشت کا موضوع ملک کے داخلی وسائل پر مرکوز ہے۔ جب آپ کو اپنی زمینوں کے لئے باہر سے پانی لانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے تو آپ کو چاہئے کہ حود کنواں کھودیں اور زمین کے اندر سے پانی نکالیں تاکہ اس بخیل ہمسائے کے پانی کی آپ کو محتاجی نہ رہے۔ آپ اپنی اندرونی توانائیوں کو بروئے کار لائیے اور کاموں کو انجام دیجئے۔ یہ رہا دوسرا نکتہ۔
تیسرا نکتہ؛ وہ معیشت ہو یا کوئی اور شعبہ ہو کہیں بھی ہدف کا تعین کئے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ منزل کا تعین ضروری ہے۔ اگر کسی بھی مسئلے میں اہداف اور منزل کا تعین کئے بغیر حکومتی عہدیداران آگے بڑھتے ہیں تو روز مرہ کی یکسانیت کی کیفیت میں مبتلا ہوکر رہ جائیں گے اور کسی منزل تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ واضح اور طے شدہ ہدف ضروری ہے جس کی جانب پیش قدمی کے لئے تمام وسائل اور متعلقہ اداروں کو منظم کیا جائے۔ میری نظر میں اس سال اور آئندہ برسوں میں جو چیز معیشت و اقتصاد کا بنیادی ہدف ہونا چاہئے وہ قومی پیداوار پر سرمایہ کاری ہے۔ ہر شعبے کی طرف سے بھرپور کوشش ہونی چاہئے قومی پیداوار کو فروغ دینے کے لئے۔ اقتصادی شعبے میں کام کرنے والے تمام افراد اسی طرح عوام الناس سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ قومی پیداوار کو تقویت پہنچانے کے لئے مدد کریں۔
مدد کے کچھ راستے موجود ہیں جن میں بعض کی جانب میں اشارہ کروں گا۔ ایک انتہائی ضروری کام یہ ہے کہ چھوٹی اور اوسط درجے کی پیداواری یونٹوں کی پشت پناہی کی جائے۔ ایک اور اہم کام یہ ہے کہ نالج بیسڈ یونٹوں کی سرگرمیوں کو وسعت دی جائے۔ ہم سائنس و ٹکنالوجی پر جو اتنی توجہ دیتے ہیں تو اس کا صرف یہ مقصد نہیں ہے کہ ہمارا علمی معیار بلند ہو بلکہ سائنس و ٹکنالوجی کے میدان کی ترقی سے اقتصادی نمو کو بھی مدد ملنی چاہئے۔ نالج بیسڈ یونٹیں قومی معیشت کے ارتقاء میں کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ایک اور اہم کام ہے 'خام مال' کی فروخت کے سلسلے کو محدود کرنا۔ میں نے حال ہی میں تیل پر ملکی معیشت کے انحصار کے تعلق سے جو تنقید کی اور اپنی تقریر میں اس موضوع کو اٹھایا تو اس کی وجہ یہی ہے۔ ہمیں یہ کوشش کرنا چاہئے کہ 'خام مال' کی فروخت کا سلسلہ رفتہ رفتہ کم ہو اور پھر بالکل ختم ہو جائے۔ ایڈڈ ویلیو کی کوشش کرنا چاہئے۔ بینک بھی اس میں کردار ادا کر سکتے ہیں، مددگار کا رول بھی اور تخریب کار کا کردار بھی۔ اس پر ملک کے بینکنگ شعبے کے اعلی حکام کی توجہ رہنی چاہئے۔ ملک بھر میں بعض بینک ہیں جو خاص روشوں سے چھوٹی اور اوسط درجے کی اقتصادی یونٹوں کو بند کروا رہے ہیں، نابود کر رہے ہیں۔ تو بینک مددگار بھی واقع ہو سکتے ہیں اور تخریب کار بھی بن سکتے ہیں۔ ایک اور بنیادی کام سرمایہ کاری کے عمل کو آسان بنانا ہے، ایک اور بنیادی کام استعمال کی اشیاء کی درآمدات کو گھٹانا ہے، ایک اور بنیادی کام اسمگلنگ کی روک تھام ہے۔ حکومتی عہدیداران متعدد تدابیر اختیار کر سکتے ہیں، جن میں بعض یہی ہیں جن کا میں نے ذکر کیا۔ البتہ یہ سارے ہی کام بڑے دشوار ہیں۔ ان کو زبان سے بیان کر دینا تو آسان ہے، ان پر عمل کرنا بہت مشکل ہے۔ لیکن پھر بھی حکام کو چاہئے کہ یہ مشکل کام ضرور انجام دیں، کیونکہ یہ بڑا حیاتی معاملہ ہے۔ عوام بھی اس میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جو لوگ سرمایہ کاری کر سکتے ہیں، پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری کریں۔ چیزوں کی پیداوار پر سرمایہ لگائیں۔ جو لوگ صارف ہیں، ظاہر ہے سبھی صارف ہیں، وہ داخلی مصنوعات کا استعمال کریں۔ میں نے اس قضیئے پر بارہا تاکید کی ہے اور آج ایک بار پھر عرض کر رہا ہوں کہ سب ایرانی اشیاء اور مصنوعات کا استعمال کریں۔ ایرانی محنت کشوں کی حمایت کریں۔ ایرانی مصنوعات کا استعمال کرکے ملکی پیداواری یونٹوں کی رونق بڑھائیں۔ فضول خرچی سے پرہیز، جو لوگ فضول خرچی کرتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ یہ اسراف، فضول خرچی اور چیزوں کی تضییع جس کی اسلام میں بڑی مذمت کی گئی ہے، قومی اقتصاد کی سطح پر بہت فیصلہ کن ہے۔ اگر اسراف، فضول خرچی اور ذاتی چیزوں کی تضییع خواہ وہ پانی کی تضییع ہو، روٹی کی تضییع ہو یا مہمانی کے موقع پر، عقد نکاح کی تقریب میں، شادیوں میں اور دیگر مواقع پر دوسری چیزوں کی تضییع ہو، اس سے اجتناب کیا جائے تو قومی معیشت کو اس سے مدد ملے گی۔ جو لوگ بیرون ملک سے تجارت کرتے ہیں، دوسرے ملکوں سے لین دین رکھتے ہیں، وہ بھی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان کا کردار یہ ہے کہ بہترین انداز میں کام کریں تاکہ ملت ایران کا وقار بڑھے۔ یہ تیسرا نکتہ ہے۔
اقتصادی مسئلے سے متعلق چوتھا نکتہ یہ ہے کہ دشمن کے پاس واحد حربہ پابندیوں کا ہے۔ یہ سبھی جان لیں۔ ملت ایران کا مقابلہ کرنے کے لئے دشمن کے پاس واحد حربہ پابندیاں ہیں۔ اگر ہم صحیح انداز میں کام کریں تو پابندیاں بے اثر ہو سکتی ہیں۔ جیسا کہ میں نے اشارہ کیا، یہی پیداواری اور صنعتی مراکز جن کا اس وقت حکومتی ادارے افتتاح کر رہے ہیں، منجملہ جنوبی پارس گیس فیلڈ کا یہی بارہواں فیز جس کا میں نے پہلے بھی ذکر کیا، یہی دفاعی پیشرفت، یہ سائنس و ٹکنالوجی کے پارک وغیرہ، یہ ایسے اہم کام ہیں جو ان پابندیوں کو ختم کر سکتے ہیں، پابندیوں کے اثرات کو پہلے تو کم کریں گے اور پھر رفتہ رفتہ ختم کر دیں گے۔ پابندیاں ان کا سب سے مشکل حربہ تھا لیکن ہمیں اس کی کچھ برکتیں بھی حاصل ہوئیں۔ پابندیوں نے ہمیں بتایا کہ ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہئے۔ ہمارے اوپر یہ حقیقت ثابت ہوئی کہ ہم داخلی توانائیوں سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ اگر حکومتی عہدیداران، اگر عوام اور خاص طور پر اقتصادی شعبے میں سرگرم افراد کمر ہمت کس لیں اور محنت کریں، اسی طرح ذرائع ابلاغ بھی مدد کریں، جس کے بارے میں ابھی میں گفتگو کروں گا، تو ان شاء اللہ ہم دیکھیں گے کہ پابندیاں ملت ایران کی پیشرفت کے عمل کو روکنے میں ناکام ہو گئی ہیں۔
ایٹمی مسائل کے تعلق سے ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ویسے دوسرے بھی متعدد نکات ہیں لیکن اس موضوع پر اپنی بحث کو مزید طول نہیں دینا چاہتا۔ ایٹمی مسائل کے بارے میں چند جملے ہیں؛ ایٹمی مسئلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے دشمن جو ملت ایران کے مد مقابل کھڑے ہیں اور ان میں سب سے اہم امریکا ہے، یہ لوگ خاص تدابیر اور پالیسیوں کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس کا ہمیں پوری طرح اندازہ ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ انہیں ان مذاکرات کی ضرورت ہے۔ امریکا کو ایٹمی مذاکرات کی بہت ضرورت ہے۔ آپ امریکیوں کے درمیان جو اختلاف دیکھ رہے ہیں کہ امریکا کے سینیٹر کسی انداز سے، امریکی حکومت کسی اور انداز سے (بات کرتے ہیں) تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انہیں ان مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے۔ نہیں، حکومت کے مد مقابل فریق چاہتا ہے کہ مذاکرات کا امتیاز اور سہرا اس کی حریف جماعت یعنی ڈیموکریٹک پارٹی کے سر نہ بندھنے پائے، وہ اس کوشش میں ہے۔ انہیں ان مذاکرات کی احتیاج ہے اور وہ اپنے فائدے کے لئے مذاکرات چاہتے ہیں، البتہ ظاہری طور پر اظہار بے نیازی کرتے ہیں۔
امریکی صدر کے اسی پیغام نوروز میں بھی افسوس ناک چیز ہے کہ صداقت سے عاری باتیں تھیں۔ حالانکہ ملت ایران کے سلسلے میں بظاہر اظہار دوستی بھی کرتے ہیں۔ لیکن انسان واضح طور پر دیکھ رہا ہے کہ یہ بیان صادقانہ نہیں ہے۔ ایک بات تو یہی تھی کہ ایران کے اندر کچھ ایسے لوگ ہیں جو ایٹمی مسئلے کے سفارتی حل سے اتفاق نہیں رکھتے۔ یہ وہ کہتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ایران میں ایسے افراد ہیں جو نہیں چاہتے کہ ایٹمی مسئلہ سفارتی مذاکرات کے ذریعے حل ہو۔ یہ جھوٹ ہے! ایران میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو یہ نہ چاہتا ہو کہ ایٹمی مسئلہ حل ہو اور مذاکرات کے ذریعے حل ہو۔ ایرانی عوام بس یہ نہیں چاہتے کہ امریکا کی دھونس اور دھمکی کے سامنے اور زور زبردستی کے سامنے گھٹنے ٹیکے جائیں۔ ایرانی عوام یہ نہیں چاہتے۔ ایرانی قوم جس چیز کا مقابلہ کر رہی ہے وہ مد مقابل فریق کی زیادتی اور زبردستی ہے۔ مد مقابل فریق کہتا ہے کہ آئیے مذاکرات کرتے ہیں اور آپ ہماری بات من و عن تسلیم کر لیجئے! ان کا یہ کہنا ہے۔ ہماری قوم اس موقف کے خلاف ڈٹی ہوئی ہے اور یقینا نہ ہمارے حکام، نہ مذاکراتی ٹیم اور نہ ان کی پشت پر موجود ایرانی قوم کوئی بھی اسے قبول نہیں کرے گا۔
ایٹمی مسائل میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ آج مذاکرات ہو رہے ہیں اور امریکا اور یورپ کی کچھ حکومتوں سے مذاکرات ہو رہے ہیں، امریکا سے مذاکرات صرف اور صرف ایٹمی معاملے میں ہو رہے ہیں، کسی اور مسئلے میں نہیں۔ یہ بات سارے لوگ جان لیں۔ ہم علاقائی مسائل کے بارے میں امریکا سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ علاقائی مسائل کے بارے میں امریکا کے اہداف ہمارے اہداف سے مکمل تضاد رکھتے ہیں۔ ہم علاقے میں امن و سلامتی چاہتے ہیں۔ قوموں اور عوام کا غلبہ چاہتے ہیں۔ امریکا کی پالیسی علاقے میں بدامنی کو ہوا دینا ہے۔ آپ مصر کو دیکھئے! لیبیا پر نظر ڈالئے! شام کا جائزہ لیجئے! استکباری نظام اور اس میں سب سے آگے امریکا، قوموں کے ذریعے وجود میں آنے والی اسلامی بیداری کی لہر کے حلاف حملہ آور ہوا اور یہ حملہ اب بھی جاری ہے۔ وہ علاقے میں قوموں کو تباہ کر رہے ہیں۔ یہ ہے ان کا مقصد۔ یہ ہمارے مقاصد کے عین مخالف چیز ہے۔ ہم نہ تو علاقائی مسائل میں، نہ داخلی امور میں، نہ اسلحے کے تعلق سے، کسی بھی مسئلے میں امریکا سے کوئی گفتگو نہیں کریں گے۔ مذاکرات صرف ایٹمی مسئلے کے لئے اور یہ دیکھنے کی خاطر ہیں کہ ایٹمی مسئلے میں سفارتی روش سے ہم کس طرح نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں۔
تیسرا نکتہ؛ یہ جو امریکی بار بار کہتے ہیں کہ ہم ایران سے معاہدہ کریں گے، اس کے بعد دیکھیں گے، اگر ایران نے معاہدے پر عمل کیا تب پابندیاں ہٹائیں گے۔ یہ غلط اور ناقابل قبول بات ہے۔ ہم اسے تسلیم نہیں کریں گے۔ پابندیوں کی منسوخی مذاکرات کے موضوع میں شامل ہے، مذاکرات کے بعد کا نتیجہ نہیں۔ جو متعلقہ افراد ہیں وہ ان دونوں باتوں کے فرق کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ یہ امریکی دھوکا ہے جو وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم معاہدہ کر لیں گے، پھر طرز عمل دیکھیں گے، تب پابندیاں ہٹائیں گے! ایسا نہیں ہوگا۔ جیسا کہ ہمارے حکام نے صراحت کے ساتھ کہہ دیا ہے اور صدر محترم نے بھی صریحی طور پر اعلان کر دیا ہے کہ معاہدہ ہوتے ہی بغیر کسی تاخیر کے فورا پابندیاں ختم ہوں۔ یعنی پابندیوں کی منسوخی معاہدے کا جز ہے، ایسی چیز نہیں ہے جو معاہدہ ہو جانے کے بعد انجام دی جائے۔
ایک نکتہ اور بھی ہے؛ امریکی بار بار کہتے ہیں کہ ایران جو فیصلے کرے اور جن باتوں کو قبول کرے، اس کی کیفیت ایسی ہو کہ واپسی کا کوئی راستہ نہ رہے۔ یہ بات بھی ہمیں قبول نہیں ہے۔ اگر مد مقابل فریق کے لئے یہ گنجائش ہے کہ کسی بھی بہانے سے ملت ایران پر دوبارہ پابندیاں لگا سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہماری مذاکراتی ٹیم ایسی شرط مانیں اور ایسا کوئی اقدام کرے کہ جس میں واپسی کا کوئی راستہ باقی نہ رہے۔ یہ ہرگز نہیں ہوگا۔ یہ ایک عوامی صنعت ہے، ایک مقامی صنعت ہے، عوام کی ملکیت ہے۔ یہ سائنس اور یہ ٹکنالوجی عوام کی ہے۔ اس میں ترقی ہونی چاہئے۔ پیشرفت ہر صنعت و ٹکنالوجی کی لازمی صفت ہے۔ وہ ایٹم بم کا معاملہ اٹھاتے ہیں تو انہیں خود بھی معلوم ہے کہ ہم ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے اس مسئلے کو ملت ایران پر دباؤ ڈالنے کا بہانہ بنا لیا ہے۔ ان مذاکرات میں ہم اپنے تمام عالمی وعدوں اور فرائض پر کاربند رہے۔ ہم مذاکرات میں سیاسی و اسلامی اخلاقیات کی رو سے اپنی ذمہ داریوں کے پابند رہے۔ ہم نے عہد شکنی نہیں کی۔ ہم نے دوہری باتیں نہیں کیں۔ ہم نے بار بار رنگ نہیں بدلا۔ ہمارے سامنے اور ہمارے مد مقابل امریکی ہیں۔ انہوں نے عہد شکنی کی، بار بار رنگ بدلا۔ فریب دہی کی کوشش کی۔ ان کا رویہ ایسا ہے جو ہماری قوم کے لئے مایہ عبرت ہے۔ ملک کے اندر جو لوگ روشن خیال برادری میں شامل ہیں اور اب تک متوجہ نہیں تھے کہ ان کا مد مقابل حریف امریکا کون ہے؟ بہتر ہے کہ وہ ان مذاکرات کو دیکھیں اور سمجھیں کہ کس سے واسطہ ہے اور امریکا آج دنیا میں کیا کر رہا ہے؟! وہ جو دھمکیاں دیتے ہیں بے سود ہیں۔ یہ جو دھمکیاں دیتے ہیں پابندیاں اور بھی بڑھانے کی، اپنے بیانوں میں فوجی کارروائی کی جو دھمکیاں دیتے ہیں، یہ دھمکیاں ملت ایران کو ہراساں نہیں کر سکتیں۔ ملت ایران ثابت قدمی کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے اور ان شاء اللہ اس بڑے امتحان سے پوری کامیابی کے ساتھ سرخرو ہوکر باہر نکلے گي۔ بیشک اس راہ میں توفیقات الہیہ ہمارے عوام کو کامیابی عطا کر سکتی ہیں۔
کچھ اور بھی اہم مسائل ہیں لیکن دامن وقت میں ان پر بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ بیشک ہماری قوم اور حکومت ایران کے دوش پر بہت بڑے کاموں کی ذمہ داری ہے۔ اسلامی اتحاد کا مسئلہ ہے، مستضعف اقوام کی مدد کا معاملہ ہے، علاقے میں اسلام کے روحانی و معنوی اثر و نفوذ کا مسئلہ ہے، جس کا پرچم ملت ایران نے بلند کر رکھا ہے۔ یہ بہت بڑے کام ہیں اور اگر اللہ تعالی نے اپنی توفیقات ملت ایران کے شامل حال رکھیں اور یقینا خداوند عالم یہ توفیقات عنایت کرے گا، تو ان شاء اللہ آپ کی دعاؤں کی برکت سے، آپ لوگوں اور خاص طور پر نوجوانوں کی سعی و ہمت کی برکت سے یہ بڑے کام ہم سرانجام دیں گے۔

و السّلام‌ علیکم‌ و رحمة الله‌ و برکاته

۱) سوره‌ حج، آیت نمبر ۳۹ کا ایک حصہ؛ «...اور یقینا اللہ ان کو فتحیاب کرنے پر پوری طرح قادر ہے.»
۲) سوره‌ حج، آیت نمبر ۴۱؛ « وہی لوگ جنہیں ہم روئے زمین پر اختیار و استطاعت عطا کریں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکات ادا کریں گے، نیک کاموں کی ہدایت حکم دیں گے، اور برے کاموں سے روکیں گے۔ تمام امور کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔»
۳) من لا یحضره الفقیه، جلد ۱ ، صفحہ ۲۱۰؛ « نماز ہر پرہیزگار کا ذریعہ تقرب ہے۔»
۴) سوره‌ توبه، آیت نمبر 103 کا ایک حصہ ؛ « اور ان کے اموال میں سے صدقہ (زکات) لو...»
۵) کافی، جلد ۵ ، صفحہ ۵۶؛ «اس کے ذریعے سے تمام واجبات اور فرائض ادا ہوتے ہیں.»
۶) سوره‌ نحل، آیت نمبر 90 کا ایک حصہ ؛ «در حقیقت اللہ تعالی انصاف، نیکوکاری اور اقرباء کو (ضرورت کی چیزیں) عطا کرنے کا حکم دیتا ہے اور برے اور ناپسندیدہ کاموں سے روکتا ہے...»
۷) سوره‌ اعراف، آیت نمبر 157 کا ایک حصہ ؛ «... [وہی پیغمبر کہ جو] انہیں اچھے کاموں کا حکم دیتا ہے اور برے کاموں سے روکتا ہے...»
۸) کافی، جلد ۴ ، صفحہ ۵۷۰؛ « گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز قائم کی، زکات ادا کی، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کیا۔»
۹) سوره‌ توبه، آیت نمبر 71 کا ایک حصہ ؛ « صاحب ایمان مرد اور عورتیں، آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں جو نیک و پسندیدہ کاموں کی ترغیب دلاتے ہیں اور برے کاموں سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور زکات ادا کرتے ہیں...»
۱۰) مشہد مقدس میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے حرم اقدس میں زائرین اور خدام کے اجتماع سے خطاب بتاریخ 21 مارچ 2007
۱۱) حاضرین کی طرف سے 'امریکا مردہ باد' کے نعرے